HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

38952

(۳۸۹۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ جَاوَانَ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ وَنَحْنُ نُرِیدُ الْحَجَّ ، فَإِنَّا لبِمَنَازِلِنَا نَضَعُ رِحَالَنَا إذْ أَتَانَا آتٍ ، فَقَالَ : إِنَّ النَّاسَ قَدْ فَزِعُوا وَاجْتَمَعُوا فِی الْمَسْجِد ، فَانْطَلَقْت فَإِذَا النَّاسُ مُجْتَمِعُونَ فِی الْمَسْجِد ، فَإِذَا عَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ وَطَلْحَۃُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، قَالَ : فَإِنَّا لَکَذَلِکَ إِذْ جَائَنَا عُثْمَان ، فَقِیلَ : ہَذَا عُثْمَان ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ مُلِیَّۃٌ لَہُ صَفْرَائُ ، قَدْ قَنَّعَ بِہَا رَأْسَہُ ، قَالَ : ہَاہُنَا عَلِیٌّ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : ہَاہُنَا الزُّبَیْرُ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : ہَاہُنَا طَلْحَۃُ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ ہَاہُنَا سَعْدٌ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ہَلْ تَعْلَمُونَ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ یَبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِی فُلاَنٍ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، فَابْتَعْتُہُ بِعِشْرِینَ أَلْفًا ، أَوْ بِخَمْسَۃٍ وَعِشْرِینَ أَلْفًا ، فَأَتَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ لَہُ : ابْتَعْتہ ، قَالَ : اجْعَلْہُ فِی مَسْجِدِنَا وَلَک أَجْرُہُ ؟ فَقَالُوا: اللَّہُمَّ نَعَمْ ۔ ۲۔ قَالَ : فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنِ ابْتَاعَ رُومَۃَ ، غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، فَابْتَعْتُہَا بِکَذَا وَکَذَا ، ثُمَّ أَتَیْتہ ، فَقُلْتُ : قَدِ ابْتَعْتہَا ، قَالَ : اجْعَلْہَا سِقَایَۃً لِلْمُسْلِمِینَ وَأَجْرُہَا لَکَ ، قَالُوا : اللَّہُمَّ نَعَمْ ۔ ۳۔ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إِلاَّ ہُوَ ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَظَرَ فِی وُجُوہِ الْقَوْمِ، فَقَالَ : مَنْ جَہَّزَ ہَؤُلاَئِ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ ، یَعْنِی جَیْشَ الْعُسْرَۃِ ، فَجَہَّزْتُہُمْ حَتَّی لَمْ یَفْقِدُوا خِطَامًا وَلاَ عقَالاً ، قَالَ : قَالُوا : اللَّہُمَّ نَعَمْ ، قَالَ : اللَّہُمَّ اشْہَدْ ثَلاَثًا۔ ۴۔ قَالَ الأَحْنَفُ : فَانْطَلَقْت فَأَتَیْت طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ ، فَقُلْتُ : مَن تَأْمُرَانِی بِہِ وَمَنْ تَرْضَیَانِہِ لِی ، فَإِنِّی لاَ أَرَی ہَذَا إِلاَّ مَقْتُولاً ، قَالاَ : نَأْمُرُک بِعَلِیٍّ ، قَالَ : قُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ، قَالاَ : نَعَمْ ۔ ۵۔ قَالَ : ثُمَّ انْطَلَقْت حَاجًّا حَتَّی قَدِمْت مَکَّۃَ فَبَیْنَا نَحْنُ بِہَا إذْ أَتَانَا قَتْلُ عُثْمَانَ وَبِہَا عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَلَقِیتُہَا ، فَقُلْتُ لَہَا: مَنْ تَأْمُرِینِی بِہِ أَنْ أُبَایِعَ ، فَقَالَتْ : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ أَتَأْمُرِینَنِی بِہِ وَتَرْضَیْنَہُ لِی ، قَالَتْ: نَعَمْ۔ ۶۔ فَمَرَرْت عَلَی عَلِیٍّ بِالْمَدِینَۃِ فَبَایَعْتہ ، ثُمَّ رَجَعْت إِلَی أَہْلِ الْبَصْرَۃِ ، وَلاَ أَرَی إَلاَّ أَنَّ الأَمْرَ قَد اسْتَقَامَ ، قَالَ : فَبَیْنَا أَنَا کَذَلِکَ إذْ أَتَانِی آتٍ ، فَقَالَ : ہَذِہِ عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ قَدْ نَزَلُوا جَانِبَ الْخُرَیْبَۃِ ، قَالَ: قُلْتُ: مَا جَائَ بِہِمْ ؟ قَالَ : أُرْسِلُوا إلَیْک یَسْتَنْصِرُونک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ ، قُتِلَ مَظْلُومًا قَالَ : فَأَتَانِی أَفْظَعُ أَمْرٍ أَتَانِی قَطُّ ، فَقُلْتُ : إِنَّ خُذْلاَنِی ہَؤُلاَئِ وَمَعَہُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَشَدِیدٌ ، وَإِنَّ قِتَالِی ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ أَمَرُونِی بِبَیْعَتِہِ لَشَدِیدٌ ، فَلَمَّا أَتَیْتُہُمْ ، قَالُوا: جِئْنَا نَسْتَنْصِرُک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ، قُتِلَ مَظْلُومًا، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، أَنْشُدُک بِاللہِ، ہَلْ قُلْتُ لَکَ : مَنْ تَأْمُرِینِی بِہِ ، فَقُلْتُ : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضَیْنَہُ لِی قلت نعم ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ ۔ ۷۔ قُلْتُ : یَا زُبَیْرُ ، یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا طَلْحَۃُ ، نَشَدْتُکُمَا بِاللہِ أَقَلْت لَکُمَا : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ فَقُلْتُمَا : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی فَقُلْتُمَا : نَعَمْ ، قَالاَ : بَلَی ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ ۔ ۸۔ قَالَ : فَقُلْتُ : لاَ وَاللہِ لاَ أُقَاتِلُکُمْ وَمَعَکُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ أُقَاتِلُ ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرْتُمُونِی بِبَیْعَتِہِ ، اخْتَارُوا مِنِّی بَیْنَ إحْدَی ثَلاَثِ خِصَالٍ : إمَّا أَنْ تَفْتَحُوا لِی بَابَ الْجِسْرِ فَأَلْحَقَ بِأَرْضِ الأَعَاجِمِ ، حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَلْحَقَ بِمَکَّۃَ فَأَکُونَ بِہَا حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی، أَوْ أَعْتَزِلَ فَأَکُونَ قَرِیبًا، قَالُوا: نَأْتَمِرُ، ثُمَّ نُرْسِلُ إلَیْک، فَائْتَمَرُوا فَقَالُوا : نَفْتَحُ لَہُ بَابَ الْجِسْرِ فَیَلْحَقُ بِہِ المفارق وَالْخَاذِلُ ، أو یَلْحَقُ بِمَکَّۃَ فَیَتَعَجَّسُکُمْ فِی قُرَیْشٍ وَیُخْبِرُہُمْ بِأَخْبَارِکُمْ ، لَیْسَ ذَلِکَ بِأَمْرٍ اجْعَلُوہُ ہَاہُنَا قَرِیبًا حَیْثُ تَطَؤُونَ عَلَی صِمَاخِہِ ، وَتَنْظُرُونَ إلَیْہِ ۔ ۹۔ فَاعْتَزَلَ بِالْجَلْحَائِ مِنَ الْبَصْرَۃِ عَلَی فَرْسَخَیْنِ ، وَاعْتَزَلَ مَعَہُ زُہَائُ سِتَّۃِ آلاَفٍ۔ ۱۰۔ ثُمَّ الْتَقَی الْقَوْمُ ، فَکَانَ أَوَّلَ قَتِیلٍ طَلْحَۃُ وکعب ابْنُ سُورٍ وَمَعَہُ الْمُصْحَفُ ، یُذَکِّرُ ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ حَتَّی قُتِلَ بینہم ، وَبَلَغَ الزُّبَیْرُ سَفَوَانَ مِنَ الْبَصْرَۃِ کَمَکَانِ الْقَادِسِیَّۃِ مِنْکُمْ ، فَلَقِیَہُ النَّعِرُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی مُجَاشِعٍ ، قَالَ : أَیْنَ تَذْہَبُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ إلَیَّ فَأَنْتَ فِی ذِمَّتِی ، لاَ یُوصَلُ إلَیْک ، فَأَقْبَلَ مَعَہُ، قَالَ : فَأَتَی إنْسَانٌ الأَحْنَفَ ، قَالَ : ہَذَا الزُّبَیْرُ قَدْ لُقِیَ بِسَفَوَانَ ، قَالَ : فَمَا یَأْمَنُ جَمَعَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی ضَرَبَ بَعْضُہُمْ حَوَاجِبَ بَعْضٍ بِالسُّیُوفِ ، ثُمَّ لَحِقَ بِبَیْتِہِ وَأَہْلِہِ ، فَسَمِعَہُ عُمَیْرۃ بْنُ جُرْمُوزٍ وَغُوَاۃٌ مِنْ غُوَاۃِ بَنِی تَمِیمٍ ، وَفَضَالَۃُ بْنُ حَابِسٍ ، وَنُفَیْعٌ ، فَرَکِبُوا فِی طَلَبِہِ ، فَلَقُوا مَعَہُ النَّعِرَ ، فَأَتَاہُ عُمَیْر بْنُ جُرْمُوزٍ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ ضَعِیفَۃٍ ، فَطَعَنَہُ طَعَنَۃً خَفِیفَۃً ، وَحَمَلَ عَلَیْہِ الزُّبَیْرُ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ یُقَالُ ذُو الْخِمَارِ حَتَّی إِذَا ظَنَّ ، أَنَّہُ قَاتِلُہُ نَادَی صَاحِبَیْہِ : یَا نُفَیْعُ یَا فَضَالَۃُ ، فَحَمَلُوا عَلَیْہِ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
(٣٨٩٥٣) حضرت احنف بن قیس سے منقول ہے کہ ہم مدینے پہنچے ہمارا حج کرنے کا ارادہ تھا۔ اپنی منزل پر پہنچ کر ہم نے اپنے کجاوے رکھے کہ اچانک آنے والے نے کہا کہ لوگ مسجد میں پریشان حال جمع ہیں۔ پس میں مسجد پہنچا اور لوگوں کو وہاں جمع دیکھا۔ حضرت علی، زبیر، طلحہ اور سعد بن وقاص بھی وہاں موجود تھے۔ میں بھی اس طرح کھڑا ہوگیا کہ حضرت عثمان بھی تشریف لائے۔ کسی نے کہا یہ عثمان ہیں ان کے سر پر زرد رنگ کا کپڑا تھا جس سے انھوں نے سر ڈھانپا ہوا تھا فرمانے لگے یہ حضرت علی ہیں ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ پھر فرمایا یہ حضرت زبیر ہیں ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ پھر فرمایا یہ طلحہ ہیں لوگوں نے جواب دیا جی ہاں۔ پھر فرمایا یہ سعد ہیں لوگوں نے کہا جی ہاں۔ پھر فرمانے لگے میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ کیا تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا جو فلاں قبےلل کے باڑے کو خرید لے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائیں گے۔ پس میں نے اسے بیس یا پچیس ہزار درہم کے عوض خریدا اور حاضر خدمت ہو کر میں نے عرض کیا تھا کہ میں نے خرید لیا ہے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اس کو مسجد بنادو اور تمہارے لیے اجر ہے ؟ تو لوگوں نے کہا بالکل اسی طرح ہے۔ پھر حضرت عثمان نے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو ؟ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا جو بئر رومہ (کنواں) خرید لے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائیں گے۔ پھر میں نے اسے خریدا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ میں نے کنواں خرید لیا ہے۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اسے مسلمانوں کے لیے وقف کردو اس کا اجر اللہ تم کو دے گا۔ لوگوں نے کہا جی بالکل ایسے ہے۔ پھر حضرت عثمان نے لوگوں سے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ جانتے ہو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کچھ کے چہروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہ جو ان لوگوں کو سامان جنگ مہیاکرے گا (غزوہ تبوک میں) اللہ تعالیٰ اس کے مغفرت فرمائیں گے۔ پس میں نے ان لوگوں کو سامان جنگ دیا حتیٰ کہ لگام اور اونٹ باندھنے کی رسی تک میں نے مہیا کی ؟ لوگوں نے کہا جی بالکل ایسے ہے۔ حضرت عثمان نے تین دفعہ فرمایا اے اللہ تو گواہ رہنا۔ احنف کہتے ہیں کہ میں چلا اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ اب آپ مجھے کس چیز کا حکم دیتے ہیں ؟ اور میرے لیے (بیعت کے لیے) کس کو پسند کرتے ہو ؟ کیونکہ ان کو (حضرت عثمان ) شہید ہوتے دیکھ رہاہوں۔ دونوں نے جواب دیا ہم آپ کو حضرت علی سے بیعت کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ میں نے پھر عرض کیا آپ حضرت علی کے بارے میں حکم دے رہے ہیں اور آپ میرے لیے ان پر راضی ہیں دونوں نے جواب دیا ہاں۔
پھر میں حج کے لیے مکہ روانہ ہوا کہ اس دوران حضرت عثمان کی شہادت کی خبر پہنچی۔ مکہ میں حضرت عائشہ بھی قیام فرما تھیں۔ میں ان سے ملا اور ان سے عرض کیا کہ اب میں کن سے بیعت کروں انھوں نے بھی حضرت علی کا نام لیا۔ میں نے عرض کیا آپ مجھے علی سے بیعت کا حکم دے رہی ہیں اور آپ اس پر راضی ہیں انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے واپسی پر حضرت علی سے بیعت کی مدینہ میں۔ پھر میں بصرہ لوٹ آیا۔ پھر میں نے معاملے کو مضبوط ہوتے ہوئے ہی دیکھا۔ اسی اثناء میں ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا حضرت عائشہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر خریبہ مقام پر قیام فرماں ہیں۔ میں نے پوچھا وہ کیوں آئے ہیں ؟ تو اس نے جواب دیا وہ آپ سے مدد چاہتے ہیں حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے میں جو مظلوم شہید ہوئے ہیں۔ احنف نے فرمایا مجھ پر اس سے زیادہ پریشان کرنے والا معاملہ کبھی نہیں آیا۔ میرا ان سے (طلحہ زبیر ) جدا ہونا بڑا دشوار کن مرحلہ ہے جبکہ ان کے ساتھ ام المومنین اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ بھی ہیں۔ اور دوسری طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد سے قتال کرنا بھی چھوٹی بات نہیں جب کہ ان کی بیعت کا حکم وہ (طلحہ ، زبیر ، ام المومنین ) خود دے چکے ہیں۔ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ کہنے لگے کہ ہم حضرت عثمان کے خون کا بدلہ کے سلسلہ میں مدد لینے کے لیے آئے ہیں جو مظلوم قتل ہوئے ہیں۔ احنف کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے ام المومنین ! میں آپ کو الٰہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا علی کا میں نے پھر کہا تھا کہ آپ مجھے حضرت علی کے بارے میں حکم دیتی ہیں اور آپ میرے لیے ان پر خوش ہیں تو آپنے فرمایا تھا ہاں۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا بالکل ایسے ہی ہے لیکن اب علی بدل چکے ہیں۔ پھر یہی بات میں نے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کو مخاطب کر کے کہی انھوں نے بھی اسی طرح اقرار کیا اور فرمایا اب حضرت علی بدل چکے ہیں۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں تم سے قتال نہیں کروں گا جب کہ تمہارے ساتھ ام المومنین بھی ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ بھی ہیں۔ اور حضرت علی سے بھی قتال نہیں کروں گا کیونکہ تم لوگوں نے خود ہی مجھے علی کی بیعت کا حکم دیا ہے۔ میرے لیے تین باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرلو یا تو میرے لیے باب جسر کھول دو تاکہ میں عجمیوں کے وطن چلا جاؤں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ کردے یا پھر مجھے مکہ جانے دیا جائے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہ فرما دیں یا پھر میں علیحدہ ہوجاتا ہوں اور قریب میں قیام کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا ہم مشورہ کرتے ہیں پھر تمہیں پیغام بھیجتے ہیں پس انھوں نے مشورہ کیا اور کہنے لگے کہ ہم اس کے لیے باب جسر کھول دیتے ہیں تو اس کے ساتھ منافق اور جدا ہونے والے مل جائیں گے اور پھر یہ مکہ چلا جائے گا اور ممکن ہے تمہارے بارے میں مکہ والوں کی رائے کو بدلے اور تمہاری خبریں ان کو بتلائیں لہٰذا یہ مضبوط رائے نہیں ہے۔ اس کو قریب ٹھہراؤ تاکہ معاملے پر تم غالب آجاؤ اور اس پر نگاہ بھی رکھو۔ پس وہ مقام جلعاء میں ٹھہرے جو بصرہ سے دو فرسخ پر ہے اس کے ساتھ چھ ہزار کا لشکر بھی علیحدہ ہوگیا۔
پھر لشکر کی مڈ بھیڑ ہوئی پس پہلے شہید طلحہ تھے اور کعب بن سور کے پاس قرآن کریم بھی تھا اور دونوں لشکروں کو نصیحت کر رہے تھے اسی دوران وہ بھی شہید ہوگئے حضرت زبیر بصرہ کے مقام سفوان پہنچ گئے جیسے تم سے مقام قادسیہ ہے۔ پس ان سے بنو مجاشع کا ایک شخص ملا اور کہنے لگا اے صحابی رسول آپ کہاں جا رہے ہیں۔ میں میری پناہ میں آجائیں آپ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ پس وہ اس کے ساتھ چل دئیے پھر احنف کے پاس ایک آدمی آیا اور حضرت زبیر کے بارے میں اطلاع دی تو وہ کہنے لگے ان کو کس نے امن دیا ہے انھوں نے تو مسلمانوں کو مد مقابل لا کھڑا کیا یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے دربانوں کو تلواروں سے مار رہے ہیں۔ اور اب خود وہ اپنے گھر اور اہل کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یہ بات عمیر بن جرموز اور غواۃ غواء بن تمیم (سے) فضالہ بن حابس اور نفیع نے سنی پس وہ ان کی طلب میں نکلے اور حضرت زبیر سے ملے جب کہ ان کے ساتھ وہ شخص بھی تھا جس نے ان کو پناہ دی تھی۔ پس ان کے پاس عمیر بن جرموز آیا اس حال میں کہ گھوڑے پر تھا۔ اس نے حضرت زبیر کو طعنہ دیا حضرت زبیر نے اس پر حملہ کردیا اس حال میں کہ آپ بھی گھوڑے پر تھے جس کا نام ذوالخمار تھا۔ جب عمیربن جرموزنے گمان کیا کہ حضرت زبیر اسے قتل کردیں گے تو اس نے اپنے دو ساتھیوں کو آواز دی اے نفیع اے فضالہ پس ان سب نے حضرت زبیر پر حملہ کیا اور انھیں شہید کردیا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔