HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Maarif ul Hadith

17. کتاب المناقب والفضائل

معارف الحدیث

2009

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَقْبَلَ عَلَى فَرَسٍ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ، حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمْ يُكَلِّمُ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، فَتَيَمَّمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُغَشًّى بِثَوْبِ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ وَبَكَى، ثُمَّ قَالَ: «بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، وَاللَّهِ لاَ يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا المَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ، فَقَدْ مُتَّهَا» قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَعُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ: اجْلِسْ يَا عُمَرُ، فَأَبَى عُمَرُ أَنْ يَجْلِسَ، فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَتَرَكُوا عُمَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: " أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ، قَالَ اللَّهُ: {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ} إِلَى قَوْلِهِ {الشَّاكِرِينَ} وَقَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ هَذِهِ الآيَةَ حَتَّى تَلاَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ، فَمَا أَسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا ". (رواه البخارى)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی قیام گاہ سخ سے آئے ، گھوڑے سے اتر کر مسجد میں آئے ، جو لوگ وہاں جمع تھے ، ان سے کوئی بات نہیں کی پہلے حضرت عائشہ کے گھر میں آئے اور سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے ، آپ کو ایک دھاری دار یمنی چادر اڑھا دی گئی تھی ، حضرت ابو بکرؓ نے چادر ہٹا کر چہرہ مبارک کھولا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر جھک پڑے اور بوسہ دیا ، پھر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر میرے ماں باپ قربان ! خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو موتیں جمع نہیں فرمائے گا جو موت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقدر ہو چکی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وارد ہو گئی (یہاں تک حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے جس کو امام بخاری نے ابو سلمہ کے حوالہ سے حضرت صدیقہؓ سے روایت کیا ہے) آگے امام زہری ابو سلمہ ہی کے حوالہ سے (اس موقع سے متعلق) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ بیان روایت کرتے ہیں کہ ..... ابو بکرؓ حضرت عائشہؓ کے گھر سے باہر آئے ، اس وقت حضرت عمر (اپنے خاص حال میں) لوگوں سے بات کر رہے تھے ، حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ عمر بیٹھ جاؤ (اور جو بات کر رہے ہو وہ نہ کرو) لیکن حضرت عمرؓ نے (اپنے خاص حال میں) یہ بات نہیں مانی تو (حضرت ابو بکرؓ منبر کی طرف آئے) تو سب لوگ حضرت عمرؓ کو چھوڑ کر حضرت ابو بکرؓ کی بات سننے کے لئے ان کی طرف آ گئے ، انہوں نے (منبر سے) خطاب کرتے ہوئے ۔ (حمد و صلوٰۃ اور توحید و رسالت کی شہادت کے بعد) فرمایا :
" أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ، قَالَ اللَّهُ عز وجل:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗوَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ
ترجمہ : اما بعد تم میں سے جو کوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت اور بندگی کرتا تھا تو وہ تو وفات پا گئے ، اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی عبادت اور بندگی کرتا تھا تو وہ “حَيٌّ لاَ يَمُوتُ” ہے ، اس کو کبھی فنا نہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے ۔
“اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف ایک رسول ہیں ، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، تو اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پلٹ جاؤ گے اور جو کوئی الٹے پاؤں پلٹ جائے تو وہ خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا اور اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو ضرور صلہ عطا فرمائے گا” ۔
(حدیث کے راوی) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ خدا قسم ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکرؓ کے اس موقع پر یہ آیت تلاوت فرمانے سے پہلے گویا لوگوں نے جانا ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے (یعنی اس وقت لوگ اس آیت کے مضمون سے غافل ہو گئے تھے) پھر تو سب ہی لوگوں نے اس کو لے لیا ، پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی اور میں ہر شخص کو یہی آیت تلاوت کرتے ہوئے سنتا تھا ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
مندرجہ بالا بعض حدیثوں سے معلوم ہو چکا ہے کہ جس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت بہت بہتر اور قابل اطمینان ہو گئی تھی ، اسی لئے حضرت ابو بکرؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بالکل مطمئن ہو کر اپنی قیام گاہ سخ چلے گئے تھے ، وہ ابھی وہیں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا ، جن لوگوں کو اس کی اطلاع ہوئی وہ جمع ہونا شروع ہو گئے ، ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے جو کسی طرح اس کے ماننے بلکہ سننے کے لئے بھی تیار نہیں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ۔ حافظ ابن حجر نے اسی حدیث کی شرح میں مسند احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر اڑھا دی حضرت عمرؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لئے اندر آنے کی اجازت چاہی ، میں نے پردہ کر لیا اور ان دونوں کو اجازت دے دی تو وہ دونوں اندر آئے حضرت عمرؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور کہا “وا غشيتاه” (ہائے کیسی غشی ہے) اس کے بعد یہ دونوں باہر جانے لگے تو حضرت مغیرہؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ (غشی یا سکتہ نہیں ہے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ، تو حضرت عمرؓ نے ان کو زور سے ڈانٹا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک دنیا سے نہیں اٹھائے جائیں گے جب تک فلاں فلاں کام انجام نہ پا جائیں جو ابھی انجام نہیں پائے ہیں ، بہرحال حضرت عمرؓ کا یہی حال تھا اور وہ پورے زور شور سے لوگوں سے یہی کہہ رہے تھے اسی حال میں حضرت ابو بکر گھوڑے پر سوار ہو کر آ پہنچے ، پہلے مسجد آئے جہاں لوگ جمع تھے لیکن کسی سے کوئی بات نہیں کی بلکہ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں پہنچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹایا اور روتے ہوئے بوسہ دیا اور کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ، جو موت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقدر تھی وہ آ چکی (صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے اس موقع پر “إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ” بھی کہا ۔) .... اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ باہر تشریف لائے یہاں حضرت عمرؓ اپنے خیال کے مطابق لوگوں کے سامنے تقریر کر رہے تھے ، حضرت ابو بکرؓ نے ان سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ یعنی لوگوں سے جو بار کر رہے ہو نہ کرو ، لیکن حضرت عمرؓ اس وقت ایسے مغلوب الحال تھے کہ انہوں نے حضرت ابو بکرؓ کی بات نہیں مانی بلکہ اس وقت ماننے سے صاف انکار کر دیا ، حضرت ابو بکرؓ حضرت عمرؓ کو اسی حال میں چھوڑ کر مسجد میں منبر پر تشریف لائے ، پھر سب لوگ حضرت عمرؓ کو چھوڑ کر انہی کے پاس آ گئے حضرت ابو بکرؓ سے وہ خطاب فرمایا جو اوپر حدیث کے ترجمہ میں لفظ بہ لفظ نقل کر دیا گیا ہے اور قرآن مجید کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴۴ تلاوت فرمائی ۔
حضرت ابو بکرؓ کے اس خطبہ اور اس آیت نے ہر صاحب ایمان کے دل میں یہ یقین پیدا کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن یقیناً وفات فرمانے والے تھے ، وفات فرما گئے اور ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے راستہ پر چلتے ہوئے جینا اور مرنا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بیان ہے کہ اس خاص موقع پر حضرت ابو بکرؓ سے یہ آیت سن کر سب کی زبان پر یہی آیت جاری تھی ہر ایک اسی آیت کی تلاوت کر کے اپنے نفس کو اور دوسروں کو اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر ثابت قدمی کا سبق دے رہا تھا ۔
اسی واقعہ کے سلسلہ میں آگے امام زہری ہی نے سعید بن المسیب سے نقل کیا ہے کہ خود حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ جب ابو بکر نے آیت “وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ ..... الاية” تلاوت کی تو اپنی غلطی کے احساس سے میرا یہ حال ہو گیا کہ گویا میں بےجان ہو گیا میری ٹانگوں میں دم نہیں رہا کہ میں کھڑا ہو سکوں میرے دل نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بےشک وفات پا گئے ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔