HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Maarif ul Hadith

4. کتاب الطہارت

معارف الحدیث

405

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : مَرَّ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يِقَبْرَيْنِ ، فَقَالَ : " إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ (وَفِىْ رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ لَا يَسْتَنْزِهُ) مِنَ البَوْلِ ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ » ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً ، فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ : « لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا » (رواه البخارى ومسلم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو دو آدمی ان قبروں میں مدفون ہیں ان پر عذاب ہو رہا ہے ، اور کسی ایسے گناہ کی وجہ سے یہ عذاب نہیں ہو رہا ہے جس کا معاملہ بہت مشکل ہوتا (یعنی جس سے بچنا بہت دشوار ہوتا) بلکہ یہ دونوں اپنے ایسے گناہ کی پاداش میں عذاب دئیے جا رہے ہیں جس سے بچنا کچھ مشکل نہ تھا) ان میں سے ایک کا گناہ تو یہ تھا کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ یا پاک رہنے کی کوشش اور فکر نہیں کرتا تھا اور دوسرے کا گناہ یہ تھا کہ چغلیاں لگاتا پھرتا تھا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ لی اور اس کو بیچ سے چیر کر دو ٹکڑے کیا ، پھر ہر ایک کی قبر پر ایک ٹکڑا گاڑھ دیا ۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ آپ نے کس مقصد سے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، امید ہے کہ جس وقت تک شاخ کے یہ ٹکڑے بالکل خشک نہ ہو جائیں ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
عذاب قبر کے بارے میں اصولی بحث اس سلسلے کی پہلی جلد میں کی جا چکی ہے اور وہیں وہ حدیثیں بھی ذکر کی جا چکی ہیں جن میں صراحۃً فرمایا گیا ہے کہ عذاب قبر کی چیخ و پکار کو آس پاس کی دوسری سب مخلوق سنتی ہے لیکن جن و انس عام طور سے نہیں سنتے اور وہیں اس کی حکمت بھی تفصیل سے بیان کی جا چکی ہے ، نیز وہیں صحیح مسلم کی ایک حدیث نقل کی جا چکی ہے جس میں بعض قبروں کے عذاب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلع ہونے کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ پس یہ واقعہ جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے یہ بھی اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ ہے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو عالم غیب کی بہت سی ایسی چیزوں کا مشاہدہ کراتا ہے اور بہت سی ایسی آوازیں سنوا دیتا ہے جن کو عام انسانوں کی آنکھیں اس عالم میں نہیں دیکھتیں اور ان کے کان نہیں سنتے ۔بہر حال یہ بھی اسی قبیل کی ایک چیز ہے ۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں صاحبوں کے عذاب کا سبب ان کے دو خاص گناہوں کا بتایا ہے ایک کے متعلق بتایا کہ وہ چغلی کرتا تھا جو ایک سنگین اخلاقی جرم ہے اور قرآن مجید میں بھی ایک جگہ اس کا ذکر ایک کافرانہ خصلت یا منافقانہ عادت کے طور پر کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا (۱) “ وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ۰۰۱۰ ” (قلم) اور کتب قدیمہ کے بہت بڑے عالم کعب احبار سے مروی ہے کہ تورات میں چغلخوری کو سب سے بڑا گناہ بتایا گیا ہے ۔ (۲) اور دوسرے کے عذاب کا سبب آپ نے یہ بتایا کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ اور پاک صاف رہنے میں بے احتیاطی کرتا (لاَ يَسْتَتِرُ اور لَا يَسْتَنْزِهُ) دونوں کا حاصل مطلب یہی ہے اور صحیح بخاری کی روایت میں اس واقعہ پر “ لَا يستبرئ ” بھی آیا ہے اور حاصل اس کا بھی یہی ہے ، بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب کی گندگی سے (اور اسی طرح دوسری ناپاکیوں سے) بچنا یعنی اپنے جسم اور اپنے کپڑوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا اللہ تعالیٰ کے اہم احکامات میں سےہے اور اس میں کوتاہی اور بےاحتیاطی ایسی معصیت ہے کہ جس کی سزا آدمی کو قبر میں بھگتنی پڑے گی ۔
آگے حدیث میں جو یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگوائی اور بیچ میں سے اس کے دو ٹکڑے کر کے ایک ایک ٹکڑا ان دونوں کی قبر پر گاڑ دیا ۔ اور بعض صحابہؓ نے جب اس کی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ مجھے امید ہے کہ جب تک ان ٹکڑوں میں کچھ تری رہے گی اس وقت تک کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی ” ..... اس کی ایک توجیح بعض شارحین نے یہ ذکر کی ہے کہ کسی درخت کی شاخ میں جب تک کچھ تری یا نمی رہتی ہے اس وقت تک وہ زندہ رہتی ہے اور اس وقت تک وہ اللہ کی تسبیح و حمد کرتی رہتی ہے ... گویا قرآن مجید کی آیت “ وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ ” کا مطلب ان حضرات کے نزدیک یہ ہے کہ ہر چیز اس وقت تک جب تک کہ اس میں کچھ زندگی ہو اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کرتی رہتی ہے اور جب اس چیز کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو اس کی حمد و تسبیح بھی ختم ہو جاتی ہے ..... بہر حال اسی بنا پر ان حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل اور آپ کے اس ارشاد کی توجیہ یہ کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی شاخ کے یہ ٹکڑے ان قبروں پر اس لئے گاڑھے کہ ان کی تسبیح و حمد کی برکت سے عذاب میں تخفیف ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ٹکڑوں کے خشک ہونے تک تخفیف کی جو امید ظاہر فرمائی اس کی بنیاد بس یہی تھی ۔ لیکن اکثر شارحین نے اس توجیہ کو غلط قرار دیا ہے ، اور ہمارے نزدیک بھی یہ توجیہ بالکل غلط بلکہ مہمل ہے ۔ ذرا غور کرنے سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اس نقطہ نظر سے کیا ہوتا تو کھجور کی شاخ چیر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ٹکڑے قبروں پر نصب نہ کرتے کیوں کہ وہ تو دو چار دن میں خشک ہوجاتے ہیں بلکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان قبروں پر کوئی پودا نصب کرا دیتے جو برسہا برس تک ہرا رہتا ۔ دوسری واضح دلیل اس توجیہ کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ اگر صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء اور نقطہ نظر یہ سمجھا ہوتا تو وہ سب ایسا ہی کرتے اور ہر قبر پر شاخ نصب کرنے بلکہ درخت لگانے کا اس دور میں عام رواج ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہوا بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل اور اس ارشاد کی یہ توجیہ بالکل غلط ہے اور پھر اس توجیہ پر بزرگان دین کے مزارات پر ہار پھول چڑھانے کی مشرکانہ رسم کا جواز نکالنا تو روح اسلام پر سخت ظلم ہے ۔
پس صحیح توجیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل اور ارشاد کی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ان مردوں کے لئے تخفیف عذاب کے لئے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا کہ آپ اس طرح ایک ہری شاخ کے دو حصے کر کے ان قبروں پر ایک ایک گاڑھ دیجئے ۔ جب تک اس میں تری رہے گی اس وقت تک کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی ..... صحیح مسلم کے آخر میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث ہے اس میں بھی دو قبروں کے عذاب کا ذکر ہے اور وہ دوسرا واقعہ ہے وہاں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حکم دیا کہ جاؤ ان درختوں میں سے دو شاخیں کاٹ کے فلاں جگہ ڈال آؤ ! حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور جب آپ سے اس کی بابت میں نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں دو قبریں ہیں جن پر عذاب ہو رہا ہے ، میں نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف عزاب کی استدعا کی تھی ، اللہ تعالیٰ نے اتنی بات قبول فرمائی کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی .....بہر حال حضرت جابرؓ کی اس روایت سے یہ بات صراحۃً معلوم ہو گئی کہ ہری شاخوں کو یا ان کی تری کو عذاب کی تخفیف میں کوئی دخل نہیں تھا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات فرمائی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے ہم اتنی مدت کے لئے ان کے عذاب میں تخفیف کر دیں گے ۔ پس اصلی چیز تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی بنا پر ایک محدود مدت تک کے لئے تخفیف کا فیصلہ ۔
شارحین نے اس حدیث کی شرح میں اس پر بھی گفتگو کی ہوئ ہے کہ یہ دو قبریں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی شاخ کے ٹکڑے گاڑھے ، مسلمانوں کی تھیں یا غیر مسلموں کی ؟ اور پھر ترجیح اس کو دی ہے کہ یہ قبریں مسلمانوں کی تھیں ، اس کا ایک واضح قرینہ خود اسی حدیث میں یہ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب کا سبب چغل خوری کی عادت اور پیشاب کے معاملے میں بے احتیاطی اور لاپروائی بتایا ہے حالانکہ یہ قبریں کافروں کی ہوتیں تو عذاب کا سب سے بڑا سبب ان کا کفر اور شرک بتلایا جاتا ..... علاوہ ازیں مسند احمد میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبریں بقیع میں تھیں اور آپص نے بقیع سے گزرتے ہوئے ان قبروں کے عذاب کو محسوس کیا تھا ، اور معلوم ہے کہ مدینہ طیبہ میں بقیع مسلمانوں ہی کا قبرستان ہے ..... بہرحال ان سب قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبریں مسلمانوں ہی کی تھیں ..... واللہ تعالیٰ اعلم ۔
اس حدیث کا خاص سبق اور خاص ہدایت یہ ہے کہ پیشاب وغیرہ کی نجاست سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش اور فکر کی جائے اور جسم اور کپڑوں کے پاک صاف رکھنے کا اہتمام کیا جائے اور چغلخوری جیسی منافقانہ اور مفسدانہ عادت سے بچا جائے ورنہ ان دونوں باتوں میں کوتاہی اور بے احتیاطی کا خمیازہ بھگتنا ہو گا ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا.....

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔