HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4401

۴۴۰۱: حَدَّثَنِیْ بِذٰلِکَ مَحْمُوْدُ بْنُ حَسَّانَ النَّحْوِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیْ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ عَمْرِو بْنِ الْعَلَائِ .وَفِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا حُجَّۃٌ أُخْرَی ، أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، ہُوَ الَّذِی خَاطَبَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِہٖ : فَتِلْکَ الْعِدَّۃُ الَّتِیْ أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَطْلُقَ لَہَا النِّسَائُ وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ - عِنْدَہُ - دَلِیْلًا أَنَّ الْأَقْرَائَ الْأَطْہَارُ ، اِذْ قَدْ جَعَلَ الْأَقْرَائَ الْحَیْضَ ، فِیْمَا رُوِیَ عَنْہُ .فَاِذَا کَانَ ہٰذَا عِنْدَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، وَقَدْ خَاطَبَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٖ ، لَا دَلِیْلَ فِیْہِ عَلٰی أَنَّ الْقُرْئَ الطُّہْرُ ، کَانَ مَنْ بَعْدَہُ فِیْہِ أَیْضًا کَذٰلِکَ ، وَسَنَذْکُرُ مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا ، فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ ، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَکَانَ مِمَّا احْتَجَّ بِہٖ الَّذِیْنَ جَعَلُوْا الْأَقْرَائَ الْأَطْہَارَ أَیْضًا ، فَقَالَ قَوْمٌ : ہِیَ الْحَیْضُ ، وَقَالَ آخَرُوْنَ : ہِیَ الْأَطْہَارُ .فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّہَا الْأَطْہَارُ ، قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ ، حِیْنَ طَلَّقَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ امْرَأَتَہٗ وَہِیَ حَائِضٌ مُرْہُ أَنْ یُرَاجِعَہَا ، ثُمَّ یَتْرُکَہَا حَتّٰی تَطْہُرَ ، ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا اِنْ شَائَ ، فَتِلْکَ الْعِدَّۃُ الَّتِیْ أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَطْلُقَ لَہَا النِّسَائُ وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِاِسْنَادِہِ فِی الْبَابِ الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْبَابِ .قَالُوْا : فَلَمَّا أَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُطَلِّقَہَا فِی الطُّہْرِ ، وَجَعَلَہُ الْعِدَّۃَ دُوْنَہَا ، وَنَہَاہُ أَنْ یُطَلِّقَہَا فِی الْحَیْضِ ، وَأَخْرَجَہٗ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ عِدَّۃً ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْأَقْرَائَ ہِیَ الْأَطْہَارُ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِلْآخَرِیْنَ ، أَنَّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ قَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، کَمَا ذَکَرُوْا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ مَا ہُوَ أَتَمُّ مِنْ ذٰلِکَ .فَرُوِیَ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عُمَرَ أَنْ یَأْمُرَہُ أَنْ یُرَاجِعَہَا ثُمَّ یُمْہِلَہَا ، حَتّٰی تَطْہُرَ ، ثُمَّ تَحِیْضَ ، ثُمَّ تَطْہُرَ ، ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا اِنْ شَائَ وَقَالَ : تِلْکَ الْعِدَّۃُ الَّتِیْ أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَطْلُقَ لَہَا النِّسَائُ .وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ أَیْضًا بِاِسْنَادِہِ فِی الْبَابِ الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْبَابِ .فَلَمَّا نَہَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ اِیْقَاعِ الطَّلَاقِ فِی الطُّہْرِ الَّذِیْ بَعْدَ الْحَیْصَۃِ ، الَّتِی طَلَّقَ فِیْہَا ، حَتّٰی یَکُوْنَ طُہْرٌ وَحَیْضَۃٌ أُخْرَیْ بَعْدَہَا ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْ کَانَ أَرَادَ بِقَوْلِہٖ فَتِلْکَ الْعِدَّۃُ الَّتِیْ أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَطْلُقَ لَہَا النِّسَائُ الْأَطْہَارُ اِذًا لَجَعَلَ لَہٗ أَنْ یُطَلِّقَہَا بَعْدَ طُہْرِہَا مِنْ ہٰذِہِ الْحَیْضَۃِ ، وَلَا یَنْتَظِرُ مَا بَعْدَہَا ، لِأَنَّ ذٰلِکَ طُہْرٌ .فَلَمَّا لَمْ یُبِحْ لَہُ الطَّلَاقَ فِیْ ذٰلِکَ الطُّہْرِ حَتّٰی یَکُوْنَ طُہْرًا آخَرَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ الطُّہْرِ حَیْضَۃٌ ، ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ تِلْکَ الْعِدَّۃَ الَّتِیْ أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَطْلُقَ لَہَا النِّسَائُ ، اِنَّمَا ہِیَ وَقْتُ مَا تَطْلُقُ النِّسَائُ ، وَلَیْسَ لِأَنَّہَا عِدَّۃٌ تَطْلُقُ لَہَا النِّسَائُ یَجِبُ بِذٰلِکَ أَنْ تَکُوْنَ ہِیَ الْعِدَّۃُ الَّتِیْ تَعْتَدُّ بِہَا النِّسَائُ ، لِأَنَّ الْعِدَّۃَ مُخْتَلِفَۃٌ .مِنْہَا : عِدَّۃُ الْمُتَوَفّٰی عَنْہَا زَوْجُہَا ، أَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ وَعَشْرٌ .وَمِنْہَا : عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ ثَلَاثَۃُ قُرُوْئٍ .وَمِنْہَا : عِدَّۃُ الْحَامِلِ أَنْ تَضَعَ حَمْلَہَا ، فَکَانَتِ الْعِدَّۃُ اسْمًا وَاحِدًا ، لِمَعَانٍ مُخْتَلِفَۃٍ. وَلَمْ یَکُنْ کُلُّ مَا لَزِمَہُ اسْمُ عِدَّۃٍ وَجَبَ أَنْ یَکُوْنَ قُرْئً ا .فَکَذٰلِکَ لَمَّا لَزِمَ اسْمَ الْوَقْتِ الَّذِیْ تَطْلُقُ فِیْہِ النِّسَائُ اسْمُ عِدَّۃٍ ، لَمْ یَثْبُتْ لَہُ بِذٰلِکَ اسْمُ الْقُرْئِ .فَہٰذِہِ مُعَارَضَۃٌ صَحِیْحَۃٌ ، وَلَوْ أَرَدْنَا أَنْ نُکْثِرَ ہَاہُنَا ، فَنَحْتَجُّ بِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْمُسْتَحَاضَۃِ دَعِی الصَّلَاۃَ أَیَّامَ أَقْرَائِک فَنَقُوْلُ : الْأَقْرَائُ ہِیَ : الْحَیْضُ عَلَی لِسَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَکَانَ ذٰلِکَ مَا قَدْ تَعَلَّقَ بِہٖ بَعْضُ مَنْ تَقَدَّمَ وَلٰـکِنَّا لَا نَفْعَلُ ذٰلِکَ ، لِأَنَّ الْعَرَبَ قَدْ تُسَمِّی الْحَیْضَ قُرْئً ا ، وَتُسَمِّی الطُّہْرَ قُرْئً ا ، وَتَجْمَعُ الْحَیْضَ وَالطُّہْرَ ، فَتُسَمِّیہِمَا قُرْئً ا .
٤٤٠١: یہ علامہ مازنی المقری کا قول ہے : حدثنی محمود بن حسان نحوی عبدالملک بن ہشام عن ابی زید عن ابی عمرو بن علاء المازنی النحوی المقرئی۔ یہ سبعہ قراء سے ہیں تبع تابعین سے ہیں۔ اس روایت میں دوسری دلیل یہ ہے کہ عمر (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فتلک العدۃ التی امر اللہ عزوجل ان تطلق لھا النساء “ حضرت عمر (رض) کے ہاں اقراء سے طہر مراد ہونے کی دلیل نہ نفی کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں اقراء کو حیض قرار دیا۔ پس جب عمر (رض) کے ہاں جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود مخاطب فرمایا تو اس میں کوئی دلیل نہ رہی کہ قروء سے مراد طہر ہے اور ان کے بعد بھی یہ اس طرح ہے عنقریب ہم جناب عمر (رض) کا ارشاد نقل کریں گے۔ فریق ثانی اقراء سے طہر مراد لیتا ہے ان کے دلائل درج ذیل ہیں۔
دلیل نمبر 2: روایت میں دوسری دلیل یہ ہے کہ عمر (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فتلک العدۃ التی امر اللہ عزوجل ان تطلق لھا النساء “ حضرت عمر (رض) کے ہاں اقراء سے طہر مراد ہونے کی دلیل نہ نکلی کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں اقراء کو حیض قرار دیا۔ پس جب عمر (رض) کے ہاں جن کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود مخاطب فرمایا تو اس میں کوئی دلیل نہ رہی کہ قروء سے مراد طہر ہے اور ان کے بعد بھی یہ اس طرح ہے عنقریب ہم جناب عمر (رض) کا ارشاد نقل کریں گے۔
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اقراء کے لفظ میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا اس کا معنی حیض ہے۔ دوسروں نے کہا کہ اس کا معنی طہر ہے ان کی دلیل وہ روایات ہیں جن میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمر (رض) کو فرمایا جبکہ ابن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دے دی۔ اس کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے پھر اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ طہر آجائے پھر وہ اس کو طلاق دے اگر مرضی ہو۔ یہی وہ عدت ہے جس کے گزارنے کا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم فرمایا ہے۔ اس روایت کتاب الطلاق کے باب اوّل میں ذکر کر آئے ہیں۔ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن عمر (رض) کو طہر میں طلاق کا حکم دیا اور اسی کو عدت قرار دیا اس کے علاوہ کو نہیں اور حالت حیض میں طلاق سے منع فرمایا اور اس کو عدت بننے سے خارج کیا تو اس سے ثابت ہوا کہ اقراء سے مراد طہر ہے۔ اس کے خلاف دوسروں کی دلیل یہ ہے کہ یہ روایت ابن عمر (رض) سے اس طرح بھی مروی ہے جس طرح تم نے ذکر کی ہے مگر اس سے زیادہ کامل انداز سے یہ روایت مروی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو حکم فرمایا کہ وہ عبداللہ کو رجوع کا حکم فرمائیں اور یہ فرمائیں کہ وہ بیوی کو چھوڑے رکھیں (نہ طلاق دیں نہ جماع کریں) یہاں تک کہ ایک طہر اور آئے پھر حیض آئے پھر پاک ہو پھر اگر چاہیں تو طلاق دے دیں اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ گنتی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ اس کے پورا کرنے پر عورتوں کو طلاق دی جائے۔ یہ روایت بھی اپنی اسناد کے ساتھ کتاب الطلاق کے باب اوّل میں گزر چکی وہاں ملاحظہ کرلی جائے وہاں تخریج دیکھ لیں۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس طہر میں طلاق سے روکا جو اس حیض کے بعد ہے جس میں طلاق دی گئی یہاں تک رکا جائے کہ ایک طہر گزرے اور پھر حیض آجائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر آپ کے ارشاد گرامی میں اس طرح ہوتا کہ یہ وہ عدت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق کا حکم دیا ہے۔ اس سے مراد طہر ہوتا تو آپ اس حیض کے بعد وہ طہر میں طلاق دینے کو جائز قرار دیتے اور جو کچھ اس کے بعد ہے اس کا انتظار نہ فرماتے۔ کیونکہ یہ تو طہر ہے تو جب اس طہر میں طلاق دینا جائز قرار نہیں دیا یہاں تک کہ ایک اور طہر آجائے اور ان دونوں طہروں کے درمیان حیض ہو تو اس سے ثابت ہوا کہ جس گنتی کے پورا ہونے پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کی اجازت مرحمت فرمائی اس سے مراد وہ وقت ہے جس میں عورتوں کو طلاق دی جائے۔ یہ بات نہیں کہ چونکہ اس گنتی پر عورتوں کو طلاق دی جائے۔ یہ بات نہیں کہ چونکہ اس گنتی پر عورتوں کو طلاق دی جاتی ہے۔ تو ضروری ہے کہ یہی وہ عدت ہو جس عدت کو عورتیں گزارتی ہیں۔ کیونکہ عدت تو کئی قسم پر مشتمل ہے اور مختلف ہے نمبر 1: عرۃ متوفیٰ عنہا زوجہا : بیوہ کی عدت یہ چار ماہ دس دن ہیں۔ نمبر 2: عدت مطلقہ : یہ عدت تین قرأ ہے۔ نمبر ٣ عدت حاملہ : یہ عدت وضع حمل سے پوری ہوگی۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ لفظ عدت کئی معانی کا حامل ہے یہ نہیں کہ جہاں بھی لفظ عدت آگیا تو اس سے قروء ہی مراد ہو۔ اس کے مطابق جب اس وقت کو عدت کہا گیا جس میں عورتوں کو طلاق دی گئی ہے اور دی جاتی ہے تو اس کے لیے لفظ قروء کا نام ثابت نہیں ہوگا۔ یہ معارضہ کے اعتبار سے درست ہے اگر اس گفتگو کو مزید بڑھانا چاہیں تو ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد گرامی سے استدلال کرسکتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مستحاضہ عورت کو فرمایا تم اپنے اقرأ کے دنوں میں نماز چھوڑ دو ۔ تو یہاں واضح طور پر اقرأ سے مراد حیض ہی ہے جو کہ زبان نبوت سے جاری ہوا اور یہ وہی دلیل ہے جس سے ہمارے بعض متقدمین نے استدلال کیا مگر ہم اس سے صرف نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں چونکہ اہل عرب بعض اوقات حیض و طہر دونوں پر قروء کا اطلاق کرتے ہیں اور بسا اوقات دونوں پر مجموعی طور پر قرء کا لفظ بول دیتے ہیں۔ یہ بات علامہ مازنی نحوی (رح) نے فرمائی جس کی سند یہ ہے۔
: اقرء اس کا معنی جمع ‘ وقت ‘ طہور ‘ حمل ہے علماء کی ایک جماعت اقراء سے حیض مراد لیتی ہے اور دوسرا فریق طہر مراد لیتا ہے۔ پہلی جماعت میں امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد ‘ احمد (رح) انھوں نے یہ مسلک ابوبکر و عمرو علی ابن مسعود (رض) دیگر اکابر صحابہ کرام سے نقل کیا ہے۔ فریق ثانی میں امام مالک و شافعی ‘ مسلم ‘ عروہ دیگر تابعین (رح) ہیں انھوں نے طہر کا معنی حضرت عائشہ ‘ زید بن ثابت ‘ عبداللہ بن عمرو ‘ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے۔
فریق اوّل کا مؤقف اور دلائل پہلے مذکور ہیں ملاحظہ ہوں۔
ابو جعفر طحاوی (رح) کا قول : طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اقراء کے لفظ میں لوگوں کا اختلاف ہے۔
فریق اوّل کا قول : اس کا معنی حیض ہے۔
فریق ثانی کا قول : اس کا معنی طہر ہے ان کی دلیل وہ روایات ہیں جن میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمر (رض) کو فرمایا جبکہ ابن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دے دی۔ اس کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے پھر اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ طہر آجائے پھر وہ اس کو طلاق دے اگر مرضی ہو۔ یہی وہ عدت ہے جس کے گزارنے کا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم فرمایا ہے۔ اس روایت کتاب الطلاق کے باب اوّل میں ذکر کر آئے ہیں۔
تخریج : کتاب الطلاق باب ١‘ طحاوی (رح) ۔
طریق استدلال : جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن عمر (رض) کو طہر میں طلاق کا حکم دیا اور اسی کو عدت قرار دیا اس کے علاوہ کو نہیں اور حالت حیض میں طلاق سے منع فرمایا اور اس کو عدت بننے سے خارج کیا تو اس سے ثابت ہوا کہ اقراء سے مراد طہر ہے۔
فریق اوّل کا استدلال اور جواب : یہ روایت ابن عمر (رض) سے اس طرح بھی مروی ہے جس طرح تم نے ذکر کی ہے مگر اس سے زیادہ کامل انداز سے یہ روایت مروی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو حکم فرمایا کہ وہ عبداللہ کو رجوع کا حکم فرمائیں اور یہ فرمائیں کہ وہ بیوی کو چھوڑے رکھیں (نہ طلاق دیں نہ جماع کریں) یہاں تک کہ ایک طہر اور آئے پھر حیض آئے پھر پاک ہو پھر اگر چاہیں تو طلاق دے دیں اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ گنتی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ اس کے پورا کرنے پر عورتوں کو طلاق دی جائے۔ یہ روایت بھی اپنی اسناد کے ساتھ کتاب الطلاق کے باب اوّل میں گزر چکی وہاں ملاحظہ کرلی جائے وہاں تخریج دیکھ لیں۔
روایت سے طریق استدلال : جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس طہر میں طلاق سے روکا جو اس حیض کے بعد ہے جس میں طلاق دی گئی یہاں تک رکا جائے کہ ایک طہر گزرے اور پھر حیض آجائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر آپ کے ارشاد گرامی میں اس طرح ہوتا کہ یہ وہ عدت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق کا حکم دیا ہے۔ اس سے مراد طہر ہوتا تو آپ اس حیض کے بعد اس طہر میں طلاق دینے کو جائز قرار دیتے اور جو کچھ اس کے بعد ہے اس کا انتظار نہ فرماتے۔ کیونکہ یہ تو طہر ہے تو جب اس طہر میں طلاق دینا جائز قرار نہیں دیا یہاں تک کہ ایک اور طہر آجائے اور ان دونوں طہروں کے درمیان حیض ہو تو اس سے ثابت ہوا کہ جس گنتی کے پورا ہونے پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کی اجازت مرحمت فرمائی اس سے مراد وہ وقت ہے جس میں عورتوں کو طلاق دی جائے۔ یہ بات نہیں کہ چونکہ اس گنتی پر عورتوں کو طلاق دی جاتی ہے۔ تو ضروری ہے کہ یہی وہ عدت ہو جس عدت کو عورتیں گزارتی ہیں۔ کیونکہ عدت تو کئی قسم پر مشتمل ہے۔
نمبر 1: عدۃ متوفیٰ عنہا زوجہا : بیوہ کی عدت یہ چار ماہ دس دن ہیں۔
نمبر 2: عدت مطلقہ : یہ عدت تین قروء ہے۔
نمبر ٣ عدت حاملہ : یہ عدت وضع حمل سے پوری ہوگی۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ لفظ عدت کئی معانی کا حامل ہے یہ نہیں کہ جہاں بھی لفظ عدت آگیا تو اس سے قروء ہی مراد ہو۔
اس کے مطابق جب اس وقت کو عدت کہا گیا جس میں عورتوں کو طلاق دی گئی ہے اور دی جاتی ہے تو اس کے لیے لفظ قروء کا نام ثابت نہیں ہوگا۔
یہ معارضہ کے اعتبار سے درست ہے اگر اس گفتگو کو مزید بڑھانا چاہیں تو ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد گرامی سے استدلال کرسکتے ہیں۔
دلیل نمبر 1: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مستحاضہ عورت کو فرمایا تم اپنے اقراء کے دنوں میں نماز چھوڑ دو ۔ (یہ روایت ابوداؤد باب فی الطہارۃ ص ١٠٧ ترمذی باب فی الطہارۃ ص ٩٦ میں ہے) تو یہاں واضح طور پر اقرأ سے مراد حیض ہی ہے جو کہ زبان نبوت سے جاری ہوا اور یہ وہی دلیل ہے جس سے ہمارے بعض متقدمین نے استدلال کیا مگر ہم اس سے صرف نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں چونکہ اہل عرب بعض اوقات حیض و طہر دونوں پر قروء کا اطلاق کرتے ہیں اور بسا اوقات دونوں پر مجموعی طور پر قرء کا لفظ بول دیتے ہیں۔ یہ بات علامہ مازنی نحوی (رح) نے فرمائی جس کی سند یہ ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔