HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4549

۴۵۴۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : ثَنَا أُبَیٌّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ : سَمِعْت مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یُحَدِّثُ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، قَالَ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ .فَہٰذَا مُنْتَہَی مَا وَقَفْنَا عَلَیْہِ، مِنْ عِلْمِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، أَیُّ لَیْلَۃٍ ہِیَ ؟ مِمَّا دَلَّنَا عَلَیْہِ کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَسُنَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَأَمَّا مَا رُوِیَ بَعْدَ ذٰلِکَ عَنِ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَتَابِعِیْہِمْ ، فَمَعْنَاہُ دَاخِلٌ فِی الْمَعَانِی الَّتِیْ ذٰکَرْنَا .وَاِنَّمَا احْتَجْنَا اِلَی ذِکْرِ مَا رُوِیَ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ، لِمَا قَدْ اخْتَلَفَ فِیْہِ أَصْحَابُنَا فِیْ قَوْلِ الرَّجُلِ لِامْرَأَتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ مَتَیْ یَقَعُ بِہٖ الطَّلَاقُ .فَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ اِنْ قَالَ لَہَا ذٰلِکَ قَبْلَ شَہْرِ رَمَضَانَ ، لَمْ یَقَعْ الطَّلَاقُ حَتّٰی یَمْضِیَ شَہْرُ رَمَضَانَ ، لِمَا قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْ مَوْضِعِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ مِنْ لَیَالِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَا ہٰذَا الْبَابَ ، مِمَّا رُوِیَ أَنَّہَا فِی الشَّہْرِ کُلِّہٖ، وَمِمَّا قَدْ رُوِیَ أَنَّہَا فِیْ خَاص مِنْہُ قَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَلَا أَحْکُمُ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ، اِلَّا بَعْدَ مُضِیِّ الشَّہْرِ ، لِأَنِّیْ أَعْلَمُ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ مَضَی الْوَقْتُ الَّذِی أَوْقَعَ الطَّلَاقَ فِیْہِ، وَأَنَّ الطَّلَاقَ قَدْ وَقَعَ .قَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَاِنْ قَالَ ذٰلِکَ لَہَا فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، فِیْ أَوَّلِہٖ ، أَوْ فِیْ آخِرِہٖ، أَوْ فِیْ وَسَطِہٖ، لَمْ یَقَعْ الطَّلَاقُ ، حَتّٰی یَمْضِیَ مَا بَقِیَ مِنْ ذٰلِکَ الشَّہْرِ ، وَحَتّٰی یَمْضِیَ شَہْرُ رَمَضَانَ أَیْضًا کُلُّہٗ، مِنَ السَّنَۃِ الْقَابِلَۃِ قَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ فِیْمَا مَضَی مِنْ ہٰذَا الشَّہْرِ الَّذِیْ ہُوَ فِیْہِ، فَلَا یَقَعُ الطَّلَاقُ حَتّٰی یَمْضِیَ شَہْرُ رَمَضَانَ کُلُّہٗ، مِنَ السَّنَۃِ الْجَائِیَۃِ ، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ فِیْمَا بَقِیَ مِنْ ذٰلِکَ الشَّہْرِ الَّذِیْ ہُوَ فِیْہِ، فَیَقَعُ الطَّلَاقُ فِیْہَا ، فَیَکُوْنُ کَمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِہٖ، قَبْلَ شَہْرِ رَمَضَانَ أَنْتِ طَالِقٌ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فَیَکُوْنُ الطَّلَاقُ لَا یُحْکَمُ بِہٖ عَلَیْہِ اِلَّا بَعْدَ مُضِیِّ شَہْرِ رَمَضَانَ قَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فَلَمَّا أَشْکَلَ ذٰلِکَ ، لَمْ أَحْکُمْ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ اِلَّا بَعْدَ عِلْمِی بِوُقُوْعِہٖ، وَلَا أَعْلَمُ ذٰلِکَ ، اِلَّا بَعْدَ مُضِیِّ شَہْرِ رَمَضَانَ ، الَّذِیْ ہُوَ فِیْہِ، وَشَہْرِ رَمَضَانَ الْجَائِیْ بَعْدَہُ .فَہٰذَا مَذْہَبُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہٗ، قَالَ مَرَّۃً بِہٰذَا الْقَوْلِ أَیْضًا ، وَقَالَ مَرَّۃً أُخْرَی اِذَا قَالَ لَہَا ذٰلِکَ الْقَوْلَ فِیْ بَعْضِ شَہْرِ رَمَضَانَ ، لَمْ یُحْکَمْ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ حَتّٰی یَمْضِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ الْوَقْتِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، مِنَ السَّنَۃِ الْجَائِیَۃِ . قَالَ لِأَنَّ ذٰلِکَ اِذَا کَانَ ، فَقَدْ کَمُلَ حَوْلٌ ، مُنْذُ قَالَ ذٰلِکَ الْقَوْلَ وَہِیَ فِیْ کُلِّ حَوْلٍ فَعِلْمنَا بِذٰلِکَ وُقُوْعَ الطَّلَاقِ قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : وَہٰذَا قَوْلٌ - عِنْدِی - لَیْسَ بِشَیْئٍ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ لَنَا ، اِنَّ کُلَّ حَوْلٍ یَکُوْنُ فَفِیْہِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ، عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الْحَوْلَ لَیْسَ فِیْہِ شَہْرُ رَمَضَانَ بِکَمَالِہِ مِنْ سَنَۃٍ وَاحِدَۃٍ وَاِنَّمَا قِیْلَ لَنَا : اِنَّہَا فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ مِنْ کُلِّ سَنَۃٍ ، ہٰکَذَا دَلَّنَا عَلَیْہِ کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَقَالَہُ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَلٰی مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، احْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ اِذَا قَالَ لَہَا فِیْ بَعْضِ شَہْرِ رَمَضَانَ أَنْتِ طَالِقٌ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ أَنْ تَکُوْنَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ فِیْمَا مَضَی مِنْ ذٰلِکَ الشَّہْرِ .فَیَکُوْنُ اِذَا مَضَیْ حَوْلٌ مِنْ حِیْنَئِذٍ ، اِلَی مِثْلِہِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، مِنَ السَّنَۃِ الْجَائِیَۃِ ، لَا لَیْلَۃَ قَدْرٍ فِیْہِ .فَفَسَدَ بِمَا ذَکَرْنَا ، قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ الَّذِی وَصَفْنَا ، وَثَبَتَ - عَلٰی ہَذَا التَّرْتِیْبِ - مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ قَالَ مَرَّۃً أُخْرَی اِذَا قَالَ لَہَا الْقَوْلَ فِیْ بَعْضِ شَہْرِ رَمَضَانَ : اِنَّ الطَّلَاقَ لَا یَقَعُ ، حَتّٰی یَمْضِیَ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ وَذَہَبَ فِیْ ذٰلِکَ - فِیْمَا نَرَی وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - اِلٰی أَنَّ مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِ أَنَّہَا فِیْ لَیْلَۃٍ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ بِعَیْنِہَا ہُوَ حَدِیْثُ بِلَالٍ ، وَحَدِیْثُ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ فَاِذَا مَضَتْ لَیْلَۃُ سَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ ، عُلِمَ أَنَّ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ قَدْ کَانَتْ ، فَحَکَمَ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ وَقِیْلَ ذٰلِکَ فَلَیْسَ بِعِلْمِ کَوْنِہَا فَکَذٰلِکَ لَمْ یُحْکَمْ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ .وَہٰذَا الْقَوْلُ تَشْہَدُ لَہُ الْآثَارُ الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا ، فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٤٥٤٩: قتادہ نے مطرف بن عبداللہ سے نقل کیا وہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیلۃ القدر کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ یہ ان روایات میں سے آخری روایت ہے جو لیلۃ القدر کے متعلق معلومات کے سلسلہ میں ہمیں میسر و مہیا ہوئیں۔ کہ وہ کون سی رات ہے ؟ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی کچھ معلوم ہوا ہے البتہ جو صحابہ کرام اور تابعین سے منقول ہے اس کا مفہوم تقریباً اس سے ملتا جلتا ہے۔ یہاں ہمیں لیلۃ القدر کے متعلق تفصیل کی اس لیے ضرورت پیش آئی کہ ہمارے علماء کا اس سلسلہ میں باہمی اختلاف کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے انت طالق فی لیلۃ القدر تو اس عورت کو کب طلاق ہوگی۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول یہ ہے کہ اگر یہ بات رمضان سے پہلے کہی تو جب تک رمضان کا مہینہ نہ گزرے گا طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ اس میں اختلاف ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کی کون سی رات میں ہے جیسا ہم نے اس سلسلہ میں بیان کردیا کہ بعض روایات سے اس کا تمام ماہ میں دائر ہونا معلوم ہوتا ہے اور بعض روایات سے خاص راتوں میں پایا جانا معلوم ہوتا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں طلاق کے وقوع کا اس وقت حکم لگاؤں گا جبکہ مہینہ گزر جائے گا کیونکہ مجھے اس سے پختہ طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ وقت گزر گیا کہ جس میں اس نے طلاق واقع کی اور طلاق واقع ہوگئی۔ امام صاحب فرماتے ہیں اگر اس نے کہا فی شہر رمضان۔ ابتداء یا انتہا میں یا درمیان میں تو طلاق اس وقت تک واقع نہ ہوگی جب تک مہینے کا بقیہ حصہ نہ گزر جائے اور تمام رمضان نہ گزرے جو آئندہ سال آ رہا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ مہینے کا جو حصہ گزرا وہ اس میں گزر چکی تو اس کو طلاق سارا رمضان گزرنے تک نہ ہوگی جو کہ آئندہ سال آ رہا ہے کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ رات مہینے کا جو حصہ باقی ہے اس میں ہو تو اس میں طلاق واقع ہوجائے۔ اس صورت میں اس شخص کی طرح ہوگا۔ جس نے اپنی بیوی کو رمضان سے پہلے کہا : انت طالق لیلۃ القدر تو اس کے متعلق طلاق کا فیصلہ ماہ رمضان گزرنے کے بعد ہو سکے گا۔ امام صاحب فرماتے ہیں جب اس میں اشکال پیدا ہوگیا تو میں اس کے متعلق طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ اس وقت ہی کروں گا جب مجھے معلوم ہوجائے گا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے اور اس کا مجھے علم نہیں جب تک کہ پورا رمضان نہ گزر جائے جس میں لیلۃ القدر پائی جاتی ہے اور وہ رمضان جو کہ اس کے بعد آنے والا ہے وہ بھی۔ یہ تو امام ابوحنیفہ (رح) کا اس سلسلہ میں مذہب ہے۔ امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے کہ بعض اوقات تو وہ بھی یہی فرماتے ہیں اور بعض اوقات یہ فرماتے ہیں جب اس نے یہ بات رمضان المبارک کے بعض دنوں میں کہی تو اس پر طلاق کا اس وقت حکم کیا جائے گا جب آئندہ سال کے رمضان سے اتنے دن گزر جائیں۔ ابو یوسف کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ رات مکمل سال میں ہے اور جب اس قول پر پورا سال گزر گیا تو ہم نے یقین سے جان لیا کہ وہ رات اس میں آگئی پس طلاق واقع ہوجائے گی۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں ‘ میرے نزدیک یہ قول کچھ وزن نہیں رکھتا کیونکہ ہمیں یہ نہیں کہا گیا کہ لیلۃ القدر تمام سال میں اس طور پر کہ جس میں رمضان کا مہینہ ایک سال میں مکمل نہ آتا ہو۔ بلکہ ہمیں یہ
بتلایا گیا کہ ہر سال کے رمضان المبارک میں یہ رات پائی جاتی ہے۔ کتاب و سنت کی دلالت اس پر ہے جیسا کہ اس باب میں ہم پہلے ذکر کر آئے۔ پس جب یہ اسی طرح ہے۔ تو متکلم کا کلام جب کہ اس نے رمضان المبارک کا کچھ حصہ گزرنے پر کیا ” انت طلاق لیلۃ القدر “ میں احتمال ہوا لیلۃ القدر اس مہینہ کے گزشتہ دنوں میں اور اس وقت سے لے کر اگلے سال کے رمضان تک ہو جس میں لیلۃ القدر نہیں۔ حالانکہ مذکورہ بات سے یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ اس ترتیب سے امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ثابت ہوگیا۔ امام ابویوسف (رح) کا دوسرا قولہ ہے کہ امام ابو یوسف (رح) بعض اوقات یہ کہتے ہیں کہ اگر رمضان المبارک کے کسی حصہ میں اس کو یہ بات کہے تو جب تک ستائیسویں شب نہ گزرنے پائے طلاق واقع نہ ہوگی۔ ہمارے نزدیک انھوں نے یہ مسلک اس روایت کی بنیاد پر اپنایا ہے کہ جس میں لیلۃ القدر رمضان المبارک کی ایک مخصوص رات ہے جیسا کہ حضرت ابی بن کعب اور بلال (رض) کی روایات میں وارد ہے اس بناء پر جب ستائیس رمضان گزر جائے گی تو لیلۃ القدر گزر چکی جس سے طلاق کو مشروط کیا تھا۔ فلہذا اس کو طلاق پڑجائے گی اور وقوع طلاق کا فیصلہ کردیا جائے گا اور اس سے پہلے چونکہ اس کے گزرنے کا علم نہیں ہوا پس وقوع طلاق کا حکم نہ دیا جائے گا۔ اس قول کی شاہد وہ روایات ہیں جو ہم گزشتہ اوراق میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر آئے ہیں۔
لیلۃ القدر کے متعلق تفصیل کی وجہ : یہاں ہمیں لیلۃ القدر کے متعلق تفصیل کی اس لیے ضرورت پیش آئی کہ ہمارے علماء کا اس سلسلہ میں باہمی اختلاف کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے انت طالق فی لیلۃ القدر تو اس عورت کو کب طلاق ہوگی۔
امام ابوحنیفہ (رح) کا قول : اگر یہ بات رمضان سے پہلے کہی تو جب تک رمضان کا مہینہ نہ گزرے گا طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ اس میں اختلاف ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کی کون سی رات میں ہے جیسا ہم نے اس سلسلہ میں بیان کردیا کہ بعض روایات سے اس کا تمام ماہ میں دائر ہو اور بعض روایات سے خاص راتوں میں پایا جانا معلوم ہوتا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں طلاق کے وقوع کو اس وقت حکم لگاؤں گا جبکہ مہینہ گزر جائے گا کیونکہ مجھے اس سے پختہ طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ وقت گزر گیا کہ جس میں اس سے طلاق واقع کی اور طلاق واقع ہوگئی۔
امام صاحب فرماتے ہیں اگر اس نے کہا فی شہر رمضان۔ ابتداء یا انتہا میں یا درمیان میں تو طلاق اس وقت تک واقع نہ ہوگی جب تک مہینے کا بقیہ حصہ نہ گزر جائے اور تمام رمضان نہ گزرے جو آئدنہ سال والا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ مہینے کا جو حصہ گزرا وہ اس میں گزر چکی تو اس کو طلاق سارا رمضان گزرنے تک نہ ہوگی جو کہ آئندہ سال آ رہا ہے کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ رات مہینے کا جو حصہ باقی ہے اس میں ہو تو اس میں طلاق واقع ہوجائے۔ اس صورت میں اس شخص کی طرح ہوگا۔ جس نے اپنی بیوی کو رمضان سے پہلے کہا انت طلاق لیلۃ القدر تو اس کے متعلق طلاق کا فیصلہ ماہ رمضان گزرنے کے بعد ہو سکے گا۔ امام صاحب فرماتے ہیں جب اس میں اشکال پیدا ہوگیا تو میں اس کے متعلق طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ اس وقت ہی کروں گا جب مجھے معلوم ہوجائے گا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے اور اس کا مجھے علم نہیں جب تک کہ پورا رمضان نہ گزر جائے جس میں لیلۃ القدر پائی جاتی ہے اور وہ رمضان جو کہ اس کے بعد آنے والا ہے وہ بھی۔ یہ تو امام ابوحنیفہ (رح) کا اس سلسلہ میں مذہب ہے۔
امام ابو یوسف (رح) کا قول : بعض اوقات تو وہ بھی یہی فرماتے ہیں اور بعض اوقات یہ فرماتے ہیں جب اس نے یہ بات رمضان المبارک کے بعض دنوں میں کہی تو اس پر طلاق کا اس وقت حکم کیا جائے گا جب آئندہ سال کے رمضان سے اتنے دن گزر جائیں۔
ابو یوسف کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ رات مکمل سال میں ہے اور جب اس قول پر پورا سال گزر گیا تو ہم نے یقین سے جان لیا کہ وہ رات اس میں آگئی پس طلاق واقع ہوجائے گی۔
تبصرہ طحاوی (رح) : میرے نزدیک یہ قول کچھ وزن نہیں رکھتا کیونکہ ہمیں یہ نہیں کہا گیا کہ لیلۃ القدر تمام سال میں اس طور پر ہے کہ جس میں رمضان کا مہینہ ایک سال میں مکمل نہ آتا ہو۔ بلکہ ہمیں یہ بتلایا گیا کہ ہر سال کے رمضان المبارک میں یہ رات پائی جاتی ہے۔ کتاب و سنت کی دلالت اس پر ہے جیسا کہ اس باب میں ہم پہلے ذکر کر آئے۔ پس جب یہ اسی طرح ہے۔ تو متکلم کا کلام جب کہ اس نے رمضان المبارک کا کچھ حصہ گزرنے پر کیا ” انت طالق لیلۃ القدر “ میں احتمال ہوا لیلۃ القدر اس مہینہ کے گزشتہ دنوں میں ہو اور اس وقت سے لے کر اگلے سال کے رمضان تک ہو جس میں لیلۃ القدر نہیں۔ حالانکہ یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔
اس ترتیب سے امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ثابت ہوگیا۔
امام ابویوسف (رح) کا دوسرا قول : امام ابو یوسف (رح) بعض اوقات یہ کہتے ہیں کہ اگر رمضان المبارک کے کسی حصہ میں اس کو یہ بات کہے تو جب تک ستائیسویں شب نہ گزرنے پائے طلاق واقع نہ ہوگی۔
تبصرہ طحاوی (رح) : ہمارے نزدیک انھوں نے یہ مسلک اس روایت کی بنیاد پر اپنایا ہے کہ جس میں لیلۃ القدر رمضان المبارک کی ایک مخصوص رات ہے جیسا کہ حضرت ابی بن کعب اور بلال (رض) کی روایات میں وارد ہے اس بناء پر جب ستائیس رمضان گزر جائے گی تو لیلۃ القدر گزر چکی جس سے طلاق کو مشروط کیا تھا۔ فلہذا اس کو طلاق پڑجائے گی اور وقوع طلاق کا فیصلہ کردیا جائے گا اور اس سے پہلے چونکہ اس کے گزرنے کا علم نہیں ہوا پس وقوع طلاق کا حکم نہ دیا جائے گا۔ اس قول کی شاہد وہ روایات ہیں جو ہم گزشتہ اوراق میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر آئے ہیں۔
: اس باب کے عنوان کے مضمون کی اس قدر تفصیل اور توجیہہ نہیں جتنی ضمنی مسئلہ تعیین لیلۃ القدر کی کی گئی لیلۃ القدر کی مکمل تحقیق بمع دلائل و جوابات یہاں ذکر کردی اور روایات کی تطبیق کی شاندار کوشش فرمائی۔ جزاہ اللہ عنا جمیعا وعن جمیع الامہ ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔