HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4890

۴۸۹۰: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَا : ثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکِ بْنِ النَّضْرِ أَنَّ عَمَّتَہُ الرُّبَیِّعَ لَطَمَتْ جَارِیَۃً فَکَسَرَتْ ثَنِیَّتَہَا فَطَلَبُوْا اِلَیْہِمُ الْعَفْوَ فَأَبَوْا ، وَالْأَرْشَ ، فَأَبَوْا اِلَّا الْقِصَاصَ .فَاخْتَصَمُوْا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ .فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَتُکْسَرُ ثَنِیَّۃُ الرُّبَیِّعِ لَا وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَا تُکْسَرُ ثَنِیَّتُہَا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا أَنَسُ کِتَابُ اللّٰہِ الْقِصَاصُ فَرَضِیَ الْقَوْمُ فَعَفَوْا .وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہُ یَزِیْدُ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ .فَلَمَّا کَانَ الْحُکْمُ الَّذِیْ حَکَمَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرُّبَیِّعِ لِلْمَنْزُوْعَۃِ ثَنِیَّتُہَا ہُوَ الْقِصَاصُ وَلَمْ یُخَیِّرْہَا بَیْنَ الْقِصَاصِ وَأَخْذِ الدِّیَۃِ وَہَاجَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ حِیْنَ أَبَیْ ذٰلِکَ ، فَقَالَ یَا أَنَسُ کِتَابُ اللّٰہِ الْقِصَاصُ فَعَفَا الْقَوْمُ فَلَمْ یَقْضِ لَہُمْ بِالدِّیَۃِ .ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الَّذِیْ یَجِبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَسُنَّۃِ رَسُوْلِہِ فِی الْعَمْدِ ہُوَ الْقِصَاصُ لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ یَجِبُ لِلْمَجْنِیِّ عَلَیْہِ الْخِیَارُ بَیْنَ الْقِصَاصِ وَبَیْنَ الْعَفْوِ مِمَّا یَأْخُذُ بِہٖ الْجَانِیْ اِذًا لَخَیَّرَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْلَمَہَا مَا لَہَا أَنْ تَخْتَارَہُ مِنْ ذٰلِکَ .أَلَا تَرَی أَنَّ حَاکِمًا لَوْ تَقَدَّمَ اِلَیْہِ رَجُلٌ فِیْ شَیْئٍ یَجِبُ لَہُ فِیْہِ أَحَدُ شَیْئَیْنِ فَثَبَتَ عِنْدَہُ حَقُّہُ أَنَّہٗ لَا یَحْکُمُ لَہُ بِأَحَدِ الشَّیْئَیْنِ دُوْنَ الْآخَرِ وَاِنَّمَا یَحْکُمُ لَہُ بِأَنْ یَخْتَارَ مَا أَحَبَّ مِنْ کَذَا وَمِنْ کَذَا فَاِنْ تَعَدَّیْ ذٰلِکَ فَقَدْ قَصُرَ عَنْ فَہْمِ الْحُکْمِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْکَمُ الْحُکَمَائِ .فَلَمَّا حَکَمَ بِالْقِصَاصِ وَأَخْبَرَ أَنَّہٗ کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الَّذِی فِیْ مِثْلِ ذٰلِکَ ہُوَ الْقِصَاصُ لَا غَیْرُہٗ۔ فَلَمَّا ثَبَتَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا وَجَبَ أَنْ یُعْطَفَ عَلَیْہِ حَدِیْثُ أَبِیْ شُرَیْحٍ وَأَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَیُجْعَلَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْہِمَا فَہُوَ بِالْخِیَارِ بَیْنَ أَنْ یَعْفُوَ أَوْ بَیْنَ أَنْ یَقْتَصَّ أَوْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ عَلَی الرِّضَائِ مِنَ الْجَانِیْ بِغُرْمِ الدِّیَۃِ حَتّٰی تَتَّفِقَ مَعَانِیْ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ وَمَعْنَیْ حَدِیْثِ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّ النَّظَرَ یَدُلُّ عَلٰی مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی وَذٰلِکَ أَنَّ عَلَی النَّاسِ أَنْ یَسْتَحْیُوْا أَنْفُسَہُمْ .فَاِذَا قَالَ الَّذِی لَہُ سَفْکُ الدَّمِ قَدْ رَضِیتُ بِأَخْذِ الدِّیَۃِ وَتَرْکِ سَفْکِ الدَّمِ وَجَبَ عَلَی الْقَاتِلِ اسْتِحْیَائُ نَفْسِہِ فَاِذَا وَجَبَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ أُخِذَ مِنْ مَالِہِ وَاِنْ کَرِہَ .فَالْحُجَّۃُ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ عَلَی النَّاسِ اسْتِحْیَائَ أَنْفُسِہِمْ کَمَا ذَکَرْتُ بِالدِّیَۃِ وَبِمَا جَاوَزَ الدِّیَۃَ وَجَمِیْعَ مَا یَمْلِکُوْنَ .وَقَدْ رَأَیْنَاہُمْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْوَلِیَّ لَوْ قَالَ لِلْقَاتِلِ قَدْ رَضِیتُ أَنْ آخُذَ دَارَک ہٰذِہِ عَلٰی أَنْ لَا أَقْتُلَک أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَی الْقَاتِلِ فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ اللّٰہِ تَسْلِیْمُ ذٰلِکَ لَہُ وَحَقْنُ دَمِ نَفْسِہِ فَاِنْ أَبَی لَمْ یُجْبَرْ عَلَیْہِ بِاتِّفَاقِہِمْ عَلٰی ذٰلِکَ وَلَمْ یُؤْخَذْ مِنْہُ ذٰلِکَ کُرْہًا فَیُدْفَعُ اِلَی الْوَلِیِّ .فَکَذٰلِکَ الدِّیَۃُ اِذَا طَلَبَہَا الْوَلِیُّ فَاِنَّہٗ یَجِبُ عَلَی الْقَاتِلِ فِیْمَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَبِّہِ أَنْ یَسْتَحِیَ نَفْسَہُ بِہَا وَاِنْ أَبَیْ ذٰلِکَ لَمْ یُجْبَرْ عَلَیْہِ وَلَمْ یُؤْخَذْ مِنْہُ کُرْہًا .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فِیْ قَوْلِہِمْ اِنَّ لِلْوَلِیِّ أَنْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ وَاِنْ کَرِہَ ذٰلِکَ الْجَانِی .فَنَقُوْلُ لَہُمْ : لَیْسَ یَخْلُو ذٰلِکَ مِنْ أَحَدِ وُجُوْہٍ ثَلَاثَۃٍ : اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ لِأَنَّ الَّذِی لَہٗ عَلَی الْقَاتِلِ ہُوَ الْقِصَاصُ وَالدِّیَۃُ جَمِیْعًا فَاِذَا عَفَا عَن الْقِصَاصِ فَأَبْطَلَہُ بِعَفْوِہِ کَانَ لَہٗ أَخْذُ الدِّیَۃِ .وَاِمَّا أَنْ یَکُوْنَ الَّذِی وَجَبَ لَہُ ہُوَ الْقِصَاصُ خَاصَّۃً وَلَہٗ أَنْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ بَدَلًا مِنْ ذٰلِکَ الْقِصَاصِ .وَاِمَّا أَنْ یَکُوْنَ الَّذِی وَجَبَ لَہُ ہُوَ أَحَدُ أَمْرَیْنِ اِمَّا الْقِصَاصُ وَاِمَّا الدِّیَۃُ یَخْتَارُ مِنْ ذٰلِکَ مَا شَائَ لَیْسَ یَخْلُو ذٰلِکَ مِنْ أَحَدِ ہٰذِہِ الثَّلَاثَۃِ الْوُجُوْہِ .فَاِنْ قُلْتُمْ : الَّذِی وَجَبَ لَہُ ہُوَ الْقِصَاصُ وَالدِّیَۃُ جَمِیْعًا فَہٰذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یُوْجِبْ عَلٰی أَحَدٍ فَعَلَ فِعْلًا أَکْثَرَ مِمَّا فَعَلَ فَقَدْ قَالَ عَزَّ وَجَلَّ وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ .فَلَمْ یُوْجِبْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی أَحَدٍ بِفِعْلٍ یَفْعَلُہُ أَکْثَرَ مِمَّا فَعَلَ وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ لَوَجَبَ أَنْ یُقْتَلَ وَیَأْخُذَ الدِّیَۃَ .فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ لَہُ بَعْدَ قَتْلِہِ أَخَذُ الدِّیَۃِ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الَّذِیْ کَانَ وَجَبَ لَہُ خِلَافُ مَا قُلْتُمْ .وَاِنْ قُلْتُمْ : اِنَّ الَّذِی وَجَبَ لَہُ ہُوَ الْقِصَاصُ وَلٰـکِنْ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ الدِّیَۃَ بَدَلًا مِنْ ذٰلِکَ الْقِصَاصِ فَاِنَّا لَا نَجِدُ حَقًّا لِرَجُلٍ یَکُوْنُ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ بِہٖ بَدَلًا بِغَیْرِ رِضَائِ مَنْ عَلَیْہِ ذٰلِکَ الْحَقُّ فَبَطَلَ ہٰذَا الْمَعْنَی أَیْضًا .وَاِنْ قُلْتُمْ : اِنَّ الَّذِی وَجَبَ لَہٗ أَحَدُ أَمْرَیْنِ : اِمَّا الْقِصَاصُ وَاِمَّا الدِّیَۃُ یَأْخُذُ مِنْہُمَا مَا أَحَبَّ وَلَمْ یَجِبْ لَہٗ أَنْ یَأْخُذَ وَاحِدًا مِنْہُمَا دُوْنَ الْآخَرِ .فَاِنَّہٗ یَنْبَغِیْ اِذَا عَفَا عَنْ أَحَدِہِمَا بِعَیْنِہِ أَنْ لَا یَجُوْزَ عَفْوُہُ لِأَنَّ حَقَّہُ لَمْ یَکُنْ ہُوَ الْمَعْفُوَّ عَنْہُ بِعَیْنِہِ فَیَکُوْنُ لَہُ اِبْطَالُہُ اِنَّمَا کَانَ لَہٗ أَنْ یَخْتَارَہُ فَیَکُوْنُ ہُوَ حَقَّہُ أَوْ یَخْتَارُ غَیْرَہُ فَیَکُوْنُ ہُوَ حَقَّہُ فَاِذَا عَفَا عَنْ أَحَدِہِمَا قَبْلَ اخْتِیَارِہِ اِیَّاہُ وَقَبْلَ وُجُوْبِہٖ لَہُ بِعَیْنِہِ فَعَفْوُہُ بَاطِلٌ .أَلَا تَرَی أَنَّ رَجُلًا لَوْ جُرِحَ أَبُوْھُ عَمْدًا فَعَفَا عَنْ جَارِحِ أَبِیْھَاثُمَّ مَاتَ أَبُوْھُ مِنْ تِلْکَ الْجِرَاحَۃِ وَلَا وَارِثَ لَہُ غَیْرُہُ أَنَّ عَفْوَہُ بَاطِلٌ لِأَنَّہٗ اِنَّمَا عَفَا قَبْلَ وُجُوْبِ الْمَعْفُوِّ عَنْہُ لَہٗ۔فَلَمَّا کَانَ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ وَکَانَ الْعَفْوُ مِنَ الْقَاتِلِ قَبْلَ اخْتِیَارِہِ الْقِصَاصَ أَوْ الدِّیَۃَ جَائِزًا ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْقِصَاصَ قَدْ کَانَ وَجَبَ لَہُ بِعَیْنِہِ قَبْلَ عَفْوِہِ عَنْہُ وَلَوْلَا وُجُوْبُہٗ لَہُ اِذًا لَمَا کَانَ لَہُ اِبْطَالُہُ بِعَفْوِہِ کَمَا لَمْ یَجُزْ عَفْوُ الِابْنِ عَنْ دَمِ أَبِیْھَاقَبْلَ وُجُوْبِہٖ لَہٗ۔فَفِیْ ثُبُوْتِ مَا ذَکَرْنَا وَانْتِفَائِ ہٰذِہِ الْوُجُوْہِ الَّتِی وَصَفْنَا مَا یَدُلُّ أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَی الْقَاتِلِ عَمْدًا أَوْ الْجَارِحَ عَمْدًا ہُوَ الْقِصَاصُ لَا غَیْرُ ذٰلِکَ مِنْ دِیَۃٍ وَغَیْرِہَا اِلَّا أَنْ یَصْلُحَ ہُوَ اِنْ کَانَ حَیًّا أَوْ وَارِثُہُ اِنْ کَانَ مَیْتًا ، وَالَّذِی وَجَبَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ عَلٰی شَیْئٍ ، فَیَکُوْنُ الصُّلْحُ جَائِزًا عَلٰی مَا اصْطَلَحَا عَلَیْہِ مِنْ دِیَۃٍ أَوْ غَیْرِہَا .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٨٩٠: حمیدالطویل نے حضرت انس بن مالک بن نصر (رض) سے روایت ہے کہ میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کو تھپڑ مار کر اس کا سامنے کا دانت توڑ دیا انھوں نے ان سے معافی کا مطالبہ کیا تو انھوں نے انکار کردیا اور چٹی کا بھی انکار کردیا اور صرف قصاص چاہا۔ پھر وہ لوگ اپنا مقدمہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص کا حکم فرمایا تو انس بن نضر (رض) نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ربیع کے دانت توڑے جائیں گے نہیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اس ذات کی قسم ہے اس کا سامنے کا دانت نہ توڑا جائے گا اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے انس (رض) ! اللہ تعالیٰ کی کتاب تو قصاص کا حکم دیتی ہے پس وہ لوگ معافی پر راضی ہوگئے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا کردیتے ہیں۔ بعض روات نے دوسروں سے زائد الفاظ نقل کئے ہیں۔ جبکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس عورت کے دانت توڑے گئے تھے حضرت ربیع (رض) سے اس کا قصاص لینے کا فیصلہ فرمایا۔ اسے قصاص ودیت وصول کرنے کے درمیان اختیار نہیں دیا اور حضرت انس بن نضر (رض) نے جب انکار کرتے ہوئے اختلاف کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے انس ! اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تو قصاص کا حکم دیا گیا ہے تو ان لوگوں نے معاف کردیا پس آپ نے ان کے لیے دیت کا فیصلہ نہ فرمایا۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ قتل عمد (جان بوجھ کر قتل کرنے) کی صورت میں قرآن مجید اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صرف قصاص ثابت ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے قصاص اور معافی میں اختیار ہوتا کہ وہ اس کے بدلے میں جرم کرنے والے سے کچھ لے لے۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں اختیار دیتے اور انھیں بتلاتے کہ ان کو کیا کیا چیز اختیار کرنے کا حق ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی آدمی حاکم کے ہاں ایسا مقدمہ لے جائے جس میں اس کے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز واجب ہوتی ہو۔ تو حاکم کے ہاں اس کا یہ حق ثابت ہوگا کہ وہ (حاکم) کسی ایک چیز کا فیصلہ کرے اور دوسری چیز کو ترک کر دے بلکہ وہ اس کے لیے اس طرح فیصلہ کرے گا کہ فلاں فلاں چیزوں میں سے جس کو چاہے پسند کر کے اختیار کرے۔ پھر اگر وہ حاکم زیادتی کرتا ہے تو گویا اس نے فیصلے کی سمجھ میں کوتاہی کی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصل ہیں۔ پھر جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص کا فیصلہ فرمایا اور بتلایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا فیصلہ ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس قسم کی صورت میں صرف قصاص ہوتا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب جب کہ یہ روایت ثابت ہوگئی جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا تو حضرت ابو شریح اور ابوہریرہ (رض) کی روایات کو اس کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ کہ جہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں قصاص لینے ‘ معاف کرنے یا دیت لینے کے مباین اختیار کا تذکرہ ہے وہ مجرم کی رضامندی پر موقوف ہے کہ وہ تاوان کے طور پر دیت ادا کرے۔ تاکہ ان دونوں روایات کے معانی اور حدیث انس (رض) کا معنی ایک جیسا ہوجائے۔ اگر کوئی معترض کہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ قیاس تو پہلے فریق کی تائید کا متقاضی ہے وہ اس طرح کہ لوگوں پر اپنی زندگی کی بقاء ضروری ہے تو جب وہ شخص جس کو خون بہانے کا حق ہے وہ کہے کہ میں دیت لینے پر راضی ہوں اور خون بہانے سے دست بردار ہوتا ہوں تو قاتل پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو زندہ بچائے۔ جب یہ اس پر لازم ہوگیا تو اب اس سے دیت لی جائے گی خواہ وہ اس کو ناپسندکرے۔ تو اس کے جواب میں کہیں گے کہ اگرچہ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانیں بچائیں جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے خواہ دیت کے ساتھ چیز سے ہو جو دیت سے بڑھ جائے بلکہ اپنی تمام املاک سے ہو اور یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ولی قاتل کو کہے کہ میں اس بات پر راضی ہوں کہ میں تمہارا یہ مکان لے لوں اور تجھے قتل نہ کروں تو اللہ تعالیٰ کے حق کی وجہ سے قاتل پر لازم ہے کہ وہ مکان دے کر اپنی جان بچائے۔ مگر اس پر بھی سب متفق ہیں کہ قاتل پر زبردستی نہیں کی جاسکتی اور اس کی مرضی کے خلاف مکان اس سے لے کر ولی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ بالکل دیت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ جب مقتول کا ولی اس کا مطالبہ کرے تو دیانۃً قاتل پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ادائیگی کر کے اپنے نفس کو بچائے لیکن اگر وہ انکار کرے تو اس پر زبردستی نہیں کی جاسکتی اور اس کی مرضی کے خلاف وصولی نہ کی جائے گی۔ سوال : فریق اوّل کے قول کہ ولی کو دیت لینے کا حق ہے اگرچہ مجرم اس کو ناپسند کرے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم گزارش کریں گے کہ اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حق اس لیے لازم ہے کہ قاتل پر قصاص اور دیت دونوں لازم ہیں جب اس نے قصاص معاف کر کے معافی کے سبب اس کو باطل کردیا تو اب اسے دیت لینے کا حق ہوگا۔ دوسرا یہ کہ قاتل پر صرف قصاص لازم ہوا تھا اور اس کے لیے جائز ہے کہ وہ قصاص کے بدلے دیت لے لے۔ تیسرا قاتل پر لازم تو دونوں میں سے ایک ہوا خواہ وہ قصاص ہو یا دیت۔ اس کی مرضی ہے کہ دونوں میں سے ایک کا چناؤ کرے ان صورتوں سے زائد کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ اب ہم آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ اگر تم کہو کہ قصاص و دیت دونوں واجب ہیں تو یہ بات فاسد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی فعل کے کرنے والے پر اس کے فعل سے زائد کوئی چیز واجب نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس والعین بالعین۔۔۔ (المائدہ : ٤٥) اور ہم نے ان پر جان کے بدلے جان آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ ناک کے بدلے ناک ‘ کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ لازم کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تو اس کے فعل سے زائد بدلہ لازم نہیں کیا۔ اگر یہ بات اس طرح مان لی جائے تو پھر لازم آئے گا کہ وہ قاتل کو قتل بھی کرے اور دیت بھی وصول کرے۔ تو جب قصاص میں قتل کے بعد دیت نہیں لی جاسکتی تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جو کچھ لازم ہے وہ آپ کے قول کے مخالف ہے۔ نمبر 2: اور اگر تم یہ کہو کہ واجب تو صرف قصاص ہے مگر وہ اس کے عوض دیت لے سکتا ہے تو ہم شریعت میں ایسی صورت نہیں پاتے کہ کوئی حق والا اس کی مرضی کے خلاف جس کے ذمہ حق ہے اس کا بدل وصول کرے۔ پس یہ صورت بھی باطل ٹھہری۔ نمبر 3: اب صرف ایک صورت رہ گئی کہ دو میں سے ایک واجب ہے یا تو قصاص ہوگا یا دیت لی جائے گی لیکن صاحب حق کو کسی ایک کے پسند کا اختیار ہے۔ لیکن اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی کو لے کہ دوسری نہ لے سکتا ہو۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب دونوں میں سے کسی ایک معین کو معاف کردیا تو یہ معاف کرنا جائز نہ ہو۔ کیونکہ جو کچھ اس نے معاف کیا یہ اس کا معین حق نہ تھا۔ پس وہ اس کو باطل کرسکتا ہے اس کو اس بات کا حق تھا کہ وہ اس کو اختیار کرے (اگر وہ کرلیتا تو اس کا حق ہوجاتا) یا پھر دوسری کو اختیار کرتا تو وہ اس کا حق ہوجاتا۔ پس جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرے اور معینہ طور پر اس کے لازم ہونے سے پہلے دوسرے حق کو معاف کر دے تو یہ معاف کرنا باطل ہوگا۔ کیا تم اس بات کو نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے کسی کے والد کو جان بوجھ کر زخمی کردیا۔ اب بیٹے نے اپنے والد کو زخمی کرنے والے شخص کو معاف کردیا پھر اس کا والد اسی زخم سے مرگیا اور مرنے والے کا یہ معاف کرنے والا بیٹا اکلوتا وارث ہے تو اس بیٹے کا معاف کرنا باطل ہوگا۔ کیونکہ اس نے معافی کا حق ملنے سے پہلے معاف کردیا۔ پس جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے جب اس کا معاملہ اسی طرح ہے اور قصاص یا دیت لینے سے پہلے قاتل کو معاف کرنا جائز ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ معاف کرنے سے پہلے صرف قصاص واجب تھا اور اگر وہ واجب نہ ہوتا تو وہ معافی کے ذریعہ اسے باطل نہ کرسکتا جیسا کہ بیٹا اپنے باپ کا خون اس وقت تک معاف نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ اس کے لیے واجب نہ ہو۔ پس جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس کے ثبوت اور ان تین وجوہ کی نفی جن کو ہم نے بیان کیا ہے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جناب بوجھ کر قتل کرنے والے یا جان بوجھ کر زخمی کرنے والے پر قصاص واجب ہے کوئی دوسری چیز (دیت وغیرہ) لازم نہیں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ زندہ ہونے کی صورت میں قاتل خود اور اس کے مرجانے کی صورت میں اس کے ورثا کسی چیز پر باہمی صلح کرلیں تو وہ چیز واجب ہوگی اور دیت یا کسی دوسری چیز پر صلح جائز ہوگی۔ یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا ہے۔
تخریج : بخاری فی الصلح باب ٨‘ تفسیر سورة ٢‘ باب ٢٣‘ سورة ٥‘ باب ٦‘ مسلم فی القسامہ ٢٣‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٢٨‘ نسائی فی القسامۃ باب ١٦‘ ابن ماجہ فی الدیات باب ١٦‘ مسند احمد ٣‘ ١٢٨؍١٦٧۔
لغات : لطمت۔ تھپڑ مارنا۔ الثنیہ۔ سامنے والے دانت۔ الارش۔ دیت۔ لاوالذی۔ یہ الفاظ انس (رض) کے فضل و رحمت پر کامل یقین کی بنیاد پر کہے کہ وہ معافی کی صورت پیدا فرما دیں گے چنانچہ اسی طرح ہوا۔ یہ شرع کو حاشاوکلا رد کرنے کے لیے نہیں۔
جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس عورت کے دانت توڑے گئے تھے حضرت ربیع (رض) سے قصاص لینے کا فیصلہ فرمایا۔ اسے قصاص ودیت وصول کرنے کے درمیان اختیار نہیں دیا اور حضرت انس بن نضر (رض) نے جب انکار کرتے ہوئے اختلاف کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے انس ! اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تو قصاص کا حکم دیا گیا ہے تو ان لوگوں نے معاف کردیا پس آپ نے ان کے لیے دیت کا فیصلہ نہ فرمایا۔
پس اس سے ثابت ہوگیا کہ قتل عمد (جان بوجھ کر قتل کرنے) کی صورت میں قرآن مجید اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صرف قصاص ثابت ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے قصاص اور معافی میں اختیار ہوتا کہ وہ اس کے بدلے میں جرم کرنے والے سے کچھ لے لے۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں اختیار دیتے اور انھیں بتلاتے کہ ان کو کیا کیا چیز اختیار کرنے کا حق ہے۔
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی آدمی حاکم کے ہاں ایسا مقدمہ لے جائے جس میں اس کے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز واجب ہوتی ہو۔ تو حاکم کے ہاں اس کا یہ حق ثابت ہوگا کہ وہ (حاکم) کسی ایک چیز کا فیصلہ کرے اور دوسری چیز کو ترک کر دے بلکہ وہ اس کے لیے اس طرح فیصلہ کرے گا کہ فلاں فلاں چیزوں میں سے جس کو چاہے پسند کر کے اختیار کرے۔ پھر اگر وہ حاکم زیادتی کرتا ہے تو گویا اس نے فیصلے کی سمجھ میں کوتاہی کی۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصل ہیں۔ پھر جب جناب رسول اللۃ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص کا فیصلہ فرمایا اور بتلایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا فیصلہ ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس قسم کی صورت میں صرف قصاص ہوتا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
نوٹ : اب جب کہ یہ روایت ثابت ہوگئی جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا تو حضرت ابو شریح اور ابوہریرہ (رض) کی روایات کو اس کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ کہ جہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں قصاص لینے ‘ معاف کرنے یا دیت لینے کے مباین اختیار کا تذکرہ ہے وہ مجرم کی رضامندی پر موقوف ہے کہ وہ تاوان کے طور پر دیت ادا کرے۔ تاکہ ان دونوں روایات کے معانی اور حدیث انس (رض) کا معنی ایک جیسا ہوجائے۔
سوال : اگر کوئی یہ کہے کہ قیاس تو پہلے فریق کی تائید کا متقاضی ہے وہ اس طرح کہ لوگوں پر اپنی زندگی کی بقاء ضروری ہے تو جب وہ شخص جس کو خون بہانے کا حق ہے وہ کہے کہ میں دیت لینے پر راضی ہوں اور خون بہانے سے دست بردار ہوتا ہوں تو قاتل پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو زندہ بچائے۔ جب یہ اس پر لازم ہوگیا تو اب اس سے دیت لی جائے گی خواہ وہ اس کو ناپسندکرے۔
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانیں بچائیں جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے خواہ دیت کے ساتھ چیز سے ہو جو دیت سے بڑھ جائے بلکہ اپنی تمام املاک سے ہو اور یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ولی قاتل کو کہے کہ میں اس بات پر راضی ہوں کہ میں تمہارا یہ مکان لے لوں اور تجھے قتل نہ کروں تو اللہ تعالیٰ کے حق کی وجہ سے قاتل پر لازم ہے کہ وہ مکان دے کر اپنی جان بچائے۔
مگر اس پر بھی سب متفق ہیں کہ قاتل پر زبردستی نہیں کی جاسکتی اور اس کی مرضی کے خلاف مکان اس سے لے کر ولی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔
بالکل دیت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ جب مقتول کا ولی اس کا مطالبہ کرے تو دیانۃً قاتل پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ادائیگی کر کے اپنے نفس کو بچائے لیکن اگر وہ انکار کرے تو اس پر زبردستی نہیں کی جاسکتی اور اس کی مرضی کے خلاف وصولی نہ کی جائے گی۔
اعتراض : فریق اوّل کے قول کہ ولی کو دیت لینے کا حق ہے اگرچہ مجرم اس کو ناپسند کرے۔
جواب ہم گزارش کریں گے کہ اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حق اس لیے لازم ہے کہ قائل پر قصاص اور دیت دونوں لازم ہیں جب اس نے قصاص معاف کر کے معافی کے سبب اس کو باطل کردیا تو اب اسے دیت لینے کا حق ہوگا۔ دوسرا یہ کہ قاتل پر صرف قصاص لازم ہوا تھا اور اس کے لیے جائز ہے کہ وہ قصاص کے بدلے دیت لے لے۔ تیسرا قاتل پر لازم تو دونوں میں سے ایک ہوا خواہ وہ قصاص ہو یا دیت۔ اسی کی مرضی ہے کہ دونوں میں سے ایک کا چناؤ کرے ان صورتوں سے زائد کوئی صورت نہیں بن سکتی۔
اب ہم آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ اگر تم کہو کہ قصاص و دیت دونوں واجب ہیں تو یہ بات فاسد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی فعل کے کرنے والے پر اس کے فعل سے زائد کوئی چیز واجب نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس والعین بالعین۔۔۔ (المائدہ : ٤٥) اور ہم نے ان پر جان کے بدلے جان آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ ناک کے بدلے ناک ‘ کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ لازم کیا۔
پس اللہ تعالیٰ نے تو اس کے فعل سے زائد بدلہ لازم نہیں کیا۔ اگر یہ بات اس طرح مان لی جائے تو پھر لازم آئے گا کہ وہ قاتل کو قتل بھی کرے اور دیت بھی وصول کرے۔
تو جب قصاص میں قتل کے بعد دیت نہیں لی جاسکتی تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جو کچھ لازم ہے وہ آپ کے قول کے مخالف ہے۔
نمبر 2: اور اگر تم یہ کہو کہ واجب تو صرف قصاص ہے مگر وہ اس کے عوض دیت لے سکتا ہے تو ہم شریعت میں ایسی صورت نہیں پاتے کہ کوئی حق والا اس کی مرضی کے خلاف جس کے ذمہ حق ہے اس کا بدل وصول کرے۔ پس یہ صورت بھی باطل ٹھہری۔
نمبر 3: اب صرف ایک صورت رہ گئی کہ دو میں سے ایک واجب ہے یا تو قصاص ہوگا یا دیت لی جائے گی لیکن صاحب حق کو کسی ایک کے پسند کا اختیار ہے۔ لیکن اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی کو لے کہ دوسری نہ لے سکتا ہو۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب دونوں میں سے کسی ایک معین کو معاف کردیا تو یہ معاف کرنا جائز نہ ہو۔ کیونکہ جو کچھ اس نے معاف کیا یہ اس کا معین حق نہ تھا۔ پس وہ اس کو باطل کرسکتا ہے اس کو اس بات کا حق تھا کہ وہ اس کو اختیار کرے (اگر وہ کرلیتا تو اس کا حق ہوجاتا) یا پھر دوسری کو اختیار کرتا تو وہ اس کا حق ہوجاتا۔ پس جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرے اور معینہ طور پر اس کے لازم ہونے سے پہلے دوسرے حق کو معاف کر دے تو یہ معاف کرنا باطل ہوگا۔ کیا تم اس بات کو نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے کسی کے والد کو جان بوجھ کر زخمی کردیا۔ اب بیٹے نے اپنے والد کو زخمی کرنے والے شخص کو معاف کردیا پھر اس کا والد اسی زخم سے مرگیا اور مرنے والے کا یہ معاف کرنے والا بیٹا اکلوتا وارث ہے تو اس بیٹے کا معاف کرنا باطل ہوگا۔ کیونکہ اس نے معافی کا حق ملنے سے پہلے معاف کردیا۔
خلاصہ کلام : جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے جب اس کا معاملہ اسی طرح ہے اور قصاص یا دیت لینے سے پہلے قاتل کو معاف کرنا جائز ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ معاف کرنے سے پہلے صرف قصاص واجب تھا اور اگر وہ واجب نہ ہوتا تو وہ معافی کے ذریعہ اسے باطل نہ کرسکتا جیسا کہ بیٹا اپنے باپ کا خون اس وقت تک معاف نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ اس کے لیے واجب نہ ہو۔
پس جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس کے ثبوت اور ان تین وجوہ کی نفی جن کو ہم نے بیان کیا ہے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جان بوجھ کر قتل کرنے والے یا جان بوجھ کر زخمی کرنے والے پر قصاص واجب ہے کوئی دوسری چیز (دیت وغیرہ) لازم نہیں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ زندہ ہونے کی صورت میں قاتل خود اور اس کے مرجانے کی صورت میں اس کے ورثا کسی چیز پر باہمی صلح کرلیں تو وہ چیز واجب ہوگی اور دیت یا کسی دوسری چیز پر صلح جائز ہوگی۔
یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) و ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔