HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

7253

۷۲۵۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عِیْسَیْ بْنِ تَلِیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَۃَ الْقِتْبَانِیُّ ، عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ ، عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ عَمِّہٖ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ خَالَتِیْ عَمْرَۃُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَائِشَۃَ ، مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَہٰذَا مَا یَنْبَغِیْ لِلنَّاسِ أَنْ یَفْعَلُوْھُ اِلَی الْیَوْمِ ، وَلَیْسَ بِمَنْسُوْخٍ ، فَمَا یُنْکِرُوْنَ أَنَّ الْقُرْعَۃَ فِی الْعَتَاقِ فِی الْمَرَضِ کَذٰلِکَ .قِیْلَ لَہُمْ : قَدْ ذَکَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فِیْ مَوْضِعِہٖ، مَا یُغْنِیْ، وَلٰـکِنَّا نَذْکُرُ ہَاہُنَا ، مَا فِیْہِ أَیْضًا دَلِیْلُ أَنْ لَا حُجَّۃَ لَکُمْ فِیْ ہٰذَا اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی. أَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ أَنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ یُسَافِرَ اِلٰی حَیْثُ أَحَبَّ ، وَاِنْ طَالَ سَفَرُہُ ذٰلِکَ ، وَلَیْسَ مَعَہُ أَحَدٌ مِنْ نِسَائِہٖ، وَأَنَّ حُکْمَ الْقَسْمِ ، یَرْتَفِعُ عَنْہُ بِسَفَرِہٖ۔ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، کَانَتْ قُرْعَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ نِسَائِہٖ، فِیْ وَقْتِ احْتِیَاجِہِ اِلَی الْخُرُوْجِ بِاِحْدَاہُنَّ لِتَطِیْبَ نَفْسُ مَنْ لَا یَخْرُجُ بِہَا مِنْہُنَّ ، وَلِیُعْلَمَ أَنَّہٗ لَمْ یُحَابِ الَّتِی خَرَجَ بِہَا عَلَیْہِنَّ ، لِأَنَّہٗ لَمَّا کَانَ لَہٗ أَنْ یَخْرُجَ وَیُخَلِّفَہُنَّ جَمِیْعًا ، کَانَ لَہٗ أَنْ یَخْرُجَ وَیُخَلِّفَ مَنْ شَائَ مِنْہُنَّ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ الْقُرْعَۃَ اِنَّمَا تُسْتَعْمَلُ فِیْمَا یَسَعُ تَرْکَہَا ، وَفِیْمَا لَہٗ أَنْ یُمْضِیَہُ بِغَیْرِہَا .وَمِنْ ذٰلِکَ ، الْخَصْمَانِ یَحْضُرَانِ عِنْدَ الْحَاکِمِ ، فَیَدَّعِیْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلٰی صَاحِبِہٖ دَعْوَی .فَیَنْبَغِیْ لِلْقَاضِی أَنْ یُقْرِعَ بَیْنَہُمَا ، فَأَیُّہُمَا أُقْرِعَ ، بَدَأَ بِالنَّظَرِ فِیْ أَمْرِہٖ، وَلَہٗ أَنْ یَنْظُرَ فِیْ أَمْرِ مَنْ شَائَ مِنْہُمَا بِغَیْرِ قُرْعَۃٍ .فَکَانَ الْأَحْسَنُ بِہٖ ؛ لِبُعْدِ الظَّنِّ بِہٖ فِیْ ہٰذَا اسْتِعْمَالَ الْقُرْعَۃِ ، کَمَا اسْتَعْمَلَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَمْرِ نِسَائِہٖ۔ وَکَذٰلِکَ عَمِلَ الْمُسْلِمُوْنَ فِیْ أَقْسَامِہِمْ بِالْقُرْعَۃِ ، فِیْمَا قَدْ عَدَلُوْھُ بَیْنَ أَہْلِہِمْ ، بِمَا لَوْ أَمْضَوْہُ بَیْنَہُمْ ، لَا عَنْ قُرْعَۃٍ ، کَانَ ذٰلِکَ مُسْتَقِیْمًا .فَأَقْرَعُوْا بَیْنَہُمْ ؛ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُہُمْ ، وَتَرْتَفِعَ الظِّنَّۃُ ، عَمَّنْ تَوَلّٰی لَہُمْ قِسْمَتَہُمْ .وَلَوْ أَقْرَعَ بَیْنَہُمْ ، عَلٰی طَوَائِفَ مِنَ الْمَتَاعِ ، الَّذِیْ لَہُمْ ، قَبْلَ أَنْ یُعَدِّلَ وَیُسَوِّیَ قِیْمَتَہٗ عَلٰی أَمْلَاکِہِمْ مِنْہٗ، کَانَ ذٰلِکَ الْقَسْمُ بَاطِلًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْقُرْعَۃَ اِنَّمَا فُعِلَتْ ، بَعْدَ أَنْ تَقَدَّمَہَا ، مَا یَجُوْزُ الْقَسْمُ بِہٖ ، وَأَنَّہَا اِنَّمَا أُرِیْدَتْ لِانْتِفَائِ الظَّنِّ ، لَا بِحُکْمٍ یَجِبُ بِہَا .فَکَذٰلِکَ نَقُوْلُ کُلُّ قُرْعَۃٍ تَکُوْنُ مِثْلَ ہٰذَا، فَہِیَ حَسَنَۃٌ ، وَکُلُّ قُرْعَۃٍ یُرَادُ بِہَا وُجُوْبُ حُکْمٍ ، وَقَطْعُ حُقُوْقٍ مُتَقَدِّمَۃٍ ، فَہِیَ غَیْرُ مُسْتَعْمَلَۃٍ .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلَی الْقَوْلَیْنِ الْآخَرَیْنِ ، فَرَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ حَکَمَ فِی الْعَبْدِ ، اِذَا کَانَ بَیْنَ اثْنَیْنِ ، فَأَعْتَقَہُ أَحَدُہُمَا ، فَاِنَّہٗ حُرٌّ کُلُّہٗ، وَیَضْمَنُ اِنْ کَانَ مُوْسِرًا ، أَوْ اِنْ کَانَ مُعْسِرًا .فَفِیْ ذٰلِکَ مِنْ الْاِخْتِلَافِ ، مَا ذَکَرْنَاہُ فِی کِتَابِ الْعَتَاقِ۔ثُمَّ وَجَدْنَا فِیْ حَدِیْثِ أَبِی الْمَلِیْحِ الْہُذَلِیِّ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ شِقْصًا لَہٗ، فِیْ مَمْلُوْکٍ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَ حُرٌّ کُلُّہُ لَیْسَ لَہٗ شَرِیْکٌ۔فَبَیَّنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، الْعِلَّۃَ الَّتِیْ لَہَا عَتَقَ نَصِیْبُ صَاحِبِہٖ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْعَتَاقَ مَتَیْ وَقَعَ فِیْ بَعْضِ الْعَبْدِ ، انْتَشَرَ فِیْ کُلِّہِ .وَقَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، حَکَمَ فِی الْعَبْدِ بَیْنَ اثْنَیْنِ ، اِذَا أَعْتَقَہُ أَحَدُہُمَا ، وَلَا مَالَ لَہٗ، یُحْکَمُ عَلَیْہِ فِیْہِ بِالضَّمَانِ بِالسِّعَایَۃِ عَلَی الْعَبْدِ ، فِیْ نَصِیْبِ الَّذِیْ لَمْ یُعْتِقْ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ حُکْمَ ہٰؤُلَائِ الْعَبِیْدِ فِی الْمَرَضِ کَذٰلِکَ ، وَأَنَّہٗ لَمَّا اسْتَحَالَ أَنْ یَجِبَ عَلَی غَیْرِہِمْ ، ضَمَانُ مَا جَاوَزَ الثُّلُثَ ، الَّذِیْ لِلْمَیِّتِ ، أَنْ یُوْصِیَ بِہٖ ، وَیُمَلِّکَہُ فِیْ مَرَضِہٖ مَنْ حَبَّ مِنْ قِیْمَتِہِمْ ، وَجَبَ عَلَیْہِمْ السِّعَایَۃُ فِیْ ذٰلِکَ لِلْوَرَثَۃِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
٧٢٥٠: عمرہ بنت عبدالرحمن نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ان روایات سے قرعہ کا ثبوت ملتا ہے پس لوگوں کو مناسب ہے کہ وہ آج اس کو اختیار کریں۔ یہ منسوخ نہیں مرض کی حالت میں عتاق میں قرعہ کا حکم بھی اسی طرح ہے۔ ہم اس کا کافی و شافی جواب اپنے مقام پردے چکے مگر یہاں بھی ہم تھوڑا سا ذکر کئے دیتے ہیں جس سے مزید یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ ان روایات میں ثبوت قرعہ کی کوئی دلیل نہیں۔ ان شاء اللہ۔ مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ آدمی کو جہاں چاہے سفر درست ہے خواہ سفر طویل ہو اور اس کی بیویوں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہ ہو۔ اور تقسیم میں برابری کا حکم سفر کے وقت اٹھ جاتا ہے جب یہ بات اسی طرح ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی ازواج مطہرات میں قرعہ اندازی کرنا جبکہ آپ کو نکلنے کی ضرورت پیش آتی یہ تطییب خاطر کے لیے تھا تاکہ نہ نکلنے والیوں کو یہ بات پیش نظر ہو کہ جس کو ساتھ لے جا رہے ہیں اس کے ساتھ ان کے مقابلہ میں محبت زیادہ نہیں کیونکہ آپ کو اکیلے نکلنا اور سب کو سفر میں نہ لے جانا یہ بھی درست تھا تو اسی طرح آپ کو یہ بھی جائز تھا کہ آپ نکلیں اور جس کو چاہیں ساتھ لے جائیں۔ پس اس سے یہ بات بخوبی ثابت ہوگئی کہ قرعہ ان کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے جن میں چھوڑنے کی وسعت موجود ہو اور ان میں جن کا اس کے بغیر کر گزرنا درست ہو اسی قسم میں سے یہ بات ہے کہ جب دو آدمی جن کے مابین جھگڑا ہو دونوں حاکم کے پاس حاضر ہوں ان میں سے ہر ایک مدعی ہو تو اس وقت قاضی کے لیے مناسب ہے کہ وہ قرعہ اندازی کرے جس کے نام قرعہ نکلے پہلے اس کے معاملے کو دیکھے اور قاضی کے لیے یہ بھی درست ہے کہ قرعہ اندازی کر کے جس کے معاملے میں چاہے پہلے غور کرے البتہ قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کرنا بہتر ہے تاکہ بدگمانی پیدا نہ ہو۔ جس طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازواج مطہرات کے سلسلہ میں اختیار فرمایا۔ مسلمانوں نے بھی اسی طرح قرعہ اندازی کا طریق کار اختیار کیا کہ جس میں انھوں نے لوگوں کے درمیان برابری برتنا چاہی۔ اگرچہ وہ اگر قرعہ اندازی کے بغیر فیصلہ کریں تو یہ بھی درست ہے ان کے مابین قرعہ اندازی اس لیے اختیار کی جاتی ہے تاکہ ان کے دل مطمئن رہیں اور ذمہ دار کے متعلق بدگمانی اٹھ جائے کہ اس نے جانب داری سے کام لیا ہے۔ اگر ذمہ دار لوگ ان کے مختلف النوع اموال اور املاک میں برابری کرنا چاہیں اور ان میں قیمتوں کی تعیین کے بغیر قرعہ اندازی کریں تو یہ باطل ہے اور یہ تقسیم کرنے والا غلط طرز اختیار کرنے والا ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قرعہ اندازی ان میں کی جائے گی جن میں اس کے ذریعہ تقسیم درست ہو اس سے کوئی حکم واجب نہ ہوگا یہ صرف بدگمانی کی نفی کے لیے ہے۔ پس ہر وہ قرعہ جو اسی انداز سے ہو وہ درست ہے اور وہ قرعہ جس سے حکم کا وجوب ثابت کرنا ہو اور گزشتہ حقوق کو طے کرنا وہ غیر مستعمل ہے۔ اب ہم آخری دونوں اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غلام کے متعلق فیصلہ فرمایا جو دو آدمیوں میں مشترک ہو اور ان میں سے ایک آزاد کر دے وہ تمام آزاد ہوجائے گا اور اگرچہ خوشحال یا تنگدست ہو دوسرے کے حصہ کا ضامن ہوگا اور اس میں جو اختلاف ہے وہ ہم کتاب العتاق میں ذکر کر آئے ہیں۔ پھر ہم نے ابوالملیح ہذلی کی روایت پا لی جس کو انھوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تمام کا تمام آزاد ہے اس کا کوئی حصہ دار نہیں ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں وہ علت بیان کردی جس کی وجہ سے اس کے ساتھ کا حصہ آزاد ہوگیا۔ پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جب غلام کے بعض حصہ میں عناق واقع ہوگا تو وہ تمام میں پھیل جائے گا ہم نے دیکھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو آدمیوں کے مشترک غلام کے سلسلہ میں فیصلہ فرمایا جبکہ ان میں سے ایک نے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس غلام کے پاس کوئی مال نہیں کہ جس کے متعلق کمائی کے لیے ضمان کا فیصلہ غلام کے متعلق کیا جائے اس حصہ میں جو کہ آزاد نہیں کیا گیا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مرض کی حالت میں ان غلاموں کا یہی حکم ہے تو جب یہ ناممکن ہے کہ دوسروں پر اس مال کے ضمان کا فیصلہ لازم ہو جو کہ ثلث سے زیادہ ہے جس کی میت وصیت کرسکتا ہے اور اپنے مرض کے دوران اس کی قیمت کا جس کو چاہے مالک بنا دے تو ان غلاموں پر اس مال کے سلسلہ میں ورثاء کے لیے دوڑ دھوپ لازم ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٧٥۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔