HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4211

۴۲۱۱: وَحَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو مَسْلَمَۃَ ، مُوْسَی بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، قَالَ : ثَنَا أَبَانٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی ، قَالَ : ابْنُ خُزَیْمَۃَ فِیْ حَدِیْثِہٖ، عَنْ زَیْدٍ ، وَقَالَ : ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا زَیْدٌ ثُمَّ اجْتَمَعَا جَمِیْعًا فَقَالَا : عَنْ أَبِیْ سَلَامٍ ، عَنْ أَبِیْ رَاشِدٍ الْجُبْرَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ شِبْلٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْلُ اقْرَئُوْا الْقُرْآنَ وَلَا تَغْلُوْا فِیْہِ وَلَا تَأْکُلُوْا بِہٖ .فَحَظَرَ عَلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَتَعَوَّضُوْا بِالْقُرْآنِ شَیْئًا مِنْ عِوَضِ الدُّنْیَا .فَعَارَضَ ذٰلِکَ مَا حَمَلَ عَلَیْہِ الْمُخَالِفُ مَعْنَی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، لَوْ ثَبَتَ أَنَّ مَعْنَاہُ کَذٰلِکَ ، وَلَمْ یَثْبُتْ ذٰلِکَ ، اِذْ کَانَ یَحْتَمِلُ تَأْوِیْلُہُ بِمَا وَصَفْنَا .وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَیْضًا مَعْنًی آخَرَ ، وَہُوَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَبَاحَ لِرَسُوْلِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِلْکَ الْبُضْعِ بِغَیْرِ صَدَاقٍ ، وَلَمْ یَجْعَلْ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ غَیْرِہٖ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَامْرَأَۃً مُؤْمِنَۃً اِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَنْ یَسْتَنْکِحَہَا خَالِصَۃً لَک مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ قَدْ کَانَ مِمَّا خَصَّہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ أَنْ یُمَلِّکَ غَیْرَہُ مَا کَانَ لَہُ تَمَلُّکُہُ بِغَیْرِ صَدَاقٍ فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ خَاصًّا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا قَالَ اللَّیْثُ .وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّہَا قَالَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ وَہَبْتُ نَفْسِی لَک فَقَامَ اِلَیْہِ ذٰلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ لَہُ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَک بِہَا حَاجَۃٌ ، فَزَوِّجْنِیْہَا .فَکَانَ ہَذَا مَا ذُکِرَ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ ، وَلَمْ یُذْکَرْ فِیْہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاوَرَہَا فِیْ نَفْسِہَا ، وَلَا أَنَّہَا قَالَتْ لَہُ زَوِّجْنِیْ مِنْہُ .فَدَلَّ ذٰلِکَ اِذَا کَانَ تَزْوِیْجُہُ اِیَّاہَا مِنْہُ لَا بِقَوْلٍ تَأْتِی بِہٖ بَعْدَ قَوْلِہَا قَدْ وَہَبْتُ نَفْسِی لَک وَاِنَّمَا ہُوَ بِقَوْلِہَا الْأَوَّلِ وَلَمْ تَکُ قَالَتْ لَہُ قَدْ جَعَلْتُ لَکَ أَنْ تَہَبَنِیْ لِمَنْ شِئْت بِالْہِبَۃِ الَّتِیْ لَا تُوْجِبُ مَہْرًا ، جَازَ النِّکَاحُ وَقَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّ الْہِبَۃَ خَالِصَۃً لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِمَا ذَکَرْنَا مِنْ اخْتِصَاصِ اللّٰہِ تَعَالٰی اِیَّاہُ بِہَا دُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ .غَیْرَ أَنَّ قَوْمًا قَالُوْا خَالِصَۃً لَک أَیْ : بِلَا مَہْرٍ ، وَجَعَلُوْا الْہِبَۃَ نِکَاحًا لِغَیْرِہٖ، یُوْجِبُ الْمَہْرَ وَقَالَ آخَرُوْنَ خَالِصَۃً لَک أَیْ اِنَّ الْہِبَۃَ تَکُوْنُ لَک نِکَاحًا ، وَلَا تَکُوْنُ نِکَاحًا لِغَیْرِک .فَلَمَّا کَانَتِ الْمَرْأَۃُ الْمَذْکُوْرُ أَمْرُہَا فِیْ حَدِیْثِ سَہْلٍ ، مَنْکُوْحَۃً بِہِبَتِہَا نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، ثَبَتَ أَنَّ ذٰلِکَ النِّکَاحَ خَاصٌّ کَمَا قَالَ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلَی ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مَعَ مَا ذَکَرْنَا فِی الْحَدِیْثِ سُؤَالٌ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہَا أَنْ یُزَوِّجَہَا مِنْہٗ، وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ لَمْ یُنْقَلْ اِلَیْنَا فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ .قِیْلَ لَہٗ : وَکَذٰلِکَ یَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ جَعَلَ لَہَا مَہْرًا غَیْرَ السُّوْرَۃِ ، وَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ لَمْ یُنْقَلْ اِلَیْنَا فِی الْحَدِیْثِ فَاِنْ حَمَلَتِ الْحَدِیْثَ عَلَی ظَاہِرِہِ عَلٰی مَا تَذْہَبُ اِلَیْہِ أَنْتَ ، لَزِمَکَ مَا ذَکَرْنَا ، مِنْ أَنَّ ذٰلِکَ النِّکَاحَ کَانَ بِالْہِبَۃِ الَّتِی وَصَفْنَا. وَاِنْ حَمَلَتْ ذٰلِکَ عَلَی التَّأْوِیْلِ عَلٰی مَا وَصَفْتُ ، فَلِغَیْرِک أَنْ یُحَمِّلَہٗ أَیْضًا مِنَ التَّأْوِیْلِ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، ثُمَّ لَا تَکُوْنُ أَنْتَ بِتَأْوِیْلِک أَوْلَی مِنْہُ بِتَأْوِیْلِہٖ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَا النِّکَاحَ اِذَا وَقَعَ عَلَی مَہْرٍ مَجْہُوْلٍ ، لَمْ یَثْبُتِ الْمَہْرُ ، وَرُدَّ حُکْمُ الْمَرْأَۃِ اِلَی حُکْمِ مَنْ لَمْ یُسَمِّ لَہَا مَہْرًا ، فَاحْتِیجَ اِلٰی أَنْ یَکُوْنَ الْمَہْرُ مَعْلُوْمًا ، کَمَا تَکُوْنُ الْأَثْمَانُ فِی الْبِیَاعَاتِ مَعْلُوْمَۃً ، وَکَمَا تَکُوْنُ الْأُجْرَۃُ فِی الْاِجَارَاتِ مَعْلُوْمَۃً. وَکَانَ الْأَصْلُ الْمُجْتَمَعُ عَلَیْہِ، أَنَّ رَجُلًا لَوِ اسْتَأْجَرَ رَجُلًا عَلٰی أَنْ یُعَلِّمَہُ سُوْرَۃً مِنَ الْقُرْآنِ سَمَّاہَا بِدِرْہَمٍ ، لَا یَجُوْزُ وَکَذٰلِکَ لَوِ اسْتَأْجَرَہُ عَلٰی أَنْ یُعَلِّمَہُ شِعْرًا بِعَیْنِہِ بِدِرْہَمٍ کَانَ ذٰلِکَ غَیْرَ جَائِزٍ أَیْضًا ، لِأَنَّ الْاِجَارَاتِ لَا تَجُوْزُ اِلَّا عَلٰی أَحَدِ مَعْنَیَیْنِ .اِمَّا عَلَی عَمَلٍ بِعَیْنِہٖ، مِثْلِ غَسْلِ ثَوْبٍ بِعَیْنِہٖ، أَوْ عَلٰی خِیَاطَتِہٖ، أَوْ عَلَی وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ لَا بُدَّ فِیْہَا مِنْ أَنْ یَکُوْنَ الْوَقْتُ مَعْلُوْمًا ، أَوْ الْعَمَلُ مَعْلُوْمًا .وَکَانَ اِذَا اسْتَأْجَرَہُ عَلَی تَعْلِیْمِ سُوْرَۃٍ ، فَتِلْکَ اِجَارَۃٌ لَا عَلَی وَقْتٍ مَعْلُوْمٍ ، وَلَا عَلَی عَمَلٍ مَعْلُوْمٍ ، اِنَّمَا اسْتَأْجَرَہُ عَلٰی أَنْ یُعَلِّمَہُ ذٰلِکَ ، وَقَدْ یَتَعَلَّمُ بِقَلِیْلِ التَّعْلِیْمِ وَبِکَثِیْرِہٖ، وَفِیْ قَلِیْلِ الْأَوْقَاتِ وَکَثِیْرِہَا .وَکَذٰلِکَ لَوْ بَاعَہُ دَارِہِ عَلٰی أَنْ یُعَلِّمَہُ سُوْرَۃً مِنَ الْقُرْآنِ ، لَمْ یَجُزْ ذٰلِکَ ، لِلْمَعَانِی الَّتِیْ ذٰکَرْنَاہَا فِی الْاِجَارَاتِ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فِی الْاِجَارَاتِ وَالْبِیَاعَاتِ ، وَقَدْ وَصَفْنَا أَنَّ الْمَہْرَ لَا یَجُوْزُ عَلٰی أَمْوَالٍ وَلَا عَلَی مَنَافِعَ ، اِلَّا عَلٰی مَا یَجُوْزُ عَلَیْہِ الْبَیْعُ وَالْاِجَارَۃُ وَغَیْرُ ذٰلِکَ ، وَکَانَ التَّعْلِیْمُ لَا تُمْلَکُ بِہٖ الْمَنَافِعُ وَلَا أَعْیَانُ الْأَمْوَالِ ، ثَبَتَ بِالنَّظَرِ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ لَا یُمْلَکَ بِہٖ الْأَبْضَاعُ .فَہٰذَا ہُوَ النَّظْرُ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .
٤٢١١: یحییٰ نے ابن خزیمہ سے اپنی روایت میں عن زید اور ابو داؤد نے اپنی روایت میں حدثنا زید سے روایت ذکر کی ہے پھر دونوں نے ابو سلام سے انھوں نے ابو راشد حبرانی سے انھوں نے عبدالرحمن بن شبل (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے قرآن مجید پڑھو اس میں غلو مت کرو اور نہ اس کو کھانے پینے کا ذریعہ بناؤ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع کیا کہ وہ قرآن مجید کے بدلے میں دنیا کی کوئی چیز حاصل کریں۔ اب یہ روایت فریق اوّل کی مستدل روایت کے خلاف آرہی ہے جبکہ اس کا وہی معنی لیا جائے جو فریق اوّل نے لیا ہے اور اگر اس سے وہ محتمل معنی مراد لیں جو ہم نے لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ملک بضع کو بلا مہر کے جائز قرار دیا تھا اور آپ کے علاوہ یہ کسی کے لیے جائز نہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وامراۃ مؤمنۃ ان وہبت نفسہا لل نبی ان اراد النبی ان یستنکحھا خالصۃ لک من دون المؤمنین (الاحزاب ٥٠) اور اگر کوئی مؤمنہ عورت اپنا آپ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کر دے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہوں تو یہ حکم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جائز ہے عام مؤمنوں کے لیے نہیں۔ پس اس بات کا احتمال ہے کہ اس کا تعلق اس معاملے سے ہو جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خاص کیا ہے مگر کوئی دوسرا شخص بلامہر مالک نہیں بن سکتا تو یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہوا جیسا کہ لیث (رح) نے فرمایا ہے اور اس کے لیے دلالت روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں خود عرض کیا ” قدوہبت نفسی لک “ اسی گھڑی اس آدمی نے کھڑے ہو کر کہا ان لم یکن لک بہا حاجۃ فزوجنیہا “ اس روایت میں یہی مذکور ہے اس میں یہ بات مذکور نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت سے اس کے نفس کے سلسلہ میں مشورہ کیا اور نہ یہ مذکور ہے کہ اس نے خود یہ عرض کیا کہ اس مرد سے میرا نکاح کردیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اس عورت کا نکاح اس شخص سے کیا تو یہ اس عورت کی پہلی بات کی بنیاد پر کیا جو وہبت نفسی لک تھی۔ اس کے بعد اس عورت نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ کہ قد جعلت لک ان تھبنی لمن شئت۔ کہ میں نے آپ کو یہ حق دے دیا ہے کہ تم مجھے جس کو چاہو اسے ہبہ کر دو جس میں مہر لازم نہ ہوتا ہو تو اس سے وہ نکاح جائز ہوا اور اس پر تو سب کا اتفاق ہے ہبہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خاص کیا تھا کسی دوسرے مؤمن کے لیے اس کی اجازت نہ تھی۔ البتہ بعض حضرات نے ” خالصۃ لک “ کی تفسیر میں یہ فرمایا کہ اس سے مراد مہر کے بغیر ہے اور دوسروں کے لیے انھوں نے ہبہ کو نکاح قرار دیا جس سے مہر لازم ہوتا ہے۔ بعض نے ” خالصۃ لک “ کی تفسیر میں فرمایا کہ ہبہ کردینا فقط آپ کے حق میں نکاح ہوگا دوسروں کے حق میں نکاح نہ بنے گا۔ پس جب وہ مذکورہ عورت جس کا تذکرہ حضرت سہل (رض) کی روایت میں موجود ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنے نفس کو ہبہ کردینے سے منکوحہ ہوگئی جیسا کہ ہم نے نقل کیا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ نکاح خاص ہے جیسا کہ اس بات کے قائلین نے فرمایا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہماری اس مذکورہ گفتگو کے باوجود یہ ممکن ہے کہ اس شخص نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا ہو کہ آپ اس عورت کا اس سے نکاح کردیں اگرچہ یہ بات اس روایت میں تو منقول نہیں تو اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ اگر مذکورہ احتمال ہوسکتا ہے تو یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے سورت کے علاوہ مہر مقرر کیا ہو اگرچہ یہ بات اس حدیث میں نقل ہو کر ہم تک نہیں پہنچی۔ (ماہو جوابکم فہو جوابنا) اور اگر اس روایت کو ظاہر پر محمول کرتے ہو جیسا کہ تمہارا مذہب ہے تو تم پر وہ بات لازم آئے گی کہ یہ نکاح ہبہ کی صورت میں ہوا جیسا ہم نے ذکر کیا اور اگر بالفرض تم اس کو اپنی تاویل پر اصرار کرتے ہوئے محمول کرتے ہو تو دوسرے کو بھی تاویل کا حق حاصل ہے۔ جیسا کہ ہم نے تاویل ذکر کردی ہے۔ پھر آخر اس تاویل کے مقابلے میں آپ کی تاویل کو اولیت کیوں کر حاصل ہوگی روایات و آثار کے معانی کی تصحیح کے پیش نظر ہم نے اس بات کا یہ مطلب بیان کردیا اور اگر آپ نظری اعتبار سے دیکھیں تو ہم عرض کریں گے کہ جب نکاح مہر مجہول پر واقع ہوا ہو اور مہر ثابت نہ ہو رہا ہو تو اس عورت کے مہر کا حکم اس عورت کے حکم کی طرف لوٹایا جاتا ہے جس کا مہر سرے سے مقرر نہ ہوا ہو۔ (اور مہر مثلی پر فیصلہ ہوتا ہے) پس یہاں بھی ضروری ہے کہ مہر معلوم ہو جیسا کہ خریدو فروخت میں قیمت معلوم ہوتی ہے اور جس طرح اجارات میں اجرت طے شدہ ہوتی ہے اور یہ متفق علیہ ضابطہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ اس طرح اجارہ کرے کہ وہ اس کو چند مقررہ دراہم کے بدلے قرآن مجید سکھا دے تو یہ جائز نہیں (متاخرین نے تعلیم قرآن کے ضیاع کے خطرے سے تعلیم قرآن پر اجرت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے) اسی طرح اگر چند مقررہ دراہم کے بدلے اشعار سکھانے کا اجارہ ہو تو یہ بھی جائز نہیں کیونکہ اجارہ کے جواز کی دو صورتیں ہیں : نمبر 1: کام مقرر ہو مثلاً چند معین کپڑے دھونا یا ان کی سلائی کرنا وغیرہ۔ نمبر 2: وقت و مدت معلوم ہو کہ اتنی مدت میں ہوگا جب تعلیم قرآن پر اجارہ کرے گا تو یہ معلوم وقت کے لیے نہیں بلکہ یہ اجارہ تو صرف اس سورت کے سکھانے کے لیے ہے اور تعلیم حاصل کرنے والا کبھی کم تعلیم حاصل کرتا ہے اور کبھی زیادہ اسی طرح کبھی تھوڑے وقت میں سیکھ لیتا ہے اور کبھی زیادہ وقت میں اور کبھی تھوڑا سکھانے سے زیادہ سیکھ لیتا ہے اور کبھی زیادہ سکھانے سے تھوڑا سا سیکھتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کسی نے اپنا مکان اس شرط پر فروخت کیا کہ وہ اس کو قرآن مجید کی ایک سورت سکھا دے تو یہ اجارہ جائز نہیں کیونکہ اجارہ کی شرائط اس میں مفقود ہیں۔ پس جب عقد نکاح اجارے اور خرید فروخت کی طرح ہے اور ہم بیان کر آئے کہ مہر صرف اس مال یا منافع کی صورت میں جائز ہے جو خریدو فروخت اور اجارے کی صورت میں جائز ہوتا ہے اور تعلیم کے ذریعہ نہ تو منافع کی ملکیت حاصل ہوتی ہے اور نہ کسی چیز کی۔ تو اس پر قیاس سے یہ ثابت ہوا کہ اس تعلیم قرآن سے بضع عورت کی ملکیت بھی ثابت نہیں ہوتی۔ تقاضا قیاس بھی یہی ہے اور ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا قول بھی یہی ہے۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع کیا کہ وہ قرآن مجید کے بدلے میں دنیا کی کوئی چیز حاصل کریں۔ اب یہ روایت فریق اوّل کی مستدل روایت کے خلاف آرہی ہے جبکہ اس کا وہی معنی لیا جائے جو فریق اوّل نے لیا ہے اور اگر اس سے وہ محتمل معنی مراد لیں جو ہم نے لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ملک بضع کو بلا مہر کے جائز قرار دیا تھا اور آپ کے علاوہ یہ کسی کے لیے جائز نہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :{ وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا ق خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ١} (الاحزاب ٥٠) اور اگر کوئی مؤمنہ عورت اپنے آپ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کر دے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہوں تو یہ حکم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جائز ہے عام مؤمنوں کے لیے نہیں۔ پس اس بات کا احتمال ہے کہ اس کا تعلق اس معاملے سے ہو جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خاص کیا ہے مگر کوئی دوسرا شخص بلامہر مالک نہیں بن سکتا تو یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہوا جیسا کہ لیث (رح) نے فرمایا ہے اور اس کے لیے دلالت روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں خود عرض کیا ” قدوہبت نفسی لک “ اسی گھڑی اس آدمی نے کھڑے ہو کر کہا ان لم یکن لک بہا حاجۃ فزوجنیہا “ اس روایت میں یہی مذکور ہے اس میں یہ بات مذکور نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت سے اس کے نفس کے سلسلہ میں مشورہ کیا اور نہ یہ مذکور ہے کہ اس نے خود یہ عرض کیا کہ اس مرد سے میرا نکاح کردیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اس عورت کا نکاح اس شخص سے کیا تو یہ اس عورت کی پہلی بات کی بنیاد پر کیا جو وہبت نفسی لک تھی۔ اس کے بعد اس عورت نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ کہ قد جعلت لک ان تھبنی لمن شئت “ کہ میں نے آپ کو یہ حق دے دیا ہے کہ آپ مجھے جسے چاہیں ہبہ کردیں جس میں مہر لازم نہ ہوتا ہو تو اس سے وہ نکاح جائز ہوا اور اس پر تو سب کا اتفاق ہے ہبہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خاص کیا تھا کسی دوسرے مؤمن کے لیے اس کی اجازت نہ تھی۔
البتہ بعض حضرات نے ” خالصۃ لک “ کی تفسیر میں یہ فرمایا کہ اس سے مراد مہر کے بغیر ہے اور دوسروں کے لیے انھوں نے ہبہ کو نکاح قرار دیا جس سے مہر لازم ہوتا ہے۔
بعض نے ” خالصۃ لک “ کی تفسیر میں فرمایا کہ ہبہ کردینا فقط آپ کے حق میں نکاح ہوگا دوسروں کے حق میں نکاح نہ بنے گا۔ پس جب وہ مذکورہ عورت جس کا تذکرہ حضرت سہل (رض) کی روایت میں موجود ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنے نفس کو ہبہ کردینے سے منکوحہ ہوگئی جیسا کہ ہم نے نقل کیا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ نکاح خاص ہے جیسا کہ اس بات کے قائلین نے فرمایا۔
ایک اعتراض : اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہماری اس مذکورہ گفتگو کے باوجود یہ ممکن ہے کہ اس شخص نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا ہو کہ آپ اس عورت کا اس سے نکاح کردیں اگرچہ یہ بات اس روایت میں تو منقول نہیں۔
جوابتو اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ اگر مذکورہ احتمال ہوسکتا ہے تو یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے سورت کے علاوہ مہر مقرر کیا ہو اگرچہ یہ بات اس حدیث میں نقل ہو کر ہم تک نہیں پہنچی۔ (ماہو جوابکم فہو جوابنا) اور اگر اس روایت کو ظاہر پر محمول کرتے ہو جیسا کہ تمہارا مذہب ہے تو تم پر وہ بات لازم آئے گی کہ یہ نکاح ہبہ کی صورت میں ہوا جیسا ہم نے ذکر کیا اور اگر بالفرض تم اس کو اپنی تاویل پر اصرار کرتے ہوئے محمول کرتے ہو تو دوسرے کو بھی تاویل کا حق حاصل ہے۔ جیسا کہ ہم نے تاویل ذکر کردی ہے۔
پھر آخر اس تاویل کے مقابلے میں آپ کی تاویل کو اولیت کیوں کر حاصل ہوگی روایات و آثار کے معانی کی تصحیح کے پیش نظر ہم نے اس باب کا یہ مطلب بیان کردیا۔
نظر طحاوی (رح) :
اور اگر آپ نظری اعتبار سے دیکھیں تو ہم عرض کریں گے کہ جب نکاح مہر مجہول پر واقع ہوا ہو اور مہر ثابت نہ ہو رہا ہو تو اس عورت کے مہر کا حکم اس عورت کے حکم کی طرف لوٹایا جاتا ہے جس کا مہر سرے سے مقرر نہ ہوا ہو۔ (اور مہر مثلی پر فیصلہ ہوتا ہے) پس یہاں بھی ضروری ہے کہ مہر معلوم ہو جیسا کہ خریدو فروخت میں قیمت معلوم ہوتی ہے اور جس طرح اجارات میں اجرت طے شدہ ہوتی ہے۔
اور یہ متفق علیہ ضابطہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ اس طرح اجارہ کرے کہ وہ اس کو چند مقررہ دراہم کے بدلے قرآن مجید سکھا دے تو یہ جائز نہیں (متاخرین نے تعلیم قرآن کے خیاع کے خطرے سے تعلیم قرآن پر اجرت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے) اسی طرح اگر چند مقررہ دراہم کے بدلے اشعار سکھانے کا اجارہ ہو تو یہ بھی جائز نہیں کیونکہ اجارہ کے جواز کی دو صورتیں ہیں۔
نمبر 1: کام مقرر ہو مثلاً چند معین کپڑے دھونا یا ان کی سلائی کرنا وغیرہ۔
نمبر 2: وقت و مدت معلوم ہو کہ اتنی مدت میں ہوگا جب تعلیم قرآن پر اجارہ کرے گا تو یہ معلوم وقت کے لیے نہیں بلکہ یہ اجارہ تو صرف اس سورت کے سکھانے کے لیے ہے اور تعلیم حاصل کرنے والا کبھی کم تعلیم حاصل کرتا ہے اور کبھی زیادہ اسی طرح کبھی تھوڑے وقت میں سیکھ لیتا ہے اور کبھی زیادہ وقت میں اور کبھی تھوڑا سکھانے سے زیادہ سیکھ لیتا ہے اور کبھی زیادہ سکھانے سے تھوڑا سا سیکھتا ہے۔
بالکل اسی طرح اگر کسی نے اپنا مکان اس شرط پر فروخت کیا کہ وہ اس کو قرآن مجید کی ایک سورت سکھا دے تو یہ اجارہ و بیع جائز نہیں کیونکہ اجارہ کی شرائط اس میں مفقود ہیں۔
پس جب عقد نکاح اجارے اور خریدو فروخت کی طرح ہے اور ہم بیان کر آئے کہ مہر صرف اس مال یا منافع کی صورت میں جائز ہے جو خریدو فروخت اور اجارے کی صورت میں جائز ہوتا ہے اور تعلیم کے ذریعہ نہ تو منافع کی ملکیت حاصل ہوتی ہے اور نہ کسی چیز کی۔ تو اس پر قیاس سے یہ ثابت ہوا کہ اس تعلیم قرآن سے بضع عورت کی ملکیت بھی ثابت نہیں ہوتی۔
تقاضا قیاس بھی یہی ہے اور ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا قول بھی یہی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔