hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

28. امارت اور خلافت کا بیان

ابن أبي شيبة

31173

(۳۱۱۷۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ : دَخَلَ شَقِیقٌ عَلَی الْحَجَّاجِ فَقَالَ : مَا اسْمُک ؟ قَالَ : مَا بَعَثَ إلَیَّ الأَمِیرُ حَتَّی عَلِمَ اسْمِی ، قَالَ : أُرِیدُ أَنْ أَسْتَعِینَ بِکَ عَلَی بَعْضِ عَمَلِی ، قَالَ : فَقَالَ : أَمَا إنِّی أَخَافُ عَلَیْکَ نَفْسِی ، فَاسْتَعْفَاہُ فَأَعْفَاہُ ، قَالَ : فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ قَامَ وَہُوَ یَقُولُ : ہَکَذَا یَتَعَاشی ، قَالَ : فَقَالَ الْحَجَّاجُ : سَدِّدُوا الشَّیْخَ ، سَدِّدُوا الشَّیْخَ۔
(٣١١٧٤) حضرت حسین بن علی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ عبد الملک نے فرمایا کہ شقیق (رض) حجاج کے پاس تشریف لائے ، حجاج نے کہا آپ کا نام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ امیر نے میرا نام جاننے سے پہلے مجھے نہیں بلایا، حجاج نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ سے اپنے بعض کاموں میں مدد لوں، راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ مجھے تیرے پاس اپنی جان کا خوف ہے، چنانچہ انھوں نے اس کے کام سے معذرت چاہی اور حجاج نے ان کی معذرت قبول کرلی، راوی فرماتے ہیں کہ جب وہ اس کے پاس سے نکلے تو کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ یہ اسی طرح بتکلف اندھا بنتا رہے گا، راوی کہتے ہیں کہ حجاج نے کہا : شیخ کو سیدھا کرو، شیخ کو سیدھا کرو۔

31174

(۳۱۱۷۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ ابْنِ أَبْجَرَ ، قَالَ : بَعَثَ ابْنُ أَوْسَطَ بِالشَّعْبِیِّ إلَی الْحَجَّاجِ وَکَانَ عَامِلاً عَلَی الرَّیِّ ، قَالَ : فَأُدْخِلَ عَلَی ابْنِ أَبِی مُسْلِمٍ وَکَانَ الَّذِی بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ لَطِیفًا ، قَالَ : فَعَذَلَہُ ابْنُ أَبِی مُسْلِمٍ ، وَقَالَ : إنِّی مُدْخِلُک عَلَی الأَمِیرِ فَإِنْ ضَحِکَ فِی وَجْہِکَ فَلاَ تَضْحَکَنَّ ، قَالَ : فَأُدْخِلَ عَلَیْہِ۔
(٣١١٧٥) حضرت ابن ابجر (رض) سے روایت ہے کہ ابن اوسط نے شعبی (رض) کو حجاج کے پاس بھیجا جبکہ وہ ریّ کا گورنر تھا راوی فرماتے ہیں کہ ان کو ابن ابی مسلم کے پاس پہنچا یا گیا ، ان دونوں کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے، ابن ابی مسلم نے ان کو ملامت کی اور کہا کہ میں آپ کو امیر کے پاس پہنچاتا ہوں اگر امیر تیرے سامنے ہنسے تو تم مت ہنسنا، راوی کہتے ہیں اس کے بعد ان کو حجاج کے پاس پہنچایا گیا۔

31175

(۳۱۱۷۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ شَیْخٍ مِنَ النَّخَعِ ، عَنْ جَدَّتِہ ، قَالَتْ : کَانَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ مُسْتَخْفٍ عِنْدَ أَبِیک زَمَنَ الْحَجَّاجِ فَأَخْرَجَہُ أَبُوک فِی صُنْدُوقٍ إلَی مَکَّۃَ۔
(٣١١٧٦) قبیلہ نخع کے ایک بزرگ اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے ان سے فرمایا کہ حجاج کے زمانے میں سعید بن جبیر (رض) تیرے باپ کے پاس روپوش تھے، آپ کے والد ان کو ایک صندوق میں ڈال کر مکہ مکرمہ لے گئے۔

31176

(۳۱۱۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قَالَ الْوَلِیدُ بْنُ عُقْبَۃَ وَہُوَ یَخْطُبُ : یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ ، أَعْزِمُ عَلَی مَنْ سَمَّانِی أَشْعَرَ بَرَکاً لَمَا قَامَ ، فَتَحَرَّجَ عَدِیٌّ مِنْ عَزْمَتِہِ ، فَقَامَ ، فَقَالَ لَہُ : إِنَّہُ لَذُو نَدبَۃ الَّذِی یَقُومُ فَیَقُولُ : أَنَا الَّذِی سَمَّیْتُک ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : وَکَانَ ہُوَ الَّذِی سَمَّاہُ۔
(٣١١٧٧) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ولید بن عقبہ نے خطبے کے دوران کہا اے اہل کوفہ ! میں لازم کرتا ہوں اس شخص پر جس نے مجھے ” سینے کے گھنے بالوں والا “ کا نام دیا ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے، چنانچہ اس کے اس لازم کرنے سے پریشان ہوگئے، اور اس کو کہا کہ جو آدمی کھڑا ہو کر یہ اقرار کرے گا کہ میں نے آپ کو یہ نام دیا ہے وہ قتل کردیا جائے گا، ابن عون فرماتے ہیں کہ عدی نے ہی اس کو یہ نام دیا تھا۔

31177

(۳۱۱۷۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبْجَرَ ، قَالَ : کَانُوا یَتَکَلَّمُونَ ، قَالَ : فَخَرَجَ عَلِیٌّ مَرَّۃً وَمَعَہُ عَقِیلٌ ، قَالَ : وَمَعَ عَقِیلٍ کَبْشٌ ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : عضَّ أَحَدُنَا بِذِکْرِہِ ، قَالَ : فَقَالَ عَقِیلٌ : أَمَّا أَنَا وَکَبْشِی فَلاَ۔
(٣١١٧٨) عبد الملک بن ابجر (رض) سے روایت ہے کہ لوگ باتیں کر رہے تھے کہ اس دوران حضرت علی (رض) نکلے، ان کے ساتھ عقیل تھے اور عقیل کے ساتھ دنبہ تھا، راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ ہم میں سے کسی کی برائی کی جا رہی ہے، حضرت عقیل نے فرمایا کہ میری اور میرے دنبہ کی تو بہرحال نہیں کی جا رہی۔

31178

(۳۱۱۷۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ مُجَمِّعٍ ، قَالَ : دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی لَیْلَی عَلَی الْحَجَّاجِ ، فَقَالَ لِجُلَسَائِہِ : إذَا أَرَدْتُمْ أَنْ تَنْظُرُوا إلَی رَجُلٍ یَسُبُّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عُثْمَانَ فَہَذَا عِنْدَکُمْ ، - یَعْنِی : عَبْدَ الرَّحْمَن - ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : مَعَاذَ اللہِ أَیُّہَا الأَمِیرُ أَنْ أَکُونَ أَسُبُّ عُثْمَانَ ، أَنَّہُ لَیَحْجُزنِی عَنْ ذَلِکَ ثَلاث آیَاتٌ فِی کِتَابِ اللہِ ، قَالَ اللَّہُ : {لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُولَئِکَ ہُمُ الصَّادِقُونَ} قَالَ : فَکَانَ عُثْمَان مِنْہُمْ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ : {وَالَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ} ، فَکَانَ أَبِی مِنْہُمْ : {وَالَّذِینَ جَاؤُوا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلاِِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالإِیمَانِ} فَکُنْت مِنْہُمْ ، قَالَ : صَدَقْت۔
(٣١١٧٩) حضرت مجمع (رض) سے روایت ہے کہ عبد الرحمن بن ابی لیلی (رض) حجّاج کے پاس تشریف لائے تو حجاج نے اپنے ہم نشینوں سے کہا کہ اگر تم چاہو کہ اس آدمی کو دیکھ لو جو حضرت امیر المؤمنین عثمان (رض) کو گالی دیتا ہے تو یہ عبد الرحمن تمہارے پاس ہیں ان کو دیکھ لو، حضرت عبد الرحمن (رض) نے فرمایا کہ اے امیر ! میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں حضرت عثمان (رض) کو برا بھلا کہوں، مجھے اس بات سے کتاب اللہ کی تین آیتیں روکتی ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : { لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُولَئِکَ ہُمَ الصَّادِقُونَ } (ان ہجرت کرنے والے فقراء کے لیے جن کو ان کے شہروں اور اموال سے بےدخل کردیا گیا، وہ تلاش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رضاء ، اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، وہی لوگ سچے ہیں) حضرت عثمان (رض) بھی ان لوگوں میں سے تھے، پھر آپ نے پڑھا { وَالَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ( اور وہ لوگ جنہوں نے ان سے پہلے جگہ پکڑی گھر میں اور ایمان میں) میرے والد ان لوگوں میں سے تھے۔ { وَالَّذِینَ جَاؤُوا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلاِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالإِیمَانِ } (اور ان لوگوں کے لیے جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری بخشش فرما اور ہمارے ان بھائیوں کی جو ہم سے پہلے ایمان لائے) میں ان لوگوں میں سے ہوں، حجاج نے کہا : آپ نے سچ فرمایا۔

31179

(۳۱۱۸۰) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی وَہْبٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : قَالَ لِی أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ: مِمَّنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : مِنْ قَوْمٍ یُبْغِضُہُمُ النَّاسُ : مِنْ ثَقِیفٍ۔
(٣١١٨٠) عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو جعفر محمد بن علی نے پوچھا کہ تم کن لوگوں میں سے ہو ؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : ان لوگوں میں سے جن سے لوگ نفرت کرتے ہیں، یعنی ثقیف سے ۔

31180

(۳۱۱۸۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ لِعَلِیٍّ : اکْتُبْ إلَی ہَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ بِعَہْدِہِمَا إلَی الْکُوفَۃِ وَالْبَصْرَۃِ ، یَعْنِی الزُّبَیْرَ وَطَلْحَۃَ ، وَاکْتُبْ إلَی مُعَاوِیَۃَ بِعَہْدِہِ إلَی الشَّامِ فَإِنَّہُ سَیَرْضَی مِنْک بِذَلِکَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : لَمْ أَکُنْ لأُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِی ، قَالَ : فَلَمَّا کَانَ بَعْدُ لَقِیَ الْمُغِیرَۃُ مُعَاوِیَۃَ ، فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ : أَنْتَ صَاحِبُ الْکَلِمَۃِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : أَمَ وَاللہِ مَا وَقَی شَرَّہَا إلاَّ اللَّہُ۔
(٣١١٨١) حضرت ابو موسیٰ (رض) روایت کرتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ (رض) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ ان دو آدمیوں یعنی زبیر (رض) اور طلحہ (رض) کو کوفہ اور بصرہ کی ولایت لکھ دو اور حضرت معاویہ (رض) کو شام کی ولایت لکھ دو ، اس طرح وہ آپ سے راضی ہوجائیں گے، حضرت علی (رض) نے فرمایا میں اپنے دین میں گھٹیا کام کرنے والا نہیں ہوں، راوی کہتے ہیں کہ بعد میں حضرت مغیرہ (رض) حضرت معاویہ (رض) سے ملے تو حضرت معاویہ (رض) نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ بات کہنے والے آپ ہیں ؟ انھوں نے کہا جی ہاں ! آپ نے فرمایا بخدا اس بات کے شر سے اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکا۔

31181

(۳۱۱۸۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : کَتَبَ زِیَادٌ إلَی عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ : مِنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ رَجَائَ أَنْ تَکْتُبَ إلَیْہِ : ابْنِ أَبِی سُفْیَانَ ، قَالَ فَکَتَبَت إلَیْہ : مِنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ إلَی زِیَادٍ ابْنِہَا۔
(٣١١٨٢) حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ زیاد نے حضرت ام المؤمنین عائشہ (رض) کی طرف اس طرح خط لکھا : ” زیاد بن ابی سفیان کی طرف سے ۔۔۔“ ، اس امید پر کہ وہ بھی اس کو ” ابن ابی سفیان “ لکھیں گے، راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے جواب میں لکھا، ” ام المؤمنین عائشہ کی طرف سے اس کے بیٹے زیاد کی طرف “

31182

(۳۱۱۸۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : مَا جَالَسْت فِی أَہْلِ بَیْتِہِ مِثْلَہُ : یَعْنِی : عَلِی بْن حُسَیْن۔
(٣١١٨٣) حضرت ابن اسلم سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت میں علی بن حسین جیسے کسی شخص کے پاس نہیں بیٹھا۔

31183

(۳۱۱۸۴) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلْحَسَنِ : یَا أَبَا سَعِیدٍ وَاللہِ مَا أَرَاک تَلْحَنُ ، قَالَ : ابْنَ أَخِی قَدْ سَبَقْتُ اللَّحْنَ۔
(٣١١٨٤) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت حسن سے کہا کہ اے ابو سعید ! خدا کی قسم میں آپ کو کلام میں غلطی کرتا ہوا نہیں دیکھتا، انھوں نے فرمایا کہ اے میرے بھتیجے ! میں کلام کی غلطی سے آگے گزر گیا ہوں۔

31184

(۳۱۱۸۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَصْبَہَانِیِّ ، قَالَ: حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ شَدَّادٍ، قَالَ : قَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ : أَلاَ أُعجِّبُک ! قَالَ : إنِّی یَوْمًا فِی الْمَنْزِلِ وَقَدْ أَخَذْت مَضْجِعِی لِلْقَائِلَۃِ إذْ قِیلَ : رَجُلٌ بِالْبَابِ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا جَائَ ہَذَا ہَذِہِ السَّاعَۃَ إلاَّ لِحَاجَۃٍ ، أَدْخِلُوہُ ، قَالَ : فَدَخَلَ ، قَالَ : قُلْتُ : لَک حَاجَۃٌ ؟ قَالَ : مَتَی یُبْعَث ذَلِکَ الرَّجُلُ ؟ قُلْتُ : أَیُّ رَجُلٍ ؟ قَالَ : عَلِیٌّ ، قَالَ : قُلْتُ : لاَ یُبْعَثُ حَتَّی یَبْعَثَ اللَّہُ مَنْ فِی الْقُبُورِ! قَالَ : فَقَالَ : تَقُولُ مَا یَقُولُ ہَؤُلاَئِ الْحَمْقَی ! قَالَ : قُلْتُ : أَخْرِجُوا ہَذَا عَنِّی۔
(٣١١٨٥) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کیا میں تمہیں تعجب میں ڈالنے والی بات نہ بتاؤں ؟ پھر فرمانے لگے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھا اور قیلولے کے لیے بستر پر لیٹ چکا تھا ، مجھے کہا گیا کہ دروازے پر ایک آدمی ہے، میں نے کہا یہ شخص اس وقت کسی ضرورت سے ہی آیا ہوگا ، اس کو اندر بھیج دو ، کہتے ہیں کہ وہ اندر داخل ہوا ، فرماتے ہیں کہ میں نے کہا آپ کس ضرورت سے آئے ہیں ؟ وہ کہنے لگا آپ ان صاحب کو قبر سے کب نکالیں گے ؟ میں نے کہا : کون سے آدمی کو ؟ کہنے لگا حضرت علی کو، میں نے کہا ان کو قبر سے اسی وقت اٹھایا جائے گا جب اللہ تعالیٰ قبر والوں کو اٹھائیں گے، فرماتے ہیں کہ وہ کہنے لگا کیا آپ بھی ایسی بات کہتے ہیں جو یہ بیوقوف لوگ کہتے ہیں ؟ میں نے کہا اس آدمی کو میرے پاس سے نکال دو ۔

31185

(۳۱۱۸۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبْجَرَ ، قَالَ : انتہی الشعبی إلی رجلین وہما یغتابانہ ویقعان فیہ ، فقال : ہَنِیئًا مَرِیئًا غَیْرَ دَائِ مُخَامِرٍ لِعَزَّۃَ مِنْ أَعْرَاضِنَا مَا اسْتَحَلَّتِ
(٣١١٨٦) حضرت عبد الملک بن ابجر بیان فرماتے ہیں کہ شعبی دو آدمیوں کے پاس پہنچے جو ان کی غیبت میں مصروف تھے اور ان کی برائیاں کر رہے تھے۔ انھوں نے فرمایا
عَزّہ کے لیے خوش ذائقہ اور خوشگوار ہیں ہماری عزتیں اور آبروئیں جو اس نے حلال سمجھ لی ہیں بغیر کسی بیماری کے۔

31186

(۳۱۱۸۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبْجَرَ ، قَالَ : لَمَّا دَخَلَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ عَلَی الْحَجَّاجِ ، قَالَ: أَنْتَ الشَّقِیُّ بْنُ کُسَیْرٍ ، قَالَ : لاَ ، أَنَا سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ ، قَالَ : إنِّی قَاتِلُک ، قَالَ : لَئِنْ قَتَلْتَنِی ، لَقَدْ أَصَابَتْ أُمِّی اسْمِی۔
(٣١١٨٧) عبد الملک ابن ابجر (رض) روایت کرتے ہیں کہ سعید بن جبیر (رض) حجاج کے پاس تشریف لائے، تو حجاج نے کہا تم بدبخت ہو اور ٹوٹے ہوئے شخص کے بیٹے ہو، وہ فرمانے لگے کہ میں خوش بخت ہوں اور جڑے ہوئے کا بیٹا ہوں، حجاج نے کہا میں تمہیں قتل کر دوں گا، انھوں نے فرمایا اگر تو مجھے قتل کرتا ہے تو میری ماں نے پھر میرا نام درست ہی رکھا ہے۔

31187

(۳۱۱۸۸) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَائِشَۃَ : إنَّ رَجُلاً مِنَ الطُّلَقَائِ یُبَایَعُ لَہُ - یَعْنِی : مُعَاوِیَۃَ - ، قَالَتْ : یَا بُنَیَّ لاَ تَعْجَبْ ، ہُوَ مُلْکُ اللہِ یُؤْتِیہ مَنْ یَشَائُ۔
(٣١١٨٨) حضرت اسود سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا کہ فتح مکّہ میں آزاد کیے جانے والے ایک آدمی کی بیعت کی جارہی ہے، یعنی حضرت معاویہ (رض) کی، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ تم تعجب نہ کرو، یہ اللہ تعالیٰ کا ملک ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔

31188

(۳۱۱۸۹) حَدَّثَنَا عَبِیدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُقْبَۃَ : أَنَّہُ قَالَ : لَمْ تَکُنْ نُبُوَّۃٌ إلاَّ کَانَ بَعْدَہَا مُلْکٌ۔
(٣١١٨٩) حضرت ولید بن عقبہ فرماتے ہیں کہ کوئی نبوت ایسی نہیں گزری جس کے بعد بادشاہت نہ ہوئی ہو۔

31189

(۳۱۱۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ : أَنَّ رَجُلاً مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالَ لَہُ : ثُمَامَۃُ کَانَ عَلَی صَنْعَائَ ، فَلَمَّا جَائَہ قَتْلُ عُثْمَانَ بَکَی فَأَطَالَ الْبُکَائَ ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ : الْیَوْمُ اُنْتُزِعَتِ النُّبُوَّۃُ - أوَخِلاَفَۃُ النُّبُوَّۃِ - مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَارَتْ مُلْکًا وَجَبْرِیَّۃً ، مَنْ غَلَبَ عَلَی شَیْئٍ أَکَلَہُ۔
(٣١١٩٠) حضرت ابو قلابہ (رض) سے روایت ہے کہ قریش کا ایک آدمی جس کو ثمامہ کہا جاتا تھا صنعاء کا حاکم تھا، جب اس کے پاس حضرت عثمان (رض) کی شہادت کی خبر پہنچی تو وہ رونے لگا اور بہت رویا، جب اس کو افاقہ ہوا تو اس نے کہا : آج کے دن نبوت چھین لی گئی یا کہا کہ نبوت کی خلافت چھین لی گئی، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت سے، اور یہ خلافت بادشاہت اور جبری حکومت میں تبدیل ہوگئی جو جس چیز پر غالب ہوجائے گا اس کو ہڑپ کر جائے گا۔

31190

(۳۱۱۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : قَالَ لِی الْحَسَنُ : أَلاَ تَعْجَبُ مِنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ! دَخَلَ عَلَیَّ فَسَأَلَنِی عَنْ قِتَالِ الْحَجَّاجِ وَمَعَہُ بَعْضُ الرُّؤَسَائِ ، یَعْنِی : أَصْحَابَ ابْنِ الأَشْعَثِ۔
(٣١١٩١) حضرت ایوب (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھ سے حسن نے کہا کیا تمہیں سعید بن جبیر (رض) پر تعجب نہیں ہوتا اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے حجاج کے ساتھ قتال کے بارے میں پوچھنے لگے اور ان کے ساتھ بعض رؤساء بھی تھے یعنی ابن الأشعث کے ساتھی۔

31191

(۳۱۱۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ حَسَرَ عَنْ ذِرَاعَیْہِ کَأَنَّہُمَا عَسِیبَا نَخْلٍ وَہُوَ یَقُولُ : وَاللہِ لَوَدِدْت أَنِّی لاَ أَغْبرَ فِیکُمْ فَوْقَ ثَلاَثٍ ، فَقَالُوا : إلَی رَحْمَۃِ اللہِ وَمَغْفِرَتِہِ ، فَقَالَ : مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَفْعَلَ وَلَوْ کَرِہَ أَمْرًا غَیْرَہُ۔ وَزَادَ فِیہِ ابْنُ بِشْرٍ : ہَلِ الدُّنْیَا إلاَّ مَا عَرَفْنَا وَجَرَّبْنَا؟!
(٣١١٩٢) حضرت قیس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ (رض) کو مرض الموت میں سنا اور اس وقت انھوں نے اپنے بازو چڑھا رکھے تھے اور وہ ایسے لگ رہے تھے جیسے کھجور کی شاخیں ہوتی ہیں اور فرما رہے تھے کہ میں تمہارے درمیان تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہوں گا، لوگوں نے کہا کہ آپ اللہ کی رحمت اور مغفرت کی طرف جائیں گے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ، اور اگر کسی بات کو ناپسند کرتے ہیں تو اس کو تبدیل فرما دیتے ہیں، ابن بشر نے اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ ” دنیا وہی تو ہے جس کو ہم نے پہچانا اور جس کا ہم نے تجربہ کیا۔

31192

(۳۱۱۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی قَیْسُ بْنُ رُمَّانَۃَ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ مُعَاوِیَۃُ : مَا قَاتَلْت عَلِیًّا إلاَّ فِی أَمْرِ عُثْمَانَ۔
(٣١١٩٣) حضرت ابو بردہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا کہ میں حضرت علی (رض) سے محض حضرت عثمان (رض) کی وجہ سے لڑا ہوں۔

31193

(۳۱۱۹۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : دَخَلَ شَابٌّ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَی مُعَاوِیَۃَ فَأَغْلَظَ لَہُ ، فَقَالَ لَہُ : یَا ابْنَ أَخِی ، أَنْہَاک عَنِ السُّلْطَانِ ، إنَّ السُّلْطَانَ یَغْضَبُ غَضَبَ الصَّبِیِّ وَیَأْخُذُ أَخْذَ الأَسَدِ۔
(٣١١٩٤) حضرت شعبی (رض) سے روایت ہے کہ قریش کا ایک جوان حضرت معاویہ (رض) کے پاس آیا اور ان سے سخت کلامی کی، حضرت (رض) نے اس سے فرمایا کہ اے بھتیجے ! میں تجھے بادشاہ کے پاس جانے سے منع کرتا ہوں، بیشک بادشاہ بچے کی طرح غصّے میں آتا ہے اور شیر کی طرح پکڑ کرتا ہے۔

31194

(۳۱۱۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ زِیَادٌ : مَا غَلَبَنِی أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ بِشَیْئٍ مِنَ السِّیَاسَۃِ إلاَّ بِبَابٍ وَاحِدٍ ، اسْتَعْمَلْت فُلاَنًا فَکَسرَ خَرَاجُہُ فَخَشِیَ أَنْ أُعَاقِبَہُ ، فَفَرَّ إلَی أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ فَکَتَبَ إلَیْہِ : إنَّ ہَذَا أَدَبُ سُوئٍ لِمَنْ قِبَلِی ، فَکَتَبَ إلَیَّ : أَنَّہُ لَیْسَ یَنْبَغِی لِی وَلاَ لَک أَنْ نَسُوسَ النَّاسَ سِیَاسَۃً وَاحِدَۃً ، أَنْ نَلِینَ جَمِیعًا فَیَمْرَجَ النَّاسُ فِی الْمَعْصِیَۃِ ، وَلاَ أَنْ نَشْتَدَّ جَمِیعًا فَنَحْمِلَ النَّاسَ عَلَی الْمَہَالِکَ ، وَلَکِنْ تَکُونُ لِلشِّدَّۃِ وَالْفَظَاظَۃِ وَالْغِلْظَۃ ، وَأَکُونُ لِلِّینِ وَالرَّأْفَۃِ وَالرَّحْمَۃِ۔
(٣١١٩٥) حضرت شعبی (رض) کہتے ہیں کہ زیاد نے کہا کہ امیر المؤمنین سیاست کے کسی باب میں مجھ پر غالب نہیں ہوئے سوائے ایک باب کے، میں نے ایک آدمی کو ایک علاقے کا عامل بنایا اس نے اس کی آمدنی کم کردی، اس کو میری سرزنش کا خوف ہوا تو وہ امیر المؤمنین کی طرف بھاگا، میں نے ان کی طرف لکھا کہ یہ کام پہلے لوگوں کے طرز عمل کے خلاف ہے ، انھوں نے میری طرف لکھا کہ میرے اور تمہارے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم لوگوں سے ایک جیسی سیاست روا رکھیں، اگر ہم سب کے لیے نرم پڑجائیں گے تو سب گناہوں میں پڑجائیں گے، اور اگر ہم سب کے لیے سخت طبیعت ہوجائیں گے تو یہ ہلاکت کے راستوں پر لوگوں کو چلانا ہوگا، صحیح طریقہ یہ ہے کہ تم سختی و درشتی اور سخت طبعی کے لیے مناسب ہو اور میں نرمی ، محبت اور رحمت کے لیے مناسب ہوں۔

31195

(۳۱۱۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَامِرٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ یَقُولُ : مَا تَفَرَّقَتْ أُمَّۃٌ قَطُّ إلاَّ ظَہَرَ أَہْلُ الْبَاطِلِ عَلَی أَہْلِ الْحَقِّ إلاَّ ہَذِہِ الأُمَّۃَ۔
(٣١١٩٦) حضرت عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ (رض) کو یہ فرماتے سنا کہ کسی بھی امت کی تفرقہ بازی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل باطل اہل حق پر غالب آگئے، سوائے اس امت کے۔

31196

(۳۱۱۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ سُوَیْد ، قَالَ : صَلَّی بِنَا مُعَاوِیَۃُ الْجُمُعَۃَ بِالنُّخَیلَۃِ فِی الضُّحَی ، ثُمَّ خَطَبْنَا فَقَالَ : مَا قَاتَلْتُکُمْ لِتُصَلُّوا وَلاَ لِتَصُومُوا وَلاَ لِتَحُجُّوا وَلاَ لِتُزَکُّوا ، وَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّکُمْ تَفْعَلُونَ ذَلِکَ، وَلَکِنْ إنَّمَا قَاتَلْتُکُمْ لأَتَأَمَّرَ عَلَیْکُمْ، فَقَدْ أَعْطَانِی اللَّہُ ذَلِکَ وَأَنْتُمْ کَارِہُونَ۔
(٣١١٩٧) حضرت سعید بن سوید (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کو حضرت معاویہ (رض) نے نخیلہ کے مقام پر زوال کے وقت جمعہ پڑھایا پھر ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا کہ میں نے تم سے اس لیے قتال نہیں کیا کہ تم نماز پڑھنے لگو نہ اس لیے کہ تم روزے رکھنے لگو، نہ اس لیے کہ تم حج کرنے لگو، اور نہ اس لیے کہ تم زکوۃ ادا کرنے لگو، میں خوب جانتا ہوں کہ تم یہ سب کام کرتے ہو، میں نے تم سے اس لیے قتال کیا تاکہ میں تم پر حکومت کروں، پس اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ اختیاردے دیا ہے اور تم اس کو ناپسند کرتے ہو۔

31197

(۳۱۱۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ ہُزَیْلَ بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : خَطَبَہُمْ مُعَاوِیَۃُ ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ! إنَّکُمْ جِئْتُمْ فَبَایَعْتُمُونِی طَائِعِینَ ، وَلَوْ بَایَعْتُمْ عَبْدًا حَبَشِیًّا مُجَدَّعًا لَجِئْت حَتَّی أُبَایِعَہُ مَعَکُمْ ، قَالَ : فَلَمَّا نَزَلَ عَنِ الْمِنْبَرِ قَالَ لَہُ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : تَدْرِی أَیَّ شَیْئٍ جِئْت بِہِ الْیَوْمَ ؟! زَعَمْت أَنَّ النَّاسَ بَایَعُوک طَائِعِینَ ، وَلَوْ بَایَعُوا عَبْدًا حَبَشِیًّا مُجَدَّعًا لَجِئْت حَتَّی تُبَایِعَہُ مَعَہُمْ ، قَالَ : فَقَامَ مُعَاوِیَۃُ إلَی الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ! وَہَلْ کَانَ أَحَدٌ أَحَقَّ بِہَذَا الأَمْرِ مِنِّی؟۔
(٣١١٩٨) حضرت ھزیل بن شرحبیل (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت معاویہ (رض) نے خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو ! تم لوگ آئے اور تم نے میرے ہاتھ پر خوش دلی کے ساتھ بیعت کرلی، اور اگر تم کسی کان ناک کٹے ہوئے حبشی غلام کے ہاتھ پر بھی بیعت کرلیتے تو میں بھی تمہارے ساتھ اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے جاتا، راوی فرماتے ہیں کہ جب آپ منبر سے اترے تو ان سے حضرت عمرو بن عاص (رض) نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ تم نے آج کیا کام کیا ہے ؟ تم یہ گمان کرتے ہو کہ لوگوں نے تمہارے ہاتھ پر خوش دلی کے ساتھ بیعت کی ہے، اور اگر وہ کسی کان ناک کٹے ہوئے حبشی غلام کے ہاتھ بیعت کرلیتے تو تم بھی ان کے ساتھ بیعت کرنے کے لیے جاتے، راوی فرماتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت معاویہ (رض) منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ اے لوگو ! کیا اس کام کا مجھ سے زیادہ حق دار بھی کوئی اور شخص ہے ؟

31198

(۳۱۱۹۹) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ مُعَاوِیَۃُ : لاَ حِلْمَ إلاَّ التَّجَارِبُ۔
(٣١١٩٩) حضرت عروہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا کہ حلم تجربوں ہی کا نام ہے۔

31199

(۳۱۲۰۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ حُسَیْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ : أَنَّ حُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ دَخَلَ عَلَی مُعَاوِیَۃَ، فَقَالَ: لأَجِیزَنَّکَ بِجَائِزَۃٍ لَمْ أُجِزْ بِہَا أَحَدًا قَبْلَک، وَلاَ أُجِیزُ بِہَا أَحَدًا بَعْدَکَ مِنَ الْعَرَبِ، فَأَجَازَہُ بِأَرْبَعِمِئَۃِ أَلْفٍ ، فَقَبِلَہَا۔
(٣١٢٠٠) حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت حسین بن علی (رض) حضرت معاویہ (رض) کے پاس تشریف لائے ، حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا میں آج آپ کو ایسا تحفہ دیتا ہوں جو میں نے آپ سے پہلے کسی کو نہیں دیا اور عرب میں سے آپ کے بعد میں کسی کو ایسا تحفہ نہیں دوں گا، چنانچہ یہ کہہ کر آپ نے ان کو چار لاکھ عطا فرمائے، اور انھوں نے ان کو قبول فرما لیا۔

31200

(۳۱۲۰۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ حُسَیْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ: حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ، قَالَ: دَخَلْت أَنَا وَأَبِی عَلَی مُعَاوِیَۃَ فَأَجْلَسَ أَبِی عَلَی السَّرِیرِ وَأُتِیَ بِالطَّعَامِ فَطَعِمنَا وَأَتَی بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ: مَا شَیْئٌ کُنْت أَسْتَلِذُّہُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُہُ الْیَوْمَ إلاَّ اللَّبَنَ ، فَإِنِّی آخُذُہُ کَمَا کُنْت آخُذُہُ قَبْلَ الْیَوْمِ ، وَالْحَدِیثَ الْحَسَنَ۔
(٣١٢٠١) حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد ماجد حضرت معاویہ (رض) کے پاس گئے انھوں نے میرے والد کو تخت پر بٹھا لیا، پھر کھانا لایا گیا اور ہم نے کھالیا پھر مشروب لایا گیا ، ہم نے پی لیا، حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو جوانی میں مجھے لذیذ لگتی تھی اور اب میں اس کو لے لیتا ہوں سوائے دودھ اور اچھی بات کے ، کہ میں اب بھی انھیں لیتا ہوں۔

31201

(۳۱۲۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو مُحَلِّمٍ الْہَمْدَانِیُّ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : أَتَی رَجُلٌ مُعَاوِیَۃَ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، عِدَتَکَ الَّتِی وَعَدْتنِی ، قَالَ : وَمَا وَعَدْتُک ؟ قَالَ : أَنْ تَزِیدَنِی مِئَۃ فِی عَطَائِی ، قَالَ : مَا فَعَلْت ، قَالَ : بَلَی ، قَالَ : مَنْ یَعْلَمُ ذَلِکَ ؟ قَالَ الأَسْوَدُ ، أَو ابْنُ الأَسْوَدِ ، قَالَ : مَا یَقُولُ ہَذَا یَا ابْنَ الأَسْوَدِ؟ قَالَ : نَعَمْ قَدْ زِدْتہ ، فَأَمَرَ لَہُ بِہَا ، ثُمَّ إنَّ مُعَاوِیَۃَ ضَرَبَ بِیَدَیْہِ إحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْرَی ، فَقَالَ : مَا بِی مِئَۃٌ زِدْتہَا رَجُلاً وَلَکِنْ بِی غَفْلتی أَنْ أَزِیدَ رَجُلاً مِنَ الْمُہَاجِرِینَ مِئَۃ ، ثُمَّ أَنْسَاہَا ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ الأَسْوَدِ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ! فَہُوَ آمِن عَلَیْہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَوَاللہِ مَا زِدْتہ شَیْئًا وَلَکِنَّہُ لاَ یَدْعُونِی رَجُلٌ إلَی خَیْرٍ یُصِیبُہُ مِنْ ذِی سُلْطَانٍ إلاَّ شَہِدْت لَہُ بِہِ ، وَلاَ شَرٍّ أَصْرِفُہُ عَنْہُ مِنْ ذِی سُلْطَانٍ إلاَّ شَہِدْت لَہُ بِہِ۔
(٣١٢٠٢) حضرت عامر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت معاویہ (رض) کے پاس آیا اور اس نے کہا اے امیرالمؤمنین ! میرے ساتھ کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کریں۔ آپ (رض) نے پوچھا کہ میں نے تجھ سے کیا وعدہ کیا تھا ؟ اس نے کہا کہ آپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ میرے وظیفے میں سو درہم کا اضافہ فرمائیں گے، آپ نے فرمایا کہ کیا تو نے کوئی کام کیا تھا ؟ اس نے کہا جی ہاں ! آپ نے فرمایا اس بات کو کون جانتا ہے ؟ اس نے کہا اسود، یا کہا ابن الأسود، آپ نے فرمایا اے ابن الاسود یہ کیا کہتا ہے ؟ انھوں نے کہا جی ہاں ! اے امیرالمؤمنین آپ نے اس کے وظیفے میں اضافہ فرمایا تھا، آپ نے اس اضافے کے دینے کا حکم فرما دیا، پھر آپ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا مجھے اس بات کا غم نہیں کہ میں نے کسی آدمی کے لیے سو دراہم کے اضافے کا حکم دے دیا، بلکہ مجھے اپنی غفلت کا افسوس ہے کہ میں نے مہاجرین کے ایک آدمی کے وظیفے میں سو دراہم کا اضافہ کیا اور پھر میں ان کو بھول گیا ، اس پر ابن الأسود نے فرمایا : اے امیرالمؤمنین ! کیا ان دراہم کے بارے میں وہ بےخوف رہے گا ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں ! انھوں نے کہا اللہ کی قسم آپ نے اس کے لیے کوئی اضافہ نہیں فرمایا ، لیکن جو شخص مجھے دعوت دیتا ہے کہ میں اس کے لیے ان پیسوں کے بارے میں گواہی دوں جو اس کو کسی رئیس سے ملیں گے تو میں اس کے لیے گواہی دیتا ہوں، اسی طرح جو شخص مجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ میں اس کے لیے کسی شر کے دور کرنے کے بارے میں گواہی دوں جو اس کو کسی صاحب منزلت آدمی سے پہنچنے کا خوف ہو تو میں اس کے لیے گواہی دیتا ہوں۔

31202

(۳۱۲۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی الْوَلِیدُ بْنُ کَثِیرٍ ، عَنْ وَہْبِ بْن کَیْسَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنِ عَبْدِ اللہِ یَقُولُ : لَمَّا کَانَ عَامُ الْجَمَاعَۃِ بَعَثَ مُعَاوِیَۃُ إلَی الْمَدِینَۃِ بُسْرَ بْنَ أَرْطَاۃَ لِیُبَایِعَ أَہْلَہَا عَلَی رَایَاتِہِمْ وَقَبَائِلِہِمْ فَلَمَّا کَانَ یَوْمَ جَائَتْہُ الأَنْصَارُ ، جَائَتْہُ بَنُو سَلِمۃ ، قَالَ : أَفِیہِمْ جَابِرٌ ؟ قَالُوا : لاَ ، قَالَ : فَلْیَرْجِعُوا فَإِنِّی لَسْتُ مُبَایِعَہُمْ حَتَّی یَحْضُرَ جَابِرٌ ، قَالَ : فَأَتَانِی ، فَقَالَ : نَاشَدْتُک اللَّہَ إلاَّ مَا انْطَلَقْت مَعَنا فَبَایَعْت فَحَقَنْت دَمَک وَدِمَائَ قَوْمِکَ ، فَإِنَّک إنْ لَمْ تَفْعَلْ قُتِلَتْ مُقَاتِلَتُنَا وَسُبِیَتْ ذَرَارِیّنَا ، قَالَ : فَأَسْتَنْظَرْتہُمْ إلَی اللَّیْلِ ، فَلَمَّا أَمْسَیْت دَخَلْتُ عَلَی أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتہَا الْخَبَرَ فَقَالَتْ : یَا ابْنَ أَخِی ، انْطَلِقْ فَبَایِعْ وَاحْقِنْ دَمَک وَدِمَائَ قَوْمِکَ ، فَإِنِّی قَدْ أَمَرْت ابْنَ أَخِی یَذْہَبُ فَیُبَایِعُ۔
(٣١٢٠٣) حضرت وھب بن کیسان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جماعت کے سال حضرت معاویہ (رض) نے حضرت بسر بن ارطاۃ (رض) کو مدینہ منورہ بھیجا تاکہ وہ اہل مدینہ سے ان کے جھنڈوں اور قبیلوں کے اعتبار سے بیعت کرلیں، سو جس دن ان کے پاس انصار کے آنے کا دن تھا اس روز ان کے پاس بنو سلمہ آئے ، انھوں نے کہا کیا ان لوگوں میں حضرت جابر (رض) ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں ، انھوں نے کہا چلو واپس چلے جاؤ، میں اس وقت تک ان سے بیعت نہیں لوں گا جب تک ان کے اندر حضرت جابر نہیں ہوں گے، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں ہ لوگ میرے پاس آئے اور کہا ہم آپ کو اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ چل کر بیعت کریں تاکہ آپ کا اور ہمارے خون محفوظ ہوجائیں، اور کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ہمارے لڑ سکنے والے لوگ قتل کردیئے جائیں گے اور ہمارے بچے قید ہوجائیں گے، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے رات تک مہلت مانگی، جب رات ہوئی تو میں حضرت ام اسلمہ زوجہ النبی (رض) کے پاس گیا اور ان کو ساری بات بتائی، انھوں نے فرمایا اے میرے بھتیجے ! جاؤ اور بیعت کرلو اور اپنا اور اپنی قوم کے خون کا تحفظ کرو، کیونکہ میں نے بھی اپنے بھتیجے کو بیعت کا حکم دیا ہے۔

31203

(۳۱۲۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ ، قَالَ : کَتَبَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ إلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ حِینَ بُویِعَ : سَلاَمٌ عَلَیْک فَإِنِّی أَحْمَدُ إلَیْک اللَّہَ الَّذِی لاَ إلَہَ إلاَّ ہُوَ ، أَمَّا بَعْدُ : فَإِنَّ لأَہْلِ طَاعَۃِ اللہِ وَلأَہْلِ الْخَیْرِ عَلاَمَۃٌ یُعْرَفُونَ بِہَا وَتُعْرَفُ فِیہِمْ : مِنَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْعَمَلِ بِطَاعَۃِ اللہِ ، وَاعْلَمْ أَنَّمَا مَثَلُ الإِمَامِ مَثَلُ السُّوقِ : یَأْتِیہ مَا کَانَ فِیہِ ، فَإِنْ کَانَ بَرًّا جَائَ ہُ أَہْلُ الْبِرِّ بِبِرِّہِمْ ، وَإِنْ کَانَ فَاجِرًا جَائَ ہُ أَہْلُ الْفُجُورِ بِفُجُورِہِمْ۔
(٣١٢٠٤) وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ جب عبداللہ بن زبیر (رض) کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تو عراق کے ایک آدمی نے ان کی طرف خط لکھا : ” السلام علیکم ! میں آپ کے سامنے اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ اما بعد ! اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں اور اہل خیر کی کچھ علامتیں ہیں جن کے ذریعے وہ پہچانے جاتے ہیں اور وہ چیزیں ان میں نظر آتی ہیں، امر بالمعروف ، نھی عن المنکر، اور اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری بجا لانا، اور جان لو کہ امام کی مثال بازار کی سی ہے ، کہ اس میں اسی طرح کے لوگ آتے ہیں جس طرح کی اس کے اندر چیزیں ہوتی ہیں، اگر وہ اہل خیر ہو تو اس کے پاس بھی نیک لوگ آتے ہیں اور اگر وہ فاجر ہو تو اس کے پاس بھی فاسق و فاجر لوگ اپنے فسق و فجور کے ساتھ آتے ہیں۔

31204

(۳۱۲۰۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ فَقِیلَ لَہُ : إنَّ الْمُخْتَارَ یَزْعُمُ أَنَّہُ یُوحَی إلَیْہِ ، فَقَالَ : صَدَقَ ، ثُمَّ تَلاَ {ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ عَلَی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ تَنَزَّلُ عَلَی کُلِّ أَفَّاکٍ أَثِیمٍ}۔
(٣١٢٠٥) حضرت سعید بن وہب (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کے پاس تھا ان سے کہا گیا کہ مختار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر وحی آتی ہے، آپ نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا، پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں : { ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ عَلَی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ تَنَزَّلُ عَلَی کُلِّ أَفَّاکٍ أَثِیمٍ }۔

31205

(۳۱۲۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شِمْرٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : إِنَّہَا سَتَکُونُ مُلُوکٌ ، ثُمَّ الْجَبَابِرَۃُ ، ثُمَّ الطَّوَاغِیتُ۔
(٣١٢٠٦) حضرت شمر، حضرت انس (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ پہلے بہت سے بادشاہ ہوں گے، پھر جابر حکمران ہوں گے پھر سرکش سلاطین آئیں گے۔

31206

(۳۱۲۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی نَضرَۃَ ، قَالَ : کُنَّا نُحَدَّثُ أَنَّ بَنِی فُلاَنٍ یُصِیبُہُمْ قَتْلٌ شَدِیدٌ ، فَإِذَا کَانَ ذَلِکَ ہَرَبَ مِنْہُمْ أَرْبَعَۃُ رَہْطٍ إلَی الرُّومِ ، فَجَلَبُوا الرُّومَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ۔
(٣١٢٠٧) حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں سے یہ بیان کیا جاتا تھا کہ فلاں قبیلے کے لوگوں میں سخت ترین خون ریزی کی جائے گی، چنانچہ جب ایسا ہوا تو ان میں سے چار آدمی روم کی طرف بھاگ گئے اور رومیوں کو مسلمانوں پر چڑھائی کرنے پر آمادہ کر لائے۔

31207

(۳۱۲۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَۃَ ، قَالَ : خَبَّرَنِی سَالِمٌ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادُوا أَنْ یُبَایِعُوا لِیَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ ، قَامَ مَرْوَانُ فَقَالَ : سُنَّۃُ أَبِی بَکْرٍ الرَّاشِدَۃُ الْمَہْدِیَّۃُ فَقَامَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَ : لَیْسَ بِسُنَّۃِ أَبِی بَکْرٍ وَقَدْ تَرَکَ أَبُو بَکْرٍ الأَہْلَ وَالْعَشِیرَۃَ وَالأَصْلَ ، وَعَمَدَ إلَی رَجُلٍ مِنْ بَنِی عَدِیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنْ رَأَی أَنَّہُ لِذَلِکَ أَہْلٌ ، فَبَایَعَہُ۔
(٣١٢٠٨) حضرت سالم (رض) فرماتے ہیں کہ جب لوگوں سے یزید بن معاویہ کے لیے بیعت لی جا رہی تھی اس دوران مروان کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ یہ حضرت ابوبکر (رض) کا مثالی طریقہ ہے، حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ یہ حضرت ابوبکر (رض) کا طریقہ نہیں، اور انھوں نے تو اپنے اہل و عیال اور قبیلے کے لوگ چھوڑ دیے تھے، اور بنی عدی بن کعب کے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اس کام کا سب سے زیادہ اہل ہے اس کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔

31208

(۳۱۲۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْمُجَالِدِ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْعَثِ : إنَّ لِکُلِّ شَیْئٍ دَوْلَۃً ، حَتَّی إِنَّ لِلْحُمْقِ عَلَی الْحِلْمِ دَوْلَۃً۔
(٣١٢٠٩) حضرت عامر (رض) ، حضرت محمد بن أشعث (رض) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ ہر چیز کا باری باری غلبہ آتا ہے یہاں تک کہ حماقت کو بھی عقل مندی پر غلبہ آیا کرتا ہے۔

31209

(۳۱۲۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی سَالِمٌ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ عُمَرَ لَمَّا نَزَعَ شُرَحْبِیلَ بْنَ حَسَنَۃَ ، قَالَ : یَا عُمَرُ عَنْ سَخْطَۃٍ نَزَعَتْنِی ؟ قَالَ : لاَ ، وَلَکِنَّا رَأَیْنَا مَنْ ہُوَ أَقْوَی مِنْک فَتَحَرَّجْنَا مِنَ اللہِ أَنْ نَتْرُککَ وَقَدْ رَأَیْنَا مَنْ ہُوَ أَقْوَی مِنْک ، فَقَالَ لَہُ شُرَحْبِیلُ : فَأَعْذِرْنِی فَقَامَ عُمَرُ عَلَی الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : کُنَّا اسْتَعْمَلْنَا شُرَحْبِیلَ بْنَ حَسَنَۃَ ، ثُمَّ نَزَعْنَاہُ مِنْ غَیْرِ سَخْطَۃٍ وَجَدْتہَا عَلَیْہِ ، وَلَکِنْ رَأَیْنَا مَنْ ہُوَ أَقْوَی مِنْہُ ، فَتَحَرَّجْنَا مِنَ اللہِ أَنْ نُقِرَّہُ وَقَدْ رَأَیْنَا مَنْ ہُوَ أَقْوَی مِنْہُ ، فَنَظَرَ عُمَرُ مِنَ الْعَشِیِّ إلَی النَّاسِ وَہُمْ یَلُوذُونَ بِالْعَامِلِ الَّذِی اُسْتُعْمِلَ ، وَشُرَحْبِیلُ مُحْتَبٍ وَحْدَہُ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَمَّا الدُّنْیَا فَإِنَّہَا لَکَاعٌ۔
(٣١٢١٠) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر (رض) نے حضرت شرحبیل بن حسنہ (رض) کو معزول کردیا تو انھوں نے عرض کیا اے عمر (رض) ! کیا آپ نے مجھے کسی ناراضی کے سبب معزول کردیا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں، لیکن ہم نے آپ سے زیادہ قوت والا ایک آدمی دیکھا ہے، حضرت شرحبیل (رض) نے عرض کیا کہ پھر مجھے معذور رکھو، چنانچہ حضرت عمر (رض) منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ ہم نے شرحبیل بن حسنہ کو عامل بنایا تھا پھر ہم نے بغیر کسی ناراضی کے ان کو معزول کردیا جس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں ان سے قوی شخص مل گیا، ہمیں اللہ تعالیٰ سے خوف آیا کہ ہم ان کو ان کے عہدے پر برقرار رکھیں جب کہ ہمیں ان سے زیادہ قوی شخص مل گیا ہے، اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے شام کے وقت دیکھا کہ وہ جا رہے ہیں اس عامل کے پاس جس کو عامل بنایا گیا تھا اور حضرت شرحبیل (رض) اکیلے ہاتھ باندھے بیٹھے ہیں ، آپ نے فرمایا دنیا تو کمینی ہے۔

31210

(۳۱۲۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ الْکَاتِبِ : أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَقُولُ : لاَ یُصْلِحُ ہَذَا الأَمْرَ إلاَّ شِدَّۃٌ فِی غَیْرِ تَجَبُّرٍ ، وَلِینٌ فِی غَیْرِ وَہَنٍ۔
(٣١٢١١) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاتب کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اس کام کی اصلاح سختی کرسکتی ہے مگر بغیر جبر کے، اور نرمی کرسکتی ہے مگر بغیر کمزوری کے۔

31211

(۳۱۲۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسْمَۃَ ، لإزَالَۃُ الْجِبَالِ مِنْ مَکَانِہَا أَہْوَنُ مِنْ إزَالَۃِ مَلِکٍ مُؤَجَّلٍ۔
(٣١٢١٢) حضرت محمد بن عمر بن علی (رض) ، حضرت علی (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا اور جان دار کو پیدا کیا کہ پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ٹلانا آسان ہے طے شدہ بادشاہت کو ٹلانے سے۔

31212

(۳۱۲۱۳) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِالْحَمِیدِ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عصمۃ، قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ عَائِشَۃَ فَأَتَاہَا رَسُولٌ مِنْ مُعَاوِیَۃَ بِہَدِیَّۃٍ ، فَقَالَ : أَرْسَلَ بِہَذَا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَبِلَتْ ہَدِیَّتَہُ ، فَلَمَّا خَرَجَ الرَّسُولُ قُلْنَا : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ أَلَسْنَا مُؤْمِنِینَ وَہُوَ أَمِیرُنَا ؟ قَالَتْ : أَنْتُمْ إنْ شَائَ اللَّہُ الْمُؤْمِنُونَ ، وَہُوَ أَمِیرُکُمْ۔
(٣١٢١٣) حضرت عبد الرحمن بن عصمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس تھا، ان کے پاس حضرت معاویہ (رض) کی طرف سے ایک قاصد ہدیہ لے کر آیا اور اس نے کہا کہ یہ چیز امیر المؤمنین نے بھیجی ہے، حضرت عائشہ (رض) نے اس کو قبول فرما لیا، جب قاصد نکل گیا تو ہم نے عرض کیا ! اے اُمّ المؤمنین کیا ہم مؤمنین نہیں ہیں اور وہ ہمارے امیر ہیں ؟ ّآپ نے جواب دیا کہ تم ان شاء اللہ مؤمن ہو اور وہ تمہارے امیر ہیں۔

31213

(۳۱۲۱۴) حَدَّثَنَا جَرِیرُ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ حَذْلَمٍ ، قَالَ : إنَّ أَوَّلَ یَوْمٍ سُلِّمَ عَلَیَّ أَمِیرٌ بِالْکُوفَۃِ بِالإِمْرَۃِ ، قَالَ : خَرَجَ الْمُغِیرَۃ بْن شُعْبَۃ مِنَ الْقَصْرِ ، فَعَرَضَ لَہُ رَجُلٌ مِنْ کِنْدَۃَ ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ بِالإِمْرَۃِ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ مَا أَنَا إلاَّ رَجُلٌ مِنْہُمْ ، فَتُرِکَتْ زَمَانًا ، ثُمَّ أَقَرَّہَا بَعْدُ۔
(٣١٢١٤) حضرت تمیم بن حزلم فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ کوفہ کے کسی امیر کو امیر کہہ کر سلام کرنے کا قصہ یوں پیش آیا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) اپنے محل سے نکلے تو ان کے پاس قبیلہ کندہ کا ایک آدمی آیا اس نے ان کو امیر کہہ کر سلام کیا، انھوں نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ میں تو عام لوگوں کا ایک فرد ہوں، چنانچہ اس لقب کو ایک عرصے تک چھوڑا گیا ، پھر بعد میں اس کو شامل کرلیا۔

31214

(۳۱۲۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ یَقُولُ : دَخَلْتُ عَلَی الْحَجَّاجِ فَلَمْ أُسَلِّمْ عَلَیْہِ۔
(٣١٢١٥) حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو یہ فرماتے سنا کہ میں حجّاج کے پاس گیا اور میں نے اس کو سلام نہیں کیا۔

31215

(۳۱۲۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، قَالَ : بَلَغَ ابْنَ عُمَرَ أَنَّ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ بُویِعَ لَہُ ، قَالَ : إنْ کَانَ خَیْرًا رَضِینَا ، وَإِنْ کَانَ شَرًّا صَبَرْنَا۔
(٣١٢١٦) حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کو یہ پیغام پہنچا کہ یزید بن معاویہ کے لیے بیعت لی جا رہی ہے آپ نے فرمایا اگر یہ خیر ہوئی تو ہم راضی ہوجائیں گے اور اگر یہ شر ہوا تو ہم صبرکریں گے۔

31216

(۳۱۲۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : شَہِدْت عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ جَائَ یَتَقَاضَی سَعْدًا دَرَاہِمَ أَسْلَفَہَا إیَّاہُ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ ، فَقَالَ : رُدَّ ہَذَا الْمَالَ ، فَقَالَ سَعْدُ : أَظُنُّک لاَقِیًا شَرًّا ، قَالَ : رُدَّ ہَذَا الْمَالَ ، قَالَ : فَقَالَ سَعْدُ : ہَلْ أَنْتَ ابْنُ مَسْعُودٍ إلاَّ عَبْدٌ مِنْ ہُذَیْلٍ ؟ قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : ہَلْ أَنْتَ إلاَّ ابْنُ حُمَیْنَۃَ ، قَالَ : فَقَالَ ابْنُ أَخِی سَعْدٌ : أَجَل ، أَنَّکُمَا لَصَاحِبَا رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ النَّاسُ إلَیْکُمَا ! فَرَفَعَ سَعْدُ یَدَیْہِ یَقُولُ : اللَّہُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : وَیْحَک ، قُلْ قَوْلاً وَلاَ تَلْعَنْ ، قَالَ : فَقَالَ سَعْدٌ : أَمَ وَاللہِ أَنْ لَوْلاَ مَخَافَۃُ اللہِ لَدَعَوْت عَلَیْک دَعْوَۃً لاَ تُخْطِئُک ، قَالَ : فَانْصَرَفَ عَبْدُ اللہِ کَمَا ہُوَ۔
(٣١٢١٧) حضرت قیس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو دیکھا کہ وہ حضرت سعد (رض) سے ان دراہم کا تقاضا کر رہے ہیں جو انھوں نے ان کو بیت المال سے قرض دیے تھے، حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ میں تمہیں برا ملاقاتی سمجھتا ہوں۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا وہ مال لوٹاؤ، انھوں نے فرمایا اے ابن مسعود ! کیا تم قبیلہ ہذیل کے ایک غلام نہیں ہو ؟ راوی فرماتے ہیں کہ اس پر حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ کیا تم حُمَینہ کے بیٹے نہیں ہو ؟ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) کے بھتیجے نے فرمایا کہ بیشک تم دونوں البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہو لوگ تمہیں دیکھتے ہیں، چنانچہ حضرت سعد (رض) نے یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ اٹھا لیے ” اے اللہ ! جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے “ حضرت ابن مسعود (رض) کہنے لگے جو چاہو کہو لیکن لعنت نہ کرنا، راوی کہتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے فرمایا بخدا اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو میں تم پر ایسی بد دعا کرتا جو تم سے خطا نہ کھاتی، راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) جیسے آئے تھے ایسے چل دیے۔

31217

(۳۱۲۱۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ زِیَادٍ ، قَالَ : لَمَّا أَرَادَ عُثْمَان أَنْ یَجْلِدَ الْوَلِیدَ ، قَالَ لِطَلْحَۃَ : قُمْ فَاجْلِدْہُ ، قَالَ : إنِّی لَمْ أَکُنْ مِنَ الْجَلاَدِینَ ، فَقَامَ إلَیْہِ عَلِیٌّ فَجَلَدَہُ ، فَجَعَلَ الْوَلِیدُ یَقُولُ لِعَلِیٍّ : أَنَا صَاحِبُ مَکِینَۃٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِزِیَادٍ : وَمَا صَاحِبُ مَکِینَۃٍ ؟ قَالَ : امْرَأَۃٌ کَانَ یَتَحَدَّثُ إِلَیْہَا۔
(٣١٢١٨) زیاد راوی ہیں کہ جب حضرت عثمان (رض) نے ولید کو کوڑے مارنے کا ارادہ کیا تو حضرت طلحہ سے فرمایا کہ کھڑے ہو کر ان کو کوڑے مارو، وہ کہنے لگے میں کوڑے مارنے والا نہیں ہوں ، چنانچہ حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے اور اس کو کوڑے لگائے تو ولید کہنے لگا کہ میں مکینہ کا ساتھی ہوں، راوی کہتے ہیں کہ میں نے زیاد سے پوچھا کہ مکینہ کے ساتھی کا کیا مطلب ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ مکینہ ایک عورت تھی جس سے وہ باتیں کیا کرتا تھا۔

31218

(۳۱۲۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانَ مَرْوَانُ مَعَ طَلْحَۃَ یَوْمَ الْجَمَلِ ، فَلَمَّا اشْتَبَکَت الْحَرْبُ ، قَالَ مَرْوَانُ : لاَ أَطْلُبُ بِثَأْرِی بَعْدَ الْیَوْمِ ، قَالَ : ثُمَّ رَمَاہُ بِسَہْمٍ فَأَصَابَ رُکْبَتَہُ ، فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتَّی مَاتَ ، قَالَ : وَقَالَ طَلْحَۃُ : دَعُوہُ فَإِنَّہُ سَہْمٌ أَرْسَلَہُ اللَّہُ۔
(٣١٢١٩) حضرت قیس روایت کرتے ہیں کہ جمل کے قصّے میں مروان حضرت طلحہ (رض) کے ساتھ تھا، جب جنگ شعلہ پذیر ہوئی تو مروان نے کہا کہ میں اپنا خون بہا آج کے بعد طلب نہیں کروں گا، راوی کہتے ہیں کہ پھر اس نے ان کو ایک تیرمارا جو ان کے گھٹنے پر لگا، پس خون نہیں رکا ، یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے، راوی کہتے ہیں کہ حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو کیونکہ یہ تیر اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔

31219

(۳۱۲۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَقِیَ أَبُو بَکْرَۃَ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ یَوْمًا نِصْفَ النَّہَارِ وَہُوَ مُتَقَنِّعٌ ، فَقَالَ : أَیْنَ تُرِیدُ ؟ فَقَالَ : أُرِیدُ حَاجَۃً ، قَالَ : إنَّ الأَمِیرَ یُزَارُ ، وَلاَ یَزُورُ۔
(٣١٢٢٠) حضرت عیینہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکرہ (رض) ایک دن نصف النھار کے وقت حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کو ملے جبکہ انھوں نے سر پر کپڑا ڈال رکھا تھا، حضرت ابو بکرہ نے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟ انھوں نے فرمایا میں ایک ضرورت سے جار ہا ہوں، آپ نے فرمایا کہ امیر کے پاس حاضر ہوا جاتا ہے خود امیر کسی کے پاس نہیں جاتا۔

31220

(۳۱۲۲۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ وَلِیَ الْمَوْسِمَ ، فَبَلَغَہُ أَنْ أَمِیرًا یَقدَمُ عَلَیْہِ ، فَقَدِمَ یَوْمَ عَرَفَۃَ ، فَجَعَلَہُ یَوْمَ الأَضْحَی۔
(٣١٢٢١) ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) حج کے امیر بنے، ان کو یہ پیغام ملا کہ ان کے پاس امیر تشریف لا رہے ہیں، چنانچہ وہ ان کے پاس عرفہ کے دن تشریف لائے تو انھوں نے خوشی میں اس کو عید کا دن بنا لیا۔

31221

(۳۱۲۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ قَیْسُ بْنُ سَعْد بْنُ عُبَادَۃَ مَعَ عَلِیٍّ عَلَی مُقَدِّمَتَہُ ، وَمَعَہُ خَمْسَۃُ آلاَفٍ قَدْ حَلَقُوا رُؤُوسَہُمْ بَعْدَ مَا مَاتَ عَلِیٌّ ، فَلَمَّا دَخَلَ الْحَسَنُ فِی بَیْعَۃِ مُعَاوِیَۃَ أَبَی قَیْسٌ أَنْ یَدْخُلَ ، فَقَالَ لأَصْحَابِہِ : مَا شِئْتُمْ ، إنْ شِئْتُمْ جَالَدْت بِکُمْ أَبَدًا حَتَّی یَمُوتَ الأَعْجَلُ ، وَإِنْ شِئْتُمْ أَخَذْت لَکُمْ أَمَانًا ، فَقَالُوا لَہُ : خُذْ لَنَا أَمَانًا ، فَأَخَذَ لَہُمْ أَنَّ لَہُمْ کَذَا وَکَذَا ، وَلاَ یُعَاقَبُوا بِشَیْئٍ وَإِنِّی رَجُلٌ مِنْہُمْ ، وَلَمْ یَأْخُذْ لِنَفْسِہِ خَاصّۃ شَیْئًا ، فَلَمَّا ارْتَحَل نَحْوَ الْمَدِینَۃِ وَمَضَی بِأَصْحَابِہِ جَعَلَ یَنْحَرُ لَہُمْ کُلَّ یَوْمٍ جَزُورًا حَتَّی بَلَغَ۔
(٣١٢٢٢) حضرت عروہ سے روایت ہے کہ قیس بن سعد بن عبادہ حضرت علی (رض) کے ساتھ ان کے لشکر کے اگلے حصّے میں رہے تھے، اور ان کے ساتھ پانچ ہزار افراد تھے جنہوں نے حضرت علی (رض) کی وفات کے بعد اپنے سروں کو منڈوا لیا تھا، پس جب حضرت حسن (رض) حضرت معاویہ (رض) کی بیعت میں داخل ہوگئے تو قیس نے داخل ہونے سے انکار کردیا، پھر اپنے ساتھیوں سے کہا تم کیا چاہتے ہو ؟ اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں لے کر ہمیشہ لڑتا رہوں گا یہاں تک کہ ہم میں سے پہلے مرنے والا مرجائے، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے امان طلب کرلوں، وہ کہنے لگے آپ ہمارے لیے امان طلب کرلیں، چنانچہ انھوں نے ان کے لیے کچھ شرائط اور معاوضے کے ساتھ صلح کرلی، اور شرط ٹھہرائی کہ ان کو کسی قسم کی سزا نہ دی جائے ، اور یہ کہا کہ میں ان کا ایک فرد ہوں گا، اور اپنے لیے کوئی شرط نہیں لگائی، جب وہ مدینہ کی طرف اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس چلے تو سارے راستے میں روزانہ ان کے لیے ایک اونٹ ذبح کرتے رہے یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گئے۔

31222

(۳۱۲۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ : أَنَّ عَلِیًّا بَلَغَہُ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ شَیْئٌ ، فَقَالَ : لأَنْ أَخَذْتہ لأَتْبَعْتہُ أَحْجَارُہُ۔
(٣١٢٢٣) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کو حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کی طرف سے کوئی نامناسب بات پہنچی، آپ نے فرمایا اگر میں اس کی پکڑ کرنا چاہوں تو اس کے پتھراسی کو جا لگیں۔

31223

(۳۱۲۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ : أَنَّ فُلاَنًا شَہِدَ عِنْدَ عُمَرَ فَرَدَّ شَہَادَتَہُ۔
(٣١٢٢٤) حضرت ابو جعفر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر (رض) کے پاس گواہی دی حضرت عمر (رض) نے اس کی گواہی کو ردّ کردیا۔

31224

(۳۱۲۲۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی یُحَدِّثُ : أَنَّہُ سَمِعَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ قَالَ : لَمَّا مَاتَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْف ، قَالَ : اذْہَبِ ابْنَ عَوْفٍ بِبَطْنَتک ، لَمْ تَتَغَضْغَضْ مِنْہَا بِشَیْئٍ۔ (ابن سعد ۱۳۶۔ طبرانی ۲۶۳)
(٣١٢٢٥) حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت عمرو بن عاص (رض) نے جس وقت حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) کی وفات ہوئی فرمایا : جاؤ اے ابن عوف اپنی شکم سیری کی عادت کو لے کر، تم نے اس میں کوئی کمی نہیں کی۔

31225

(۳۱۲۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : سَمِعَ ابْنُ سِیرِینَ رَجُلاً یَسُبُّ الْحَجَّاجَ ، فَقَالَ ابْنُ سِیرِینَ : إنَّ اللَّہَ حَکَمٌ عَدْلٌ ، یَأْخُذُ لِلْحَجَّاجِ مِمَّنْ ظَلَمَہُ ، کَمَا یَأْخُذُ لِمَنْ ظَلَمَہُ الْحَجَّاجُ۔
(٣١٢٢٦) حضرت ابو جعفر سے روایت ہے کہ حضرت محمد بن سیرین نے ایک آدمی کو دیکھا کہ حجاج کو برا بھلا کہہ رہا ہے آپ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے والے ہیں اور عادل ہیں، حجاج کا بدلہ لیں گے ان لوگوں سے جنہوں نے اس پر ظلم کیا جیسا کہ حجاج سے جن لوگوں پر اس نے ظلم کیا ہے ان کا بدلہ لیں گے۔

31226

(۳۱۲۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو الْجَحَّاف ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ ثَعْلَبَۃٍ ، قَالَ : أَتَیْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَنَفِیَّۃِ ، فَقُلْتُ : إنَّ رَسُولَ الْمُخْتَارِ أَتَانَا یَدْعُونَا ، قَالَ : فَقَالَ لِی : لاَ تُقَاتِلْ ، إنِّی لاَکْرَہُ أَنْ أَبْتَزَّ ہَذِہِ الأُمَّۃَ أَمْرَہَا ، أَوْ آتِیہَا مِنْ غَیْرِ وَجْہِہَا۔
(٣١٢٢٧) معاویہ بن ثعلبہ فرماتے ہیں کہ میں محمد بن حنفیہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مختار کا قاصد ہمارے پاس آیا ہے وہ ہمیں بلاتا ہے، فرماتے ہیں کہ انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ قتال مت کرو میں ناپسند کرتا ہوں کہ اس امّت کے معاملے کو چھین لوں یا ان پر ناحق حکمرانی کروں۔

31227

(۳۱۲۲۸) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَارِثِ الأَزْدِیِّ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ الْحَنَفِیَّۃِ : رَحِمَ اللَّہُ امْرَئًا أَغْنَی نَفْسَہُ وَکَفَّ یَدَہُ ، وَأَمْسَکَ لِسَانَہُ ، وَجَلَسَ فِی بَیْتِہِ ، لَہُ مَا احْتَسَبَ ، وَہُوَ مَعَ مَنْ أَحَبَّ۔
(٣١٢٢٨) حضرت حارث ازدی سے روایت ہے کہ محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائیں جو اپنے نفس کو غنی رکھے اور اپنا ہاتھ روک کر رکھے، اور اپنی زبان بند رکھے، اور اپنے گھر میں بیٹھ رہے کہ اس کے لیے جو اس نے کیا اور وہ اپنے پسندیدہ لوگوں کے ساتھ ہو۔

31228

(۳۱۲۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ رِضَی بْنِ أَبِی عَقِیلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنَّا عَلَی بَابِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ بِالشِّعبِ فَخَرَجَ ابْنٌ لَہُ - لَہُ ذُؤَابَتَانِ - فَقَالَ یَا مَعْشَرَ الشِّیعَۃِ ، إنَّ أَبِی یُقْرِئُکُمُ السَّلاَمَ ، قَالَ : فَکَأَنَّمَا کَانَتْ عَلَی رُؤُوسِہِمُ الطَّیْرُ ، قَالَ : إنَّ أَبِی یَقُولُ : إنَّا لاَ نُحِبُّ اللَّعَّانِینَ ، وَلاَ الْمُفرِطِینَ ، وَلاَ الْمُسْتَعْجِلِینَ بِالْقَدَرِ۔
(٣١٢٢٩) ابو عقیل فرماتے ہیں کہ ہم ایک گھاٹی میں حضرت محمد ابن حنفیہ کے دروازے پر تھے ، ان کا بیٹا گھر سے نکلا جس کے دو مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں اس نے کہا اے حضرت علی کے ساتھیوں کی جماعت ! میرے والد صاحب آپ کو سلام کہتے ہیں، راوی کہتے ہیں کہ وہ اس طرح مؤدّب ہوگئے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، پھر اس نے کہا میرے والد صاحب فرماتے ہیں کہ ہم لعنت کرنے والوں ، حد سے تجاوز کرنے والوں اور تقدیر کے فیصلے میں جلدی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتے۔

31229

(۳۱۲۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : لَوْ أَنَّ عَلِیًّا أَدْرَکَ أَمْرَنَا ہَذَا ، کَانَ ہَذَا مَوْضِعَ رَحْلِہِ ، یَعْنِی : الشِّعْبَ۔
(٣١٢٣٠) محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت علی (رض) ہماری اس حالت کو دیکھتے تو ان کے کجاوے کی جگہ یہ گھاٹی ہوتی۔

31230

(۳۱۲۳۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَخْرُجَ ثَلاَثُونَ کَذَّابًا مِنْہُمَ الْعَنْسِیُّ وَمُسَیْلِمَۃُ وَالْمُخْتَارُ۔ (ابویعلی ۶۷۸۶۔ بزار ۳۳۷۶)
(٣١٢٣١) حضرت ابن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تیس جھوٹے ظاہر نہ ہوجائیں، انہی میں سے ہیں اسود عنسی، مسیلمہ اور مختار۔

31231

(۳۱۲۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی الْجَحَّافِ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَمَرَ الْحُسَیْنُ مُنَادِیًا فَنَادَی فَقَالَ : لاَ یقبلَنَّ رَجُلٌ مَعِی عَلَیْہِ دَیْنٌ ، فَقَالَ رَجُلٌ : ضَمِنَتِ امْرَأَتِی دَیْنِی ، فَقَالَ : امْرَأَۃ ! مَا ضَمَانُ امْرَأَۃٍ ؟ قَالَ : وَنَادَی فِی الْمَوَالِی : فَإِنَّہُ بَلَغَنِی أَنَّہُ لاَ یُقْتَلُ رَجُلٌ لَمْ یَتْرُکْ وَفَائً إلاَّ دَخَلَ النَّارَ۔
(٣١٢٣٢) حضرت عمیر سے روایت ہے کہ حضرت حسین (رض) نے ایک منادی کو حکم دیا کہ یہ اعلان کر دے : کہ میرے ساتھ وہ آدمی نہ آئے جس پر قرضہ ہو، ایک آدمی نے کہا کہ میں اپنی بیوی کو اپنے قرض کا ضامن بناتا ہوں، آپ نے فرمایا عورت کے ضمان کا کیا حاصل ہے ؟ راوی فرماتے ہیں کہ آپ نے آزاد شدہ غلاموں میں یہ منادی کروائی کہ مجھے روایت پہنچی ہے کہ جو آدمی ایسی حالت میں قتل کیا جاتا ہے کہ اس نے کوئی مال چھوڑا ہو جس سے قرضہ ادا کیا جاسکے وہ آدمی جہنم میں جائے گا۔

31232

(۳۱۲۳۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ ، قَالَ : قَالَ لِی إبْرَاہِیمُ : إیَّاکَ أَنْ تُقْتَلَ مَعَ فِتْنۃٍ۔
(٣١٢٣٣) حضرت زبیر بن عدی فرماتے ہیں کہ مجھ سے ابراہیم نے فرمایا کہ تم اس بات سے بچو کہ تم فتنے کے ساتھ قتل کیے جاؤ۔

31233

(۳۱۲۳۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مِسْعَرًا یَذْکُرُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ : أَنَّ مَسْرُوقًا کَانَ یَرْکَبُ کُلَّ جُمُعَۃٍ بَغْلَۃً لَہُ وَیَجْعَلُنِی خَلْفَہُ ، فَیَأْتِی کُنَاسَۃً بِالْحِیرَۃِ قَدِیمَۃً فَیَحْمِلُ عَلَیْہَا بَغْلَتَہُ ، ثُمَّ یَقُولُ : الدُّنْیَا تَحْتَنَا۔
(٣١٢٣٤) ابراہیم بن محمد بن منتشر سے روایت ہے کہ مسروق (رض) ہر جمعے اپنے خچر پر سوار ہوتے اور مجھے اپنے پیچھے بٹھاتے پھر مقام حیرہ کے گندگی کے ڈھیر پر آتے اور اس پر اپنے گدھے کو کھڑا فرماتے اور پھر کہتے ہیں کہ دنیا ہمارے نیچے ہے۔

31234

(۳۱۲۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِ اللہ الأَصَمِّ ، یَذْکُرُ عَنْ أُمِّ رَاشِدٍ جَدَّتِہِ ، قَالَتْ : کُنْت عِنْدَ أُمِّ ہَانِئٍ فَأَتَاہَا عَلِیٌّ فَدَعَتْ لَہُ بِطَعَامٍ ، قَالَتْ : وَنَزَلْت فَلَقِیتُ رَجُلَیْنِ فِی الرَّحْبَۃِ ، فَسَمِعْتُ أَحَدَہُمَا یَقُولُ لِصَاحِبِہِ : بَایَعَتْہُ أَیْدِینَا وَلَمْ تُبَایِعْہُ قُلُوبُنَا ، قَالَ : فَقُلْتُ : مَنْ ہَذَانِ الرَّجُلاَنِ ؟ قَالُوا : طَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ ، قُلْتُ : فَإِنِّی سَمِعْت أَحَدُہُمَا یَقُولُ لِصَاحِبِہِ : بَایَعَتْہُ أَیْدِینَا وَلَمْ تُبَایِعْہُ قُلُوبُنَا ، فَقَالَ عَلِیٌّ : (فَمَنْ نَکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلَی نَفْسِہِ ، وَمَنْ أَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ فَسَیُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا)۔
(٣١٢٣٥) حضرت ام راشد (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں امّ ہانی (رض) کے پاس تھی کہ ان کے پاس حضرت علی (رض) تشریف لائے، انھوں نے ان کو کھانے کی دعوت دی اور فرمانے لگیں کہ میں میدان کی طرف اتری اور میں نے دو آدمی دیکھے تو میں نے ان میں سے ایک کو سنا کہ دوسرے سے یہ کہہ رہا تھا کہ اس آدمی سے ہمارے ہاتھوں نے بیعت کی ہے ہمارے دلوں نے بیعت نہیں کی، فرماتے ہیں کہ میں نے کہا وہ دو آدمی کون ہیں ؟ لوگ کہنے لگے طلحہ اور زبیر، فرماتی ہیں کہ میں نے ان کو یہی کہتے ہوئے سنا کہ اس آدمی سے ہمارے ہاتھوں نے بیعت کی ہے ہمارے دلوں نے بیعت نہیں کی، حضرت علی (رض) نے فرمایا جس شخص نے عہد شکنی کی اس کی عہد شکنی کا نقصان اسی کو ہوگا اور جس نے اس وعدے کو پورا کیا جس کو اس نے اللہ کے ساتھ باندھا تھا تو عنقریب وہ اس کو اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔

31235

(۳۱۲۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَرْسَلِنِی عَلِیٌّ إلَی طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ یَوْمَ الْجَمَلِ ، قَالَ : فَقُلْتُ لَہُمَا : إنَّ أَخَاکُمَا یُقْرِئُکُمَا السَّلاَمَ وَیَقُولُ لَکُمَا : ہَلْ وَجَدْتُمَا عَلَیَّ فِی حَیْفٍ فِی حُکْمٍ ، أَوْ فِی اسْتِئْثَارٍ فِی فَیْئٍ ، أَوْ فِی کَذَا ، أَوْ فِی کَذَا ؟ قَالَ : فَقَالَ الزُّبَیْرُ : لاَ ولاَ فِی وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا ، وَلَکِنْ مَعَ الْخَوْفِ شِدَّۃُ الْمَطَامِعِ۔
(٣١٢٣٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت علی (رض) نے طلحہ (رض) اور زبیر (رض) کی طرف جنگ جمل کے دن قاصد بنا کر بھیجا، میں نے ان دونوں سے کہا ، آپ کے بھائی آپ کو سلام کہتے ہیں اور آپ سے فرماتے ہیں کہ کیا آپ کو مجھ پر کسی معاملے کے فیصلے میں ظلم کرنے پر ناراضگی ہے یا کسی مال غنیمت پر اپنا قبضہ کرنے کے بارے میں یا فلاں فلاں بات میں ؟ فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر (رض) نے جواب دیا کہ ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے، بلکہ کچھ ایسا خوف ہے جس کے ساتھ سخت نوع کی طمع جمع ہوگئی ہے۔

31236

(۳۱۲۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ ، عَنْ حَنَشٍ الْکِنَانِیِّ ، عَنْ عُلَیمٍ الْکِنْدِیِّ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : لَیُحْرَقَنَّ ہَذَا الْبَیْتُ عَلَی یَدِ رَجُلٍ مِنْ آلِ الزُّبَیْرِ۔
(٣١٢٣٧) حضرت علیم کندی حضرت سلمان (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ یہ بیت اللہ حضرت زبیر (رض) کی آل میں سے ایک آدمی کے ہاتھوں جلے گا۔

31237

(۳۱۲۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ أَبِی حَصِینٍ ، قَالَ : مَا رَأَیْت رَجُلاً ہُوَ أَسَبَّ مِنْہُ۔ یَعْنِی : ابْنَ الزُّبَیْرِ۔
(٣١٢٣٨) حضرت ابو حصین فرماتے ہیں کہ میں نے ابن زبیر (رض) سے زیادہ کوئی شخص برا بھلا کہنے والا نہیں دیکھا۔

31238

(۳۱۲۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَامِرٍ : إنَّ النَّاسَ یَزْعُمُونَ أَنَّ الْحَجَّاجَ مُؤْمِنٌ ؟ فَقَالَ : وَأَنَا أَشْہَدُ أَنَّہُ مُؤْمِنٌ بِالطَّاغُوتِ کَافِرٌ بِاللہِ۔
(٣١٢٣٩) اجلح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عامر سے عرض کیا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ حجّاج مؤمن ہے ؟ فرمایا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ وہ طاغوت و شیطان پر ایمان لانے والا ہے اور اللہ کے احکام کا انکار کرنے والا ہے۔

31239

(۳۱۲۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ : مَا رَأَیْت أَبَا وَائِلٍ سَبَّ دَابَّۃً قَطُّ إلاَّ الْحَجَّاجَ مَرَّۃً وَاحِدَۃً، فَإِنَّہُ ذَکَرَ بَعْضَ صَنِیعَہُ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَطْعِمَ الْحَجَّاجَ طَعَامًا مِنْ ضَرِیعٍ لاَ یُسْمِنُ وَلاَ یُغْنِی مِنْ جُوعٍ ، قَالَ: ثُمَّ تَدَارَکَہَا بَعْدُ ، فَقَالَ : إنْ کَانَ ذَلِکَ أَحَبَّ إلَیْک ، فَقُلْتُ : أَتَشُکُّ فِی الْحَجَّاجِ ؟ قَالَ : وَتَعُدُّ ذَلِکَ ذَنْبًا؟۔
(٣١٢٤٠) حضرت عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے ابو وائل (رض) کو کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے زمین پر چلنے والے کسی ذی روح کو برا بھلا کہا ہو سوائے حجاج کے کہ انھوں نے ایک مرتبہ اس کی بدعملیوں کا ذکر کر کے فرمایا اے اللہ ! حجاج کو ضریع نامی جھاڑ میں سے کھلا ایسا کھانا جو نہ فربہ کرے اور نہ بھوک مٹائے، فرماتے ہیں کہ پھر انھوں نے بطور تدارک کے فرمایا : اگر آپ اس بات کو پسند فرمائیں، میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کو حجاج کے بارے میں ابھی تک شک ہے ؟ انھوں نے فرمایا کیا تم اس بات کے اضافے کو گناہ سمجھتے ہو۔

31240

(۳۱۲۴۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ ، قَالَ : بَلَغَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ أَنَّ طَلْحَۃَ یَقُولُ : إنَّمَا بَایَعْت وَاللُّجُّ عَلَی قَفَای ، فَأَرْسَل ابْنُ عَبَّاسٍ فَسَأَلَہُ ، قَالَ : فَقَالَ أُسَامَۃُ : أَمَّا اللُّجُّ عَلَی قَفَاہُ فَلا ، وَلَکِنْ قَدْ بَایَعَ وَہُوَ کَارِہٌ ، قَالَ : فَوَثَبَ النَّاسُ إلَیْہِ حَتَّی کَادُوا أَنْ یَقْتُلُوہُ ، قَالَ : فَخَرَجَ صُہَیْبٌ وَأَنَا إلَی جَنْبِہِ ، فَالْتَفَتَ إلَیَّ فَقَالَ : قَدْ عَلِمْت أَنَّ أُمَّ عَوْفٍ حَائِنَۃٌ۔
(٣١٢٤١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایسی حالت میں بیعت کی ہے کہ میری گدّی پر تلوار رکھی ہوئی تھی، آپ نے حضرت ابن عباس (رض) کو ان کے پاس بھیجا انھوں نے ان سے اس بات کی حقیقت پوچھی تو حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا کہ گدّی پر تلوار تو نہیں تھی لیکن دراصل بات یہ ہے کہ انھوں ایسی حالت میں بیعت کی ہے کہ وہ مجبور کیے گئے تھے، چنانچہ لوگ ان پر پل پڑے قریب تھا کہ ان کو جان سے مار ڈالتے، فرماتے ہیں کہ پھر حضرت صہیب (رض) نکلے اور میں ان کے پہلو میں تھا، انھوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا تم جانتے ہو کہ ٹڈّی ہلاک ہو کر ہی رہتی ہے۔

31241

(۳۱۲۴۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی ابْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ فَقَالَ : قَتَلُوا عُثْمَانَ ، ثُمَّ جَائُونِی ، فَقُلْتُ لَہُ : أَتَرِیبُک نَفْسُک ؟۔
(٣١٢٤٢) اعمش فرماتے ہیں کہ ہم ابن ابی ہذیل کے پاس آئے تو انھوں نے فرمایا کہ لوگوں نے حضرت عثمان (رض) کو قتل کیا پھر میرے پاس آئے تو میں نے کہا آپ کا دل آپ کو کچھ پریشان کررہا ہے ؟

31242

(۳۱۲۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ یَقُولُ : کَیْفَ أَرْجُو الشَّہَادَۃَ بَعْدَ قَوْلِی : أَرَأَیْت أَبَاکَ یُزْجَرُ زَجْرَ الأَعْرَابِ۔
(٣١٢٤٣) ہارون بن عنترہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو عبیدہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں شہادت کی تمنا کیسے کروں میرے اس بات کے کہنے کے بعد کہ کیا تم نے اپنے باپ کو دیکھا ہے کہ اسے اعرابیوں کی طرح ڈانٹ پلائی جا رہی تھی ؟

31243

(۳۱۲۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَنْتَرَۃَ ، عَنْ سُلَیْمِ بْنِ حَنْظَلَۃَ ، قَالَ : أَتَیْنَا أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ لِنَتَحَدَّثَ مَعَہُ ، فَلَمَّا قَامَ یَمْشِی قُمْنَا لِنَمْشِی مَعَہُ ، فَلَحِقَہُ عُمَرُ فَرَفَعَ عَلَیْہِ الدِّرَّۃَ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ : أَعْلَمُ مَا تَصْنَعُ ، قَالَ : مَا تَرَی فِتْنَۃً لِلْمَتْبُوعِ ذِلَّۃً لِلتَّابِعِ۔
(٣١٢٤٤) حضرت سلیم بن حنظلہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابی ّ بن کعب (رض) کے پاس حاضر ہوئے تاکہ ان سے بات چیت کریں، جب آپ چلنے کے لیے کھڑے ہوئے ہم بھی ان کے ساتھ چلنے کے لیے کھڑے ہوگئے، چنانچہ ان کو حضرت عمر (رض) ملے تو انھوں نے ان پر درّہ اٹھا لیا انھوں نے عرض کیا اے امیر المؤمنین یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا تم یہ دیکھ نہیں رہے ؟ یہ چیز آگے چلنے والے کے لیے فتنہ ہے اور پیچھے چلنے والے کے لیے ذلّت کی بات ہے۔

31244

(۳۱۲۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ فَجَعَلَ یَذْکُرُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أُبَیٍّ ، وَمَا نَزَلَ فِیہِ مِنَ الْقُرْآنِ وَیَعِیبَہُ ، وَکَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ حُرْمَۃٌ وَقَرَابَۃٌ ، وَکَعْبٌ سَاکِتٌ ، قَالَ : فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ إلَی عُمَرَ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَلَمْ تَرَ أَنِّی ذَکَرْت مَا نَزَلَ فِی عَبْدِ اللہِ بْنِ أُبَی، فَلَمْ یَکُنْ مِنْ کَعْبٍ، فَالْتَقَی عُمَرُ کَعْبًا ، فَقَالَ: أَلَمْ أُخْبِرْ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ أُبَیٍّ ذُکِرَ عِنْدَکَ فَلَمْ یَکُنْ مِنْک ، قَالَ کَعْبٌ: قَدْ سَمِعْت مَقَالَتَہُ ، فَلَمَّا رَأَیْتہ کَأَنَّہُ تَعَمَّد مَسَائَتِی ، کَرِہْتُ أَنْ أُعِینُہُ عَلَی مَسَائَتِی ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : وَدِدْت أَنْ لَوْ ضَرَبْت أَنْفَہُ ، أَوْ وَدِدْت أَنْ لَوْ کَسَرْت أَنْفَہُ۔
(٣١٢٤٥) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت کعب بن عجرہ (رض) کے پاس آیا اور عبداللہ بن اُبیّ کے بارے میں قرآن میں جو کچھ نازل ہوا بیان کرنے لگا اور اس کی عیب گوئی کرنے لگا، ان دونوں کے درمیان احترام اور قرابت داری کا معاملہ بھی تھا، حضرت کعب (رض) خاموشی سے سنتے رہے، اس کے بعد وہ آدمی حضرت عمر (رض) سے پاس گیا اور کہا اے امیر المومنین میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے حضرت کعب کے سامنے عبداللہ بن ابی ّ کے بارے میں جو قرآن میں نازل ہوا ہے بیان کیا لیکن انھوں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا، اس کے بعد حضرت عمر (رض) حضرت کعب (رض) سے ملے اور فرمایا کہ مجھے خبردی گئی ہے کہ آپ کے پاس عبداللہ بن ابی ّ کا ذکر کیا گیا آپ نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا ؟ حضرت کعب (رض) نے جواب دیا کہ میں نے اس کی بات سن لی تھی جب میں نے دیکھا کہ وہ جان بوجھ کر میری عیب جوئی کرنا چاہ رہا ہے کہ تو میں نے نامناسب سمجھا کہ اپنے عیب پر اس کی مدد کروں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اچھا ہوتا اگر تم اس کی ناک پر مار دیتے، یا فرمایا کہ اچھا ہوتا کہ تم اس کی ناک توڑ ڈالتے۔

31245

(۳۱۲۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ إدْرِیسَ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ، عَن عَبْدِاللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ: أَنَ الأَشْتَرَ وَابْنَ الزُّبَیْرِ الْتَقَیَا ، فَقَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ : مَا ضَرَبْتہ إلاَّ ضَرْبَۃً حَتَّی ضَرَبَنِی خَمْسًا أَوْ سِتًّا ، ثُمَّ قَالَ : فَأَلْقَانِی بِرجلی ، ثُمَّ قَالَ : أَما واللہِ لَوْلاَ قَرَابَتُک مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا تَرَکْت مِنْک عُضْوًا مَعَ صَاحِبِہِ ، قَالَ : وَقَالَتْ عَائِشَۃُ : وَا ثُکْلَ أَسْمَائَ ، قَالَ : فَلَمَّا کَانَ بَعْدُ أَعْطَتَ الَّذِی بَشَّرَہَا ، أَنَّہُ حَیٌّ عَشَرَۃَ آلاَفٍ۔
(٣١٢٤٦) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ اشتر اور ابن زبیر کی ملاقات ہوئی، ابن زبیر (رض) نے فرمایا کہ میں نے اس کو ایک ہی ضرب لگائی تھی کہ اس نے مجھے پانچ یا چھ ضربیں لگائیں پھر مجھے میرے پاؤں کی طرف گرا دیا اور پھر کہا بخدا اگر تمہاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رشتہ داری نہ ہوتی تو میں تیرا جوڑ جوڑ علیحدہ کردیتا، راوی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے یہاں تک فرما دیا تھا کہ ہائے اسماء کی بربادیِ ! فرماتے ہیں کہ بعد میں جس آدمی نے انھیں میرے زندہ ہونے کی خبر دی انھوں نے اس کو دس ہزار درہم انعام میں عنایت فرمائے۔

31246

(۳۱۲۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَا عَلِمْت أَحَدًا انْتَصَفَ مِنْ شُرَیْحٍ إلاَّ أَعْرَابِیٌّ ، قَالَ لَہُ شُرَیْحٌ : إنَّ لِسَانَک أَطْوَلُ مِنْ یَدِکَ ، فَقَالَ الأَعْرَابِیُّ : أَسَامِرِیٌّ أَنْتَ فَلاَ تُمَسُّ ، قَالَ لَہُ شُرَیْحٌ : أَقْبِلْ قِبَلَ أَمْرِک ، قَالَ : ذَاکَ أَعملَنِی إلَیْک ، قَالَ : فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ ، قَالَ لَہُ شُرَیْحٌ : إنِّی لَمْ أُرِدْک بِقَوْلِی ، قَالَ : وَلاَ اجْتَرَمْتُ عَلَیْک۔
(٣١٢٤٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا کہ اس نے حضرت شریح سے انتقام لیا ہو سوائے ایک اعرابی کے، شریح نے اس سے فرمایا کہ تمہاری زبان تمہارے ہاتھ سے زیادہ لمبی ہے تو اعرابی نے کہا : کیا تم سامری ہو کہ تمہیں ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا ؟ حضرت شریح نے فرمایا : اپنے معاملے کی ہوش لو، اس نے جواب دیا کہ میرا معاملہ ہی مجھے آپ کے پاس لایا ہے جب حضرت شریح (رض) کھڑے ہونے لگے تو فرمایا میں نے اپنی بات سے تمہیں مراد نہیں لیا تھا، اس اعرابی نے کہا کہ میں نے بھی آپ کا کوئی گناہ نہیں کیا۔

31247

(۳۱۲۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَمْرِ بْنِ عَطِیَّۃَ : أَنَّ ابْنَ مِخْنَفٍ الأَزْدِیَّ جَلَسَ إلَی عَلِیٍّ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : اقْرَا ، فَقَرَأَ سُورَۃَ الْبَقَرَۃِ ، فَمَا فَرَغَ مِنْہَا حَتَّی شَقَّ عَلیَّ ، قَالَ : فَبَعَثَہُ إِلَی أَصْبَہَانَ ، قَالَ : فَأَخَذَ مَا أَخَذَ وَحَمَلَ بَقِیَّۃَ الْمَالِ إلَی مُعَاوِیَۃَ۔
(٣١٢٤٨) شمر بن عطیہ فرماتے ہیں کہ ابن مخنف ازدی حضرت علی (رض) کے پاس بیٹھے تھے آپ نے اس سے فرمایا پڑھو ، اس نے سورة بقرہ شروع کردی، ان کے فارغ ہونے سے پہلے میں مشقت محسوس کرنے لگا، پھر حضرت علی (رض) نے ان کو اصفہان کی طرف بھیجا، انھوں جتنا مال چاہا لے لیا اور باقی حضرت معاویہ کے پاس بھیج دیا۔

31248

(۳۱۲۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ سِیَاہٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ یَزِیدَ الْحِمَّانِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا عَلَی ہَذَا الْمِنْبَرِ یَقُولُ : أَیُّہَا النَّاسُ ، أَعِینُونِی عَلَی أَنْفُسِکُمْ ، فَإِنْ کَانَتِ الْقَرْیَۃُ لَیُصْلِحُہَا السَّبْعَۃُ ، وَإِنْ کُنْتُمْ لاَ بُدَّ مُنْتَہِبِیہِ فَہَلُمَّ حَتَّی أُقَسِّمَہُ بَیْنَکُمْ ، فَإِنَّ الْقَوْمَ مَتَی یَنْزِلُوا بِالْقَوْمِ یَضْرِبُوا وُجُوہَہُمْ عَن قَرْیَتِہِمْ۔
(٣١٢٤٩) حضرت ثعلبہ بن یزید حمّانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو اس منبر سے یہ فرماتے سنا ! اے لوگو ! اپنی جانوں پر میری مدد کرو تو پوری بستی کی اصلاح کے لیے سات آدمی کافی ہیں، اور اگر تم ضرور اس میں لوٹ مار مچانا ہی چاہتے ہو تو آؤ میں اس کو تمہارے درمیان تقسیم کردیتا ہوں، کیونکہ جب کوئی قوم کسی قوم کے پاس آ کر ٹھہرتی ہے تو ان کے چہروں کو ان کی بستی سے پھیر دیتی ہے۔

31249

(۳۱۲۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، قَالَ : مَرَّ ابْنُ عُمَرُ بِحُذَیْفَۃَ ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : لَقَدْ جَلَسَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَجْلِسًا مَا مِنْہُمْ مِنْ أَحَدٍ إلاَّ أَعْطَی مِنْ دَیْنِہِ إلاَّ ہَذَا الرَّجُلُ۔
(٣١٢٥٠) حضرت لیث سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) حضرت حذیفہ (رض) کے پاس سے گزرے تو حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ایک مجلس میں بیٹھے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے اپنا دین کچھ نہ کچھ دے نہ دیا ہو سوائے اس آدمی کے۔

31250

(۳۱۲۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ، عَنِ ابْنِ مِینَائَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، وَإِنَّ أَحَدَ أَصَابِعِی فِی جُرْحِہِ ہَذِہِ أَوْ ہُوَ یَقُولُ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، إنِّی لاَ أَخَافُ النَّاسَ عَلَیْکُمْ ، إنَّمَا أَخَافُکُم عَلَی النَّاسِ ، وَإِنِّی قَدْ تَرَکْت فِیکُمَ اثْنَتَیْنِ لَمْ تَبْرَحُوا بِخَیْرٍ مَا لَزِمْتُمُوہَا : الْعَدْلَ فِی الْحُکْمِ ، وَالْعَدْلَ فِی الْقَسْمِ ، وَإِنِّی قَدْ تَرَکَتْکُمْ عَلَی مِثْلِ مَخْرَفَۃِ الْنَعَمِ إلاَّ أَنْ یَعْوَجَّ قَوْمٌ فَیُعْوَجَّ بِہِمْ۔ (بیہقی ۱۳۴)
(٣١٢٥١) حضرت مسور بن مخرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کا فرمان سنا جبکہ میری ایک انگلی پر یا یہ ان کے زخم پر تھی : کہ اے قریش کی جماعت ! مجھے تم پر لوگوں کا خوف نہیں بلکہ مجھے لوگوں پر تمہارا خوف ہے، اور میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ جب تک تم ان دونوں پر مضبوطی سے عمل پیرا رہو گے بھلائی میں رہو گے ، ایک فیصلے میں انصاف کرنا، دوسرے تقسیم میں انصاف کرنا اور میں تمہیں چوپایوں کے راستوں جیسے ایک وسیع اور نرم راستے پر چھوڑ رہا ہوں الّا یہ کہ کوئی قوم خود ہی ٹیڑھی ہوجائے تو ان کو ٹیڑھا کردیا جائے۔

31251

(۳۱۲۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : مَرَرْنَا عَلَی أَبِی ذَرٍّ بِالرَّبَذَۃِ ، فَسَأَلْنَاہُ عَنْ مَنْزِلِہِ ، قَالَ : کُنْتُ بِالشَّامِ فَقَرَأْت ہَذِہِ الآیَۃَ : {الَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُونَہَا فِی سَبِیلِ اللہِ} فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ : إنَّمَا ہِیَ فِی أَہْلِ الْکِتَابِ ، فَقُلْتُ : إِنَّہَا لَفِینَا وَفِیہِمْ ، فَکَتَبْتُ إلَی عُثْمَان ، قَالَ : فَکَتَبَ إلَیَّ عُثْمَان : أَنْ أَقْبِلْ ، فَلَمَّا قَدِمْت رَکِبَنِی النَّاسُ کَأَنَّہُمْ لَمْ یَرَوْنِی قَبْلَ ذَلِکَ ، فَشَکَوْت ذَلِکَ إلَی عُثْمَانَ ، فَقَالَ : لَوِ اعْتَزَلْت فَکُنْت قَرِیبًا ، فَنَزَلْت ہَذَا الْمَنْزِلَ ، فَلاَ أَدَعُ قَوْلَہ وَلَوْ أَمَّرُوا عَلَیَّ عَبْدًا حَبَشِیًّا۔
(٣١٢٥٢) حضرت زید بن وہب فرماتے ہیں کہ ہم مقام ربذہ میں حضرت ابو ذر (رض) کے پاس سے گزرے تو ہم نے وہاں پر ان کے قیام کی وجہ پوچھی، انھوں نے فرمایا کہ میں شام میں رہا کرتا تھا، وہاں میں نے یہ آیت پڑھی : { الَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُونَہَا فِی سَبِیلِ اللہِ } حضرت معاویہ (رض) نے کہا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں ہے، میں نے کہا کہ یہ آیت ہمارے اور ان کے بارے میں ہے، میں نے یہ بات حضرت عثمان (رض) کو لکھ بھیجی، انھوں نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ میرے پاس آؤ، جب میں آیا تو لوگ میرے گرد اس طرح جمع ہوگئے جیسا کہ انھوں نے مجھے اس سے پہلے دیکھا ہی نہیں تھا، میں نے اس بات کی حضرت عثمان (رض) سے شکایت کی تو انھوں نے فرمایا کہ اچھا ہوتا اگر آپ مدینہ کے باہر قریب کی کسی بستی میں علیحدگی اختیار کرلیتے ! میں اس جگہ آگیا اب میں امیر کے فرمان کو نہیں چھوڑوں گا چاہے وہ میرے اوپر کسی حبشی غلام کو ہی امیر بنادیں۔

31252

(۳۱۲۵۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ أَبِی جَعْفَر ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : کَفَی بِمَنْ شَکَّ فِی الْحَجَّاجِ لَحَاہُ اللَّہُ۔
(٣١٢٥٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حجاج کے بارے میں شک کرنے والے کے لیے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے۔

31253

(۳۱۲۵۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَانَ لَہُ سُمَّارٌ ، فَکَانَ عَلاَمَۃُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ أَنْ یَقُولَ لَہُمْ : إذَا شِئْتُمْ۔
(٣١٢٥٤) حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے کچھ قصّہ گو تھے، ان کی آپس میں مجلس برخاست کرنے کی علامت یہ تھی کہ وہ ان سے فرماتے کہ ” اب جس وقت تم چاہو “۔

31254

(۳۱۲۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ إذَا ذُکِرَ عِنْدَ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَدْ رَأَیْت فَتًی یَغْشَی عَلْقَمَۃَ فِی عَیْنِہِ بَیَاضٌ فَأَمَّا الشَّعْبِیُّ فَقَدْ رَأَیْتہ۔ یَعْنِی : فِی زَمَانِ ابْنِ زِیَادٍ۔
(٣١٢٥٥) حضرت ہشام فرماتے ہیں کہ محمد بن سیرین (رض) کے سامنے جب حضرت ابراہیم کا ذکر ہوتا تو فرماتے کہ میں نے ان کو ایسا جوان دیکھا ہے کہ حضرت علقمہ کو ہر وقت چمٹے رہتے ہیں ان کی آنکھ میں سفیدی تھی، اور شعبی کو بھی میں نے ابن زیاد کے زمانے میں دیکھا ہے۔

31255

(۳۱۲۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : کَانَ مُعَاذُ شَابًّا آدَمَ وَضَّاحَ الثَّنَایَا ، وَکَانَ إذَا جَلَسَ مَعَ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَوْا لَہُ مَا یَرَوْنَ لِلْکَہْلِ۔
(٣١٢٥٦) اعمش فرماتے ہیں کہ معاذ جوان مرد تھے، گندم گوں رنگت والے ، چمکتے دندان والے، اور جب وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے ساتھ بیٹھتے تو لوگ دیکھتے کہ ان کو ادھیڑ لوگوں میں مقام حاصل ہوتا تھا۔

31256

(۳۱۲۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعَ عَلِیٌّ مِنَ الْجَمَلِ ، وَتَہَیَّأَ إلَی صِفِّینَ اجْتَمَعَتِ النَّخْعُ حَتَّی دَخَلُوا عَلَی الأَشْتَرِ ، فَقَالَ : ہَلْ فِی الْبَیْتِ إلاَّ نَخْعِیٌّ ، قَالُوا : لاَ ، قَالَ : إنَّ ہَذِہِ الأُمَّۃَ عَمَدَتْ إلَی خَیْرِہَا فَقَتَلَتْہُ ، وَسِرْنَا إلَی أَہْلِ الْبَصْرَۃِ قوْمٌ لَنَا عَلَیْہِمْ بَیْعَۃٌ فَنُصِرْنَا عَلَیْہِمْ بِنَکْثِہِمْ ، وَإِنَّکُمْ سَتَسِیرُونَ إلَی أَہْلِ الشَّامِ قَوْمٌ لَیْسَ لَکُمْ عَلَیْہِمْ بَیْعَۃٌ ، فَلْیَنْظُرَ امْرُؤٌ مِنْکُم أَیْنَ یَضَعُ سَیْفَہُ ؟!۔
(٣١٢٥٧) حضرت عمیر بن سعد فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) جنگ جمل سے واپس ہوئے اور صفّین کی تیاری کرنے لگے تو قبیلہ نخع والے جمع ہو کر اشتر کے پاس پہنچ گئے، آپ نے پوچھا کہ اس گھر میں قبیلہ نخع کے لوگوں کے علاوہ کوئی آدمی نہیں ؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا، آپ نے فرمایا بیشک اس جماعت نے اپنے بہترین آدمی قتل کردیے، اور ہم نے اہل بصرہ کی طرف پیش قدمی کی جن پر ہمارا بیعت کا حق تھا پس ان کی عہد شکنی کے ساتھ ہماری مدد کی گئی، بیشک تم لوگ عنقریب اہل شام کی طرف کوچ کرو گے جن پر تمہیں بیعت کا حق حاصل نہیں ہے، اس لیے ہر آدمی کو چاہیے کہ دیکھ لے اور خوب سوچ لے کہ اپنی تلوار کہاں چلائے گا۔

31257

(۳۱۲۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ قِیلَ لِعُمَرَ : اکْتُبْ إلَی جَوَانَانَ ، قَالَ : وَمَا جَوَانَانُ ، قَالُوا : خَیْرُ الْفِتْیَانِ ، قَالَ : اکْتُبْ إلَی شَرِّ الْفِتْیَانِ۔ (عبدالرزاق ۱۹۸۵۵)
(٣١٢٥٨) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر سے کہا گیا کہ جوانوں کی طرف پیغام لکھ دو آپ نے پوچھا جوان کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ بہترین نوجوان، آپ نے فرمایا : میں بدترین نوجوانوں کو پیغام لکھ دیتا ہوں۔

31258

(۳۱۲۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ أَبِی لَیْلَی ضَرَبَہُ الْحَجَّاجُ وَأَوْقَفَہُ عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ ، قَالَ : فَجَعَلُوا یَقُولُونَ لَہُ : الْعَنِ الْکَذَّابِینَ ، فَجَعَلَ یَقُولُ : لَعَن اللَّہُ الْکَذَّابِینَ ، ثُمَّ سَکَتَ حِینَ سَکَتَ ، ثُمَّ یَقُولُ : عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ وَالْمُخْتَارُ بْنُ أَبِی عُبَیْدٍ ، فَعَرَفْت حِینَ سَکَتَ ، ثُمَّ ابْتَدَأَہُمْ فَعِرَّفَہُمْ ، أَنَّہُ لَیْسَ یُرِیدُہُمْ۔
(٣١٢٥٩) اعمش فرماتے ہیں کہ میں نے عبد الرحمن بن ابی لیلی (رض) کو دیکھا کہ حجاج نے ان کو کوڑے لگوا کر مسجد کے دروازے پر کھڑا کیا ہو اتھا، فرماتے ہیں کہ پھر وہ لوگ ان سے کہنے لگے کہ جھوٹوں پر لعنت کرو، وہ فرمانے لگے : اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے جھوٹوں پر، پھر تھوڑا رہ کر فرماتے، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن زبیر اور مختار بن ابی عبید، ان کے خاموش رہنے کے بعد بولنے سے مجھے پتہ چل گیا کہ وہ انھیں مراد نہیں لے رہے۔

31259

(۳۱۲۶۰) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ زِیَادٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِی الْبَخْترِیِّ الطَّائِیِّ وَالْحَجَّاجُ یَخْطُبُ ، فَقَالَ : مَثَلُ عُثْمَانَ عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ، قَالَ : فَرَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ تَأَوَّہَ ، ثُمَّ قَالَ : {إنِّی مُتَوَفِّیک وَرَافِعُک إلَیَّ} إِلَی قَوْلِہ {وَجَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوک فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ} قَالَ : فَقَالَ أَبُو الْبَخْترِیِّ : کَفَرَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔
(٣١٢٦٠) عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ابو البختری طائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جبکہ حجاج خطبہ دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ حضرت عثمان (رض) کی مثال اللہ کے ساتھ حضرت عیسیٰ بن مریم کی طرح ہے، کہتے ہیں کہ پھر اس نے سر اٹھا کر آہ نکالی پھر کہا {إنِّی مُتَوَفِّیک وَرَافِعُک إلَیَّ } ۔۔۔ { وَجَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوک فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ } ( اور بنانے والا ہوں تیرے متبعین کو کفار پر غالب قیامت کے دن تک) عطاء فرماتے ہیں کہ اس پر ابو البختری نے فرمایا رب کعبہ کی قسم ! یہ کافر ہوگیا۔

31260

(۳۱۲۶۱) حَدَّثَنَا مالک بن إسْمَاعِیلَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا کِنَانَۃٌ ، قَالَ : کُنْتُ أَقُودُ بِصَفِیَّۃَ لِتَرُدَّ عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : فَلَقِیَہَا الأَشْتَرُ فَضَرَبَ وَجْہَ بَغْلَتِِہَا حَتَّی مَالَتْ وَحَتَّی قَالَتْ : رُدُّونِی لاَ یَفْضَحُنِی ہَذَا۔ (ابن سعد ۱۲۸)
(٣١٢٦١) کنانہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت صفیّہ کی سواری چلا رہا تھا تاکہ وہ حضرت عثمان (رض) کی طرف داری کرتے ہوئے ان کا دفاع کریں، کہ اس اثناء میں ان کے سامنے اشتر آگیا اور اس نے ان کے خچر کے چہرے پر مارنا شروع کردیا یہاں تک کہ خچر واپس ہوگیا، اور حضرت صفیہ بھی فرمانے لگیں کہ مجھے واپس کردو کہیں یہ آدمی مجھے رسوا نہ کر دے۔

31261

(۳۱۲۶۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ مِنْ مَکَّۃَ إلَی الْکُوفَۃِ لِیُنْطَلَقَ بِہِ إلَی الْحَجَّاجِ إلَی وَاسِطٍ ، قَالَ : فَأَتَیْنَاہُ وَنَحْنُ ثَلاَثَۃُ نَفَرٍ ، أَوْ أَرْبَعَۃٌ ، فَوَجَدْنَاہُ فِی کُنَاسَۃِ الْخَشَبِ فَجَلَسْنَا إلَیْہِ ، فَبَکَی رَجُلٌ مِنَّا ، فَقَالَ لَہُ سَعِیدٌ : مَا یُبْکِیَک ، قَالَ : أَبْکِی لِلَّذِی نَزَلَ بِکَ مِنَ الأَمْرِ ، قَالَ : فَلاَ تَبْکِ فَإِنَّہُ قَدْ کَانَ سَبَقَ فِی عِلْمِ اللہِ یَکُونُ ہَذَا ، ثُمَّ قَرَأَ : {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِیبَۃٍ فِی الأَرْضِ ، وَلاَ فِی أَنْفُسِکُمْ إلاَّ فِی کِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَہَا إنَّ ذَلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ}۔
(٣١٢٦٢) ربیع بن ابی صالح فرماتے ہیں کہ جب سعید بن جبیر مکہ سے کوفہ آئے تاکہ ان کو واسط میں حجاج کے پاس لے جایا جائے تو ہم تین یا چار آدمی ان کے پاس آئے تو ہم نے ان کو لکڑی کے ایک ڈھیر میں بیٹھا ہوا پایا۔ ہم ان کے پاس بیٹھے تو ہم میں سے ایک آدمی رو پڑا، سعید نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز رلاتی ہے ؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مصیبت پر رو رہا ہوں، آپ نے فرمایا نہ روؤ کیونکہ اللہ کے علم میں پہلے سے یہ بات ہے کہ اس طرح ہوگا، پھر آپ نے پڑھا { مَا أَصَابَ مِنْ مُصِیبَۃٍ فِی الأَرْضِ ، وَلاَ فِی أَنْفُسِکُمْ إلاَّ فِی کِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَہَا إنَّ ذَلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیرٌ}(زمین میں اور تمہاری جانوں میں کوئی مصیبت نہیں آتی مگر وہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے ہمارے اس زمین کو پیدا کرنے سے پہلے، بیشک یہ اللہ تعالیٰ پر آسان ہے۔

31262

(۳۱۲۶۳) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُغِیرَۃُ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ ہُرْمُزَ، عَنْ عَبَّادٍ، قَالَ: أَتَی الْمُخْتَارُ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ بِمَالٍ مِنَ الْمَدَائِنِ وَعَلَیْہَا عَمُّہُ سَعْدُ بْنُ مَسْعُودٍ ، قَالَ : فَوَضَعَ الْمَالَ بَیْنَ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ مُقَطَّعَۃٌ حَمْرَائُ، قَالَ: فَأَدْخَلَ یَدَہُ فَاسْتَخْرَجَ کِیسًا فِیہِ نَحْوٌ مِنْ خَمْسَ عَشْرَۃَ مِئَۃ، قَالَ: ہَذَا مِنْ أُجُورِ الْمُومِسَاتِ قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِی أُجُورِ الْمُومِسَاتِ ، قَالَ : وَأَمَرَ بِمَالِ الْمَدَائِنِ فَرُفِعَ إلَی بَیْتِ الْمَالِ ، قَالَ : فَلَمَّا أَدْبَرَ ، قَالَ لَہُ عَلِیٌّ : قَاتَلَہُ اللہ ، لَوْ شُقَّ عَلَی قَلْبِہِ لَوُجِدَ مَلآنُ مِنْ حُبِّ اللاَّتِ وَالْعُزَّی۔
(٣١٢٦٣) عباد فرماتے ہیں کہ مختار حضرت علی (رض) کے پاس مدائن سے مال لے کر آیا اور مدائن پر اس کے چچا سعد بن مسعود حاکم تھے، راوی کہتے ہیں کہ اس نے ان کے سامنے مال رکھا اس پر سرخ رنگ کی چادر پڑی تھی، اس نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا اور ایک تھیلی اس میں سے نکالی جس میں تقریباً پندرہ سو درہم تھے، کہنے لگا کہ یہ زانیہ عورتوں کی اجرتیں ہیں، حضرت علی (رض) نے فرمایا ہمیں زانیہ عورتوں کی اجرتوں کی کوئی ضرورت نہیں، فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے پھر مدائن کے مال کو بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا اور جب مختار چلا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کو غارت کرے اگر اس کا سینہ چیر کر دیکھا جائے تو لات اور عزّیٰ کی محبت سے بھرا ہوا ملے۔

31263

(۳۱۲۶۴) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا دَاوُد ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ : فِی ہَذِہِ الآیَۃِ : {وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لاَ تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّۃً} قَالَ لَقَدْ نَزَلَتْ ، وَمَا نَدْرِی مَنْ یَخلُفُ لَہَا ، قَالَ : فَقَالَ بَعْضُہُمْ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، فَلِمَ جِئْت إلَی الْبَصْرَۃِ ؟ قَالَ : وَیْحَک إنَّا نُبْصِرُ وَلَکِنَّا لاَ نَصْبِرُ۔
(٣١٢٦٤) حضرت حسن حضرت زبیر بن عوام (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ { وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لاَ تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّۃً } نازل ہوئی اور ہم یہ نہیں جانتے کہ اس فتنے کا پیچھا کون کرے ؟ راوی کہتے ہیں کہ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبداللہ ! پھر آپ بصرہ کیوں آگئے ؟ آپ نے فرمایا تیرا ناس ہو ہم خوب دیکھتے ہیں لیکن ہم صبر نہیں کر پاتے۔

31264

(۳۱۲۶۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : نَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ ، عَنْ قُدَامَۃَ بْنِ عِتَابٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلِیًّا یَخْطُبُ فَأَتَاہُ آتٍ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَدْرِکْ بَکْرَ بْنَ وَائِلٍ فَقَدْ ضَرَبَتْہَا بَنُو تَمِیمٍ بِالْکُنَاسَۃِ ، قَالَ عَلِیٌّ : ہَاہ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی خُطْبَتِہِ ، ثُمَّ أَتَاہُ آخَرُ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ ، فَقَالَ : آہٍ ، ثُمَّ أَتَاہُ الثَّالِثَۃَ ، أَو الرَّابِعَۃَ ، فَقَالَ : أَدْرِکْ بَکْرَ بْنَ وَائِلٍ فَقَدْ ضَرَبَتْہَا بَنُو تَمِیمٍ ہِیَ بِالْکُنَاسَۃِ ، فَقَالَ : الآن صَدَقْتنِی سِن بَکْرِکَ یَا شَدَّادُ ؟ أَدْرِکْ بَکْرَ بْنَ وَائِلٍ وَبَنِی تَمِیمٍ فَأَقْرِعْ بَیْنَہُمْ۔
(٣١٢٦٥) قدامہ بن عتاب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت علی (رض) خطبہ فرما رہے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا اے امیر المؤمنین ! بکر بن وائل کی مدد کو پہنچو کیونکہ ان کو مقام کُناسہ میں بنو تمیم نے مار ہی ڈالا ہے، حضرت علی (رض) نے آہ لی اور پھر خطبے کی طرف متوجہ ہوگئے، پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے بھی یہی کہا آپ نے بھی آہ کیا، پھر وہ تیسری یا چوتھی مرتبہ آیا اور وہی بات دہرائی تو آپ نے فرمایا کہ اے شداد ! اب تو نے میرے ساتھ سچائی کا برتاؤ کیا، بکر بن وائل اور بنو تمیم کے پاس پہنچو اور ان کے درمیان قرعہ اندازی کردو۔

31265

(۳۱۲۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ مَوْلَی صُخَیرٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : بَعَثَ إلَیَّ الْحَجَّاجُ فَقَدِمْت عَلَیْہِ الأَہْوَازَ ، قَالَ لِی : مَا مَعَک مِنَ الْقُرْآنِ ، قَالَ : قُلْتُ : مَعِی مَا إنِ اتَّبَعْتہ کَفَانِی ، قَالَ : إنِّی أُرِیدُ أَنْ أَسْتَعِینَ بِکَ عَلَی بَعْضِ عَمَلِی ، قَالَ : قُلْتُ : إنْ تُقْحِمْنِی أَقْتَحِمْ ، وَإِنْ تَجْعَلْ مَعِی غَیْرِی خِفْت بَطَائِنَ السُّوئِ ، قَالَ : فَقَالَ الْحَجَّاجُ : وَاللہِ لَئِنْ قُلْتَ ذَاکَ إنَّ بَطَائِنَ السُّوئِ لَمَفْسَدَۃٌ للرَّجُلِ ، قَالَ : قُلْتُ : مَا زِلْت أُقَحَّزُ مُنْذُ اللَّیْلَۃَ عَلَی فِرَاشِی مَخَافَۃَ أَنْ تَقْتُلَنِی ، قَالَ : وَعَلاَمَ أَقْتُلُک ؟ أَمَا وَاللہِ لَئِنْ قُلْتَ ذَاکَ ، إنِّی لأقْتُلُ الرَّجُلَ عَلَی أَمْرٍ قَدْ کَانَ مَنْ قَبْلِی یُہَابُ الْقَتْلُ عَلَی مِثْلِہِ۔
(٣١٢٦٦) ابو وائل فرماتے ہیں کہ میرے پاس حجاج کا پیغام آیا تو میں اس کے پاس اہواز گیا ، اس نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کو کتنا قرآن یاد ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے اتنا یاد ہے کہ اگر میں اس کی پیروی کروں تو میرے لیے کافی ہے، وہ کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے بعض کاموں میں آپ سے مدد لوں، میں نے کہا اگر آپ مجھے اس کام میں جھونک دیں تو میں اتر جاؤں گا، اور اگر آپ میرے ساتھ کسی دوسرے آدمی کو بھی لگائیں گے تو مجھ برے راز دار کا خطرہ رہے گا، کہتے ہیں کہ اس پر حجاج نے کہا : بخدا آپ نے سچ فرمایا بیشک برے رازدان انسان کی بگاڑ کا سبب ہیں، میں نے کہا : میں رات بھر اپنے بستر پر اس بارے میں بےچین رہا کہ کہیں تم مجھے قتل نہ کر ڈالو، کہنے لگا کہ میں تمہیں کیوں قتل کروں گا ؟ بخدا اگر آپ نے یہ کہہ ہی دیا ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں کسی بھی آدمی کو ایسے جرم پر قتل کرتا ہوں کہ مجھ سے پہلے لوگ بھی اس جیسی بات پر قتل کا خوف رکھتے تھے۔

31266

(۳۱۲۶۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ہِلاَلٍ الْقُرَشِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبِی ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ لِمَرْوَانَ وَأَبْطَأَ بِالْجُمُعَۃِ : تَظَلُّ عِنْدَ بِنْتِ فُلاَنٍ تُرَوِّحُک بِالْمَرَاوِحِ وَتَسْقِیک الْمَائَ الْبَارِدَ ، وَأَبْنَائُ الْمُہَاجِرِینَ یُسْلَقُونَ مِنَ الْحَرِ ، لَقَدْ ہَمَمْت أَنِّی أَفْعَلُ وَأَفْعَلُ ، ثُمَّ قَالَ : اسْمَعُوا لأَمِیرِکُمْ۔
(٣١٢٦٧) ہلال قرشی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو مروان سے اس وقت یہ فرماتے سنا جبکہ مروان جمعہ کے لیے دیر سے پہنچا تھا، کہ تم فلاں کی بیٹی کے پاس پڑے رہتے ہو جو تمہیں پنکھے جھلتی اور ٹھنڈا پانی پلاتی ہے اور مہاجرین کی اولاد گرمی سے جلتی رہتی ہے میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ ایسا ایسا کروں گا، پھر لوگوں سے فرمایا کہ اپنے امیر کی بات سنو۔

31267

(۳۱۲۶۸) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حماد بن زید ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو نَعَامَۃَ عَمْرُو بْنُ عِیسَی ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : اللَّہُمَّ أَدْرِکْ خُفْرَتَکَ فِی عُثْمَانَ وَأَبْلِغِ الْقِصَاصَ فِی مُذَمَّمْ وَأَبْدِ عَوْرَۃ أَعْیَن رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ أَبِی امْرَأَۃِ الْفَرَزْدَقَ۔
(٣١٢٦٨) ابو نعامہ عمرو بن عیسیٰ حضرت عائشہ (رض) کا یہ قول نقل فرماتے ہیں : اے اللہ ! عثمان کے بارے میں اپنے وعدے کو پورا کردیجیے ! اور ” مذمّم “ کو قصاص تک پہنچائیے ! اور أَعْیَنْ کے عیوب کو ظاہر فرما دیجیے ! أعین بنو تمیم کا ایک آدمی تھا اور فرزدق کی بیوی کا باپ تھا۔

31268

(۳۱۲۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو نَضْرَۃَ : أَنَّ رَبِیعَۃَ کَلَّمَت طَلْحَۃَ فِی مَسْجِدِ بَنِی سَلَمَۃَ ، فَقَالَت : کُنَّا فِی نَحْرِ الْعَدُوِّ حِینَ جَائَتْنَا بَیْعَتُک ہَذَا الرَّجُلَ ، ثُمَّ أَنْتَ الآنَ تُقَاتِلُہُ ، أَوْ کَمَا قَالُوا ، فَقَالَ : إنِّی أُدْخِلْت الْحُشَّ وَوُضِعَ عَلَی عُنُقِی اللُّج ، فَقِیلَ : بَایِعْ وَإِلاَّ قَتَلْنَاک ، قَالَ : فَبَایَعْت ، وَعَرَفْتُ أَنَّہَا بَیْعَۃُ ضَلاَلَۃٍ۔ قَالَ التَّیْمِیُّ : وَقَالَ وَلِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ : إنَّ مُنَافِقًا مِنْ مُنَافِقِی أَہْلِ الْعِرَاقِ جَبَلَۃَ بْنَ حَکِیمٍ قَالَ لِلزُّبَیْرِ : فإنَّک قَدْ بَایَعْت ، فَقَالَ الزُّبَیْرُ : إنَّ السَّیْفَ وُضِعَ عَلَی عنقِی فَقِیلَ لِی : بَایِعْ وَإِلاَّ قَتَلْنَاک ، قَالَ : فَبَایَعْت۔
(٣١٢٦٩) ابو نضرہ روایت کرتے ہیں کہ ربیعہ نے طلحہ (رض) سے مسجدِ بنو سلمہ میں بات کی، اور کہا کہ ہم دشمن سے مقابلہ کر رہے تھے جب ہمیں آپ کی اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کی خبر پہنچی، پھر اب آپ ان سے قتال کر رہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ مجھے ایک تنگ جگہ میں داخل کر کے میری گردن پر تلوار رکھ دی گئی اور مجھ سے کہا گیا بیعت کرو ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے اس لیے میں نے یہ جانتے ہوئے بیعت کی کہ یہ گمراہی کی بیعت ہے۔
ابراہیم تیمی فرماتے ہیں کہ ولید بن عبد الملک نے کہا کہ اہل عراق کے ایک منافق جبلہ بن حکیم نے حضرت زبیر سے کہا کہ آپ نے تو بیعت کرلی تھی ؟ حضرت زبیر نے جواب دیا کہ میری گردن پر تلوار رکھ کر مجھے کہا گیا بیعت کرو ورنہ ہم تمہیں قتل کردیں گے، اس لیے میں نے بیعت کرلی۔

31269

(۳۱۲۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ : أَنَّ أُنَاسًا کَانُوا عِنْدَ فُسْطَاطِ عَائِشَۃَ ، فَمَرَّ عُثْمَان أُری ذَاکَ بِمَکَّۃَ ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ : فَمَا بَقِیَ أَحَدٌ مِنْہُمْ إلاَّ لَعَنَہُ ، أَوْ سَبَّہُ غَیْرِی، وَکَانَ فِیہِمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، فَکَانَ عُثْمَان عَلَی الْکُوفِیِّ أَجْرَأَ مِنْہُ عَلَی غَیْرِہِ ، فَقَالَ : یَا کُوفِی ، أَتَشْتِمُنِی ؟ اقْدَمِ الْمَدِینَۃَ ، کَأَنَّہُ یَتَہَدَّدُہُ ، قَالَ : فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ ، فَقِیلَ لَہُ : عَلَیْک بِطَلْحَۃِ ، قَالَ : فَانْطَلَقَ مَعَہُ طَلْحَۃُ حَتَّی أَتَی عُثْمَانَ ، قَالَ عُثْمَان : وَاللہِ لاَجْلِدَنَّکَ مِئَۃ ، قَالَ طَلْحَۃُ : وَاللہِ لاَ تَجْلِدُہُ مِئَۃ إلاَّ أَنْ یَکُونَ زَانِیًا ، قَالَ : لأَحْرِمَنَّکَ عَطَائَک ، قَالَ : فَقَالَ طَلْحَۃُ : إنَّ اللَّہَ سَیَرْزُقُہُ۔
(٣١٢٧٠) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ بہت سے لوگ حضرت عائشہ (رض) کے خیمہ کے پاس تھے کہ ادھر سے حضرت عثمان (رض) کا گزر ہوا، میرا خیال ہے کہ یہ مکہ کا واقعہ ہے، ابو سعید فرماتے ہیں کہ میرے علاوہ ان تمام آدمیوں نے حضرت عثمان (رض) پر لعنت کی اور ان کو برا بھلا کہا، ان میں ایک آدمی اہل کوفہ میں سے تھا، حضرت عثمان (رض) نے دوسروں کے مقابلے میں اس کوفی پر زیادہ جرأت دکھائی اور کہا اے کوفہ والے ! کیا تم مجھے گالیاں دیتے ہو ؟ ذرا مدینہ آؤ، یہ بات آپ نے دھمکی کے انداز میں فرمائی، وہ آدمی مدینہ آیا ، اس کو کہا گیا کہ طلحہ (رض) کے ساتھ رہو، کہتے ہیں کہ حضرت طلحہ (رض) اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ حضرت عثمان (رض) کے پاس آئے، عثمان (رض) نے فرمایا : بخدا میں تمہیں سو کوڑے لگاؤں گا، حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم تم اس کو صرف زانی ہونے کی صورت میں ہی سو کوڑے لگا سکتے ہو، آپ نے اس سے فرمایا میں تجھ کو تیرے وظیفے سے محروم کروں گا، حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کو روزی دے دیں گے۔

31270

(۳۱۲۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ جَاوَانَ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : قدِمْنَا الْمَدِینَۃَ وَنَحْنُ نُرِیدُ الْحَجَّ ، قَالَ الأَحْنَفُ : فَانْطَلَقْتُ فَأَتَیْتُ طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ ، فَقُلْتُ : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ؟ فَإِنِّی مَا أَرَی ہَذَا إلاَّ مَقْتُولاً ، یَعْنِی عُثْمَانَ ، قَالاَ : نَأْمُرُک بِعَلِیّ ، قُلْتُ تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ؟ قَالاَ : نَعَمْ ، قَالَ : ثُمَّ انْطَلَقْت حَاجًّا حَتَّی قَدِمْت مَکَّۃَ ، فَبَیْنَا نَحْنُ بِہَا إذْ أَتَانَا قَتْلُ عُثْمَانَ ، وَبِہَا عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَلَقِیتُہَا ، فَقُلْتُ : مَنْ تَأْمُرِینِی بِہِ أَنْ أُبَایِعَ ؟ قَالَتْ : عَلِی ، قُلْتُ : أَتَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضَیْنَہُ لِی ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، فَمَرَرْت عَلَی عَلِیٍّ بِالْمَدِینَۃِ فَبَایَعْتہ ، ثُمَّ رَجَعْت إلَی الْبَصْرَۃِ وَأَنَا أَرَی أَنَّ الأَمْرَ قَدِ اسْتَقَامَ۔ فَبَیْنَا أَنَا کَذَلِکَ إذْا أَتَانِی آتٍ ، فَقَالَ : ہَذِہِ عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ قَدْ نَزَلُوا جَانِبَ الْخُرَیْبَۃِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : مَا جَائَ بِہِمْ ؟ قَالُوا : أَرْسَلُوا إلَیْک یَسْتَنْصِرُونَک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ ، قُتِلَ مَظْلُومًا ، قَالَ : فَأَتَانِی أَفْظَعُ أَمْرٍ أَتَانِی قَطُّ ، قَالَ : قُلْتُ : إنَّ خِذَلاَنِی ہَؤُلاَئِ وَمَعَہُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَشَدِیدٌ ، وَإِنَّ قِتَالِی ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ أَمَرُونِی بِبَیْعَتِہِ لَشَدِیدٌ۔ قَالَ : فَلَمَّا أَتَیْتہمْ ، قَالوا : جِئْنَا نَسْتَنْصِرُک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُومًا ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، أُنْشِدُک بِاللہِ أَقُلْتُ لَکِ : مَنْ تَأْمُرِینِی فَقُلْتِ : عَلِیّ ، وَقُلْتُ : تَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضِینَہُ لِی ؟ قُلْتُ : نَعَم ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَلَکِنَّہُ بَدَّل ، فَقُلْتُ : یَا زُبَیْرُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَا طَلْحَۃُ ، نَشَدْتُکُمَا بِاللہِ: أَقُلْت لَکُمَا : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ ، فَقُلْتُمَا : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ، فَقُلْتُمَا : نَعَمْ ؟ قَالاَ : بَلَی ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ۔ قَالَ : قُلْتُ : لاَ أُقَاتِلُکُمْ وَمَعَکُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ أُقَاتِلُ ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرْتُمُونِی بِبَیْعَتِہِ ، اخْتَارُوا مِنِّی إِحْدَی ثَلاَثَ خِصَالٍ : إمَّا أَنْ تَفْتَحُوا لِی بَابَ الْجِسْرِ فَأَلْحَقَ بِأَرْضِ الأَعَاجِمِ حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَلْحَقَ بِمَکَّۃَ فَأَکُونَ بِہَا حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَعْتَزِلُ فَأَکُونَ قَرِیبًا ، قَالُوا : نَأْتَمر ، ثُمَّ نُرْسِلُ إلَیْک ، فَأْتَمَرُوا ، فَقَالُوا : نَفْتَحُ لَہُ بَابَ الْجِسْرِ یَلْحَقُ بِہِ الْمُفَارِقُ وَالْخَاذِلُ ، أَوْ یَلْحَقُ بِمَکَّۃَ فَیَتَعَجَّسَکُمْ فِی قُرَیْشٍ وَیُخْبِرُہُمْ بِأَخْبَارِکُمْ ، لَیْسَ ذَلِکَ بِرَأْی ، اجْعَلُوہُ ہَاہُنَا قَرِیبًا حَیْثُ تَطَؤُونَ عَلَی صِمَاخِہِ وَتَنْظُرُونَ إلَیْہِ۔ فَاعْتَزَلَ بِالْجَلْحَائِ مِنَ الْبَصْرَۃِ وَاعْتَزَلَ مَعَہُ زُہَائُ سِتَّۃِ آلاَفٍ ، ثُمَّ الْتَقَی الْقَوْمُ ، فَکَانَ أَوَّلُ قَتِیلٍ طَلْحَۃَ وَکَعْبَ بْنَ سُورٍ وَمَعَہُ الْمُصْحَفُ ، یُذَکِّرُ ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ حَتَّی قُتِلَ بَیْنَہُمْ ، وَبَلَغَ الزُّبَیْرُ سَفَوَانَ مِنَ الْبَصْرَۃِ کَمَکَانِ الْقَادِسِیَّۃِ مِنْکُمْ ، فَلَقِیَہُ النَّعِرُ : رَجُلٌ مِنْ مُجَاشِعٍ ، فَقَالَ : أَیْنَ تَذْہَبُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ إلَیَّ ، فَأَنْتَ فِی ذِمَّتِی لاَ یُوصَلُ إلَیْک ، فَأَقْبَلَ مَعَہُ ، فَأَتَی إنْسَانٌ الأَحْنَفَ ، فَقَالَ : ہَذَا الزُّبَیْرُ قَدْ لَحِقَ بِسَفوَانَ ، قَالَ : فَمَا یَأْمَن ؟ جَمَعَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی ضَرَبَ بَعْضُہُمْ حَوَاجِبَ بَعْضٍ بِالسُّیُوفِ ، ثُمَّ لَحِقَ بِبَیْتہِ وَأَہْلِہِ۔ قَالَ : فَسَمِعَہُ عُمَیْرُ بْنُ جُرْمُوزٍ ، وَغُوَاۃٌ مِنْ غُوَاۃِ بَنِی تَمِیمٍ ، وَفُضَالَۃُ بْنُ حَابِسٍ ، وَنُفَیْعٌ ، فَرَکِبُوا فِی طَلَبِہِ فَلَقُوہُ مَعَ النَّعِرِ ، فَأَتَاہُ عُمَیْرُ بْنُ جُرْمُوزٍ مِنْ خَلْفِہِ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ ضَعِیفَۃ فَطَعَنَہُ طَعْنَۃً خَفِیفَۃً ، وَحَمَلَ عَلَیْہِ الزُّبَیْرُ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ یُقَالَ لَہُ : ذُو الْخِمَارِ ، حَتَّی إذَا ظَنَّ ، أَنَّہُ نَائِلُہُ نَادَی صَاحِبَیْہ یَا نُفَیْعٌ ، یَا فُضَالَۃُ ، فَحَمَلُوا عَلَیْہِ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
(٣١٢٧١) احنف بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ ہم مدینہ آئے اور ہم حج کے لیے جانا چاہتے تھے، کہتے ہیں میں چل کر طلحہ (رض) اور زبیر (رض) کے پاس آیا اور کہا کہ تم مجھے کس کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہو اور کس کو میرے لیے پسند کرتے ہو ؟ کیونکہ میرے خیال میں تو یہ صاحب یعنی حضرت عثمان (رض) قتل ہوجائیں گے، فرمانے لگے کہ ہم تمہیں علی (رض) کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہیں، میں نے کہا کیا تم مجھے ان کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہو اور ان کو میرے لیے پسند کرتے ہو ؟ فرمانے لگے جی ہاں ! کہتے ہیں کہ پھر میں حج کو چلا گیا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا ، ہم وہیں تھے کہ ہمیں حضرت عثمان (رض) کے قتل کی خبر پہنچی، اور حضرت عائشہ (رض) بھی وہیں تھیں میں ان سے ملا اور پوچھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم فرماتی ہیں ؟ فرمانے لگیں کہ حضرت علی (رض) کی بیعت کا ، میں نے کہا کیا آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم کرتی ہیں اور ان کو میرے لیے پسند کرتی ہیں ؟ فرمانے لگیں جی ہاں ! اس کے بعد میں مدینہ میں حضرت علی کے پاس سے گزرا تو میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی، پھر میں بصرہ چلا گیا اور میرا خیال تھا کہ معاملہ صاف ہوگیا ہے۔
اس دوران ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ حضرت عائشہ (رض) حضرت طلحہ (رض) اور حضرت زبیر (رض) خُریبہ کے کنارے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں میں نے کہا وہ کس لیے تشریف لائے ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ آپ سے حضرت عثمان (رض) کے خون کے بارے میں مدد لیں، کیونکہ ان کو ظلماً قتل کیا گیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں اتنا گھبرا گیا کہ اس سے پہلے اتنی گھبراہٹ مجھ پر نہیں آئی تھی، اور میں نے سوچا کہ میرا ان حضرات کو چھوڑ دینا جن کے ساتھ ام المؤمنین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ہیں نہایت سخت بات ہے، اور اسی طرح میرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد سے قتال کرنا بعد ازاں کہ یہ حضرات مجھے ان کی بیعت کا حکم بھی فرما چکے ہیں بہت ہی مشکل کام ہے۔
فرماتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس پہنچا تو وہ فرمانے لگے کہ ہم آپ کے پاس آئے ہیں اور ہم آپ سے حضرت عثمان (رض) کے خون کے خلاف مدد لینا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے ام المؤمنین ! میں آپ کو اللہ عزوجل کی قسم دیتا ہوں آپ بتائیں کہ کیا میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ علی کی ، اور پھر میں نے آپ سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا واقعی آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم دیتی اور ان کو میرے لیے پسند کرتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا جی ہاں ! فرمانے لگیں ایسا ہی ہوا ہے لیکن حضرت علی بدل گئے ہیں ، پھر میں نے کہا اے زبیر ! اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ! اے طلحہ ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کیا میں نے تمہیں کہا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا : علی کی، میں نے پوچھا تھا کہ کیا واقعی آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم دیتے اور ان کو میرے لیے پسند کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا جی ہاں ! کہنے لگے کیوں نہیں، ایسا ہی ہے ، لیکن وہ بدل گئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں تمہارے ساتھ قتال نہیں کروں گا کیونکہ تمہارے ساتھ ام المؤمنین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ہیں، اور نہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد ہی سے لڑوں گا جن کی بیعت کا تم نے مجھے حکم دیا ہے۔ میری تین باتوں میں سے ایک قبول کرلو ! یا تو میرے لیے پل کا راستہ کھول دو ، میں عجمیوں کے علاقے میں چلا جاتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں، یا میں مکہ مکرمہ چلا جاؤں اور وہیں رہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرما دیں، یا میں علیحدگی اختیار کر کے قریب ہی کہیں رہنے لگوں، فرمانے لگے کہ ہم مشورہ کرتے ہیں، پھر ہم آپ کے پاس پیغام بھیج دیں گے، چنانچہ انھوں نے مشورہ کیا ، اور فرمایا کہ اگر ہم اس کے لیے پل کا راستہ کھول دیتے ہیں تو جو شخص لشکر سے جدا ہونا چاہے گا یا ناکام اور پسپا ہوجائے گا وہ اس کے پاس چلا جائے گا ، اور اگر اس کو مکہ مکرمہ بھیج دیا جائے تو قریش مکہ سے تمہاری خبریں لیتا رہے گا اور تمہاری خبریں انھیں پہنچاتا رہے گا، یہ کوئی درست فیصلہ نہیں ہے، اس کو یہیں قریب ہی رکھو جہاں تم اس کو اپنے لیے نرم گوش بھی رکھو گے اور اس کی نگرانی بھی کرسکو گے۔
چنانچہ وہ بصرہ سے مقام ” جلحائ “ میں علیحدہ ہوگئے اور ان کے ساتھ چھ ہزار کے لگ بھگ آدمی بھی مل گئے، پھر ان کی مڈبھیڑ ہوئی تو سب سے پہلے قتل ہونے والے حضرت طلحہ اور کعب بن مسور تھے جن کے پاس قرآن کریم کا نسخہ تھا جو دونوں جماعتوں کو نصیحت کر رہے تھے یہاں تک کہ انہی جماعتوں کے درمیان شہید ہوگئے، اور حضرت زبیر بصرہ کے مقام پر سفوان میں پہنچ گئے، اتنا دور جتنا کہ تم سے مقام قادسیہ ہے، چنانچہ ان کو قبیلہ مجاشع کا ایک نعر نامی آدمی ملا اور پوچھا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ! آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ میرے ساتھ آئیے آپ میرے ضمان میں ہیں، آپ تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا، چنانچہ آپ اس کے ساتھ چلے گئے، چنانچہ ایک آدمی احنف کے پاس آیا اور کہا زبیر یہاں سفوان میں پہنچ گئے ہیں، اس نے کہا کہ اب وہ بےخوف کیسے رہ سکتے ہیں جبکہ انھوں نے مسلمانوں کو اس طرح جمع کردیا کہ ان میں سے بعض بعض کے سروں کو مارنے لگے پھر یہ اپنے گھر کو واپس چلے جارہے ہیں۔
یہ بات عمیر بن جرموذ اور بنو تمیم کے بدمعاشوں نے سن لی، اسی طرح فضالہ بن عبید اور نفیع نے بھی، چنانچہ وہ ان کا پیچھا کرنے لگے اور ان کی حضرت زبیر کے ساتھ ملاقات ہوئی جبکہ حضرت زبیر نعر کے ساتھ تھے، عمیر بن جرموذ ان کے پیچھے آیا جبکہ وہ ایک کمزور سے گھوڑے پر سوا ر تھا، اور آ کر ان کو ہلکی سی ضرب لگائی ، حضرت زبیر (رض) نے اس کا پیچھا کیا جبکہ وہ اپنے ذوالخمار نامی گھوڑے پر سوار تھے، جب اس کو یقین ہوگیا کہ وہ حضرت زبیر کی پہنچ میں آگیا ہے تو اپنے ساتھیوں کو آواز لگائی اے نفیع ! اے فضالہ ! چنانچہ انھوں نے حضرت زبیر پر حملہ کیا اور آپ کو قتل کردیا۔

31271

(۳۱۲۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِاللہِ بْن أَبِی قَتَادَۃَ، قَالَ: مَازَحَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا قَتَادَۃَ، فَقَالَ: لاَجُزَّنَّ جُمَّتَکَ، فَقَالَ لَہُ: لَک مَکَانُہَا أَسِیرٌ، فَقَالَ لَہُ بَعْدَ ذَلِکَ: أَکْرِمْہَا، فَکَانَ یَتَّخِذُ لَہَا السُّک۔
(٣١٢٧٢) یحییٰ بن عبداللہ بن ابی قتادہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو قتادہ کے ساتھ مزاح فرمایا کہ میں تمہاری زلفیں کاٹ دوں گا انھوں نے فرمایا کہ ان کے بدلے میں آپ کو ایک غلام دیتا ہوں۔ آپ نے بعد میں ان سے فرمایا ان کا خوب خیال رکھو، چنانچہ وہ ان پر خوشبو لگا کر رکھتے تھے۔

31272

(۳۱۲۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ : أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرٍ زَوَّجَ ابْنَتَہُ فَخَلاَ بِہَا ، فَقَالَ لَہَا : إذَا نَزَلَ بِکَ الْمَوْتُ ، أَوْ أَمْرٌ مِنْ أُمُورِ الدُّنْیَا فَظِیعٌ فَاسْتَقْبِلِیہِ بِأَنْ تَقُولِی لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ : فَبَعَثَ إلَیَّ الْحَجَّاجُ فَقُلْتہنَّ ، فَلَمَّا مَثُلْت بَیْنَ یَدَیْہِ ، قَالَ : لَقَدْ بَعَثْت إلَیْک وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَک ، وَلَقَدْ صِرْت وَمَا مِنْ أَہْلِ بَیْتِکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَیَّ مِنْک ، سَلْنِی حَاجَتَک۔
(٣١٢٧٣) حضرت حسن بن حسن روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر (رض) نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور تنہائی میں اس کو نصیحت فرمائی کہ جب تمہیں موت آنے لگے یا دنیا کی کوئی گھبراہٹ میں ڈالنے والی حالت پیش آجائے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے ان الفاظ میں دعا کرنا : لاَ إلَہَ إلاَّ اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ۔
حسن بن حسن فرماتے ہیں کہ حجاج نے میرے پاس پیغام بھیجا تو میں نے یہ الفاظ پڑھ لیے، جب میں اس کے سامنے پیش کیا گیا تو کہنے لگا کہ میں نے آپ کو اس لیے بلایا تھا کہ آپ کو قتل کروں، لیکن میرے اوپر آپ کے اہل بیت میں سے آپ کو قتل کرنا سخت دشوار ہو رہا ہے، اس لیے آپ اپنی کوئی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہیں تو بتائیے میں آپ کو دیتا ہوں۔

31273

(۳۱۲۷۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : قَالَ ابْن الزُّبَیْرُ لِعُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ : کَلِّمْ ہَؤُلاَئِ لأَہْلِ الشَّامِ رَجَائَ أَنْ یَرُدَّہُمْ ذَاکَ ، فَسَمِعَ ذَلِکَ الْحَجَّاجُ فَأَرْسَلِ إلَیْہِمْ : ارْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ ، فَلاَ تَسْمَعُوا مِنْہُ شَیْئًا ، فَقَالَ عُبَیْدٌ : وَیْحَکُمْ ، لاَ تَکُونُوا کَاَلَّذِینَ قَالُوا : {لاَ تَسْمَعُوا لِہَذَا الْقُرْآنِ وَأَلْغَوْا فِیہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُونَ}۔
(٣١٢٧٤) ابن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں کہ ابن زبیر نے عبید بن عمیر سے فرمایا کہ ان شامیوں سے بات کرو تاکہ وہ واپس لوٹ جائیں، حجاج نے یہ سن کر لوگوں کے پاس پیغام بھیجا کہ اپنی آوازیں بلند کرلو تمہیں ان کی بات سنائی نہ دے، تو عبید نے فرمایا تمہاری ہلاکت ہو ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا ” اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں شوروغل کرو تاکہ تم غالب ہو جاؤ۔ “

31274

(۳۱۲۷۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ : اللَّہُمَّ إنَّک تَعْلَمُ أَنِّی لَسْتُ لَہُمْ بِإِمَامٍ۔
(٣١٢٧٥) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ ابو جعفر محمد بن علی نے فرمایا : اے اللہ ! بیشک آپ جانتے ہیں کہ میں ان لوگوں کا امام نہیں ہوں۔

31275

(۳۱۲۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی شَیْخٌ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ فِی أَیَّامِ ابْنِ الزُّبَیْرِ ، قَدْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَإِذَا السِّلاَح ، فَجَعَلَ یَقُولُ : لَقَدْ أَعْظَمْتُمَ الدُّنْیَا ! حَتَّی اسْتَلَمَ الْحَجَرَ۔
(٣١٢٧٦) جریر بن حازم اہل کوفہ کے ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر کے زمانے میں ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ مسجد میں داخل ہوئے تو اسلحہ دکھائی دیا، فرمانے لگے کہ تم نے دنیا کی تعظیم شروع کردی ہے، یہاں تک کہ آپ نے حجر اسود کا استلام کیا۔

31276

(۳۱۲۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی الْجُعْفِیُّ ، قَالَ : أَرْسَلَ الْحَجَّاجُ إلَی سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ فَقَالَ : لاَ تَؤُمَّ قَوْمَک ، وَإِذَا رَجَعْت فَاسْبِبْ عَلِیًّا ، قَالَ : قُلْتُ : سَمْع وَطَاعَۃً۔
(٣١٢٧٧) حضرت ابراہیم بن عبد اعلیٰ فرماتے ہیں کہ حجاج بن یوسف نے سوید بن غفلہ کو پیغام بھجوایا کہ لوگوں کو نماز نہ پڑھاؤ۔ وہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ حکم کی تعمیل ہوگی۔

31277

(۳۱۲۷۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : ذَکَرَ إبْرَاہِیمُ : أَنَّہُ أُرْسِلَ إلَیْہِ زَمَنَ الْمُخْتَارِ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ ، قَالَ : فَطَلاَ وَجْہَہُ بِطِلاَئٍ ، وَشَرِبَ دَوَائً ، فَلَمْ یَأْتِہِمْ فَتَرَکُوہُ۔
(٣١٢٧٨) ابراہیم فرماتے ہیں کہ میرے پاس مختار کے زمانے میں بلاوا آیا تو میں نے اپنے چہرے پر روغن مل لیا اور کوئی دوا پی لی اور ان کے پاس نہیں گیا، چنانچہ انھوں نے مجھے چھوڑ دیا۔

31278

(۳۱۲۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذَرِیحٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَتْ عَائِشَۃُ إلَی مُعَاوِیَۃَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّہُ مَنْ یَعْمَلْ بِسَخَطِ اللہِ یُعَدُّ حَامِدُہُ مِنَ النَّاسِ ذَامًّا۔ (حمیدی ۲۶۶۔ ابن حبان ۲۷۷)
(٣١٢٧٩) شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے حضرت معاویہ (رض) کے پاس پیغام بھیجا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ناراضی والے اعمال کرتا ہے اس کی تعریف کرنے والے لوگ بھی مذمت کرنے والے شمار کیے جانے لگتے ہیں۔

31279

(۳۱۲۸۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : رَأَیْتُ حُجْرٌ بْنَ عَدِیٍّ وَہُوَ یَقُولُ : ہاہ ! بَیْعَتِی لاَ أَقِیلُہَا وَلاَ أَسْتَقِیلُہَا ، سَمَاعُ اللہِ وَالنَّاسِ۔ یَعْنِی بِقَوْلِہِ الْمُغِیرَۃَ۔
(٣١٢٨٠) ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حجر بن عدی کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہائے میری بیعت ! جس کو میں ختم کرسکتا ہوں نہ اس سے سبکدوشی طلب کرسکتا ہوں، کہ وہ اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی سنی ہوئی ہے، لوگوں سے ان کی مراد حضرت مغیرہ (رض) تھے۔

31280

(۳۱۲۸۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا قُطْبَۃُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ : کَتَبَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَیْبَ عُثْمَانَ فَقَالُوا : مَنْ یَذْہَبُ بِہِ إلَیْہِ، فَقَالَ عَمَّارُ : أَنَا ، فَذَہَبَ بِہِ إلَیْہِ ، فَلَمَّا قَرَأَہُ قَالَ : أَرْغَمَ اللَّہُ بِأَنْفِکَ ، فَقَالَ عَمَّارُ : وَبِأَنْفِ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ ، قَالَ : فَقَامَ وَوَطِئَہُ حَتَّی غُشِیَ عَلَیْہِ ، قَالَ : وَکَانَ عَلَیْہِ تُبَّان۔ قَالَ : ثُمَّ بَعَثَ إلَیْہِ الزُّبَیْرِ وَطَلْحَۃَ فَقَالاَ لَہُ : اخْتَرْ إحْدَی ثَلاَثٍ : إمَّا أَنْ تَعْفُوَ ، وَإِمَّا أَنْ تَأْخُذَ الأَرْشَ ، وَإِمَّا أَنْ تَقْتَصَّ ، قَالَ : فَقَالَ عَمَّارُ : لاَ أَقْبَلُ مِنْہُنَّ شَیْئًا حَتَّی أَلْقَی اللَّہَ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : سَمِعْت یَحْیَی بْنَ آدَمَ ، قَالَ : ذَکَرْت ہَذَا الْحَدِیثَ لِحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، فَقَالَ : مَا کَانَ عَلَی عُثْمَانَ أَکْثَرَ مِمَّا صَنَعَ۔
(٣١٢٨١) حضرت سالم بن ابی الجعد روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) نے حضرت عثمان (رض) کا کوئی عیب لکھا، اس کے بعد وہ پوچھنے لگے یہ تحریر ان کے پاس کون لے کر جائے گا ؟ حضرت عمار نے فرمایا میں لے کر جاؤں گا، وہ لے کر گئے، جب حضرت عثمان (رض) نے وہ تحریر پڑھی تو فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کی ناک خاک آلود کرے، حضرت عمار نے اس پر فرمایا : تو پھر حضرت ابوبکر و عمر کی ناک کو بھی، کہتے ہیں کہ اس پر حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور ان کو گرا لیا اور پاؤں سے روندنے لگے یہاں تک کہ وہ بےہوش ہوگئے، اس وقت انھوں نے جان گیا پہن رکھا تھا، پھر حضرت عثمان نے ان کے پاس حضرت زبیر اور طلحہ کو بھیجا اور انھوں نے ان سے کہا کہ تین باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلو ، یا تو معاف کردو یا تاوان لے لو یا بدلہ لے لو، حضرت عمار نے فرمایا میں ان میں سے کچھ قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جا ملوں۔
ابو بکر فرماتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن آدم کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے حسن بن صالح کے سامنے یہ حدیث ذکر کی تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان پر ان کے اس فعل سے زیادہ کوئی الزام نہیں۔

31281

(۳۱۲۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : قُلْتُ لإِبْرَاہِیمَ : إِنَّ الْکُتُب تَجِیئُ مِنْ قِبَلِ قُتَیْبَۃَ فِیہَا الْبَاطِلُ وَالْکَذِبُ ، فَإِذَا أَرَدْت أَنْ أُحَدِّثَ جَلِیسِی أَفْعَلُ ؟ قَالَ : لاَ بَلْ أَنْصِتْ۔
(٣١٢٨٢) حماد فرماتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے کہا کہ قتیبہ کی طرف سے خط آتے ہیں جن میں باطل اور جھوٹی باتیں بھی ہوتی ہیں، جب میں اپنے کسی ہمنشین کو اس کے بارے میں بیان کرنا چاہوں تو کر دوں ؟ فرمایا نہیں ! بلکہ خاموش رہو۔

31282

(۳۱۲۸۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِعُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ : ذَہَبْتُمْ بِالدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ، قَالَ : وَمَا ذَاکَ ؟ قَالَ : لَکُمْ أَمْوَالٌ تَصَدَّقُونَ مِنْہَا وَتَصِلُونَ مِنْہَا ، وَلَیْسَتْ لَنَا أَمْوَالٌ ، قَالَ : لَدِرْہَمٌ یَأْخُذُہُ أَحَدُکُمْ فَیَضَعُہُ فِی حَقٍّ أَفْضَلَ مِنْ عَشَرَۃِ آلاَفٍ یَأْخُذُہا أَحَدُنَا غَیضًا مِنْ فَیْضٍ فَلاَ یَجِدُ لَہَا مَسًّا۔
(٣١٢٨٣) اسرائیل فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عثمان بن ابی العاص سے کہا کہ تم دنیا اور آخرت دونوں ہی لے گئے، انھوں نے پوچھا کیسے ؟ کہنے لگا آپ کے پاس مال ہیں جن میں سے آپ صدقہ کرتے ہیں اور صلہ رحمی کرتے ہیں، اور ہمارے پاس مال نہیں ہیں، آپ نے فرمایا ایک درہم جس کو تم میں سے کوئی شخص لے کر حق طریقے سے خرچ کرتا ہے ان دس ہزار دراہم سے افضل ہے جو ہم میں سے کوئی بہت زیادہ میں سے لیتا ہے لیکن اس میں اس کو تصرف کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

31283

(۳۱۲۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحُصَیْنِ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَبَیْنَ سَعْدٍ کَلاَمُ ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ رَجُلٌ خَالِدًا عِنْد سَعْدٍ ، فَقَالَ سَعْدٌ : مَہْ ، إنَّ مَا بَیْنَنَا لَمْ یَبْلُغْ دِینَنَا۔
(٣١٢٨٤) طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص کے درمیان کچھ تکرار ہوگئی تھی، ایک آدمی نے حضرت سعد (رض) کے سامنے حضرت خالد کی برائی کی تو آپ نے فرمایا خاموش ہو جاؤ، ہمارا جھگڑا اتنا زیادہ نہیں کہ ہمارے دین تک پہنچ جائے۔

31284

(۳۱۲۸۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ سَالِمًا ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا نَہَی النَّاسَ عَنْ شَیْئٍ جَمَعَ أَہْلَ بَیْتِہِ ، فَقَالَ : إنِّی نَہَیْت النَّاسَ عَنْ کَذَا وَکَذَا ، وَإنَّ النَّاسَ لَیَنْظُرُونَ إلَیْکُمْ نَظَرَ الطَّیْرِ إلَی اللَّحْمِ ، وَایْمُ اللہِ لاَ أَجِدُ أَحَدًا مِنْکُمْ فَعَلَہُ إلاَّ أَضْعَفْتُ لَہُ الْعُقُوبَۃَ ضِعْفَیْنِ۔
(٣١٢٨٥) عبید اللہ بن عمر سالم کے ایک شاگرد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جب لوگوں کو کسی چیز سے منع فرماتے تو اپنے گھر والوں کو جمع کر کے فرماتے کہ میں نے لوگوں کو فلاں فلاں کام سے منع کردیا ہے اور لوگ تمہاری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے پرندہ گوشت کی طرف دیکھتا ہے، اور خدا کی قسم ! تم میں سے جس کو بھی میں یہ کام کرتے دیکھوں گا اس کو دوسروں سے دوگنی سزا دوں گا۔

31285

(۳۱۲۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الصَّبَاحِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : کَانَ أَبِی یَسْمَعُ الْخَادِمَ تَسُبُّ الشَّاۃَ ، فَیَقُولُ : تَسُبِّینَ شَاۃً تَشْرَبِینَ مِنْ لَبَنِہَا۔
(٣١٢٨٦) صباح بن ثابت فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد خادمہ کو سنتے کہ بکری کو برا بھلا کہتی ہے تو فرماتے کہ تم اسی بکری کو برا بھلا کہتی ہو جس کا دودھ پیتی ہو !

31286

(۳۱۲۸۷) حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ دِینَارٍ سَمِعَہُ یَقُولُ : قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ : قَالَ لِی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : اکْتُبْ إلَیَّ بِسُنَّۃِ عُمَرَ ، قَالَ : قُلْتُ : إنَّک إنْ عَمِلْت بِمَا عَمِلَ عُمَرُ فَأَنْتَ أَفْضَلُ مِنْ عُمَرَ ، إِنَّہُ لَیْسَ لَکَ مِثْلُ زَمَانِ عُمَرَ ، وَلاَ رِجَالٌ مِثْلُ رِجَالِ عُمَرَ۔
(٣١٢٨٧) سالم بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن عبد العزیز (رض) نے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) کا طریقہ میرے پاس لکھ بھیجو، میں نے کہا : اگر آپ اس طرح عمل کرلیں جس طرح حضرت عمر نے عمل کیا تو آپ حضرت عمر سے افضل ٹھہریں گے، کیونکہ نہ تو آپ کا زمانہ ہی حضرت عمر والا زمانہ ہے اور نہ آپ کے ساتھ حضرت عمر کے ساتھیوں جیسے آدمی ہیں۔

31287

(۳۱۲۸۸) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ وَاقِدٍ عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ وَہُوَ سَاجِدٌ فِی الْکَعْبَۃِ نَحْوَ الْحَجَرِ وَہُوَ یَقُولُ : إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا تَسَوِّطُ۔
(٣١٢٨٨) عثمان بن واقد ایک بیان کرنے والے کے واسطے سے حضرت ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حطیم کعبہ میں حجر اسود کے قریب سجدے میں یہ دعا کر رہے تھے اے اللہ ! میں ان فتنوں سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں جو قریش برپا کر رہے ہیں۔

31288

(۳۱۲۸۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِیدِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو إیَاسٍ مُعَاوِیَۃُ بْنُ قُرَّۃَ ، قَالَ : کُنْتُ نَازِلاً عِنْدَ عَمْرِو بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، فَلَمَّا حضَرَ رَمَضَانُ ، جَائَہُ رَجُلٌ بِأَلْفَیْ دِرْہَمٍ مِنْ قِبَلِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، فَقَالَ : إنَّ الأَمِیرَ یُقْرِئُک السَّلاَمَ وَیَقُولُ : إنَّا لَمْ نَدَعْ قَارِئًا شَرِیفًا إلاَّ وَقَدْ وَصَلَ إلَیْہِ مِنَّا مَعْرُوفٌ ، فَاسْتَعِنْ بِہَذَیْنِ عَلَی نَفَقَۃِ شَہْرِکَ ہَذَا ، فَقَالَ عَمْرٌو : اقْرَأْ عَلَی الأَمِیرِ السَّلاَمَ ، وَقُلْ لَہُ : إنَّا وَاللہِ مَا قَرَأْنَا الْقُرْآنَ نُرِیدُ بِہِ الدُّنْیَا ، وَرَدَّہُ عَلَیْہِ۔
(٣١٢٨٩) ابو ایاس معاویہ بن قرہ فرماتے ہیں کہ میں عمرو بن نعمان بن مقرن کے پاس ٹھہرا ہو اتھا، جب رمضان کا مہینہ آیا تو ان کے پاس ایک آدمی مصعب بن زبیر کی طرف سے درہم لے کر آیا اور کہا کہ امیر آپ کو سلام عرض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے کسی صاحب شرافت قاری کو بھی اپنی جانب سے بھلائی سے محروم نہیں کیا، آپ یہ دو ہزار درہم لے لیں اور اس مہینے کے خرچ میں اس سے مدد حاصل کرلیں، حضرت عمرو نے جواب میں فرمایا کہ امیر کو میرا سلام کہو اور ان سے کہو کہ واللہ ! ہم نے دنیا حاصل کرنے کی نیّت سے قرآن نہیں پڑھا ، یہ کہہ کر وہ دراہم واپس کردیے۔

31289

(۳۱۲۹۰) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ ، قَالَ : بَیْنَا أَنَا جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَابْنُ عُمَرَ جَالِسٌ فِی نَاحِیَۃٍ وَابْنَاہُ عَنْ یَمِینِہِ وَشِمَالِہِ ، وَقَدْ خَطَبَ الْحَجَّاجُ بْنُ یُوسُفَ النَّاسَ ، فَقَالَ : أَلاَ إنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ نَکَّسَ کِتَابَ اللہِ ، نَکَّسَ اللَّہُ قَلْبَہُ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : أَلاَ إنَّ ذَلِکَ لَیْسَ بِیَدِکَ ، وَلاَ بِیَدِہِ ، فَسَکَتَ الْحَجَّاجُ ہُنَیْہَۃً - إنْ شِئْتَ قُلْتَ طَوِیلاً ، وَإِنْ شِئْتَ قُلْتُ لَیْسَ بِطَوِیلٍ - ، ثُمَّ قَالَ : أَلاَ إنَّ اللَّہَ قَدْ عَلَّمَنَا وَکُلَّ مُسْلِمٍ وَإِیَّاکَ أَیُّہَا الشَّیْخُ ، أَنَّہُ ہُوَ نفعک ، قَالَ : فَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ یَضْحَکُ وَقَالَ لِمَنْ حَوْلَہُ : أَمَّا إنِّی قَدْ تَرَکْت الَّتِی فِیہَا الْفَضْلُ : أَنْ أَقُولَ : کَذَبْتَ۔
(٣١٢٩٠) حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ اس دوران کہ ہم مسجدِ حرام میں بیٹھے تھے حضرت ابن عمر (رض) مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے، اور ان کے دائیں بائیں ان کے صاحبزادے بیٹھے ہوئے تھے، حجاج بن یوسف نے لوگوں سے خطبے میں کہا تھا : خبردار ! بیشک عبداللہ بن زبیر نے کتاب اللہ کو بگاڑ دیا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو بگاڑے، اس پر ابن عمر (رض) نے فرمایا : خبردار ! نہ یہ تمہارے اختیار میں ہے نہ ان کے اختیار میں ہے۔ حجاج اس بات پر تھوڑی دیر خاموش رہا، اتنا کہ اگر میں اس خاموشی کو طویل کہوں تو بھی کہہ سکتا ہوں اور اگر کہوں کہ زیادہ طویل خاموشی نہیں تھی تب بھی درست ہوگا، پھر کہنے لگا : اے بڈھے ! آگاہ ہو جاؤ ! بیشک اللہ تعالیٰ نے ہمیں ، تمہیں اور ہر مسلمان کو علم بخشا ہے اگر وہ علم تجھے نفع دے ، راوی کہتے ہیں کہ اس پر حضرت ابن عمر ہنسنے لگے، اور اردگرد کے ساتھیوں سے فرمایا کہ میں نے فضیلت والی بات چھوڑ دی، یہ کہ میں کہتا کہ تو نے جھوٹ کہا۔

31290

(۳۱۲۹۱) حَدَّثَنَا مالک بن إسْمَاعِیلَ ، عَنْ کَامِلِ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ : کَانَ الْعَبَّاسُ أَقْرَبَ شَحْمَۃِ أذَنٍ إلَی السَّمَائِ۔
(٣١٢٩١) حضرت کامل بن حبیب فرماتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) دوسرے لوگوں کی بنسبت آسمان کی طرف زیادہ قریب کان کی لو والے تھے۔

31291

(۳۱۲۹۲) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ الْعَیْزَارِ ، قَالَ : بَیْنَمَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ ، إذْ رَأَی الْحُسَیْنَ بْن عَلِیٍّ مُقْبِلاً ، فَقَالَ : ہَذَا أَحَبُّ أَہْلِ الأَرْضِ إلَی أَہْلِ السَّمَائِ۔
(٣١٢٩٢) ولید بن عیزار فرماتے ہیں کہ عمرو بن عاص (رض) کعبہ کے سائے میں تھے کہ انھوں نے حضرت حسین بن علی (رض) کو تشریف لاتے دیکھا تو فرمایا کہ یہ شخص زمین والوں میں آسمان والوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے۔

31292

(۳۱۲۹۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَیْمَنَ ، قَالَ : قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : إنَّک قَادِمٌ عَلَی الْحَجَّاجِ فَانْظُرْ مَإِذَا تَقُولُ ، لاَ تَقُلْ مَا یَسْتَحِلُّ بِہِ دَمَک ، قَالَ : إنَّمَا یَسْأَلُنِی کَافِرٌ أَنَا أَوْ مُؤْمِنٌ ؟ فَلَمْ أَکُنْ لأَشْہَدَ عَلَی نَفْسِی بِالْکُفْرِ وَأَنَا لاَ أَدْرِی أَنْجُو مِنْہُ أَمْ لاَ۔
(٣١٢٩٣) عبد الواحد بن ایمن فرماتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے کہا کہ آپ حجاج کے پاس جا رہے ہیں تو ذرا دھیان سے بات کرنا، کہیں ایسی بات نہ کہہ بیٹھنا جس سے وہ تمہارے خون کو مباح سمجھ کر قتل کر ڈالے ، انھوں نے فرمایا : وہ مجھ سے پوچھے گا کہ تم کافر ہو یا مؤمن ؟ میں تو اپنی ذات پر کفر کی گواہی نہیں دے سکتا، اور مجھے اس کا کوئی علم نہیں کہ میں اس کے شر سے نجات پاؤں گا یا نہیں۔

31293

(۳۱۲۹۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ النُّعْمَانِ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی مُعَاوِیَۃَ : الْزَمِ الْحَقَّ یَلْزَمْک الْحَقُّ۔
(٣١٢٩٤) نعمان سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت معاویہ (رض) کو لکھا کہ آپ حق کے ساتھ ساتھ رہیے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہوں گے۔

31294

(۳۱۲۹۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُبَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : نَسْتَعِینُ بِقُوَّۃِ الْمُنَافِقِ وَإِثْمُہُ عَلَیْہِ۔
(٣١٢٩٥) عبد الملک بن عبید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم منافق کی قوت سے مدد حاصل کرلیتے ہیں اور اس کا گناہ اسی پر رہتا ہے۔

31295

(۳۱۲۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْفَرَزْدَقَ یَقُولُ : کَانَ ابْنُ حِطَّانَ مِنْ أَشْعَرِ النَّاسِ۔
(٣١٢٩٦) ابن شبرمہ فرماتے ہیں کہ میں نے فرزدق کو یہ کہتے سنا کہ ابن حطان قابل ترین شعراء میں سے تھا۔

31296

(۳۱۲۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ إذَا لَقِیت عُبَیْد اللہِ بْنَ عَبْدِ اللہِ فَکَأَنَّمَا أُفَجِّرُ بِہِ بَحْرًا۔
(٣١٢٩٧) زہری فرماتے ہیں کہ جب میں عبید اللہ بن عبداللہ (رض) سے ملتا تو مجھے ایسا لگتا کہ ان کی باتوں سے میرے اندر علم کے سمندر جاری ہوگئے ہیں۔

31297

(۳۱۲۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حَمْزَۃَ أَبِی عُمَارَۃَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ لِعُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ : مَالَک وَلِلشِّعْرِ ، قَالَ : ہَلْ یَسْتَطِیعُ الْمَصْدُورُ إلاَّ أَنْ یَنْفِثَ۔
(٣١٢٩٨) حمزہ بن ابی عمارہ فرماتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے عبید اللہ بن عبداللہ سے فرمایا کہ آپ کا شعر سے کیا تعلق ؟ انھوں نے فرمایا کہ تپ دق کا مریض پھونکنے کے سوا اور کیا کرسکتا ہے ؟

31298

(۳۱۲۹۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمُ بْنُ أَخْضَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُسْلِمُ بْنُ یَسَارٍ أَرْفَعَ عِنْدَ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ مِنَ الْحَسَنِ ، حَتَّی خَفَّ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ وَکَفُّ الآخَرُ ، فَلَمْ یَزَلْ أَبُو سَعِیدٍ فِی عُلوّ مِنْہَا وَسَقَطَ الآخَرُ۔
(٣١٢٩٩) ابن عون فرماتے ہیں کہ مسلم بن یسار اہل بصرہ میں حسن بصری سے زیادہ مقام کے حامل تھے یہاں تک کہ ابن الأشعث کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کا مرتبہ گھٹ گیا، اس لیے ابو سعید حسن بصری بلند مرتبہ ہی رہے اور دوسرے کا مقام گرگیا۔

31299

(۳۱۳۰۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَوْبَان ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عُمَیْرُ بْنُ ہَانِئٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُنْقِذٌ صَاحِبُ الْحَجَّاجِ : أَنَّ الْحَجَّاجَ لَمَّا قَتَلَ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ مَکَثَ ثَلاَثَ لَیَالٍ یَقُولُ : مَالِی وَلِسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ۔
(٣١٣٠٠) عمیر بن ہانی فرماتے ہیں کہ مجھے حجاج کے ساتھی منقذ نے خبر دی کہ جب حجاج نے سعید بن جبیر کو قتل کیا تو تین رات تک یہی کہتا ہوا جاگتا رہا کہ سعید بن جبیر میرا کیسا دشمن ہوگیا۔

31300

(۳۱۳۰۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُرَادِیِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، قَالَ : بَیْنَا شَاعِرٌ یَوْمَ صِفِّینَ یُنْشِدُ ہِجَائً لِمُعَاوِیَۃَ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : وَعَمَّارٌ یَقُولُ : الْزَق بِالْعَجُوزَیْنِ ، قَالَ : فَقَالَ رَجُلٌ : سُبْحَانَ اللہِ ، تَقُولُ ہَذَا وَأَنْتُمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَہُ عَمَّارٌ : إنْ شِئْت أَنْ تَجْلِسَ فَاجْلِسْ ، وَإِنْ شِئْت أَنْ تَذْہَبَ فَاذْہَبْ۔
(٣١٣٠١) عبداللہ بن سلیمہ فرماتے ہیں کہ صفین کی جنگ میں ایک شاعر حضرت معاویہ (رض) اور عمرو بن عاص (رض) کے ہجو کررہا تھا اور عمار (رض) فرما رہے تھے کہ دونوں بڑھیوں کے ساتھ چپکے رہو، کہ اس بات پر ایک آدمی نے کہا کہ آپ یہ کہتے ہیں حالانکہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ہیں ؟ حضرت عمار (رض) نے فرمایا اگر تو بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جا اور اگر جانا چاہے تو چلا جا۔

31301

(۳۱۳۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حَبِیبٍ بْنِ الشَّہِیدِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُولُ : رَحِمَ اللَّہُ ابْنَ الزُّبَیْرِ ، أَرَادَ دَنَانِیرَ الشَّامِ ، رَحِمَ اللَّہُ مَرْوَانَ أَرَادَ دَرَاہِمَ الْعِرَاقِ۔
(٣١٣٠٢) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ عبداللہ بن زبیر پر رحم فرمائے کہ وہ شام کے دینار چاہتے تھے ، اور اللہ تعالیٰ مروان پر رحم فرمائے کہ وہ عراق کے درہم چاہتا تھا۔

31302

(۳۱۳۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَتَبَ زِیَادٌ إلَی الْحَکَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِیِّ وَہُوَ عَلَی خُرَاسَانَ: إِنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ کَتَبَ: أَنْ تُصْطَفَی لَہُ الصَّفْرَائُ وَالْبَیْضَائُ ، فَلاَ یُقَسَّمُ بَیْنَ النَّاسِ ذَہَبًا وَلاَ فِضَّۃً، فَکَتَبَ إلَیْہِ: بَلَغَنِی کِتَابُک، تَذْکُرُ أَنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ کَتَبَ أَنْ تُصْطَفَی لَہُ الْبَیْضَائُ وَالصَّفْرَائُ، وَأَنِّی وَجَدْت کِتَابَ اللہِ قَبْلَ کِتَابِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، وَإِنَّہُ وَاللہِ لَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا عَلَی عَبْدٍ ثُمَّ اتَّقَی اللَّہَ جَعَلَ اللَّہُ لَہُ مَخْرَجًا ، وَالسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ : اغْدُوَا عَلَیَّ بِمَالِکُمْ ، فَغَدَوْا ، فَقَسمَہُ بَیْنَہُمْ۔
(٣١٣٠٣) حضرت حسن سے روایت ہے کہ زیاد نے حکم بن عمرو غفاری کو پیغام بھیجا جو خراسان کے عامل تھے کہ امیر المؤمنین فرماتے ہیں کہ ان کے لیے سونا اور چاندی علیحدہ کرلی جائے اور لوگوں کے درمیان تقسیم نہ کی جائے، انھوں نے جواب میں لکھا : مجھے آپ کا خط ملا جس میں آپ نے ذکر کیا ہے کہ امیر المؤمنین نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ ان کے لیے سونا اور چاندی علیحدہ رکھ لیا جائے، اور میں نے امیر المؤمنین کے خط سے پہلے کتاب اللہ کو پڑھ لیا ہے، بخدا اگر آسمان و زمین کسی بندے پر بالکل بند بھی ہوجائیں پھر وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے راہ نکال دیں گے، والسلام علیکم، پھر انھوں نے لوگوں سے فرمایا کہ صبح میرے پاس اپنے مال لاؤ ، چنانچہ وہ لائے تو آپ نے وہ سارا مال ان کے درمیان تقسیم کردیا۔

31303

(۳۱۳۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَا زَالُ الزُّبَیْرِ کَأَنَّہُ رَجُلٌ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ حَتَّی أَدْرَکَ بُنَیَّہُ عَبْدُ اللہِ فَلَفَتَہُ عَنَّا۔
(٣١٣٠٤) عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : کہ زبیر (رض) ہمیشہ سے ہمارے ساتھ اس طرح رہے جیسے وہ ہمارے گھر کے ایک فرد ہوں یہاں تک کہ جب وہ اپنے بیٹے عبداللہ کے پاس پہنچ گئے تو اس نے ان کی توجہ ہم سے ہٹا دی۔

31304

(۳۱۳۰۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی شُرَاعَۃَ ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ ، قَالَ : ذَکَرُوا الشُّعَرَاء عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرُوا امْرَأَ الْقِیسِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَذْکُورٌ فِی الدُّنْیَا مَذْکُورٌ فِی الآخِرَۃِ: حَامِلٌ لِوَائَ الشِّعْرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی جَہَنَّمَ ، أَو قَالَ فِی النَّارِ۔
(٣١٣٠٥) عبادہ بن نُسیّ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے شعراء کا تذکرہ کیا، جب امرؤ القیس کا تذکرہ آیا تو آپ نے فرمایا : اس شاعر کا ذکر دنیا میں بھی لوگوں کی زبانوں پر رہے گا، آخرت میں بھی لوگوں کی زبانوں پر رہے گا، اور وہ قیامت کے دن جہنم میں شعر کا عَلَم اٹھائے ہوگا، یا فرمایا آگ میں شعر کا عَلَم اٹھائے ہوگا۔

31305

(۳۱۳۰۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُنَیْدَۃَ بْنِ خَالِدٍ الْخُزَاعِیِّ ، قَالَ : أَوَّلُ رَأْسٍ أُہْدِیَ فِی الإسْلاَمِ : رَأْسُ ابْنِ الْحَمِق۔
(٣١٣٠٦) ھُنیدہ بن خالد خزاعی فرماتے ہیں کہ پہلا سر جو اسلام میں تحفۃً بھیجا گیا وہ ابن الحَمِق کا سر تھا۔

31306

(۳۱۳۰۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی الْجُوَیْرِیَۃِ الْجَرْمِیِّ ، قَالَ : کُنْتُ فِیمَنْ صَارَ إلَی أَہْلِ الشَّامِ یَوْمَ الْخَازِرِ ، فَالْتَقَیْنَا ، فَہَبَّ الرِّیحُ عَلَیْہِمْ ، فَأَدْبَرُوا ، فَقَتَلْنَاہُمْ عَشِیَّتَنَا وَلَیْلَتَنَا حَتَّی أَصْبَحْنَا ، قَالَ : فَقَالَ : إبْرَاہِیمُ۔ یَعْنِی : ابْنَ الأَشْتَرِ : إِنِّی قَتَلْت الْبَارِحَۃَ رَجُلاً وَإِنِّی وَجَدْت مِنْہُ رِیحَ طِیبٍ ، وَمَا أُرَاہُ إلاَّ ابْنَ مَرْجَانَۃَ ، شَرَّقَتْ رِجْلاَہُ وَغَرَّبَ رَأْسُہُ ، أَوْ شَرَّقَ رَأْسُہُ وَغَرَّبَتْ رِجْلاَہُ ، قَالَ : فَانْطَلَقْت فَإِذَا ہُوَ وَاللہِ ہُوَ۔
(٣١٣٠٧) ابو جویریہ جرمی فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو جنگ خازر کے دن شام کی طرف جا رہا تھا، چنانچہ ہمارا مقابلہ ہوا تو ہمارے مخالف فریق کے پڑاؤ میں تیز ہوا چل پڑی، وہ بھاگ کھڑے ہوئے ، چنانچہ ہم نے ان کو ساری رات صبح تک قتل کیا، ابراہیم بن اشتر کہنے لگے کہ میں نے گزشتہ رات ایک آدمی کو قتل کیا جس سے بہت خوشبو آرہی تھی اور میرا خیال ہے کہ وہ شخص ابن مرجانہ ہی ہوگا، میں نے اس کو اس طرح قتل کیا کہ اس کے دونوں پاؤں مشرق کی سمت گرے اور سر مغرب کی سمت، یا اس کا سر مشرق کی سمت گرا اور اس کے پاؤں مغرب کی سمت گرے، کہتے ہیں کہ میں نے چل کر دیکھا تو بخدا وہ شخص ابن مرجانہ ہی تھا۔

31307

(۳۱۳۰۸) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی الْعَلاَئُ بْنُ الْمِنْہَالِ الْغَنَوِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو الْجَہْمِ الْقُرَشِیُّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَلَغَ عَلِیًّا عَنِّی شَیْئٌ فَضَرَبَنِی أَسْوَاطًا ، ثُمَّ بَلَغَہُ بَعْدَ ذَلِکَ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ کَتَبَ إلَیْہِ ، فَأَرْسَلِ رَجُلَیْنِ یُفَتِّشَانِ مَنْزِلَہُ ، فَوَجَدَا الْکِتَابَ فِی مَنْزِلِہِ ، فَقَالَ لأَحَدِ الرَّجُلَیْنِ وَہُوَ مِنْ الْعَشِیرَۃِ : إنَّک مِنَ الْعَشِیرَۃِ فَاسْتُرْ عَلَیَّ ، قَالَ : فَأَتَیَا عَلِیًّا فَأَخْبَرَاہُ ، قَالَ : فَرَکِبَ عَلِیٌّ وَرَکِبَ أَبِی ، فَقَالَ لأَبِی : أَمَا إنَّا فَتَّشْنَا عَلَیْہِ ذَلِکَ فَوَجَدْنَاہُ بَاطِلاً ، قَالَ : مَا ضَرَبَنِی فِیہِ أَبْطَلُ۔
(٣١٣٠٨) ابو جہم قریشی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، فرمایا کہ حضرت علی (رض) کو میرے بارے میں کوئی بری خبر پہنچی تو انھوں نے مجھے کوڑے لگوائے، پھر ان کو خبر پہنچی کہ حضرت معاویہ (رض) نے مجھے کوئی خط لکھا ہے چنانچہ انھوں نے دو آدمی میرا گھر تلاش کرنے بھیجے، انھوں نے میرے گھر میں وہ خط پالیا، تو میں نے ان میں سے ایک آدمی سے جو میرے خاندان سے تھا کہا کہ تو میرے خاندان کا ہے اس لیے میری پردہ پوشی کرنا، چنانچہ وہ آدمی حضرت علی (رض) کے پاس گئے اور ان کو بات بتائی، ابو جہم فرماتے ہیں کہ پھر میرے والد اور حضرت علی (رض) سوار ہو کر نکلے تو انھوں نے ان سے فرمایا کہ ہم نے آپ کے بارے میں تحقیق کی ہے تو وہ بات باطل محض ثابت ہوئی ہے، میرے والد نے کہا کہ جس معاملے میں آپ نے مجھے کوڑے لگوائے ہیں وہ اس سے زیادہ بےاصل ہے۔

31308

(۳۱۳۰۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، حَدَّثَنَا شَیْبَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ عُمَرَ یَقُولُ إذَا رَأَی الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ : وَیْحَک یَا مُغِیرَۃُ ، وَاللہِ مَا رَأَیْتُک قَطُّ إلاَّ خَشِیت۔
(٣١٣٠٩) ابو الضحیٰ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھے ایک صاحب نے بیان کیا جنہوں نے حضرت عمر (رض) سے یہ بات سنی ہے کہ جب آپ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کو دیکھتے تو فرماتے کہ مغیرہ ! تیرا ناس ہو جب بھی میں نے آپ کو دیکھا میں ڈر ہی گیا۔

31309

(۳۱۳۱۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سِنَانٍ ، قَالَ : خَرَجَ إلَیْنَا ابْنُ مَسْعُودٍ وَنَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ ، فَقَالَ : یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ فُقِدَت مِنْ بَیْتِ مَالِکُمُ اللَّیْلَۃَ مِئَۃَ أَلْفٍ لَمْ یَأْتِنِی بِہَا کِتَابٌ مِنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ۔
(٣١٣١٠) عبداللہ بن سنان فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مسجد میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت ابن مسعود (رض) تشریف لائے اور فرمایا اے کوفہ والو ! آج رات تمہارے بیت المال میں سے ایک لاکھ درہم غائب ہوگئے جن کے بارے میں میرے پاس امیر المؤمنین کا کوئی خط بھی نہیں آیا۔

31310

(۳۱۳۱۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا فِطْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُنْذِرٌ الثَّوْرِیُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : اتَّقُوا ہَذِہِ الْفِتَنَ فَإِنَّہُ لاَ یُشْرِفُ لَہَا أَحَدٌ إلاَّ انْتَسَفَتْہُ ، أَلاَ إنَّ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمَ لَہُمْ أَجَلٌ وَمُدَّۃٌ ، لَوْ أَجْمَعَ مَنْ فِی الأَرْضِ أَنْ یُزِیلُوا مُلْکَہُمْ لَمْ یَقْدِرُوا عَلَی ذَلِکَ حَتَّی یَکُونَ اللَّہُ ہُوَ الَّذِی یَأْذَنُ فِیہِ ، أَتَسْتَطِیعُونَ أَنْ تُزِیلُوا ہَذِہِ الْجِبَالَ ؟!۔
(٣١٣١١) محمد بن حنفیہ سے روایت ہے فرمایا کہ ان فتنوں سے بچو کیونکہ جو بھی ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے یہ اس کو برباد کردیتے ہیں، آگاہ رہو ! بیشک اس قوم کا ایک وقت اور ایک مدت مقرر ہے اگر تمام زمین والے اس مدت میں ان کی سلطنت زائل کرنا چاہیں تو نہیں کرسکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کی اجازت دے دیں، کیا تم ان پہاڑوں کو ٹلا سکتے ہو ؟ !

31311

(۳۱۳۱۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرِ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، قَالَ : بَعَثَنِی سَعْدٌ أَقْسِمُ بَیْنَ الزُّبَیْرِ وَخَبَّابٍ أَرْضًا ، فَتَرَامَیَا بِالْجَنْدَلِ ، فَرَجَعْت فَأَخْبَرْت سَعْدًا ذَلِکَ ، فَضَحِکَ حَتَّی ضَرَبَ بِرِجْلِہِ ، وَقَالَ : فِی الأَرْضِ مِثْلُ ہَذَا الْمَسْجِدِ ، أَو قلََّ مَا یَزِیدُ عَلَیْہِ ، قَالَ : فَہَلا رَدَدْتہمَا۔
(٣١٣١٢) حضرت جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے مجھے حضرت زبیر (رض) اور حضرت خبّاب (رض) کے درمیان ایک زمین کو تقسیم کرنے کے لیے بھیجا تو وہ ایک دوسرے کو کنکر مارنے لگے، میں نے واپس آ کر حضرت سعد (رض) کو یہ بات بتائی تو وہ ہنسنے لگے یہاں تک کہ انھوں نے اپنا پاؤں زمین پر مارا اور فرمایا کہ وہ زمین اس مسجد جتنی یا اس سے ذرا بڑی ہوگی، پھر فرمایا کہ تم نے ان کو روک کیوں نہیں دیا ؟

31312

(۳۱۳۱۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ شَیْبَانَ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قُدِّمَ إلَیْہِ لَحْمُ جَدَاوِلاً ، فَقَالَ : انْہشُوا نَہْشًا۔
(٣١٣١٣) حضرت عدی بن حاتم (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان کے پاس گوشت کے پارچے لائے گئے، انھوں نے حاضرین سے فرمایا اس کو نوچ کر کھاؤ۔

31313

(۳۱۳۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَمَّا بُویِعَ لِعَلِیٍّ أَتَانِی فَقَالَ : إنَّک امْرُؤٌ مُحَبَّبٌ فِی أَہْلِ الشَّام ، وَقَدِ اسْتَعْمَلْتُک عَلَیْہِمْ ، فَسِرْ إلَیْہِمْ ، قَالَ : فَذَکَرْت الْقَرَابَۃَ وَذَکَرْت الصِّہْر ، فَقُلْتُ : أَمَّا بَعْدُ فَوَاللہِ لاَ أُبَایِعُک ، قَالَ : فَتَرَکَنِی وَخَرَجَ ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ جَائَ ابْنُ عُمَرَ إلَی أُمِّ کُلْثُومٍ فَسَلَّمَ عَلَیْہَا وَتَوَجَّہَ إلَی مَکَّۃَ ، فَأُتِیَ عَلِیٌّ رحمہ اللہ فَقِیلَ لَہُ : إنَّ ابْنَ عُمَرَ قَدْ تَوَجَّہَ إلَی الشَّامِ ، فَاسْتَنْفِرَ النَّاسَ ، قَالَ : فَإِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَعْجَلُ حَتَّی یُلْقِیَ رِدَائَہُ فِی عُنُقِ بَعِیرِہِ ، قَالَ : وَأَتَیْت أُمَّ کُلْثُومٍ فَأُخْبِرَتْ ، فَأَرْسَلتْ إلَی أَبِیہَا : مَا ہَذَا الَّذِی تَصْنَعُ ، قَدْ جَائَنِی الرَّجُلُ فَسَلَّمَ عَلَیَّ ، وَتَوَجَّہَ إلَی مَکَّۃَ ، فَتَرَاجَعَ النَّاسُ۔
(٣١٣١٤) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تو وہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اہل شام تم سے محبت کرتے ہیں اور میں تمہیں ان پر عامل بناتا ہوں تم ان کے پاس چلے جاؤ، میں نے ان سے رشتہ داری اور سسرالی رشتے کا ذکر کیا اور عرض کیا کہ بخدا ! میں آپ کے ہاتھ پر بیعت ہی نہیں کرتا ، کہتے ہیں کہ انھوں نے مجھے چھوڑا اور نکل گئے، بعد میں حضرت ابن عمر ام کلثوم کے پاس آئے، ان کو سلام کیا اور مکہ کی طرف چل دیے۔ حضرت علی (رض) کے پاس لوگ آئے اور کہا کہ ابن عمر شام کی طرف چلے گئے ہیں ، چنانچہ انھوں نے لوگوں سے نکلنے کا مطالبہ کیا اور کہا کوئی آدمی تیزی سے جائے اور اپنی چادر ان کے اونٹ کی گردن میں ڈال دے، کہتے ہیں کہ ام کلثوم کے پاس کسی نے خبر پہنچائی تو انھوں نے اپنے والد ماجد حضرت علی (رض) کو پیغام بھیجا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ وہ میرے پاس آئے ، مجھ سے سلام کیا اور مکہ کی طرف گئے ہیں، چنانچہ یہ سن کر لوگ واپس لوٹ آئے۔

31314

(۳۱۳۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کُنَّا نَفْخَرُ عَلَی النَّاسِ بِأَرْبَعَۃٍ : بِفَقِیہِنَا وَقَاصِّنَا وَمُؤَذِّنِنَا وَقَارِئِنَا ، فَفَقِیہُنَا : ابْنُ عَبَّاسٍ ، وَمُؤَذِّنُنَا : أَبُو مَحْذُورَۃَ ، وَقَاصُّنَا : عُبَیْدُ بْنُ عُمَیْرٍ ، وَقَارِئُنَا : عَبْدُ اللہِ بْنُ السَّائِبِ۔
(٣١٣١٥) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں پر چار آدمیوں کے ذریعے فخر کیا کرتے تھے، اپنے فقیہ کے ذریعے، اپنے واعظ کے ذریعے، اور اپنے مؤذن اور قاری کے ذریعے، ہمارے فقیہ ابن عباس (رض) تھے، ہمارے مؤذن ابو محذورہ تھے، ہمارے واعظ عبیدبن عمیر تھے، اور ہمارے قاری عبداللہ بن سائب تھے۔

31315

(۳۱۳۱۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لَمَّا أَجْمَعَ ابْنُ الزُّبَیْرِ عَلَی ہَدْمِہَا ، خَرَجْنَا إلَی مِنًی ، نَنْتَظِرُ الْعَذَابَ ، یَعْنِی ہَدْمَ الْکَعْبَۃِ۔
(٣١٣١٦) مجاہد فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے کعبہ کے منہدم کرنے کا فیصلہ کرلیا تو ہم منیٰ کی طرف نکل گئے اور ہم عذاب کا انتظار کر رہے تھے۔

31316

(۳۱۳۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ بْنِ صَفِیَّۃَ ، عَنْ أُمِّہِ ، قَالَتْ : دَخَلَ ابْنُ عُمَرَ الْمَسْجِدَ ، وَابْنُ الزُّبَیْرِ مَصْلُوبٌ ، فَقَالُوا لَہُ : ہَذِہِ أَسْمَائُ ، فَأَتَاہَا فَذَکَّرَہَا وَوَعَظَہَا ، وَقَالَ : إنَّ الْجُثَّۃُ لَیْسَتْ بِشَیْئٍ ، وَإِنَّمَا الأَرْوَاحُ عِنْدَ اللہِ ، فَاصْبِرِی وَاحْتَسِبِی ، فَقَالَتْ : مَا یَمْنَعُنِی مِنَ الصَّبْرِ ، وَقَدْ أُہْدِیَ رَأْسُ یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا إلَی بَغِیٍّ مِنْ بَغَایَا بَنِی إسْرَائِیلَ۔
(٣١٣١٧) حضرت صفیہ روایت کرتی ہیں کہ ابن عمر (رض) مسجد حرام میں داخل ہوئے جبکہ حضرت ابن زبیر (رض) سولی پر لٹکے ہوئے تھے، لوگوں نے آپ سے فرمایا کہ حضرت اسمائ (رض) تشریف لا رہی ہیں، حضرت ابن عمر (رض) حضرت اسماء کے پاس گئے اور ان کو وعظ و نصیحت کی اور کہا کہ جسم کی کچھ حقیقت نہیں، اور روحیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہوتی ہیں، آپ صبر کیجیے ! اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھیے ! انھوں نے فرمایا مجھے صبر سے کیا مانع ہے ؟ جبکہ یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کا سر بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت کو دے دیا گیا تھا۔

31317

(۳۱۳۱۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : أَتَیْتُ أَسْمَائَ بَعْدَ قَتْلِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ فَقَالَتْ : بَلَغَنِی أَنَّہُمْ صَلَبُوا عَبْدَ اللہِ مُنَکَّسًا وَعَلَّقُوا مَعَہُ الْہِرَّۃَ ، وَاللہِ لَوَدِدْت أَنِّی لاَ أَمُوتُ حَتَّی یُدْفَعَ إلَیَّ فَأُغَسِّلَہُ وَأُحَنِّطَہُ وَأُکَفِّنَہُ ، ثُمَّ أَدْفِنَہُ ، فَمَا لَبِثُوا أَنْ جَائَہُ کِتَابُ عَبْدِ الْمَلِکِ أَنْ یُدْفَعَ إلَی أَہْلِہِ ، قَالَ : فَأُتِیَتْ بِہِ أَسْمَائَ فَغَسَّلَتْہُ وَحَنَّطَتْہُ وَکَفَّنَتْہُ ، ثُمَّ دَفَنَتْہُ۔
(٣١٣١٨) ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کے قتل کے بعد حضرت اسمائ (رض) کے پاس حاضر ہوا، وہ فرمانے لگیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ لوگوں نے عبداللہ کو الٹا کر کے سولی چڑھایا ہے، اور اس کے ساتھ ایک بلی کو بھی لٹکایا ہے، بخدا میں چاہتی ہوں کہ میری موت سے پہلے مجھے اس کی نعش دی جائے تو میں اس کو غسل دوں خوشبو لگاؤں، کفن دوں اور دفن کر دوں، کچھ ہی دیر بعد عبد الملک کا خط آگیا کہ ان کی نعش کو ان کے گھر والوں کے سپرد کردیا جائے، چنانچہ ان کو حضرت اسماء کے پاس لایا گیا ، انھوں نے ان کو غسل دیا ، خوشبو لگائی ، کفن دیا اور دفنا دیا۔

31318

(۳۱۳۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : دَخَلْت أَنَا وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَیْرِ عَلَی أَسْمَائَ قَبْلَ قَتْلِ عَبْدِ اللہِ بِعَشْرِ لَیَالٍ ، وَأَسْمَائُ وَجِعَۃٌ ، فَقَالَ لَہَا عَبْدُ اللہِ : کَیْفَ تَجِدِینَک ، قَالَتْ : وَجِعَۃً ، قَالَ : إنَّ فِی الْمَوْتِ لَعَافِیَۃً ، قَالَتْ : لَعَلَّکَ تشمتُ بِمَوْتِی فَلِذَلِکَ تَتَمَنَّاہُ ؟ فَلاَ تَفْعَلْ ، فَوَاللہِ مَا أَشْتَہِی أَنْ أَمُوتَ حَتَّی یَأْتِیَ عَلَیَّ أَحَد طَرفَیْک ، إمَّا أَنْ تُقْتَلَ فَأَحْتَسِبَک ، وَإِمَّا تَظْہَرَ فَتَقَرُّ عَیْنِی ، فَإِیَّاکَ أَنْ تُعْرَضَ عَلَیْک خِطَّۃ لاَ تُوَافِقُک ، فَتَقْبَلُہَا کَرَاہَۃَ الْمَوْتِ ، قَالَ : وَإِنَّمَا عَنَی ابْنُ الزُّبَیْرِ لَیُقْتَل فَیُحْزِنُہَا ذَلِکَ۔
(٣١٣١٩) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں اور عبداللہ بن زبیر حضرت اسماء کے پاس حضرت عبداللہ کے قتل سے دس رات پہلے حاضر ہوئے ، حضرت اسماء (رض) کو تکلیف تھی، حضرت عبداللہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ فرمایا کہ مجھے تکلیف ہے، حضرت عبداللہ نے فرمایا موت کے اندر عافیت ہے، انھوں نے فرمایا کہ شاید تم مجھے میری موت کی خبر سنا رہے ہو، کیا تم یہی چاہتے ہو ؟ ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک مرنا نہیں چاہتی جب تک میرے پاس تمہاری دو حالتوں میں سے ایک حالت کی خبر نہ آجائے، یا تو تمہیں قتل کردیا جائے تو میں تجھ پر ثواب کی امید رکھوں اور صبر کروں ، یا تم کو غلبہ حاصل ہوجائے تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں، اس بات سے بچے رہنا کہ تم پر کوئی ایسی حالت پیش کردی جائے جو تمہارے لیے موافق نہ ہو اور تم موت سے بچنے کے لیے اس کو قبول کرلو، راوی کہتے ہیں ابن زبیر (رض) نے یہ بات ان سے اس وجہ سے کی تھی کہ ان کو قتل کا یقین تھا اور انھوں نے سوچا کہ کہیں حضرت اسمائ (رض) کو ان کے قتل کی وجہ سے غم نہ پہنچے۔

31319

(۳۱۳۲۰) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبِی : أَنَّ الْحَجَّاجَ حِینَ قَتَلَ ابْنَ الزُّبَیْرِ جَائَ بِہِ إلَی مِنًی فَصَلَبَہُ عِنْدَ الثَّنِیَّۃِ فِی بَطْنِ الْوَادِی ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ : انْظُرُوا إلَی ہَذَا ! ہَذَا شَرِّ الأُمَّۃِ ، فَقَالَ : إنِّی رَأَیْت ابْنَ عُمَرَ جَائَ عَلَی بَغْلَۃٍ لَہُ فَذَہَبَ لِیُدْنِیَہَا مِنَ الْجِذْعِ فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ ، فَقَالَ لِمَوْلاَہُ : وَیْحَک خُذْ بِلِجَامِہَا فَأَدْنِہَا ، قَالَ : فَرَأَیْتہ أَدْنَاہَا فَوَقَفَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَہُوَ یَقُولُ : رَحِمَک اللَّہُ ، إنْ کُنْت لَصَوَّامًا قَوَّامًا ، وَلَقَدْ أَفْلَحَتْ أُمَّۃٌ أَنْتَ شَرُّہَا۔
(٣١٣٢٠) خلیفہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو قتل کر ڈالا تو ان کو منیٰ لے گیا اور ان کو وادی کے درمیان ایک ٹیلہ کے قریب سولی دے دی، پھر لوگوں سے کہا کہ اس آدمی کو دیکھو یہ امت کا بد ترین آدمی ہے، راوی کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو ایک خچر پر آتے ہوئے دیکھا ، وہ اپنے خچّر کو شہتیر سے قریب کرنے لگے اور خچر بدکنے لگا، حضرت نے اپنے غلام سے فرمایا اس کی لگام پکڑ کر شہتیر کے قریب کرو، کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ انھوں نے خچر کو شہتیر کے قریب کردیا، حضرت ابن عمر (رض) وہاں رکے اور فرمایا : اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے ، بیشک تو بہت روزے رکھنے والا اور بہت نماز کے لیے قیام کرنے والا تھا، اور یقیناً وہ امت فلاح پا گئی جس کا بدترین آدمی تجھ جیسا ہو۔

31320

(۳۱۳۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَمِرٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی الْبَرِیدُ الَّذِی جَائَ بِرَأْسِ الْمُخْتَارِ إلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : فَلَمَّا وَضَعْتہُ بَیْنَ یَدَیْہِ ، قَالَ : مَا حَدَّثَنِی کَعْبٌ بِحَدِیثٍ إلاَّ رَأَیْت مِصْدَاقَہُ غَیْرَ ہَذَا ، فَإِنَّہُ حَدَّثَنِی أَنَّہُ یَقْتُلُنِی رَجُلٌ مِنْ ثَقِیفٍ ، أُرَانِی أَنَا الَّذِی قَتَلْتہ۔
(٣١٣٢١) ھلال بن یساف روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس قاصد نے بیان کیا جو مختار کا سر حضرت عبداللہ بن زبیر کے پاس لایا تھا، اس نے کہا کہ جب میں نے مختار کا سر ان کے سامنے رکھا تو انھوں نے فرمایا کہ کعب نے مجھے جو بات بھی بیان کی میں نے اس کا مصداق دیکھ لیا ، سوائے اس بات کے کہ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ مجھے قبیلہ بنو ثقیف کا ایک آدمی قتل کرے گا، میر اخیال ہے کہ میں نے ہی اس ثقفی کو قتل کردیا ہے۔

31321

(۳۱۳۲۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی ، عَنْ أَبِیہِ یَعْلَی بْنِ حَرْمَلَۃَ ، قَالَ : تَکَلَّمَ الْحَجَّاجُ یَوْمَ عَرَفَۃَ بِعَرَفَاتٍ فَأَطَالَ الْکَلاَمُ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ : أَلاَ إِنَّ الْیَوْمَ یَوْمُ ذِکْرٍ ، قَالَ : فَمَضَی الْحَجَّاجُ فِی خُطْبَتِہِ ، قَالَ : فَأَعَادَہَا عَبْدُ اللہِ مَرَّتَیْنِ ، أَوْ ثَلاَثًا ، ثُمَّ قَالَ : یَا نَافِعُ نَادِ بِالصَّلاَۃِ ، فَنَزَلَ الْحَجَّاجُ۔
(٣١٣٢٢) یعلی بن حرملہ فرماتے ہیں کہ حجاج نے عرفات کے میدان میں عرفہ کے دن گفتگو کی اور بہت لمبی گفتگو کی، حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے اس سے فرمایا آج کا دن ذکر کا دن ہے، کہتے ہیں کہ حجاج نے اپنا خطبہ جاری رکھا، حضرت عبداللہ نے دو یا تین مرتبہ یہ بات دہرائی ، پھر فرمایا اے نافع ! نماز کے لیے اذان کہو، یہ سن کر حجاج منبر سے اتر گیا۔

31322

(۳۱۳۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ أَخْبَرَنَا قَیْسٌ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : أَلاَ تُخْبِرانِی عَنْ منْزِلَیکُمْ ہَذَیْنِ ، وَمَعَ ہَذَا إنِّی لأَسْأَلُکُمَا ، وَإِنِّی لأَتَبَیَّنُ فِی وُجُوہِکُمَا أَیُّ الْمَنْزِلَیْنِ خَیْرٌ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ جَرِیرٌ : أَنَا أُخْبِرُک یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَمَّا إحْدَی الْمَنْزِلَتَیْنِ : فَأَدْنَی نَخْلَۃٍ بِالسَّوَادِ إلَی أَرْضِ الْعَرَبِ ، وَأَمَّا الْمَنْزِلُ الآ خَرُ : فَأَرْضُ فَارِسٍ ، وَعْکُہَا وَحَرُّہَا وَبَقُّہَا۔ یَعْنِی : الْمَدَائِنَ ، قَالَ : فَکَذَّبَنِی عَمَّارٌ ، فَقَالَ : کَذَبْت ، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْتَ أَکْذَبُ ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : أَلاَ تُخْبِرُونِی عَنْ أَمِیرِکُمْ ہَذَا أَمُجْزِیئٌ ہُوَ ؟ قُلْتُ : وَاللہِ مَا ہُوَ بِمُجْزِیئٍ وَلاَ کَافٍ وَلاَ عَالِمٌ بِالسِّیَاسَۃِ ، فَعَزَلَہُ وَبَعَثَ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ۔
(٣١٣٢٣) قیس روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تم مجھے خبر دیتے نہیں اپنی ان دو منزلوں کے بارے میں، لیکن اس کے باوجود میں تم سے پوچھوں گا اور میں تمہارے چہروں سے معلوم کروں گا کہ کون سی منزل بہتر ہے، کہتے ہیں کہ جریر نے آپ سے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! میں آپ کو بتاتا ہوں، ایک منزل تو درختوں کے اعتبار سے عرب کی زمین کے قریب قریب ہے، اور دوسری منزل فارس کی زمین ہے جس میں سخت بخار اور گرمی اور کھٹمل ہیں، یعنی مدائن، کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عمار نے جھٹلایا اور کہا کہ تم نے جھوٹ کہا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم نے اس سے زیادہ جھوٹ بولا، پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم مجھے اپنے اس امیر کے بارے میں بتاؤ ، کیا یہ معقول اور مناسب آدمی ہے ؟ لوگوں نے کہا واللہ ! نہ تو یہ بہتر کام کرنے والے ہیں اور نہ اکیلے کفایت کرنے والے ہیں اور نہ ہی سیاست کو جانتے ہیں، چنانچہ آپ نے ان کو معزول کردیا اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کو بھیج دیا۔

31323

(۳۱۳۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : کَانَ بَیْنَ ابْنِ مَسْعُودٍ وَالْوَلِیدِ بْنِ عُقْبَۃَ حَسَنٌ ، قَالَ : فَدَعَا عَلَیْہِمَا سَعْدٌ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ أَمِسَّ بَیْنَہُمَا ، فَکَانَ أَحَدُہُمَا یَقُولُ لِصَاحِبِہِ : لَقَدْ أُجِیبَ فِینَا سَعْدٌ۔
(٣١٣٢٤) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) اور ولید بن عقبہ کے درمیان اچھے تعلقات تھے، حضرت سعد (رض) نے ان دونوں پر بد دعا کردی، اور کہا اے اللہ ! ان دونوں میں اتراہٹ اور اکڑ پیدا کر دے، چنانچہ بعد میں ان میں سے ایک دوسرے سے کہا کرتا تھا کہ ہمارے بارے میں حضرت سعد کی بد دعا قبول ہوگئی ہے۔

31324

(۳۱۳۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَاوسٍ ، قَالَ : ذَکَرْت الأُمَرَائَ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَابْتَرَک فِیہِمْ رَجُلٌ فَتَطَاوَلَ حَتَّی مَا أَرَی فِی الْبَیْتِ أَطْوَلَ مِنْہُ ، فَسَمِعْت ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : یَا ہَزَہَازُ ، لاَ تَجْعَلْ نَفْسَک فِتْنَۃً لِلظَّالِمِینَ ، فَتَقَاصَرَ حَتَّی مَا رَأَیْت فِی الْقَوْمِ أَقْصَرَ مِنْہُ۔
(٣١٣٢٥) حضرت طاوس سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کے سامنے امراء کا ذکر کیا گیا ان لوگوں میں ایک آدمی امراء کو خوب برا بھلا کہنے لگا یہاں تک کہ مجھے گھر میں کوئی آدمی اس سے لمبی بات کرنے والا نہیں ملا ، پھر میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو یہ فرماتے سنا کہ اے حرکت کرنے والے ! اپنے آپ کو ظالموں کے لیے فتنہ نہ بناؤ ! چنانچہ وہ خاموش ہوگیا یہاں تک کہ پھر میں نے لوگوں میں اس سے زیادہ کم گو شخص نہیں دیکھا۔

31325

(۳۱۳۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ الْمُہَلَّبِ أَبُو کُدَیْنَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : ذَکَرُوا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ الْخُلَفَائَ وَحُبَّ النَّاسُ تَغْیِیرَہُمْ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَوْ وَلِیَ النَّاسَ صَاحِبُ ہَذِہِ السَّارِیَۃِ مَا رَضُوا بِہِ۔ یَعْنِی : عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ مَرْوَانَ۔
(٣١٣٢٦) اعمش سے روایت ہے کہ لوگوں نے حضرت ابن عمر (رض) کے سامنے خلفاء کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ لوگ ان کا تبدیل کرنا پسند کرتے ہیں ، اس پر حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر اس ستون والا شخص لوگوں کا حاکم بن جائے تو بھی لوگ اس کو پسند نہیں کریں گے یعنی عبد الملک بن مروان۔

31326

(۳۱۳۲۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی الْجَحَّافِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ: إنَّ حُمَۃً کَحُمَۃِ الْعَقْرَبِ ، فَإِذَا کَانَ ذَلِکَ فَالْحَقُوا بِعَمَّتِکُمُ النَّخْلَۃِ۔ یَعْنِی: السَّوَادَ۔
(٣١٣٢٧) حضرت عبد الرحمن بن ابزیٰ حضرت علی (رض) کا یہ تمثیلی فرمان نقل کرتے ہیں کہ بہت سے ڈنگ بچّھو کے ڈنگ کے سے ہوتے ہیں ، جب ایسا ہو تو تم اپنی پھوپھی کھجور کے ساتھ ہو جاؤ یعنی عام لوگوں کے ساتھ۔

31327

(۳۱۳۲۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ: حدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَلِیٍّ: أَنَّہُ قَالَ: سَتَکُونُ عَکَرَۃٌ۔
(٣١٣٢٨) داؤد ایک آدمی کے واسطے سے حضرت علی (رض) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ عنقریب شدید گڑبڑ ہوجائے گی۔

31328

(۳۱۳۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کُنَاسَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَتَی مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ وَہُوَ یَطُوفُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ ، فَقَالَ : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقَالَ : ابْنُ أَخِیک مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَیْرِ ، قَالَ: صَاحِبُ الْعِرَاقِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، جِئْتُک لأَسْأَلَک عَنْ قَوْمٍ خَلَعُوا الطَّاعَۃَ ، وَسَفَکُوا الدِّمَائَ ، وَجَبَوا الأَمْوَالَ ، فَقُوتِلُوا فَغُلِبُوا فَدَخَلُوا قَصْرًا فَتَحَصَّنُوا فِیہِ ، ثُمَّ سَأَلُوا الأَمَانَ فَأُعْطُوہُ ، ثُمَّ قُتِلُوا ؟ قَالَ : وَکَمَ الْعِدَّۃُ ؟ قَالَ : خَمْسَۃُ آلاَفٍ ، قَالَ : فَسَبَّحَ ابْنُ عُمَرَ عِنْدَ ذَلِکَ ، وَقَالَ : عَمْرَکَ اللہِ یَا ابْنَ الزُّبَیْرِ ! لَوْ أَنَّ رَجُلاً أَتَی مَاشِیَۃً لِلزُّبَیْرِ فَذَبَحَ مِنْہَا فِی غَدَاۃٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ أَکُنْتَ تَرَاہُ مُسْرِفًا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَتَرَاہُ إسْرَافًا فِی بَہَائِمَ لاَ تَدْرِی مَا اللَّہُ ، وَتَسْتَحِلُّہُ مِمَّنْ ہَلَّلَ اللَّہَ یَوْمًا وَاحِدًا ؟۔
(٣١٣٢٩) حضرت سعید سے روایت ہے کہ مصعب بن زبیر (رض) ، عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ صفا مروہ کے درمیان طواف کر رہے تھے، انھوں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ جواب دیا کہ آپ کا بھتیجا مصعب بن زبیر، پوچھا کہ عراق کا حاکم ؟ جواب دیا جی ہاں ! میں آپ سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھنے آیا ہوں جو اطاعت چھوڑ دیں اور خون بہائیں اور مال چھین لیں، ان سے قتال کیا جائے اور اس میں وہ مغلوب ہوجائیں پھر وہ قلعہ بند ہو کر امان طلب کریں ان کو امان دے دی جائے یا پھر ان کو قتل کردیا جائے ؟ آپ نے پوچھا وہ کتنے ہیں ؟ عرض کیا پانچ ہزار ۔ کہتے ہیں کہ اس بات کو سن کر عبداللہ بن عمر (رض) نے سبحان اللہ کہا، اور فرمایا اے ابن زبیر ! اللہ تمہاری عمر دراز کرے، اگر کوئی آدمی زبیر (رض) کی بکریوں کے پاس آئے اور ایک ہی وقت میں ان میں سے پانچ ہزار بکریاں ذبح کر ڈالے تو کیا تم اس آدمی کو حدّ سے تجاوز کرنے والا سمجھو گے ؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں ! فرمایا کہ تم اس بات کو ان جانوروں کے حق میں اسراف سمجھتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو نہیں جانتے، تو کلمہ پڑھنے والے اتنے لوگوں کو ایک ہی دن میں قتل کرنے کو کیسے حلال سمجھ بیٹھے ہو ؟ !

31329

(۳۱۳۳۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کُنَاسَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَتَی عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَبْدَ اللہِ بْنَ الزُّبَیْرِ ، فَقَالَ : یَا ابْنَ الزُّبَیْرِ ، إیَّاکَ وَالإِلْحَادَ فِی حَرَمِ اللہِ ، فَإِنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سَیُلْحِدُ فِیہِ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ لَوْ أَنَّ ذُنُوبَہُ تُوزَنُ بِذُنُوبِ الثَّقَلَیْنِ لَرَجَحَتْ عَلَیْہِ۔ فَانْظُرْ لاَ تَکُنْہُ۔ (احمد ۱۳۶۔ حاکم ۳۸۸)
(٣١٣٣٠) سعید روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) عبداللہ بن زبیر (رض) کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے ابن زبیر ! اللہ تعالیٰ کے حرم میں بےدینی کا ارتکاب کرنے سے بچو، کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ عنقریب اس حرم میں قریش کا ایک آدمی بےدینی کا ارتکاب کرے گا اگر اس کے گناہ جن و انس کے گناہوں کے ساتھ تولے جائیں تو اس ایک آدمی کے گناہ جھک جائیں، خوب دھیان رکھو کہ تم کہیں وہ شخص نہ بنو۔

31330

(۳۱۳۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنِ الْمُثَنَّی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، قَالَ : خَطَبَنَا ابْنُ الزُّبَیْرِ فَقَالَ : إنَّا قَدِ اُبْتُلِینَا بِمَا قَدْ تَرَوْنَ ، فَمَا أَمَرْنَاکُمْ بِأَمْرٍ لِلَّہِ فِیہِ طَاعَۃٌ فَلَنَا عَلَیْکُمْ فِیہِ السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ ، وَمَا أَمَرْنَاکُمْ بِأَمْرٍ لَیْسَ لِلَّہِ فِیہِ طَاعَۃٌ فَلَیْسَ لَنَا عَلَیْکُمْ فِیہِ طَاعَۃٌ ، وَلاَ نِعْمَۃُ عَیْنٍ۔
(٣١٣٣١) ابو سفیان سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر (رض) نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ ہم کس مصیبت میں گرفتار ہوگئے ہیں، اس لیے میں اگر تمہیں ایسے کام کا حکم کروں جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہو تو تم پر ہمارے لیے اس کا سننا اور بجا لانا لازم ہے، اور جس کام میں اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری نہ ہوتی ہو اس کی اطاعت بھی ضروری نہیں اور ہمیں کوئی خوشی بھی نہ ہوگی۔

31331

(۳۱۳۳۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ خَطَبَ ثُمَّ قَالَ : إنَّ ابْنَ أَخِیکُمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ قَدْ جَمَعَ مَالاً وَہُوَ یُرِیدُ أَنْ یُقَسِّمَہُ بَیْنَکُمْ ، فَحَضَرَ النَّاسُ فَقَامَ الْحَسَنُ ، فَقَالَ : إنَّمَا جَمَعْتہ لِفُقَرَائِکُمْ ، فَقَامَ نِصْفُ النَّاسِ ، ثُمَّ کَانَ أَوَّلُ مَنْ أَخَذَ مِنْہُ الأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ۔
(٣١٣٣٢) حارثہ بن مضرب روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے خطبہ دیا پھر فرمایا تمہارے بھتیجے حسن بن علی نے مال جمع کر رکھا ہے اور وہ تمہارے درمیان اسے تقسیم کرنا چاہتے ہیں ، سب کے سب لوگ آگئے تو حضرت حسن نے کھڑے ہو کر فرمایا میں نے تو یہ مال تمہارے فقراء کے لیے جمع کیا ہے، یہ سن کر آدھے آدمی کھڑے ہو کر چل دیے، پھر وہ شخص جس نے سب سے پہلے اس مال میں سے لیا اشعث بن قیس تھے۔

31332

(۳۱۳۳۳) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہَانِئٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَیُقْتَلَنَّ الْحُسَیْنُ ظُلْمًا ، وَإِنِّی لاَعْرَفُ تُرْبَۃَ الأَرْضِ الَّتِی یُقْتَلُ فِیہَا : قَرِیبًا مِنَ النَّہْرَیْنِ۔ (طبرانی ۲۸۲۴)
(٣١٣٣٣) حضرت ہانی ٔ حضرت علی (رض) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ : البتہ حسین کو ظلماً قتل کیا جائے گا، اور البتہ میں جانتا ہوں اس زمین کی مٹی کو جس میں ان کو قتل کیا جائے گا، وہ جگہ دو نہروں کے قریب ہے۔

31333

(۳۱۳۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ السُّلَمِیِّ ، قَالَ : جَائَ الأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ فَجَلَسَ إلَی کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ فِی الْمَسْجِدِ فَوَضَعَ إحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الأُخْرَی ، فَقَالَ لَہُ کَعْبٌ : ضَعْہَا ، فَإِنَّہَا لاَ تَصْلُحُ لِبَشَرٍ۔
(٣١٣٣٤) عمرو بن مرّہ سُلّمی فرماتے ہیں کہ اشعث بن قیس مسجد میں آئے اور کعب بن عجرہ کے پاس بیٹھ گئے اور اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھ لیا، حضرت کعب (رض) نے ان سے فرمایا اس کو نیچے رکھو کیونکہ یہ ہیئت انسان کے لیے مناسب نہیں ہے۔

31334

(۳۱۳۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی خَالِدٍ ، قَالَ : وَفَدْت إلَی عُمَرَ فَفَضَّلَ أَہْلَ الشَّامِ عَلَیْنَا فِی الْجَائِزَۃِ ، فَقُلْنَا لَہُ ، فَقَالَ : یَا أَہْلَ الْکُوفَۃِ ، أَجَزِعْتُمْ أَنِّی فَضَّلْت عَلَیْکُمْ أَہْلَ الشَّامِ فِی الْجَائِزَۃِ ، لِبُعْدِ شُقَّتکُمْ ، فَقَدْ آثَرْتُکُمْ بِابْنِ أُمِّ عَبْدِ۔
(٣١٣٣٥) ابو خالد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر کے پاس ایک وفد کے ساتھ گیا، انھوں نے اہل شام کو ہم پر انعام اور عطیہ میں فوقیت دی، ہم نے ان سے یہ بات عرض کی، تو آپ نے فرمایا اے کوفہ والو ! تم دور ہونے کی وجہ سے اس بات پر پریشان ہو رہے ہو کہ میں نے شام والوں کو تم پر فوقیت دی ہے، لیکن میں نے تمہیں عبداللہ بن مسعود (رض) کی صورت میں فوقیت اور ترجیح بھی تو دی ہے۔

31335

(۳۱۳۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ فَرَأَیْتہ یَتَقَلَّبُ عَلَی فِرَاشِہِ وَیَنْفُخُ ، فَقَالَتْ لَہُ امْرَأَتُہُ : مَا یَکْرِثُک مِنْ أَمْرِ عَدُوِّکَ ہَذَا ابْنُ الزُّبَیْرِ ؟ فَقَالَ : وَاللہِ مَا بِی عَدُوُّ اللہِ ہَذَا ابْنُ الزُّبَیْرِ ، وَلَکِنْ بِی مَا یُفْعَلُ فِی حَرَمِہِ غَدًا ، قَالَ : ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ إلَی السَّمَائِ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْتَ تَعْلَمُ أَنِّی کُنْت أَعْلَمُ مِمَّا عَلَّمْتنِی ، أَنَّہُ یَخْرُجُ مِنْہَا قَتِیلاً یُطَافُ بِرَأْسِہِ فِی الأَمْصَارِ ، أَوْ فِی الأَسْوَاقِ۔
(٣١٣٣٦) منذر فرماتے ہیں کہ میں محمد بن حنفیہ کے پاس تھا کہ میں نے ان کو دیکھا کہ بستر پر بےچینی سے کروٹیں بدل رہے ہیں اور لمبے لمبے سانس لے رہے ہیں، ان کی اہلیہ نے ان سے کہا کہ آپ کو آپ کے اس دشمن عبداللہ بن زبیر کی کون سی بات نے بےچین کر رکھا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ واللہ ! مجھے یہ پریشانی نہیں کہ ابن زبیر اللہ کا دشمن ہے ، لیکن مجھے یہ بات پریشان کر رہی ہے کہ کل اللہ تعالیٰ کے حرم میں کیا ہوگا ! کہتے ہیں کہ پھر آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور یہ کہا : اے اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ میں جانتا تھا اس علم سے جو آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے کہ وہ اس حرم سے قتل ہو کر نکلیں گے اور ان کے سر کو شہروں یا بازاروں میں پھرایا جائے گا۔

31336

(۳۱۳۳۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : خَرَجْت إلَی الْمَدِینَۃِ أَطْلُبُ الشَّرَفَ وَالْعِلْمَ ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ عَلَیْہِ حُلَّۃٌ جَمِیلَۃٌ ، فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلَی مَنْکِبَیْ عُمَرَ ، فَقُلْتُ مَنْ ہَذَا ، فَقَالُوا : عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ۔
(٣١٣٣٧) قیس بن عباد فرماتے ہیں کہ میں مدینہ کی طرف بزرگی اور علم کی تلاش میں نکلا، میں نے ایک آدمی کو دیکھا جس نے خوبصورت جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا پس اس نے اپنے ہاتھ حضرت عمر (رض) کے کندھے پر رکھ دیے، میں نے لوگوں سے پوچھا یہ آدمی کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ علی بن ابی طالب ہیں۔

31337

(۳۱۳۳۸) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : لَمَّا حُصِرَ عُثْمَان أَتَی عَلِیٌّ طَلْحَۃَ وَہُوَ مُسْنِدٌ ظَہْرَہُ إلَی وَسَائِدَ فِی بَیْتِہِ ، فَقَالَ : أُنْشِدُک اللَّہَ لَمَّا رَدَدْت النَّاسَ عَنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، فَقَالَ طَلْحَۃُ : حَتَّی یُعْطُوا الْحَقَّ مِنْ أَنْفُسِہِمْ۔
(٣١٣٣٨) حکیم بن جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان (رض) کا محاصرہ کرلیا گیا تو حضرت علی (رض) حضرت طلحہ کے پاس تشریف لے گئے جبکہ انھوں نے اپنے گھر میں تکیوں کے ساتھ ٹیک لگا رکھی تھی، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ لوگوں کو امیر المؤمنین سے باز رکھیں، حضرت طلحہ نے فرمایا : یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ان کو ان کی جانوں کا بدلہ نہ دے دیا جائے۔

31338

(۳۱۳۳۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ وَہْبٍ ، أَوِ ابْنِ أَخِیہِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ : أَنَّہُ سَمِعَ الْمُخْتَارَ وَہُوَ یَقُولُ : مَا بَقِیَ مِنْ عِمَامَۃِ عَلِیٍّ إلاَّ زِرَاعَانِ حَتَّی یَجِیئَ ، قَالَ : قلْت : لِمَ تُضِلُّ النَّاسَ ؟ قَالَ : دَعَنْی أَتَأَلَّفُہُمْ۔
(٣١٣٣٩) ابو اسحاق سعید بن وہب یا ان کے بھتیجے عبد الرحمن سے روایت کرتے ہیں ، کہ انھوں نے مختار کو یہ کہتے سنا کہ حضرت علی (رض) سے عمامے کے صرف دو گز رہ گئے ہیں پھر وہ ظاہر ہوجائیں گے، کہتے ہیں میں نے کہا تم لوگوں کو گمراہ کیوں کرتے ہو ؟ کہنے لگا : مجھے لوگوں کو مانوس کرنے دو ۔

31339

(۳۱۳۴۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللہِ یَقُولُ یَوْمَ الْجَمَلِ : إنَّا کُنَّا قَدْ دَاہَنَّا فِی أَمْرِ عُثْمَانَ ، فَلاَ نَجِدُ بُدًّا مِنَ الْمُبَالَغَۃِ۔
(٣١٣٤٠) حکیم بن جابر فرماتے ہیں کہ میں نے جنگ جمل کے دن حضرت طلحہ بن عبید اللہ کو یہ کہتے سنا کہ ہم نے حضرت عثمان (رض) کی امارت کے معاملے میں مداہنت سے کام لیا تھا اب ہمارے لیے ان کی طرف داری میں حد سے گزر جانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

31340

(۳۱۳۴۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَمَّا کَانَ الصُّلْحُ بَیْنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَبَیْنَ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ أَرَادَ الْحَسَنُ الْخُرُوجَ - یَعْنِی : إلَی الْمَدِینَۃِ - فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ : مَا أَنْتَ بِالَّذِی تَذْہَبُ حَتَّی تَخْطُبَ النَّاسَ ، قَالَ الشَّعْبِیُّ : فَسَمِعْتہ عَلَی الْمِنْبَرِ حَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ أَکَیْسَ الْکَیْسِ التُّقَی ، وَإِنَّ أَعْجَزَ الْعَجْزِ الْفُجُورُ ، وَإِنَّ ہَذَا الأَمْرَ الَّذِی اخْتَلَفْت فِیہِ أَنَا وَمُعَاوِیَۃُ حَقٌّ کَانَ لِی فَتَرَکْتہ لِمُعَاوِیَۃَ ، أَوْ حَقٌّ کَانَ لاِمْرِئٍ أَحَقَّ بِہِ مِنِّی ، وَإِنَّمَا فَعَلْت ہَذَا لِحَقْنِ دِمَائِکُمْ {وَإِنْ أَدْرِی لَعَلَّہُ فِتْنَۃٌ لَکُمْ وَمَتَاعٌ إلَی حِینٍ}۔
(٣١٣٤١) شعبی کہتے ہیں کہ جب حضرت حسن بن علی اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان صلح ہوگئی تو حضرت حسن نے مدینہ کی طرف واپسی کا ارادہ کیا ، حضرت معاویہ نے ان سے فرمایا کہ آپ اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک لوگوں کو خطبہ نہ دے دیں ، شعبی کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے حضرت حسن کو منبر پر سنا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر فرمایا : اما بعد ! سب سے بڑی عقل مندی تقویٰ اختیار کرنا ہے اور سب سے بڑی عاجزی گناہوں کا ارتکاب کرنا ہے، اور بیشک یہ امارت جس میں میرا اور حضرت معاویہ (رض) کا اختلاف ہوا تھا میرا حق تھا جس کو میں نے حضرت معاویہ کے لیے چھوڑ دیا یا پھر یہ کسی ایسے آدمی کا حق تھا جو مجھ سے زیادہ اس کا حق دار ہو، اور میں نے یہ کام تمہاری جانوں کے تحفظ کے لیے کیا ہے، اور میں نہیں جانتا کہ ممکن ہے یہ کام تمہارے لیے آزمائش ہو اور ایک وقت تک فائدہ اٹھانے کا سامان ہو۔

31341

(۳۱۳۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی الضُّحَی ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَبْرَأُ إلَیْک مِنْ مُغِیرَۃَ وَبَیَانَ۔
(٣١٣٤٢) ابو الضحیٰ روایت کرتے ہیں کہ ابو جعفر نے فرمایا کہ اے اللہ ! میں آپ کے سامنے برأت کا اعلان کرتا ہوں مغیرہ اور بیان سے۔

31342

(۳۱۳۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنِ السُّمَیْطِ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : لِکُلِّ زَمَانٍ مُلُوک ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِقَوْمٍ خَیْرًا بَعَثَ فِیہِمْ مُصْلِحِیہِمْ ، وَإِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِقَوْمٍ شَرًّا بَعَثَ فِیہِمْ مُتْرَفِیہِمْ۔
(٣١٣٤٣) سمیط حضرت کعب سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ہر زمانے کے علیحدہ بادشاہ ہوا کرتے ہیں، جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو ان پر نیک لوگوں کو بادشاہ بناتے ہیں اور جب کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو ان پر بدمعاش لوگوں کو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔

31343

(۳۱۳۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فَضْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مَیْسَرَۃَ ، قَالَ : کَانَ یَمُرُّ عَلَیْہِ الْغُلاَمُ ، أَو الْجَارِیَۃُ مِمَّنْ یُخْرِجُہُ الْحَجَّاجُ إلَی السَّوَادِ فَیَقُولُ : مَنْ رَبُّک ؟ فَیَقُولُ : اللَّہُ ، فَیَقُولُ : مَنْ نَبِیُّک ؟ فَیَقُولُ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَیَقُولُ : وَاللہِ الَّذِی لاَ إلَہَ إلاَّ ہُوَ ، لاَ أَجِدُ أَحَدًا یُقَاتِلُ الْحَجَّاجَ إلاَّ قَاتَلْت مَعَہُ الْحَجَّاجَ۔
(٣١٣٤٤) میسرہ فرماتے ہیں کہ میرے قریب سے لڑکا یا لڑکی گزرا کرتے تھے جن کا تعلق ان لوگوں سے تھا جن کو حجاج نے دیہاتوں کی طرف نکال دیا تھا، وہ لوگوں سے کہتے : تمہارا رب کون ہے ؟ لوگ کہتے ” اللہ “ وہ کہتے :ـ تمہارا نبی کون ہے ؟ لوگ کہتے : محمد رسول اللہ 5، پھر وہ کہتے : اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں جس شخص کو بھی حجاج کے ساتھ قتال کرتا ہوا دیکھ لوں گا اس کے ساتھ مل کر حجاج سے قتال کروں گا۔

31344

(۳۱۳۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ : أَنَّہُ رَأَی رَجُلاً انْحَازَ ، فَقَالَ : حرُّ النَّارِ أَشَدُّ مِنْ حَرِّ السَّیْفِ۔
(٣١٣٤٥) یزید فرماتے ہیں کہ ابو البختری نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ جنگ میں پشت دے کر بھاگ رہا تھا، انھوں نے فرمایا : دوزخ کی آگ کی گرمی تلوار کی گرمی سے زیادہ سخت ہے۔

31345

(۳۱۳۴۶) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ أَبِی لَیْلَی یُحَضِّضُ النَّاسَ أَیَّامَ الْجَمَاجِمِ۔
(٣١٣٤٦) حصین فرماتے ہیں کہ میں نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کو دیکھا کہ جماجم کے دنوں میں لوگوں کو جنگ کی ترغیب دے رہے تھے۔

31346

(۳۱۳۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ الْجًرَیرِیِّ ، عَنِ أَبِی الْعَلاَئِ ، قَالَ : قالَوا لِمُطَرِّفٍ : ہَذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَشْعَثِ قَدْ أَقْبَلَ ، فَقَالَ مُطَرِّفٌ : وَاللہِ لَقَدْ نَزَی بَیْنَ أَمْرَیْنِ ، لَئِنْ ظَہَرَ لاَ یَقُومُ لِلَّہِ دِینٌ ، وَلَئِنْ ظُہِرَ عَلَیْہِ لاَ تَزَالُون أَذِلَّۃً إلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
(٣١٣٤٧) ابو العلاء فرماتے ہیں کہ لوگوں نے مطرف سے کہا کہ یہ عبد الرحمن بن اشعث آ رہا ہے، مطرف نے فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ دو باتوں کے بیچ میں حملہ آور ہوا ہے، اگر یہ غالب آیا تو اللہ تعالیٰ کے لیے دین قائم نہیں ہوگا، اور اگر مغلوب ہوگیا تو تم قیامت تک ذلیل رہو گے۔

31347

(۳۱۳۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی غَیْرُ وَاحِدٍ : أَنَّ قَاضِیًا مِنْ قُضَاۃِ أَہْلِ الشَّامِ أَتَی عُمَرَ ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، رَأَیْت رُؤْیَا أَفْظَعَتْنِی ، قَالَ : وَمَا رَأَیْت ؟ قَالَ : رَأَیْتُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ یَقْتَتِلاَنِ ، وَالنُّجُومَ مَعَہُمَا نِصْفَیْنِ ، قَالَ : فَمَعَ أَیِّہِمَا کُنْت ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ الْقَمَرِ عَلَی الشَّمْسِ ، فَقَالَ : عُمَرُ : {وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَۃَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً} فَانْطَلِقْ فَوَاللہِ لاَ تَعْمَلُ لِی عَمَلاً أَبَدًا۔ قَالَ عَطَائٌ : فَبَلَغَنِی ، أَنَّہُ قُتِلَ مَعَ مُعَاوِیَۃَ یَوْمَ صِفِّینَ۔
(٣١٣٤٨) عطاء بن سائب کہتے ہیں کہ مجھے ایک سے زیادہ آدمیوں نے خبر دی ہے کہ شام کے قاضیوں میں سے ایک قاضی حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور کہا اے امیر المؤمنین ! میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس نے مجھے گھبراہٹ میں ڈال دیا ہے، آپ نے پوچھا کہ تو نے کیا دیکھا ؟ انھوں نے بتایا کہ میں نے سورج اور چاند کو لڑتے ہوئے دیکھا جن کی ماتحتی میں ستارے بھی دو فریق بنے ہوئے ہیں، آپ نے فرمایا تم کس فریق کے ساتھ تھے ؟ انھوں نے کہا میں چاند کے ساتھ تھا جو سورج پر حملہ آور ہو رہا تھا، حضرت عمر (رض) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : { وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَۃَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً } ( اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ، پس رات کی نشانی کو مٹا دیا اور دن کی نشانی کو روشن بنادیا) پھر فرمایا : چلے جاؤ ، خدا کی قسم ! آئندہ تم میرے لیے کوئی کام نہیں کرو گے : عطاء فرماتے ہیں مجھے خبر پہنچی کہ وہ جنگ صفین میں حضرت معاویہ کے ساتھ مقتول ہوا۔

31348

(۳۱۳۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : اجْتَمَعَ عِیدَانِ فِی یَوْمٍ ، فَقَامَ الْحَجَّاجُ فِی الْعِیدِ الأَوَّلِ ، فَقَالَ : مَنْ شَائَ أَنْ یُجَمِّعْ مَعَنا فَلْیُجَمِّعْ ، وَمَنْ شَائَ أَنْ یَنْصَرِفَ فَلْیَنْصَرِفْ ، وَلاَ حَرَجَ ، فَقَالَ أَبُو الْبَخْتَرِیِّ وَمَیْسَرَۃُ : مَا لَہُ قَاتَلَہُ اللَّہُ ، مِنْ أَیْنَ سَقَطَ عَلَی ہَذَا ؟
(٣١٣٤٩) عطاء فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک دن میں دو عیدیں اکٹھی ہوگئیں ، چنانچہ پہلی عید کی نماز کے وقت حجاج کھڑا ہوا اور کہنے لگا : جو شخص ہمارے ساتھ جمعہ پڑھنا چاہے پڑھ لے، اور جو شخص جانا چاہے چلا جائے کوئی حرج نہیں ، یہ سن کر ابو البختری اور میسرہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے اس پر یہ وحی کہاں سے آ پڑی۔

31349

(۳۱۳۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ وَاصِلٍ الأَحْدَبِ ، قَالَ : رَأَی إبْرَاہِیمُ أَمِیرَ حُلْوَانَ یَمُرُّ بِدَوَابِّہ فِی زَرْعِ قَوْمٍ ، فَقَالَ إبْرَاہِیم : الْجَوْرُ فِی الطَّرِیقِ خَیْرٌ مِنَ الْجَوْرِ فِی الدِّینِ۔
(٣١٣٥٠) واصل أحدب فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے حلوان کے امیر کو دیکھا کہ اپنے چوپایوں کو لوگوں کی کھیتیوں سے گزارتا ہوا چلا جا رہا تھا، آپ نے فرمایا : راستے کی بےراہ روی دین کی بےراہ روی سے بہتر ہے۔

31350

(۳۱۳۵۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَائِدَۃٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَیْرٍ ، عَنْ رِبْعِیٍّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : لَئنْ کَانَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ تَرَکَا ہَذَا الْمَالَ وَہُوَ یَحِلُّ لَہُمَا مِنْہُ شَیْئٌ لَقَدْ غُبِنَا وَنَقَصَ رَأْیُہُمَا ، وَلَعَمْرُ اللہِ مَا کَانَا بِمَغْبُونَیْنِ ، وَلاَ نَاقِصِی الرَّأْی ، وَلَئنْ کَانَا امْرَأَیْنِ یَحْرُمُ عَلَیْہِمَا مِنْ ہَذَا الْمَالِ الَّذِی أَصَبْنَا بَعْدَہُمَا لَقَدْ ہَلَکْنَا وَایْمُ اللہِ مَا جَائَ الْوَہَمُ إلاَّ مِنْ قِبَلِنَا۔
(٣١٣٥١) حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمرو بن عاص (رض) نے فرمایا : اگر حضرت ابوبکر اور عمر (رض) نے یہ مال اس حال میں چھوڑا کہ ان کے لیے اس میں سے کچھ حلال تھا تو وہ گھاٹے میں رہ گئے اور ان کی رائے کمزور رہی، اور خدا کی قسم ! نہ وہ گھاٹا کھانے والے تھے اور نہ ضعیف الرائے تھے، اور اگر ان پر مال جو ہم نے ان کے بعد پایا حرام تھا تو یقیناً ہم ہلاک ہوگئے، اور بخدا غلطی ہم لوگوں کو ہی لگی ہے۔

31351

(۳۱۳۵۲) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ سِیرِینَ ، قَالَ : بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ أَمِیرًا عَلَی مِصْرَ ، قَالَ : فَکَتَبَ إلَیْہِ مُعَاوِیَۃُ وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ بِکِتَابٍ فَأَغْلَظَا لَہُ فِیہِ وَشَتَمَاہُ وَأَوْعَدَاہُ فَکَتَبَ إلَیْہِمَا بِکِتَابٍ لَیِّنٍ یُقَارِبُہُمَا وَیُطْمِعَہُمَا فِی نَفْسِہِ، قَالَ: فَلَمَّا أَتَاہُمَا الْکِتَابَ کَتَبَا إلَیْہِ بِکِتَابٍ لَیِّنٍ یَذْکُرَانِ فَضْلَہُ وَیُطْمِعَانِہِ فِیمَا قِبلَہُمَا ، فَکَتَبَ إلَیْہِمَا بِجَوَابِ کِتَابِہِمَا الأَوَّلِ یُغْلِظُ لَہُمَا ، فَلَمْ یَدَعْ شَیْئًا إلاَّ قَالَہُ ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا لِلآخَرِ: لاَ وَاللہِ مَا نُطِیقُ نَحْنُ قَیْسَ بْنَ سَعْدٍ ، وَلَکِنْ تَعَالَ نَمْکُرُ بِہِ عِنْدَ عَلِیٍّ ، قَالَ : فَبَعْثَا بِکِتَابِہِ الأُولَی إلَی عَلِیٍّ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ أَہْلُ الْکُوفَۃِ : عَدُوُّ اللہِ قَیْسُ بْنُ سَعْدٍ فَاعْزِلْہُ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : وَیْحَکُمْ أَنَا وَاللہِ أَعْلَمُ ہِیَ وَاللہِ إحْدَی فِعْلاَتِہِ ، فَأَبَوْا إلاَّ عَزْلَہُ فَعَزَلَہُ ، وَبَعَثَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَی قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ لَہُ قَیْسٌ : اُنْظُرْ مَا آمُرُک بِہِ ، إذَا کَتَبَ إلَیْک مُعَاوِیَۃُ بِکَذَا وَکَذَا فَاکْتُبْ إلَیْہِ بِکَذَا وَکَذَا ، وَإِذَا صَنَعَ کَذَا فَاصْنَعْ کَذَا ، وَإِیَّاکَ أَنْ تُخَالِفَ مَا أَمَرْتُک بِہِ ، وَاللہِ لَکَأَنِّی أَنْظُرُ إلَیْک إنْ فَعَلْت قَدْ قُتِلْت ، ثُمَّ أُدْخِلْت فِی جَوْفَ حِمَارٍ فَأُحْرِقْت بِالنَّارِ ، قَالَ : فَفَعَلَ ذَلِکَ بِہِ۔
(٣١٣٥٢) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے قیس بن سعد کو مصر کا امیر بنا کر بھیجا، حضرت معاویہ اور عمروبن العاص (رض) نے ان کو خط لکھ بھیجا جس میں ان کو سخت الفاظ میں خطاب کیا، چنانچہ انھوں نے ان کی طرف جواب میں نرم الفاظ میں خط لکھا جس میں ان کو اپنے قریب کیا اور ان کو اپنے بارے میں طمع دلائی، جب ان کے پاس خط پہنچا تو انھوں نے حضرت قیس کے پاس نرم الفاظ پر مشتمل خط بھیجا جس میں ان کی فضیلت تحریر کی اور ان کو اس خط میں اپنی جانب لالچ دیا، چنانچہ قیس نے ان کو پہلے خط کا جواب دیا جس میں ان کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے، اور کوئی بات جواب کے بغیر نہیں چھوڑی، یہ دیکھ کر ان دونوں نے ایک دوسرے سے کہا : واللہ ! ہم قیس بن سعد پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتے، لیکن ہم حضرت علی کے پاس خط لکھ کر قیس کے ساتھ ایک تدبیر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ انھوں نے حضرت علی (رض) کو ان کا پہلا خط بھیج دیا، جب خط پہنچا تو حضرت علی (رض) سے کوفہ والوں نے کہا : قیس بن سعد اللہ کا دشمن ہے اس کو معزول کردیں، حضرت علی (رض) نے فرمایا : تمہارا ناس ہو ، بخدا میں تم سے زیادہ جانتا ہوں یہ توقیس بن سعد کا ایک کردار ہے، لیکن کوفہ والے مسلسل قیس بن سعد کی معزولی کا مطالبہ کرنے لگے، چاروناچار حضرت علی (رض) نے ان کو معزول کردیا اور ان کی جگہ محمّد بن ابی بکر کو امیر بنا کر بھیجا، جب محمد بن ابی بکر قیس بن سعد کے پاس پہنچے تو قیس نے فرمایا میری بات غور سے سنو ! اگر حضرت معاویہ تمہاری طرف اس مضمون کا خط لکھیں تو تم یہ یہ بات لکھ کر جواب دینا، اور جب وہ یہ یہ کام کریں تو تم اس طرح کرنا، اور خبردار ! میرے اس حکم کی مخالفت نہ کرنا، اللہ کی قسم ! گویا کہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم میرے حکم کی مخالفت کرو گے تو تم قتل کردیے جاؤ گے اور پھر گدھے کے پیٹ میں ڈال کر جلا دیے جاؤ گے، راوی کہتے ہیں : کہ بعد میں ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔

31352

(۳۱۳۵۳) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : مَا عَلِمْت أَنَّ عَلِیًّا اتُّہِمَ فِی قَتْلِ عُثْمَانَ حَتَّی بُویِعَ ، فَلَمَّا بُویِعَ اتَّہَمَہُ النَّاسُ۔
(٣١٣٥٣) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق حضرت علی (رض) کے ہاتھ پر بیعت سے پہلے لوگوں نے ان پر حضرت عثمان (رض) کے قتل کی تہمت نہیں لگائی ، جب ان کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو لوگوں نے ان پر حضرت عثمان کے قتل کی تہمت لگا دی۔

31353

(۳۱۳۵۴) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : قَالَ قَیْسُ بْنُ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ : لَوْلاَ أَنْ یَمْکُرَ الرَّجُلُ حَتَّی یَفْجُرَ لَمَکَرْت بِأَہْلِ الشَّامِ مَکْرًا یَضْطَرِبُونَ یَوْمًا إلَی اللَّیْلِ۔
(٣١٣٥٤) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت قیس بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ اگر آدمی مکر سے فاجر نہ ہوجاتا ہو تو میں اہل شام کے ساتھ ایسا مکر کروں جس سے وہ دن رات بےچینی میں مبتلا رہیں۔

31354

(۳۱۳۵۵) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَبِی مَعْدَانَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : شَہِدْت الْحَسَنَ وَمَالِکَ بْنَ دِینَارٍ وَمُسْلِمَ بْنَ یَسَارٍ وَسَعِیدًا یَأْمُرُونَ بِقِتَالِ الْحَجَّاجِ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ ، فَقَالَ الْحَسَنُ : إنَّ الْحَجَّاجِ عُقُوبَۃٌ جَائَتْ مِنَ السَّمَائِ ، فَلْنَسْتَقْبِلْ عُقُوبَۃَ اللہِ بِالسَّیْفِ۔
(٣١٣٥٥) مالک بن دینار فرماتے ہیں کہ میں نے حسن بصری اور مالک بن دینار اور مسلم بن یسار اور سعید کو دیکھا کہ ابن الأشعث کے ساتھ ہو کر حجاج کے خلاف قتال کا حکم دیتے تھے، حسن بصری نے فرمایا : حجاج ایک سزا ہے جو آسمان سے اتری ہے، تو ہم اللہ تعالیٰ کی سزا کا سامنا تلوار سے کرنے والے ہوں گے۔

31355

(۳۱۳۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو سُفْیَانَ الْحِمْیَرِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِیُّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ : مَنْ أَرَاْدَ أَنْ یَتَّخِذَ جَارِیَۃً لِلتَّلَذُّذِ فَلْیَتَّخِذْہَا بَرْبَرِیَّۃً ، وَمَنْ أَرَاْدَ أَنْ یَتَّخِذَہَا لِلْوَلَدِ فَلْیَتَّخِذْہَا فَارِسِیَّۃً ، وَمَنْ أَرَاْدَ أَنْ یَتَّخِذَہَا لِلْخِدْمَۃِ فَلْیَتَّخِذْہَا رُومِیَّۃً۔
(٣١٣٥٦) خالد بن محمد فرماتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان نے کہا کہ جو شخص لذت حاصل کرنے کے لیے لونڈی خریدنا چاہے وہ بربری باندی خریدے، اور جو شخص اولاد کے لیے باندی خریدنا چاہے وہ فارس کی باندی خریدے، اور جو شخص خدمت کے لیے باندی خریدنا چاہے وہ رومی باندی خریدے۔

31356

(۳۱۳۵۷) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غُنْیَۃً ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : قَالَ مُعَاوِیَۃُ : أَنَا أَوَّلُ الْمُلُوکِ۔
(٣١٣٥٧) ابن ابی غنیہ مدینہ کے ایک بزرگ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا : میں پہلا بادشاہ ہوں۔

31357

(۳۱۳۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ مُعَاوِیَۃُ : مَا زِلْت أَطْمَعُ فِی الْخِلاَفَۃِ مُنْذُ قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا مُعَاوِیَۃُ ، إنْ مَلَکْت فَأَحْسِنْ۔ (طبرانی ۸۵۰۔ بیہقی ۴۴۶)
(٣١٣٥٨) عبد الملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا : میں مسلسل خلافت کی طمع میں مبتلا رہا جب سے مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تمہیں بادشاہت ملے تو لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا۔
تم کتاب الأمراء والحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ علی محمد وآلہ والسلام۔
” کتاب الأمراء مکمل ہوئی “ والحمد للہ رب العالمین۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔