hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

30. فرائض کا بیان

ابن أبي شيبة

31678

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ ، قَالَ : (۳۱۶۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ فَلْیَتَعَلَّمِ الْفَرَائِضَ ، وَلاَ یَکُنْ کَرَجُلٍ لَقِیَہُ أَعْرَابِیٌّ فَقَالَ لَہُ : أَمُہَاجِرٌ أَنْتَ یَا عَبْدَ اللہِ ، فَیَقُولُ : نَعَمْ ، فَیَقُولُ : إنَّ بَعْضَ أَہْلِی مَاتَ وَتَرَکَ کَذَا وَکَذَا ، فَإِنْ ہُوَ عَلِمَہُ فَعِلْمٌ آتَاہُ اللَّہُ إِیَّاہُ ، وَإِنْ کَانَ لاَ یُحْسِنُ فَیَقُولُ : فَبِمَ تَفْضُلُونَا یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ؟۔ (بیہقی ۲۰۹)
(٣١٦٧٩) ابو الأحوص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے قرآن کی تعلیم حاصل کی اس کو چاہیے کہ علم الفرائض کی تعلیم بھی حاصل کرلے اور اس آدمی کی طرح نہ ہوجائے جس کو ایک دیہاتی ملا اور اس سے پوچھا : اے اللہ کے بندے ! کیا آپ مہاجر ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! اس نے پوچھا : میری اہلیہ فوت ہوگئی ہے اور اتنا اتنا مال چھوڑ گئی ہے، سو اگر اس کو معلوم ہوا تب تو وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا علم ہے، اور اگر اس معلوم نہ ہوا تو وہ دیہاتی کہنے لگا کہ اے مہاجرین کی جماعت ! تمہیں ہم پر کس بات میں برتری حاصل ہے ؟

31679

(۳۱۶۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، بِنَحْوِہِ۔
(٣١٦٨٠) حضرت عبداللہ (رض) سے ایک دوسری سند سے بھی یہی بات منقول ہے۔

31680

(۳۱۶۸۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَوَکِیعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ فَإِنَّہَا مِنْ دِینِکُمْ۔
(٣١٦٨١) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : علم میراث کو حاصل کرو کیونکہ میراث تمہارے دین کا حصّہ ہے۔

31681

(۳۱۶۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زِیَاد بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ ، عَنْ صَالِحٍ أَبِی الْخَلِیلِ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : مَثَلُ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ ، وَلاَ یُحْسِنُ الْفَرَائِضَ کَالْیَدَیْنِ بِلاَ رَأْسٍ۔
(٣١٦٨٢) صالح ابو الخلیل سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے فرمایا : اس آدمی کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور میراث کے علم کو نہیں جانتا ایسے ہے جیسے کسی کے دو ہاتھ ہوں لیکن سر نہ ہو۔

31682

(۳۱۶۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَیْسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْ قَرَأَ سُورَۃَ النِّسَائِ ، فَعَلِمَ مَا یَحْجُبُ مِمَّا لاَ یَحْجُبُ عَلِمَ الْفَرَائِضَ۔
(٣١٦٨٣) عبداللہ بن قیس سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جس آدمی نے سورة نساء پڑھی اور اس کو معلوم ہوجائے کہ کون سی چیزیں میراث میں رکاوٹ بنتی ہیں اور کون سی چیزیں رکاوٹ نہیں بنتیں تو اس شخص کو میراث کا علم حاصل ہوگیا۔

31683

(۳۱۶۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ : أَنَّہُ قِیلَ لَہُ : ہَلْ کَانَتْ عَائِشَۃُ تُحْسِنُ الْفَرَائِضَ ، فَقَالَ : إی وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، لَقَدْ رَأَیْت مَشْیَخَۃَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الأَکَابِرَ یَسْأَلُونَہَا ، عَنِ الْفَرَائِضِ ؟
(٣١٦٨٤) مسلم سے روایت ہے کہ حضرت مسروق سے پوچھا گیا کہ کیا حضرت عائشہ (رض) میراث کا علم جانتی تھیں ؟ فرمانے لگے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں نے بڑے مشائخِ صحابہ کو دیکھا ہے کہ ان سے میراث کے بارے میں سوالات کیا کرتے تھے۔

31684

(۳۱۶۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَا رَأَیْت أَحَدًا أَعْلَمَ بِفَرِیضَۃٍ ، وَلاَ أَعْلَمَ بِفِقْہٍ وَلاَ بِشِعْرٍ : مِنْ عَائِشَۃَ۔
(٣١٦٨٥) ہشام سے روایت ہے کہ ان کے والد ماجد نے فرمایا کہ میں نے کسی کو حضرت عائشہ (رض) سے زیادہ میراث ، فقہ اور شعر کا علم رکھنے والا نہیں پایا۔

31685

(۳۱۶۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُلَیِّ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ النَّاسَ بِالْجَابِیَۃِ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ عَنِ الْقُرْآنِ فَلِیَأْتِ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ عَنِ الْفَرَائِضِ فَلِیَأْتِ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ۔
(٣١٦٨٦) علی بن رباح سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو مقام جابیہ میں خطبہ دیا ، حمدوثنا کے بعد ارشاد فرمایا : جو قرآن کے بارے میں سوال کرنا چاہے وہ ابی بن کعب کے پاس آئے ، اور جو علم الفرائض ( علم المیراث) کے بارے میں سوال کرنا چاہے وہ زید بن ثابت کے پاس آئے۔

31686

(۳۱۶۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَالْفَرَائِضَ ، فَإِنَّہُ یُوشِکُ أَنْ یَفْتَقِرَ الرَّجُلُ إلَی عِلْمٍ کَانَ یَعْلَمُہُ ، أَوْ یَبْقَی فِی قَوْمٍ لاَ یَعْلَمُونَ۔
(٣١٦٨٧) قاسم بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا : قرآن اور میراث کا علم کو حاصل کرو، کیونکہ وہ وقت قریب ہے کہ آدمی اس علم کا محتاج ہوجائے گا جس کو وہ جانتا تھا، یا ایسی قوم میں رہ جائے گا جو اس کو نہیں جانتے۔

31687

(۳۱۶۸۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْعُقَیْلِیُّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ الْحِمْصِیِّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَبْطَلَ مِیرَاثًا فَرَضَہُ اللَّہُ فِی کِتَابِہِ أَبْطَلَ اللَّہُ مِیرَاثَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ۔ (سعید بن منصور ۲۸۵)
(٣١٦٨٨) حضرت سلیمان بن موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اس میراث کی خلاف ورزی کی جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرض فرمایا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت کو ختم فرما دیں گے۔

31688

(۳۱۶۸۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو سِنَانٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونً ، قَالَ: کَانُوا إذَا اخْتَلَفُوا فِی فَرِیضَۃٍ أَتَوْا عَائِشَۃَ فَأَخْبَرَتْہُمْ بِہَا۔
(٣١٦٨٩) عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ جب صحابہ میں میراث کے بارے میں اختلاف ہوتا تو حضرت عائشہ (رض) کے پاس حاضر ہوتے اور وہ ان کو اس معاملے کے بارے میں ارشاد فرماتیں۔

31689

(۳۱۶۹۰) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلْقَمَۃَ: عَلِّمْنِی الْفَرَائِضَ، قَالَ: ائْتِ جِیرَانَک۔
(٣١٦٩٠) ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علقمہ سے عرض کیا کہ مجھے علم الفرائض سکھا دیں، فرمایا کہ اپنے پڑوسیوں کے پاس جاؤ۔

31690

(۳۱۶۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : تَعَلَّمُوا اللَّحْنَ وَالْفَرَائِضَ وَالسُّنَّۃَ کَمَا تَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ۔
(٣١٦٩١) مورّق فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا کہ لہجوں اور میراث اور حدیث کا علم بھی حاصل کرو جیسا کہ تم قرآن پاک کا علم حاصل کرتے ہو۔

31691

(۳۱۶۹۲) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَعْبَدٍ الْجَہْنَیِّ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ یُرِدَ اللَّہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ۔ (بخاری ۷۱۔ مسلم ۷۱۸)
(٣١٦٩٢) حضرت معاویہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں۔

31692

(۳۱۶۹۳) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ ابْنَ أَبِی سُفْیَانَ یَخْطُبُ یَقُولُ : سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ عَلَی ہَذِہِ الأَعْوَادِ ، اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْت ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْت ، مَنْ یُرِدَ اللَّہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ۔ (احمد ۹۵۔ مالک ۹۰۰)
(٣١٦٩٣) حضرت محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو خطبے میں فرماتے سنا کہ ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لکڑیوں کے اوپر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اے اللہ ! جو آپ عطا فرمائیں اس کو کوئی روکنے والا نہیں، اور جس چیز کو آپ روک لیں اس کو کوئی دینے والا نہیں ، اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔

31693

(۳۱۶۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ تَمِیمِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ یُرِدَ اللَّہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ۔
(٣١٦٩٤) ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔

31694

(۳۱۶۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : إذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا فَقَّہَہُ فِی الدِّینِ وَأَلْہَمَہُ رُشْدَہُ۔
(٣١٦٩٥) ابو سفیان سے روایت ہے کہ حضرت عبید بن عمیر نے ارشاد فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں اور اس کے دل میں اس کی بھلائی کی بات ڈال دیتے ہیں۔

31695

(۳۱۶۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ ، قَالَ : إذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا ، فَقَّہَہُ فِی الدِّینِ ، وَزَہَّدَہُ فِی الدُّنْیَا ، وَبَصَّرَہُ عَیْبَہُ ، فَمَنْ أُوتِیَہُنَّ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔
(٣١٦٩٦) موسیٰ بن عبیدہ سے روایت ہے کہ محمد بن کعب (رض) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں اور اس کو دنیا میں بےرغبت کردیتے ہیں اور اس کو دنیا کی برائیاں دکھلا دیتے ہیں ، اور جس شخص کو یہ چیزیں دے دی گئیں اس کو دنیاو آخرت کی بھلائی مل گئی۔

31696

(۳۱۶۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ : أَنَّ عُثْمَانَ سُئِلَ عَنْہَا ، فَقَالَ : لِلْمَرْأَۃِ الرُّبْعُ ، وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ ، وَسَائِرُ ذَلِکَ لِلأَبِ۔
(٣١٦٩٧) ابو مہلّب سے روایت ہے کہ حضرت عثمان (رض) سے اس صورت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : عورت کے لیے ایک چوتھائی مال ہے، اور ماں کے لیے باقی ماندہ مال کا ایک تہائی، اور اس کے علاوہ باقی سارا مال باپ کے لیے ہے۔

31697

(۳۱۶۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ سُئِلَ عَنِ امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ ، فَأَعْطَی الْمَرْأَۃَ الرُّبْعَ ، وَالأُمَّ ثُلُثَ مَا بَقِیَ ، وَمَا بَقِیَ لِلأَبِ۔
(٣١٦٩٨) سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت (رض) سے بیوی اور والدین کے حصّوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے بیوی کو ایک چوتھائی ، اور ماں کو باقی ماندہ مال کا ایک تہائی ، اور اس کے بعد بچنے والا مال، باپ کو دینے کا حکم دیا۔

31698

(۳۱۶۹۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ : فِی امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ ، قَالَ : الرُّبْعُ ، وَثُلُثُ مَا بَقِیَ۔
(٣١٦٩٩) شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) سے بیوی اور والدین کے حصّوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ بیوی کے لیے ایک چوتھائی اور ماں کے لیے باقی ماندہ کا ایک تہائی ہے۔

31699

(۳۱۷۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : أُتِیَ عَبْدُ اللہِ فِی امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ ، فَقَالَ : إنَّ عُمَرَ کَانَ إذَا سَلِکَ طَرِیقًا فَسَلِکْنَاہُ وَجَدْنَاہُ سَہْلا ، وَإنَّہُ أُتِیَ فِی امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ فَجَعَلَہَا مِنْ أَرْبَعَۃٍ ، فَأَعْطَی الْمَرْأَۃَ الرُّبْعَ ، وَالأُمَّ ثُلُثَ مَا بَقِی ، وَأَعْطَی الأَبَ سَائِرَ ذَلِکَ۔
(٣١٧٠٠) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) سے ایک بیوی اور والدین کے حصّوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، آپ نے فرمایا : حضرت عمر (رض) جس راستے پر چلتے جب ہم اس راستے پر چلتے تو اسے ہموار پاتے، اور ان کے پاس ایک بیوی اور والدین کے حصّوں کا مسئلہ لایا گیا تو انھوں نے مال کے چار حصّے کر کے بیوی کو ایک چوتھائی اور ماں کو باقی ماندہ مال کا ایک تہائی دیا، اور باقی سارا مال باپ کو دیا۔

31700

(۳۱۷۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عُمَرَ ، بِمِثْلِہِ۔
(٣١٧٠١) حضرت عمر (رض) سے ایک دوسری سند کے ساتھ بھی یہی منقول ہے۔

31701

(۳۱۷۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ : فِی امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ : لِلْمَرْأَۃِ الرُّبْعُ وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأَبِ۔
(٣١٧٠٢) شعبی حضرت علی (رض) سے اس صورت کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جب ورثاء میں بیوی اور والدین ہوں کہ بیوی کے لیے ایک چوتھائی اور ماں کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی ہے، اور اس کے علاوہ باقی باپ کے لیے ہے۔

31702

(۳۱۷۰۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عُمَرَ ، بِمِثْلِہِ ، إلاَّ أَنَّہُ قَالَ : أُتِیَ فِی امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ۔
(٣١٧٠٣) حضرت عبداللہ نے حضرت عمر (رض) سے بھی یہ مضمون نقل کیا ہے، البتہ انھوں نے اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ ان سے اس صورت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جب میت کے ورثاء میں بیوی اور والدین ہوں۔

31703

(۳۱۷۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ : أَنَّہُ قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا سَلِکَ طَرِیقًا فَسَلِکْنَاہُ وَجَدْنَاہُ سَہْلا ، فَسُئِلَ عَنْ زَوْجَۃٍ وَأَبَوَیْنِ ، فَقَالَ : لِلزَّوْجَۃِ الرُّبْعُ ، وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأَبِ۔
(٣١٧٠٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جب کوئی رائے اختیار کرتے اور پھر ہم اس رائے کو اختیار کرتے تو اس کو آسان پاتے، چنانچہ ان سے بیوی اور والدین کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا : بیوی کے لیے ایک چوتھائی اور ماں کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی ہے، اور جو باقی بچے وہ باپ کے لیے ہے۔

31704

(۳۱۷۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : خَالَفَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَہْلَ الصَّلاَۃِ فِی امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ وَزَوْجٍ ، قَالَ : لِلأُمِّ الثُّلُثُ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔ (عبدالرزاق ۱۹۰۱۸۔ بیہقی ۲۲۸)
(٣١٧٠٥) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بیوی ، والدین اور شوہر کے وارث ہونے کے مسئلے میں جمہور علماء کی مخالفت کی ہے۔ فرمایا کہ ماں کے لیے پورے مال کا ایک تہائی ہے۔

31705

(۳۱۷۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : مَا یَمْنَعُہُمْ أَنْ یَجْعَلُوہَا مِنَ اثْنَیْ عَشَرَ سَہْمًا ، فَیُعْطُونَ الْمَرْأَۃَ ثَلاَثَۃَ أَسْہُمٍ وَلِلأُمِّ أَرْبَعَۃَ أَسْہُمٍ وَلِلأَبِ خَمْسَۃَ أَسْہُمٍ۔
(٣١٧٠٦) ایوب روایت کرتے ہیں کہ محمد بن سیرین (رض) نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو کیا چیز اس بات سے روکتی ہے کہ اس مسئلے کو ١٢ کے عدد سے نکالیں ، اور عورت کو تین حصّے ، ماں کو چار حصّے، اور باپ کو پانچ حصّے دے دیں۔

31706

(۳۱۷۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَا کَانَ اللَّہُ لِیَرَانِی أُفَضِّلُ أُمًّا عَلَی أَبٍ۔
(٣١٧٠٧) مسیب بن رافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسا نہیں دیکھیں گے کہ میں ماں کو باپ پر ترجیح دوں۔

31707

(۳۱۷۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إنَّ عُمَرَ کَانَ إذَا سَلِکَ طَرِیقًا فَسَلِکْنَاہُ وَجَدْنَاہُ سَہْلا ، وَأَنَّہُ أُتِیَ فِی امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ ، فَجَعَلَ لِلْمَرْأَۃِ الرُّبْعُ ، وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ، وَمَا بَقِیَ لِلأَبِ۔
(٣١٧٠٨) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جب کوئی رائے اختیار کرتے اور ان کی اتباع میں ہم اس رائے کو اختیار کرتے تو ہم اس کو آسان پاتے، چنانچہ ان سے بیوی اور والدین کے وارث ہونے کے مسئلے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے بیوی کو ایک چوتھائی اور ماں کو بقیہ مال کا ایک تہائی دیا، اور باقی مال باپ کو دینے کا حکم کیا۔

31708

(۳۱۷۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ شَیْخٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ : فِی امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ : لِلْمَرْأَۃِ الرُّبْعُ ، وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ۔ قَالَ أَبُوبَکْرٍ: فَہَذِہِ مِنْ أَرْبَعَۃِ أَسْہُمٍ: لِلْمَرْأَۃِ سَہْمٌ وَہُوَ الرُّبْعُ، وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ وَہُوَ سَہْمٌ، وَلِلأَبِ سَہْمَانِ۔
(٣١٧٠٩) حجاج ایک شیخ کے واسطے سے محمد بن حنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ بیوی اور والدین کے وارث ہونے کی صورت میں بیوی کو ایک چوتھائی اور ماں کو بقیہ کا ایک تہائی دیا جائے گا،
ابو بکر فرماتے ہیں کہ یہ چار حصّوں میں سے ہوگا، ایک حصّہ بیوی کے لئے، یعنی ایک چوتھائی، اور ماں کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی، یہ بھی ایک حصّہ ہوگا، اور باپ کے لیے دو حصّے ہوں گے۔

31709

(۳۱۷۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَصْبَہَانِیِّ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : بَعَثَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ إلَی زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَسْأَلُہُ عَنْ زَوْجٍ وَأَبَوَیْنِ ، فَقَالَ زَیْدٌ : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ، وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ وَہُوَ السُّدُسُ ، فَأَرْسَلِ إلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ : أَفِی کِتَابِ اللہِ تَجِدُ ہَذَا ؟ قَالَ : أَکْرَہُ أَنْ أُفَضِّلَ أُمًّا علَی أَبٍ ، وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یُعْطِی الأُمَّ الثُّلُثَ مِنْ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(٣١٧١٠) عکرمہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت زید بن ثابت (رض) کے پاس شوہر اور والدین کے وارث ہونے کے مسئلے کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے بھیجا، چنانچہ حضرت زید (رض) نے فرمایا کہ شوہر کے لیے آدھا مال ہے ، اور ماں کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی، اور وہ کل مال کا چھٹا حصّہ ہوگا، حضرت ابن عباس نے ان کے پاس پیغام بھیجا کہ کیا آپ اس بات کو کتاب اللہ میں پاتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا کہ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ ماں کو باپ پر ترجیح دوں ، اور حضرت ابن عباس (رض) ماں کو پورے مال کا ایک تہائی دیا کرتے تھے۔

31710

(۳۱۷۱۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ یَفْرِضُہَا کَمَا فَرَضَہَا زَیْدٌ۔
(٣١٧١١) زائدہ سے روایت ہے کہ حضرت سلیمان نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم اس مسئلے کا وہی جواب دیا کرتے تھے جو حضرت زید (رض) دیا کرتے تھے۔

31711

(۳۱۷۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ شَیْخٍ ، عَنِ ابْن الْحَنَفِیَّۃِ: فِی زَوْجٍ وَأَبَوَیْنِ: لِلزَّوْجِ النِّصْفُ، وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِی ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأَبِ۔
(٣١٧١٢) حجاج ایک شیخ کے واسطے سے حضرت محمد بن حنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ شوہر اور والدین کے وارث ہونے کی صورت میں شوہر کے لیے آدھا مال ہے اور ماں کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی، اور باقی مال باپ کے لیے ہے۔

31712

(۳۱۷۱۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِنْدَلٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلِیٍّ وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ : فِی امْرَأَۃٍ وَأَبَوَیْنِ وَزَوْجٍ وَأَبَوَیْنِ ، قَالَ : قَالَ : لِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ۔
(٣١٧١٣) ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) اور زید بن ثابت (رض) نے ” بیوی اور والدین ‘ اور ” شوہر اور والدین “ کے مسئلے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ماں کے لیے ” باقی بچنے والے مال کا ایک تہائی ہے۔ “

31713

(۳۱۷۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ : أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَرْسَلِ إلَی زَیْدٍ یَسْأَلُہُ عَنْ زَوْجٍ وَأَبَوَیْنِ ؟ فَقَالَ زَیْدٌ : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ، وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : تَجِدُ لَہَا فِی کِتَابِ اللہِ ثُلُثَ مَا بَقِیَ ؟ فَقَالَ زَیْدٌ : ہَذَا رَأْیِی وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : ہَذِہِ سِتَّۃُ أَسْہُمٍ : لِلزَّوْجِ ثَلاَثَۃٌ ، وَلِلأُمِّ سَہْمٌ ، وَلِلأَبِ سَہْمَانِ۔
(٣١٧١٤) اعمش سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت زید کے پاس شوہر اور والدین کے مسئلے کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے آدمی بھیجا ، تو انھوں نے فرمایا : کہ شوہر کے لیے آدھا مال ہے اور ماں کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی، حضرت ابن عباس (رض) نے پوچھا کہ کیا کتاب اللہ میں آپ ماں کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی پاتے ہیں ؟ حضرت زید نے فرمایا کہ یہ میری رائے ہے اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
ابو بکر فرماتے ہیں کہ یہ چھ حصّے ہوتے ہیں، شوہر کے تین حصّے ، ماں کا ایک حصّہ ، اور باپ کے دو حصّے۔

31714

(۳۱۷۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : قضَی مُعَاذٌ بِالْیَمَنِ فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ لأَبٍ وَأَمٍّ : لِلأُخْتِ النِّصْفُ ، وَلِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ۔
(٣١٧١٥) اسود بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) نے بیٹی اور حقیقی بہن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ بہن کے لیے نصف مال ہوگا اور نصف مال بیٹی کے لئے۔

31715

(۳۱۷۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُعَاذٍ ، مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣١٧١٦) ایک دوسری سند سے بھی حضرت اسود سے یہی ارشاد منقول ہے۔

31716

(۳۱۷۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن وَبَرَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَن ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ الزُّبَیْرِ لاَ یُعْطِی الأُخْتَ مَعَ الاِبْنَۃِ شَیْئًا حَتَّی حَدَّثْتہ أَنَّ مُعَاذًا قَضَی بِالْیَمَنِ فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ لأَبٍ وَأَمٍّ : لِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ وَلِلأُخْتِ النِّصْفُ ، فَقَالَ : أَنْتَ رَسُولِی إلَی ابْنِ عُتْبَۃَ فَمُرْہُ بِذَلِکَ۔
(٣١٧١٧) اسود بن یزید فرماتے ہیں کہ ابن زبیر (رض) بیٹی کی موجودگی میں بہن کو کچھ نہ دیے جانے کے قائل تھے۔ یہاں تک کہ میں نے ان سے یہ حدیث بیان کی کہ حضرت معاذ (رض) نے یمن میں بیٹی اور حقیقی بہن کے بارے میں یہ حکم ارشاد فرمایا کہ نصف مال بیٹی کے لیے ہوگا اور نصف بہن کے لئے، اس پر انھوں نے فرمایا کہ تم ابن عتبہ کی طرف میرے قاصد بن کر جاؤ اور اس کو اس بات کا حکم دو ۔

31717

(۳۱۷۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : حدَّثْت ابْنَ الزُّبَیْرِ بِقَوْلِ مُعَاذٍ ، فَقَالَ : أَنْتَ رَسُولِی إلَی ابْنِ عُتْبَۃَ فَمُرْہُ بِذَلِکَ۔
(٣١٧١٨) اسود فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن زبیر (رض) کو حضرت معاذ (رض) کا فرمان بتایا تو انھوں نے کہا کہ تم ابن عتبہ کی طرف میرے قاصد ہو اس کو اس کا حکم دو ۔

31718

(۳۱۷۱۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ الْمِصْرِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ : أَنَّ عُمَرَ جَعَلَ الْمَالَ بَیْنَ الاِبْنَۃِ وَالأُخْتِ نِصْفَیْنِ۔
(٣١٧١٩) ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بیٹی اور بہن کے درمیان مال کو آدھا آدھا تقسیم فرمایا۔

31719

(۳۱۷۲۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ : فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ، قَالَ : النِّصْفُ ، وَالنِّصْفُ۔
(٣١٧٢٠) ابو حصین سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عتبہ نے بیٹی اور بہن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ان کو آدھا آدھا ملے گا۔

31720

(۳۱۷۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ الزُّبَیْرِ قَدْ ہَمَّ أَنْ یَمْنَعَ الأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ الْمِیرَاثَ فَحَدَّثْتہ أَنَّ مُعَاذًا قَضَی بِہِ فِینَا : وَرَّثَ ابْنَۃً وَأُخْتًا۔
(٣١٧٢١) اسود فرماتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر (رض) نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ بیٹیوں کی موجودگی میں بہنوں کو میراث سے محروم رکھیں، جب میں نے ان کو یہ حدیث سنائی کہ حضرت معاذ (رض) نے ہمارے درمیان اس بارے میں فیصلہ فرمایا ہے تو انھوں نے بہن اور بیٹی کو وارث قرار دیا۔

31721

(۳۱۷۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ إسْرَائِیلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: کَانَ عَلِیٌّ وَابْنُ مَسْعُودٍ وَمُعَاذٌ یَقُولُونَ فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ: النِّصْفُ وَالنِّصْفُ، وَہُوَ قَوْلُ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلاَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ، وَابْنَ عَبَّاسٍ۔
(٣١٧٢٢) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت علی ، ابن مسعود اور معاذ (رض) بیٹی اور بہن کے حصّوں کے بارے میں فرماتے تھے کہ آدھا آدھا ہے، اور یہی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی رائے ہے سوائے حضرت ابن زبیر (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) کے۔

31722

(۳۱۷۲۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ وَقَدْ أَمَرَنِی أَنْ أُصْلِحَ بَیْنَ الاِبْنَۃِ وَالأُخْتِ فِی الْمِیرَاثِ ، وَقَدْ کَانَ ابْنُ الزُّبَیْرِ أَمَرَہُ أَنْ لاَ یُوَرِّثَ الأُخْتَ مَعَ الاِبْنَۃِ شَیْئًا ، فَإِنِّی لأُصْلِحُ بَیْنَہُمَا عِنْدَہُ إذَا جَائَ الأَسْوَدُ بْنُ یَزِیدَ ، فَقَالَ : إنِّی شَہِدْت مُعَاذًا بِالْیَمَنِ قَسَمَ الْمَالَ بَیْنَ الاِبْنَۃِ وَالأُخْتِ ، وَإِنِّی أَتَیْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ فَأَعْلَمْتہ ذَلِکَ ، فَأَمَرَنِی أَنْ آتِیَک فَأُعْلِمَک ذَلِکَ لِتَقْضِیَ بِہِ وَتَکْتُبَ بِہِ إلَیْہِ ، فَقَالَ : یَا أَسْوَدُ ، إنَّک عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ فَأْتِہِ فَأَعْلِمْہُ ذَلِکَ فَلِیَقْضِ بِہِ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَہَذِہِ مِنْ سَہْمَیْنِ : لِلاِبْنَۃِ سَہْمٌ وَلِلأُخْتِ سَہْمٌ۔
(٣١٧٢٣) مسیب بن رافع فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عتبہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ انھوں نے مجھے حکم دیا تھا کہ بیٹی اور بہن کے درمیان صلح کروا دوں، اور حضرت ابن زبیر (رض) نے ان کو حکم دیا تھا کہ بہن کو بیٹی کی موجودگی میں وارث نہ بنائیں، میں ان دونوں کے درمیان صلح کروانے کو ہی تھا کہ اسود بن یزید تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے حضرت معاذ (رض) کو یمن میں دیکھا کہ انھوں نے بیٹی اور بہن کے درمیان مال تقسیم فرمایا تھا، میں نے حضرت ابن زبیر (رض) کے پاس جا کر ان کو یہ بات بتائی تو انھوں نے مجھے حکم دیا کہ آپ کے پاس آ کر آپ کو بھی بتادوں تاکہ آپ اس کے مطابق فیصلہ فرما دیں اور یہ بات خط میں لکھ کر ان کی طرف بھیج دیں، اور انھوں نے کہا اے اسود ! آپ ہمارے خیال میں سچے آدمی ہیں ان کے پاس جائیں اور ان کو یہ بات بتائیں تاکہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کریں۔
ابو بکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ دو حصّوں سے نکلے گا جن میں سے ایک حصّہ بیٹی کا ہوگا اور ایک بہن کا۔

31723

(۳۱۷۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنْ ہُزَیْلِ بْنِ شُرَحْبِیلَ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی أَبِی مُوسَی وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ فَسَأَلَہُمَا عَنِ ابْنَۃٍ ، وَابْنَۃِ ابْنٍ ، وَأُخْتٍ لأَبٍ وَأُمٍ ؟ فَقَالاَ : لِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ لِلأُخْتِ ، وَائْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَلْہُ ، فَإِنَّہُ سَیُتَابِعنَا ، قَالَ : فَأَتَی الرَّجُلُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَأَلَہُ وَأَخْبَرَہُ بِمَا قَالاَ ، فَقَالَ : لَقَدْ ضَلَلْت إذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُہْتَدِینَ ، وَلَکِنْ سَأَقْضِی بِمَا قَضَی بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ ، وَلاِبْنَۃِ الاِبْنِ السُّدُسُ تَکْمِلَۃُ الثُّلُثَیْنِ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأُخْتِ۔
(٣١٧٢٤) ھُزیل بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابو موسیٰ اور حضرت سلیمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان سے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کے حصّے کے بارے میں سوال کیا، ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ بیٹی کے لیے نصف مال ہے اور باقی بہن کے لیے ہے، اور آپ حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس چلے جائیں وہ ہماری تائید کریں گے، راوی کہتے ہیں کہ وہ آدمی حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس آیا اور ان سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا اور جو مسئلہ ان دو حضرات نے بیان فرمایا تھا بتایا، آپ نے فرمایا : اگر میں ان کی تائید کروں تو میں گمراہ ہوں گا اور اس بارے میں درست رائے رکھنے والا نہ ہوں گا، لیکن میں وہ فیصلہ کرتا ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے ، کہ بیٹی کے لیے نصف مال ، پوتی کے لیے چھٹا حصّہ دو تہائی حصّے کو پورا کرنے کے لئے، اور باقی بہن کے لیے ہوگا۔

31724

(۳۱۷۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنْ ہُزَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی ابْنَۃٍ ، وَابْنَۃِ ابْنٍ ، وَأُخْتٍ : أَعْطَی الْبِنْتِ النِّصْفَ ، وَابْنَۃَ الاِبْنِ السُّدُسَ تَکْمِلَۃَ الثُّلُثَیْنِ ، وَالأُخْتَ مَا بَقِیَ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَہَذِہِ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ : لِلاِبْنَۃِ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلاِبْنَۃِ الاِبْنِ سَہْمٌ ، وَلِلأُخْتِ سَہْمَانِ۔
(٣١٧٢٥) ھُزیل روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیٹی، پوتی اور بہن کے بارے میں ایک فیصلہ فرمایا، جس میں بیٹی کو نصف مال، پوتی کو چھٹا حصّہ، دو تہائی حصّے کو پورا کرنے کے لئے، اور باقی بہن کو عطا فرمایا۔
ابو بکر فرماتے ہیں یہ مسئلہ ٦ کے عدد سے حل ہوگا، بیٹی کے لیے تین حصّے، پوتی کے لیے ایک حصّہ اور بہن کے لیے دو حصّے۔

31725

(۳۱۷۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ : أَنَّہُ کَانَ یَجْعَلُ لِلأَخَوَاتِ وَالْبَنَاتِ الثُّلُثَیْنِ ، وَیَجْعَلُ مَا بَقِیَ لِلذُّکُورِ دُونَ الإِنَاثِ ، وَأَنَّ عَائِشَۃَ شَرَّکَتْ بَیْنَہُمْ ، فَجَعَلَتْ مَا بَقِیَ بَعْدَ الثُّلُثَیْنِ {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ}۔
(٣١٧٢٦) مسروق سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) بہنوں اور بیٹیوں کو دو تہائی مال دینے کے قائل تھے اور باقی مال مردوں کو دینے کے قائل تھے نہ کہ عورتوں کو، اور حضرت عائشہ (رض) مردوں اور عورتوں کو وراثت میں شریک کرنے کی قائل تھیں، اور دو تہائی مال کے علاوہ مال میں بھی ایک مرد کو دو عورتوں کے حصّے کے برابر دینے کی قائل تھیں۔

31726

(۳۱۷۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ : أَنَّہُ قَالَ فِیہَا : ہَذَا مِنْ قَضَائِ أَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ : یَرِثُ الرِّجَالُ دُونَ النِّسَائِ۔
(٣١٧٢٧) حکیم بن جابر سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت (رض) نے اس رائے کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ یہ اہل جاہلیت کے فیصلوں میں سے ہے کہ مرد وارث ہوں اور عورتیں وارث نہ ہوں۔

31727

(۳۱۷۲۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ : کَانَ یَأْخُذُ بِقَوْلِ عَبْدِ اللہِ فِی أَخَوَاتٍ لأُمٍّ وَأَبٍ ، وَإِخْوَۃٍ وَأَخَوَاتٍ لأَبٍ ، یَجْعَلُ مَا بَقِیَ عَلَی الثُّلُثَیْنِ لِلذِّکُور دُونَ الإِنَاثِ ، فَخَرَجَ خَرْجَۃً إلَی الْمَدِینَۃِ ، قَالَ : فَجَائَ وَہُوَ یَرَی أَنْ یُشَرِّکَ بَیْنَہُمْ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ عَلْقَمَۃُ : مَا رَدَّک عَنْ قَوْلِ عَبْدِ اللہِ ؟ أَلَقِیت أَحَدًا ہُوَ أَثْبَتُ فِی نَفْسِکَ مِنْہُ ؟ قَالَ : فَقَالَ : لاَ ، وَلَکِنْ لَقِیت زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَوَجَدْتہ مِنَ الرَّاسِخِینَ فِی الْعِلْمِ۔
(٣١٧٢٨) ابراہیم سے روایت ہے کہ مسروق حقیقی بہنوں اور علّاتی بھائیوں اور علّاتی بہنوں کے بارے میں حضرت عبداللہ (رض) کی رائے رکھتے تھے، کہ دو تہائی کے علاوہ بچنے والے مال کو مردوں میں تقسیم کرنے کے قائل تھے نہ کہ عورتوں کے درمیان، چنانچہ ایسا ہوا کہ وہ ایک مرتبہ مدینہ منوّرہ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو ان کی رائے یہ ہوچکی تھی کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان باقی مال بھی تقسیم ہونا چاہیے، راوی کہتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے ان سے فرمایا کہ تمہیں حضرت عبداللہ (رض) کی رائے سے کس نے پھیرا ؟ کیا تمہارے خیال میں ان سے بھی زیادہ باوثوق شخصیت کوئی ہے ؟ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ نہیں ! لیکن میں حضرت زید بن ثابت (رض) سے ملا تو میں نے ان کو پختہ علم والے حضرات میں سے پایا اس لیے میں نے ان کی اتباع کی۔

31728

(۳۱۷۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ : قدِمَ فَقَالَ لَہُ عَلْقَمَۃُ : مَا کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِثَبْتٍ ؟ فَقَالَ لَہُ مَسْرُوقٌ : کَلاَّ ، وَلَکِنْ رَأَیْت زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَأَہْلَ الْمَدِینَۃِ یُشَرِّکُونَ۔
(٣١٧٢٩) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق مدینہ منّورہ سے آئے تو ان سے علقمہ نے فرمایا کہ کیا حضرت ابن مسعود (رض) باوثوق آدمی نہیں تھے ؟ تو حضرت مسروق نے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں ! لیکن میں نے حضرت زید بن ثابت (رض) اور اہل مدینہ کو دیکھا ہے کہ وہ مردوں اور عورتوں کو مال میں شریک کرتے ہیں

31729

(۳۱۷۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لأُخْتَیْہِ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ الثُّلُثَانِ ، وَلإِخْوَتِہِ لأَبِیہِ وَأَخَوَاتِہِ مَا بَقِیَ {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ} فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : لأُخْتَیْہِ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ الثُّلُثَانِ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلذُّکُورِ مِنْ إخْوَتِہِ دُونَ إنَاثِہِمْ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَہَذِہِ فِی الْقَوْلَیْنِ جَمِیعًا مِنْ ثَلاَثَۃِ أَسْہُمٍ : لِلأَخَوَاتِ وَالْبَنَاتِ الثُّلُثَانِ ، وَیَبْقَی الثُّلُثُ فَہُوَ بَیْنَ الإِخْوَۃِ وَالأَخَوَاتِ ، أَوْ بَیْنَ بَنَاتِ ابْنِہِ ، وَبَنِی ابْنِہِ ، لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ۔
(٣١٧٣٠) ابراہیم فرماتے ہیں کہ دو حقیقی بہنوں کے لیے دو تہائی حصّہ ہے اور علّاتی بھائیوں اور بہنوں کے لیے باقی مال ہے اس طرح کہ ایک مرد کے لیے دو عورتوں کے حصّے کے برابر مال ہوگا، یہ حضرت علی (رض) اور زید بن ثابت (رض) کی رائے ہے، اور حضرت عبداللہ (رض) کے فرمان کے مطابق مرنے والے کی دو حقیقی بہنوں کے لیے دو تہائی اور باقی میت کے بہن بھائیوں میں سے صرف مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لئے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ دونوں آراء کے مطابق تین کے عدد سے حل ہوگا، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے دو تہائی مال ہے اور جو ایک تہائی باقی بچے گا وہ بھائیوں اور بہنوں کے درمیان تقسیم ہوگا یا میت کی پوتیوں اور بیٹے کے درمیان تقسیم ہوگا کہ ایک مرد کا حصّہ دو عورتوں کے حصّے کے برابر ہوگا۔

31730

(۳۱۷۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ ابْنَتَیْہِ وَابْنَۃَ ابْنٍ ، وَابْنَ ابْنٍ أَسْفَلَ مِنْہَا : فَلاِبْنَتَیْہِ الثُّلُثَانِ ، وَمَا فَضَلَ لاِبْنِ ابْنِہِ ، یُرَدُّ عَلَی مَنْ فَوْقَہُ وَمَنْ مَعَہُ مِنَ الْبَنَاتِ ، فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ : {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ} وَلاَ یُرَدُّ عَلَی مَنْ أَسْفَلَ مِنْہُ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : لاِبْنَتَیْہِ الثُّلُثَانِ ، وَلاِبْنِ ابْنِہِ مَا بَقِی ، لاَ یَردُّ عَلَی أُخْتِہِ شَیْئًا ، وَلاَ عَلَی مَنْ فَوْقَہُ مِنْ أَجْلِ أَنَّہُ اسْتَکْمَلَ الثُّلُثَیْنِ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ مِنْ تِسْعَۃٍ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ : فَیَصِیرُ لِلاِبْنَتَیْنِ الثُّلُثَانِ : وَتَبْقَی ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ : فَلاِبْنِ الاِبْنِ سَہْمَانِ ، وَلأُخْتِہِ سَہْمٌ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : مِنْ ثَلاَثَۃٍ أَسْہُمٍ : لِلْبِنْتَیْنِ الثُّلُثَانِ سَہْمَانِ ، وَلاِبْنِ الاِبْنِ مَا بَقِیَ وَہُوَ سَہْمٌ۔
(٣١٧٣١) ابراہیم اس آدمی کے بارے میں فرماتے ہیں جس نے اپنی دو بیٹیاں اور ایک پوتی اور ایک پڑپوتا چھوڑا کہ اس کی بیٹیوں کے لیے دو تہائی مال ہے اور باقی پڑپوتے کے لیے ہے، اس طرح کہ اس سے اوپر اور اس کے ساتھ کی بہنوں کی طرف بھی مال لوٹایا جائے گا، حضرت علی (رض) اور زید بن ثابت (رض) کی رائے میں تو ایک مرد کو دو عورتوں کے حصّوں کے برابر حصّہ دیا جائے گا، اور اس سے نیچے کے کسی شخص کی طرف مال نہیں لوٹایا جائے گا، اور حضرت عبداللہ (رض) کے قول کے مطابق اس آدمی کی دو بیٹیوں کے لیے دو تہائی مال اور اس کے پوتے کے لیے باقی مال ہے ، باقی مال اس کی بہن پر نہیں لوٹایا جائے گا اور نہ اس پوتے سے اوپر کی کسی عورت پر کچھ لوٹایا جائے گا اس وجہ سے کہ ان بہنوں نے دو تہائی پورا وصول کرلیا ہے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی اور حضرت زید (رض) کی رائے کے مطابق نو کے عد د سے نکلے گا، دو تہائی مال بیٹی کے لیے ہوگا، اور تین حصّے باقی بچے، ان میں سے دو حصّے پوتے کے لیے اور ایک حصّہ بہن کے لیے ہوگا، اور حضرت عبداللہ (رض) کی رائے کے مطابق تین کے عدد سے نکلے گا، دو تہائی بیٹیوں کے لیے اور باقی مال جو ایک تہائی حصّہ ہے پوتے کے لیے ہوگا۔

31731

(۳۱۷۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَقُولُ فِی ابْنَۃٍ ، وَابْنَۃِ ابْنٍ ، وَبَنِی ابْنٍ ، وَبَنِی أُخْتٍ لأَبٍ وَأُمٍّ ، وَأُخْتٍ وَإِخْوَۃٍ لأَبٍ : أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ کَانَ یُعْطِی ہَذِہِ النِّصْفَ ، ثُمَّ یَنْظُرُ، فَإِنْ کَانَ إذَا قَاسَمَتِ الذُّکُورَ أَصَابَہَا أَکْثَرُ مِنَ السُّدُسِ ، لَمْ یُزِدْہَا عَلَی السُّدُسِ ، وَإِنْ أَصَابَہَا أَقَلُّ مِنَ السُّدُسِ قَاسَمَ بِہَا ، لَمْ یُلْزِمْہَا الضَّرَرُ ، وَکَانَ غَیْرُہُ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لِہَذِہِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : ہَذِہِ أَصْلُہَا مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ۔
(٣١٧٣٢) اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) بیٹی ، پوتی، پوتوں، حقیقی بہن کے بیٹوں اور علاتی بہن بھائیوں کے بارے میں اس طرح تقسیم فرمایا کرتے تھے کہ بیٹی کو نصف مال دیتے، پھر دیکھتے ، اگر اتنا مال بچتا کہ مردوں کو دیں تو اس کو چھٹے حصّے سے زائد ملتا ہے تو اس کو چھٹے حصّے سے زیادہ نہیں دیتے تھے اور اگر چھٹے حصّے سے کم ملتا تو اس کو دے دیتے تھے اور اس پر نقصان لازم نہیں کرتے تھے ، اور دوسرے اصحابِ نبی (رض) فرماتے تھے کہ اس عورت کے لیے نصف مال ہے اور باقی مال اس طرح تقسیم ہوگا کہ ایک آدمی کو دو عورتوں کے برابر حصّہ دیا جائے گا۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کی اصل چھ کے عد د سے نکلے گی۔

31732

(۳۱۷۳۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ وَزَیْدٌ یَقُولاَنِ فِی بَنِی عَمٍّ أحَدُہُمْ أَخٌ لأُمٍّ : یُعْطِیَانِہِ السُّدُسَ ، وَمَا بَقِیَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ بَنِی عَمِّہِ ، وَکَانَ عَبْدُ اللہِ یُعْطِیہ الْمَالَ کُلَّہُ۔
(٣١٧٣٣) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت زید (رض) ان چچا زاد بھائیوں کے بارے میں جن میں سے ایک ماں شریک بھائی ہو فرمایا کرتے تھے کہ اس کو چھٹا حصّہ دیا جائے گا ، اور باقی اس کے اور دوسرے چچا زاد بھائیوں کے درمیان تقسیم ہوگا، اور حضرت عبداللہ (رض) اسی چچا زاد کو پورا مال دلواتے تھے۔

31733

(۳۱۷۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : أُتِیَ فِی بَنِی عَمٍّ أَحَدُہُمْ أَخٌ لأُمٍّ ، وَکَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَعْطَاہُ الْمَالَ کُلَّہُ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : یَرْحَمُ اللَّہُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، إِنْ کَانَ لَفَقِیہًا ، لَوْ کُنْت أَنَا لأَعْطیْتُہُ السُّدُسَ ، وَکَانَ شَرِیکَہُمْ۔
(٣١٧٣٤) حارث فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس ان چچا زاد بھائیوں کا مسئلہ لایا گیا جن میں سے ایک ماں شریک بھائی تھا، جبکہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس ماں شریک کو پورا مال دیا تھا، حضرت علی (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابو عبد الرحمن پر رحم فرمائے، وہ بلاشبہ فقیہ تھے ، اگر میں ہوتا تو اس کو چھٹا حصّہ دیتا ، اور پھر وہ مال میں دوسرے چچا زاد بھائیوں کا شریک ہوتا۔

31734

(۳۱۷۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ : أَنَّہُ کَانَ یَقْضِی فِی بَنِی عَمٍّ أَحَدُہُمْ أَخٌ لأُمٍّ بِقَضَائِ عَبْدِ اللہِ۔
(٣١٧٣٥) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت شریح ان چچا زاد بھائیوں کے بارے میں جن میں سے ایک ماں شریک بھائی ہو حضرت عبداللہ (رض) کے فیصلے کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔

31735

(۳۱۷۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ بَنِی عَمِّہَا ، أَحَدُہُمْ أَخُوہَا لأُمِّہَا ، قَالَ : فَقَضَی فِیہَا عُمَرُ وَعَلِیٌّ وَزَیْدٌ : أَنَّ لأَخِیہَا مِنْ أُمِّہَا السُّدُسَ ، وَہُوَ شَرِیکُہُمْ بَعْدُ فِی الْمَالِ ، وَقَضَی فِیہَا عَبْدُ اللہِ : أَنَّ الْمَالَ لَہُ دُونَ بَنِی عَمِّہِ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہِیَ فِی قَوْلِ عُمَرَ وَعَلِیٍّ وَزَیْدٍ : مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، وَہِیَ فِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ وَشُرَیْحٍ : مِنْ سَہْمٍ وَاحِدٍ وَہُوَ جَمِیعُ الْمَالِ۔
(٣١٧٣٦) ابراہیم فرماتے ہیں کہ جس عورت نے مرتے وقت چچا زاد بھائی چھوڑے جن میں سے ایک اس کا ماں شریک بھائی ہو، اس کے بارے میں حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت زید (رض) نے فیصلہ فرمایا کہ اس کے ماں شریک بھائی کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور پھر وہ مال میں دوسروں کے ساتھ شریک ہوگا، اور اس کے بارے میں حضرت عبداللہ (رض) نے فیصلہ فرمایا کہ مال اسی کو ہی ملے گا نہ کہ اس میت کے دوسرے چچا زاد بھائیوں کو۔
ابو بکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت عمر، حضرت علی، اور حضرت زید (رض) کے قول کے مطابق چھ حصّوں سے نکلے گا، اور حضرت عبداللہ اور شریح (رض) کے قول کے مطابق ایک حصّے سے نکلے گا، اور وہ پورا مال ہوگا۔

31736

(۳۱۷۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَوْسٍ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ عِقَالٍ ، قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ فِی ابْنَیْ عَمٍّ أَحَدُہُمَا زَوْجٌ، وَالآخَرُ أَخٌ لأُمٍّ ، فَقَالَ لِشُرَیْحٍ : قُلْ فِیہَا ، فَقَالَ شُرَیْحٌ : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأَخِ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : رَأْیٌ ؟ قَالَ : کَذَلِکَ رَأَیْت ، فَأَعْطَی عَلِیٌّ الزَّوْجَ النِّصْفَ ، وَالأَخ السُّدُسَ ، وَجَعَلَ مَا بَقِیَ بَیْنَہُمَا۔
(٣١٧٣٧) حکیم بن عقال فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس دو چچا زاد بھائیوں کے بارے میں مسئلہ لایا گیا جن میں سے ایک شوہر تھا اور دوسرا ماں شریک بھائی تھا، آپ نے حضرت شریح سے فرمایا کہ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت شریح نے فرمایا کہ شوہر کے لیے نصف ہے اور باقی بھائی کے لئے، حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : کیا آپ کی یہی رائے ہے ؟ انھوں نے فرمایا : میری رائے تو یہی ہے، چنانچہ حضرت علی (رض) نے شوہر کو نصف مال دے دیا اور بھائی کو چھٹا حصّہ دے دیا، اور باقی مال دونوں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔

31737

(۳۱۷۳۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ ثَلاَثَۃً بَنِی عَمٍّ أَحَدُہُمْ زَوْجُہَا ، وَالآخَرُ أَخُوہَا لأُمِّہَا ، فَقَالَ عَلِیٌّ وَزَیْدٌ : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ، وَلِلأَخِ مِنَ الأُمِّ السُّدُسُ ، وَمَا بَقِیَ فَہُوَ بَیْنَہُمْ سَوَائٌ ، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأَخِ مِنَ الأُمِّ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ مِنْ سِتَّۃِ : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ثَلاثَۃ ، وَلِلأَخِ لِلأُمِّ السُّدُسُ ، وَیَبْقَی سَہْمَانِ ، فَہُمَا بَیْنَہُمَا ، وَفِی قَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ مِنْ سَہْمَیْنِ : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأَخِ لِلأُمِّ۔
(٣١٧٣٨) ابراہیم سے روایت ہے کہ وہ عورت جس نے تین چچا زاد بھائیوں کو چھوڑا جن میں سے ایک اس کا شوہر تھا اور دوسرا اس کا ماں شریک بھائی تھا، اس کے بارے میں حضرت علی اور حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ نصف مال شوہر کے لیے اور چھٹا حصّہ ماں شریک بھائی کے لیے ہوگا، اور باقی ان کے درمیان برابر کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا، اور حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ نصف مال شوہر کے لیے ہے اور باقی مال ماں شریک بھائی کے لیے ہے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) اور زید (رض) کی رائے مطابق چھ کے عدد سے نکلے گا جن میں سے تین حصّے ( یعنی آدھا مال) شوہر کے لئے، اور ماں شریک بھائی کے لیے چھٹا حصّہ ہوگا، اور دو حصّے باقی بچیں گے جو ان دونوں کے درمیان تقسیم ہوں گے، اور حضرت ابن مسعود (رض) کے قول کے مطابق یہ مسئلہ دو حصّوں سے نکلے گا جن میں سے نصف شوہر کے لیے اور باقی ماں شریک بھائی کے لیے ہوگا۔

31738

(۳۱۷۳۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ أَخَوَیْہَا لأُمِّہَا ، أَحَدُہُمَا ابْنُ عَمِّہَا، فَقَالَ عَلِیٌّ وَزَیْدٌ: الثُّلُثُ بَیْنَہُمَا، وَمَا بَقِیَ فَلاِبْنِ عَمِّہَا، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: الْمَالُ بَیْنَہُمَا۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ مِنْ ثَلاَثَۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ مِنْ سَہْمَیْنِ۔
(٣١٧٣٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ عورت جس نے اپنے دو ماں شریک بھائی چھوڑے ہوں جن میں سے ایک اس کا چچا زاد بھائی ہو اس کے بارے میں حضرت علی اور حضرت زید (رض) نے فرمایا کہ ایک تہائی مال ان دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا اور باقی عورت کے چچا زاد بھائی کے لیے ہوگا، اور حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ مال ان کے درمیان برابری کے ساتھ تقسیم ہوگا۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) کے اقوال کے مطابق تین حصّوں سے نکلے گا اور حضرت ابن مسعود (رض) کے قول کے مطابق دو حصّوں سے نکلے گا۔

31739

(۳۱۷۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنْ أبْنَۃٍ وَابْنَیْ عَمٍّ أَحَدُہُمَا أَخٌ لأُمٍّ ؟ فَقَالَ : لِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَلاِبْنِ الْعَمِّ الَّذِی لَیْسَ بِأَخٍ لأُمٍّ ، وَلاَ یَرِث أَخٌ لأُمٍّ مَعَ وَلَدٍ ، قَالَ : فَسَأَلْت عَطَائً ، فَقَالَ : أَخْطَأَ سَعِیدٌ ، لِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ بَیْنَہُمَا نِصْفَیْنِ۔ قَالَ : أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ مِنْ سَہْمَیْنِ : لِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ وَلاِبْنِ الْعَمِّ الَّذِی لَیْسَ بِأَخٍ لأُمٍّ النِّصْفُ ، وَفِی قَوْلِ عَطَائٍ مِنْ أَرْبَعَۃٍ : سَہْمَانِ لِلاِبْنَۃِ ، وَسَہْمَانِ بَیْنَہُمَا۔
(٣١٧٤٠) اسماعیل بن عبد الملک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر (رض) سے ایک بیٹی اور دو چچا کے بیٹوں کے بارے میں پوچھا جن میں سے ایک ماں شریک بھائی تھا، انھوں نے فرمایا : بیٹی کے لیے نصف مال ہے اور باقی اس چچا زاد بھائی کے لیے ہے جو ماں شریک بھائی نہیں، اور ماں شریک بھائی اولاد کے ہوتے ہوئے وارث نہیں ہوتا، راوی فرماتے ہیں کہ پھر میں نے حضرت عطاء سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت سعید سے غلطی ہوئی، بیٹی کے لیے نصف مال ہے اور باقی ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہوگا،
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت سعید بن جبیر (رض) کے قول کے مطابق دو حصّوں سے نکلے گا، بیٹی کے لیے نصف ، اور اس چچا زاد بھائی کے لیے جو ماں شریک بھائی نہیں ہے نصف مال ہوگا، اور حضرت عطاء (رض) کے قول کے مطابق چار حصّوں سے نکلے گا۔ دو حصّے بیٹی کے لیے ہوں گے اور دو حصّے ان کے درمیان تقسیم ہوں گے۔

31740

(۳۱۷۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ أَعْمَامَہَا أَحَدُہُمْ أَخُوہَا لأُمِّہَا ، فَقَضَی فِیہَا عَلِیٌّ وَزَیْدٌ : أَنَّ لأَخِیہَا لأُمِّہَا السُّدُسَ ، ثُمَّ ہُوَ شَرِیکُہُمْ بَعْدُ فِی الْمَالِ ، وَقَضَی فِیہَا ابْنُ مَسْعُودٍ : أَنَّ الْمَالَ کُلَّہُ لَہُ ، وَہَذَا نَسَب یَکُونُ فِی الشِّرْکِ ، ثُمَّ یُسلمُ أَہْلَہُ بَعْدُ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ: فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ: مِنْ سَہْمٍ وَاحِدٍ لأَنَّہُ الْمَالُ کُلُّہُ۔
(٣١٧٤١) فضیل حضرت ابراہیم سے اس عورت کے بارے میں نقل کرتے ہیں جس نے اپنے چچاؤں کو چھوڑا جن میں سے ایک اس کا ماں شریک بھائی تھا، اس کے بارے میں حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کے ماں شریک بھائی کے لیے چھٹا حصّہ ہے، پھر وہ بعد میں ان چچاؤں کے ساتھ مال میں شریک ہوجائے گا، اور اس مسئلے میں حضرت ابن مسعود (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ تمام مال اسی کا ہے، اور یہ مسئلہ اس نسب کا ہے جو حالت شرک میں ہو پھر اس کے گھر والے بعد میں مسلمان ہوجائیں۔
امام ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) اور زید (رض) کے قول میں چھ سے نکلے گا اور حضرت عبداللہ کے قول میں ایک حصّے سے نکلے گا کیونکہ وہ سارا مال اسی کا ہے۔

31741

(۳۱۷۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ إخْوَتَہَا لأُمِّہَا رِجَالاً وَنِسَائً، وَہُمْ بَنُو عَمِّہَا فِی الْعَصَبَۃِ ، قَالَ : یَقْتَسِمُونَ الثُّلُثَ بَیْنَہُمْ : الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ فِیہِ سَوَائٌ ، وَالثُّلُثَانِ الْبَاقِیَانِ لِذُکُورِہِمْ خَالِصًا دُونَ النِّسَائِ فِی قَضَائِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلِّہِمْ۔ وَہَذِہِ فِی قَوْلِہِمْ جَمِیعًا مِنْ ثَلاَثَۃِ أَسْہُمٍ۔
(٣١٧٤٢) حضرت ابراہیم سے اس عورت کے بارے میں روایت ہے جو اپنے ماں شریک بھائی اور بہن چھوڑ کر مرے اور وہ عصبہ میں سے اس کے چچا زاد بھائی بھی ہوں فرمایا کہ وہ ایک تہائی مال آپس میں تقسیم کرلیں گے جس میں مردوں اور عورتوں کا حصہ برابر ہوگا اور باقی دو تہائی ان میں سے صرف مردوں کے لیے ہوگا نہ کہ عورتوں کے لیے یہ تمام صحابہ کرام کا فیصلہ ہے۔
اور یہ مسئلہ تمام حضرات کی رائے کے مطابق تین حصوں سے نکلے گا۔

31742

(۳۱۷۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ ابْنَتَیْہِ وَبَنِی ابْنِہِ رِجَالاً وَنِسَائً : فَلاِبْنَتَیْہِ الثُّلُثَانِ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلذُّکُورِ دُونَ الإِنَاثِ ، وَکَانَ عَبْدُ اللہِ لاَ یَزِیدُ الأَخَوَاتِ وَالْبَنَاتِ عَلَی الثُّلُثَیْنِ ، وَکَانَ عَلِیٌّ وَزَیْدٌ یُشَرِّکُونَ فِیمَا بَیْنَہُمْ ، فَمَا بَقِیَ {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ}۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ مِنْ ثَلاَثَۃِ أَسْہُمٍ فِی قَوْلِہِمْ جَمِیعًا۔
(٣١٧٤٣) حضرت فضیل حضرت ابراہیم نخعی (رض) سے روایت کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں جو اپنی دو بیٹیاں اور پوتے، پوتیاں چھوڑ کر مرے کہ اس کی دونوں بیٹیوں کے لیے دو تہائی مال ہے اور باقی مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بہنوں اور بیٹیوں کا حصہ دو تہائی سے زیادہ نہیں لگایا کرتے تھے اور حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) آپس میں شریک بنایا کرتے تھے اور باقی مال اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ایک مرد کے لیے دو عورتوں کے حصّے کے برابر حصّہ لگایا جائے گا۔
امام ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ تمام حضرات کے قول میں تین حصّوں سے نکلے گا۔

31743

(۳۱۷۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ الْفَضْلِ ، قَالَ : سَمِعْتُ وَہْبًا یُحَدِّثُ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : شَہِدْت عُمَرَ أَشْرَکَ الإِخْوَۃَ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ مَعَ الإِخْوَۃِ مِنَ الأُمِّ فِی الثُّلُثِ ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : قَدْ قَضَیْت فِی ہَذَہ عَامَ الأَوَّلِ بِغَیْرِ ہَذَا ، قَالَ : وَکَیْفَ قَضَیْت ؟ قَالَ : جَعَلْتہ لِلإِخْوَۃِ لِلأُمِّ وَلَمْ تَجْعَلْ لِلإِخْوَۃِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ شَیْئًا ، فَقَالَ : ذَلِکَ عَلَی مَا قَضَیْنَا ، وَہَذَا عَلَی مَا نَقْضِی۔ (عبدالرزاق ۱۹۰۰۵)
(٣١٧٤٤) حکم بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے حقیقی بھائیوں کو ماں شریک بھائیوں کے ساتھ ایک تہائی مال میں برابر شریک کیا، ان سے ایک آدمی نے کہا کہ آپ نے اس جیسے ایک مسئلے میں گزشتہ سال کچھ اور فیصلہ دیا تھا، آپ نے پوچھا کہ میں نے کیا فیصلہ کیا تھا ؟ اس نے کہا کہ آپ نے مال ماں شریک بھائیوں کو دے دیا تھا اور حقیقی بھائیوں کو کچھ نہیں دیا تھا ، آپ نے فرمایا کہ وہ فیصلہ بھی اسی طرح درست تھا جس طرح ہم نے کیا تھا، اور یہ فیصلہ بھی اسی طرح درست ہے جس طرح ہم کر رہے ہیں۔

31744

(۳۱۷۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : أَنَّ عُمَرَ وَزَیْدًا وَابْنَ مَسْعُودٍ کَانُوا یُشَرِّکُونَ فِی زَوْجٍ وَأُمٍّ وَإِخْوَۃٍ لأُمٍّ وَأَبٍ وَأَخَوَاتٍ لأُمٍّ ، یُشَرِّکُونَ بَیْنَ الإِخْوَۃِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ مَعَ الإِخْوَۃِ لِلأُمِّ فِی سَہْمٍ ، وَکَانُوا یَقُولُونَ : لَمْ یَزِدْہُمَ الأَبُ إلاَّ قُرْبًا ، وَیَجْعَلُونَ ذُکُورَہُمْ وَإِنَاثَہُمْ فِیہِ سَوَائً۔
(٣١٧٤٥) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر، زید اور ابن مسعود (رض) شوہر، ماں، حقیقی بھائیوں اور ماں شریک بہنوں کو مال میں برابر شریک کیا کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ ان کو باپ نے صرف قرابت داری کا ہی فائدہ پہنچایا ہے ، اور وہ مردوں اور عورتوں کو برابر حصّہ دیا کرتے تھے۔

31745

(۳۱۷۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ زَوْجَہَا وَأُمَّہَا وَإِخْوَتَہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا وَإِخْوَتَہَا لأُمِّہَا : فَلِزَوْجِہَا النِّصْفُ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلأُمِّہَا السُّدُسُ سَہْمٌ ، وَلاِِخْوَتِہَا لأُمِّہَا الثُّلُثُ سَہْمَانِ ، وَلَمْ یَجْعَلْ لاِِخْوَتِہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا مِنَ الْمِیرَاثِ شَیْئًا فِی قَضَائِ عَلِی ، وَشَرَّک بَیْنَہُمْ عُمَرُ وَعَبْدُ اللہِ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ : بَیْنَ الإِخْوَۃِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ مَعَ بَنِی الأُمِّ فِی الثُّلُثِ الَّذِی وَرِثُوا ، غَیْرَ أَنَّہُمْ شَرَّکُوا ذُکُورَہُمْ وَإِنَاثَہُمْ فِیہِ سَوَائٌ۔
(٣١٧٤٦) حضرت ابراہیم نے اس عورت کے بارے میں فرمایا جس نے موت کے وقت اپنے شوہر، ماں، حقیقی بھائی اور ماں شریک بھائی چھوڑے کہ اس کے شوہر کے تین حصّے یعنی کل مال کا نصف ہوگا اور اس کی ماں کے لیے ایک حصّہ یعنی کل مال کا چھٹا حصّہ ہوگا، اور اس کے ماں شریک بھائیوں کے لیے دو حصّے یعنی ایک تہائی مال ہوگا، اور آپ نے اس عورت کے باپ اور ماں کو میراث کا کوئی حصّہ نہیں دلایا حضرت علی (رض) کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے جبکہ حضرت عمر اور عبداللہ اور زید بن ثابت (رض) نے حقیقی بھائیوں کو ماں شریک بھائیوں کا شریک بنایا اس ایک تہائی مال میں جس کے وہ وارث ہوئے، سوائے اس بات کے کہ ان حضرات نے ان میں سے مردوں اور عورتوں کو برابر حصّہ دلایا۔

31746

(۳۱۷۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ : أَنَّ عُثْمَانَ شَرَّک بَیْنَہُمْ۔
(٣١٧٤٧) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے بھی ان ورثاء کو برابر کا شریک بنایا تھا۔

31747

(۳۱۷۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ ابْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ شُرَیْحٍ وَمَسْرُوقٍ : أَنَّہُمَا شَرَّکَا الإِخْوَۃَ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ مَعَ الإِخْوَۃِ مِنَ الأُمِّ۔
(٣١٧٤٨) ابن المنتشر فرماتے ہیں کہ حضرت شریح اور مسروق نے بھی حقیقی بھائیوں کو ماں شریک بھائیوں کا شریک بنایا۔

31748

(۳۱۷۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، بِمِثْلِہِ ، قَالَ : مَا زَادَہُمَ الأَبُ إلاَّ قُرْبًا۔
(٣١٧٤٩) عمرو بن شعیب سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے بھی اس مسئلے میں ایسا ہی فیصلہ کیا ، اور فرمایا کہ باپ نے صرف ان میں قرابت کا ہی اضافہ کیا ہے۔

31749

(۳۱۷۵۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّہُ قَالَ : لأُمِّہَا السُّدُسُ ، وَلِزَوْجِہَا الشَّطْرُ ، وَالثُّلُثُ بَیْنَ الإِخْوَۃِ مِنَ الأُمِّ وَالإِخْوَۃِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ۔
(٣١٧٥٠) ابن طاؤس روایت کرتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے فرمایا کہ اس میت کی ماں کو چھٹا حصّہ اور اس کے شوہر کو نصف مال دیا جائے گا۔ اور ایک تہائی ماں شریک بھائیوں اور حقیقی بھائیوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔

31750

(۳۱۷۵۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ ، قَالَ : مَاتَتِ ابْنَۃٌ لِلْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ وَتَرَکَتْ زَوْجَہَا وَأُمَّہَا وَإِخْوَتَہَا لأُمِّہَا وَإِخْوَتَہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا ، فَارْتَفَعُوا إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، فَأَعْطَی الزَّوْجَ النِّصْفَ ، وَالأُمَّ السُّدُسَ ، وَأَشْرَکَ بَیْنَ الإِخْوَۃِ مِنَ الأُمِّ وَالإِخْوَۃِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ ، وَقَالَ لِلزَّوْجِ : أَمْسِکْ عَنْ أَتْرَابِکَ ، أَیَلْحَقُ بِہِمْ سَہْمٌ آخَرُ ، حَتَّی یُنْظر حُبْلَی ہِیَ أَمْ لاَ ؟۔
(٣١٧٥١) عبداللہ بن محمد بن عقیل فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن حسن کی ایک بیٹی فوت ہوگئی اور اس نے شوہر، ماں، ماں شریک بھائی اور حقیقی بھائی چھوڑے، انھوں نے معاملہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) تک پہنچایا تو انھوں نے شوہر کو نصف مال اور ماں کو چھٹا حصّہ دیا، اور ماں شریک بھائیوں اور حقیقی بھائیوں کو برابر کا شریک بنایا، اور شوہر سے فرمایا کہ اپنے ہم عمروں سے رکے رہو کہ آیا ان کو ایک اور حصّہ ملتا ہے ؟ یہاں تک کہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں ؟

31751

(۳۱۷۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ وَعُمَرُ یُشَرِّکَانِ ، قَالَ : وَکَانَ عَلِیٌّ لاَ یُشَرِّکُ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَہَذِہِ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُمِّ السُّدُسُ ، وَلِلإِخْوَۃِ مِنَ الأُمِّ الثُّلُثُ وَہُوَ سَہْمَانِ۔
(٣١٧٥٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ اور عمر (رض) ان کو برابر کا شریک رکھا کرتے تھے، فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) ان کو برابر شریک نہیں بناتے تھے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ چھے حصّوں سے نکلے گا شوہر کے لیے تین حصّے یعنی آدھا مال اور ماں کے لیے چھٹا حصّہ اور ماں شریک بھائیوں کے لیے ایک تہائی مال جو کہ دو حصّے ہیں۔

31752

(۳۱۷۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یُشَرِّکُ۔
(٣١٧٥٣) عبداللہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) ان کو برابر شریک نہیں رکھا کرتے تھے۔

31753

(۳۱۷۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یُشَرِّکُ۔
(٣١٧٥٤) حضرت حارث، حضرت علی (رض) سے یہی بات نقل کرتے ہیں۔

31754

(۳۱۷۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ لاَ یُشَرِّکُ۔
(٣١٧٥٥) حضرت ابراہیم نے بھی حضرت علی (رض) سے یہی روایت کی ہے۔

31755

(۳۱۷۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ ، عَنْ ہُزَیْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یُشَرِّکُ ، وَیَقُولُ : تَنَاہَت السِّہَامُ۔
(٣١٧٥٦) حضرت ھزیل سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) ان بھائیوں کو شریک نہیں رکھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حصّے ختم ہوگئے۔

31756

(۳۱۷۵۷) حَدَّثَنَا مَعْشَرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یُشَرِّکُ بَیْنَہُمْ۔
(٣١٧٥٧) حضرت ابو مجلزحضرت علی (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ وہ بھی ان بھائیوں کو شریک نہیں بنایا کرتے تھے۔

31757

(۳۱۷۵۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یُشَرِّکُ۔
(٣١٧٥٨) حضرت شعبی بھی حضرت زید بن ثابت (رض) سے یہی مضمون نقل کرتے ہیں۔

31758

(۳۱۷۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ دَاوُد ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ : أَنَّ عَلِیًّا وَأَبَا مُوسَی وَأُبَیًّا کَانُوا لاَ یُشَرِّکُونَ ، قَالَ وَکِیعٌ : وَلَیْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلاَّ اخْتَلَفُوا عَنْہُ فِی الشَّرِکَۃِ ، إلاَّ عَلِیٌّ فَإِنَّہُ کَانَ لاَ یُشَرِّکُ۔
(٣١٧٥٩) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابی (رض) بھی ان بھائیوں کو شریک نہیں بنایا کرتے تھے۔ حضرت وکیع فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے ان سے اختلاف کیا ہے شریک کرنے کے بارے میں سوائے حضرت علی (رض) کے کہ وہ شریک نہیں بناتے تھے۔

31759

(۳۱۷۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عُمَرَ : أَنَّہُ قَسَمَ الْمَالَ بَیْنَ عَمَّۃٍ وَخَالَۃٍ۔
(٣١٧٦٠) حضرت زر حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے مال پھوپھی اور خالہ کے درمیان تقسیم فرمایا ۔

31760

(۳۱۷۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ زِیَادٍ ، قَالَ : إنِّی لأَعْلَمُ مَا صَنَعَ عُمَرُ ، جَعَلَ الْعَمَّۃَ بِمَنْزِلَۃِ الأَبِ ، وَالْخَالَۃَ بِمَنْزِلَۃِ الأُمِّ۔
(٣١٧٦١) زیاد فرماتے ہیں کہ بیشک میں جانتا ہوں کہ حضرت عمر (رض) نے اس بارے میں کیا عمل فرمایا، انھوں نے پھوپھی کو باپ کے قائم مقام قرا ر دیا اور خالہ کو ماں کے برابر قرار دیا۔

31761

(۳۱۷۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لِلْعَمَّۃِ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْخَالَۃِ الثُّلُثُ۔
(٣١٧٦٢) حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا پھوپھی کے لیے دو تہائی مال ہے اور خالہ کے لیے ایک تہائی مال ہے۔

31762

(۳۱۷۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ الْعَبْسِیِّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الْعَمَّۃِ وَالْخَالَۃِ بِقَوْلِ عُمَرَ : لِلْعَمَّۃِ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْخَالَۃِ الثُّلُثُ۔
(٣١٧٦٣) حضرت سلیمان عبسی ایک آدمی کے واسطے سے حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ پھوپھی اور خالہ کے بارے میں حضرت عمر (رض) کے موافق ارشاد فرماتے تھے کہ پھوپھی کے لیے دو تہائی مال اور خالہ کے لیے ایک تہائی مال ہے۔

31763

(۳۱۷۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، أَنَّہُ کَانَ یُنَزِّلُ الْعَمَّۃَ بِمَنْزِلَۃِ الأَبِ ، وَالْخَالَۃَ بِمَنْزِلَۃِ الأُمِّ۔
(٣١٧٦٤) شعبی حضرت مسروق سے روایت کرتے ہیں کہ وہ پھوپھی کو باپ کے قائم مقام ٹھہراتے تھے اور خالہ کو ماں کے قائم مقام۔

31764

(۳۱۷۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ وَعَبْدُ اللہِ یُوَرِّثَانِ الْخَالَۃَ وَالْعَمَّۃَ إذَا لَمْ یَکُنْ غَیْرُہُمَا۔ قَالَ إبْرَاہِیمُ : کَانُوا یَجْعَلُونَ الْعَمَّۃَ بِمَنْزِلَۃِ الأَبِ ، وَالْخَالَۃَ بِمَنْزِلَۃِ الأُمِّ۔
(٣١٧٦٥) اعمش حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) خالہ اور پھوپھی کو وارث ٹھہراتے تھے جب ان کے علاوہ کوئی اور وارث نہ ہو، حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ حضرات پھوپھی کو باپ کے قائم مقام اور خالہ کو ماں کے قائم مقام رکھتے تھے۔

31765

(۳۱۷۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ بَشِیرٍ الْہَمْدَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الْخَالَۃِ وَالْعَمَّۃِ : لِلْعَمَّۃِ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْخَالَۃِ الثُّلُثُ۔
(٣١٧٦٦) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) خالہ اور پھوپھی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ پھوپھی کے لیے دو تہائی مال اور خالہ کے لیے ایک تہائی مال ہے۔

31766

(۳۱۷۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ وَمُغِیرَۃ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانُوا یُوَرَّثُونَ بِقَدْرِ أَرْحَامِہِمْ۔
(٣١٧٦٧) حضرت منصور اور مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ صحابہ کرام ان کی رشتہ داریوں کے مطابق ان کو وارث ٹھہرایا کرتے تھے۔

31767

(۳۱۷۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّ عُمَرَ وَرَّثَ الْخَالَۃَ وَالْعَمَّۃَ ، فَوَرَّثَ الْعَمَّۃَ الثُّلُثَیْنِ ، وَالْخَالَۃَ الثُّلُثَ۔
(٣١٧٦٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے خالہ اور پھوپھی کو وارث بنایا اور پھوپھی کو دو تہائی مال دلایا اور خالہ کو ایک تہائی مال۔

31768

(۳۱۷۶۹) حَدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ عَمْرو ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : لِلْعَمَّۃِ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْخَالَۃِ الثُّلُثُ۔
(٣١٧٦٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ پھوپھی کے لیے دو تہائی مال اور خالہ کے لیے ایک تہائی مال ہے۔

31769

(۳۱۷۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، قَالَ : دُعِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی جِنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ ، فَجَائَ عَلَی حِمَارٍ ، فَقَالَ : مَا تَرَکَ ؟ قَالُوا : تَرَکَ عَمَّۃً وَخَالَۃً ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : رَجُلٌ مَاتَ وَتَرَکَ عَمَّۃً وَخَالَۃً ، ثُمَّ سَارَ ، ثُمَّ قَالَ : رَجُلٌ مَاتَ وَتَرَکَ عَمَّۃً وَخَالَۃً ، ثُمَّ قَالَ : لَمْ أَجِدْ لَہُمَا شَیْئًا۔ (ابوداؤد ۳۶۱۔ سعید بن منصور ۱۶۳)
(٣١٧٧٠) حضرت زید بن اسلم (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک انصاری کے جنازے میں بلایا گیا پس آپ (رض) ایک گدھے پر سوار ہو کر تشریف لائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس نے کون کون سے رشتہ دار چھوڑے لوگوں نے کہا کہ اس نے ایک پھوپھی اور ایک خالہ چھوڑی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ آدمی ہے جو مرا اور مرتے ہوئے ایک پھوپھی اور ایک خالہ چھوڑ گیا پھر تھوڑا چلے اور پھر فرمایا کہ یہ آدمی ہے جس نے مرتے ہوئے پھوپھی اور خالہ کو چھوڑا ہے پھر فرمایا کہ میں ان کے لیے کوئی حصّہ نہیں پاتا۔

31770

(۳۱۷۷۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : عَجَبًا لِلْعَمَّۃِ تُورثُ، وَلاَ تَرِثُ۔
(٣١٧٧١) محمد بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ پھوپھی کا عجیب حال ہے کہ دوسرے رشتہ دار تو اس کے وارث بنتے ہیں مگر وہ کسی کی وارث نہیں بنتی۔

31771

(۳۱۷۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ شَرِیکِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی نَمِرٍ ، قَالَ : سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ مِیرَاثِ الْعَمَّۃِ وَالْخَالَۃِ وَہُوَ رَاکِبٌ ، فَسَکَتَ ، ثُمَّ سَارَ ہُنَیْہَۃً ، ثُمَّ قَالَ : حَدَّثَنِی جِبْرِیلُ أَنَّہُ لاَ مِیرَاثَ لَہُمَا۔
(٣١٧٧٢) شریک بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھوپھی اور خالہ کی میراث کے بارے میں سوال کیا گیا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے پھر تھوڑا چلے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھ سے جبرائیل (علیہ السلام) نے بیان کیا ہے کہ ان کا وراثت میں کوئی حق نہیں۔

31772

(۳۱۷۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ: أَنَّہُ کَانَ یَرَی الْمِیرَاثَ لِلْمَوَالِی دُونَ الْعَمَّۃِ وَالْخَالَۃِ۔
(٣١٧٧٣) اشعث فرماتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) آقاؤں کے لیے میراث کے تو قائل تھے لیکن پھوپھی اور خالہ کے لیے میراث کے قائل نہیں تھے۔

31773

(۳۱۷۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَیَّاش بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ الزُّرَقِیِّ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ حَکِیمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَیْفٍ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ : أَنَّ رَجُلاً رَمَی رَجُلاً بِسَہْمٍ فَقَتَلَہُ وَلَیْسَ لَہُ وَارِثٌ إلاَّ خَالٌ ، فَکَتَبَ فِی ذَلِکَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ إلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ مَوْلَی مَنْ لاَ مَوْلَی لَہُ ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لاَ وَارِثَ لَہُ۔ (ترمذی ۲۱۰۳۔ ابن ماجہ ۲۷۳۷)
(٣١٧٧٤) حضرت ابو امامہ بن سھل بن حنیف (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک آدمی کو تیر مارا جس سے وہ آدمی مرگیا جبکہ اس کا ایک ماموں کے علاوہ کوئی وارث نہیں تھا تو اس کے بارے میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) نے حضرت عمر (رض) کی طرف خط لکھا، حضرت عمر (رض) نے جواب میں لکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول اس آدمی کے ولی ہیں جس کا کوئی ولی نہ ہو اور ماموں اس آدمی کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔

31774

(۳۱۷۷۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: وَرَّثَ عُمَرُ الْخَالَ الْمَالَ کُلَّہُ، قَالَ: کَانَ خَالاً وَمَوْلًی۔
(٣١٧٧٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ماموں کو تمام مال کا وارث قرار دیا آپ (رض) نے فرمایا کہ یہ ماموں ماموں بھی تھا اور ولی بھی تھا۔

31775

(۳۱۷۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَطِیَّۃَ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ: أَنَّ عُمَرَ وَرَّثَ خَالاً وَمَوْلًی مِنْ مَوْلاَہُ۔
(٣١٧٧٦) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ماموں کو اس آدمی کا ماموں اور مولا قرار دیا جس کا وہ ولی ہو۔

31776

(۳۱۷۷۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بُدَیْلُ بْنُ مَیْسَرَۃَ الْعُقَیْلِیُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِی عَامِرٍ الْہَوْزَنِیُّ ، عَنِ الْمِقْدَامِ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْخَالُ وَارِثُ مَنْ لاَ وَارِثَ لَہُ۔ (ابوداؤد ۲۸۹۱۔ ابن حبان ۶۰۳۵)
(٣١٧٧٧) حضرت مقدام (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ماموں اس آدمی کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔

31777

(۳۱۷۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : سُئِلَ مَسْرُوقٌ عَنْ رَجُلٍ مَاتَ وَلَیْسَ لَہُ وَارِثٌ إلاَّ خَالُہُ وَابْنَۃُ أَخِیہ ؟ قَالَ : لِلْخَالِ نَصِیبُ أُخْتِہِ ، وَلاِبْنَۃِ الأَخِ نَصِیبُ أَبِیہَا۔
(٣١٧٧٨) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضرت مسروق سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جو اس حال میں مرا کہ اس کا سوائے ماموں اور بھتیجی کے کوئی وارث نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا ماموں کے لیے اس کی بہن جتنا مال اور بھتیجی کے لیے اس کے باپ جتنا۔

31778

(۳۱۷۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، قَالَ : ہَلَکَ ابْنُ دَحْدَاحَۃَ وَکَانَ ذَا رَأْیٍ فِیہِمْ ، فَدَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَاصِمَ بْنَ عَدِیٍّ ، فَقَالَ : ہَلْ کَانَ لَہُ فِیکُمْ نَسَبٌ ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : فَأَعْطَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِیرَاثَہُ ابْنَ أُخْتِہِ أَبَا لُبَابَۃَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ۔ (عبدالرزاق ۱۹۱۲۰)
(٣١٧٧٩) حضرت واسع بن حبّان فرماتے ہیں کہ حضرت ابن دحداحہ (رض) فوت ہوگئے جو کہ صحابہ کرام میں صاحب رائے آدمی تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عاصم بن عدی (رض) کو بلایا اور پوچھا کہ کیا ان کی تمہارے ساتھ کوئی قرابت داری تھی ؟ انھوں نے عرض کیا کہ نہیں راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی میراث ان کے بھانجے ابو لبابہ بن عبد المنذر (رض) کو دے دی۔

31779

(۳۱۷۸۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ وُہَیْبٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوس ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَہْلِہَا فَمَا بَقِیَ فَہُوَ لأَوْلَی رَجُلٍ۔ (بخاری ۶۷۳۲۔ مسلم ۱۲۳۳)
(٣١٧٨٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وراثتیں ان کے حق داروں کو پہنچا دو اور جو مال بچ جائے ، وہ قریب ترین رشتہ دار کے لیے ہے۔

31780

(۳۱۷۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ ، قَالَ : کَانَ ثَابِتُ ابْنُ الدَّحْدَاحَ رَجُلاً أَتِیًّا - یَعْنِی : طَارِئًا - وَکَانَ فِی بَنِی أُنَیفٍ ، أَوْ فِی بَنِی الْعَجْلاَنِ ، فَمَاتَ وَلَمْ یَدَعْ وَارِثًا إلاَّ ابْنَ أُخْتِہِ أَبَا لُبَابَۃَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ ، فَأَعْطَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِیرَاثَہُ۔ (عبدالرزا ق۱۹۱۲۰)
(٣١٧٨١) حضرت واسع ابن حبّان فرماتے ہیں کہ ثابت ابن دحداح (رض) ایک اجنبی آدمی تھے وہ بنو انیف یا بنو عجلان کے علاقے میں رہتے تھے چنانچہ وہ فوت ہوگئے اور اپنے بھانجے کے علاوہ کوئی وارث نہیں چھوڑا اور ان کا نام لبابہ بن عبد المنذر تھا پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی میراث انہی کو دے دی۔

31781

(۳۱۷۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : تَدْرِی مَا ابْنَۃُ حَمْزَۃَ مِنِّی ہِیَ أُخْتِی لأُمِّی ، أَعْتَقَتْ رَجُلاً فَمَاتَ فَقُسِمَ مِیرَاثُہُ بَیْنَ ابْنَتِہِ وَبَیْنَہَا ، قَالَ : عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (سعید بن منصور ۱۷۳)
(٣١٧٨٢) حضرت عبید بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن شداد (رض) نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کا مجھ سے کیا رشتہ ہے ؟ وہ میری ماں شریک بہن ہے، انھوں نے ایک آدمی آزاد کیا چنانچہ وہ مرگیا اس کی وراثت ان کے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم ہوگئی۔ اور یہ کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہوا۔

31782

(۳۱۷۸۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ ابْنَۃِ حَمْزَۃَ - قَالَ مُحَمَّدٌ : وَہِیَ أُخْتُ ابْنِ شَدَّادٍ لأُمِّہِ - قَالَتْ : مَاتَ مَوْلًی لِی وَتَرَکَ ابْنَتَہُ ، فَقَسَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالَہُ بَیْنِی وَبَیْنَ ابْنَتِہِ ، فَجَعَلَ لِی النِّصْفَ وَلَہَا النِّصْفَ۔
(٣١٧٨٣) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ حضرت حمزہ کی بیٹی ( جو حضرت عبداللہ بن شداد کی ماں شریک بہن تھیں) نے فرمایا کہ میرا آزاد کردہ غلام فوت ہوگیا اور اپنی ایک بیٹی چھوڑ گیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم فرمایا آدھا مال مجھے اور آدھا اسے عطا فرمایا۔

31783

(۳۱۷۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أعْطَی ابْنَۃَ حَمْزَۃَ النِّصْفَ وَابْنَتَہُ النِّصْفَ۔
(٣١٧٨٤) حضرت عبداللہ بن شداد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کو آدھا مال اور ان کے غلام کی بیٹی کو آدھا مال عطا فرمایا۔

31784

(۳۱۷۸۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ الحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ : أَنَّ رَجُلاً مَاتَ وَتَرَکَ ابْنَتَہُ وَمَوَالِیَہُ الَّذِینَ أَعْتَقُوہُ فَأَعْطَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْنَتَہُ النِّصْفَ وَمَوَالِیَہُ النِّصْفَ۔ (ابوداؤد ۳۶۳۔ بیہقی ۲۴۱)
(٣١٧٨٥) حضرت ابو بردہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا اور اس نے ایک بیٹی اور کچھ آقا چھوڑے جنہوں نے اس کو آزاد کردیا تھا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بیٹی کو اور اس کے آقاؤں کو آدھا آدھا مال عطا فرمایا۔

31785

(۳۱۷۸۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ شَمُوسٍ الْکِنْدِیَّۃِ ، قَالَتْ : قاضَیْت إلَی عَلِیٍّ فِی أَبِی : مَاتَ وَلَمْ یَتْرُکْ غَیْرِی وَمَوْلاَہُ ، فَأَعْطَانِی النِّصْفَ وَمَوْلاَہُ النِّصْفَ۔
(٣١٧٨٦) حضرت شموس کندیہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے باپ کے بارے میں حضرت علی (رض) سے فیصلہ لیا ۔ جبکہ میرے والد صاحب فوت ہوئے تھے اور سوائے میرے اور اپنے آقا کے کسی کو نہیں چھوڑا تو انھوں نے آدھا مال مجھے عطا فرمایا اور آدھا مال ان کے آقا کو۔

31786

(۳۱۷۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ شَمُوسٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، بِمِثْلِہِ۔
(٣١٧٨٧) ایک دوسری سند سے بھی حضرت علی (رض) سے یہی واقعہ منقول ہے۔

31787

(۳۱۷۸۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ أَبِی الْکَنُودِ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ قَضَی فِی ابْنَۃٍ وَمَوْلًی ، أَعْطَی الْبِنْتَ النِّصْفَ ، وَالْمَوْلَی النِّصْفَ۔
(٣١٧٨٨) ابو الکنود روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ایک بیٹی اور ایک آقا کے وارث ہونے کی صورت میں یہ فیصلہ فرمایا کہ آدھا مال بیٹی کو اور آدھا مال آقا کو دے دیا جائے۔

31788

(۳۱۷۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : أَنَّ مَوْلًی لاِبْنَۃِ حَمْزَۃَ مَاتَ وَتَرَکَ ابْنَتَہُ وَابْنَۃَ حَمْزَۃَ ، فَأَعْطَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْنَۃَ حَمْزَۃَ النِّصْفَ ، وَابْنَتَہُ النِّصْفَ۔
(٣١٧٨٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کا آزاد کردہ غلام فوت ہوگیا اور اس نے اپنی بیٹی اور حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کو اپنے پیچھے چھوڑا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدھا مال حضرت حمزہ کی بیٹی کو اور آدھا مال میت کی بیٹی کو دے دیا۔

31789

(۳۱۷۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، قَالَ : خَاصَمْت إلَی شُرَیْحٍ فِی مَوْلًی لَنَا مَاتَ وَتَرَکَ ابْنَتَیْہِ وَمَوَالِیَہُ ، فَأَعْطَی شُرَیْحٌ ابْنَتَیْہِ الثُّلُثَیْنِ ، وَأَعْطَی مَوْلاَہُ الثُّلُثَ۔
(٣١٧٩٠) ابو حصین سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شریح (رض) سے اس مسئلے میں فیصلہ طلب کیا کہ ہمارا ایک آزاد کردہ غلام فوت ہوگیا اور اپنی دو بیٹیاں اور چندآقاؤں کو چھوڑ گیا، حضرت شریح نے اس کی دو بیٹیوں کو دو تہائی مال عطا فرمایا اور اس کے مولا کو ایک تہائی مال عطا فرمایا۔

31790

(۳۱۷۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : ذُکِرَ عِنْدَہُ حَدِیثُ ابْنَۃِ حَمْزَۃَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَاہَا النِّصْفَ ، فَقَالَ : إنَّمَا أَطْعَمَہَا إیَّاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طُعْمَۃً۔
(٣١٧٩١) اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کے سامنے حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کی حدیث ذکر کی گئی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نصف مال عطا فرمایا آپ نے فرمایا کہ ان کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور عطیے کے مال عطا فرمایا ہے۔

31791

(۳۱۷۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ : أَنَّ مَوْلًی لاِبْنَۃِ حَمْزَۃَ مَاتَ وَتَرَکَ ابْنَتَہُ وَابْنَۃَ حَمْزَۃَ ، فَأَعْطَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْنَتَہُ النِّصْفَ ، وَابْنَۃَ حَمْزَۃَ النِّصْفَ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَہَذِہِ مِنْ سَہْمَیْنِ : لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِلْمَوْلَی النِّصْفُ۔ (طحاوی ۴۰۱۔ بیہقی ۲۴۱)
(٣١٧٩٢) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کا آزاد کردہ غلام فوت ہوگیا اور اپنی بیٹی اور حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی چھوڑ گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدھا مال اس کی بیٹی کو اور آدھا مال حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کو عطا فرمایا۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ دو حصوں سے نکلے گا آدھا مال بیٹی کے لیے اور آدھا مال آقا کے لئے۔

31792

(۳۱۷۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ۔ وَعَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَقُولُ فِی الْمَمْلُوکِینَ وَأَہْلِ الْکِتَابِ : لاَ یَحْجُبُونَ ، وَلاَ یَرِثُونَ۔
(٣١٧٩٣) حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) غلاموں اور اہل کتاب کے بارے میں فیصلہ کرتے تھے کہ نہ وہ کسی کو وراثت سے روکتے ہیں اور نہ کسی مسلمان کے وارث ہوتے ہیں۔

31793

(۳۱۷۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : لاَ یَحْجُبُونَ وَلاَ یَرِثُونَ۔
(٣١٧٩٤) حضرت ابراہیم حضرت زید بن ثابت (رض) سے یہی بات نقل فرماتے ہیں۔

31794

(۳۱۷۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ ، قَالَ عُمَرُ : لاَ یَحْجُبُ مَنْ لاَ یَرِثُ۔
(٣١٧٩٥) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جو آدمی خود وارث نہیں بن سکتا وہ کسی کو وراثت سے روک بھی نہیں سکتا۔

31795

(۳۱۷۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : الْمَمْلُوکُونَ لاَ یَرِثُونَ ، وَلاَ یَحْجُبُونَ۔
(٣١٧٩٦) ابو صادق سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ غلام کسی کے وارث ہوتے ہیں نہ ہی کسی کو وراثت سے روکتے ہیں۔

31796

(۳۱۷۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی صَادِقٍ : أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ عَلِیًّا عَنِ امْرَأَۃٍ مَاتَتْ وَتَرَکَتْ أُخْتُہَا وَأُمُّہَا مَمْلُوکَۃٌ ؟ فَقَالَ عَلِیٌّ : ہَلْ یُحِیطُ السُّدُسُ بِرَقَبَتِہَا ؟ فَقَالَ : لاَ ، فَقَالَ : دَعْنَا مِنْہَا سَائِرَ الْیَوْمِ۔
(٣١٧٩٧) ابو صادق سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی (رض) سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا جس کی بہن فوت ہوگئی اس حال میں کہ اس کی ماں غلام ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ کیا اس کے مال کا چھٹا حصہ اس کی ماں کو آزاد کرانے کے لیے کافی ہوسکتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا کہ مجھے آج کا دن اس میں غور کرنے کی مہلت دو ۔

31797

(۳۱۷۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، أَنَّہُ أَعْطَی مِیرَاثَ رَجُلٍ - أَخُوہُ مَمْلُوکُ - بَنِی أَخِیہِ الأَحْرَارَ۔
(٣١٧٩٨) حضرت ابو عمرو شیبانی فرماتے ہیں کہ حضرت شریح نے ایک آدمی کی میراث ( جس کا بھائی غلام تھا) اس کے آزاد بھتیجوں کو بھی دلا دی تھی۔

31798

(۳۱۷۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : یَرِثُہُ بَنُو أَخِیہِ الأَحْرَارُ۔
(٣١٧٩٩) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عامر نے فرمایا کہ ایسے آدمی کے وارث اس کے آزاد بھتیجے ہوں گے۔

31799

(۳۱۸۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ : فِی رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَکَ أُمَّہُ مَمْلُوکَۃً ، وَجَدَّتَہُ حُرَّۃً ، قَالَ : الْمَالُ لِلْجَدَّۃِ۔
(٣١٨٠٠) ہشام روایت کرتے ہیں ان کے والد نے اس آدمی کے بارے میں کہ جس نے مرتے ہوئے اپنی ماں کو غلامی کی حالت میں اور اپنی دادی کو آزادی کی حالت میں چھوڑا تھا کہ اس آدمی کا مال دادی کے لیے ہوگا۔

31800

(۳۱۸۰۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلِیٍّ وَزَیْدٍ : فِی الْمَمْلُوکِینَ وَالْمُشْرِکِینَ ، قَالاَ : لاَ یَحْجُبُونَ ، وَلاَ یَرِثُونَ۔
(٣١٨٠١) حضرت ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) نے غلاموں اور مشرکین کے بارے میں فرمایا کہ نہ وہ کسی کو وراثت سے روکتے ہیں اور نہ خود کسی کے وارث ہوتے ہیں۔

31801

(۳۱۸۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ۔ وَعَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ : أَنَّہُ کَانَ یَحْجُبُ بِالْمَمْلُوکِینَ وَأَہْلِ الْکِتَابِ ، وَلاَ یُوَرِّثُہُمْ۔
(٣١٨٠٢) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) غلاموں کو اور اہل کتاب کو وراثت سے روکنے والا تو قرار دیتے تھے لیکن ان کو وارث نہیں بناتے تھے۔

31802

(۳۱۸۰۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : إذَا مَاتَ الرَّجُلُ وَتَرَکَ أَبَاہُ ، أَوْ أَخَاہُ، أَو ابْنَہُ مَمْلُوکًا وَلَمْ یَتْرُکْ وَارِثًا فَإِنَّہُ یُشْتَرَی فَیُعْتَقُ ، ثُمَّ یُوَرَّثُ۔
(٣١٨٠٣) حضرت اعمش سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے حضرت عبداللہ (رض) کا ارشاد نقل فرمایا کہ جب آدمی مرجائے اور اپنا باپ یا بھائی یا بیٹا غلامی کی حالت میں چھوڑے اور کوئی وارث نہ چھوڑے تو اس کو خرید لیا جائے پھر اس کو آزاد کردیا جائے اور پھر وارث بنادیا جائے۔

31803

(۳۱۸۰۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ : فِی رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَکَ أَبَاہُ مَمْلُوکًا، قَالَ : یُشْتَرَی مِنْ مَالِہِ فَیُعْتَقُ ، ثُمَّ یُوَرَّثُ ، قَالَ : وَکَانَ الْحَسَنُ یَقُولُہُ۔
(٣١٨٠٤) حضرت محمد سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے مرتے ہوئے اپنے باپ کو غلامی کی حالت میں چھوڑا تھا کہ اس کو اس کے مال سے خرید لیا جائے پھر آزاد کردیا جائے اور پھر وارث بنادیا جائے، راوی کہتے ہیں کہ حضرت حسن (رض) بھی اسی بات کے قائل تھے۔

31804

(۳۱۸۰۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ ، بِمِثْلِہِ۔
(٣١٨٠٥) حضرت ابراہیم نے ایک دوسری سند سے حضرت عبداللہ (رض) سے یہی بات نقل فرمائی ہے۔

31805

(۳۱۸۰۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ وَعَبْدُ اللہِ یُعْطِیَانِ الْمِیرَاثَ ذَوِی الأَرْحَامِ، قَالَ فُضَیْلٌ: فَقُلْتُ لإِبْرَاہِیمَ: فَعَلِیٌّ؟ قَالَ: کَانَ أَشَدَّہُمْ فِی ذَلِکَ: أَنْ یُعْطِیَ ذَوِی الأَرْحَامِ۔
(٣١٨٠٦) حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) ذوی الأرحام کو میراث دلایا کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں میں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا کہ حضرت علی (رض) کیا فرماتے تھے انھوں نے فرمایا کہ وہ ذوی الأرحام کو میراث دلانے میں پہلے سے دونوں حضرات سے زیادہ سخت تھے۔

31806

(۳۱۸۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَعُمَرَ وَعَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ ، بِمِثْلِہِ۔
(٣١٨٠٧) حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ، حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبداللہ (رض) سے یہی بات منقول ہے۔

31807

(۳۱۸۰۸) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی الزَّاہِرِیَّۃِ - قَالَ أَبُو بَکْرٍ : أَظُنُّہُ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ - قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ أَبِی الدَّرْدَائِ - وَکَانَ قَاضِیًا - فَأَتَاہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : إنَّ ابْنَ أُخْتِی مَاتَ وَلَمْ یَدَعْ وَارِثًا ، فَکَیْفَ تَرَی فِی مَالِہِ ؟ قَالَ : انْطَلِقْ فَاقْبِضْہُ۔
(٣١٨٠٨) حضرت جبیر بن نفیر فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو درداء (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ وہ قاضی تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میرا بھائی فوت ہوگیا ہے اور اس نے کوئی وارث نہیں چھوڑا آپ اس کے مال کے بارے میں کیا فرماتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اس کا مال لے لو۔

31808

(۳۱۸۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَیَّانَ الْجُعْفِیِّ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃً : أَنَّ عَلِیًّا أُتِیَ فِی ابْنَۃٍ وَامْرَأَۃٍ وَمَوَالِی ، فَأَعْطَی الاِبْنَۃَ النِّصْفَ ، وَالْمَرْأَۃَ الثُّمُنَ ، وَرَدَّ مَا بَقِیَ عَلَی الاِبْنَۃِ ، وَلَمْ یُعْطِ الْمَوَالِی شَیْئًا۔
(٣١٨٠٩) سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) سے بیٹی اور بیوی اور آقاؤں کی وراثت کے بارے میں سوال کیا گیا۔ آپ نے بیٹی کو آدھا مال دیا اور بیوی کو مال کا آٹھواں حصّہ ، اور باقی ماندہ مال واپس بیٹی کو لوٹا دیا اور آقاؤں کو کوئی چیز نہیں دی۔

31809

(۳۱۸۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : أَنَّہُ أَنْکَرَ حَدِیثَ ابْنَۃِ حَمْزَۃَ ، وَقَالَ : إنَّمَا أَطْعَمَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طُعْمَۃً۔
(٣١٨١٠) حضرت میسرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے حضرت حمزہ (رض) کی بیٹی کی حدیث کو منکر قرار دیا اور فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بطور عطیہ کے مال دیا ہے۔

31810

(۳۱۸۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : أَوْصَی مَوْلًی لِعَلْقَمَۃَ لأَہْلِ عَلْقَمَۃَ بِالثُّلُثِ ، وَأَعْطَی ابْنَ أَخِیہِ لأُمِّہِ الثُّلُثَیْنِ۔
(٣١٨١١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علقمہ کے ایک آزاد کردہ غلام نے حضرت علقمہ کے گھر والوں کے لیے ایک تہائی مال کی وصیت کی اور اس نے اپنے ماں شریک بھائی کے بیٹے کو دو تہائی مال دیا۔

31811

(۳۱۸۱۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ فِی رَجُلٍ تَرَکَ جَدَّتَہُ وَمَوَالِیَہُ ، فَأَعْطَی الْجَدَّۃَ الْمَالَ دُونَ الْمَوَالِی۔
(٣١٨١٢) حضرت سالم فرماتے ہیں حضرت علی (رض) کے پاس اس آدمی کے بارے میں مسئلہ لایا گیا جس نے اپنی دادی اور اپنے آقا چھوڑے، آپ نے اس کا مال دادی کو دے دیا، اور آقاؤں کو کچھ نہیں دیا۔

31812

(۳۱۸۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کُنْتُ أَمْشِی مَعَہُ فَأَدْرَکَتْہُ امْرَأَۃٌ عِنْدَ الصَّیَاقِلَۃِ ، قَالَتْ : إنَّ مَوْلاَتَکَ قَدْ مَاتَتْ فَخُذْ مِیرَاثَہَا ، قَالَ : ہُوَ لَک ، فَقَالَتْ : بَارَکَ اللَّہُ لَک فِیہِ ، قَالَ : أَمَا إِنَّہُ لَوْ کَانَ لِی لَمْ أَدَعْہُ لَک ، وَإِنَّہُ لَمُحْتَاجٌ یَوْمَئِذٍ إلَی تَوْرٍ یُصِیبہُ مِنْ مِیرَاثِہَا ، مِنْ خَمْسَۃِ دَرَاہِمَ ، فَقُلْتُ لَہُ : مَا ہَذِہِ مِنْہَا : قَالَ : ابْنَۃُ أُخْتِہَا لأُمِّہَا۔
(٣١٨١٣) حضرت اعمش سے روایت ہے کہ میں حضرت ابراہیم کے ساتھ چل رہا تھا کہ ان کے پاس صیاقلہ کے بازار کے قریب ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ آپ کی آزاد کردہ باندی فوت ہوگئی ہے آپ اس کی میراث لے لیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ تیرے لیے ہے۔ وہ کہنے لگی اللہ تعالیٰ آپ کے لیے برکت عطا فرمائے ( میں نہیں لینا چاہتی) آپ نے فرمایا کہ اگر اس مال میں میرا حق ہوتا تو میں تمہیں نہ دیتا۔ جبکہ حضرت ابن مسعود (رض) پانچ درہم کی ایک طشت کے بھی محتاج تھے جو ان کو اس کی وراثت میں سے ملتی۔ ا عمش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا کہ یہ عورت اس کی کیا لگتی ہے آپ نے فرمایا کہ اس کی ماں شریک بہن کی بیٹی ہے۔

31813

(۳۱۸۱۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ ابْنُ مَسْعُودٍ فِی أُمٍّ وَإِخْوَۃٍ لأُمٍّ ، فَأَعْطَی الإِخْوَۃَ لِلأُمِّ الثُّلُثَ ، وَأَعْطَی الأُمَّ سَائِرَ الْمَالِ ، وَقَالَ : الأُمُّ عَصَبَۃُ مَنْ لاَ عَصَبَۃَ لَہُ۔
(٣١٨١٤) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) سے ماں اور ماں شریک بھائیوں کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے ماں شریک بھائیوں کو ایک تہائی مال عطا فرمایا اور باقی مال ماں کو دے دیا اور فرمایا کہ ماں اس آدمی کا عصبہ ہے جس کا کوئی عصبہ نہ ہو۔

31814

(۳۱۸۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ : أُتِیَ عَبْدُ اللہِ فِی أُمٍّ وَإِخْوَۃٍ لأُمٍ ، فَأَعْطَی الأُمَّ السُّدُسَ وَالإِخْوَۃَ الثُّلُثَ ، وَرَدَّ مَا بَقِیَ عَلَی الأُمِّ ، وَقَالَ : الأُمُّ عَصَبَۃُ مَنْ لاَ عَصَبَۃَ لَہُ، وَکَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ لاَ یَرُدُّ عَلَی أُخْتٍ لأَبٍ مَعَ أُخْتٍ لأَبٍ وَأَمٍ، وَلاَ عَلَی ابْنَۃِ ابْنٍ مَعَ ابْنَۃِ صُلْبٍ۔
(٣١٨١٥) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) کے پاس ماں اور ماں شریک بھائیوں کے بارے میں مسئلہ لایا گیا تو آپ نے مال کا چھٹا حصّہ ماں کو دے دیا اور ایک تہائی مال بھائیوں کو دے دیا اور باقی مال ماں کو دے دیا۔ اور فرمایا ماں اس آدمی کی عصبہ ہے جس کا کوئی آدمی عصبہ نہ ہو، اور حضرت ابن مسعود (رض) حقیقی بہن کے ہوتے ہوئے باپ شریک بہن پر مال لوٹانے کے قائل نہیں تھے اور نہ صلبی بیٹی کے ہوتے ہوئے پوتی پر مال لوٹایا کرتے تھے۔

31815

(۳۱۸۱۶) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ وَالأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَرُدُّ عَلَی کُلِّ ذِی سَہْمٍ إلاَّ الزَّوْجَ وَالْمَرْأَۃَ۔
(٣١٨١٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) ہر حصہ دار پر مال لوٹانے کے قائل تھے سوائے شوہر اور بیوی کے۔

31816

(۳۱۸۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : بَلَغَنِی عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ کَانَ یَرُدُّ عَلَی کُلِّ ذِی سَہْمٍ إلاَّ الزَّوْجَ وَالْمَرْأَۃَ۔
(٣١٨١٧) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت علی (رض) ہر حصہ دار پر مال لوٹانے کے قائل تھے سوائے شوہر اور بیوی کے۔

31817

(۳۱۸۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ : أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَرُدُّ عَلَی ذَوِی السِّہَامِ مِنْ ذَوِی الأَرْحَامِ۔
(٣١٨١٨) حضرت ابو جعفر سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) ذوی الأرحام میں سے ان لوگوں پر بھی مال لوٹایا کرتے تھے جو وراثت میں حصے کے حق دار ہوتے ہیں۔

31818

(۳۱۸۱۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : أَنَّہُ ذُکِرَ عِنْدَہُ قَضَائً قَضَی بِہِ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ عَبْدِ اللہِ : أَنَّہُ أَعْطَی ابْنَۃً أِوْ أُخْتِاً الْمَالَ کُلَّہُ ، فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : ہَذَا قَضَائُ عَبْدِ اللہِ۔
(٣١٨١٩) حضرت شیبانی سے روایت ہے کہ حضرت شعبی کے سامنے ایک فیصلے کا ذکر کیا گیا جو حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ نے کیا تھا کہ انھوں نے بیٹی یا بہن کو پورا مال دے دیا حضرت شعبی نے فرمایا کہ یہی حضرت عبداللہ (رض) کا فیصلہ ہے۔

31819

(۳۱۸۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ : أَنَّہُ کَانَ یَرُدُّ عَلَی الاِبْنَۃِ وَالأُخْتِ وَالأُمِّ إذَا لَمْ تَکُنْ عَصَبَۃٌ ، وَکَانَ زَیْدٌ لاَ یُعْطِیہِمْ إلاَّ نَصِیبَہُمْ۔
(٣١٨٢٠) حضرت عامر سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) بیٹی ، بہن اور ماں پر مال لوٹا دیا کرتے تھے۔ جبکہ وہ عصبہ بھی نہ ہو، اور حضرت زید (رض) ان کو صرف ان کو ان کا حصہ ہی دیتے تھے۔

31820

(۳۱۸۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ لاَ یَرُدُّ عَلَی سِتَّۃٍ : عَلَی زَوْجٍ ، وَلاَ امْرَأَۃٍ ، وَلاَ جَدَّۃٍ ، وَلاَ عَلَی أَخَوَاتٍ لأَبٍ مَعَ أَخَوَاتٍ لأَبٍ وَأَمٍ ، وَلاَ عَلَی بَنَاتِ ابْنٍ مَعَ بَنَاتِ صُلْبٍ ، وَلاَ عَلَی أُخْتٍ لأُمٍّ مَعَ أُمٍّ ، قَالَ إبْرَاہِیمُ : فَقُلْتُ لِعَلْقَمَۃَ یُرَدُّ عَلَی الأُخْوَۃِ مِنَ الأُمِّ مَعَ الْجَدَّۃِ ، قَالَ : إنْ شِئْت ، قَالَ : وَکَانَ عَلِیٌّ یَرُدُّ عَلَی جَمِیعِہِمْ إلاَّ الزَّوْجَ وَالْمَرْأَۃَ۔
(٣١٨٢١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) چھ آدمیوں پر مال دوبارہ نہیں لوٹایا کرتے تھے : شوہر پر، بیوی پر، دادی پر، حقیقی بہنوں کے ہوتے ہوئے علّاتی بہنوں پر، حقیقی بیٹوں کے ہوتے ہوئے پوتیوں پر اور ماں کے ہوتے ہوئے ماں شریک بہن پر، ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علقمہ سے عرض کیا کہ کیا دادی کے ہوتے ہوئے ماں شریک بھائیوں پر مال لوٹایا جائے گا ؟ انھوں نے فرمایا : ہاں ! اگر آپ چاہیں۔ فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) ان سب پر مال لوٹایا کرتے تھے سوائے شوہر اور بیوی کے۔

31821

(۳۱۸۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ لاَ یَرُدُّ عَلَی سِتَّۃٍ : لاَ یَرُدُّ عَلَی زَوْجٍ ، وَلاَ امْرَأَۃٍ ، وَلاَ جَدَّۃٍ ، وَلاَ عَلَی أُخْتٍ لأَبٍ مَعَ أُخْتٍ لأَبٍ وَأَمٍ ، وَلاَ عَلَی أُخْتٍ لأُمٍّ مَعَ أُمٍ ، وَلاَ عَلَی ابْنَۃِ ابْنٍ مَعَ ابْنَۃِ صُلْبٍ۔
(٣١٨٢٢) حضرت ابراہیم ایک دوسری سند سے حضرت عبداللہ (رض) کا یہی مذہب نقل فرماتے ہیں۔

31822

(۳۱۸۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : اُسْتُشْہِدَ سَالِمٌ مَوْلَی أَبِی حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : فَأَعْطَی أَبُو بَکْرٍ ابْنَتَہُ النِّصْفَ وَأَعْطَی النِّصْفَ الثَّانِی فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(٣١٨٢٣) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ شہید ہوئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان کی بیٹی کو آدھا مال عطا فرمایا اور باقی آدھا مال اللہ کے راستے میں خرچ فرما دیا۔

31823

(۳۱۸۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرُدُّ عَلَی الْمَرْأَۃِ وَالزَّوْجِ شَیْئًا ، قَالَ : وَکَانَ زَیْدٌ یُعْطِی کُلَّ ذِی فَرْضٍ فَرِیضَتَہُ، وَمَا بَقِیَ جَعَلَہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣١٨٢٤) ابراہیم فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے کوئی بھی شوہر اور بیوی پر کچھ مال بھی دوبارہ نہیں لوٹاتا تھا ، فرماتے ہیں کہ حضرت زید (رض) ہر حقدار کو اس کا حصّہ دیتے اور باقی مال بیت المال میں جمع کروا دیتے۔

31824

(۳۱۸۲۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ لاَ یَرُدُّ عَلَی أُخْتٍ لأَبٍ مَعَ أُخْتٍ لأَبٍ وَأَمٍّ ، وَلاَ یَرُدُّ عَلَی ابْنَۃِ ابْنٍ مَعَ ابْنَۃٍ شَیْئًا ، وَلاَ عَلَی إخْوَۃٍ لأُمٍّ مَعَ أُمٍّ شَیْئًا ، وَلاَ عَلَی زَوْجٍ ، وَلاَ امْرَأَۃٍ۔
(٣١٨٢٥) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) حقیقی بہن کی موجودگی میں باپ شریک بہن کو کچھ نہیں دلاتے تھے ، اسی طرح بیٹی کے ہوتے ہوئے پوتی کو، ماں کے ہوتے ہوئے ماں شریک بہن کو اور شوہر اور بیوی کو۔

31825

(۳۱۸۲۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ وَالأَعْمَشِ ، قَالاَ : لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ یَرُدُّ عَلَی جَدَّۃٍ إلاَّ أَنْ یَکُونَ غَیْرَہَا۔
(٣١٨٢٦) مغیرہ اور اعمش روایت فرماتے ہیں کہ کوئی بھی دادی پر مال دوبارہ نہیں لوٹاتا تھا، دوسرے رشتہ دار ہوں تو ان پر لوٹا دیتا تھا۔

31826

(۳۱۸۲۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنِ الْعَمَّۃِ : أَہِیَ أَحَقُّ بِالْمِیرَاثِ ، أَو ابْنَۃُ الأَخِ ؟ قَالَ : فَقَالَ لِی : وَأَنْتَ لاَ تَعْلَمُ ذَلِکَ ، قَالَ : قُلْتُ : ابْنَۃُ الأَخِ أَحَقُّ مِنَ الْعَمَّۃِ ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ : وَشَہِدَ عَامِرٌ عَلَی مَسْرُوقٍ أَنَّہُ قَالَ : أَنْزِلُوہُمْ مَنَازِلَ آبَائِہِمْ۔
(٣١٨٢٧) شیبانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے پھوپھی کے بارے میں سوال کیا کہ کیا وہ وراثت کی زیادہ حق دار ہے یا بھتیجی ؟ فرماتے ہیں کہ اس پر وہ فرمانے لگے : کیا تم یہ بات نہیں جانتے ؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ بھتیجی پھوپھی سے زیادہ حق دار ہے، ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت عامر نے حضرت مسروق کے بارے میں گواہی دی کہ انھوں نے فرمایا کہ ان کو ان کے آباء کے درجے میں اتارو۔

31827

(۳۱۸۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنِ مَسْرُوقٍ، قَالَ: أَنْزِلُوا ذَوِی الأَرْحَامِ مَنَازِلَ آبَائِہِمْ۔
(٣١٨٢٨) شعبی حضرت مسروق سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ ذوی الأرحام کو ان کے آباء کے درجے میں رکھو۔

31828

(۳۱۸۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنِ الشَّعْبِیِّ: فِی ابْنَۃِ أَخٍ وَعَمَّۃٍ، قَالَ: الْمَالُ لاِبْنَۃِ الأَخِ۔
(٣١٨٢٩) شیبانی نقل کرتے ہیں کہ حضرت شعبی نے بھتیجی اور پھوپھی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ مال بھتیجی کے لیے ہے۔

31829

(۳۱۸۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : الْمَالُ لِلْعَمَّۃِ۔
(٣١٨٣٠) شیبانی حضرت ابراہیم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ مال پھوپھی کو دیا جائے گا۔

31830

(۳۱۸۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ مُغِیرَۃَ وَمَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: کَانُوا یُوَرَّثُونَ بِقَدْرِ أَرْحَامِہِمْ۔
(٣١٨٣١) مغیرہ اور منصور حضرت ابراہیم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ فقہا رشتہ داروں کو ان کی رشتہ داریوں کے مطابق وارث بنایا کرتے تھے۔

31831

(۳۱۸۳۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنِ ابْنَۃِ أَخٍ وَعَمَّۃٍ أَیُّہُمَا أَحَقُّ بِالْمِیرَاثِ ؟ قَالَ : ابْنَۃُ الأَخِ ، قَالَ : أَنْزِلُوہُمْ مَنَازِلَ آبَائِہِمْ۔
(٣١٨٣٢) شیبانی لکھتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے بھتیجی اور پھوپھی کے بارے میں سوال کیا کہ ان میں سے کون وراثت کا زیادہ حق دار ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ بھتیجی، اور فرمایا کہ ان کو ان کے آباء کے درجے میں رکھو۔

31832

(۳۱۸۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : قَالَ عَلِیٌّ : لاَ یُضْرَبُ بِسَہْمِ مَنْ لاَ یَرِثُ۔
(٣١٨٣٣) مغیرہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ حضرت علی (رض) کا ارشاد ہے جو وارث نہیں اس کا حصّہ بھی نہیں لگایا جائے گا۔

31833

(۳۱۸۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُقَالَ : ذُو السَّہْمِ أَحَقُّ مِمَّنْ لاَ سَہْمَ لَہُ
(٣١٨٣٤) ابراہیم فرماتے ہیں کہ کہا جاتا تھا کہ حصّہ دار اس آدمی سے زیادہ حق دار ہے جس کا کوئی متعین حصّہ نہیں ہے۔

31834

(۳۱۸۳۵) قَالَ وَکِیعٌ : وَقَالَ غَیْرُ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَکَ أُخْتَیْنِ لأَبٍ وَأُخْتَیْنِ لأَبٍ وَأَمٍّ ، قَالَ : کَانَ یُقَالَ : ذُو السَّہْمِ أَحَقُّ مِمَّنْ لاَ سَہْمَ لَہُ۔
(٣١٨٣٥) مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے مرتے ہوئے دو باپ شریک بہنیں اور دو حقیقی بہنیں چھوڑیں، کہ یہ کہا جاتا تھا کہ حصّہ دار زیادہ حق دار ہے اس سے جو حصّہ دار نہیں ہے۔

31835

(۳۱۸۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ مُسْلِمَۃٍ تَرَکَتْ زَوْجَہَا مُسْلِمًا وَإِخْوَتَہَا لأُمِّہَا مُسْلِمِینَ وَلَہَا ابْنٌ نَصْرَانِیٌّ ، أَوْ یَہُودِیٌّ ، أَوْ کَافِرٌ ، فَلِزَوْجِہَا النِّصْفُ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ وَلاِِخْوَتِہَا لأُمِّہَا الثُّلُثُ سَہْمَانِ ، وَمَا بَقِیَ فَلِذِی الْعَصَبَۃِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ ، وَلاَ یَرِثُ یَہُودِیٌّ ، وَلاَ نَصْرَانِیٌّ مُسْلِمًا، وَقَضَی فِیہَا عَبْدُ اللہِ : أَنَّ لِلزَّوْجِ الرُّبْعَ مِنْ أَجْلِ أَنَّ لَہَا وَلَدًا کَافِرًا ، وَہُمْ یَحْجِبُونَ فِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ ، وَلاَ یَرِثُونَ ، وَفِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ : لاَ یَحْجُبُونَ وَلاَ یَرِثُونَ ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ مِنْ أَرْبَعَۃٍ۔
(٣١٨٣٦) فضیل حضرت ابراہیم سے اس مسلمان عورت کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو مسلمان شوہر اور مسلمان ماں شریک بھائیوں کو چھوڑ جائے، اور اس کا ایک نصرانی یا یہودی یا کافر بیٹا ہو کہ اس کے شوہر کے لیے آدھا مال یعنی تین حصّے ہیں اور اس کے ماں شریک بھائیوں کے لیے ایک تہائی مال یعنی دو حصّے ہیں، اور باقی مال حضرت علی (رض) اور زید (رض) کے فرمان کے مطابق عصبہ کے لیے ہے، اور یہودی یا نصرانی آدمی مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا، اور اس مسئلہ میں حضرت عبداللہ (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ شوہر کے لیے ایک چوتھائی مال ہے اس وجہ سے کہ اس کا ایک کافر بیٹا ہے، اور حضرت عبداللہ (رض) کی رائے میں کافر رشتہ دار دوسروں کے حصّے کم کرسکتے ہیں لیکن خود وارث نہیں ہوتے، اور حضرت علی (رض) کی رائے میں نہ دوسروں کا حصّہ کم کرتے ہیں اور نہ خود وارث ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) اور زید (رض) کی رائے میں چھ حصّوں سے نکلے گا اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی رائے میں چار حصوں سے۔

31836

(۳۱۸۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ فِی امْرَأَۃٍ مُسْلِمَۃٍ تَرَکَتْ أُمَّہَا مُسْلِمَۃً وَلَہَا إخْوَۃٌ نَصَارَی أَوْ یَہُودٌ ، أَوْ کُفَّارٌ ، فَقَضَی عَبْدُ اللہِ : أَنَّ لَہَا مَعَہُمَ السُّدُسَ ، وَجَعَلَہُمْ یَحْجُبُونَ وَلاَ یَرِثُونَ ، وَقَضَی فِیہَا سَائِرُ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَّہُمْ لاَ یَحْجُبُونَ وَلاَ یَرِثُونَ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہِیَ فِیمَا قَضَی سَائِرُ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرُ عَبْدِ اللہِ مِنْ أَرْبَعَۃِ أَسْہُمٍ ، فَہِیَ لِذِی الْعَصَبَۃِ ، وَہِیَ فِی قَضَائِ عَبْدِ اللہِ : مِنْ خَمْسَۃُ أَسْہُمٍ ، فَہِیَ لِذِی الْعَصَبَۃِ بِالرَّحِمِ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِہِمْ جَمِیعًا مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، إنْ کَانَ فِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : فَلِلأُمِّ السُّدُسُ وَیَبْقَی خَمْسَۃٌ ، وَإِنْ کَانَ فِی قَوْلِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَلِلأُمِّ الثُّلُثُ وَہُوَ سَہْمَانِ ، وَأَرْبَعَۃٌ لِسَائِرِ الْعَصَبَۃِ۔
(٣١٨٣٧) فضیل روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس مسلمان عورت کے بارے میں فیصلہ فرمایا جو اپنی مسلمان ماں چھوڑ جائے، اور اس کے نصرانی، یہودی یا کافر بھائی ہوں، کہ حضرت عبداللہ (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس عورت کے لیے ان لوگوں کے ہوتے ہوئے چھٹا حصّہ ہے، اور آپ نے ان کو دوسروں کا حصّہ روکنے والا قرار دیا اور خود ان کو وارث نہیں بنایا، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باقی صحابہ نے اس مسئلہ کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ یہ نہ دوسروں کے حصّے کو کم کرتے ہیں اور نہ خود وارث ہوتے ہیں۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ دوسرے صحابہ کرام (رض) کے فیصلے کے مطابق چار حصّوں سے نکلے گا اور یہ عصبہ کا ہوگا اور حضرت ابن مسعود (رض) کے فیصلے کے مطابق پانچ حصّوں سے نکلے گا اور یہ رشتہ داری کی وجہ سے عصبہ بن جانے والے رشتہ داروں کے لیے ہے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ ان تمام حضرات کے قول کے مطابق چھ حصّوں سے نکلے گا، حضرت عبداللہ (رض) کی رائے میں ماں کے لیے چھٹا حصّہ ہوگا اور باقی پانچ حصّے بچیں گے، اور باقی صحابہ (رض) کی رائے میں ماں کے لیے ایک تہائی مال یعنی دو حصّے ہیں اور بقیہ چار حصّے عصبہ کے لئے۔

31837

(۳۱۸۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ زَوْجَہَا وَإِخْوَتَہَا لأُمِّہَا أَحْرَارًا ، وَلَہَا ابْنٌ مَمْلُوکٌ : فَلِزَوْجِہَا النِّصْفُ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلإِخْوَتِہَا لأُمِّہَا الثُّلُثُ سَہْمَانِ ، وَیَبْقَی السُّدُسُ فَہُوَ لِلْعَصَبَۃِ ، وَلاَ یَرِثُ ابْنُہَا الْمَمْلُوکُ شَیْئًا فِی قَضَائِ عَلِی۔ وَقَضَی فِیہَا عَبْدُ اللہِ : أَنَّ لِزَوْجِہَا الرُّبْعَ سَہْم وَنِصْف ، وَأَنَّ ابْنَہَا یَحْجُبُ الإِخْوَۃَ مِنَ الأُمِّ إذَا کَانَ مَمْلُوکًا، وَلاَ یَرِثُ ابْنُہَا شَیْئًا وَیَحْجُبُ الزَّوْجَ ، وَأَنَّ الثَّلاَثَۃَ أَرْبَاعٍ الْبَاقِیَۃِ لِلْعَصَبَۃِ۔ وَقَضَی فِیہَا زَیْدٌ : أَنَّ لِزَوْجِہَا النِّصْفَ ثَلاَثَۃَ أَسْہُمٍ ، وَأَنَّ لاِِخْوَتِہَا لأُمِّہَا الثُّلُثَ سَہْمَانِ ، وَمَا بَقِیَ فَہُوَ فِی بَیْتِ الْمَالِ إذَا لَمْ یَکُنْ ، وَلاَئٌ ، وَلاَ رَحِمٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ مِنْ أَرْبَعَۃِ أَسْہُمٍ۔
(٣١٨٣٨) حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس عورت کے بارے میں فرمایا جو اپنے شوہر اور اپنے آزاد ماں شریک بھائی کو چھوڑ کرمری جبکہ اس کا ایک غلام بیٹا بھی تھا، کہ اس کے شوہر کے لیے آدھا مال یعنی تین حصّے ہیں اور اس کے ماں شریک بھائیوں کے لیے ایک تہائی مال یعنی دو حصّے ہیں، اور چھٹا حصّہ جو باقی بچا وہ عصبہ کے لیے ہے، اور اس کا غلام بیٹا کسی چیز کا وارث نہ ہوگا حضرت علی (رض) کے فیصلے کے مطابق۔
اور اس مسئلے میں حضرت عبداللہ (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کے شوہر کے لیے چوتھائی مال یعنی ڈیڑھ حصّہ ہے ، اور اس کا بیٹا ماں شریک بھائیوں کے حصّے کے لیے مانع ہوگا جبکہ وہ غلام ہو، اور شوہر کے حصّے کو کم کر دے گا، اور باقی تین چوتھائی مال عصبہ کے لیے ہے۔
اور اس مسئلے میں حضرت زید (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کے شوہر کے لیے آدھا مال یعنی تین حصّے ہیں، اور اس کے ماں شریک بھائیوں کے لیے ایک تہائی مال یعنی دو حصّے ہیں، اور باقی مال بیت المال میں رکھا جائے گا جبکہ کوئی مولیٰ یا ذوی الأرحام میں سے کوئی رشتہ دار نہ ہو۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) اور زید (رض) کی رائے میں چھ حصّوں سے نکلے گا، اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی رائے میں چار حصّوں سے نکلے گا۔

31838

(۳۱۸۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ جُرَیْج ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الْفَرَائِضُ لاَ تَعُولُ۔
(٣١٨٣٩) عطاء حضرت ابن عباس (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ میراث کے حصّوں میں ” عول “ نہیں ہوتا۔

31839

(۳۱۸۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ : أَنَّہُمْ أَعَالُوا الْفَرِیضَۃَ۔
(٣١٨٤٠) ابراہیم حضرت علی (رض) ، حضرت عبداللہ (رض) اور حضرت زید (رض) کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ یہ حضرات میراث میں ” عول “ کے قائل ہیں۔

31840

(۳۱۸۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ : فِی أُخْتَیْنِ لأَبٍ وَأَمٍّ ، وَأُخْتَیْنِ لأُمٍّ ، وَزَوْجٍ ، وَأَمٍّ ، قَالَ : مِنْ عَشَرَۃٍ ، لِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ أَرْبَعَۃٌ ، وَلِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأُمّ سَہْمَانِ ، وَلِلزَّوْجِ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُمِّ سَہْمٌ۔ وَقَالَ وَکِیعٌ : وَالنَّاسُ عَلَی ہَذَا ، وَہَذِہِ قِسْمَۃُ ابْن الْفَرُّوخِ۔
(٣١٨٤١) محمد بن سیرین نقل کرتے ہیں کہ حضرت شریح نے دو حقیقی بہنوں، دو ماں شریک بہنوں ، شوہر اور ماں کے مسئلے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ دس حصّوں سے نکلے گا، چار حصّے دونوں حقیقی بہنوں کے لئے، دو حصّے دونوں ماں شریک بہنوں کے لئے، تین حصّے شوہر کے لئے، اور ایک حصّہ ماں کے لئے۔
وکیع فرماتے ہیں کہ لوگ یہی رائے رکھتے ہیں، اور یہی تقسیم ابن الفرّوخ (رض) کی ہے۔

31841

(۳۱۸۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : یَحْجُبُنِی بَنُو بَنِیَّ دُونَ إخْوَتِی ، وَلاَ أَحْجُبُہُمْ دُونَ إخْوَتِہِمْ۔
(٣١٨٤٢) طاؤس حضرت ابن عباس (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں فرمایا کہ میرے پوتے میرے حصّے کے لیے مانع ہیں نہ کہ میرے بھائی، میں ان کے بھائیوں کے لیے مانع بن سکتا ہوں لیکن ان کے لیے نہیں۔

31842

(۳۱۸۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ أُخْتَہَا لأُمِّہَا وَأُمَّہَا ، وَلاَ عَصَبَۃَ لَہَا ، فَلأُخْتِہَا مِنْ أُمِّہَا السُّدُسُ ، وَلأُمِّہَا خَمْسَۃُ أَسْدَاسٍ فِی قَضَائِ عَبْدِ اللہِ ، وَقَضَی فِیہَا زَیْدٌ : أَنَّ لأُخْتِہَا مِنْ أُمِّہَا السُّدُسَ ، وَلأُمِّہَا الثُّلُثَ ، وَیَجْعَلُ سَائِرَہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ ، وَقَضَی فِیہَا عَلَیَّ : أَنَّ لَہُمَا الْمَالَ عَلَی قَدْرِ مَا وَرِثَا ، فَجَعَلَ لِلأُخْتِ مِنَ الأُمِّ الثُّلُثَ وَلِلأُمِّ الثُّلُثَیْنِ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ مِنْ ثَلاَثَۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ مِنْ سِتَّۃٍ۔
(٣١٨٤٣) فضیل حضرت ابراہیم سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے اس عورت کے بارے میں فرمایا جو عورت اپنی ماں شریک بہن اور اپنی ماں کو چھوڑ جائے اور اس کا کوئی عصبہ نہ ہو اس کی ماں شریک بہن کے لیے چھٹا حصّہ ہے اور اس کی ماں کے لیے پانچ حصّے ہیں، یہ حضرت عبداللہ (رض) کا فیصلہ ہے، اور اس بارے میں حضرت زید (رض) نے یہ ارشاد فرمایا کہ اس کی ماں شریک بہن کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہے، اور اس کی ماں کے لیے ایک تہائی مال ہے، اور باقی مال بیت المال میں رکھا جائے گا۔
اور اس مسئلے میں حضرت علی (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ان دونوں کو مال ان کے وراثت میں حصّے کے مطابق ہے، اس طرح انھوں نے ماں شریک بہن کے لیے ایک تہائی مال اور ماں کے لیے دو تہائی مال کا فیصلہ فرمایا۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) کے قول کے مطابق تین حصّوں سے اور حضرت عبداللہ (رض) کی رائے میں چھ حصّوں سے نکلے گا۔

31843

(۳۱۸۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ أُخْتَہَا لأَبِیہَا وَأُمَّہَا وَأُخْتَہَا مِنْ أَبِیہَا ، وَلاَ عَصَبَۃَ لَہَا غَیْرُہُمَا : فَلأُخْتِہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا ثَلاَثَۃُ أَرْبَاعٍ ، وَلأُخْتِہَا مِنْ أَبِیہَا الرُّبْعُ فِی قَضَائِ عَلِی ، وَقَضَی عَبْدُ اللہِ : أَنَّ لِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ خَمْسَۃَ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ السُّدُسُ ، وَقَضَی فِیہَا زَیْدٌ : أَنَّ لِلأُخْتِ لِلأَبِ وَالأُمِّ ثَلاَثَۃَ أَسْہُمٍ وَلِلأُخْتِ لِلأَبِ السُّدُسَ ، وَمَا بَقِیَ لِبَیْتِ الْمَالِ إذَا لَمْ یَکُنْ وَلاَئٌ وَلاَ عَصَبَۃٌ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ مِنْ ثَلاَثَۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ۔
(٣١٨٤٤) فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس عورت کے بارے میں فرمایا جو اپنی ایک حقیقی بہن اور ایک باپ شریک بہن چھوڑ جائے اور اس کا ان کے علاوہ کوئی عصبہ نہ ہو ، کہ اس کی حقیقی بہن کیلئے تین چوتھائی مال ہے، اور یہ حضرت علی (رض) کا فیصلہ ہے، اور حضرت عبداللہ (رض) نے اس مسئلہ میں یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ حقیقی بہن کے لیے پانچ حصّے اور باپ شریک بہن کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہے، اور اس مسئلے میں حضرت زید (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ حقیقی بہن کے لیے تین حصّے اور باپ شریک بہن کے لیے چھٹا حصّہ ہے اور باقی بیت المال کے لیے ہے جبکہ کوئی مولیٰ یا عصبہ نہ ہو۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) کے قول کے مطابق تین حصّوں سے نکلے گا اور حضرت عبداللہ اور زید (رض) کے قول میں چھ حصّوں سے نکلے گا۔

31844

(۳۱۸۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتِ ابْنَتَہَا وَابْنَۃَ ابْنِہَا وَأُمَّہَا، وَلاَ عَصَبَۃَ لَہَا : فَلاِبْنَتِہَا ثَلاَثَۃُ أَخْمَاسٍ ، وَلاِبْنَۃِ ابْنِہَا خُمُسٌ ، وَلأُمِّہَا خُمُسٌ فِی قَضَائِ عَلِی ، وَقَضَی فِیہَا عَبْدُ اللہِ : أَنَّہَا مِنْ أَرْبَعَۃٍ وَعِشْرِینَ سَہْمًا : فَلاِبْنَۃِ الاِبْنِ مِنْ ذَلِکَ السُّدُسُ أَرْبَعَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُمِّ رُبْعُ مَا بَقِیَ خَمْسَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلاِبْنَۃِ ثَلاَثَۃُ أَرْبَاعِ عِشْرِینَ : خَمْسَۃَ عَشَرَ سَہْمًا ، وَقَضَی فِیہَا زَیْدٌ : لِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ وَلاِبْنَۃِ الاِبْنِ السُّدُسُ وَلِلأُمِّ السُّدُسُ ، وَمَا بَقِیَ فَفِی بَیْتِ الْمَالِ إذَا لَمْ یَکُنْ وَلاَئٌ وَلاَ عَصَبَۃٌ۔
(٣١٨٤٥) حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس عورت کے بارے میں فرمایا جو اپنی بیٹی ، پوتی اور ماں چھوڑ جائے اور اس کا کوئی عصبہ نہ ہو کہ اس کی بیٹی کے لیے مال کے پانچ حصّوں میں سے تین حصّے اور اس کی پوتی کے لیے مال کا پانچواں حصّہ اور اس کی ماں کے لیے بھی پانچواں حصّہ ہے، یہ حضرت علی (رض) کا فیصلہ ہے، اور اس بارے میں حضرت عبداللہ (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ یہ مسئلہ چوبیس حصّوں سے نکلے گا، پوتی کے لیے چھٹا حصّہ یعنی کل چار حصّے، ماں کے لیے باقی مال کا چوتھا حصّہ یعنی کل پانچ حصّے اور بیٹی کے لیے بیس حصّوں کا تین چوتھائی یعنی کل پندرہ حصّے ہوں گے، اور اس بارے میں حضرت زید (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ بیٹی کے لیے آدھا مال ہے ، اور پوتی کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ، اور ماں کے لیے بھی چھٹا حصّہ ہے ، اور باقی مال بیت المال کے لیے ہے جبکہ نہ کوئی ولی ہو اور نہ کوئی عصبہ موجود ہو۔

31845

(۳۱۸۴۶) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ بْنِ عَمْرو ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : یَرِثُ مِنَ النِّسَائِ سِتُّ نِسْوَۃٍ : الاِبْنَۃُ، وَابْنَۃُ الاِبْنِ، وَالأُمُّ، وَالْجَدَّۃُ، وَالأُخْتُ، وَالْمَرْأَۃُ، وَیَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الرِّجَالِ سَبْعَۃَ نَفَرٍ: تَرِثُ أَبَاہَا، وَابْنَہَا، وَابْنَ ابْنِہَا، وَأَخَاہَا، وَزَوْجَہَا، وَجَدَّہَا، وَتَرِثُ مِنَ ابْنِ ابْنَتِہَا سُدُسًا إلاَّ أَنْ یَکُونَ لَہُ عَصَبَۃٌ غَیْرُہَا۔
(٣١٨٤٦) حضرت فضیل بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ چھ عورتیں وارث بنتی ہیں : بیٹی، پوتی، ماں، دادی، بہن اور بیوی، اور یہ سات آدمیوں کی وارث بنتی ہیں : باپ، بیٹا، پوتا، بھائی، شوہر، اور دادا، اور یہ اپنی بیٹی سے چھٹے حصّے کی وارث ہوتی ہے ، مگر یہ کہ اس کا کوئی عصبہ موجودہو۔

31846

(۳۱۸۴۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِنْدَلٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: یَرِثُ الرَّجُلُ سِتُّ نِسْوَۃٍ: ابْنَتَہُ ، وَابْنَۃَ ابْنِہِ ، وَأُمَّہُ ، وَجَدَّتَہُ ، وَأُخْتَہ ، وَزَوْجَتَہُ ، وَتَرِثُ الْمَرْأَۃُ سَبْعَۃ نَفَرٍ : ابْنَہَا ، وَابْنَ ابْنِہَا ، وَأَبَاہَا ، وَجَدَّہَا ، وَزَوْجَہَا ، وَأَخَاہَا ، وَتَرِثُ مِنَ ابْنِ ابْنَتِہَا سُدُسًا ، وَلاَ یَرِثُ ہُوَ مِنْہَا شَیْئًا فِی قَوْلِہِمْ کُلِّہِمْ۔
(٣١٨٤٧) اعمش روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ مرد کی وارث بننے والی عورتیں چھ ہیں : بیٹی، پوتی، ماں ، دادی، بہن اور بیوی، اور عورت سات آدمیوں کی وارث بنتی ہے : بیٹا، پوتا، باپ، دادا، شوہر اور بھائی، اور یہ اپنے پوتے سے چھٹے حصّے کی وارث بنتی ہے، اور پوتا ان سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوتا تمام حضرات کے قول کے مطابق۔

31847

(۳۱۸۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ ابْنِ ابْنَۃٍ : أَرَأَیْت رَجُلاً تَرَکَ ابْنِ ابْنَتہ ، أَیَرِثہُ ؟ قَالَ : لا۔
(٣١٨٤٨) نعمان بن سالم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوتے کے بارے میں دریافت کیا کہ آپ اس آدمی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو اپنے بھانجے کو چھوڑ جائے ؟ کیا وہ اس کا وارث ہوگا ؟ فرمایا ! نہیں۔

31848

(۳۱۸۴۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ مِنْدَلٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ : ابْنُ الاِبْنِ یُرَدُّ عَلَی مَنْ تَحْتَہُ وَمَنْ فَوْقَہُ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : إذَا اسْتَکْمَلَ الثُّلُثَیْنِ فَلَیْسَ لِبَنَاتِ الاِبْنِ شَیْئٌ۔
(٣١٨٤٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور زید (رض) کے قول میں پوتا لوٹاتا ہے ان پر جو اس سے نیچے ہوں اور جو اس سے اوپر ہوں، اس قاعدے پر کہ ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر حصّہ دیا جائے گا، اور حضرت عبداللہ (رض) کے قول کے مطابق جب دو تہائی مال پورا ہوجائے گا تو پوتیوں کو کچھ نہیں دیا جائے گا۔

31849

(۳۱۸۵۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِنْدَلٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ فِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : لِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ لِبَنِی الاِبْنِ وَبَنَاتِ الاِبْنِ : لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ ، مَا لَمْ یَزِدْنَ بَنَاتُ الاِبْنِ عَلَی السُّدُسِ۔
(٣١٨٥٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) کے فرمان کے مطابق بیٹی کو آدھا مال دیا جائے گا، اور باقی مال پوتوں اور پوتیوں کو اس قاعدے کے مطابق دیا جائے گا کہ ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر حصّہ دیا جائے گا، جب تک پوتیوں کا حصّہ چھٹے حصّے سے نہ بڑھے۔

31850

(۳۱۸۵۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِنْدَلٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الإِخْوَۃُ مِنَ الأُمِّ مَعَ وَلَدٍ ، وَلاَ وَلَدَ ابْنٍ ذَکَرٍ وَلاَ أُنْثَی ، وَلاَ مَعَ أَبٍ ، وَلاَ مَعَ جَدٍّ۔
(٣١٨٥١) اعمش سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ ماں شریک بھائی، بیٹے، بیٹی کے ہوتے ہوئے، اور پوتے، پوتی کے ہوتے ہوئے ، اور باپ، دادا کے ہوتے ہوئے وارث نہیں ہوتے۔

31851

(۳۱۸۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ یُسَمِّہِ ، قَالَ : مَا رَأَیْت رَجُلاً کَانَ أَحْسَبُ مِنْ عَلِیٍّ سُئِلَ عَنِ ابْنَتَیْنِ وَأَبَوَیْنِ وَامْرَأَۃٍ ، فَقَالَ : صَارَ ثَمَنُہَا تُسُعًا۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ مِنْ سَبْعَۃٍ وَعِشْرِینَ سَہْمًا : لِلاِبْنَتَیْنِ سِتَّۃَ عَشَرَ ، وَلِلأَبَوَیْنِ ثَمَانِیَۃٌ وَلِلْمَرْأَۃِ ثَلاَثَۃٌ۔
(٣١٨٥٢) حضرت سفیان ایک آدمی کے واسطے سے روایت کرتے ہیں، فرمایا کہ میں نے کوئی آدمی حضرت علی (رض) سے زیادہ شرافت والا نہیں دیکھا، آپ سے دو بیٹیوں ، والدین اور بیوی کے مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا اس بیوی کا آٹھواں حصّہ نویں میں تبدیل ہوگیا ہے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ ستائیس حصّوں سے نکلے گا، دو بیٹیوں کے لیے سولہ حصّے اور والدین کے لیے آٹھ حصّے اور بیوی کے لیے تین حصّے۔

31852

(۳۱۸۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یَرَی الْجَدَّ أَبًا۔
(٣١٨٥٣) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) دادا کو باپ جیسا ہی سمجھتے تھے۔

31853

(۳۱۸۵۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ کُرْدُوسِ بْنِ عَبَّاسٍ الثَّعْلبِیِّ ، عَنْ أَبِی مُوسَی : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا۔
(٣١٨٥٤) کردوس بن عباس حضرت ابو موسیٰ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) دادا کو باپ جیسا ہی سمجھتے تھے۔

31854

(۳۱۸۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ : إنَّ الَّذِی قَالَ فِیہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ کُنْت مُتَّخِذًا خَلِیلاً لاَتَّخَذْتہ خَلِیلاً جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا۔ یَعْنِی : أَبَا بَکْرٍ۔ (بخاری ۳۶۵۸۔ احمد ۴)
(٣١٨٥٥) ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر (رض) نے فرمایا کہ بیشک وہ صاحب جن کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا : اگر میں کسی کو اپنا دوست بناتا تو ضرور ابوبکر کو دوست بناتا، انھوں نے دادا کو باپ کے قائم مقام قرار دیاے۔

31855

(۳۱۸۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : کَتَبَ ابْنُ الزُّبَیْرِ إلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ : إنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یَجْعَلُ الْجَدَّ أَبًا۔ (احمد ۴۔ ابویعلی ۶۷۷۲)
(٣١٨٥٦) ایک دوسری سند سے حضرت ابن زبیر (رض) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا یہ مسلک نقل فرمایا ہے۔

31856

(۳۱۸۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَسَأَلَہُ رَجُلٌ عَنِ الْجَدِّ ؟ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : أَیُّ أَبٍ لَک أَکْبَرُ ؟ فَلَمْ یَدْرِ الرَّجُلُ مَا یَقُولُ ، فَقُلْتُ أَنَا : آدَم ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : إنَّ اللَّہَ یَقُولُ : یَا بَنِی آدَمَ۔
(٣١٨٥٧) عبد الرحمن بن معقل فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس تھا کہ ان سے ایک آدمی نے دادا کے بارے میں سوال کیا، آپ نے اس سے فرمایا : تمہارا کون سا باپ بڑا ہے ؟ اس آدمی کو اس کا جواب سمجھ نہیں آیا، میں نے عرض کیا : حضرت آدم (علیہ السلام) ، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں : اے آدم کے بیٹو !

31857

(۳۱۸۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعُثْمَانَ : أَنَّہُمْ جَعَلُوا الْجَدَّ أَبًا۔
(٣١٨٥٨) حضرت طاؤس نے حضرت ابو بکر، ابن عباس اور حضرت عثمان (رض) کے بارے میں نقل فرمایا ہے کہ انھوں نے دادا کا حکم باپ جیسا ہی قرار دیا ہے۔

31858

(۳۱۸۵۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّہُ جَعَلَہُ أَبًا۔
(٣١٨٥٩) عطاء بھی حضرت ابن عباس (رض) کا یہی مسلک نقل کرتے ہیں۔

31859

(۳۱۸۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ : أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَفْرِضُ لِلْجَدِّ الَّذِی یَفْرِضُ لَہُ النَّاسُ الْیَوْمَ ، قُلْتُ لَہُ : یَعْنِی : قَوْلَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٣١٨٦٠) قبیصہ بن ذؤیب سے منقول ہے کہ حضرت عمر (رض) دادا کے لیے وہی حصّہ مقرر فرماتے تھے جو آج کل کیا جاتا ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی مراد حضرت زید بن ثابت (رض) کی رائے ہے ؟ انھوں نے فرمایا : جی ہاں !

31860

(۳۱۸۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : الْجَدُّ بِمَنْزِلَۃِ الأَبِ مَا لَمْ یَکُنْ أَبٌ دُونَہُ ، وَابْنُ الاِبْنِ بِمَنْزِلِہِ الاِبْنِ مَا لَمْ یَکُنَ ابْنٌ دُونَہُ۔
(٣١٨٦١) عطاء حضرت ابوبکر (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ دادا باپ کے درجے میں ہے جب تک اس کے نیچے باپ موجود نہ ہو، اور پوتا بیٹے کی طرح ہے جبکہ بیٹا موجود نہ ہو۔

31861

(۳۱۸۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لأَبِی وَائِلٍ : إنَّ أَبَا بُرْدَۃَ یَزْعُمُ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا ؟ فَقَالَ : کَذَبَ ، لَوْ جَعَلَہُ أَبًا لَمَا خَالَفَہُ عُمَرُ۔
(٣١٨٦٢) اسماعیل بن سمیع کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابو وائل سے پوچھا کہ حضرت ابو بردہ یہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے دادا کو باپ جیسا قرار دیا ہے ؟ فرمانے لگے : اس نے جھوٹ کہا : اگر انھوں نے اس کو باپ جیسا قرار دیا ہوتا تو حضرت عمر (رض) ان کی مخالفت نہ کرتے۔

31862

(۳۱۸۶۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ : أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنَّ ابْنَ ابْنِی مَاتَ فَمَا لِی مِنْ مِیرَاثِہِ ؟ قَالَ : لَکَ السُّدُسُ ، فَلَمَّا أَدْبَرَ دَعَاہُ ، قَالَ : لَک سُدُسٌ آخَرُ ، فَلَمَّا أَدْبَرَ دَعَاہُ ، قَالَ : إنَّ السُّدُسَ الآخَر طُعْمَۃٌ۔ (ابوداؤد ۲۸۸۸۔ احمد ۴۲۸)
(٣١٨٦٣) حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا پوتا فوت ہوگیا ہے، مجھے اس کی میراث میں سے کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : تمہارے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہے، جب وہ مڑا تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا : تمہارے لیے ایک اور چھٹا حصّہ ہے۔ جب وہ مڑا تو آپ نے پھر اس کو بلوایا اور فرمایا : دوسرا چھٹا حصّہ بطور عطیہ کے ہے۔

31863

(۳۱۸۶۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ الْمُزَنِیّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِفَرِیضَۃٍ فِیہَا جَدٌّ فَأَعْطَاہُ ثُلُثًا أَوْ سُدُسًا۔ (ابن ماجہ ۶۷۲۲۔ طبرانی ۵۳۶)
(٣١٨٦٤) حضرت معقل بن یسار مُزَنی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس وقت سنا جب آپ کے پاس میراث کا ایک مسئلہ لایا گیا جس میں دادا کا بھی ذکر تھا، آپ نے اس کو ایک تہائی مال یا مال کا چھٹا حصّہ دلایا۔

31864

(۳۱۸۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّ عُمَرَ ، قَالَ : مَنْ یَعْلَم قَضِیَّۃَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْجَدِّ ؟ فَقَالَ : مَعْقِلُ بْنُ یَسَارٍ الْمُزَنِیّ : فِینَا قَضَی بِہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا ذَاک ؟ قَالَ : السُّدُسُ ، قَالَ : مَعَ مَنْ ؟ قَالَ لاَ أَدْرِی ، قَالَ : لاَ دَرَیْت ، فَمَا تُغْنِی إذًا۔
(٣١٨٦٥) حسن (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کون جانتا ہے کہ دادا کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ارشاد فرمایا ؟ حضرت معقل بن یسار (رض) نے عرض کی کہ ہمارے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ فرمایا تھا، آپ نے پوچھا، کیا فیصلہ فرمایا تھا ؟ انھوں نے جواب دیا کہ مال کے چھٹے حصّے کا، آپ نے پوچھا : کن رشتہ داروں کی موجودگی میں ؟ انھوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں، آپ نے فرمایا : تجھے کچھ معلوم نہ ہو ، بھلا پھر اس بات کے معلوم ہونے کا کیا فائدہ ہے۔

31865

(۳۱۸۶۶) حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن عِیَاضٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : کُنَّا نُوَرِّثُہُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ یَعْنِی : الْجَدَّ۔ (ابویعلی ۱۰۹۰)
(٣١٨٦٦) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دادا کو وارث بنایا کرتے تھے۔

31866

(۳۱۸۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ لاَ یَزِیدُ الْجَدَّ مَعَ الْوَلَدِ عَلَی السُّدُسِ۔
(٣١٨٦٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) دادا کو اولاد کے ہوتے ہوئے چھٹے حصّے سے زیادہ نہیں دیا کرتے تھے۔

31867

(۳۱۸۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عُبَیْدِ بْنِ نُضَیْلَۃَ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ وَعَبْدُ اللہِ یُقَاسِمَانِ بِالْجَدِّ مَعَ الإِخْوَۃِ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَنْ یَکُونَ السُّدُسُ خَیْرًا لَہُ مِنْ مُقَاسَمَتِہِمْ ، ثُمَّ إنَّ عُمَرَ کَتَبَ إلَی عَبْدِ اللہِ : مَا أَرَی إلاَّ أَنَّا قَدْ أَجْحَفْنَا بِالْجَدِّ ، فَإِذَا جَائَک کِتَابِی ہَذَا فَقَاسِمِ بِہِ مَعَ الإِخْوَۃِ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَنْ یَکُونَ الثُّلُثُ خَیْرًا لَہُ مِنْ مُقَاسَمَتِہِمْ ، فَأَخَذَ بِہِ عَبْدُ اللہِ۔
(٣١٨٦٨) عُبید بن نضیلہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) بھائیوں کے ہوتے ہوئے دادا کے حصّے کو تقسیم کرتے تھے، اور اس کو وہ مال دلاتے جو چھٹے حصّے اور بھائیوں کے حصّے میں شراکت میں سے اس کے لیے زیادہ بہتر ہوتا، پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت عبداللہ کو لکھا کہ میرا خیال ہے کہ ہم نے دادا کو مفلس کردیا ہے، پس جب آپ کے پاس میرا یہ خط پہنچے تو آپ اس کو بھائیوں کے ساتھ تقسیم کا حصہ دار بنا دیجئے، اس طرح کہ ایک تہائی مال اور تقسیم میں ان کے ساتھ شرکت میں سے جو اس کے لیے زیادہ بہتر ہو وہ اس کو دلائیے، حضرت عبداللہ (رض) نے اس بات کو قبول فرما لیا۔

31868

(۳۱۸۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یُشَرِّکُ الْجَدَّ مَعَ الإِخْوَۃِ ، فَإِذَا کَثُرُوا وَفَّاہ الثُّلُثَ ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ عَلْقَمَۃُ أَتَیْتُ عَبِیدَۃَ ، فَحَدَّثَنِی أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ کَانَ یُشَرِّکُ الْجَدَّ مَعَ الإِخْوَۃِ ، فَإِذَا کَثُرُوا وَفَّاہُ السُّدُسَ ، فَرَجَعْت مِنْ عِنْدِہِ وَأَنَا خَاثِرٌ۔ فَمَرَرْت بِعُبَیْدِ بْنِ نُضَیْلَۃَ فَقَالَ : مَا لِی أَرَاک خَاثِراً ؟ قَالَ : قُلْتُ : کَیْفَ لاَ أَکُونُ خَاثِرًا ، فَحَدَّثْتہ ، فَقَالَ : صَدَقَاک کِلاَہُمَا ، قُلْتُ : لِلَّہِ أَبُوک وَکَیْفَ صَدَقَانِی کِلاَہُمَا ، قَالَ : کَانَ رَأْیُ عَبْدِ اللہِ وَقِسْمَتُہُ أَنْ یُشَرِّکَہُ مَعَ الإِخْوَۃِ ، فَإِذَا کَثُرُوا وَفَّاہُ السُّدُسَ ، ثُمَّ وَفَدَ إلَی عُمَرَ فَوَجَدَہُ یُشَرِّکُہُ مَعَ الإِخْوَۃِ ، فَإِذَا کَثُرُوا وَفَّاہُ الثُّلُثَ ، فَتَرَکَ رَأْیَہُ وَتَابَعَ عُمَرَ۔
(٣١٨٦٩) حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک بنایا کرتے تھے ، لیکن جب بھائی تعداد میں زیادہ ہوتے تو آپ اس کو ایک تہائی مال دلاتے، ابراہیم راوی فرماتے ہیں کہ جب علقمہ کی وفات ہوئی تو میں حضرت عُبِیدہ کے پاس آیا ، انھوں نے مجھ سے یہ بیان فرمایا کہ حضرت ابن مسعود (رض) دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک بنایا کرتے تھے، اور جب بھائی زیادہ ہوتے تو اس کو مال کا حصّہ دلاتے، فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میں ان کے پاس سے اس حال میں لوٹا کہ میری طبیعت بوجھل تھی۔
پھر میں حضرت عبید بن نضیلہ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ آپ کی طبیعت میں سستی کیسی ہے ؟ میں نے کہا : کیوں نہ ہو جبکہ اس طرح واقعہ پیش آیا ہے ، پھر میں نے ان سے پوری بات بیان کی ، انھوں نے فرمایا کہ ان دونوں نے تمہیں سچ بتلایا، میں نے کہا : آپ کی کیا بات ہے ! دونوں نے کیسے سچ کہا ؟ فرمانے لگے : حضرت عبداللہ (رض) کی رائے یہ تھی کہ دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک کردیا جائے، اور جب وہ بڑھ جائیں تو اس کو مال کا چھٹا حصّہ دلا دیا جائے، پھر وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے تو انھیں دیکھا کہ وہ دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک کرتے ہیں اور جب بھائی زیاد ہ ہوجائیں تو دادا کو ایک تہائی مال دلاتے ہیں، تو آپ نے اپنی رائے چھوڑ دی اور حضرت عمر (رض) کی رائے پر عمل کرنے لگے۔

31869

(۳۱۸۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ کَانَ یُقَاسِمُ بِالْجَدِّ الإِخْوَۃَ إلَی السُّدُسِ۔
(٣١٨٧٠) عبداللہ بن سلِمَہ کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک کرتے تھے کل مال کے چھٹے حصّے تک۔

31870

(۳۱۸۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ أُتِیَ فِی سِتَّۃِ إخْوَۃٍ وَجَدٍّ ، فَأَعْطَی الْجَدَّ السُّدُسَ۔
(٣١٨٧١) شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس چھ بھائیوں اور ایک دادا کے بارے میں مسئلہ لایا گیا تو آپ نے دادا کو مال کا چھٹا حصّہ دیا۔

31871

(۳۱۸۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ إلَی عَلِیٍّ یَسْأَلُہُ عَنْ سِتَّۃِ إخْوَۃٍ وَجَدٍّ ؟ فَکَتَبَ إلَیْہِ : أَنِ اجْعَلْہُ کَأَحَدِہِمْ ، وَامْحُ کِتَابِی۔
(٣١٨٧٢) شعبی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت علی (رض) کو لکھا کہ چھ بھائیوں اور دادا کی موجودگی میں میراث کیسے تقسیم ہوگی ؟ انھوں نے جواب دیا کہ دادا کو ان بھائیوں میں سے ایک کی طرح بنادیں اور میرا خط مٹا دیں۔

31872

(۳۱۸۷۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : أَنَّ زَیْدًا کَانَ یُقَاسِمُ بِالْجَدِّ مَعَ الإِخْوَۃِ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٨٧٣) ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت زید (رض) دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک کرتے اور ایک تہائی مال دلاتے تھے۔

31873

(۳۱۸۷۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ : أَنَّہُمَا کَانَا یُقَاسِمَانِ الْجَدَّ مَعَ الإِخْوَۃِ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الثُّلُثِ۔
(٣١٨٧٤) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک کرتے اور ایک تہائی مال دلاتے۔

31874

(۳۱۸۷۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ: أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یُقَاسِمُ الْجَدَّ مَعَ الإِخْوَۃِ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ السُّدُسِ۔
(٣١٨٧٥) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک کرتے اور مال کا چھٹا حصّہ دلاتے تھے۔

31875

(۳۱۸۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ : إنَّا قَدْ خَشِینَا أَنْ نَکُونَ قَدْ أَجْحَفْنَا بِالْجَدِّ ، فَأَعْطِہِ الثُّلُثَ مَعَ الإِخْوَۃِ۔
(٣١٨٧٦) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو لکھا کہ مجھے ڈر ہے کہ ہم نے دادا کو مفلس ہی کردیا ہے اس لیے اس کو بھائیوں کے ساتھ شریک کرو یا ایک تہائی مال دلاؤ۔

31876

(۳۱۸۷۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّ زَیْدًا کَانَ یَقُول : یُقَاسَمُ الْجَدَّ مَعَ الْوَاحِدِ وَالاِثْنَیْنِ، فَإِذَا کَانُوا ثَلاَثَۃً کَانَ لَہُ ثُلُثُ جَمِیعِ الْمَالِ ، فَإِنْ کَانَ مَعَہُ فَرَائِضُ نُظِرَ لَہُ ، فَإِنْ کَانَ الثُّلُثُ خَیْرًا لَہُ أُعْطِیَہُ ، وَإِنْ کَانَتِ الْمُقَاسَمَۃُ خَیْرًا لَہُ قَاسَمَ ، وَلاَ یُنْتَقَصُ مِنْ سُدُسِ جَمِیعِ الْمَالِ۔
(٣١٨٧٧) حسن روایت کرتے ہیں کہ حضرت زید (رض) فرمایا کرتے تھے کہ دادا ایک دو بھائیوں کے ساتھ مال کی تقسیم میں شریک ہوگا، اور جب بھائی تین ہوں تو اس کو پورے مال کا ایک تہائی حصّہ دیا جائے گا، اور اگر اس کے کئی حصّے ہوں تو دیکھا جائے گا کہ اگر ایک تہائی مال اس کے لیے بہتر ہوگا تو اس کو دے دیا جائے گا اور اگر بھائیوں کے ساتھ شرکت بہتر ہوگی تو شریک کردیا جائے گا، اور اس کا حصّہ مال کے چھٹے حصّے سے کم نہیں کیا جائے گا۔

31877

(۳۱۸۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ وَزَیْدٌ یَجْعَلاَنِ لِلْجَدِّ الثُّلُثَ وَلِلإِخْوَۃِ الثُّلُثَیْنِ ، وَفِی رَجُلٍ تَرَکَ أَرْبَعَۃَ إخْوَۃٍ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ وَأُخْتَیْہِ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ وَجَدِّہِ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَجْعَلُہَا أَسْہُمًا أَسْدَاسًا لِلْجَدِّ السُّدُسَ ، لَمْ یَکُنْ عَلِیٌّ یَجْعَلُ لِلْجَدِّ أَقَلَّ مِنَ السُّدُسِ مَعَ الإِخْوَۃِ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ ، وَکَانَ عَبْدُ اللہِ وَزَیْدٌ یُعْطِیَانِ الْجَدَّ الثُّلُثَ وَالإِخْوَۃَ الثُّلُثَیْنِ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ ، وَقَالَ فِی خَمْسَۃِ إخْوَۃٍ وَجَدٍّ ، قَالَ : فَلِلْجَدِّ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ السُّدُسُ ، وَلِلإِخْوَۃِ خَمْسَۃُ أَسْدَاسٍ ، وَکَانَ عَبْدُ اللہِ وَزَیْدٌ یُعْطِیَانِ الْجَدَّ الثُّلُثَ ، وَالإِخْوَۃَ الثُّلُثَیْنِ۔
(٣١٨٧٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) اور حضرت زید (رض) دادا کے لیے ایک تہائی مال مقرر فرمایا کرتے تھے اور بھائیوں کے لیے دو تہائی مال، اور اس مسئلے میں کہ جب آدمی اپنے حقیقی بھائیوں اور دو حقیقی بہنوں اور دادا کو چھوڑ کر مرے، حضرت علی (رض) مال کو چھ حصّوں پر تقسیم کردیا کرتے تھے، اور دادا کو چھٹا حصّہ دلایا کرتے تھے، اور حضرت علی (رض) بھائیوں کی موجودگی میں دادا کا حصّہ چھٹے حصّے سے کم نہیں کیا کرتے تھے، اور باقی مال اس ضابطے پر تقسیم ہوتا کہ مرد کو عورت سے دوگنا حصّہ دیا جاتا، اور حضرت عبداللہ اور حضرت زید (رض) دادا کو ایک تہائی مال دیا کرتے تھے، اور بھائیوں کو دو تہائی مال، اس ضابطے پر کہ مرد کو عورت سے دوگنا حصّہ دیا جائے، اور حضرت ابراہیم نے پانچ بھائیوں اور ایک دادا کے مسئلے کے بارے میں فرمایا کہ حضرت علی (رض) کے قول میں دادا کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہے اور بھائیوں کے لیے بقیہ پانچ حصّے ، اور حضرت عبداللہ (رض) اور زید (رض) دادا کو ایک تہائی مال اور بھائیوں کو دو تہائی مال دلایا کرتے تھے۔

31878

(۳۱۸۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ لاَ یَزِیدُ الْجَدَّ عَلَی السُّدُسِ مَعَ الإِخْوَۃِ ، قَالَ : فَقُلْتُ لَہُ : شَہِدْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَعْطَاہُ الثُّلُثَ مَعَ الإِخْوَۃِ ، فَأَعْطَاہُ الثُّلُثَ۔
(٣١٨٧٩) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) دادا کو بھائیوں کے ہوتے ہوئے مال کے چھٹے حصّے سے زیادہ نہیں دیا کرتے تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا ہے کہ دادا کو بھائیوں کی موجودگی میں ایک تہائی مال دیتے تھے، تو حضرت نے اس کو ایک تہائی مال دلانا شروع فرما دیا

31879

(۳۱۸۸۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، قَالَ : إنَّ أَوَّلَ جَدٍّ ورِّثَ فِی الإسْلاَمِ : عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَأَرَادَ أَنْ یَحْتَازَ الْمَالَ ، فَقُلْتُ لَہُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إنَّہُمْ شَجَرَۃٌ دُونَک۔ یَعْنِی : بَنِی بَنِیہِ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ مِنْ ثَلاَثَۃِ أَسْہُمٍ ، فَلِلْجَدِّ الثُّلُثُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلإِخْوَۃِ ، وَفِی قَوْلِ عَلِیٍّ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ : لِلْجَدِّ السُّدُسُ سَہْمٌ ، وَلِلإِخْوَۃِ خَمْسَۃُ أَسْہُمٍ۔
(٣١٨٨٠) حضرت عبد الرحمن بن غنم کہتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلا دادا جو وارث بنایا گیا وہ عمر بن خطاب (رض) تھے، انھوں نے ارادہ کیا کہ تمام مال لے لیں ، میں نے کہا اے امیر المؤمنین ! پوتے آپ کے لیے رکاوٹ ہیں۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت عمر (رض) ، حضرت عبداللہ (رض) اور حضرت زید (رض) کے قول میں تین حصّوں سے نکلے گا، ایک تہائی مال دادا کے لیے ہوگا اور باقی مال بھائیوں کے لئے، اور حضرت علی (رض) کے قول میں چھ حصّوں سے نکلے گا ، دادا کے لیے چھٹا حصّہ اور بھائیوں کے لیے بقیہ پانچ حصّے۔

31880

(۳۱۸۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ : فِی أُخْتٍ وَجَدٍّ : النِّصْفُ ، وَالنِّصْفُ۔
(٣١٨٨١) ابراہیم حضرت عبداللہ (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ بہن اور دادا کے مسئلے میں دونوں کو آدھا آدھا ملے گا۔

31881

(۳۱۸۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ جَدَّہُ وَأَخَاہُ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ : فَلِلْجَدِّ النِّصْفُ وَلأَخِیہِ النِّصْفُ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ ، قَالُوا فِی رَجُلٍ تَرَکَ جَدَّہُ وَإِخْوَیہ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ : فَلِلْجَدِّ الثُّلُثُ وَلِلإِخْوَۃِ الثُّلُثَانِ فِی قَوْلِہِمْ جَمِیعًا۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ مِنْ سَہْمَیْنِ إذَا کَانَتْ أُخْتٌ ، أَوْ أَخٌ وَجَدٌّ ، فَلِلْجَدِّ النِّصْفُ ، وَلِلأُخْتِ - أَو الأَخِ - النِّصْفُ ، وَإِنْ کَانَا أَخَوَیْنِ فَلِلْجَدِّ الثُّلُثُ ، وَلِلأَخَوَیْنِ الثُّلُثَانِ۔
(٣١٨٨٢) فضیل حضرت ابراہیم سے اس مسئلے کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے دادا اور حقیقی بھائی کو چھوڑ جائے، کہ دادا اور بھائی دونوں حضرت علی، عبداللہ اور زید (رض) کے اقوال کے مطابق آدھے آدھے مال کے مستحق ہوں گے، اور اس آدمی کے بارے میں جو دادا اور دو حقیقی بھائی چھوڑ جائے یہ حضرات فرماتے ہیں کہ دادا کے لیے ایک تہائی مال اور بھائیوں کے لیے دو تہائی مال ہوگا۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ دو حصّوں سے نکلے گا اس صورت میں جبکہ ورثاء میں بہن یا بھائی اور دادا ہوں، تو دادا کے لیے آدھا مال ہے، اور بہن یا بھائی کے لیے بھی آدھا مال ہے، اور اگر وارث ( ایک کی بجائے) دو بھائی ہوں تو دادا کے لیے ایک تہائی مال اور دونوں بھائیوں کے لیے دو تہائی مال ہے۔

31882

(۳۱۸۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ جَدَّہُ ، وَابْنَ أَخِیہِ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ : فَلِلْجَدِّ الْمَالُ فِی قَضَائِ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ۔ فَہَذِہِ مِنْ سَہْمٍ وَاحِدٍ وَہُوَ الْمَالُ کُلُّہُ۔
(٣١٨٨٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی اپنے دادا اور حقیقی بھتیجے کو چھوڑ کر مرے تو حضرت علی (رض) ، عبداللہ (رض) اور زید (رض) کے فیصلے میں مال دادا کو ملے گا
یہ مسئلہ ایک حصّے سے ہی نکلے گا، یعنی تمام مال دادا کے لیے ہوگا۔

31883

(۳۱۸۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ جَدَّہُ وَأَخَاہُ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ وَأَخَاہُ لأَبِیہِ : فَلِلْجَدِّ النِّصْفُ ، وَلأَخِیہِ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ النِّصْفُ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ ، وَکَانَ زَیْدٌ یُعْطِی الْجَدَّ الثُّلُثَ، وَالأَخَ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ الثُّلُثَیْنِ ، قَاسَمَ بِالأَخِ مِنَ الأَبِ مَعَ الأَخِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ ، وَلاَ یَرِثُ شَیْئًا۔
(٣١٨٨٤) حضرت ابراہیم اس آدمی کے بارے میں فرماتے ہیں جو اپنے دادا اور حقیقی بھائی اور باپ شریک بھائی کو چھوڑ کر مرجائے کہ دادا کے لیے آدھا مال ہوگا اور آدھا مال حقیقی بھائی کے لیے ہوگا، یہ حضرت علی (رض) اور عبداللہ (رض) کا قول ہے، اور حضرت زید (رض) دادا کو ایک تہائی مال دیتے تھے، اور حقیقی بھائی کو دو تہائی مال دیتے تھے، آپ نے تقسیم میں تو باپ شریک بھائی کو حقیقی بھائی کے ساتھ شریک کیا، لیکن باپ شریک بھائی کو وارث نہیں بنایا۔

31884

(۳۱۸۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یُقَاسِمُ بِالْجَدِّ الأُخْوَۃَ إلَی الثُّلُثِ ، وَیُعْطِی کُلَّ صَاحِبِ فَرِیضَۃٍ فَرِیضَتَہُ ، وَلاَ یُوَرِّثُ الأُخْوَۃَ مِنَ الأُمِّ مَعَ الْجَدِّ ، وَلاَ یُقَاسِمُ بِالأُخْوَۃِ لِلأَبِ الأُخْوَۃُ لِلأَبِ وَالأُمِّ مَعَ الْجَدِّ ، وَإِذَا کَانَتْ أُخْتٌ لأَبٍ وَأُمٌّ وَأُخْتٌ لأَبٍ وَجَدٌّ ، أَعْطَی الأُخْتَ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ النِّصْفَ ، وَالْجَدَّ النِّصْفَ۔ وَکَانَ عَلِیٌّ یُقَاسِمُ بِالْجَدِّ الأُخْوَۃَ إلَی السُّدُسِ ، وَیُعْطِی کُلَّ صَاحِبِ فَرِیضَۃٍ فَرِیضَتَہُ ، وَلاَ یُوَرِّثُ الأخْوَۃَ مِنَ الأُمِّ مَعَ الْجَدِّ ، وَلاَ یَزِیدُ الْجَدَّ مَعَ الْوَلَدِ عَلَی السُّدُسِ إلاَّ أَنْ لاَ یَکُونَ غَیْرَہُ ، فَإِذَا کَانَتْ أُخْتٌ لأَبٍ وَأَمٍّ ، وَأَخٌ وَأُخْتٌ لأَبٍ ، وَجَدٌّ ، أَعْطَی الأُخْتَ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ النِّصْفَ ، وَقَاسَمَ بِالأَخِ وَالأُخْتِ الْجَدَّ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ مِنْ سَہْمَیْنِ ، وَفِی قَوْلِ زَیْدٍ مِنْ ثَلاَثَۃِ أَسْہُمٍ۔
(٣١٨٨٥) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) دادا کو بھائیوں کے ساتھ مال کی تقسیم میں شریک کیا کرتے تھے ، اور ہر حق دار کو اس کا حق دیا کرتے تھے ، اور دادا کی موجودگی میں ماں شریک بھائی کو وارث نہیں بناتے تھے، اور دادا کے ساتھ حقیقی بھائیوں کی تقسیم میں شرکت کی صورت میں باپ شریک بھائی کو تقسیم کا حصّہ نہیں بناتے تھے ، اور جب حقیقی بہن اور باپ شریک بہن اور دادا جمع ہوجاتے تو حقیقی بہن کو آدھا مال اور دادا کو بھی آدھا مال دلاتے تھے۔
اور حضرت علی (رض) دادا کو بھائیوں کے ساتھ مال کی تقسیم میں چھٹے حصّے تک شریک بناتے تھے ، اور ہر حق دار کو اس کا حق دلاتے، اور دادا کے ہوتے ہوئے ماں شریک بھائی کو وارث نہیں بناتے تھے ، اور اولاد کے ہوتے ہوئے دادا کو مال کے چھٹے حصّے سے زیادہ نہیں دیتے تھے، الّا یہ کہ دادا کے علاوہ کوئی اور وارث موجود نہ ہو، پس جب حقیقی بہن اور باپ شریک بھائی اور بہن اور دادا جمع ہوجائیں تو حقیقی بہن کو آدھا مال دیتے اور بھائی اور بہن کو دادا کے ساتھ تقسیم میں شریک بناتے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) اور عبداللہ (رض) کے قول میں دو حصّوں سے نکلے گا، اور حضرت زید (رض) کے قول میں تین حصّوں سے نکلے گا۔

31885

(۳۱۸۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : أَرَادَ عُبَیْدُ اللہِ بْنُ زِیَادٍ أَنْ یُوَرِّثَ الأُخْتَ مِنَ الأُمِّ مَعَ الْجَدِّ ، وَقَالَ : إنَّ عُمَرَ قَدْ وَرَّثَ الأُخْتَ مَعَہُ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُتْبَۃَ : إنِّی لَسْتُ بِسَبَئِیٍّ وَلاَ حَرُورِی ، فَاقْتَفِرِ الأَثَرَ ، فَإِنَّک لَنْ تُخْطِئَ فِی الطَّرِیقِ مَا دُمْت عَلَی الأَثَرِ۔
(٣١٨٨٦) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد نے یہ ارادہ کیا کہ ماں شریک بہن کو دادا کے ہوتے ہوئے وارث بنا دے، اور اس نے کہا کہ حضرت عمر (رض) نے دادا کے ساتھ ماں شریک بہن کو وارث بنایا تھا، تو حضرت عبداللہ بن عتبہ نے فرمایا کہ میں سبائی ہوں نہ خارجی، اس لیے تم حدیث کی پیروی کرو ، کیونکہ جب تک تم حدیث کی پیروی کرتے رہو گے سیدھے راستے سے نہیں بھٹکو گے۔

31886

(۳۱۸۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَا وَرَّثَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إخْوَۃً مِنْ أُمٍّ مَعَ جَدٍّ۔
(٣١٨٨٧) شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے کسی نے داد ا کے ہوتے ہوئے ماں شریک بہن کو وارث نہیں بنایا۔

31887

(۳۱۸۸۸) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ زَیْدٌ لاَ یُوَرِّثُ أَخًا لأُمٍّ ، وَلاَ أُخْتًا لأُمٍّ مَعَ جَدٍّ شَیْئًا۔
(٣١٨٨٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت زید (رض) ماں شریک بھائی اور ماں شریک بہن کو دادا کے ہوتے ہوئے وارث نہیں بناتے تھے۔

31888

(۳۱۸۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ وَعَبْدُ اللہِ لاَ یُوَرِّثَانِ الإِخْوَۃَ مِنَ الأُمِّ مَعَ الْجَدِّ شَیْئًا۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ مِنْ سَہْمٍ وَاحِدٍ لأَنَّ الْمَالَ کُلَّہُ لِلْجَدِّ۔
(٣١٨٨٩) حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) بھی دادا کے ہوتے ہوئے ماں شریک بھائیوں اور بہنوں کو کسی چیز کا وارث نہیں بناتے تھے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایک ہی حصّے سے نکلے گا، کیونکہ تمام مال دادا کے لیے ہوگا۔

31889

(۳۱۸۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَجْعَلُ الأَکْدَرِیَّۃَ مِنْ ثَمَانِیَۃٍ : لِلزَّوْجِ ثَلاَثَۃٌ ، وَثَلاَثَۃٌ لِلأُخْتِ ، وَسَہْمٌ لِلأُمِ ، وَسَہْمٌ لِلْجَدِّ۔ قَالَ : وَکَانَ عَلِیٌّ یَجْعَلُہَا مِنْ تِسْعَۃٍ : ثَلاَثَۃٌ لِلزَّوْجِ ، وَثَلاَثَۃٌ لِلأُخْتِ ، وَسَہْمَانِ لِلأُمِّ ، وَسَہْمٌ لِلْجَدِّ۔ وَکَانَ زَیْدٌ یَجْعَلُہَا مِنْ تِسْعَۃٍ : ثَلاَثَۃٌ لِلزَّوْجِ ، وَثَلاَثَۃٌ لِلأُخْتِ ، وَسَہْمَانِ لِلأُمِّ ، وَسَہْمٌ لِلْجَدِّ ، ثُمَّ یَضْرِبُہَا فِی ثَلاَثَۃٍ فَتَصِیرُ سَبْعَۃً وَعِشْرِینَ ، فَیُعْطِی الزَّوْجَ تِسْعَۃً ، وَالأُمَّ سِتَّۃً ، وَیَبْقَی اثْنَا عَشَرَ ، فَیُعْطِی الْجَدَّ ثَمَانِیَۃً ، وَیُعْطِی الأُخْتَ أَرْبَعَۃً۔
(٣١٨٩٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) ” اکدریّہ “ کے مسئلے کو آٹھ حصّوں سے نکالا کرتے تھے ، تین حصّے شوہر کے لئے، اور تین حصّے بہن کے لئے، اور ایک حصّہ ماں کے لیے اور ایک حصّہ دادا کے لئے، فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اس مسئلے کو نو حصّوں سے نکالتے تھے، تین حصّے شوہر کے لئے، اور تین حصّے بہن کے لئے، اور دو حصّے ماں کے لیے ، اور ایک حصّہ دادا کے لئے، اور حضرت زید (رض) بھی اس مسئلے کو نو حصّوں سے نکالتے تھے : تین حصّے شوہر کے لئے، تین حصّے بہن کے لئے، اور دو حصّے ماں کے لئے، اور ایک حصّہ دادا کے لئے، پھر وہ اس کو تین میں ضرب دیتے، اس طرح کل ٢٧ حصّے ہوجاتے ہیں، اس طرح شوہر کو نو حصّے، ماں کو چھ حصّے دیتے، باقی ١٢ حصّے بچتے ہیں ، دادا کو آٹھ حصّے اور بہن کو چار حصّے دیتے تھے۔

31890

(۳۱۸۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ بِمِثْلِ حَدِیثِ أَبِی مُعَاوِیَۃَ ، وَزَادَ فِیہِ : وَبَلَغَنِی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ کَانَ یَجْعَلُ الْجَدَّ وَالِدًا ، لاَ یَرِثُ الإِخْوَۃَ مَعَہُ شَیْئًا ، وَیَجْعَلُ لِلزَّوْجِ النِّصْفَ وَلِلْجَدِّ السُّدُسَ : سَہْمٌ ، وَلِلأُمِّ الثُّلُثُ : سَہْمَانِ۔
(٣١٨٩١) ابراہیم ایک دوسری سند سے حضرت علی (رض) ، عبداللہ (رض) اور زید (رض) سے گزشتہ حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں، اور انھوں نے اس میں یہ اضافہ فرمایا ہے : مجھے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ دادا کو باپ کے قائم مقام قرار دیتے کہ بھائی کو اس کے ہوتے ہوئے وارث نہیں بناتے تھے، اور شوہر کو آدھا مال دیتے، اور دادا کو ایک حصّہ یعنی مال کا چھٹا حصّہ دیتے، اور ماں کو ایک تہائی مال یعنی دو حصّے دیتے۔

31891

(۳۱۸۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ ، مِثْلَ حَدِیثِ أَبِی مُعَاوِیَۃَ۔
(٣١٨٩٢) حضرت ابراہیم سے ایک تیسری سند سے بھی گزشتہ سے پیوستہ حدیث کی طرح روایت منقول ہے۔

31892

(۳۱۸۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، قَالَ : قُلْتُ لِلأَعْمَشِ : لِمَ سُمِّیَت الأَکْدَرِیَّۃَ ؟ قَالَ : طَرَحَہَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ عَلَی رَجُلٍ یُقَالَ لَہُ : الأَکْدَرُ ، کَانَ یَنْظُرُ فِی الْفَرَائِضِ ، فَأَخْطَأَ فِیہَا ، فَسَمَّاہَا الأَکْدَرِیَّۃَ۔ قَالَ وَکِیعٌ : وَکُنَّا نَسْمَعُ قَبْلَ أَنْ یُفَسِّرَ سُفْیَانُ إنَّمَا سُمِّیَتِ الأَکْدَرِیَّۃَ ، لأَنَّ قَوْلَ زَیْدٍ تَکَدَّرَ فِیہَا ، لَمْ یُفَسِّر قَوْلَہُ۔
(٣١٨٩٣) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت اعمش سے عرض کیا کہ اس مسئلے کو ” اکدریّہ “ کیوں کہا جاتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ عبد الملک بن مروان نے اس مسئلے کو ایک ” اکدر “ نامی آدمی سے پوچھا تھا، اس نے اس میں غلطی کی تو اس نے اس کو مسئلہ ” اکدریّہ “ کا نام دے دیا۔
حضرت وکیع فرماتے ہیں کہ ہم حضرت سفیان کی اس تشریح سے پہلے یہ سمجھتے تھے کہ اس مسئلے کا نام اکدریّہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ حضرت زید (رض) کا اس مسئلے کے بارے میں فرمان گرد آلود ہے، یعنی انھوں نے اپنی بات کی وضاحت نہیں فرمائی۔

31893

(۳۱۸۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ رَجَائٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ۔ وَعَنْ سُفْیَانَ ، عَمَّنْ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ قَالَ فِی أُمٍّ ، وَأُخْتٍ لأَبٍ وَأَمٍّ ، وَجَدٍّ : إنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ : مِنْ تِسْعَۃِ أَسْہُمٍ : لِلأُمِّ ثَلاَثَۃٌ ، وَلِلْجَدِّ أَرْبَعَۃٌ ، وَلِلأُخْتِ سَہْمَانِ۔ وَإِنَّ عَلِیًّا قَالَ : لِلأُخْتِ النِّصْفُ : ثَلاَثَۃٌ ، وَلِلأُمِّ الثُّلُثُ : سَہْمَانِ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلْجَدِّ وَہُوَ سَہْمٌ۔ وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : لِلأُخْتِ النِّصْفُ : ثَلاَثَۃٌ ، وَلِلأُمِّ السُّدُسُ : سَہْمٌ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلْجَدِّ وَہُوَ سَہْمَانِ۔ وَقَالَ عُثْمَان : أَثْلاَثًا : ثُلُثٌ لِلأُمِ ، وَثُلُثٌ لِلأُخْتِ ، وَثُلُثٌ لِلْجَدِّ ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لِلأُمِّ الثُّلُثُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلْجَدِّ۔ قَالَ وَکِیعٌ : وَقَالَ الشَّعْبِیُّ : سَأَلَنِی الْحَجَّاجُ بْنُ یُوسُفَ عنہا ؟ فَأَخْبَرْتہ بِأَقَاوِیلِہِمْ فَأَعْجَبَہُ قَوْلُ عَلِیٍّ ، فَقَالَ: قَوْلُ مَنْ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : قَوْلُ أَبِی تُرَابٍ ، فَفَطِنَ الْحَجَّاجُ ، فَقَالَ : إنَّا لَمْ نَعِبْ عَلَی عَلِیٍّ قَضَائِہِ ، إنَّمَا عِبْنَا کَذَا وَکَذَا۔
(٣١٨٩٤) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت (رض) نے ماں، حقیقی بہن اور دادا کے مسئلے کے بارے میں فرمایا کہ ان کا مسئلہ نو حصّوں سے نکلے گا، تین حصّے ماں کے لئے، چار حصّے دادا کے لئے، اور دو حصّے بہن کے لئے، اور حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ نصف مال بہن کے لیے یعنی کل مال کے تین حصّے، اور ماں کے لیے دو حصّے یعنی ایک تہائی مال، اور باقی مال یعنی ایک حصّہ دادا کے لیے ہوگا، اور حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ بہن کے لیے نصف مال یعنی تین حصّے، اور ماں کے لیے چھٹا حصّہ یعنی ایک حصّہ ، اور باقی مال داد ا کے لیے یعنی دو حصّے ہوں گے، اور حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ مال کو تین حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا، ایک تہائی ماں کے لئے، ایک تہائی بہن کے لیے اور ایک تہائی دادا کے لئے، اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ایک تہائی مال ماں کے لیے اور باقی مال دادا کے لیے ہوگا۔
حضرت وکیع فرماتے ہیں کہ شعبی نے فرمایا کہ حجّاج بن یوسف نے مجھ سے اس مسئلہ کے بارے میں سوال کیا تو میں نے اس کو ان حضرات کے اقوال بتلا دیے، اس کو حضرت علی (رض) کا قول بہت اچھا لگا، پوچھنے لگا کہ یہ کس کا قول ہے ؟ میں نے کہا : حضرت ابو تراب (رض) کا، اس پر حجّاج سنبھلا اور کہنے لگا کہ ہم حضرت علی (رض) کے فیصلے پر عیب نہیں لگاتے، ہم تو ان کی فلاں فلاں بات کو معیوب سمجھتے ہیں۔

31894

(۳۱۸۹۵) حَدَّثَنَا ابْنِ فُضَیْلٌ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ أُخْتَہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا ، وَجَدَّہَا ، وَأُمَّہَا ، فَلأُخْتِہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا النِّصْفُ ، وَلأُمِّہَا الثُّلُثُ ، وَلِلْجَدِّ السُّدُسُ فِی قَوْلِ عَلِی۔ وَکَانَ عَبْدُ اللہِ یَقُولُ : لِلأُمِّ السُّدُسُ ، وَلِلْجَدِّ الثُّلُثُ ، وَلِلأُخْتِ النِّصْفُ ، وَکَانَ عَبْدُ اللہِ یَقُولُ : لَمْ یَکُنِ اللَّہُ لِیَرَانِی أُفَضِّلُ أُمًّا عَلَی جَدٍّ فِی ہَذِہِ الْفَرِیضَۃِ وَلاَ فِی غَیْرِہَا مِنَ الْحُدُودِ۔ وَکَانَ زَیْدٌ یُعْطِی الأُمَّ الثُّلُثَ ، وَالأُخْتَ ثُلُثَ مَا بَقِیَ ، قَسَمَہَا زَیْدٌ عَلَی تِسْعَۃِ أَسْہُمٍ : لِلأُمِّ الثُّلُثُ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُخْتِ ثُلُثُ مَا بَقِیَ سَہْمَانِ ، وَلِلْجَدِّ أَرْبَعَۃُ أَسْہُمٍ۔ وَکَانَ عُثْمَان یَجْعَلُہَا بَیْنَہُمْ أَثْلاَثًا : لِلأُمِّ الثُّلُثُ ، وَلِلأُخْتِ الثُّلُثُ ، وَلِلْجَدِّ الثُّلُثُ۔ وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُولُ : الْجَدُّ بِمَنْزِلَۃِ الأَبِ۔
(٣١٨٩٥) حضرت ابراہیم اس عورت کے بارے میں جو اپنی حقیقی بہن، اور دادا اور ماں کو چھوڑ جائے کہ حضرت علی (رض) کے فرمان کے مطابق اس کی حقیقی بہن کے لیے آدھا مال اور اس کی ماں کے لیے ایک تہائی مال اور اس کے دادا کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہے۔
اور حضرت عبداللہ فرماتے تھے کہ ماں کے لیے چھٹا حصّہ ، دادا کے لیے ایک تہائی مال اور بہن کے لیے آدھا مال ہوگا، اور حضرت عبداللہ (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس حال میں نہیں دیکھیں گے کہ میں ماں کو اس مسئلے میں یا اس کے علاوہ کسی مسئلے میں دادا پر ترجیح دوں۔
اور حضرت زید (رض) ماں کو ایک تہائی مال دیتے تھے اور بہن کو بقیہ مال کا ایک تہائی دیتے تھے، اس مسئلے میں حضرت زید (رض) مال کو نو حصّوں پر تقسیم کرتے تھے، ماں کے لیے ایک تہائی مال یعنی تین حصّے، بہن کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی یعنی دو حصے ، اور دادا کے لیے چار حصّے۔
اور حضرت عثمان (رض) مال کو ورثاء کے درمیان تین حصّوں میں تقسیم کرتے، ماں کے لیے ایک تہائی مال ، بہن کے لیے ایک تہائی اور دادا کے لیے بھی ایک تہائی۔
اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے تھے کہ دادا باپ کے درجے میں ہے۔

31895

(۳۱۸۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یَقُولُ فِی أُخْتٍ وَأَمٍّ وَجَدٍّ : لِلأُخْتِ النِّصْفُ ، وَالنِّصْفُ الْبَاقِی بَیْنَ الْجَدِّ وَالأُمِّ۔
(٣١٨٩٦) عمرو بن مرّہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) بہن، ماں اور دادا کے مسئلے کے بارے میں فرماتے تھے کہ بہن کے لیے آدھا مال ہے اور بقیہ آدھا مال دادا اور ماں کے درمیان تقسیم ہوگا۔

31896

(۳۱۸۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عُمَرَ : فِی أُخْتٍ وَأَمٍّ وَجَدٍّ ، قَالَ : لِلأُخْتِ النِّصْفُ ، وَلِلأُمِّ السُّدُسُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلْجَدِّ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ تِسْعَۃِ أَسْہُمٍ۔
(٣١٨٩٧) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) بہن، ماں اور دادا کے مسئلے کے بارے میں فرماتے تھے کہ بہن کو آدھا مال ، ماں کو چھٹا حصّہ اور دادا کو بقیہ مال دیا جائے گا،
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) اور عبداللہ (رض) کے قول میں چھ حصّوں سے اور حضرت زید بن ثابت (رض) کے قول میں نو حصّوں سے نکلے گا۔

31897

(۳۱۸۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ : أَنَّہُ قَالَ فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ وَجَدٍّ : أَعْطَی الاِبْنَۃَ النِّصْفَ ، وَجَعَلَ مَا بَقِیَ بَیْنَ الْجَدِّ وَالأُخْتِ ، لَہُ نِصْفٌ ، وَلَہَا نِصْفٌ۔ وَسُئِلَ عَنِ ابْنَۃٍ ، وَأُخْتَیْنِ ، وَجَدٍّ ، فَأَعْطَی الْبِنْتَ النِّصْفَ ، وَجَعَلَ مَا بَقِیَ بَیْنَ الْجَدِّ وَالأُخْتَیْنِ ، لَہُ نِصْفٌ وَلَہُمَا نِصْفٌ۔ وَسُئِلَ عَنِ ابْنَۃٍ وَثَلاَثَۃِ أَخَوَاتٍ وَجَدٍّ ، فَأَعْطَی الْبِنْتَ النِّصْفَ ، وَجَعَلَ لِلْجَدِّ خُمُسَیْ مَا بَقِیَ وَأَعْطَی الأَخَوَاتِ خُمُسًا خُمُسًا۔
(٣١٨٩٨) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے بیٹی، بہن اور دادا کے مسئلے کے بارے میں فرمایا کہ بیٹی کو آدھا مال دیا جائے، اور باقی مال دادا اور بہن کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا جائے۔
اور آپ سے بیٹی ، دو بہنوں اور دادا کے مسئلے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے آدھا مال بیٹی کو اور باقی مال دادا اور دو بہنوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کیے جانے کا فیصلہ فرمایا،
اور ایک موقع پر آپ سے بیٹی، تین بہنوں اور دادا کے مسئلے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے بیٹی کو آدھا مال اور دادا کو بقیہ مال کے دو پانچویں حصّے اور ہر بہن کو پانچواں حصّہ دینے کا فیصلہ فرمایا۔

31898

(۳۱۸۹۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبِیدَۃَ : فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ وَجَدٍّ ، قَالَ : ہِیَ مِنْ أَرْبَعَۃٍ : سَہْمَانِ لِلْبِنْتِ ، وَسَہْمٌ لِلْجَدِّ ، وَسَہْمٌ لِلأُخْتِ ، قُلْتُ لَہُ : فَإِنْ کَانَتَا أُخْتَیْنِ ؟ قَالَ : جَعَلَہَا عَبِیدَۃُ مِنْ أَرْبَعَۃٍ : لِلْبِنْتِ سَہْمَانِ ، وَسَہْمٌ لِلْجَدِّ ، وَلِلأُخْتَیْنِ سَہْمٌ ، قُلْتُ لَہُ : فَإِنْ کُنَّ ثَلاَث أَخَوَاتٍ ؟ قَالَ : جَعَلَہَا مَسْرُوقٌ مِنْ عَشَرَۃٍ : لِلْبِنْتِ خَمْسَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلْجَدِّ سَہْمَانِ ، وَلِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُنَّ سَہْمٌ سَہْمٌ۔
(٣١٨٩٩) ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت عَبِیدہ نے بیٹی، بہن اور دادا کے مسئلے کے بارے میں فرمایا کہ یہ چار حصّوں سے نکلے گا، دو حصّے بیٹی کے لئے، ایک حصّہ دادا کے لیے اور ایک حصّہ بہن کے لئے، راوی فرماتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے عرض کیا کہ اگر ایک بہن کی بجائے دو بہنیں ہوں ؟ فرمایا کہ اس کو بھی حضرت عَبِیدہ نے چار حصّوں سے نکالا ہے، بیٹی کے لیے دو حصّے ، دادا کے لیے ایک حصّہ اور دونوں بہنوں کے لیے ایک حصّہ، راوی کہتے ہیں میں نے ابراہیم سے عرض کیا کہ اگر بہنیں تین ہوں ؟ تو فرمایا کہ اس مسئلے کو حضرت مسروق نے دس حصّوں سے نکالا ہے، بیٹی کے لیے پانچ حصّے ، دادا کے لیے دو حصّے اور ہر بیٹی کے لیے ایک حصّہ۔

31899

(۳۱۹۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ : فِی بِنْتٍ وَثَلاَثِ أَخَوَاتٍ وَجَدٍّ ، قَالَ : مِنْ عَشَرَۃٍ : لِلْبِنْتِ النِّصْفُ خَمْسَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلْجَدِّ سَہْمَانِ ، وَلِکُلِّ أُخْتٍ سَہْمٌ۔
(٣١٩٠٠) ابراہیم ایک دوسری سند سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسروق نے بیٹی، تین بہنوں اور دادا کے مسئلے کے بارے میں فرمایا کہ یہ مسئلہ دس حصّوں سے نکلے گا، پانچ حصّے یعنی آدھا مال بیٹی کے لیے ، دادا کے لیے دو حصّے اور ہر بہن کے لیے ایک حصّہ۔

31900

(۳۱۹۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبِیدَۃَ : فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ وَجَدٍّ ، قَالَ: مِنْ أَرْبَعَۃٍ سہْمَانِ : لِلإِبْنِۃِ النِّصْفُ ، وَسَہْمٌ لِلْجَدِّ ، وَسَہْمٌ لِلأُخْتِ۔
(٣١٩٠١) حضرت ابراہیم حضرت عَبِیدہ سے بیٹی ، بہن اور دادا کے مسئلہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ یہ چار حصّوں سے نکلے گا، دو حصّے یعنی نصف مال بیٹی کے لیے اور ایک حصّہ دادا کے لیے اور ایک حصّہ بہن کے لئے۔

31901

(۳۱۹۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ : فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتَیْنِ وَجَدٍّ ، قَالَ : مِنْ ثَمَانِیَۃِ أَسْہُمٍ : لِلْبِنْتِ النِّصْفُ أَرْبَعَۃٌ ، وَلِلْجَدِّ سَہْمَانِ ، وَلِکُلِّ أُخْتٍ سَہْمٌ۔
(٣١٩٠٢) حضرت ابراہیم حضرت مسروق سے بیٹی ، دو بہنوں اور دادا کے مسئلے کے بارے میں روایت کرتے ہیں فرمایا کہ یہ مسئلہ آٹھ حصّوں سے نکلے گا، بیٹی کے لیے نصف مال یعنی چار حصّے اور دادا کے لیے دو حصّے اور ہر بہن کے لیے ایک حصّہ ہے۔

31902

(۳۱۹۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ ابْنَتَہُ وَأُخْتَہ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ وَجَدًّا ، فَلاِبْنَتِہِ النِّصْفُ ، وَلِجَدِّہِ السُّدُسُ ، وَمَا بَقِیَ فَلأُخْتِہِ فِی قَوْلِ عَلِی ، لَمْ یَکُنْ یَزِیدُ الْجَدَّ مَعَ الْوَلَدِ عَلَی السُّدُسِ شَیْئًا ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ لاِبْنَتِہِ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَبَیْنَ الأُخْتِ وَالْجَدِّ۔ فَإِنْ کَانَتَا أُخْتَانِ فَمَا بَقِیَ بَیْنَ الْجَدِّ وَالأُخْتَیْنِ فِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ ، وَفِی قَوْلِ عَلِیٍّ : لِلْجَدِّ السُّدُسُ ، وَللأُخْتَیْہِ مَا بَقِی ، وَإِنْ کُنَّ ثَلاَثَ أَخَوَاتٍ مَعَ الاِبْنَۃِ وَالْجَدِّ ، فَلِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ وَلِلْجَدِّ خُمُسَا مَا بَقِی ، وَلِلأَخَوَاتِ ثَلاَثَۃُ أَخْمَاسٍ فِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ مِنْ عَشَرَۃِ أَسْہُمٍ : خَمْسَۃٌ لِلْبِنْتِ وَسَہْمَانِ لِلْجَدِّ وَلِلأَخَوَاتِ سَہْمٌ ، سَہْمٌ۔
(٣١٩٠٣) فضیل حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ جو آدمی اپنی بیٹی، حقیقی بہن اور دادا کو چھوڑ جائے تو حضرت علی (رض) کے قول میں اس کی بیٹی کو آدھا مال، اس کے دادا کو چھٹا حصّہ اور بقیہ اس کی بہن کو دیا جائے گا، اور آپ دادا کو اولاد کے ہوتے ہوئے چھٹے حصّے سے زیادہ نہیں دلاتے تھے، اور حضرت عبداللہ (رض) کے قول کے مطابق اس کی بیٹی کو آدھا مال دیا جائے گا، اور بقیہ مال بہن اور دادا کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا،
اور اگر ( ایک کی بجائے) دو بہنیں ہوں تو حضرت عبداللہ (رض) اور زید (رض) کے فرمان کے مطابق بقیہ مال بہنوں اور دادا کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، اور حضرت علی (رض) کے قول کے مطابق دادا کے لیے مال کا چھٹا حصّہ اور اس کی دونوں بہنوں کے لیے بقیہ مال ہے۔
اور اگر بہنیں تین ہوں اور بیٹی اور دادا ہوں تو بیٹی کو آدھا مال دیا جائے گا، اور حضرت عبداللہ (رض) اور زید (رض) کے فرمان کے مطابق دادا کے لیے بقیہ مال کے د و پانچویں حصّے ( ٥/٢) ہوں گے اور بہنوں کے لیے بقیہ تین پانچویں حصّے ہوں گے،
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) کے فرمان کے مطابق دس حصّوں سے نکلے گا ، پانچ حصّے بیٹی کے لئے، دو حصّے دادا کے لیے اور بہنوں کے لیے ایک ایک حصّہ ہوگا۔

31903

(۳۱۹۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فِطْرٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ : کَیْفَ قَوْلُ عَلِیٍّ فِی ابْنَۃٍ وَأُخْتٍ وَجَدٍّ ؟ قَالَ : مِنْ أَرْبَعَۃٍ ، قَالَ : قُلْتُ : إنَّمَا ہَذِہِ فِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ۔
(٣١٩٠٤) فطر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے عرض کیا کہ یہی بات حضرت عبداللہ (رض) کے قول میں بھی ہے۔

31904

(۳۱۹۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ زَوْجَہَا وَأُمَّہَا وَأَخَاہَا لأَبِیہَا وَجَدِّہَا : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُمِّ الثُّلُثُ سَہْمَانِ ، وَلِلْجَدِّ سَہْمٌ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : لِلزَّوْجِ النِّصْفُ ، وَلِلأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِیَ سَہْمٌ ، وَلِلْجَدِّ سَہْمٌ ، وَلِلأَخِ سَہْمٌ ، وَإِنْ کَانَا أَخَوَانِ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ : فَلِلزَّوْجِ النِّصْفُ وَلِلأُمِّ سَہْمٌ ، وَلِلْجَدِّ سَہْمٌ ، وَبَقِیَ سَہْمٌ فَہُوَ لاِِخْوَتِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ وَعَبْدِ اللہِ۔
(٣١٩٠٥) حضرت ابراہیم اس عورت کے بارے میں فرماتے ہیں جو اپنے شوہر، ماں، باپ شریک بھائی اور دادا کو چھوڑ جائے کہ حضرت علی اور زید (رض) کے فرمان کے مطابق شوہر کو آدھا مال یعنی تین حصّے، ماں کو ایک تہائی مال یعنی دو حصّے اور دادا کو ایک حصّہ دیا جائے گا، اور حضرت عبداللہ (رض) کے فرمان میں شوہر کے لیے آدھا مال ، ماں کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی ، دادا کے لیے ایک حصّہ اور ایک حصّہ بھائی کے لیے ہے، اور اگر بھائی دو یا دو سے زیادہ ہوں تو شوہر کے لیے آدھا مال اور ماں اور دادا کے لیے ایک ایک حصّہ ہے، اور ایک حصّہ جو باقی بچے گا بھائیوں میں تقسیم کردیا جائے گا، یہ حضرت علی، زید اور عبداللہ (رض) کا قول ہے۔

31905

(۳۱۹۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ: أَتَیْنَا شُرَیْحًا فَسَأَلْنَاہُ عَنْ زَوْجٍ ، وَأَمٍّ ، وَأَخٍ، وَجَدٍّ ؟ فَقَالَ : لِلْبَعْلِ الشَّطْرُ ، وَلِلأُمِّ الثُّلُثُ ، ثُمَّ سَکَتَ ، ثُمَّ قَالَ الَّذِی عَلَی رَأْسِہِ : أَنَّہُ لاَ یَقُولُ فِی الْجَدِّ شَیْئًا ، قَالَ : فَأَتَیْنَا عَبِیدَۃَ فَقَسَمَہَا مِنْ سِتَّۃٍ فِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ ، فَأَعْطَی الزَّوْجَ ثَلاَثَۃً ، وَالأُمَّ سَہْمًا ، وَالْجَدَّ سَہْمًا ، وَالأَخَ سَہْمًا۔ فَہَذِہِ فِی قَوْلِہِمْ جَمِیعًا مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ۔
(٣١٩٠٦) ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ہم حضرت شریح کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے شوہر، ماں، بھائی اور دادا کے مسئلے کے بارے میں دریافت کیا ، آپ نے فرمایا شوہر کے لیے نصف مال ہے اور ماں کے لیے ایک تہائی مال، پھر آپ خاموش ہوگئے تو اس شخص نے جو آپ کے سرہانے کھڑا تھا کہا کہ حضرت دادا کے لیے کسی چیز کے قائل نہیں ہیں، فرماتے ہیں کہ پھر ہم حضرت عَبِیدہ کے پاس آئے تو انھوں نے حضرت عبداللہ (رض) کے فرمان کے مطابق مال کو چھ حصّوں میں تقسیم فرمایا، تین حصّے شوہر کو دیے اور ایک ایک حصّہ ماں، دادا اور بھائی کو دیا۔
اس طرح یہ مسئلہ تمام حضرات کی رائے کے مطابق چھ حصّوں سے ہی نکلے گا۔

31906

(۳۱۹۰۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ أُخْتَہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا وَجَدَّہَا ، فَلأُخْتِہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا النِّصْفُ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ ، وَکَانَ زَیْدٌ یُعْطِی الأُخْتَ الثُّلُثَ وَالْجَدَّ الثُّلُثَیْنِ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ مِنْ سَہْمَیْنِ ، وَفِی قَوْلِ زَیْدٍ : مِنْ ثَلاَثَۃِ أَسْہُمٍ۔
(٣١٩٠٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ عورت جو اپنی حقیقی بہن اور اپنے دادا کو چھوڑ جائے تو اس کی حقیقی بہن کے لیے نصف مال ہے، حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) کے فرمان کے مطابق ، اور حضرت زید (رض) بہن کو ایک تہائی مال اور دادا کو دو تہائی مال عطا فرمایا کرتے تھے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت علی (رض) اور عبداللہ (رض) کے قول میں دو حصّوں سے نکلے گا اور حضرت زید (رض) کے قول میں تین حصّوں سے نکلے گا۔

31907

(۳۱۹۰۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ جَدَّہُ ، وَأُخْتَہ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ، وَأَخَاہُ لأَبِیہِ ، فَلِلْجَدِّ فِی قَضَائِ زَیْدٍ الْخُمُسَانِ مِنْ عَشَرَۃٍ ، أَرْبَعَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلأُخْتِہِ مِنْ أَبِیہِ وَأُمِّہِ النِّصْفُ ، خَمْسَۃٌ ، وَلأَخِیہِ لأَبِیہِ سَہْمٌ ، یَرُدُّ الأَخُ مِنَ الأَبِ فِی قَضَائِ زَیْدٍ عَلَی الأُخْت مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ کَانَ لَہَا ثَلاَثَۃُ أَخْمَاسِ الْمَالِ فَأُعْطِیَتَ النِّصْفُ مِنْ أَجْلِ أَنَّ ثَلاَثَۃَ أَخْمَاسٍ أَکْثَرُ مِنَ النِّصْفِ ، وَلَیْسَ لِلأُخْتِ الْوَاحِدۃ وَإِنْ قَاسَمَہَا أَکْثَرَ مِنَ النِّصْفِ۔ وَکَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ یُعْطِی الأُخْتَ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ النِّصْفَ ، وَالْجَدَّ النِّصْفَ ، وَلاَ یَعْتَدُّ بِالأُخْوَۃِ مِنَ الأَبِ مَعَ الأخْوَۃِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِ۔ وَکَانَ عَلِیٌّ یَجْعَلُ لِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ النِّصْفَ ، وَیَقْسِمُ النِّصْفَ الْبَاقِی بَیْنَ الأُخْوَۃِ وَالْجَدِّ ، الْجَدُّ کَأَحَدِہِمْ مَا لَمْ یَکُنْ نَصِیبُ الْجَدِّ أَقَلَّ مِنَ السُّدُسِ ، إِنْ کَانَ أَخٌ وَاحِدٌ فَالنِّصْفُ الَّذِی بَقِیَ بَیْنَہُمَا ، وَإِنْ کَانَا أَخَوَیْنِ فَالنِّصْفُ بَیْنَہُمَا ، وَإِنْ کَانُوا ثَلاَثَۃٌ ، فَلِلْجَدِّ السُّدُسِ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلأُخْوَۃِ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ زَیْدٍ مِنْ عَشَرَۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : مِنْ سَہْمَیْنِ ، وَکَانَ عَلِیٌّ یَجْعَلُہَا مِنْ سِتَّۃٍ إذَا کَثُرَ الأُخْوَۃُ۔
(٣١٩٠٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو آدمی اپنے دادا، حقیقی بہن اور باپ شریک بھائی کو چھوڑ جائے تو حضرت زید (رض) کے فیصلے کے مطابق دادا کے لیے مال کے دو پانچویں حصّے یعنی دس حصّوں میں سے چار حصّے اور اس کی حقیقی بہن کے لیے آدھا مال یعنی پانچ حصّے اور اس کے باپ شریک بھائی کے لیے ایک حصّہ ہے، حضرت زید (رض) کے فیصلے میں باپ شریک بھائی حقیقی بہن پر لوٹائے گا، اس کا حق مال کے تین پانچویں حصّے تھا پس اس کو نصف مال دے دیا گیا اس لیے کہ مال کے تین پانچویں حصّے آدھے مال سے زیادہ ہوتے ہیں اور ایک بہن کا حصّہ آدھے مال سے زیادہ نہیں، چاہے بھائی اس کے ساتھ شریک ہوجائے۔
اور حضرت ابن مسعود (رض) حقیقی بہن کو آدھا مال اور دادا کو آدھا مال دیا کرتے تھے اور حقیقی بھائیوں اور بہنوں کے ہوتے ہوئے باپ شریک بھائیوں اور بہنوں کو کچھ نہیں دلاتے تھے،
اور حضرت علی (رض) حقیقی بہن کو آدھا مال دیتے اور بقیہ آدھا مال بھائیوں اور دادا کے درمیان تقسیم کردیتے، اس طرح کہ دادا بھائیوں کا ایک فرد سمجھا جاتا، جب تک دادا کا حصّہ چھٹے حصّے سے کم نہ ہو، اگر بھائی ایک ہو تو باقی آدھا مال دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا، اور اگر دو ہوں تو نصف مال ان دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا، اور اگر تین ہوں تو دادا کے لیے مال کا چھٹا حصّہ اور بقیہ مال بھائیوں کے لیے ہے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت زید (رض) کے فرمان کے مطابق دس حصّوں سے اور حضرت عبداللہ (رض) کے قول میں دو حصّوں سے نکلے گا، اور حضرت علی (رض) اس مسئلے کو چھ حصّوں سے نکالا کرتے تھے جبکہ بھائی زیادہ ہوں۔

31908

(۳۱۹۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ أُمَّہَا ، وَأُخْتَہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا ، وَأَخَاہَا لأَبِیہَا ، وَجَدَّہَا ، قَضَی فِیہَا زَیْدٌ : أَنَّ لِلأُمِّ السُّدُسَ ، وَلِلْجَدِّ خُمُسَا مَا بَقِی ، وَلِلأُخْتِ ثَلاَثَۃُ أَخْمَاسِ مَا بَقِی ، رَدَّ الأَخُ عَلَی أُخْتِہِ وَلَمْ یَرِثْ شَیْئًا ، وَقَضَی فِیہَا عَبْدُ اللہِ : أَنَّ لِلأُخْتِ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُمِّ سَہْمٌ ، وَلِلْجَدِّ سَہْمٌ ، وَقَضَی فِیہَا عَلِیٌّ : أَنَّ لِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُمِّ سَہْماً ، وَبَقِیَ سَہْمَانِ : لِلْجَدِّ سَہْمٌ ، وَلِلأَخِ سَہْمٌ۔ فَہَذِہِ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ مِنْ خَمْسَۃٍ۔
(٣١٩٠٩) حضرت ابراہیم اس عورت کے بارے میں فرماتے ہیں جو اپنی ماں ، حقیقی بہن، باپ شریک بھائی اور دادا کو چھوڑ جائے کہ اس کے بارے میں حضرت زید (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ ماں کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ، دادا کے لیے بقیہ مال کے دو پانچویں حصّے اور بہن کے لیے بقیہ مال کے تین پانچویں حصّے ہیں، بھائی نے اپنی بہن پر مال لوٹا دیا مگر وہ خود کسی چیز کا وارث نہ ہوگا، اور اس بارے میں حضرت عبداللہ (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ بہن کے لیے تین حصّے ، ماں کے لیے ایک حصّہ اور دادا کے لیے بھی ایک حصّہ ہے، اور حضرت علی (رض) اس مسئلے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حقیقی بہن کے لیے تین حصّے اور ماں کے لیے ایک حصّہ ہے، اور دو حصّے باقی بچے جن میں سے ایک حصّہ دادا کے لیے اور ایک بھائی کے لیے ہے۔
اس طرح یہ مسئلہ حضرت علی (رض) اور زید (رض) کے فرمان کے مطابق چھ حصّوں سے اور حضرت عبداللہ (رض) کے فرمان میں پانچ حصّوں سے نکلے گا۔

31909

(۳۱۹۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ فِی امْرَأَۃٍ تَرَکَتْ زَوْجَہَا ، وَأُمَّہَا ، وَأَرْبَعَ أَخَوَاتٍ لَہَا مِنْ أَبِیہَا وَأُمَّہَا ، وَجَدَّہَا ، قضَی فِیہَا زَیْدٌ : أَنَّ لِلزَّوْجِ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُمِّ سَہْماً ، وَلِلْجَدِّ سَہْمَاً، وَلِلأَخَوَاتِ سَہْمَاً ، وَقَضَی فِیہَا عَلِیٌّ وَعَبْدُ اللہِ عَلَی تِسْعَۃِ أَسْہُمٍ : لِلزَّوْجِ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأُمِّ سَہْمٌ، وَلِلْجَدِّ سَہْمٌ ، وَلِلأَخَوَاتِ أَرْبَعَۃُ أَسْہُمٍ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ فِی قَوْلِ زَیْدٍ مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ ، وَفِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ مِنْ تِسْعَۃِ أَسْہُمٍ۔
(٣١٩١٠) حضرت ابراہیم اس عورت کے بارے میں فرماتے ہیں جو اپنے شوہر، ماں، چار حقیقی بہنوں اور دادا کو چھوڑ جائے کہ حضرت زید (رض) اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شوہر کے لیے تین حصّے، ماں کے لیے ایک حصّہ ، دادا کے لیے ایک حصّہ اور بہنوں کے لیے بھی ایک حصّہ ہے، اور حضرت علی (رض) اور عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ مال نو حصّوں میں تقسیم کیا جائے، تین حصّے شوہر کے لئے، ایک حصّہ ماں کے لیے ، ایک حصّہ دادا کے لیے اور چار حصّے بہنوں کے لیے ہوں گے۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ حضرت زید (رض) کے قول کے مطابق چھ حصّوں سے اور حضرت علی (رض) اور عبداللہ (رض) کے فرمان کے مطابق نو حصّوں سے نکلے گا۔

31910

(۳۱۹۱۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : فِی أُخْتٍ لأَمٍّ وأَبٍ ْ وَأَخٍ وَأُخْتٍ لأَبٍ ، وَجَدٍّ ، فِی قَوْلِ عَلِیٍّ : لِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ النِّصْفُ ، وَمَا بَقِیَ فَبَیْنَ الْجَدِّ وَالأُخْتِ وَالأَخِ مِنَ الأَبِ عَلَی الأَخْمَاسِ : لِلْجَدِّ خُمُسَانِ ، وَلِلأُخْتِ خُمُسٌ۔ وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : لِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ النِّصْفُ ، وَلِلْجَدِّ مَا بَقِی ، وَلَیْسَ لِلأَخِ وَالأُخْتِ مِنَ الأَبِ شَیْئٌ۔ وَفِی قَوْلِ زَیْدٍ : مِنْ ثَمَانیَۃَ عَشَرَ سَہْمًا : لِلْجَدِّ الثُّلُثُ سِتَّۃٌ ، وَلِلأَخِ مِنَ الأَبِ سِتَّۃٌ ، وَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ ثَلاَثَۃٌ وَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ ثَلاَثَۃٌ ، ثُمَّ تَرُدُّ الأُخْتُ وَالأَخُ مِنَ الأَبِ عَلَی الأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ سِتَّۃَ أَسْہُمٍ ، فَاسْتَکْمَلَتِ النِّصْفَ تِسْعَۃً ، وَبَقِیَ لَہُمَا ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ : لِلأَخِ سَہْمَانِ وَلِلأُخْتِ سَہْمٌ۔ وَفِی أُخْتَینِ لأَبٍ وَأُم ، وَأَخٍ لأَبٍ ، وَجَدٍّ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ : لِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ الثُّلُثَانِ ، وَمَا بَقِیَ فَبَیْنَ الْجَدِّ وَالأَخِ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : لِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْجَدِّ مَا بَقِی ، وَلَیْسَ لِلأَخِ مِنَ الأَبِ شَیْئٌ۔ وَفِی قَوْلِ زَیْدٍ : ہِیَ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ : لِلْجَدِّ سَہْمٌ ، وَلِلأَخِ سَہْمٌ وَلِلأُخْتَیْنِ سَہْمٌ ، ثُمَّ یَرُدُّ الأَخُ مِنَ الأَبِ عَلَی الأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ سَہْمَہُما ، فَتَسْتَکْمِلاَنِ الثُّلُثَیْنِ ، وَلَمْ یَبْقَ لَہُ شَیْئٌ۔ وَفِی أُخْتَیْنِ لأَبٍ وَأَمٍّ ، وَأُخْتٍ لأَبٍ ، وَجَدٍّ ، فِی قَوْلِ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ : لِلأُخْتَیْنِ لِلأَبِ وَالأُمِّ الثُّلُثَانِ ، وَمَا بَقِیَ لِلْجَدِّ ، وَلَیْسَ لِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ شَیْئٌ وَفِی قَوْلِ زَیْدٍ : مِنْ خَمْسَۃِ أَسْہُمٍ : لِلْجَدِّ سَہْمَانِ ، وَلِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ سَہْمَانِ ، وَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ سَہْمٌ ، ثُمَّ تَرُدُّ الأُخْتُ مِنَ الأَبِ عَلَی الأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ سَہْمَہُمَا ، وَلَمْ یَبْقَ لَہَا شَیْئٌ۔ وَفِی أُخْتَیْنِ لأَبٍ وَأَمٍّ ، وَأَخٍ وَأُخْتٍ لأَبٍ ، وَجَدٍّ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ : لِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْجَدِّ السُّدُسُ ، وَمَا بَقِیَ فَبَیْنَ الأُخْتِ وَالأَخِ مِنَ الأَبِ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : لِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْجَدِّ مَا بَقِی ، وَلَیْسَ لِلأَخِ وَالأُخْتِ مِنَ الأَبِ شَیْئٌ وَفِی قَوْلِ زَیْدٍ : مِنْ خَمْسَۃَ عَشَرَ سَہْمًا : لِلْجَدِّ الثُّلُثُ خَمْسَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأَخِ مِنَ الأَبِ أَرْبَعَۃٌ ، وَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ سَہْمَانِ وَلِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ أَرْبَعَۃُ أَسْہُمٍ ، ثُمَّ یَرُدُّ الأَخُ وَالأُخْتُ مِنَ الأَبِ عَلَی الأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ نَصِیبَہُمَا ، یَسْتَکْمِلاَنِ الثُّلُثَین وَلَمْ یَبْقَ لَہُمَا شَیْئٌ۔ وَفِی أُخْتَیْنِ لأَبٍ وَأَمٍّ ، وَأُخْتَیْنِ لأَبٍ ، وَجَدٍّ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ : لِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْجَدِّ مَا بَقِی ، وَلَیْسَ لِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ شَیْئٌ۔ وَفِی قَوْلِ زَیْدٍ : مِنْ سِتَّۃِ أَسْہُمٍ : لِلْجَدِّ سَہْمَانِ ، وَلِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ سَہْمَانِ ، وَلِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ سَہْمَانِ ، ثُمَّ تَرُدُّ الأُخْتَانِ مِنَ الأَبِ عَلَی الأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ سَہْمَیْہِمَا ، فَیَسْتَکْمِلاَنِ الثُّلُثَیْنِ ، وَلَمْ یَبْقَ لَہُمَا شَیْئٌ۔ وَفِی أُخْتٍ لأَبٍ وَأَمٍّ ، وَثَلاَثِ أَخَوَاتٍ لأَبٍ ، وَجَدِّہِ : فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ : لِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ النِّصْفُ ، وَلِلأَخَوَاتِ مِنْ الأَبِ السُّدُسُ تَکْمِلَۃَ الثُّلُثَیْنِ ، وَلِلْجَدِّ مَا بَقِی ، وَفِی قَوْلِ زَیْدٍ : ثَمَانیَۃَ عَشَرَ سَہْمًا : لِلْجَدِّ الثُّلُثُ سِتَّۃٌ ، وَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ ، وَلِلأَخَوَاتِ مِنَ الأَبِ تِسْعَۃُ أَسْہُمٍ ، ثُمَّ تَرُدُّ الأَخَوَاتُ مِنَ الأَبِ عَلَی الأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ سِتَّۃَ أَسْہُمٍ ، فَاسْتَکْمَلَتِ النِّصْفَ تِسْعَۃً ، وَبَقِیَ لَہُنَّ سَہْمٌ سَہْمٌ۔ وَفِی أُخْتَیْنِ لأَبٍ وَأَمٍّ ، وَأَخٍ ، وَأُخْتَیْنِ لأَبٍ ، وَجَدٍّ : فِی قَوْلِ عَلِیٍّ : لِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْجَدِّ السُّدُسُ ، وَمَا بَقِیَ فَبَیْنَ الأَخِ وَالأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : لِلأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ الثُّلُثَانِ ، وَلِلْجَدِّ مَا بَقِی ، وَلَیْسَ لِلأَخِ وَالأُخْتَیْنِ مِنَ الأَبِ شَیْئٌ۔ وَفِی أُمٍّ وَأُخْتٍ وَجَدٍّ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ : لِلأُخْتِ النِّصْفُ ، وَلِلأُمِّ ثُلُث مَا بَقِی ، وَلِلْجَدِّ مَا بَقِیَ۔ وَفِی قَوْلِ زَیْدٍ : مِنْ تِسْعَۃِ أَسْہُمٍ : لِلأُمِّ الثُّلُثُ ثَلاَثَۃٌ ، وَلِلْجَدِّ أَرْبَعَۃٌ ، وَلِلأُخْتِ سَہْمَانِ ، جَعَلَہُ مَعَہُمَا بِمَنْزِلَۃِ الأَخِ ، وَفِی قَوْلِ عُثْمَانَ: لِلأُمِّ الثُّلُثُ ، وَلِلْجَدِّ الثُّلُثُ ، وَلِلأُخْتِ الثُّلُثُ ، وَفِی قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ: لِلأُمِّ الثُّلُثُ، وَلِلْجَدِّ مَا بَقِی ، لَیْسَ لِلأُخْتِ شَیْئٌ ، لَمْ یَکُنْ یُوَرِّثُ أَخًا وَأُخْتًا مَعَ جَدٍّ شَیْئًا۔
(٣١٩١١) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ :
(١) حقیقی بہن، باپ شریک بھائی اور بہن اور دادا کے بارے میں حضرت علی کا فرمان ہے کہ حقیقی بہن کے لیے آدھا مال ہے اور بقیہ مال دادا اور باپ شریک بھائی اور بہن کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ مال کے پانچ حصّے کیے جائیں گے، ان میں سے دو حصّے دادا کو اور ایک حصّہ بہن کو دیا جائے گا، اور حضرت عبداللہ (رض) کے فرمان کے مطابق حقیقی بہن کے لیے آدھا مال اور دادا کے لیے بقیہ مال ہے، اور باپ شریک بھائی اور بہن کے لیے کچھ نہیں، اور حضرت زید (رض) کے فرمان کے مطابق یہ مسئلہ اٹھارہ حصّوں سے نکالا جائے گا، دادا کو چھ حصّے یعنی ایک تہائی مال ، باپ شریک بھائی کو چھ حصّے ، باپ شریک بہن کو تین حصّے اور حقیقی بہن کو تین حصّے دیے جائیں گے، پھر باپ شریک بھائی اور بہن چھ حصّے حقیقی بہن پر لوٹائیں گے، اس طرح حقیقی بہن کا حصّہ نو حصّے یعنی آدھا مال ہوجائے گا، اور باپ شریک بھائی بہن کے لیے تین حصّے بچیں گے، دو حصّے بھائی کے لیے اور ایک حصّہ بہن کے لیے ہوگا۔
(٢) اور دو حقیقی بہنوں، ایک باپ شریک بھائی اور دادا کے مسئلے کے بارے میں حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حقیقی بہنوں کے لیے دو تہائی مال ہے اور بقیہ مال دادا اور بھائی کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ دو حقیقی بہنوں کے لیے دو تہائی مال ہے اور بقیہ مال دادا کے لیے ہے، اور باپ شریک بھائی کے لیے کچھ نہیں، اور حضرت زید (رض) کے فرمان کے مطابق مال تین حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا، ایک حصّہ دادا کے لئے، ایک بھائی کے لیے اور ایک حصّہ دو بہنوں کے لئے، پھر باپ شریک بھائی دو حقیقی بہنوں پر اپنا حصّہ لوٹا دے گا، اس طرح بہنوں کا دو تہائی حصّہ پورا ہوجائے گا اور بھائی کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔
(٣) اور دو حقیقی بہنوں، ایک باپ شریک بہن اور دادا کے بارے میں حضرت علی اور عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں حقیقی بہنوں کے لیے دو تہائی مال ہے اور بقیہ مال دادا کے لیے ہے، اور باپ شریک بہن کے لیے کچھ نہیں، اور حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ مال پانچ حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا، دو حصّے دادا کے لئے، دو حصّے دونوں حقیقی بہنوں کے لیے اور ایک حصّہ باپ شریک بہن کے لئے، پھر باپ شریک بہن دونوں حقیقی بہنوں پر اپنا حصّہ لوٹا دیں گی اور اس کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔
(٤) اور دو حقیقی بہنوں، ایک باپ شریک بھائی اور بہن اور دادا کے بارے میں حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں حقیقی بہنوں کے لیے دو تہائی مال اور دادا کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہے، اور بقیہ مال دونوں باپ شریک بہن اور بھائی کے درمیان اس ضابطے پر تقسیم ہوگا کہ مرد کو عورت سے دوگنا دیا جائے گا، اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں حقیقی بہنوں کے لیے دو تہائی مال ہے اور دادا کے لیے بقیہ مال ، اور باپ شریک بھائی اور بہن کے لیے کچھ نہیں، اور حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ مال کو پندرہ حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا، دادا کے لیے پانچ حصّے ایک تہائی مال، باپ شریک بھائی کے لیے چار حصّے ، باپ شریک بہن کے لیے دو حصّے اور دو حقیقی بہنوں کے لیے چار حصّے، پھر باپ شریک بھائی اور بہن دونوں حقیقی بہنوں پر اپنا حصّہ لوٹا دیں گے، اس طرح ان کا دو تہائی حصّہ ہوجائے گا اور باپ شریک بھائی بہن کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔
(٥) اور دو حقیقی بہنوں اور دو باپ شریک بہنوں اور دادا کے بارے میں حضرت علی اور عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ دو حقیقی بہنوں کے لیے دو تہائی مال ہے اور باقی مال دادا کے لیے ہے، اور باپ شریک بہنوں کے لیے کچھ نہیں، اور حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ مال چھ حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا دو حصّے دادا کے لئے، دو حصّے دو حقیقی بہنوں کے لیے اور دو حصّے دو باپ شریک بہنوں کے لئے، پھر باپ شریک بہنیں حقیقی بہنوں پر اپنے حصّے لوٹا دیں گی، اس طرح حقیقی بہنوں کا دو تہائی مال پورا ہوجائے گا اور باپ شریک بہنوں کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔
(٦) اور حقیقی بہن اور تین باپ شریک بہنوں اور دادا کے بارے میں حضرت علی اور عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ حقیقی بہنوں کے لیے آدھا مال اور باپ شریک بہنوں کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہے دو تہائی مال پورا کرنے کے لئے، اور بقیہ مال دادا کے لیے ہے، اور حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ مال اٹھارہ حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا : چھ حصّے دادا کے لئے، تین حصّے حقیقی بہن کے لیے اور نو حصّے باپ شریک بہنوں کے لیے ہیں، پھر باپ شریک بہنیں حقیقی بہن پر چھ حصّے لوٹا دیں گی، اس طرح حقیقی بہن کو حصّہ آدھا مال ہوجائے گا ، اور باپ بہنوں کے لیے ایک حصّہ بچے گا۔
(٧) اور دو حقیقی بہنوں اور ایک باپ شریک بھائی اور دو باپ شریک بہنوں اور دادا کے مسئلے کے بارے میں حضرت علی (رض) کا فرمان ہے کہ دونوں حقیقی بہنوں کو دو تہائی مال اور دادا کو مال کا چھٹا حصّہ دیا جائے گا، اور باقی مال باپ شریک بھائی اور بہنوں کے درمیان اس ضابطے پر تقسیم ہوگا کہ مرد کو عورت سے دوگنا دیا جائے گا ، اور حضرت عبداللہ (رض) کے قول میں دونوں حقیقی بہنوں کے لیے دو تہائی مال ہے اور بقیہ مال دادا کے لیے ہے، اور باپ شریک بھائی اور بہنوں کے لیے کچھ نہیں ہے
(٨) اور ماں ، بہن اور دادا کے بارے میں حضرت علی (رض) کا فرمان ہے کہ بہن کے لیے آدھا مال ہے اور ماں کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی ، اور باقی مال دادا کے لیے ہے، اور حضرت زید (رض) کے فرمان کے مطابق مال کو نو حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا، تین حصّے یعنی ایک تہائی مال ماں کے لیے ، چار حصّے دادا کے لیے اور د و حصّے بہن کے لیے ہوں گے، حضرت زید (رض) دادا کی موجودگی میں بہن کو بھائی کے قائم مقام قرار دیتے ہیں، اور حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ ایک تہائی مال ماں کو، ایک تہائی دادا کو اور ایک تہائی بہن کو دیا جائے گا، اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک تہائی مال ماں کے لیے ہے اور باقی مال دادا کے لیے ہے، اور بہن کے لیے کچھ نہیں، آپ بھائی اور بہن کو دادا کی موجودگی میں کسی چیز کا وارث نہیں بناتے تھے۔

31911

(۳۱۹۱۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ زَیْدٌ یُشَرِّکُ الْجَدَّ إِلَی الثُّلُثِ مَعَ الإِخْوَۃِ وَالأَخَوَاتِ ، فَإِذَا بَلَغَ الثُّلُثَ أَعْطَاہُ الثُّلُثَ ، وَکَانَ لِلأُخْوَۃِ وَالأَخَوَاتِ مَا بَقِی ، وَلاَ للأَخٍ لأُمٍّ ، وَلاَ للأُخْتٍ لأُمٍّ مَعَ جَدٍّ شَیْئٌ ، وَیُقَاسِمُ الأُخْوَۃَ مِنَ الأَبِ الإِخْوَۃَ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ ، وَلاَ یُوَرِّثُہُمْ شَیْئًا ، فَإِذَا کَانَ أَخٌ لأَبٍ وَأَمٍّ وَجَدٍّ ، أَعْطَی الْجَدَّ النِّصْفَ ، وَإِذَا کَانَا أَخَوَیْنِ أَعْطَاہُ الثُّلُثَ ، فَإِنْ زَادُوا أَعْطَاہُ الثُّلُثَ ، وَکَانَ لِلإِخْوَۃِ مَا بَقِی وَإِذَا کَانَتْ أُخْتٌ وَجَدٌّ أَعْطَاہُ مَعَ الأُخْتِ الثُّلُثَیْنِ ، وَلِلأُخْتِ الثُّلُثَ ، وَإِذَا کَانَتَا أُخْتَیْنِ أَعْطَاہُمَا النِّصْفَ ، وَلَہُ النِّصْفَ مَا دَامَتِ الْمُقَاسَمَۃُ خَیْرًا لَہُ ، فَإِنْ لَحِقَتْ فَرَائِضُ امْرَأَۃٍ وَ أُمٍّ وَزَوْجٍ أَعْطَی أَہْلَ الْفَرَائِضِ فَرَائِضَہُمْ ، وَمَا بَقِیَ قَاسَمَ الإِخْوَۃُ وَالأَخَوَاتُ ، فَإِنْ کَانَ ثُلُثُ مَا بَقِیَ خَیْرًا لَہُ مِنَ الْمُقَاسَمَۃِ أَعْطَاہُ ثُلُثَ مَا بَقِی ، وَإِنْ کَانَتِ الْمُقَاسَمَۃُ خَیْرًا لَہُ أَعْطَاہُ الْمُقَاسَمَۃَ ، وَإِنْ کَانَ سُدُسُ جَمِیعِ الْمَالِ خَیْرًا لَہُ مِنَ الْمُقَاسَمَۃِ أَعْطَاہُ السُّدُسَ ، وَإِنْ کَانَتِ الْمُقَاسَمَۃُ خَیْرًا لَہُ مِنْ سُدُسِ جَمِیعِ الْمَالِ أَعْطَاہُ الْمُقَاسَمَۃَ۔
(٣١٩١٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت زید (رض) دادا کو بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ایک تہائی تک مال کا وارث بناتے تھے، پس جب اس کا حصّہ ایک تہائی تک پہنچتا تو اس کو ایک تہائی عطا فرما دیا کرتے تھے، اور باقی مال بھائیوں اور بہنوں کا ہوتا تھا، اور آپ دادا کی موجودگی میں ماں شریک بھائی اور ماں شریک بہن کو کچھ نہیں دلاتے تھے، اور آپ باپ شریک بھائیوں کو حقیقی بھائیوں کے ساتھ تقسیم میں تو شریک فرماتے لیکن باپ شریک بھائیوں کو وراثت میں سے کچھ عطا نہیں فرماتے تھے، پس اگر حقیقی بہن اور دادا وارث ہوتے تو آپ آدھا مال دادا کو عطا فرماتے اور دو بھائی ہوتے تو آپ دادا کو ایک تہائی مال عطا فرماتے، پس اگر بھائی زیادہ ہوتے تو ایک تہائی مال دادا کو عطا فرماتے اور باقی مال بھائیوں کو دلاتے، اور جب ایک بہن اور دادا وارث ہوتے تو آپ دو تہائی مال دادا کو اور ایک تہائی مال بہن کو عطا فرماتے ، اور اگر بہنیں دو ہوتیں تو آدھا مال بہنوں کو اور آدھا مال دادا کو عطا فرماتے جبکہ اس طرح باہم تقسیم سے شرکت دادا کے حق میں بہتر ہوتی، پس اگر اس کے ساتھ دوسرے حصّہ داروں یعنی بیوی، ماں اور شوہر کے حصّے آجاتے تو پہلے ان حصّہ داروں کو ان کے حصّے دلواتے اور بقیہ مال بھائیوں اور بہنوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے، اس طرح اگر دادا کے لیے بقیہ مال کا ایک تہائی بہتر ہو تو اس کو بقیہ مال کا ایک تہائی عطا فرماتے، اور اگر تقسیم میں باہمی شرکت اس کے لیے بہتر ہوتی تو ایسا ہی کرتے، اور اگر پورے مال کا چھٹا حصّہ اس کے لیے تقسیم میں شرکت سے بہتر ہوتا تو وہی اس کو عطا فرماتے، اور اگر چھٹے سے زیادہ بہتر دادا کے لیے تقسیم میں شرکت ہوتی تو اس کو تقسیم میں شریک فرمایا کرتے تھے۔

31912

(۳۱۹۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ : أَنَّہُمَا کَانَا لاَ یُفَضِّلاَنِ أُمًّا عَلَی جَدٍّ۔
(٣١٩١٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) ماں کو دادا پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔

31913

(۳۱۹۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ عَبِیدَۃَ ، قَالَ : إنِّی لأُحِیلُ الْجَدَّ عَلَی مِئَتَیْ قَضِیَّۃٍ۔
(٣١٩١٤) عبداللہ بن سَلِمہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبیدہ (رض) نے فرمایا کہ بیشک میں دادا کے مسئلے کو دو سو صورتوں میں تبدیل کرتا ہوں۔

31914

(۳۱۹۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ أَیُّوب ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَبِیدَۃَ ، قَالَ : حَفِظْت عَن عُمَرَ مِئَۃَ قَضِیَّۃٍ فِی الْجَدِّ مُخْتَلِفَۃٍ۔
(٣١٩١٥) ابن سیرین عبیدہ سے یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے دادا کے بارے میں ایک سو مختلف فیصلے یاد کیے ہیں۔

31915

(۳۱۹۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عَمْرٍو الْخَارِفِیِّ : أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ عَلِیًّا عَنْ فَرِیضَۃٍ ؟ فَقَالَ : ہَاتِ إنْ لَمْ یَکُنْ فِیہَا جَدٌّ۔
(٣١٩١٦) عُبید بن عمرو خارفی نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت علی (رض) سے ایک میراث کا مسئلہ پوچھنا چاہا، آپ نے فرمایا پوچھو ! اگر اس میں دادا کا ذکر نہ ہو۔

31916

(۳۱۹۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُرَادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَتَقَحَّمَ جَرَاثِیمَ جَہَنَّمَ فَلْیَقْضِ بَیْنَ الْجَدِّ وَالإِخْوَۃِ۔
(٣١٩١٧) حضرت سعید بن جبیر قبیلہ مراد کے ایک شخص کے واسطے سے حضرت علی (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جو آدمی یہ چاہے کہ جہنم کے جراثیم میں گھس جائے وہ دادا اور بھائیوں کے مسئلے میں فیصلہ کر دے۔

31917

(۳۱۹۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : أَتَیْنَا شُرَیْحًا فَسَأَلْنَاہُ ؟ فَقَالَ الَّذِی عَلَی رَأْسِہِ : إنَّہُ لاَ یَقُولُ فِی الْجَدِّ شَیْئًا۔
(٣١٩١٨) ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ہم حضرت شریح کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے مسئلہ پوچھا تو اس شخص نے جو آپ کے سرہانے کھڑا تھا کہا کہ حضرت دادا کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔

31918

(۳۱۹۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : خُذْ فِی أَمْرِ الْجَدِّ بِمَا اجْتَمَعَ عَلَیْہِ النَّاسُ۔ یَعْنِی : قَوْلَ زَیْدٍ۔
(٣١٩١٩) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ دادا کے بارے میں وہ قول اختیار کرو جس پر علماء کا اتفاق ہے ، یعنی حضرت زید (رض) کا قول۔

31919

(۳۱۹۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ : أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ فِی أَمْرِ الْجَدِّ وَالْکَلاَلَۃِ فِی کَتِفٍ ، ثُمَّ طَفِقَ یَسْتَخِیرُ رَبَّہُ ، فَلَمَّا طُعِنْ دَعَا بِالْکَتِفِ فَمَحَاہَا ، ثُمَّ قَالَ : إنِّی کُنْت کَتَبْت کِتَابًا فِی الْجَدِّ وَالْکَلاَلَۃِ ، وَإِنِّی قَدْ رَأَیْت أَنْ أَرُدَّکُمْ عَلَی مَا کُنْتُمْ عَلَیْہِ ، فَلَمْ یَدْرُوا مَا کَانَ فِی الْکَتِفِ۔
(٣١٩٢٠) سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے دادا اور کلالہ کے بارے میں ایک کندھے کی ہڈی پر کچھ لکھا، پھر اللہ تعالیٰ سے استخارہ فرمانے لگے، جب آپ زخمی ہوئے تو آپ نے وہ ہڈی منگوائی اور اس کو مٹا دیا ، پھر فرمایا : میں نے دادا اور کلالہ کے بارے میں ایک تحریر لکھی تھی، اب میرا خیال ہوا ہے کہ میں تم لوگوں کو تمہاری حالت پر چھوڑ دوں، پس لوگوں کو کچھ پتہ نہ چل سکا کہ آپ نے کندھے کی ہڈی میں کیا لکھا تھا۔

31920

(۳۱۹۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ مُرَادٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَتَقَحَّمَ فِی جَرَاثِیمِ جَہَنَّمَ فَلْیَقْضِ بَیْنَ الإِخْوَۃِ وَالْجَدِّ۔
(٣١٩٢١) حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ جو آدمی یہ چاہے کہ جہنم کے جراثیم میں گھس جائے وہ دادا اور بھائیوں کے مسئلے میں فیصلہ کر دے۔

31921

(۳۱۹۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ قَبِیصَۃَ ، قَالَ : جَائَتِ الْجَدَّۃُ بِالأُمِّ وَابْنِ الاِبْنِ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی أَبِی بَکْرٍ ، فَقَالَتْ : إنَّ ابْنَ ابْنِی وَابْنَ ابْنَتِی مَاتَ ، وَقَدْ أُخْبِرْتُ أَنَّ لِی حَقًّا ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : مَا أَجِدُ لَکِ فِی کِتَابِ اللہِ مِنْ حَقٍّ ، وَمَا سَمِعْت فِیکِ شَیْئًا مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَسَأَسْأَلُ النَّاسَ ، قَالَ : فَشَہِدَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَاہَا السُّدُسَ ، فَقَالَ : مَنْ یَشْہَدُ مَعَک ؟ قَالَ : مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ ، فَشَہِدَ فَأَعْطَاہَا السُّدُسَ ، وَجَائَتِ الْجَدَّۃُ الَّتِی تُخَالِفُہَا إلَی عُمَرَ ، فَأَعْطَاہَا السُّدُسَ ، فَقَالَ : إذَا اجْتَمَعْتُمَا فَہُوَ بَیْنَکُمَا۔ زَادَ مَعْمَرٌ : وَأَیُّکُمَا انْفَرَدَتْ بِہِ فَہُوَ لَہَا۔ (ترمذی ۲۱۰۰)
(٣١٩٢٢) حضرت قبیصہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ایک دادی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس ماں اور پوتے کو لے کر آئی اور کہنے لگی کہ میرا پوتا اور نواسا فوت ہوگئے ہیں، اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرا بھی ان کے مال میں حق ہے، حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں تیرے لیے کتاب اللہ میں کوئی حق نہیں پاتا، اور میں نے تمہارے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی کوئی بات نہیں سنی، راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے یہ گواہی دی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دادی کو مال کا چھٹا حصّہ عنایت فرمایا ہے، آپ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ اس پر کون گواہی دے گا ؟ انھوں نے فرمایا کہ محمد بن مسلمہ، چنانچہ محمد بن مسلمہ (رض) نے گواہی دی ، اور پھر ایک دوسری دادی حضرت عمر (رض) کے پاس آئی جو پہلی دادی کے علاوہ تھی، آپ نے اس کو مال کا چھٹا حصّہ دیا اور فرمایا جب تم جمع ہو جاؤ تو یہ مال تمہارے درمیان تقسیم ہوگا، معمر راوی یہ اضافہ کرتے ہیں کہ : اور تم میں سے جو اکیلی ہو تو یہ چھٹا حصّہ اس کا ہی ہے۔

31922

(۳۱۹۲۳) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَی الْجَدَّۃَ السُّدُسَ۔ (ابن ماجہ ۲۷۲۵۔ سعید بن منصور ۸۳)
(٣١٩٢٣) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دادی کو مال کا چھٹا حصّہ عنایت فرمایا۔

31923

(۳۱۹۲۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ أَبِی الْمُنِیبِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَطْعَمَ الْجَدَّۃَ السُّدُسَ إذَا لَمْ یَکُنْ ابنٌ۔ (ابوداؤد ۲۸۸۷۔ دارقطنی ۷۴)
(٣١٩٢٤) حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دادی کو چھٹا حصّہ عنایت فرمایا جبکہ بیٹا نہیں تھا۔

31924

(۳۱۹۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عُمَیْرٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : الْجَدَّۃُ بِمَنْزِلَۃِ الأُمِ ، تَرِثُ مَا تَرِثُ الأُمُّ۔
(٣١٩٢٥) ایوب ایک آدمی کے واسطے سے حضرت طاؤس کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ دادی ماں کے درجے میں ہے ، جتنے مال کی ماں وارث ہوگی اتنے ہی مال کی وہ بھی وارث ہوگی۔

31925

(۳۱۹۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : أَطْعَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَ جَدَّاتٍ ، قَالَ : قُلْتُ لإِبْرَاہِیمَ : مَنْ ؟ قَالَ : جَدَّتَا أَبِیہِ : أُمّ أُمّہِ ، وَأُمّ أَبِیہِ ،وَجَدَّتِہِ أُمّ أُمّہِ۔ (ابوداؤد ۳۵۵۔ دارمی ۲۹۳۵)
(٣١٩٢٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دادیوں کو مال عنایت فرمایا ، راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا کہ وہ کون کون ہیں ؟ فرمایا کہ باپ کی دادی اور نانی، اور میت کی نانی۔

31926

(۳۱۹۲۷) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : یَرِثُ مِنَ الْجَدَّاتِ ثَلاَثَۃٌ ، وَأَقْعَدُ الْجَدَّاتِ فِی النَّسَبِ أَحَقُّہُنَّ بِالسُّدُسِ۔
(٣١٩٢٧) برد سے روایت ہے کہ حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ تین دادیاں وارث ہوتی ہیں اور ان میں سے جو نسب میں سب سے نچلی ہو وہ ان میں سب سے زیادہ مال کے چھٹے حصّے کی حق دار ہے۔

31927

(۳۱۹۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : إذَا اجْتَمَعَ أَرْبَعُ جَدَّاتٍ لَمْ تَرِثَ أُمُّ أَبِی الأُمِّ۔
(٣١٩٢٨) داؤد روایت کرتے ہیں کہ حضرت عامر نے فرمایا کہ جب چار دادیاں جمع ہوجائیں تو ماں کی دادی وارث نہیں ہوگی۔

31928

(۳۱۹۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : یَرِثُ ثَلاَثُ جَدَّاتٍ : جَدَّتَانِ مِنْ قِبَلِ الأُمِّ ، وَجَدَّۃَّ مِنْ قِبَلِ الأَبِ۔
(٣١٩٢٩) حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ تین دادیاں وارث ہوتی ہیں : دو دادیاں ماں کی طرف سے اور ایک دادی باپ کی طرف سے۔

31929

(۳۱۹۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاووسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : تَرِثُ الْجَدَّاتُ الأَرْبَعُ جَمِیعًا۔
(٣١٩٣٠) طاوس حضرت ابن عباس (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ چاروں دادیاں وارث ہوتی ہیں۔

31930

(۳۱۹۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَہْمٍ الْفَرَائِِضِیِّ ، قَالَ : کَانَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ یُوَرِّثُ أَرْبَعَ جَدَّاتٍ۔
(٣١٩٣١) سھم فرائضی فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید (رض) چار دادیوں کو وارث بنایا کرتے تھے۔

31931

(۳۱۹۳۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : سُئِلَ عَنْ أَرْبَعِ جَدَّاتٍ ؟ فَقَالَ : یَرِثُ مِنْہُنَّ ثَلاَثٌ ، وَتُلْغی أُمَّ أَبِی الأُمِّ۔
(٣١٩٣٢) ہشام حضرت حسن بصری (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ سے چار دادیوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ان میں سے تین وارث ہوں گی اور ماں کی دادی وارث نہیں ہوگی۔

31932

(۳۱۹۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ : أَنَّہُ کَانَ یُوَرِّثُ تِسْعَ جَدَّاتٍ وَیَقُولُ : إذَا کَانَتْ إحْدَی الْجَدَّاتِ أَقْرَبَ فَہُوَ لَہَا دُونَہُنَّ۔
(٣١٩٣٣) ہشام حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ وہ نو دادیوں کو وارث بنایا کرتے تھے اور فرماتے کہ جب کوئی دادی زیادہ قریب ہو تو مال اس کو ہی ملے گا باقی دادیوں کو نہیں ملے گا۔

31933

(۳۱۹۳۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّہُ کَانَ یُوَرِّثُ ثَلاَثَ جَدَّاتٍ وَیَقُولُ : أَیَّتُہُنَّ کَانَتْ أَقْرَبَ فَہُوَ لَہَا دُونَ الأُخْرَی ، فَإِذَا اسْتَوَتَا فَہُوَ بَیْنَہُمَا۔
(٣١٩٣٤) یونس حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں کہ آپ تین دادیوں کو وارث بناتے تھے اور فرماتے کہ ان میں سے جو زیادہ قریب ہو اسی کو مال دیا جائے گا نہ کہ دوسری دادیوں کو، اور جب دادیاں برابر درجے کی ہوں تو مال ان کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا۔

31934

(۳۱۹۳۵) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : جَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ جَدَّۃٍ مِنْ قِبَلِ أُمِّہِ ، وَجَدَّتَیْنِ مِنْ قِبَلِ أَبِیہِ السُّدُسَ ، قَالَ زَائِدَۃُ : قُلْتُ لِمَنْصُورٍ : الَّتِی مِنْ قِبَلِ أَبِیہِ: أُمُّ أَبِیہِ ، وَأُمّ أُمِّہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٣١٩٣٥) منصور حضرت ابراہیم کا فرمان نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نانی اور دو دادیوں کے درمیان مال کا چھٹا حصّہ تقسیم فرمایا، حضرت زائدہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت منصور سے عرض کیا کہ باپ کی طرف سے دادیوں کا مطلب باپ کی ماں اور باپ کی نانی ہے ؟ فرمایا ! جی ہاں !

31935

(۳۱۹۳۶) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : إذَا کَانَتِ الْجَدَّاتُ مِنْ نَحْوٍ وَاحِدٍ ، بَعْضُہُنَّ أَقْرَبُ سَقَطَتِ الْقُصْوَی۔
(٣١٩٣٦) منصور کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ جب دادیاں ایک جانب کی ہوں جن میں سے بعض بعض سے زیادہ قریب ہوں تو دور کی دادی محروم ہوگی۔

31936

(۳۱۹۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ بَسَّامٍ، عَنْ فُضَیْلٍ، قَالَ: قَالَ إبْرَاہِیمُ: تَرِثُ الْجَدَّاتُ السُّدُسَ، فَإِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً أَو اثْنَتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا فَبَیْنَہُنَّ سَہْمٌ فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ ، وَإذَا اجْتَمَعْن ثَلاَثُ جَدَّاتٍ ہُنَّ إلَی الْمَیِّتِ شرعٌ سَوَائٌ قَالَ: بَیْنَہُنَّ سَہْمٌ تَکُونُ جَدَّۃُ الأُمِّ ، وَجَدَّۃٌ بَنِی الأَبِ : أُمَّ أَبِیہِ ، وَأَمَّ أُمِّہِ ، وَفِی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ : إذَا اجْتَمَعْن ثَلاَثُ جَدَّاتٍ کَانَ بَیْنَہُنَّ السُّدُسُ ، وَإِنْ کَانَ بَعْضُہُنَّ أَقْرَبَ نَسَبًا لَمْ یَکُنْ بَعْضُہُنَّ أُمَّہَاتِ بَعْضٍ۔
(٣١٩٣٧) فضیل فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ دادیاں مال کے چھٹے حصّے کی وارث ہوں گی، پس اگر ایک یا دو یا تین ہوں تو ان کے درمیان حضرت علی (رض) اور زید (رض) کے فرمان کے مطابق ایک ہی حصّہ تقسیم ہوگا، اور جب تین دادیاں جمع ہوجائیں جن میں سے ہر ایک میت کے ساتھ رشتے میں برابر ہو تو ایک ہی حصّہ ان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، وہ دادیاں ماں کی نانی اور باپ کی ماں اور باپ کی نانی ہیں، اور حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں جب تین دادیاں جمع ہوجائیں تو ان کے درمیان مال کا چھٹا حصّہ تقسیم ہوگا اگرچہ ان میں سے کوئی دادی نسب میں میت کے زیادہ قریب نہ ہو اس طرح کہ ان میں سے کوئی دوسرے کی ماں نہ ہو۔

31937

(۳۱۹۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : جِئْنَ أَرْبَعُ جَدَّاتٍ یَتَسَاوَقْنَ إلَی مَسْرُوقٍ فَوَرَّثَ ثَلاَثًا ، وَطَرَحَ أُمَّ أَبِی الأُمِّ۔
(٣١٩٣٨) شعبی حضرت مسروق کے بارے میں نقل فرماتے ہیں ان کے پاس چار برابر درجے کی دادیاں آئیں تو انھوں نے تین دادیوں کو وارث بنادیا اور ماں کی دادی کو محروم فرما دیا۔

31938

(۳۱۹۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ : أَنَّ جَدَّتَیْنِ أَتَتَا شُرَیْحًا ، فَجَعَلَ السُّدُسَ بَیْنَہُمَا۔
(٣١٩٣٩) ابو المہلّب سے روایت ہے کہ دو دادیاں حضرت شریح کے پاس آئیں، آپ نے ان کے درمیان مال کے چھٹے حصّے کو تقسیم فرما دیا۔

31939

(۳۱۹۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یُوَرِّثُ الْجَدَّاتِ وَإِنْ کُنَّ عَشْرًا ، وَیَقُولُ : إنَّمَا ہُوَ سَہْمٌ أَطْعَمَہُ إیَّاہُنَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (عبدالرزاق ۱۹۰۹۳)
(٣١٩٤٠) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) دادیوں کو وارث بناتے تھے اگرچہ وہ دس ہوں ، اور فرماتے تھے کہ یہ تو ایک حصّہ ہے جو ان کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا ہے۔

31940

(۳۱۹۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَشْعَثِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : جَائَتْ أَرْبَعُ جَدَّاتٍ یَتَسَاوَقْنَ إلَی مَسْرُوقٍ ، فَوَرَّثَ ثَلاَثًا ، وَطَرَحَ وَاحِدَۃً : أُمَّ أَبِی الأُمِّ۔
(٣١٩٤١) شعبی فرماتے ہیں کہ ان کے پاس چار برابر درجے کی دادیاں آئیں تو انھوں نے تین دادیوں کو وارث بنادیا اور ماں کی دادی کو محروم فرما دیا۔

31941

(۳۱۹۴۲) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ یَحْیَی ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : تُوُفِّیَ رَجُلٌ وَتَرَکَ جَدَّتَیْہِ : أُمَّ أُمِّہِ ، وَأَمَّ أَبِیہِ ، فَوَرَّثَ أَبُو بَکْرٍ أُمَّ أُمِّہِ ، وَتَرَکَ الأُخْرَی ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ : لَقَدْ تَرَکْت امْرَأَۃً لَوْ أَنَّ الْجَدَّتَیْنِ مَاتَتَا وَابْنُہُمَا حَیٌّ مَا وَرِثَ مِنَ الَّتِی وَرَّثْتہَا مِنْہُ شَیْئًا ، وَوَرِثَ الَّتِی تَرَکَتَ : أَمَّ أَبِیہِ ! فَوَرَّثَہَا أَبُو بَکْرٍ ، فَشَرَّکَ بَیْنَہُمَا فِی السُّدُسِ۔ (سعید بن منصور ۸۲)
(٣١٩٤٢) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ ایک آدمی فوت ہوا اور اس نے اپنی دو دادیاں یعنی نانی اور دادی چھوڑیں، حضرت ابوبکر (رض) نے نانی کو وارث بنایا اور دوسری کو محروم فرما دیا، تو ایک انصاری نے کہا کہ اگر یہ دو دادیاں فوت ہوچکی ہوتیں اور ان کے بیٹے زندہ ہوتے تو جس دادی کو آپ نے وارث بنایا ہے اس کا بیٹا وارث نہ بنتا، اور جس کو آپ نے چھوڑ دیا ہے اس کا بیٹا وارث بنتا ، چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو بھی وارث بنادیا اور ان کو مال کے چھٹے حصّے میں شریک فرمایا۔

31942

(۳۱۹۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ : سَمِعْت خَارِجَۃَ بْنَ زَیْدٍ وَسُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ وَطَلْحَۃَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَوْفٍ یَقُولُونَ : إذَا کَانَتِ الْجَدَّۃُ الَّتِی مِنْ قِبَلِ الأُمِّ أَقْرَبَ فَہِیَ أَحَقُّ بِہِ۔
(٣١٩٤٣) ابو الزناد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت خارجہ بن زید، سلیمان بن یسار اور طلحہ بن عبداللہ بن عوف (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب ماں کی جانب کی دادی زیادہ قریب ہو تو وہی میراث کی زیادہ حق دار ہے۔

31943

(۳۱۹۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا بَشِیرٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ذَکْوَانَ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : إذَا کَانَتِ الْجَدَّۃُ مِنْ قِبَلِ الأُمِّ أَقْعَدَ مِنَ الْجَدَّۃِ الَّتِی مِنْ قِبَلِ الأَبِ کَانَ السُّدُسُ لَہَا ، وَإِذَا کَانَتِ الْجَدَّۃُ مِنْ قِبَلِ الأَبِ أَقْعَدَ مِنَ الْجَدَّۃِ مِنْ قِبَلِ الأُمِّ کَانَ بَیْنَہُمَا السُّدُسُ۔
(٣١٩٤٤) عبداللہ بن ذکوان نقل فرماتے ہیں کہ حضرت خارجہ بن زید (رض) نے فرمایا کہ جب ماں کی جانب کی دادی باپ کی جانب کی دادی سے زیادہ قریب ہو تو مال کا چھٹا حصّہ اسی کو ملے گا، اور جب باپ کی جانب کی دادی ماں کی جانب کی دادی سے قریب ہو تو مال کا چھٹا حصّہ ان دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔

31944

(۳۱۹۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : إذَا کَانَتِ الْجَدَّۃُ مِنْ قِبَلِ الأُمِّ ہِیَ أَقْعَدَ مِنَ الْجَدَّۃِ مِنْ قِبَلِ الأَبِ کَانَ لَہَا السُّدُسُ ، وَإِذَا کَانَتِ الْجَدَّۃُ مِنْ قِبَلِ الأَبِ أَقْعَدُ مِنَ الْجَدَّۃِ مِنْ قِبَلِ الأُمِّ کَانَ السُّدُسُ بَیْنَہُمَا۔
(٣١٩٤٥) خارجہ بن زید حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جب ماں کی جانب کی دادی باپ کی جانب کی دادی سے زیادہ قریب ہو تو مال کا چھٹا حصّہ اسی کو ملے گا، اور جب باپ کی جانب کی دادی ماں کی جانب کی دادی سے قریب ہو تو مال کا چھٹا حصّہ ان دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔

31945

(۳۱۹۴۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ بْنِ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ ، قَالاَ فِی الْجَدَّاتِ : السَّہْمُ لِذَوِی الْقُرْبَی مِنْہُنَّ۔
(٣١٩٤٦) شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور زید (رض) نے دادیوں کے بارے میں فرمایا کہ ان میں سے زیادہ قریب کی دادی کو حصّہ ملے گا۔

31946

(۳۱۹۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : الْجَدَّتَانِ : أَیُّہُمَا أَقْرَبُ فَلَہَا الْمِیرَاثُ۔
(٣١٩٤٧) خالد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ دو دادیوں میں سے جو زیادہ رشتے میں قریب ہو اسی کو میراث ملے گی۔

31947

(۳۱۹۴۸) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ عَمَّارٍ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ : فِی الْجَدَّاتِ إذَا کَانَتِ الْجَدَّۃُ أَقْرَبَ فَہِیَ أَحَقُّ۔
(٣١٩٤٨) عمار مولیٰ بنی ہاشم حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جب کوئی دادی دوسروں سے زیادہ قریب ہو تو وہی مال کی زیادہ حق دار ہے۔

31948

(۳۱۹۴۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَان الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ تَحْجُبُ الْجَدَّاتِ إلاَّ الأُمُّ۔
(٣١٩٤٩) علقمہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے ارشاد فرمایا کہ دادیوں کو ماں کے علاوہ کوئی وارث محروم نہیں کرتا۔

31949

(۳۱۹۵۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ : سَمِعَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ : أَنَّ عُمَرَ وَرَّثَ جَدَّۃَ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ مَعَ ابْنِہَا۔
(٣١٩٥٠) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بنو ثقیف کے ایک آدمی کی دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے وارث بنایا تھا۔

31950

(۳۱۹۵۱) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللہِ یُوَرِّثُ الْجَدَّۃَ مَعَ ابْنِہَا وَابْنُہَا حَیٌّ۔
(٣١٩٥١) ابو عمرو شیبانی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے بھی وارث بنایا کرتے تھے۔

31951

(۳۱۹۵۲) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ أَبِی الدَّہْمَائِ ، قَالَ : قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ : تَرِثُ الْجَدَّۃُ وَابْنُہَا حَیٌّ۔
(٣١٩٥٢) ابو الدھماء کہتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین (رض) نے فرمایا کہ دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے بھی وارث بنایا جائے گا۔

31952

(۳۱۹۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَطْعَمَ جَدَّۃً مِنَ ابْنِہَا السُّدُسَ ، فَکَانَتْ أَوَّلَ جَدَّۃٍ وَرِثَتْ فِی الإسْلاَمِ۔ (عبدالرزاق ۱۹۰۹۳)q
(٣١٩٥٣) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے مال کے چھٹے حصّے کا وارث بنایا، اور وہ اسلام میں وارث ہونے والی پہلی دادی تھی۔

31953

(۳۱۹۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : مَاتَ ابْنٌ لِحَسَکَۃَ الْحَنْظَلِیُّ وَتَرَکَ حَسْکَۃَ وَأَمَّ حَسْکَۃَ ، فَکَتَبَ فِیہَا أَبُو مُوسَی إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ عُمَرُ : أَنْ وَرِّثْہَا مَعَ ابْنِہَا السُّدُسَ۔
(٣١٩٥٤) حمید بن عبد الرحمن حِمَیری روایت کرتے ہیں کہ حس کہ حنظلی کا بیٹا فوت ہوگیا اور اس نے حس کہ اور ان کی ماں کو اپنے پیچھے چھوڑا ، اس کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ (رض) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو لکھا تو حضرت نے جواب دیا کہ آپ اس کو اس کے بیٹے کے ہوتے ہوئے ہی چھٹے حصّے کا وارث بنائیں۔

31954

(۳۱۹۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ وَہَمَّامٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ : أَنَّہُ وَرَّثَ جَدَّۃً مَعَ ابْنِہَا۔ (عبدالرزاق ۱۹۰۹۵)
(٣١٩٥٥) انس بن سیرین حضرت شریح کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے دادی کو اس کے بیٹے کے ساتھ وارث بنایا تھا۔

31955

(۳۱۹۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّہُ کَانَ یُوَرِّثُ الْجَدَّۃَ وَابْنُہَا حَیٌّ۔
(٣١٩٥٦) یونس حضرت حسن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے بھی وارث بناتے تھے۔

31956

(۳۱۹۵۷) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ : أَنَّہُ کَانَ یُوَرِّثُ الْجَدَّۃَ مَعَ ابْنِہَا ، وَابْنُہَا حَیٌّ۔
(٣١٩٥٧) اشعث حضرت محمد بن سیرین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے بھی وارث بناتے تھے۔

31957

(۳۱۹۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، أَنَّہُ قَالَ : أَوَّلُ جَدَّۃٍ أُطْعِمَتِ السُّدُسُ فِی الإسْلاَمِ جَدَّۃٌ أُطْعِمَتْہُ وَابْنُہَا حَیٌّ۔
(٣١٩٥٨) ہشام نقل کرتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پہلی دادی جس کو اسلام میں مال دیا گیا وہ دادی تھی جس کا بیٹا زندہ تھا۔

31958

(۳۱۹۵۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ : أَنَّہُ وَرَّثَ جَدَّتَیْنِ : أُمَّ أُمٍّ ، وَأُمَّ أَبٍ ، وَابْنَہُمَا حَیٌّ۔
(٣١٩٥٩) انس بن سیرین حضرت شریح کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے دادیوں نانی اور دادی کو وارث بنایا جبکہ دادی کا بیٹا زندہ تھا۔

31959

(۳۱۹۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللہِ الزُّبَیْرِیُّ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِیہِ: أَنَّہُ کَانَ یُوَرِّثُ الْجَدَّۃَ وَابْنُہَا حَیٌّ۔
(٣١٩٦٠) ہشام اپنے والد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے بھی وارث بناتے تھے۔

31960

(۳۱۹۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : مَنَعَہَا ابْنُہَا الْمِیرَاثَ۔
(٣١٩٦١) سعید بن مسیب حضرت زید بن ثابت (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ دادی کو اس کا بیٹا وراثت سے روک دیتا ہے۔

31961

(۳۱۹۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّ عُثْمَانَ کَانَ لاَ یُوَرِّثُ الْجَدَّۃَ أُمَّ الأَبِ وَابْنُہَا حَیٌّ ، قَالَ الزُّہْرِیُّ : وَتُوُفِّیَ ابْنُ الزُّبَیْرِ فَلَمْ یُوَرِّثْ۔
(٣١٩٦٢) زہری کہتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے وارث نہیں بناتے تھے، زہری فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر (رض) کا بیٹا فوت ہوا تو انھوں نے ( ان کی دادی کو ) وارث نہیں بنایا۔

31962

(۳۱۹۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَسَّامٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : قَالَ إبْرَاہِیمُ : لاَ تَرِثُ الْجَدَّۃُ مَعَ ابْنِہَا إذَا کَانَ حَیًّا ، فِی قَوْلِ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : سَمِعْت وَکِیعًا یَقُولُ : النَّاسُ عَلَی ہَذَا۔
(٣١٩٦٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ دادی حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) کے فرمان کے مطابق اپنے بیٹے کے زندہ ہونے کی حالت میں وارث نہیں ہوتی۔
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت وکیع کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ محدثین اس پر متفق ہیں۔

31963

(۳۱۹۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَمْ یُوَرِّثْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْجَدَّۃَ مَعَ ابْنِہَا إلاَّ ابْنُ مَسْعُودٍ۔
(٣١٩٦٤) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے حضرت ابن مسعود (رض) کے علاوہ کوئی بھی دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے وارث نہیں بناتا تھا۔

31964

(۳۱۹۶۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : أَنَّ زَیْدًا لَمْ یَکُن یَجْعَلْ لِلْجَدَّۃِ مَعَ ابْنِہَا مِیرَاثًا۔
(٣١٩٦٥) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت زید (رض) دادی کو اس کے بیٹے کے ہوتے ہوئے میراث نہیں دلاتے تھے۔

31965

(۳۱۹۶۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ : أَنَّہُمَا لَمْ یَکُونَا یَجْعَلاَنِ لِلْجَدَّۃِ مَعَ ابْنِہَا مِیرَاثًا۔
(٣١٩٦٦) شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) دادی کو اس کے بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے وارث نہیں بناتے تھے۔

31966

(۳۱۹۶۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : ابْنُ الْمُلاعَنَۃ تَرِثُ أُمُّہُ مِیرَاثَہُ کُلَّہُ۔
(٣١٩٦٧) اوزاعی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مکحول نے فرمایا کہ لعان کرنے والی اپنے بیٹے کے تمام مال کی وارث ہوگی۔

31967

(۳۱۹۶۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : لِلْمُلاَعِنَۃِ مِیرَاثُ وَلَدِہَا کُلُّہُ۔
(٣١٩٦٨) یونس روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ لعان کرنے والی عورت کو اس کے بیٹے کی تمام میراث ملے گی۔

31968

(۳۱۹۶۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عُمَر بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ ، قَالَ فِی وَلَدِ الْمُلاعَنَۃ : مِیرَاثُہُ کُلُّہُ لأُمِّہِ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ أُمٌّ فَہُوَ لِعَصَبَتِہِ۔ وَقَالَ إبْرَاہِیمُ : مِیرَاثُہُ کُلُّہُ لأُمِّہِ ، وَیَعْقِلُ عَنْہُ عَصَبَتُہَا ، وَکَذَلِکَ وَلَدُ الزِّنَا وَوَلَدُ النَّصْرَانِیِّ وَأُمُّہُ مُسْلِمَۃٌ۔
(٣١٩٦٩) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اس کی تمام میراث اس کی ماں کے لیے ہے، پس اگر اس کی ماں نہ ہو تو اس لڑکے کے عصبہ کے لئے، اور حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ اس کی تمام میراث اس کی ماں کے لیے ہے اور اس کی جانب سے دیت اس کے عصبہ ادا کریں گے، اور یہی حکم ہے ولد الزنا اور نصرانی کی اولاد کا جبکہ اس کی ماں مسلمان ہو۔

31969

(۳۱۹۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ : فِی ابْنِ الْمُلاعَنَۃ : مِیرَاثُہُ لأُمِّہِ ، فَإِنْ کَانَتْ أُمُّہُ قَدْ مَاتَتْ یَرِثُہُ وَرَثَتُہَا۔
(٣١٩٧٠) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کے بارے میں فرمایا کہ اس کی میراث اس کی ماں کے لیے ہے پس اگر اس کی ماں مرچکی ہو تو اس کے ورثہ اس کے وارث ہوں گے۔

31970

(۳۱۹۷۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یَرِثُ ابْنُ الْمُلاعَنَۃ أُمَّہُ ، فَإِذَا مَاتَ وَرِثَہُ مَنْ کَانَ یَرِثُ أُمَّہُ۔
(٣١٩٧١) مطرف روایت کرتے ہیں کہ حضرت شعبی نے فرمایا کہ لعان کرنے والی کا بیٹا اس کا وارث ہوگا، پھر جب اس کا بیٹا بھی مرجائے تو اس کے وارث وہ لوگ ہوں گے جو اس کے ماں کے وارث ہوتے ہیں۔

31971

(۳۱۹۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ: حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ: مِیرَاثُ ابْنِ الْمُلاعَنَۃ لأُمِّہِ۔
(٣١٩٧٢) قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ لعان کرنے والی عورت کا بیٹا اس کا وارث ہوگا۔

31972

(۳۱۹۷۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ : فِی ابْنِ الْمُلاعَنَۃ ، قَالاَ : الثُّلُثُ لأُمِّہِ ، وَمَا بَقِیَ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣١٩٧٣) قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور زید (رض) لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک تہائی مال اس کی ماں کے لیے ہے اور بقیہ مال بیت المال میں رکھا جائے گا۔

31973

(۳۱۹۷۴) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : تَرِثُہُ مِیرَاثَہَا ، وَبَقِیَّتُہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣١٩٧٤) اوزاعی روایت کرتے ہیں کہ حضرت زہری نے فرمایا کہ لعان کرنے والی اپنے بیٹے سے اپنے حصّہ کی وارث ہوگی اور باقی مال بیت المال میں رکھا جائے گا۔

31974

(۳۱۹۷۵) حَدَّثَنَا مَعْن بْنُ عِیسَی ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ : فِی ابْنِ الْمُلاعَنَۃ وَوَلَدِ الزِّنَا إذَا مَاتَ : وَرِثَتْہُ أُمُّہُ حَقَّہَا فِی کِتَابِ اللہِ وَإِخْوَتُہُ لأُمِّہِ حُقُوقَہُمْ ، وَکَانَ مَا بَقِیَ لِلْمُسْلِمِینَ۔
(٣١٩٧٥) مالک بن انس حضرت عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب لعان کرنے والی عورت کا بیٹا اور ولد الزنا مرجائیں تو ان کی ماں ان سے اپنے اس حق کی وارث ہوگی جو کتا باللہ میں بیان کیا گیا ہے، اور اس کے ماں شریک بھائی اپنے حقوق کے وارث ہوں گے، اور باقی مال مسلمانوں کے لیے ہے۔

31975

(۳۱۹۷۶) حدَّثَنَا عِیسَی ، عَنْ مَالِکٍ ، أَنَّہُ بَلَغَہُ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣١٩٧٦) حضرت مالک فرماتے ہیں کہ مجھے سلیمان بن یسار (رض) سے بھی یہی بات پہنچی ہے۔

31976

(۳۱۹۷۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : مَارَأْیُ إبْرَاہِیمَ بْنِ یَزِیدَ فِی ابْنِ الْمُلاعَنَۃ ؟ فَقُلْتُ : یَلْحَقُ بِأُمِّہِ ، وَقَالَ إبْرَاہِیمُ : یَلْحَقُ بِأَبِیہِ ، فَأَتَیْنَا عَبْدَ اللہِ بْنَ ہُرْمُزَ ، فَکَتَبَ لَنَا إلَی الْمَدِینَۃِ إلَی أَہْلِ الْبَیْتِ الَّذِی کَانَ ذَلِکَ فِیہِمْ ، فَجَائَ جَوَابُ کِتَابِہِمْ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلْحَقَہُ بِأُمِّہِ۔ (عبدالرزاق ۱۲۴۸۶)
(٣١٩٧٧) شیبانی فرماتے ہیں کہ مجھ سے شعبی نے پوچھا کہ ابراہیم بن یزید کی لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اس کو اس کی ماں کے ساتھ ملایا جائے گا، اور ابراہیم نے فرمایا کہ اس کو اس کے باپ کے ساتھ ملایا جائے گا، پس ہم حضرت عبداللہ بن ہرمز کے پاس آئے تو انھوں نے ہماری خاطر مدینہ کی طرف ان لوگوں کو خط لکھا جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا، چنانچہ ان کے خط کا جواب آیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس کی ماں کے ساتھ ملایا تھا۔

31977

(۳۱۹۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : کَتَبْت إلَی أَخٍ لِی فِی بَنِی زُرَیْقٍ : لِمَنْ قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِابْنِ الْمُلاعَنَۃ ؟ فَکَتَبَ إلَیَّ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی بِہِ لأُمِّہِ ، ہِیَ بِمَنْزِلَۃِ أَبِیہِ وَمَنْزِلَۃِ أُمِّہِ۔ (ابوداؤد ۳۶۲۔ عبدالرزاق ۱۲۴۷۷)
(٣١٩٧٨) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ میں نے بنو زریق کے اندر رہنے والے اپنے ایک بھائی سے خط کے ذریعے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کا فیصلہ کس کے لیے کیا تھا ؟ انھوں نے جواب میں لکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا فیصلہ اس کی ماں کے لیے کیا تھا، اس کی ماں اس کے لیے ماں اور باپ دونوں کے قائم مقام ہے۔

31978

(۳۱۹۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُمَا قَالاَ فِی ابْنِ الْمُلاعَنْۃ : عَصَبَتُہُ عَصَبَۃُ أُمِّہِ۔
(٣١٩٧٩) شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی اور عبداللہ (رض) نے لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کے بارے میں فرمایا کہ اس کے عصبہ وہی ہیں جو اس کی ماں کے عصبہ ہیں۔

31979

(۳۱۹۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ابْنُ الْمُلاعَنَۃ عَصَبَتُہُ عَصَبَۃُ أُمِّہِ یَرِثُہُمْ وَیَرِثُونَہُ۔
(٣١٩٨٠) نافع روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کے عصبہ وہی لوگ ہیں جو اس کی ماں کے عصبہ ہیں کہ وہ ان کا وارث ہوگا اور وہ اس کے وارث ہوں گے۔

31980

(۳۱۹۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : ابْنُ الْمُلاعَنَۃ عَصَبَتُہُ عَصَبَۃُ أُمِّہِ ، یَرِثُونَہُ وَیَعْقِلُونَ عَنْہُ۔
(٣١٩٨١) مغیرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ لعان کرنے والی عورت کے عصبہ وہی لوگ ہیں جو اس کی ماں کے عصبہ ہیں، کہ وہ اس کے وارث بھی ہوں گے اور اس کی طرف سے دیت بھی ادا کریں گے۔

31981

(۳۱۹۸۲) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یَرِثُہُ أَقْرَبُ النَّاسِ إِلَی أُمِّہِ۔
(٣١٩٨٢) مطرف شعبی کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس کا وارث وہ شخص ہوگا جو رشتے میں اس کی ماں کے سب سے زیادہ قریب ہے۔

31982

(۳۱۹۸۳) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ ، قَالاَ : ابْنُ الْمُلاعَنْۃ یَرِثُہُ مَنْ یَرِثُ أُمَّہُ۔
(٣١٩٨٣) شعبہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حکم اور حماد فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والی عورت کا وارث وہ شخص ہوگا جو اس کی ماں کا وارث ہوتا ہے۔

31983

(۳۱۹۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمْزَۃُ الزَّیَّاتُ ، عَنْ رَجُلٍ یُقَالَ لَہُ : عُمَرُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : فِی ابْنِ مُلاعَنَۃٍ مَاتَ وَتَرَکَ خَالَہُ وَخَالَتَہُ ، قَالَ : الْمَالُ لِلْخَالِ۔
(٣١٩٨٤) عمر حضرت شعبی کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جو لعان کرنے والی عورت کا جو بیٹا مرجائے اور اپنا ماموں اور اپنی خالہ چھوڑ جائے اس کا تمام مال ماموں کو دیا جائے گا۔

31984

(۳۱۹۸۵) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : قَالَ حَمْزَۃُ : وَکَانَ ابْنُ أَبِی لَیْلَی یَقُولُ : لِلْخَالِ الثُّلُثَانِ وَلِلْخَالَۃِ الثُّلُثُ۔
(٣١٩٨٥) حمزہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے تھے کہ ماموں کے لیے دو تہائی مال ہے اور خالہ کے لیے ایک تہائی مال۔

31985

(۳۱۹۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَمَّنْ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ یَقُولُ : فِی ابْنِ مُلاَعَنَۃٍ مَاتَ وَتَرَکَ ابْنَ أَخِیہِ وَجَدَّہُ أَبَا أُمِّہِ ، قَالَ : الْمَالُ لابْنِ الأَخِ۔
(٣١٩٨٦) حسن بن صالح ایک آدمی کے واسطے سے شعبی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے لعان کرنے والی عورت کے اس بیٹے کے بارے میں فرمایا جو مرتے ہوئے اپنے بھتیجے اور دادا کو چھوڑ جائے کہ اس کا تمام مال بھتیجے کے لیے ہوگا۔

31986

(۳۱۹۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ عَمَّنْ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ ، عَنْ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُمَا قَالاَ فِی ابْنِ مُلأَعَنْۃٍ مَاتَ وَتَرَکَ أُمَّہُ وَأَخَاہُ لأُمِّہِ ، قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یَقُولُ : لِلأُمِّ الثُّلُثُ ، وَلِلأَخِ السُّدُسُ ، وَیَرُدُّ مَا بَقِیَ عَلَیْہِمَا الثُّلُثَانِ وَالثُّلُثُ ، وَکَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ یَقُولُ : لِلأُمِّ الثُّلُثُ ، وَلِلأَخِ السُّدُسُ ، وَیَرُدُّ مَا بَقِیَ عَلَی الأُمِّ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : فَہَذِہِ مِنْ قَوْلِہِمْ جَمِیعًا تَصِیرُ مِنْ سِتَّۃٍ۔
(٣١٩٨٧) شعبی روایت کرتے ہیں کہ لعان کرنے والی عورت کا جو بیٹا مرتے ہوئے اپنی ماں اور ماں شریک بھائی کو چھوڑ جائے اس کے بارے میں حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ اس کی ماں کو ایک تہائی مال دیا جائے گا۔ اور اس کے بھائی کو مال کا چھٹا حصّہ دیا جائے گا، اور بقیہ مال بھی ” ردّ “ کے طریقہ پر ان کی طرف لوٹا دیا جائے گا، اس طرح ان کا حصّہ دو تہائی اور ایک تہائی ہوجائے گا، اور حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے تھے کہ ماں کو ایک تہائی مال اور بھائی کو مال کا چھٹا حصّہ دیا جائے گا اور باقی مال ماں پر لوٹا دیا جائے گا،
حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ تمام حضرات کے قول کے مطابق چھ حصّوں سے نکالا جائے گا۔

31987

(۳۱۹۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ عَبْدٍ ، الْمُزَنِیّ : أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ أُنَاسٍ سَقَطَ عَلَیْہِمْ بَیْتٌ فَمَاتُوا جَمِیعًا ؟ فَوَرِثَ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔
(٣١٩٨٨) ابوا لمنہال روایت کرتے ہیں کہ حضرت ایاس بن عبد مزنی سے ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا گیا جن پر گھر گرگیا اور وہ سب مرگئے، آپ نے فرمایا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔

31988

(۳۱۹۸۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی قَطَنُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الضَّبِّیُّ : أَنَّ امْرَأَۃً رَکِبَتِ الْفُرَاتِ وَمَعَہَا ابْنٌ لَہَا فَغَرِقَا جَمِیعًا ، فَلَمْ یُدْرَ أَیُّہُمَا مَاتَ قَبْلَ صَاحِبِہِ فَأَتَیْنَا شُرَیْحًا فَأَخْبَرْنَاہُ بِذَلِکَ ، فَقَالَ : وَرِثُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِنْ صَاحِبِہِ ، وَلاَ تَرُدُّوا عَلَی وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِمَّا وَرِثَ مِنْ صَاحِبِہِ شَیْئًا۔
(٣١٩٨٩) قطن بن عبداللہ ضبی فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے فرات کا سفر کیا جبکہ اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا بھی تھا، چنانچہ وہ دونوں غرق ہوگئے، اور یہ پتہ نہیں چلا کہ ان دونوں میں سے کون دوسرے سے پہلے مرا، ہم حضرت شریح کے پاس آئے اور ان کو اس کی خبر دی، آپ نے فرمایا : ان دونوں کو ایک دوسرے کا وارث بنادو اور ان میں سے کسی پر دوسری کی طرف سے وہ مال نہ لوٹاؤ جس کا وہ وارث ہوا ہے۔

31989

(۳۱۹۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ عَمْرِو بْنِ عَمْرٍو الْجُشَمِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ - وَکَانَ قَاضِیًا لابْنِ الزُّبَیْرِ - : أَنَّہُ وَرَّثَ الْغَرْقَی بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔
(٣١٩٩٠) عمرو بن عمرو جُشمی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتبہ نے جو حضرت ابن زبیر کے دور میں قاضی تھے ڈوبنے والوں کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیا۔

31990

(۳۱۹۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہُ وَرَّثَ قَوْمًا غَرِقُوا بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔
(٣١٩٩١) سماک ایک آدمی کے واسطے سے حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ان لوگوں کو جو ڈوب گئے تھے ایک دوسرے کا وارث بنایا تھا۔

31991

(۳۱۹۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی حُصَینٍ : أَنَّ قَوْمًا غَرِقُوا عَلَی جِسْرِ مَنْبِجٍ ، فَوَرَّثَ عُمَرُ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ ، قَالَ سُفْیَانُ لأَبِی حُصَیْنٍ : مِنَ الشَّعْبِیِّ سَمِعْتہ ، قَالَ : نَعَمْ۔
(٣١٩٩٢) ابو حَصِین فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ ” منبج “ شہر کے پل پر سے ڈوب گئے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو ایک دوسرے کا وارث بنادیا، سفیان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو حصین سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات حضرت شعبی سے سُنی ہے ؟ فرمایا : جی ہاں !

31992

(۳۱۹۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّ أَہْلَ بَیْتٍ غَرِقُوا فِی سَفِینَۃٍ ، فَوَرَّثَ عَلِیٌّ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔
(٣١٩٩٣) حارث روایت کرتے ہیں کہ ایک گھر والے ایک کشتی میں سفر کرتے ہوئے ڈوب گئے تو حضرت علی (رض) نے ان کو ایک دوسرے کا وارث بنایا۔

31993

(۳۱۹۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبِیدَۃَ : أَنَّ قَوْمًا وَقَعَ عَلَیْہِمْ بَیْتٌ ، أَوْ مَاتُوا فِی طَاعُونٍ ، فَوَرَّثَ عُمَرُ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔
(٣١٩٩٤) عَبیدہ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں پر ایک گھر گرگیا یا کچھ لوگ طاعون میں مرگئے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو ایک دوسرے کا وارث بنایا۔

31994

(۳۱۹۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ حُرَیسِ الْبَجَلِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ رَجُلاً وَابْنَہُ - أَوْ أَخَوَیْنِ - قُتِلاَ یَوْمَ صِفِّینَ جَمِیعًا ، لاَ یُدْرَی أَیُّہُمَا قُتِلَ أَوَّلاً ، قَالَ : فَوَرَّثَ عَلِیٌّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَاحِبَہُ۔ (عبدالرزاق ۱۹۱۵۲۔ دارمی ۳۰۴۸)
(٣١٩٩٥) حُریس بَجَلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ دو باپ بیٹے یا دو بھائی صفّین کے معرکے میں ایک ساتھ قتل ہوگئے جن کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا کہ کون پہلے قتل ہوا، تو حضرت علی (رض) نے ان دونوں کو ایک دوسرے کا وارث بنایا۔

31995

(۳۱۹۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ : أَنَّ طَاعُونًا وَقَعَ بِالشَّامِ ، فَکَانَ أَہْلُ الْبَیْتِ یَمُوتُونَ جَمِیعًا ، فَکَتَبَ عُمَرُ أَنْ یُوَرَّثُ الأَعْلَی مِنَ الأَسْفَلِ ، وَإِذَا لَمْ یَکُونُوا کَذَلِکَ وَرَّثَ ہَذَا مِنْ ذَا ، وَہَذَا مِنْ ذَا۔ قَالَ سَعِیدٌ : الأَعْلَی مِنَ الأَسْفَلِ : کَانَ الْمَیِّتُ مِنْہُمْ یَمُوتُ وَقَدْ وَضَعَ یَدُہُ عَلَی آخَرَ إلَی جَنْبِہِ۔
(٣١٩٩٦) قبیصہ بن ذؤیب کہتے ہیں کہ شام میں طاعون واقع ہوگیا چنانچہ ایک ایک گھر والے سب کے سب مر جایا کرتے تھے حضرت عمر (رض) نے یہ لکھا کہ اوپر والے کو نیچے والے کا وارث بنایا جائے، اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو وہ ایک دوسرے کے وارث بنا دیئے جائیں، سعید فرماتے ہیں کہ اوپر والے کو نیچے والے کا وارث بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے مرنے والا اس طرح مرتا تھا کہ وہ اپنا ہاتھ دوسرے کے پہلو پر رکھے ہوتا۔

31996

(۳۱۹۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، مِثْلَہُ۔
(٣١٩٩٧) قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) سے یہی مفہوم منقول ہے۔

31997

(۳۱۹۹۸) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ إبْرَاہِیمُ : فِی الْقَوْمِ یَمُوتُونَ لاَ یُدْرَی أَیُّہُمْ مَاتَ قَبْلُ ، قَالَ : یُوَرَّثُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔ قَالَ مَنْصُورٌ : لاَ یَضُرُّک بِأَیِّہِمْ بَدَأْت إذَا وَرَّثْت بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔
(٣١٩٩٨) منصور روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں جو اس طرح مرجائیں کہ ان کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ کون پہلے مرا، کہ ان کو ایک دوسرے کا وارث بنادیا جائے، حضرت منصور فرماتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ان کو ایک دوسرے کا وارث بناتے ہوئے جس سے چاہو ابتداء کرلو۔

31998

(۳۱۹۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ : أَنَّہُ کَانَ یُوَرِّثُ الأَحْیَائَ مِنَ الأَمْوَاتِ ، وَلاَ یُوَرِّثُ الْغَرْقَی بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔
(٣١٩٩٩) داؤد بن ابی ہند عمر بن عبد العزیز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ زندوں کو مردوں کا وارث بناتے تھے اور ڈوب جانے والوں کو ایک دوسرے کا وارث نہیں بناتے تھے۔

31999

(۳۲۰۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : کَانَ فِی کِتَابِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ : یَرِثُ کُلُّ إنْسَانٍ وَارِثُہُ مِنَ النَّاسِ۔
(٣٢٠٠٠) قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کے خط میں یہ بات تھی کہ ہر انسان لوگوں میں سے اس شخص کا وارث ہوگا جو اس کا وارث ہوتا ہے۔

32000

(۳۲۰۰۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : أَتَتْہُ امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ : إنَّ أَخِی وَابْنَ أَخِی خَرَجَا فِی سَفِینَۃٍ فَغَرِقَا ، فَلَمْ یُوَرِّثْہُمَا شَیْئًا۔
(٣٢٠٠١) اعمش روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میرا بھائی اور میرا بھتیجا ایک کشتی میں سفر کر رہے تھے کہ دونوں غرق ہوگئے، آپ نے ان دونوں کو کسی چیز کا وارث نہیں بنایا۔

32001

(۳۲۰۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حُسَیْنٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ وَاحِدٌ مِنْہُمَا مِمَّا وَرِثَ مِنْ صَاحِبِہِ شَیْئًا۔
(٣٢٠٠٢) مغیرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے سے اس مال کا وارث نہیں ہوگا جس کا وہ اس سے وارث ہوا ہے۔

32002

(۳۲۰۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی الَّذِینَ یَمُوتُونَ جَمِیعًا ، لاَ یُدْرَی أیُّہُمْ مَاتَ قَبْلَ صَاحِبِہِ ، قَالَ : لاَ یُوَرَّثُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔
(٣٢٠٠٣) معمّر زہری سے ان لوگوں کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو اس طرح اکٹھے مرجائیں کہ یہ معلوم نہ ہو کہ ان میں سے کون دوسرے سے پہلے مرا ہے، فرمایا ان کو ایک دوسرے کا وارث نہیں بنایا جائے گا۔

32003

(۳۲۰۰۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَہْمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : أَنَّ عَلِیًّا وَرَّثَ ثَلاَثَۃً غَرِقُوا فِی سَفِینَۃٍ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ وَأُمُّہُمْ حَیَّۃٌ ، فَوَرَّثَ أُمَّہُمُ السُّدُسَ مِنْ صُلْبِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ ، ثُمَّ وَرَّثَہَا الثُّلُثَ بِمَا وَرِثَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبِہِ ، وَجَعَلَ مَا بَقِیَ لِلْعَصَبَۃِ۔
(٣٢٠٠٤) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے تین آدمیوں کو جو کشتی میں سفر کرتے ہوئے ڈوب گئے تھے ، ایک دوسرے کا وارث بنایا جبکہ ان کی ماں زندہ تھی، اور ان کی ماں کو ہر ایک میں سے چھٹے حصّے کا وارث بنایا، پھر وراثت کا جو مال ان بھائیوں میں سے ہر ایک کو دوسرے سے دلایا اس میں سے ایک تہائی مال ماں کو دے دیا، اور باقی مال عصبہ کو دے دیا،

32004

(۳۲۰۰۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَالشَّعْبِیِّ : أَنَّہُ سَمِعَہُمَا یُفَسِّرَانِ قَوْلَہُمْ : یُوَرَّثُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ ، قَالاَ : إذَا مَاتَ أَحَدُہُمَا وَتَرَکَ مَالا ، وَلَمْ یَتْرُکَ الآخَرُ شَیْئًا ، وَرِثَ وَرَثَۃُ الَّذِی لَمْ یَتْرُکْ شَیْئًا مِیرَاثَ صَاحِبِ الْمَالِ ، وَلَمْ یَکُنْ لِوَرَثَۃِ صَاحِبِ الْمَالِ شَیْئٌ۔
(٣٢٠٠٥) محمد بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم اور شعبی (رض) کو اس بات کی وضاحت کرتے سنا کہ ” ان غرق ہونے والوں کو ایک دوسرے کا وارث بنایا جائے گا “ فرمایا کہ جب دو ورثاء میں سے ایک مال چھوڑ کر مرے اور دوسرا کچھ مال نہ چھوڑ کر جائے تو جو آدمی مال نہیں چھوڑ کر مرا، اس کے ورثہ مال والے شخص کی میراث پائیں گے اور مال والے آدمی کو کچھ نہیں ملے گا۔

32005

(۳۲۰۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : مِیرَاثُ اللَّقِیطِ بِمَنْزِلَۃِ اللُّقَطَۃِ۔
(٣٢٠٠٦) مغیرہ حضرت ابراہیم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ راستے میں ملنے والے بچے کی میراث کا حکم وہی ہے جو راستے میں ملنے والے مال کا ہے۔

32006

(۳۲۰۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِیرَۃ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ : لَمَّا رَجَمَ عَلِیٌّ الْمَرْأَۃَ ، قَالَ لاَہْلِہَا : ہَذَا ابْنُکُمْ تَرِثُونَہُ ، وَیَرِثُکُمْ ، وَإِنْ جَنَی جِنَایَۃً فَعَلَیْکُمْ۔
(٣٢٠٠٧) زید بن وھب فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے عورت کو سنگسار کیا تو اس عورت کے ورثاء کو فرمایا کہ یہ تمہارا بیٹا ہے، تم اس کے وارث ہو گے اور وہ تمہارا وارث ہوگا، اور اگر یہ کوئی جر م کرے تو اس کا تاوان تم پر ہوگا۔

32007

(۳۲۰۰۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ : فِی ابْنِ الْمُلاعَنَۃ : أُمُّہُ عَصَبَتُہُ وَعَصَبَتُہَا عَصَبَتُہُ وَوَلَدُ الزِّنَا بِمَنْزِلَتِہِ۔
(٣٢٠٠٨) شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور عبداللہ (رض) نے لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کے بارے میں فرمایا کہ اس کی ماں اور اس کی ماں کے عصبہ اس بچے کے عصبہ ہیں اور ولد الزنا (حرامی) کا حکم بھی وہی ہے۔

32008

(۳۲۰۰۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مِیرَاثُہُ کُلُّہُ لأُمِّہِ - یَعْنِی : ابْنَ الْمُلاعَنَۃ - ، وَیَعْقِلُ عَنْہُ عَصَبَتُہَا ، وَکَذَلِکَ وَلَدُ الزِّنَا ، وَوَلَدُ النَّصْرَانِیِّ وَأُمُّہُ مُسْلِمَۃٌ۔
(٣٢٠٠٩) حماد روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کی تمام وراثت اس کی ماں کے لیے ہے اور اس کے جرم کا تاوان اس کے عصبہ ادا کریں گے اور حرامی بچے کا ، اور اس نصرانی کے بچے کا جس کی ماں مسلمان ہو یہی حکم ہے۔

32009

(۳۲۰۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : وَلَدُ الْمُلاعَنَۃ وَوَلَدُ الزِّنَا : یَتَوَارَثَانِ مِنْ قِبَلِ الأُمِّ۔
(٣٢٠١٠) معمر روایت کرتے ہیں کہ زہری نے فرمایا کہ لعان کرنے والی عورت کا بیٹا اور حرامی بچّہ، دونوں اپنی ماں کی جانب سے رشتہ داروں کے وارث ہوں گے۔

32010

(۳۲۰۱۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : وَلَدُ الزِّنَا بِمَنْزِلَۃِ ابْنِ الْمُلاعَنَۃ ، أَو ابْنُ الْمُلاعَنَۃ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِ الزِّنَا۔
(٣٢٠١١) عمرو راوی ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ حرامی بچے کا وہی حکم ہے جو لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کا حکم ہے، یا یہ فرمایا کہ لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کا وہی حکم ہے جو حرامی بچے کا ہے۔

32011

(۳۲۰۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَشْعَثِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ ہِشَامُ بْنُ ہُبَیْرَۃَ إلَی شُرَیْحٍ یَسْأَلُہُ عَنْ مِیرَاثِ وَلَدِ الزِّنَا ؟ فَکَتَبَ إلَیْہِ : ارْفَعْہُ إلَی السُّلْطَانِ فَلْیَلِ حُزُونَتَہُ وَسُہُولَتَہُ۔
(٣٢٠١٢) شعبی فرماتے ہیں کہ ابن ہبیرہ نے بذریہ خط حضرت شریح سے حرامی بچے کی میراث کے بارے میں سوال کیا کہ تو انھوں نے فرمایا کہ اس کا معاملہ بادشاہ تک پہنچاؤ کہ اس کی کفالت کرے۔

32012

(۳۲۰۱۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرّ، عَنِ الْحَکَمِ، قَالَ: وَلَدُ الزِّنَا وَوَلَدُ الْمُتَلاعَنْینَ تَرِثُہُمَا أُمُّہُمَا وَأَخْوَالُہُمَا۔
(٣٢٠١٣) حسن بن حرّ حضرت حکم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ حرامی اور لعان کرنے والوں کی ماں اور اس کے ننھیال اس کے وارث ہوں گے۔

32013

(۳۲۰۱۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ شِبَاکٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ: فِی الْخُنْثَی ، قَالَ: یُوَرَّثُ مِنْ قِبَلِ مَبَالِہِ۔
(٣٢٠١٤) شعبی خنثٰی کے بارے میں حضرت علی (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اس کے وارث ہونے میں اس کے پیشاب کے راستے کا اعتبار ہوگا۔

32014

(۳۲۰۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ کَثِیرٍ الأَحْمَسِیُّ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ مُعَاوِیَۃَ أُتِیَ فِی خُنْثَی فَأَرْسَلِہُمْ إلَی عَلِیّ ، فَقَالَ : یُوَرَّثُ مِنْ حَیْثُ یَبُولُ۔
(٣٢٠١٥) کثیر أحمسی فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) کے پاس خنثٰی کے بارے میں مسئلہ لایا گیا تو آپ نے ان پوچھنے والوں کو حضرت علی (رض) کے پاس بھیج دیا، آپ نے فرمایا کہ جس جگہ سے وہ پیشاب کرتا ہے اس کے اعتبار سے اس کو وارث بنایا جائے گا۔

32015

(۳۲۰۱۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ وَالْحَسَنِ : فِی الْخُنْثَی ، قَالاَ : یُوَرَّثُ مِنْ مَبَالِہِ۔ قَالَ قَتَادَۃُ : فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، فَقَالَ : نَعَمْ ، وَإِنْ بَالَ مِنْہُمَا جَمِیعًا فَمِنْ أَیِّہِمَا سَبَقَ۔
(٣٢٠١٦) قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید اور حضرت حسن نے خنثٰی کے بارے میں فرمایا کہ اس کو اس کے پیشاب کی جگہ کے اعتبار سے وارث بنایا جائے گا، قتادہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے یہ بات سعید بن مسیب سے ذکر کی تو انھوں نے فرمایا : جی ہاں ! اور اگر وہ دونوں راستوں سے پیشاب کرے تو جس راستے سے پہلے پیشاب آئے اس کا اعتبار کیا جائے۔

32016

(۳۲۰۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ بَشِیرٍ الْہَمْدَانِیُّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : فِی مَوْلُودٍ وُلِدَ لَیْسَ لَہُ مَا لِلذَّکَرِ ، وَلاَ مَا لِلأُنْثَی ، یَبُولُ منْ سُرَّتِہِ ! قَالَ : لَہُ نِصْفُ حَظِّ الأُنْثَی وَنِصْفُ حَظِّ الذَّکَرِ۔
(٣٢٠١٧) عمر بن بشیر ہمدانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت شعبی نے اس بچے کے بارے میں فرمایا جس کا پیشاب کا مقام ہی نہ تھا، مردوں جیسا نہ عورتوں جیسا، اور وہ اپنی ناف کے راستے پیشاب کرتا تھا، کہ اس کو عورت کی میراث کا آدھا مال اور مرد کی میراث کا آدھامال دلایا جائے گا۔

32017

(۳۲۰۱۸) حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَدَنِیِّ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ : فِی الْخُنْثَی یُوَرَّثُ مِنْ مَبَالِہِ ، وَإِنْ بَالَ مِنْہُمَا جَمِیعًا فَمِنْ أَیِّہِمَا سَبَقَ۔
(٣٢٠١٨) محمد بن عبد الرحمن عدَنی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جعفر نے خنثٰی کے بارے میں فرمایا کہ اس کو اس کے پیشاب کے مقام کے اعتبار سے وارث بنایا جائے گا اور اگر دونوں راستوں سے پیشاب کرے تو جس مقام سے پہلے کرتا ہے اس کا اعتبار کیا جائے گا۔

32018

(۳۲۰۱۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: لَمْ یَکُنْ أَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَان یُوَرِّثُونَ الْحَمِیلَ۔
(٣٢٠١٩) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) اس طرح لائے جانے والے بچوں کو وارث بنایا کرتے تھے۔

32019

(۳۲۰۲۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَبِی طَلْقٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أَدْرَکْت الْحُمَلاَئَ فِی زَمَانِ عَلِیٍّ وَعُثْمَانَ لاَ یُوَرَّثُونَ۔
(٣٢٠٢٠) ابو طلق کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں میں نے دارالکفر سے لائے جانے والے بچوں کو دیکھا کہ ان کو وارث نہیں بنایا جاتا تھا۔

32020

(۳۲۰۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَابْنِ سِیرِینَ ، قَالاَ : مَا یُوَرَّثُ الْحَمِیلُ إلاَّ بِبَیِّنَۃٍ۔
(٣٢٠٢١) ہشام روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن اور ابن سیرین فرماتے ہیں کہ دارالکفر سے لائے جانے والے بچوں کو گواہوں کے بغیر وارث نہیں بنایا جاسکتا۔

32021

(۳۲۰۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ : أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ : أَنْ لاَ یُوَرَّثُ بِوِلاَدَۃِ الشِّرْکِ۔
(٣٢٠٢٢) محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لکھا تھا کہ مشرکین کے بچوں کو وارث نہ بنایا جائے۔

32022

(۳۲۰۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا مُجَالِدٌ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: کُتِبَ إلَی شُرَیْحٍ أَنْ لاَ یُوَرَّثَ حَمِیلٌ إلاَّ بِبَیِّنَۃٍ۔
(٣٢٠٢٣) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت شریح کو لکھا کہ دارالکفر سے لائے جانے والے بچوں کو بغیر گواہوں کے وارث نہ بنایا جائے۔

32023

(۳۲۰۲۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : ذُکِرَ لِمُحَمَّدٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ فِی الْحُمَلاَئِ: لاَ یُوَرَّثُونَ إلاَّ بِشَہَادَۃِ الشُّہُودِ ، قَالَ : فَقَالَ مُحَمَّدٌ : قَدْ تَوَارَثَ الْمُہَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ بِنَسَبِہِمَ الَّذِی کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَأَنَا أُنْکِرُ أَنْ یَکُونَ عُمَرُ کَتَبَ بِہَذَا۔
(٣٢٠٢٤) ابن عون فرماتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا گیا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے دارالکفر سے لائے جانے والے بچوں کے متعلق لکھا ہے کہ ان کو گواہوں کی گواہی کے بغیر وارث نہیں بنایا جائے گا، اس پر انھوں نے فرمایا کہ مہاجرین اور انصار کو جاہلیت کے نسب کی بنیاد پر وارث بنایا گیا تھا، اس لیے میں تسلیم نہیں کرتا کہ انھوں نے یہ بات لکھی ہو۔

32024

(۳۲۰۲۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَتَوَارَثُونَ بِالأَرْحَامِ الَّتِی یَتَوَاصَلُونَ بِہَا۔
(٣٢٠٢٥) مغیرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ لوگوں کو ان رشتہ داریوں کی بنیاد پر وارث بنایا جاتا تھا جن کے ذریعے وہ صلہ رحمی کیا کرتے ہیں۔

32025

(۳۲۰۲۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إیَاسِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ قَوْمِہِ : أَنَّ أَبَا سُلَیْمَانَ غَرِقَ أَخٌ لَہُ یُقَالَ لَہُ : رَاشِدٌ ، فَاخْتَصَمَ فِیہِ بَنُو زَبِیدٍ وَبَنُو أَسَدٍ ، فَارْتَفَعُوا إلَی مَسْرُوقٍ ، فَقَالَ : مَسْرُوقٌ لِبَنِی أَسَدٍ : أَتَشْہَدُونَ أَنَّہُ کَانَ یَحْرُمُ عَنْہُ مَا یَحْرُمُ الأَخَ مِنْ أُخْتِہِ ، فَشَہِدُوا بِذَلِکَ ، فَأَعْطَی أَبَا سُلَیْمَانَ مِیرَاثَہُ۔
(٣٢٠٢٦) ایاس بن عباس اپنی قوم کے ایک بزرگ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ ابو سلیمان کا ایک بھائی جس کا نام راشد تھا فوت ہوگیا، چنانچہ اس کے بارے میں بنو زبید اور بنو اسد کے درمیان جھگڑا ہوا، انھوں نے یہ بات حضرت مسروق تک پہنچائی تو حضرت مسروق نے بنو اسد سے کہا : کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ بھائی اور بہن کے درمیان جو چیزیں حرام ہیں وہ ان کے درمیان بھی حرام تھیں ؟ انھوں نے اس بات کی گواہی دی تو آپ نے ابو سلیمان کو ان کی میراث د ی۔

32026

(۳۲۰۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ سَمِعْت الأَعْمَشَ ، قَالَ : کَانَ أَبِی حَمِیلاً فَمَاتَ أَخُوہُ ، فَوَرَّثَہُ مَسْرُوقٌ مِنْہُ۔
(٣٢٠٢٧) وکیع فرماتے ہیں کہ میں نے اعمش سے یہ بات سنی کہ آپ نے فرمایا کہ میرے والد بچپن میں دارالکفر سے لائے گئے تھے، پھر ان کے بھائی فوت ہوئے تو حضرت مسروق نے ان کو ان کے بھائی کا وارث بنایا۔

32027

(۳۲۰۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : کُلّ نَسَبٍ یُتَوَصَل عَلَیْہِ فِی الإسْلاَمِ فَہُوَ وَارِثٌ مَوْرُوثٌ۔
(٣٢٠٢٨) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ہر وہ نسب جس کی بنیاد پر اسلام میں صلہ رحمی کی جاتی ہے اس کی بنیاد پر لوگ وارث ہوں گے اور اسی بنیاد پر دوسروں کو ان کا وارث بنایا جائے گا۔

32028

(۳۲۰۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: إذَا کَانَ نَسَبًا مَعْرُوفًا مَوْصُولاً وَرِثَ۔ یَعْنِی: الْحَمِیلَ۔
(٣٢٠٢٩) اشعث روایت کرتے ہیں کہ حضرت شعبی نے فرمایا کہ جب دارالکفر سے لائے جانے والے بچوں کا نسب معروف ہو اور اس کی بنیاد پر تعلقات رکھے جاتے ہوں تو وہ وارث ہوں گے۔

32029

(۳۲۰۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا عَنِ الْحَمِیلِ ؟ فَقَالاَ : لاَ یَرِثُ إلاَّ بِبَیِّنَۃٍ۔
(٣٢٠٣٠) شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حمّاد (رض) سے دارالکفر سے لائے جانے والے بچوں کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ گواہی کے بغیر وارث نہیں ہوگا۔

32030

(۳۲۰۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِیُّ، قَالَ: حدَّثَنَا زَائِدَۃُ بْنُ قُدَامَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ أَبِی الشَّعْثَائِ، قَالَ: أَقَرَّتِ امْرَأَۃٌ مِنْ مُحَارِبٍ جَلِیبَۃٌ بِنَسَبِ أَخٍ لَہَا جَلِیبٌ، فَوَرَّثَہُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْن عُتْبَۃَ مِنْ أُخْتِہِ۔
(٣٢٠٣١) اشعث بن ابو الشعشاء فرماتے ہیں کہ قبیلہ محارب کی ایک عورت نے جو بچپن میں دارالکفر سے لائی گئی تھی اپنے ایک بھائی کے نسب کا اقرار کیا جو دارالکفر سے لایا گیا تھا چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عتبہ نے اس بھائی کو اس کی بہن کا وارث بنایا۔

32031

(۳۲۰۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنِ الْحَمِیلِ یُقِیمُ الْبَیِّنَۃَ أَنَّہُ أَخُوہُ ، قَالَ : یَرِثُہُ فِی کِتَابِ اللہِ {وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللہِ}۔
(٣٢٠٣٢) حکم بن عطیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے اس بچے کے بارے میں سوال کیا جو اس بات پر گواہی لے آئے کہ وہ مرنے والے کا بھائی ہے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق وہ اس کا وارث ہوگا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں { وَأُولُوا الأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللہِ }۔

32032

(۳۲۰۳۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا ارْتَدَّ الْمُرْتَدُّ وَرِثَہُ وَلَدُہُ۔
(٣٢٠٣٣) قاسم بن عبد الرحمن روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی مرتد ہوجائے تو اس کی اولاد اس کی وارث ہوگا۔

32033

(۳۲۰۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ أُتِیَ بِمسْتورِد الْعِجْلِیّ وَقَدِ ارْتَدَ ، فَعَرَضَ عَلَیْہِ الإسْلاَمَ فَأَبَی فَقَتَلَہُ وَجَعَلَ مِیرَاثَہُ بَیْنَ وَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔ (عبدالرزاق ۱۹۲۹۶۔ دارمی ۳۰۷۵)
(٣٢٠٣٤) ابو عمرو شیبانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی کے پاس مستورد عجلی کو لایا گیا جو مرتد ہوچکا تھا آپ نے اس پر اسلام پیش کیا لیکن اس نے انکار کردیا چنانچہ آپ نے اس کو قتل کردیا اور اس کی میراث اس کے مسلمان ورثاء کے درمیان تقسیم فرما دی۔

32034

(۳۲۰۳۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ عَلِیٍّ: فِی مِیرَاثِ الْمُرْتَدِّ: لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٢٠٣٥) حکم روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) مرتد کی میراث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اس کے مسلمان ورثاء کو دی جائے گی۔

32035

(۳۲۰۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : فِی مِیرَاثِ الْمُرْتَدِّ ، أَنَّہُ لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، وَلَیْسَ لأَہْلِ ۔۔ شَیْئٌ۔
(٣٢٠٣٦) جریر بن حازم فرماتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز (رض) نے مرتد کی میراث کے بارے میں یہ لکھا کہ وہ اس کے مسلمان ورثاء کے لیے ہوگی، اور اس کے ہم مذہب لوگوں کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔

32036

(۳۲۰۳۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: یُقْتَلُ، وَمِیرَاثُہُ لِوَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٢٠٣٧) قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا اور اس کی میراث اس کے مسلمان ورثاء کے لیے ہوگی۔

32037

(۳۲۰۳۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : جُعِلَ مِیرَاثُ الْمُرْتَدِّ لِوَرَثَتِہِ۔
(٣٢٠٣٨) عمرو روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے مرتد کی میراث اس کے ورثاء کو دی۔

32038

(۳۲۰۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ عَنْ مِیرَاثِ الْمُرْتَدِّ ، ہَلْ یُوصَلُ ؟ قَالَ : مَا یُوصَلُ ؟ قُلْتُ : یَرِثُہُ بَنُوہُ ، قَالَ نَرِثُہُمْ لاَ یَرِثُونَنَا۔
(٣٢٠٣٩) موسیٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب سے مرتد کی میراث کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس کو ملایا جائے گا ؟ انھوں نے پوچھا کہ ملانے کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے کہا کہ کیا ان کے بیٹے اس کے وارث ہوں گے ؟ انھوں نے فرمایا کہ ہم ان کے وارث ہوں گے اور وہ ہمارے وارث نہیں ہوں گے۔

32039

(۳۲۰۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی الصَّبَّاحِ مُوسَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُولُ : الْمُرْتَدُّونَ نَرِثُہُمْ ، وَلاَ یَرِثُونَنَا۔
(٣٢٠٤٠) موسیٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم مرتدین کے وارث ہوں گے اور وہ ہمارے وارث نہیں ہوں گے۔

32040

(۳۲۰۴۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ وَالْحَکَمِ ، قَالاَ : یُقَسَّمُ مِیرَاثُہُ بَیْنَ امْرَأَتِہِ وَبَیْنَ وَرَثَتِہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔
(٣٢٠٤١) اشعث روایت کرتے ہیں کہ حضرت شعبی اور حکم نے فرمایا کہ مرتد کی میراث اس کی مسلمان بیوی اور مسلمان ورثاء کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

32041

(۳۲۰۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ سُفْیَانَ یَقُولُ : إذَا لَحِقَ بِدَارِ الْحَرْبِ ، ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ یُقَسَّمَ مِیرَاثُہُ ، أَوْ یَعْتِقَ الْحَاکِمُ أُمَّہَاتِ أَوْلاَدِہِ وَمُدَبَّرَتَہُ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِمْ۔
(٣٢٠٤٢) حضرت وکیع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سفیان کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر مرتد دارالحرب چلا جائے پھر میراث تقسیم ہو اور اس کی امّ ولد اور مدبّرہ کے آزاد ہونے سے پہلے لوٹ آئے تو وہی ان کا حق دار ہے۔

32042

(۳۲۰۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ الْمُسْلِمُونَ یُطَیِّبُونَ لأَہْلِ الْمُرْتَدِّ مِیرَاثَہُ۔ یَعْنِی : إذَا قُتِلَ۔
(٣٢٠٤٣) عمرو روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا ، کہ مسلمان مرتد کے لیے اس کی میراث کو حلال قرار دیتے تھے، یعنی جب وہ قتل ہوجائے۔

32043

(۳۲۰۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ : أَنَّ قَتَادَۃَ - رَجُلاً مِنْ بَنِی مُدْلِجٍ - قَتَلَ ابْنَہُ ، فَأَخَذَ بِہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِئَۃ مِنَ الإِبِلِ : ثَلاَثِینَ حِقَّۃً ، وَثَلاَثِینَ جَذَعَۃً ، وَأَرْبَعِینَ خَلِفَۃً ، وَقَالَ لاَبِی الْمَقْتُولِ: سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَیْسَ لِقَاتِلٍ مِیرَاثٌ۔(ابن ماجہ ۲۶۴۶۔ مالک ۸۶۷)
(٣٢٠٤٤) عمرو بن شعیب فرماتے ہیں کہ ابو قتادہ جو بنو مدلج کا ایک شخص تھا، اس نے اپنے بیٹے کو قتل کردیا، حضرت عمر (رض) نے اس سے اس کے بدلے سو اونٹ لئے، تیس تین سالہ اونٹ، تیس چالیس سالہ اونٹ، اور چالیس حاملہ اونٹنیاں، اور مقتول کے والد کو یہ فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے ، کہ قاتل کے لیے کوئی میراث نہیں۔

32044

(۳۲۰۴۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ۔
(٣٢٠٤٥) مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ، کہ قاتل وارث نہیں ہوگا۔

32045

(۳۲۰۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ عَمْدًا ، وَلاَ خَطَأً۔
(٣٢٠٤٦) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا، کہ نہ جان بوجھ کر قتل کرنے والا وارث ہوگا ، نہ غلطی سے قتل کرنے والا۔

32046

(۳۲۰۴۷) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَجُلاً قَتَلَ أَخَاہُ خَطَا ، فَسُئِلَ عَنْ ذَلِکَ ابْنُ عَبَّاسٍ ؟ فَلَمْ یُوَرِّثْہُ ، وَقَالَ : لاَ یَرِثُ قَاتِلٌ شَیْئًا۔
(٣٢٠٤٧) سعید بن جبیر روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنے بھائی کو غلطی سے قتل کردیا، چنانچہ اس کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا : تو آپ نے فرمایا : کوئی قاتل کسی چیز کا وارث نہیں ہوتا۔

32047

(۳۲۰۴۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَرِثُ قَاتِلٌ مَنْ قَتَلِ قَرِیبِہِ شَیْئًا مِنَ الدِّیَۃِ عَمْدًا أَوْ خَطَأً۔ وَقَالَ الزُّہْرِیُّ الْقَاتِلُ لاَ یَرِثُ مِنْ دِیَۃ مَنْ قُتِلَ شَیْئًا وَإِنْ کَانَ وَلَدًا ، أَوْ وَالِدًا ، وَلَکِنْ یَرِثُ مِنْ مَالِہِ ، لأَنَّ اللَّہَ قَدْ عَلِمَ أَنَّ النَّاسَ یَقْتُلُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا ، وَلاَ یَنْبَغِی لأَحَدٍ أَنْ یَقْطَعَ الْمَوَارِیثَ الَّتِی فَرَضَہَا۔
(٣٢٠٤٨) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ جو آدمی کسی کو قتل کر دے وہ خواہ جان بوجھ کر قتل کرے یا غلطی سے ، مقتول کی دیت کا وارث نہیں ہوگا، اور زہری فرماتے ہیں قاتل مقتول کی کسی چیز کا وارث نہیں ہوگا، چاہے وہ بیٹا ہو یا باپ ہو۔ لیکن وہ مقتول کے اپنے مال کا وارث ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ علم ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کریں گے، اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ ان وراثتوں کو ختم کر دے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کردی ہیں۔

32048

(۳۲۰۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الْعَبْدِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ۔
(٣٢٠٤٩) ابو عمرو عبدی حضرت علی (رض) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ قاتل وارث نہیں ہوگا۔

32049

(۳۲۰۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ مِنَ دِیَۃٍ مَنْ قُتِلَ شَیْئًا۔
(٣٢٠٥٠) حجاج روایت کرتے ہیں کہ حضرت عطاء نے فرمایا ، کہ قاتل مقتول کی دیت کا وارث نہیں ہوگا۔

32050

(۳۲۰۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ: لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ مِنَ الدِّیَۃ ولاَ مِنَ الْمَالُ شَیْئًا۔
(٣٢٠٥١) منصور روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ قاتل مقتول کی دیت کا وارث ہوگا نہ ہی مقتول کے مال کا۔

32051

(۳۲۰۵۲) حَدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ صَدَقَۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یُوَرِّثُ الْقَاتِلَ وَیَرَی ، أَنَّہُ یَحْجبُ۔
(٣٢٠٥٢) یونس روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن قاتل کو وارث نہیں بناتے تھے اور ان کی رائے یہ تھی کہ قاتل محجوب ہے۔

32052

(۳۲۰۵۳) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ شِہَابٍ عَنِ الْقَاتِلِ یَرِثُ شَیْئًا ؟ قَالَ : فَقَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ : مَضَتِ السُّنَّۃُ أَنَّ الْقَاتِلَ لاَ یَرِثُ شَیْئًا۔
(٣٢٠٥٣) ابن ابی ذئب فرماتے ہیں ، کہ میں نے ابن شہاب سے پوچھا، کہ کیا قاتل کسی چیز کا وارث ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا، کہ حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا ہے کہ حدیث میں یہ بات طے ہے کہ قاتل کسی چیز کا وارث نہیں ہے۔

32053

(۳۲۰۵۴) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِی عَوْنٍ ، قَالَ : قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَیْرٍ: الْقَاتِلُ عَمْدًا لاَ یَرِثُ مِنَ الدِّیَۃِ ، وَلاَ مِنْ غَیْرِہَا شَیْئًا ، وَالْقَاتِلُ خَطَأً لاَ یَرِثُ مِنَ الدِّیَۃِ شَیْئًا وَیَرِثُ مِنْ غَیْرِہَا إنْ کَانَ۔
(٣٢٠٥٤) عبد الواحد بن ابی عون فرماتے ہیں کہ محمد بن جبیر نے فرمایا کہ جان بوجھ کر قتل کرنے والا دیت اور دوسرے مال کا وارث نہیں ہوگا، اور غلطی سے قتل کرنے والا دیت کا وارث تو نہیں ہوگا البتہ اگر دوسرا مال موجود ہو تو اس کا وارث ہوگا۔

32054

(۳۲۰۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ۔
(٣٢٠٥٥) یحییٰ بن سعید حضرت عروہ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ قاتل وارث نہیں ہوگا۔

32055

(۳۲۰۵۶) حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ قَاتِلٌ شَیْئًا۔
(٣٢٠٥٦) ہشّام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا، کہ قاتل مال کے کسی حصّے کا وارث نہیں ہوگا۔

32056

(۳۲۰۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : إذَا قَتَلَ الرَّجُلُ ابْنَہُ ، أَوْ أَخَاہُ لَمْ یَرِثْہُ ، وَوَرِثَہُ أَقْرَبُ النَّاسِ بَعْدَہُ۔
(٣٢٠٥٧) ابو غنیّہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حکم نے فرمایا، کہ جب کوئی آدمی اپنے بیٹے یا بھائی کو قتل کر دے تو وہ اس کا وارث نہیں ہوگا، اس کے علاوہ جو آدمی میت سے زیادہ قریب ہو وہ اس کا وارث ہوگا۔

32057

(۳۲۰۵۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إنْ قَتَلَہُ خَطَأً وَرِثَہُ مِنْ مَالِہِ ، وَلَمْ یَرِثْ مِنْ دِیَتِہِ ، وَإِنْ قَتَلَہُ عَمْدًا لَمْ یَرِثْ مِنْ مَالِہِ ، وَلاَ مِنْ دِیَتِہِ۔
(٣٢٠٥٨) ابن جریج حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ اگر قاتل غلطی سے قتل کرے تو وہ میت کے مال سے وارث ہوگا لیکن میت کی دیت سے وارث نہیں ہوگا، لیکن اگر جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کے مال کا وارث ہوگا نہ اس کی دیت کا۔

32058

(۳۲۰۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إذَا قَتَلَ وَلِیَّہُ خَطَأً وَرِثَ مِنْ مَالِہِ ، وَلَمْ یَرِثْ مِنْ دِیَتِہِ ، وَإِنْ قَتَلَہُ عَمْدًا لَمْ یَرِثْ مِنْ مَالِہِ ، وَلاَ مِنْ دِیَتِہِ۔
(٣٢٠٥٩) معمر روایت کرتے ہیں کہ زہری نے فرمایا، کہ جب کوئی آدمی غلطی سے اپنے ولی کو قتل کر دے تو وہ اس کے مال کا وارث نہیں ہوگا۔

32059

(۳۲۰۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ : فِی رَجُلٍ قَتَلَ أُمَّہُ قَالَ : إنْ کَانَ خَطَأً وَرِثَ ، وَإِنْ کَانَ عَمْدًا لَمْ یَرِثْ۔ قَالَ وَکِیعٌ : لاَ یَرِثُ قَاتِلُ عَمْدٍ وَلاَ خَطَأٍ مِنَ الدِّیَۃِ ، وَلاَ مِنَ الْمَالِ۔
(٣٢٠٦٠) یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنی ماں کو قتل کردیا تھا ، کہ اگر اس نے غلطی سے قتل کیا ہے تو وہ وارث ہوگا، اور اگر جان بوجھ کر قتل کیا ہے تو وارث نہیں ہوگا۔ وکیع فرماتے ہیں کہ جان بوجھ کر قتل کرنے والا اور بھول کر قتل کرنے والا دونوں دیت کے وارث ہوں گے نہ مال کے۔

32060

(۳۲۰۶۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ۔
(٣٢٠٦١) منصور روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ قاتل وارث نہیں ہوگا۔

32061

(۳۲۰۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ شَیْئًا مِنْ دِیَتِہِ ، وَلاَ مِنْ مَالِہِ۔
(٣٢٠٦٢) منصور روایت کرتے ہیں کہ قاتل مقتول کی دیت کا وارث ہوگا نہ مال کا۔

32062

(۳۲۰۶۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ۔
(٣٢٠٦٣) سفیان ایک آدمی کے واسطے سے حضرت قاسم کا فرمان نقل کرتے ہیں، کہ قاتل وارث نہیں ہوگا۔

32063

(۳۲۰۶۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الْقَاتِلُ۔
(٣٢٠٦٤) لیث حضرت طاؤس سے روایت کرتے ہیں کہ قاتل وارث نہیں ہوگا۔

32064

(۳۲۰۶۵) حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یُوَرِّثُ وَلَدَ الزِّنَا وَإِنَ ادَّعَاہُ الرَّجُلُ۔
(٣٢٠٦٥) ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن حسین ولد الزنا کو وارث نہیں بناتے تھے، چاہے کوئی آدمی اس کے نسب کا دعویٰ کرے۔

32065

(۳۲۰۶۶) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : مَا کَانَ أَبُوک یَقُولُ فِی وَلَدِ الزِّنَا یَعْتِقُہُ مَوَالِیہِ ، أَوْ سَادَتُہُ فَیَسْتَلْحِقُہُ أَبُوہُ وَقَدْ عَلِمَ مَوَالِیہِ أَنَّہُ ابْنُہُ ؟ قَالَ : کَانَ یَقُولُ : لاَ یَرِثُ۔
(٣٢٠٦٦) ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس کے بیٹے سے پوچھا کہ آپ کے والد اس ولد الزنا کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس کو اس کے آقا یا اس کے سردارآزاد کردیں اور پھر اس کا والد اس کے نسب کا اقرار کرلے، جبکہ اس کے آقاؤں کو یہ علم ہو کہ یہ اس کا بیٹا ہے ؟ انھوں نے فرمایا، کہ وہ فرماتے تھے، کہ وہ وارث نہیں ہوگا۔

32066

(۳۲۰۶۷) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ قَالَ : یَرِثُہُ إذَا عَرَفَ مَوَالِیہِ أَنَّہُ ابْنُہُ ، وَإِنْ أَنْکَرَہ مَوَالِیہِ وَخَاصَمُوہُ لَمْ یَرِثْ۔
(٣٢٠٦٧) ابن جریج روایت کرتے ہیں کہ حضرت عطاء نے فرمایا، کہ ولد الزنا اس کا وارث ہوگا جبکہ اس کے سردار جانتے ہوں کہ یہ اس کا بیٹا ہے، اور اگر اس کے مولیٰ ، انکار کردیں اور جھگڑا کریں تو وہ وارث نہیں ہوگا۔

32067

(۳۲۰۶۸) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ عَہَرَ بِامْرَأَۃٍ حُرَّۃٍ، أَوْ أَمَۃِ قَوْمٍ، فَإِنَّہُ لاَ یَرِثُ وَلاَ یُورَثُ۔ (ابن حبان ۵۹۹۶۔ عبدالرزاق ۱۳۸۵۱)
(٣٢٠٦٨) ابن جریج روایت کرتے ہیں، کہ حضرت عمرو بن شعیب نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جو آدمی کسی آزاد عورت کے ساتھ زنا کرے ، یا کسی قوم کی باندی کے ساتھ زنا کرے تو نہ وہ وارث ہوگا ، نہ کوئی دوسرا اس کا وارث ہوگا۔

32068

(۳۲۰۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ فِی ابْنٍ ۔۔۔۔ مَوَلَّدَ مِنَ الزِّنَی ، قَالَ : لاَ یُلْحَقُ بِہِ۔
(٣٢٠٦٩) اشعث روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ زنا سے پیدا ہونے والا بچہ زانی سے ثابت النسب نہیں ہوسکتا۔

32069

(۳۲۰۷۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ شِبَاکٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ وَلَدُ الزِّنَا ، إنَّمَا یَرِثُ مَنْ لاَ یُقَامُ عَلَی أَبِیہِ الْحَدُّ ، وَتُمَلَّک أُمَّہُ بِنِکَاحٍ ، أَوْ شِرَائٍ۔
(٣٢٠٧٠) شباک روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا، کہ حرامی بچہ وارث نہیں ہوگا، صرف وہ بچہ وارث ہوگا جس کے باپ پر حد قائم نہ کی جائے ، اور اس کی ماں نکاح یا خریداری کے ذریعے سے ملکیت میں آئی ہو۔

32070

(۳۲۰۷۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرِّ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَنَّ وَلَدَ الزِّنَا لاَ یَرِثُہُ الَّذِی یَدَّعِیہِ ، وَلاَ یَرِثُہُ الْمَوْلُودُ۔
(٣٢٠٧١) حسن بن حُر روایت کرتے ہیں کہ حضرت حکم نے مجھے یہ بیان کیا، کہ ولد الزنا کا وہ آدمی وارث نہیں ہوسکتا جو اس کے نسب کا اقرار کرے، اور نہ وہ ولد الزنا اس کا وارث ہوگا۔

32071

(۳۲۰۷۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یَرِثُ بِأَدْنَی النَّسَبَیْنِ۔
(٣٢٠٧٢) معمر روایت کرتے ہیں کہ حضرت زہری نے فرمایا، کہ وہ دو نسبوں میں قریبی نسب کے اعتبار سے وارث ہوگا۔

32072

(۳۲۰۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ ابْنَتَہُ وَہِیَ أُخْتُہُ وَہِیَ امْرَأتُہُ ، قَالَ : تَرِثُ بِأَدْنَی قَرَابَتِہَا ، قَالَ : وَقَالَ قَتَادَۃُ : لَہَا الْمَالُ کُلُّہُ۔
(٣٢٠٧٣) قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا، جو اپنی بیٹی کو چھوڑ جائے اور وہ اس کی بہن بھی ہو اور اس کی بیوی بھی ہو، کہ وہ قریب ترین رشتہ داری کے اعتبار سے وارث ہوگی، اور حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اس عورت کو تمام مال دیا جائے گا۔

32073

(۳۲۰۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الْمَجُوسِیُّ إلاَّ بِوَجْہٍ وَاحِدٍ۔
(٣٢٠٧٤) معمر روایت کرتے ہیں کہ حضرت زہری نے فرمایا کہ مجوسی ایک ہی اعتبار سے وارث ہوگا۔

32074

(۳۲۰۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَمَّنْ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ ، عَنْ عَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ : أَنَّہُمَا کَانَا یُوَرِّثَانِ الْمَجُوسِیَّ مِنَ الْوَجْہَیْنِ۔
(٣٢٠٧٥) حضرت شعبی کے ایک شاگرد روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور عبداللہ (رض) مجوسی کو دو اعتبار سے وارث بناتے تھے۔

32075

(۳۲۰۷۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا عَنْ مِیرَاثِ الْمَجُوسِیِّ ؟ قَالَ : یَرِثُونَ مِنَ الْوَجْہِ الَّذِی یَحِلُّ۔
(٣٢٠٧٦) یزید بن ہارون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد بن سلمہ سے مجوسی کی میراث کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا وہ اس جہت سے وارث ہوں گے جو حلال جہت ہو۔

32076

(۳۲۰۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ : فِی مَجُوسِیٍّ تَزَوَّجَ ابْنَتَہُ فَأَصَابَ مِنْہَا ابْنَتَیْنِ ، ثُمَّ مَاتَتْ إحْدَاہُمَا بَعْدَ مَوْتِ الأَبِ ، قَالَ : لأُخْتِہَا لأَبِیہَا وَلأُمِّہَا النِّصْفُ ، وَلأُخْتِہَا لأَبِیہَا وَہِیَ أُمُّہَا السُّدُسُ تَکْمِلَۃً الثُّلُثَیْنِ ، حُجِبَتْ نَفْسہا بِنَفْسِہَا۔
(٣٢٠٧٧) وکیع حضرت سفیان سے اس مجوسی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو اپنی بیٹی سے نکاح کرلے پھر اس سے اس کی دو بیٹیاں ہوجائیں، اور پھر باپ کے مرنے کے بعد ان میں سے کوئی مرجائے۔ فرمایا کہ اس کی حقیقی بہن کے لیے آدھا مال ہے اور اس کی باپ شریک بہن کے لیے جو اس کی ماں ہے مال کا چھٹا حصّہ ہے ، دو تہائی مال کو پورا کرنے کے لئے، اس نے اپنے آپ کو اپنی ذات کی وجہ سے ہی محروم کردیا۔

32077

(۳۲۰۷۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ ، عَنْ عَطَائٍ : أَنَّ رَجُلاً أَعْتَقَ غُلاَمًا لَہُ سَائِبَۃً ، فَمَاتَ وَتَرَکَ مَالا ، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ ؟ فَقَالَ : إنَّ أَہْلَ الإسْلاَمِ لاَ یُسَیِّبُونَ ، إنَّمَا کَانَتْ یُسَیِّبُ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ ، أَنْتَ مَوْلاَہُ وَوَلِیُّ نِعْمَتِہِ وَأَوْلَی النَّاسِ بِمِیرَاثِہِ ، وَإلاَّ فَأرِنِہِ ہَا ہُنَا وَرَثَۃٌ کَثِیرٌ۔ یَعْنِی : بَیْت الْمَالِ۔
(٣٢٠٧٨) عطاء روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنے غلام کو اس طرح آزاد کردیا کہ کسی کو اس پر ولایت نہ ہوگی، چنانچہ وہ مرگیا اور اس نے مال چھوڑا حضرت ابن مسعود (رض) سے اس کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا بیشک اہل اسلام آزاد نہیں چھوڑتے، بیشک اہل جاہلیت ہی آزاد چھوڑتے تھے، آپ اس کے مولیٰ ، اور دوسرے لوگوں سے اس کے زیادہ حق دار ہیں، ورنہ اس کا مال میرے پاس لے آؤ، یہاں بہت سے ورثاء ہیں، یعنی بیت المال۔

32078

(۳۲۰۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : أُتِیَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِمَالِ مَوْلیً لأُنَاسٍ أَعْتَقُوہُ سَائِبَۃً، فَقَالَ لِمَوَالِیہِ : ہَذَا مَالُ مَوْلاَکُمْ قَالُوا : لاَ حَاجَۃَ لَنَا بِہِ ، إنَّا کُنَّا أَعْتَقْنَاہُ سَائِبَۃً ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : إنَّ فِی أَمْوَالِ الْمُسْلِمِینَ لَہُ مَوْضِعًا۔
(٣٢٠٧٩) شعبی کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس ایک آزاد شدہ غلام کا مال لایا گیا، جس کے آقاؤں نے اس کو اس طرح آزاد چھوڑا تھا کہ کوئی اس کا وارث نہ ہوگا، آپ نے اس کے آقاؤں کو کہا، یہ تمہارے آزاد شدہ غلام کا مال ہے، وہ کہنے لگے ہمیں اس مال کی کوئی حاجت نہیں ہم نے اس کو اس طرح آزاد کیا تھا کہ کسی کو اس پر ولایت نہ ہوگی، آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے مال کی جگہیں مقرر ہیں۔

32079

(۳۲۰۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : السَّائِبَۃُ وَالصَّدَقَۃُ لِیَوْمِہِمَا۔
(٣٢٠٨٠) ابو عثمان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ آزاد چھوڑا ہوا غلام اور صدقہ قیامت کے دن کے لیے ہیں۔

32080

(۳۲۰۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أُتِیَ بِثَلاَثِینَ أَلْفًا ، قَالَ : أَحْسَبُہُ قَالَ : أَعْتَقْتہ سَائِبَۃً ، فَأَمَرَ أَنْ یُشْتَرَی بِہِ رِقَابٌ۔
(٣٢٠٨١) بکر بن عبداللہ مزنی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کے پاس تیس ہزار درہم لائے گئے، راوی کہتے ہیں کہ یہ میرا گمان ہے، کہ لانے والے نے کہا کہ اس کو اس طرح چھوڑ دیں، کہ ان کا کوئی ولی نہ ہو ۔ آپ نے فرمایا، کہ اس سے غلام خرید لیا جائے۔

32081

(۳۲۰۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ فِی رَجُلٍ أَعْتَقَ غُلاَمًا لَہُ سَائِبَۃً ، قَالَ : الْمِیرَاثُ لِمَوْلاَہُ۔
(٣٢٠٨٢) زکریا روایت کرتے ہیں کہ حضرت عامر نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنے غلام کو اس طرح آزاد کردیا کہ اس پر کسی کو ولایت نہ ہو، آپ نے فرمایا اس کی میراث اس کے مولیٰ کو ملے گی۔

32082

(۳۲۰۸۳) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، قَالَ : سُئِلَ الْحَسَنُ عَنْ مِیرَاثِ السَّائِبَۃِ ؟ فَقَالَ : کُلُّ عَتیقٍ سَائِبَۃٌ۔
(٣٢٠٨٣) یونس فرماتے ہیں ، کہ حضرت حسن سے اس غلام کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا جس کو اس کے آقا نے کسی کی ولایت نہ ہونے کی شرط پر آزاد کیا ہو، آپ نے فرمایا، ہر آزاد شدہ کا یہی حکم ہے۔

32083

(۳۲۰۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : لاَ أَعْلَمُ مِیرَاثَ السَّائِبَۃِ إلاَّ لِمَوَالِیہِ إلاَّ أَنَّ ۔۔۔
(٣٢٠٨٤) ابن عون محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں فرمایا، کہ میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ ایسے غلاموں کی میراث اس کے آقاؤں کے لیے ہوگی، مگر یہ کہ ۔۔۔

32084

(۳۲۰۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : السَّائِبَۃُ یَضَعُ مَالَہُ حَیْثُ شَائَ۔
(٣٢٠٨٥) ابو عمرو شیبانی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا، ایسا غلام جہاں چاہے اپنا مال لگا دے۔

32085

(۳۲۰۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا بِسْطَامُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی رَبَاحٍ : أَنَّ طَارِقَ بْنِ الْمرقَّع أَعْتَقَ غُلاَمًا لَہُ لِلَّہِ ، فَمَاتَ وَتَرَکَ مَالا ، فَعُرِضَ عَلَی مَوْلاَہُ طَارِقٍ ، فَقَالَ : شَیْئٌ جَعَلْتہ لِلَّہِ ، فَلَسْت بِعَائِدٍ فِیہِ ، فَکُتِبَ فِی ذَلِکَ إلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ : أَنِ اعْرِضُوا الْمَالَ عَلَی طَارِقٍ ، فَإِنْ قَبِلَہُ وَإِلاَّ فَاشْتَرَوْا بِہِ رَقِیقًا فَأَعْتِقُوہُمْ ، قَالَ : فَبَلَغَ خَمْسَۃَ عَشَرَ رَأْسًا۔
(٣٢٠٨٦) عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ ، طارق بن مرقع نے اپنا غلام اللہ کے لیے آزاد کیا چنانچہ وہ مرگیا اور اس نے اپنا مال چھوڑا ، اس کو اس کے آقا طارق پر پیش کیا گیا تو وہ کہنے لگے یہ ایسی چیز ہے جو میں نے اللہ کے لیے چھوڑ دی ہے اس لیے میں اس کو دوبارہ لینے والا نہیں، چنانچہ اس بارے میں حضرت عمر (رض) کو لکھا گیا۔ آپ نے فرمایا، کہ مال طارق کو دے دو ، اگر وہ لے لے تو ٹھیک ورنہ اس سے غلام خرید کر آزاد کردو، راوی فرماتے ہیں، کہ وہ مال پندرہ غلاموں کی قیمت تک جا پہنچا۔

32086

(۳۲۰۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ : أَنَّ امْرَأَۃً مِنَ الأَنْصَارِ أَعْتَقَتْ سَالِمًا سَائِبَۃً ، ثُمَّ قَالَتْ لَہُ : وَالِ مَنْ شِئْت ، فَوَالَی أَبَا حُذَیْفَۃَ بْنَ عُتْبَۃَ ، فَأُصِیبَ یَوْمَ الْیَمَامَۃِ ، فَدُفِعَ مَالَہُ إلَی الَّتِی أَعْتَقَتْہُ۔
(٣٢٠٨٧) محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ ایک انصاریہ عورت نے حضرت سالم کو کسی کی ولایت نہ ہونے کی شرط پر آزاد کردیا، اور کہا جس کو چاہو اپنا ولی بنا لو، انھوں نے ابو حذیفہ بن عتبہ کو اپنا ولی بنایا، چنانچہ یمامہ کی جنگ میں وہ شہید ہوگئے اور ان کا مال اس عورت کو دیا گیا جس نے ان کو آزاد کیا تھا۔

32087

(۳۲۰۸۸) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ یَتَوَارَثُ الْمِلَّتَانِ الْمُخْتَلِفَتَانِ۔ (ابوداؤد ۲۹۰۳۔ احمد ۱۷۸)
(٣٢٠٨٨) حضرت اسامہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دو مختلف ملتوں کے لوگ وارث نہیں ہوسکتے۔

32088

(۳۲۰۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ وَشُعْبَۃُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ : أَنَّ الأَشْعَثَ بْنَ قَیْسٍ مَاتَتْ عَمَّۃٌ لَہُ مُشْرِکَۃٌ یَہُودِیَّۃٌ ، فَلَمْ یُوَرِّثْہُ عُمَرُ مِنْہَا ، وَقَالَ : یَرِثُہَا أَہْلُ دِینِہَا۔
(٣٢٠٨٩) طارق بن شہاب فرماتے ہیں ، کہ اشعث بن قیس کی ایک مشرکہ یہودیہ پھوپھی فوت ہوگئی، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان کو اس کے مال کا وارث نہیں بنایا، اور فرمایا اس کے وارث اس کے دین کے لوگ ہوں گے۔

32089

(۳۲۰۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْقِلٍ : أَنَّ عَمَّۃً لِلأَشْعَثِ بْنِ قَیْسٍ مَاتَتْ وَہِیَ یَہُودِیَّۃٌ ، فَلَمْ یُوَرِّثْہُ عُمَرُ مِنْہَا شَیْئًا ، وَقَالَ : یَرِثُہَا أَہْلُ دِینِہَا۔
(٣٢٠٩٠) عبداللہ بن معقل کہتے ہیں ، اشعث بن قیس کی یہودیہ پھوپھی فوت ہوگئی، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان کو اس کے مال کا وارث نہیں بنایا، اور فرمایا اس کے وارث اس کے دین کے لوگ ہوں گے۔

32090

(۳۲۰۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : یَرِثُہَا أَہْلُ دِینِہَا ، کُلُّ مِلَّۃٍ تَتْبَعُ مِلَّتَہَا۔
(٣٢٠٩١) عامر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اس کے وارث اس کے ہم مذہب لوگ ہوں گے، ہر ملت اپنی ملّت کے تابع ہوتی ہے۔

32091

(۳۲۰۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ ، عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، قَالَ : أَرْسَلَ إلَیَّ الْعُرْسُ بْنُ قَیْسٍ الْکِندِیُّ فَسَأَلَنِی عَنْ أَخَوَیْنِ نَصْرَانِیَّیْنِ أَسْلَمَ أَحَدُہُمَا وَمَاتَ الآخَرُ وَتَرَکَ مَالا ؟ فَقُلْتُ : کَانَ مُعَاوِیَۃُ یَقُولُ: لَوْ کَانَ نَصْرَانِیًّا وَرِثَہُ ، فَلَمْ یَزِدْہُ الإسْلاَمُ إلاَّ شِدَّۃً ، قَالَ الْعرسُ بْنُ قَیْسٍ : أبَی ذَلِکَ عَلَیْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی عَمَّۃِ الأَشْعَثِ بْنِ قَیْسٍ مَاتَتْ وَہِیَ یَہُودِیَّۃٌ فَلَمْ یُوَرِّثْہُ عُمَرُ مِنْہَا شَیْئًا۔
(٣٢٠٩٢) میمون بن مہران کہتے ہیں کہ عُرس بن قیس کندی نے مجھ سے بذریعہ خط دو نصرانی بھائیوں کے بارے میں پوچھا جن میں سے ایک مسلمان ہوجائے اور دوسرا مرجائے اور مال چھوڑ جائے، میں نے کہا کہ حضرت معاویہ (رض) فرماتے تھے کہ اگر وہ بھائی نصرانی ہوتا تو وارث ہوتا اور اسلام نے اس میں شدت کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا، عُرس بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اشعث بن قیس کی یہودیہ پھوپھی کے بارے میں ہم پر اس بات کا انکار فرما دیا اور ان کو اس کا وارث نہیں بنایا۔

32092

(۳۲۰۹۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ : قَالَ : لاَ یَرِثُ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ ، وَلاَ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ۔
(٣٢٠٩٣) حارث روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا۔

32093

(۳۲۰۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، مِثْلَہُ ، وَزَادَ فِیہِ : إلاَّ أَنْ یَکُونَ عَبْدًا لَہُ فَیَرِثُہُ۔
(٣٢٠٩٤) حارث ایک دوسری سند سے حضرت علی (رض) سے یہی روایت کرتے ہیں اور انھوں نے اس میں یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ ، مگر یہ کہ وہ اس کا غلام ہو پھر وہ اس کا وارث ہوگا۔

32094

(۳۲۰۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ عُمَرَ : فِی یَہُودِیَّۃٍ مَاتَتْ ، قَالَ : یَرِثُہَا أَہْلُ دِینِہَا۔
(٣٢٠٩٥) سلیمان بن یسار روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ایک یہودیہ کے بارے میں فرمایا جو مرگئی تھی ، کہ اس کے وارث اس کے ہم مذہب ہوں گے۔

32095

(۳۲۰۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ بَسَّامٍ، عَنْ فُضَیْلٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: لاَ یَرِثُ النَّصْرَانِیُّ الْمُسْلِمَ، وَلاَ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِی ، فَہَذَا قَوْلُ عَلِیٍّ وَزَیْدٍ ، وَأَمَّا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ فَإِنَّہُ کَانَ یَقْضِی أَنَّہُمْ یَحْجُبُونَ وَلاَ یُوَرَّثُونَ۔
(٣٢٠٩٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں ، کہ حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) کے فرمان کے مطابق نصرانی مسلمان کا اور مسلمان نصرانی کا وارث نہیں ہوسکتا، اور عبداللہ بن مسعود (رض) یہ فیصلہ کیا کرتے تھے کہ یہ دوسروں کو وراثت سے روک سکتے ہیں لیکن خود وارث نہیں بنائے جائیں گے۔

32096

(۳۲۰۹۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: لاَ یَرِثُ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ، وَلاَ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ۔
(٣٢٠٩٧) سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا۔

32097

(۳۲۰۹۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ مِثْلَہُ۔
(٣٢٠٩٨) سعید بن جبیر ایک دوسری سند سے حضرت عمر (رض) کا یہی فرمان نقل کرتے ہیں۔

32098

(۳۲۰۹۹) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ ، وَلاَ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ عَہْدِ أَبِی بَکْرٍ ، وَلاَ عَہْدِ عُمَرَ ، فَلَمَّا وُلِّیَ مُعَاوِیَۃُ وَرَّثَ الْمُسْلِمَ مِنَ الْکَافِرِ ، وَلَمْ یُوَرِّثَ الْکَافِرَ مِنَ الْمُسْلِمِ ، قَالَ : فَأَخَذَ بِذَلِکَ الْخُلَفَائُ حَتَّی قَامَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَرَاجَعَ السُّنَّۃَ الأُولَی ، ثُمَّ أَخَذَ بِذَلِکَ یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ ، فَلَمَّا قَامَ ہِشَام بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ أَخَذَ بِسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ۔ (مسلم ۱۲۳۳)
(٣٢٠٩٩) زہری فرماتے ہیں کہ مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں وارث ہوتا تھا، اور نہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے زمانے میں، پس جب حضرت معاویہ (رض) حاکم ہوئے تو انھوں نے مسلمان کو کافر کا وارث بنایا اور کافر کو مسلمان کا وارث نہیں بنایا، راوی کہتے ہیں کہ پھر خلفاء نے اسی بات کو اپنا لیا، یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) حاکم ہوئے تو انھوں نے پہلی سنت کو نافذ کیا، پھر یہی بات یزید بن عبد الملک نے اپنائی اور جب ہشام بن عبد الملک حاکم ہوا تو اس نے خلفاء کے طریقے کو اپنا لیا۔

32099

(۳۲۱۰۰) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الرَّجُلُ غَیْرُ أَہْلِ مِلَّتِہِ إلاَّ أَنْ یَکُونَ عَبْدَ رَجُلٍ ، أَوْ أَمَتَہُ۔
(٣٢١٠٠) ابو الزبیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ آدمی کے وارث اس کے ہم مذہب لوگوں کے علاوہ نہیں ہوسکتے مگر یہ کہ کوئی آدمی کسی کا غلام ہو یا کوئی عورت کسی کی باندی ہو۔

32100

(۳۲۱۰۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی الحَکِیمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمُرَ ، عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ الدِّیَلِیِّ ، قَالَ : کَانَ مُعَاذٌ بِالْیُمْنِ فَارْتَفَعُوا إلَیْہِ فِی یَہُودِیٍّ مَاتَ أَخَاہُ مُسْلِماً ، فَقَالَ مُعَاذٌ : إنِّی سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ الإسْلاَمَ یَزِیدُ وَلاَ یَنْقُصُ فَوَرَّثَہُ۔ (احمد ۲۳۰۔ طبرانی ۳۳۸)
(٣٢١٠١) ابو الاسود دیلی فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) یمن میں تھے کہ لوگ ان کے پاس ایک یہودی کا مسئلہ لے کر آئے جس نے مرتے ہوئے اپنا ایک مسلمان بھائی وارث چھوڑا تھا، حضرت معاذ (رض) نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے، کہ بیشک اسلام بڑھتا ہے اور کم نہیں ہوتا اس کے بعد آپ نے اس مسلمان کو اس کا وارث بنادیا۔

32101

(۳۲۱۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ : مَا رَأِیْت قَضَائٌ بَعْدَ قَضَائِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ مِنْ قَضَائٍ قَضَی بِہِ مُعَاوِیَۃُ فِی أَہْلِ کِتَابٍ ، قَالَ : نَرِثُہُمْ وَلاَ یَرِثُونَنَا ، کَمَا یَحِلُّ لَنَا النِّکَاحُ فِیہِمْ ، وَلاَ یَحِلُّ لَہُمَ النِّکَاحُ فِینَا۔
(٣٢١٠٢) عبداللہ بن معقل (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے فیصلے کے بعد کوئی فیصلہ حضرت معاویہ (رض) کے فیصلے سے زیادہ بہتر نہیں دیکھا جو انھوں نے اہل کتاب کے بارے میں فرمایا تھا کہ ہم ان کے وارث ہوں گے اور وہ ہمارے وارث نہ ہوں گے، جیسا کہ ہمارے لیے ان کی عورتوں سے نکاح حلال ہے اور ان کے لیے ہماری عورتوں سے نکاح حلال نہیں۔

32102

(۳۲۱۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ ، حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ الْیَہُودِیُّ ألنَّصْرَانِیَّ ، وَلاَ یَرِثُ النَّصْرَانِیُّ الْیَہُودِیَّ۔
(٣٢١٠٣) سفیان ایک آدمی کے واسطے سے حضرت حسن کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ یہودی نصرانی کا اور نصرانی یہودی کا وارث نہیں ہوسکتا۔

32103

(۳۲۱۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : قَالَ سُفْیَانُ : الإسْلاَمُ مِلَّۃٌ وَالشِّرْکُ مِلَّۃٌ۔
(٣٢١٠٤) وکیع روایت کرتے ہیں کہ حضرت سفیان نے فرمایا کہ اسلام ایک ملّت ہے اور کفر ایک ملّت۔

32104

(۳۲۱۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ وَحَمَّادٍ ، قَالاَ : الإسْلاَمُ مِلَّۃٌ وَالشِّرْکُ مِلَّۃٌ۔
(٣٢١٠٥) شعبہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حکم اور حماد نے فرمایا کہ اسلام ایک ملّت ہے اور کفر ایک ملّت۔

32105

(۳۲۱۰۶) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ: فِی رَجُلٍ أَعْتَقَ عَبْدًا لَہُ نَصْرَانِیًّا ثُمَّ مَاتَ، قَالَ: لاَ یَرِثُہُ۔
(٣٢١٠٦) خالد روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمد بن سیرین (رض) نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنا نصرانی غلام آزاد کیا اور پھر مرگیا، کہ وہ اس کا وارث نہیں ہوگا۔

32106

(۳۲۱۰۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی حَکِیمٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَعْتَقَ عَبْدًا لَہُ نَصْرَانِیًّا فَمَاتَ ، فَجَعَلَ مِیرَاثَہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣٢١٠٧) اسماعیل بن ابی حکیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) نے اپنا ایک نصرانی غلام آزاد کیا پھر وہ مرگیا تو آپ نے اس کی میراث بیت المال میں رکھ دی۔

32107

(۳۲۱۰۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا مَاتَ الصَّبِیُّ وَأَحَدُ أَبَوَیْہِ مُسْلِمٌ ، قَالَ : یَرِثُہُ الْمُسْلِمُ مِنْہُمَا ، دُونَ الْکََافِر مِنْہُمَا۔
(٣٢١٠٨) یونس روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن فرمایا کرتے تھے کہ جب بچہ مرجائے اور اس کے والدین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو تو اس کا وارث مسلمان ہوگا نہ کہ کافر۔

32108

(۳۲۱۰۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ۔ وَعَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٣٢١٠٩) ابراہیم اور حجاج حضرت عطاء سے یہی روایت نقل کرتے ہیں۔

32109

(۳۲۱۱۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا عَنِ الصَّبِیِّ یَکُونُ أَحَدُ أَبَوَیْہِ مُسْلِمًا ؟ قَالاَ : ہُوَ مَعَ الْمُسْلِمِ ، یَرِثُ الْمُسْلِمَ وَیَرِثُہُ الْمُسْلِمُ۔
(٣٢١١٠) شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حماد سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جس کے والدین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو، فرمایا کہ وہ مسلمان کا وارث ہوگا اور اس کا وارث مسلمان ہوگا۔

32110

(۳۲۱۱۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّیِّ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ : أَنَّ أَبَوَیْہِ اخْتَصَمَا فِیہِ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدُہُمَا مُسْلِمٌ وَالآخَرُ کَافِرٌ ، فَخَیَّرَہُ ، فَمَالَ إلَی الْکَافِرِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ اہْدِہِ ، فَتَوَجَّہَ إلَی الْمُسْلِمِ ، فَقَضَی لَہُ بِہِ۔
(٣٢١١١) عبد الحمید بن سلمہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والدین ان کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جھگڑا کرنے لگے جن میں سے ایک مسلمان اور دوسرا کافر تھا، آپ نے ان کو اختیار دے دیا، اور وہ کافر کی طرف مائل ہوگئے، آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اس کو ہدایت فرما دے، چنانچہ وہ مسلمان کی طرف مائل ہوگئے ، آپ نے اس کا مسلمان کے لیے فیصلہ فرما دیا۔

32111

(۳۲۱۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : الْوَلَدُ مَعَ الْوَالِدِ الْمُسْلِمِ۔
(٣٢١١٢) حسن حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ اولاد والدین میں سے مسلمان کے ساتھ ہوگی۔

32112

(۳۲۱۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، مِثْلَہُ۔
(٣٢١١٣) شعبی حضرت شریح سے یہی مضمون نقل کرتے ہیں۔

32113

(۳۲۱۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، قَالَ : ہُوَ لِلْوَالِدِ الْمُسْلِمِ۔
(٣٢١١٤) شعبی حضرت شریح سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا کہ وہ مسلمان والد کے لیے ہوگا۔

32114

(۳۲۱۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِد، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطَائٍ وَالْحَسَنِ: فِی الْیَہُودِیِّ وَالنَّصْرَانِیِّ یُسْلِمُ : الْوَلَدُ مَعَ الْمُسْلِمِ۔
(٣٢١١٥) حجاج حضرت عطاء اور حسن (رض) سے اس یہودی اور نصرانی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو مسلمان ہوجائے، کہ ان کا بیٹا مسلمان کے لیے ہوگا۔

32115

(۳۲۱۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّہُ قَالَ : إذَا مَاتَتْ یَہُودِیَّۃٌ أَوْ نَصْرَانِیَّۃٌ تَحْتَ مُسْلِمٍ لَہُ مِنْہَا أَوْلاَدٌ صِغَارٌ ، فَإِنَّ الْوَلَدَ مَعَ أَبِیہِمَ الْمُسْلِمِ ، فَإِنْ مَاتُوا وَہُمْ صِغَارٌ فَمِیرَاثُہُمْ لأَبِیہِمَ الْمُسْلِمِ ، لَیْسَ لأُمِّہِمْ مِنَ الْمِیرَاثِ شَیْئٌ مَا دَامُوا صِغَارًا۔
(٣٢١١٦) ہشام حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہودی یا نصرانی عورت مرجائے اور وہ مسلمان کے نکاح میں ہو جس سے اس کی نابالغ اولاد ہو تو بچہ اپنے مسلمان باپ کے ساتھ ہوگا، پس اگر وہ بچپن ہی میں مرجائیں تو ان کی میراث ان کے مسلمان باپ کے لیے ہوگی، اور ان کی ماں کا میراث میں کچھ حصّہ نہیں، جب تک وہ نابالغ ہوں۔

32116

(۳۲۱۱۷) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، قَالَ : وَقَعَ رَجُلٌ عَلَی وَلِیدَۃٍ ، ثُمَّ بَاعَہَا مِنْ آخَرَ فَوَقَعَا عَلَیْہَا فَاجْتَمَعَا عَلَیْہَا فِی طُہْرٍ وَاحِدٍ ، فَوَلَدَتْ غُلاَمًا ، فَأَتَوْا عَلِیًّا ، فَقَالَ عَلِیٌّ : یَرِثُکُمَا وَلَیْسَ لأُمِّہِ ، وَہُوَ لِلْبَاقِی مِنْکُمَا بِمَنْزِلَۃِ أُمِّہِ۔
(٣٢١١٧) حنش فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک امّ ولد باندی سے جماع کیا، پھر اس کو دوسرے آدمی کے ہاتھ بیچ دیا اور اس نے بھی اس کے ساتھ جماع کیا، اس طرح دونوں نے ایک ہی طہر میں جماع کرلیا، اس کے بعد اس نے ایک بچہ جنا، وہ حضرت علی (رض) کے پاس یہ مسئلہ لے کر آئے، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ وہ بچہ تم دونوں کا وارث ہوگا اور اپنی ماں کے لیے نہیں ہوگا ، اور تم میں سے جو باقی رہ جائے وہ اسی کا بچہ ہوگا، بمنزلہ اس کی ماں کے۔

32117

(۳۲۱۱۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قضَی عَلِیٌّ فِی رَجُلَیْنِ وَطِئَا امْرَأَۃً فِی طُہْرٍ وَاحِدٍ ، فَوَلَدَتْ ، فَقَضَی أَنْ جَعَلَہُ بَیْنَہُمَا ، یَرِثُہُمَا وَیَرِثَانِہِ ، وَہُوَ لأَطْوَلِہِمَا حَیَاۃً۔
(٣٢١١٨) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) دو آدمیوں کے بارے میں فیصلہ فرمایا جنہوں نے ایک عورت سے ایک طہر میں جماع کیا تھا جس سے اس نے بچہ جنا ، کہ اس بچے کو ان دونوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے، اس طرح کہ وہ بچہ ان دونوں کا وارث ہوگا اور وہ دونوں اس بچے کے وارث ہوں گے، اور ان دونوں میں سے اس کو ملے گا جس کی عمر زیادہ لمبی ہوگی۔

32118

(۳۲۱۱۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قضَی عُمَرُ فِیہِ بِقَوْلِ الْقَافَّۃِ۔
(٣٢١١٩) شعبی فرماتے ہیں کہ اس بچے کے بارے میں حضرت عمر (رض) نے قیافہ شناسوں کے قول کے مطابق فیصلہ فرمایا۔

32119

(۳۲۱۲۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : دَعَا عُمَرُ أَمَۃً فَسَأَلَہَا مِنْ أَیِّہِمَا ہُوَ؟ فَقَالَتْ : مَا أَدْرِی وَقَعَا عَلَیَّ فِی طُہْرٍ ، فَجَعَلَہُ عُمَرُ بَیْنَہُمَا۔
(٣٢١٢٠) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے باندی کو بلایا اور پوچھا کہ یہ بچہ ان دونوں میں سے کس کا ہے ؟ وہ کہنے لگی مجھے پتہ نہیں، ان دونوں نے مجھ سے ایک طہر میں جماع کیا ہے، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کو ان دونوں میں تقسیم فرما دیا۔

32120

(۳۲۱۲۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْخَلِیلِ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : بَیْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذْ أَتَاہُ رَجُلٌ مِنَ الْیَمَنِ وَعَلِیٌّ بِہَا فَجَعَلَ یُحَدِّثُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیُخْبِرُہُ ، قَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَتَی عَلِیًّا ثَلاَثَۃُ نَفَرٍ فَاخْتَصَمُوا فِی وَلَدٍ کُلُّہُمْ زَعَمَ أَنَّہُ ابْنُہُ وَقَعُوا عَلَی امْرَأَۃٍ فِی طُہْرٍ وَاحِدٍ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : إنَّکُمْ شُرَکَائُ مُتَشَاکِسُونَ ، وَإِنِّی مُقْرِعٌ بَیْنَکُمْ ، فَمَنْ قَرَعَ فَلَہُ الْوَلَدُ وَعَلَیْہِ ثُلُثَا الدِّیَۃِ لِصَاحِبَیْہِ ، قَالَ : فَأَقْرَعَ بَیْنَہُمْ فَقُرِعَ أَحَدُہُمْ ، فَدَفَعَ إلَیْہِ الْوَلَدَ وَجَعَلَ عَلَیْہِ ثُلُثَیَ الدِّیَۃِ ، فَضَحِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ ، أَوْ أَضْرَاسُہُ۔
(٣٢١٢١) زید بن ارقم (رض) نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ ایک آدمی یمن سے آیا جبکہ حضرت علی (رض) یمن میں ہی تھے، اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باتیں اور خبریں بتانے لگا، اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! علی (رض) کے پاس تین آدمی آئے اور وہ ایک بچے کے بارے میں جھگڑنے لگے، ہر ایک یہ گمان کرتا تھا کہ وہ اس کا بیٹا ہے، جبکہ انھوں نے ایک ہی طہر میں ایک عورت کے ساتھ جماع کیا تھا، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ تم برابر شریک ہو، اور میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہوں، جس کے نام قرعہ نکل آئے بچہ اسی کے لیے ہوگا، اور اس پر دوسرے دو ساتھیوں کے لیے دیت کا دو تہائی دینا لازم ہوگا، کہتے ہیں کہ پھر آپ نے ان کے درمیان قرعہ ڈالا، اور جس کے نام قرعہ نکلا اس کو بچہ دے دیا، اور اس پر دو تہائی دیت لازم کردی، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس اٹھے یہاں تک کہ آپ کی آخری داڑھیں یا آپ کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں۔

32121

(۳۲۱۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ عُمَرَ قَضَی فِی رَجُلَیْنِ ادَّعَیَا رَجُلاً لاَ یُدْرَی أَیُّہُمَا أَبُوہُ ، فَقَالَ عُمَرُ لِلرَّجُلِ : اِتْبَعْ أَیَّہمَا شِئْت۔
(٣٢١٢٢) عبد الرحمن بن حاطب روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے دو آدمیوں کے بارے میں فیصلہ فرمایا جنہوں نے ایک مجہول النسب آدمی کے نسب کا دعویٰ کیا تھا، اور آپ نے اس مجہول النسب سے کہا، ان دونوں میں سے جس کے ساتھ چاہو جاؤ۔

32122

(۳۲۱۲۳) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ شُرَیْحٍ، قَالَ: أَحْوَجُ مَا یَکُونُ إلَی مِیرَاثِہِ وَہُوَ أَسِیرٌ۔
(٣٢١٢٣) شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت شریح نے فرمایا کہ آدمی کو میراث کی سب سے زیادہ ضرورت قید کی حالت میں ہی ہوا کرتی ہے۔

32123

(۳۲۱۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، قَالَ : یَرِثُ۔
(٣٢١٢٤) قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعید نے فرمایا کہ وہ شخص وارث ہوگا۔

32124

(۳۲۱۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ: فِی مِیرَاثِ الأَسِیرِ، قَالَ: أَنَّہُ لِمُحْتَاجٍ إلَی مِیرَاثِہِ۔
(٣٢١٢٥) قتادہ حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں کہ وہ قیدی اپنے رشتہ دار کی میراث کا محتاج ہے۔

32125

(۳۲۱۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یَرِثُ الأَسِیرُ۔
(٣٢١٢٦) ابن ابی ذئب روایت کرتے ہیں کہ زہری نے فرمایا کہ قیدی وارث ہوگا۔

32126

(۳۲۱۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَمَّنْ سَمِعَ إبْرَاہِیمَ یَقُولُ : لاَ یَرِثُ الأَسِیرُ۔
(٣٢١٢٧) سفیان ایک آدمی کے واسطے سے روایت کرتے ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم کو یہ فرماتے سنا کہ قیدی وارث نہیں ہوگا۔

32127

(۳۲۱۲۸) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : فِی الأَسِیرِ فِی أَیْدِی الْعَدُ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ۔
(٣٢١٢٨) قتادہ حضرت سعید بن مسیب سے اس قیدی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو دشمنوں کے قبضے میں ہو، فرمایا کہ وہ وارث نہیں ہوگا۔

32128

(۳۲۱۲۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یُوَرِّثُ الأَسِیرَ۔
(٣٢١٢٩) داؤد فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب قیدی کو وارث نہیں بناتے تھے۔

32129

(۳۲۱۳۰) حَدَّثَنَا مَعْن بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یُوَرَّثُ مَالُ الأَسِیرِ وَامْرَأَتُہُ۔
(٣٢١٣٠) ابن ابی ذئب روایت کرتے ہیں کہ حضرت زہری نے فرمایا کہ قیدی اور اس کی بیوی کے مال کو وراثت میں تقسیم کیا جائے گا۔

32130

(۳۲۱۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ وَابْنِ سِیرِینَ ، قَالاَ : لاَ یُوَرَّثُ الْمَوْلُودُ حَتَّی یَسْتَہِلَّ۔
(٣٢١٣١) ہشام حضرت حسن اور ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا کہ بچے کو اسی صورت میں وارث بنایا جائے گا جبکہ وہ پیدا ہونے کے بعد آواز نکالے۔

32131

(۳۲۱۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ غَالِبٍ ، قَالَ : سَأَلَ ابْنُ الزُّبَیْرِ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ عَنِ الْمَوْلُودِ ؟ فَقَالَ : إذَا اسْتَہَلَّ وَجَبَ عَطَاؤُہُ وَرِزْقُہُ۔
(٣٢١٣٢) ابن غالب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر نے حضرت حسن بن علی (رض) سے بچے کی میراث کے بارے میں سوال کیا، آپ نے فرمایا : جب وہ آواز نکالے تو اس کو دینا اور وارث بنانا واجب ہے۔

32132

(۳۲۱۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ غَالِبٍ ، قَالَ : لَقِیَ ابْنُ الزُّبَیْرِ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، أَفْتِنَا فِی الْمَوْلُودِ یُولَدُ فِی الإسْلاَمِ ، قَالَ : وَجَبَ عَطَاء ہُ وَرِزْقُہُ۔
(٣٢١٣٣) بشر بن غالب کہتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر حضرت حسین بن علی (رض) سے ملے اور ان سے کہا : اے ابو عبداللہ ! ہمیں اس بچے کے بارے میں مسئلہ بیان کریں جو اسلام میں پیدا ہو، آپ نے فرمایا اس کو دینا اور وارث بنانا واجب ہے۔

32133

(۳۲۱۳۴) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: إذَا اسْتَہَلَّ الصَّبِیُّ صُلِّیَ عَلَیْہِ، وَوَرِثَ ، وَإِذَا لَمْ یَسْتَہِلَّ لَمْ یُوَرَّثْ وَلَمْ یُصَلَّ عَلَیْہِ۔
(٣٢١٣٤) ابو زبیر حضرت جابر (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب بچہ پیدا ہونے کے بعد آواز نکال دے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کو وارث بنایا جائے گا، اور اگر وہ پیدا ہونے کے بعد آواز بھی نہ نکالے تو اس کو وارث نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔

32134

(۳۲۱۳۵) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : إذَا اسْتَہَلَّ الصَّبِیُّ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَوَرِثَ ، وَإِذَا لَمْ یَسْتَہِلَّ لَمْ یُصَلَّ عَلَیْہِ وَلَمْ یُوَرَّثْ۔
(٣٢١٣٥) مطرّف روایت کرتے ہیں کہ حضرت شعبی نے فرمایا کہ جب بچہ پیدا ہونے کے بعد آواز نکالے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کو وارث بنایا جائے گا، اور اگر وہ آواز نہ نکالے، تو اس پر نماز نہیں پڑھی جائے گی اور نہ ہی اس کو وارث بنایا جائے گا۔

32135

(۳۲۱۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا اسْتَہَلَّ تَمَّ عَقْلُہُ وَمِیرَاثُہُ۔
(٣٢١٣٦) مغیرہ حضرت ابراہیم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب بچہ پیدا ہونے کے بعد آواز نکال لے تو اس کی عقل اور اس کی میراث تام ہوجاتی ہے۔

32136

(۳۲۱۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّہُ قَالَ فِی الْمَوْلُودِ : لاَ یُصَلَّی عَلَیْہِ ، وَلاَ یُوَرَّثُ ، وَلاَ تَکْمُلُ فِیہِ الدِّیَۃُ حَتَّی یَسْتَہِلَّ۔
(٣٢١٣٧) معمر روایت کرتے ہیں کہ حضرت زہری نے پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں فرمایا کہ اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور اس کو وارث نہیں بنایا جائے گا، اور اس میں کامل دیت نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ پیدا ہونے کے بعد آواز نکالے۔

32137

(۳۲۱۳۸) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی الْمَرْأَۃِ تَلِدُ وَلَمْ یَسْتَہِلَّ ؟ قَالَ : إذَا تَحَرَّکَ فَعُلِمَ أَنَّ حَرَکَتَہُ مِنْ حَیَاۃٍ وَلَیْسَتْ مِنَ اخْتِلاَجٍ وَرِثَ ، وَإِنْ کَانَ إنَّمَا حَرَکَتُہُ مِنَ اخْتِلاَجٍ وَلَیْسَتْ مِنْ حَیَاۃٍ لَمْ یُوَرَّثْ۔
(٣٢١٣٨) عمرو حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں کہ جو عورت بچہ جنے اور وہ بچہ آواز نکالے تو اس کا حکم یہ ہے اگر وہ حرکت کرے اور اس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس کی حرکت زندگی کی وجہ سے ہے اختلاج کی وجہ سے نہیں تو اس کو وارث بنایا جائے گا، اور اگر اس کی حرکت اختلاج کی وجہ سے ہو ، زندگی کی وجہ سے نہ ہو تو اس کو وارث نہیں بنایا جائے گا۔

32138

(۳۲۱۳۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لاَ یُصَلَّی عَلَی السِّقْطِ ، وَلاَ یُوَرَّثُ۔
(٣٢١٣٩) علاء بن مسیب اپنے والد کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ نامکمل اعضاء والے بچے پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور نہ اس کو وارث بنایا جائے گا۔

32139

(۳۲۱۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إذَا اسْتَہَلَّ الصَّبِیُّ وَرِثَ وَوُرِثَ وَصُلِّیَ عَلَیْہِ۔
(٣٢١٤٠) عطاء حضرت ابن عباس (رض) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب بچہ آواز نکال لے تو وہ وارث ہوگا اور اس کی وراثت تقسیم کی جائے گی اور اس پر نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔

32140

(۳۲۱۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : لاَ یُوَرَّثُ الْمَوْلُودُ حَتَّی یَسْتَہِلَّ۔
(٣٢١٤١) یحییٰ بن سعید حضرت قاسم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ پیدا ہونے والے بچے کو اس وقت تک وارث نہیں بنایا جائے گا جب تک کہ وہ آواز نہ نکالے۔

32141

(۳۲۱۴۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : وَلَدَتِ امْرَأَۃٌ وَلَدًا فَشَہِدْنَ نِسْوَۃٌ : أَنَّہُ اخْتَلَجَ وَوُلِدَ حَیًّا ، وَلَمْ یَشْہَدْنَ عَلَی اسْتِہْلاَلِہِ ، فَقَالَ شُرَیْحٌ : الْحَیُّ یَرِثُ الْمَیِّتَ ، ثُمَّ أَبْطَلَ مِیرَاثَہُ لأَنَّہُنَّ لَمْ یَشْہَدْنَ عَلَی اسْتِہْلاَلِہِ۔
(٣٢١٤٢) ابراہیم فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے ایک بچہ جنا ، اس کے بارے میں عورتوں نے گواہی دی کہ اس نے حرکت کی اور وہ زندہ پیدا ہوا تھا، اور اس کے آواز نکالنے پر گواہی نہیں دی، حضرت شریح نے فرمایا کہ زندہ مردے کا وارث ہوتا ہے۔ پھر آپ نے اس کی میراث کو ختم فرما دیا، کیونکہ عورتوں نے اس کے آواز نکالنے پر گواہی نہیں دی تھی۔

32142

(۳۲۱۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : الاِسْتِہْلاَلُ : الصِّیَاحُ۔
(٣٢١٤٣) مغیرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ استھلال کا مطلب ہے ” چیخنا “۔

32143

(۳۲۱۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: اسْتِہْلاَلُ الصَّبِیِّ: صِیَاحُہُ۔
(٣٢١٤٤) عکرمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ بچے کے استہلال کا مفہوم ہے اس کا چلّانا۔

32144

(۳۲۱۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ : الاِسْتِہْلاَلُ : النِّدَائُ وَالْعُطَاسُ۔
(٣٢١٤٥) یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد نے فرمایا کہ استہلال کا معنی ہے آواز نکالنا اور چھینکنا۔

32145

(۳۲۱۴۶) حَدَّثَنَا مَعْن بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : أَرَی : الْعُطَاسَ : الاِسْتِہْلاَل۔
(٣٢١٤٦) ابن ابی ذئب نقل کرتے ہیں کہ زہری فرماتے ہیں کہ میری رائے میں استہلال سے مراد چھینک ہے۔

32146

(۳۲۱۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا مِنْ مَوْلُودٍ وُلِدَ إلاَّ نَخَسَہُ الشَّیْطَانُ فَیَسْتَہِلُّ صَارِخًا مِنْ نَخْسَۃِ الشَّیْطَانِ إلاَّ ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ۔ (مسلم ۱۸۳۸۔ عبدالرزاق ۱۱۹)
(٣٢١٤٧) حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کے کچوکا لگاتا ہے جس کی تکلیف سے وہ چلاّنے لگتا ہے ، سوائے ابن مریم اور ان کی والدہ کے۔

32147

(۳۲۱۴۸) حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِیُّ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی الإِخْوَۃِ یَدَّعِی أَحَدُہُمَ الأَخَ ، وَیُنْکِرُہُ الآخَرُونَ ، قَالَ : یَدْخُلُ مَعَہُمْ بِمَنْزِلَۃِ العَبْدٍ یَکُونُ بَیْنَ الإِخْوَۃِ فَیَعْتِقُ أَحَدُہُمْ نَصِیبَہُ۔ قَالَ : وَکَانَ عَامِرٌ وَالْحَکَمُ وَأَصْحَابُہُمَا یَقُولُونَ : لاَ یَدْخُلُ إلاَّ فِی نَصِیبِ الَّذِی اعْتَرَفَ بِہِ۔
(٣٢١٤٨) اعمش روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس آدمیے بارے میں فرمایا جس کے بھائی ہونے کا اقرار چند بھائیوں میں سے ایک نے کیا ہو اور باقی اس کا انکار کردیں، کہ وہ بھائی ان کے ساتھ وراثت میں شریک ہوگا، جس طرح وہ غلام ہے جو چند بھائیوں کے درمیان مشترک ہو اور ان میں سے ایک اپنا حصّہ آزاد کر دے، فرماتے ہیں کہ حضرت عامر اور حکم اور ان کے ساتھی فرماتے تھے کہ وہ اس شخص کے حصّے میں داخل ہوگا جس نے اس کے نسب کا اقرار کیا ہے۔

32148

(۳۲۱۴۹) حَدَّثَنَا ابْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی بَعْضُ أَہْلِ صَنْعَائَ : أَنَّ طَاوُوسًا قَضَی فِی بَنِی أَبٍ أَرْبَعَۃٍ شَہِدَ أَحَدُہُمْ أَنَّ أَبَاہُ اسْتَلْحَقَ عَبْدًا کَانَ بَیْنَہُمْ ، فَلَمْ یُجِزْ طَاوُوس الْحَاقَہُ بِالنَّسَبِ ، وَلَکِنَّہُ أَعْطَی الْعَبْدَ خُمُسَ الْمِیرَاثِ فِی مَالِ الَّذِی شَہِدَ أَنَّ أَبَاہُ اسْتَلْحَقَہُ ، وَأُعْتِقَ الْعَبْدُ فِی مَالِ الَّذِی شَہِدَ۔
(٣٢١٤٩) ابن جریج فرماتے ہیں کہ مجھے اہل صنعاء میں سے ایک آدمی نے یہ خبر دی کہ حضرت طاؤس نے ایک باپ کے چار بیٹوں کے بارے میں جن میں سے ایک نے یہ گواہی دی تھی کہ اس کے باپ نے اپنے ایک غلام کے نسب کا اقرار کیا ہے جو ان کے درمیان تھا، فیصلہ فرمایا، حضرت طاؤس نے اس کے نسب کے اقرار کو نافذ نہیں فرمایا، بلکہ غلام کو میراث کا پانچواں حصّہ عطا فرمایا اسی آدمی کے مال میں سے جس نے گواہی دی تھی کہ اس کے باپ نے اس کے نسب کا اقرار کیا ہے، اور غلام کو اس گواہی دینے والے کے مال سے آزاد کردیا۔

32149

(۳۲۱۵۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ شُرَیْحٍ : فِی رَجُلٍ أَقَرَّ بِأَخٍ ، قَالَ : بَیِّنَتُہُ أَنَّہُ أَخُوہُ۔
(٣٢١٥٠) ابن سیرین روایت کرتے ہیں کہ حضرت شریح نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے ایک بھائی کے نسب کا اقرار کیا تھا کہ اس کی گواہی یہ ہے کہ وہ اس کا بھائی ہے۔

32150

(۳۲۱۵۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی الرَّجُلِ یَدَّعِی أَخًا أَوْ أُخْتًا ، قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ حَتَّی یُقِرُّوا جَمِیعًا۔
(٣٢١٥١) منصور روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جو کسی بھائی یا بہن کے نسب کا اقرار کرے ، کہ اس کے اقرار کی کوئی حیثیت نہیں یہاں تک کہ سب ورثاء اس کے بھائی ہونے کا اقرار کریں۔

32151

(۳۲۱۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : إذَا کَانَا أَخَوَیْنِ فَادَّعَی أَحَدُہُمَا أَخًا وَأَنْکَرَہُ الآخَرُ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ أَبِی لَیْلَی یَقُولُ: ہِیَ مِنْ سِتَّۃٍ : لِلَّذِی لَمْ یَدَّعِ ثَلاَثَۃٌ ، وَلِلْمُدَّعِی سَہْمَانِ ، وَلِلْمُدَّعَی سَہْمٌ۔ قَالَ: وَقَالَ أَبُو حَنِیفَۃَ : ہِیَ مِنْ أَرْبَعَۃٍ : لِلَّذِی لَمْ یَدَّعِ سَہْمَانِ ، وَلِلْمُدَّعِی سَہْمٌ ، وَلِلْمُدَّعَی سَہْمٌ۔
(٣٢١٥٢) وکیع فرماتے ہیں کہ جب دو بھائی وارث ہوں اور ان میں سے ایک کسی آدمی کے بھائی ہونے کا اقرار کرلے اور دوسرا اس کا انکار کر دے ، اس کے بارے میں حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے تھے کہ یہ مسئلہ چھ حصّوں سے نکلے گا، جس آدمی نے نسب کا اقرار نہیں کیا اس کے لیے تین حصّے ہیں اور اس کا دعویٰ کرنے کے لیے دو حصّے ہیں اور جس کے لیے دعویٰ کیا گیا ہے ایک حصّہ ہے۔
کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ چار حصّوں سے نکلے گا جس نے دعویٰ نہیں کیا اس کے لیے دو حصّے اور دعویٰ کرنے والے کے لیے ایک حصّہ اور جس کے لیے دعویٰ کیا گیا ہے اس کے لیے ایک حصّہ۔

32152

(۳۲۱۵۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی أَمَۃٍ وَلَدَتْ ثَلاَثَۃَ أَوْلاَدٍ فَادَّعَی مَوْلاَہَا الأَوَّلَ وَالأَوْسَطَ ، وَنَفَی الآخِرَ ؟ قَالَ : ہُوَ کَمَا قَالَ۔
(٣٢١٥٣) ابراہیم اس باندی کے بیان میں فرماتے ہیں جو تین بچے جنے اور اس کا مولیٰ پہلے اور درمیانے کے نسب کا دعویٰ کرے اور آخری کے نسب کی نفی کرے ، کہ وہ اس طرح ہے جس طرح وہ کہہ رہا ہے۔

32153

(۳۲۱۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ : فِی الرَّجُلِ یُولَدُ لَہُ الْوَلَدَانِ فَیَنْفِی أَحَدَہُمَا قَالَ : یُقِرُّ بِہِمَا جَمِیعًا ، أَوْ یَنْفِیہِمَا جَمِیعًا۔
(٣٢١٥٤) عامر اس آدمی کے بارے میں فرماتے ہیں جس کے دو بچے پیدا ہوں اور وہ ایک کے نسب کی نفی کر دے، فرمایا کہ یا تو وہ دونوں کا اقرار کرے یا دونوں کی نفی کرے۔

32154

(۳۲۱۵۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلِیٍّ وَعُمَرَ وَزَیْدٍ : أَنَّہُمْ کَانُوا لاَ یُوَرِّثُونَ النِّسَائَ مِنَ الْوَلاَئِ ، إلاَّ مَا أَعْتَقْنَ۔
(٣٢١٥٥) ابراہیم حضرت علی، عمر اور زید (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عورتوں کو صرف اس کی ولاء کا وارث بناتے تھے جس کو وہ آزاد کریں۔

32155

(۳۲۱۵۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الْوَلاَئِ إلاَّ مَا أَعْتَقْنَ أَوْ کَاتَبْنَ۔
(٣٢١٥٦) ابن سیرین فرماتے ہیں کہ عورتیں صرف ان کی ولاء کی وارث ہوتی ہیں جن کو وہ آزاد کریں۔

32156

(۳۲۱۵۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ جَہْمٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الْوَلاَئِ ، إلاَّ مَا کَاتَبْنَ أَوْ أَعْتَقْنَ ، أَوْ أَعْتَقْ مَنْ أَعْتَقْنَ۔
(٣٢١٥٧) ابراہیم فرماتے ہیں کہ عورتیں صرف ان لوگوں کی ولاء کی وارث ہوتی ہیں جن کو مکاتب بنائیں یا آزاد کریں یا ان کے آزاد شدہ آزاد کریں۔

32157

(۳۲۱۵۸) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ : أَنَّہُ قَالَ : لاَ یَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الْوَلاَئِ إلاَّ مَا أَعْتَقْنَ ، أَوْ أُعْتِقَ مَنْ أَعْتَقْنَ ، إلاَّ الْمُلاعَنَۃ فَإِنَّہَا تَرِثُ ابْنُہَا الَّذِی انْتَفَی مِنْہُ أَبُوہُ۔
(٣٢١٥٨) حسن فرماتے ہیں کہ عورتیں صرف اس کی ولاء کی وارث ہوتی ہیں جس کو وہ آزاد کریں یا ان کا آزاد شدہ کسی کو آزاد کرے، سوائے لعان کرنے والی کے، کہ وہ اس کی وارث ہوتی ہے جس کے نسب کی اس کا باپ نفی کرے۔

32158

(۳۲۱۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الْوَلاَئِ إلاَّ مَا کَاتَبْنَ ، أَوْ أَعْتَقْنَ۔
(٣٢١٥٩) عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ عورتیں ان ہی لوگوں کی ولاء کی وارث ہوتی ہیں جن کو وہ مکاتب بنائیں یا آزاد کریں۔

32159

(۳۲۱۶۰) حَدَّثَنَا ابْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الْوَلاَئِ شَیْئًا إلاَّ مَا کَاتَبْنَ ، أَوْ أَعْتَقْنَ۔
(٣٢١٦٠) عطاء فرماتے ہیں کہ عورتیں ولاء میں سے کسی چیز کی وارث نہیں ہوتیں سوائے ان لوگوں کے جن کو وہ مکاتب بنائیں یا آزاد کریں۔

32160

(۳۲۱۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ : فِی امْرَأَۃٍ تُوُفِّیَتْ وَتَرَکَتْ مَوْلاَہَا ، قَالَ : ہُوَ مَوْلاَہَا إذَا مَاتَ یَرِثُہُ مَنْ یَرِثُہَا مِنَ الذُّکُورِ۔
(٣٢١٦١) خالد ابو قلابہ سے اس عورت کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو فوت ہوگئی اور اپنے مولیٰ کو چھوڑ گئی، فرمایا کہ وہ اس کا مولیٰ ہے جب مرے گا، اس کا وارث ہر وہ شخص ہوگا جو اس عورت کا وارث ہوگا مردوں میں سے۔

32161

(۳۲۱۶۲) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الْوَلاَئِ ، إلاَّ مَا أَعْتَقْنَ ، أَوْ کَاتَبْنَ۔
(٣٢١٦٢) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عورتیں صرف اس ولاء کی وارث ہوتی ہیں جن کو وہ آزاد کریں یا مکاتب بنائیں۔

32162

(۳۲۱۶۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الْوَلاَئِ ، إلاَّ مَا أَعْتَقْنَ۔
(٣٢١٦٣) ابراہیم ایک دوسری سند سے فرماتے ہیں کہ عورتیں صرف اس ولاء کی وارث ہوتی ہیں جن کو وہ آزاد کریں۔

32163

(۳۲۱۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فِی الرَّجُلِ یُکَاتِبُ عَبْدَہُ ، ثُمَّ یَمُوتُ وَیَدَعُ وَلَدًا : رِجَالاً وَنِسَائً ، قَالَ : الْمَالُ بَیْنَہُمْ بِالْحِصَصِ ، وَالْوَلاَئُ لِلرِّجَالِ دُونَ النِّسَائِ۔
(٣٢١٦٤) ابراہیم اس آدمی کے بارے میں فرماتے ہیں جو اپنے غلام کو مکاتب بنائے پھر مرجائے اور مذکر و مونث اولاد چھوڑ جائے ، کہ مال ان کے درمیان حصّوں کے مطابق تقسیم ہوگا اور ولاء مردوں کے لیے ہوگی نہ کہ عورتوں کے لئے۔

32164

(۳۲۱۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ یَکُنْ یُسَمِّیہِ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ وَ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : فِی الرَّجُلِ یُکَاتِبُ عَبْدَہُ ثُمَّ یَمُوتُ وَیَدَعُ وَلَدًا : رِجَالاً وَنِسَائً ، قَالَ : الْمَالُ بَیْنَہُمْ بِالْحِصَصِ ، وَالْوَلاَئُ لِلرَّجُلِ دُونَ النِّسَائِ۔ (دارمی ۳۱۴۴۔ بیہقی ۱۰)
(٣٢١٦٥) ابو سلمہ اور سعید بن مسیب اس آدمی کے بارے میں فرماتے ہیں جو اپنے غلام کو مکاتب بنائے پھر مرجائے اور مذکر و مونث اولاد چھوڑ جائے ، کہ مال ان کے درمیان حصّوں کے مطابق تقسیم ہوگا اور ولاء مردوں کے لیے ہوگی نہ کہ عورتوں کے لئے۔

32165

(۳۲۱۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّ امْرَأَۃً أَعْتَقَتْ سَالِمًا فَوَالی أَبَا حُذَیْفَۃَ وَتَبَنَّاہُ ، فَمَاتَ فَدُفِعَ مِیرَاثُہُ إلَیْہَا۔
(٣٢١٦٦) معمر زہری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے سالم کو آزاد کردیا تو انھوں نے حضرت ابو حذیفہ سے موالات کرلی اور انھوں نے ان کو بیٹا بنا لیا، پھر وہ فوت ہوئے تو ان کی میراث اس عورت کو دی گئی۔

32166

(۳۲۱۶۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَہْمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی امْرَأَۃٍ اشْتَرَتْ أَبَاہَا فَأَعْتَقَتْہُ فَمَاتَ وَلَہَا أُخْتٌ ، قَالَ : لَہُمَا الثُّلُثَانِ فِی کِتَابِ اللہِ ، وَلَہَا الثُّلُثُ الْبَاقِی لأَنَّہَا عَصَبَتُہُ۔قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَہُوَعِنْدِی الْقَوْلُ۔
(٣٢١٦٧) ابراہیم اس عورت کے بارے میں فرماتے ہیں جو اپنے باپ کو خرید لے اور اس کو آزاد کر دے، پھر باپ مرجائے جبکہ اس کی ایک بہن زندہ ہو، کہ ان دونوں کے لیے دو تہائی مال ہے اللہ کی کتاب میں، اور اس عورت کے لیے باقی ایک تہائی ہے کیونکہ وہ عصبہ ہے۔ ابوبکر فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہی قول راجح ہے۔

32167

(۳۲۱۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ الْجَعْدِ، عَنْ قَتَادَۃَ: أَنَّ امْرَأَۃً أَعْتَقَتْ مَمْلُوکًا لَہَا ثُمَّ مَاتَ لِمَنْ یَکُونُ، وَلاَؤُہُ لِعَصَبَتِہَا، أَوْ لِعَصَبَۃِ ابْنِہَا؟ قَالَ: کَانَ الْحَسَنُ وَسَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ یَقُولاَنِ: ہُوَ لِعَصَبَۃِ الْغُلاَمِ۔ قَالَ قَتَادَۃُ : وَحَدَّثَنِی خِلاَس أَنَّ عَلِیًّا جَعَلَہُ لِعَصَبَۃِ الْغُلاَمِ۔ قَالَ : وَحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ الْخَلِیلِ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ ذَلِکَ۔
(٣٢١٦٨) قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو آزاد کیا ، پھر وہ مرگیا، اس کی ولاء اس کے عصبہ کے لیے ہے یا اس کے بیٹے کے لیے ہے ؟ فرمایا کہ حسن اور سعید بن مسیب فرماتے تھے کہ وہ غلام کے عصبہ کے لیے ہوگی، قتادہ کہتے ہیں کہ مجھے خلاس نے بیان کیا کہ حضرت علی (رض) نے اس کو غلام کے عصبہ کے لیے ہی بنایا ہے، اور ہمیں صالح بن الخلیل نے بیان کیا کہ ابن عباس نے یہی بات فرمائی۔

32168

(۳۲۱۶۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : وَلَدُ الْمَرْأَۃِ الذَّکَرُ أَحَقُّ بِمِیرَاثِ مَوَالِیہَا مِنْ عَصَبَتِہَا ، وَإِنْ کَانَت جِنَایَۃً فَعَلَی عَصَبَتِہَا۔
(٣٢١٦٩) اسماعیل بن سالم فرماتے ہیں کہ میں نے شعبی کو فرماتے سنا کہ عورت کی مذکر اولاد اس کے موالی کی میراث کی زیادہ حق دار ہے اس کے عصبہ کی بنسبت ، اور اگر کوئی جنایت ہو تو وہ اس کے عصبہ پر ہے۔

32169

(۳۲۱۷۰) حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ : فِی امْرَأَۃٍ أَعْتَقَتْ رَجُلاً ثُمَّ مَاتَتْ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لِوَلَدِہَا وَالْعَقْلُ عَلَیْہِمْ ، قَالَ : وَکَانَ عَامِرٌ یَقُولُ : الْوَلاَئُ لِوَلَدِہَا وَالْعَقْلُ عَلَیْہِمْ۔
(٣٢١٧٠) شریح اس عورت کے بارے میں فرماتے ہیں جس نے کسی آدمی کو آزاد کیا پھر مرگئی، کہ ولاء اس کی اولاد کے لیے ہے اور دیت ان سب پر ہے ، کہتے ہیں کہ عامر بھی فرماتے تھے کہ ولاء اس کی اولاد کے لیے ہے اور دیت ان سب پر ہے۔

32170

(۳۲۱۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : تَزَوَّجَ رِئَابُ بْنُ حُذَیْفَۃَ بْنِ سَعِیدِ بْنِ سَہْمٍ أَمَّ وَائِلِ ابْنَۃَ مَعْمَرٍ الْجُمَحِیَّۃَ ، فَوَلَدَتْ لَہُ ثَلاَثَۃً ، فَتُوُفِّیَتْ أُمُّہُمْ ، فَوَرِثَہَا بَنُوہَا رِبَاعَہَا وَوَلاَئَ مَوَالِیہَا ، فَخَرَجَ بِہِمْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ مَعَہ إلَی الشَّامِ ، فَمَاتُوا فِی طَاعُونٍ عَمَوَاسَ ، قَالَ : فَوَرِثَہُمْ عَمْرٌو ، وَکَانَ عَصَبَتُہُمْ ، فَلَمَّا رَجَعَ عَمْرٌو جَائَ بَنُو مَعْمَرٍ فَخَاصَمُوہُ فِی وَلاَئِ أُخْتِہِمْ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَقْضِی بَیْنَکُمْ بِمَا سَمِعْت مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ ، أَو الْوَالِدُ فَہُوَ لِعَصَبَتِہِ مَنْ کَانَ ، قَالَ : فَقَضَی لَنَا بِہِ ، وَکَتَبَ لَنَا کِتَابًا فِیہِ شَہَادَۃُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَآخَرَ۔ حَتَّی إذَا اسْتُخْلِفَ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ تُوفِّیَ مَوْلًی لَہَا وَتَرَک أَلْفَیْ دِینَارٍ فَبَلَغَنِی أَنَّ ذَلِکَ الْقَضَائَ قَدْ غُیِّرَ، فَخَاصَمُوہُ إلَی ہِشَامِ بْنِ إسْمَاعِیلَ ، فَرَفَعَنَا إلَی عَبْدِ الْمَلِکِ فَأَتَیْنَاہُ بِکِتَابِ عُمَرَ ، فَقَالَ : إنْ کُنْت لاَرَی ہَذَا مِنَ الْقَضَائِ الَّذِی لاَ یُشَکُّ فِیہِ ، وَمَا کُنْت أَرَی أَنَّ أَمْرَ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ بَلَغَ ہَذَا أَنْ یَشُکُّوا فِی ہَذَا الْقَضَائِ ، فَقَضَی لَنَا فِیہِ ، فَلَمْ نَزَلْ فِیہِ بَعْدُ۔ (نسائی ۶۳۴۹۔ احمد ۲۷)
(٣٢١٧١) عمرو بن شعیب اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا کہ رئاب بن حذیفہ بن سعید بن سہم نے امّ وائل بنت معمر جُمحیّہ سے نکاح کیا تو ان کے تین بچے ہوئے، پھر ان کی ماں فوت ہوگئی تو اس کے بیٹے اس کے مال کے وارث ہوئے اور اس کے موالی کی ولاء کے بھی، پھر عمرو بن العاص ان کو شام کی طرف لے گئے تو وہ طاعونِ عَمَواس میں مرگئے، کہتے ہیں کہ اس پر عمرو ان کے وارث ہوئے جو ان کے عصبہ تھے، جب عمرو واپس آئے تو معمر کے بیٹے آئے اور اپنی بہن کی ولاء میں جھگڑا عمر بن خطاب (رض) کے پاس لے گئے ، حضرت عمر نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان وہ فیصلہ کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مال لڑکا یا والد جمع کرلے وہ اس کے عصبہ کے لیے ہے جو بھی ہوں، کہتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے اس کا ہمارے لیے فیصلہ کردیا اور ہمارے لیے ایک تحریر لکھ دی جس میں عبد الرحمن بن عوف اور زید بن ثابت اور دوسرے حضرات کی گواہی تھی۔
یہاں تک کہ جب عبد الملک بن مروان خلیفہ بنا تو اس لڑکی کا ایک مولیٰ فوت ہوگیا، اور اس نے دو ہزار دینار چھوڑے، پس مجھے خبر پہنچی کہ وہ فیصلہ تبدیل کردیا گیا ، چنانچہ وہ ہشام بن اسماعیل کی طرف جھگڑا لے کر گئے تو ہم نے یہ معاملہ عبد الملک کی طرف اٹھایا اور اس کے پاس حضرت عمر کی تحریر لائے، اس نے کہا کہ میں تو اس کو ایسا فیصلہ سمجھتا ہوں جس میں شک نہیں کیا جاسکتا، اور میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اہل مدینہ کا معاملہ اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ وہ اس فیصلہ میں شک کریں، پس اس نے اس کے بارے میں ہمارے لیے فیصلہ کردیا اور ہم بعد میں اس فیصلے پر قائم رہے۔

32171

(۳۲۱۷۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَزْہَرَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِنْدَلٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ فِی الْمَرْأَۃٍ تَعْتِقُ الرَّجُلَ : الْوَلاَئُ لِوَلَدِہَا وَوَلَدِ وَلَدِہَا مَا بَقِیَ مِنْہُمْ ذَکَرٌ ، فَإِنِ انْقَرَضُوا رَجَعَ إلَی عَصَبَتِہَا۔
(٣٢١٧٢) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے اس عورت کے بارے میں فرمایا جو آدمی کو آزاد کرے کہ ولاء اس کی اولاد اور اولاد کی اولاد کے لیے ہے جب تک ان میں مذکر باقی رہے، جب وہ ختم ہوجائیں تو ولاء اس عورت کے عصبہ کی طرف لوٹ آئے گی۔

32172

(۳۲۱۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ شُرَیْحٍ وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ : فِی رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَکَ ابْنَہُ وَأَبَاہُ وَمَوْلاَہُ ، ثُمَّ مَاتَ الْمَوْلَی وَتَرَکَ مَالاً ، فَقَالَ شُرَیْحٌ : لأَبِیہِ السُّدُسُ ، وَمَا بَقِیَ فَلِلاِبْنِ۔ وَقَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ : الْمَالُ لِلاِبْنِ ، وَلَیْسَ لِلأَبِ شَیْئٌ۔
(٣٢١٧٣) قتادہ حضرت شریح اور زید بن ثابت سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو مرجائے اور اپنے بیٹے اور باپ اور مولیٰ کو چھوڑ جائے، پھر مولیٰ مرجائے اور مال چھوڑ جائے، حضرت شریح نے فرمایا کہ اس کے باپ کے لیے مال کا چھٹا حصّہ اور باقی بیٹے کے لیے ہے، اور زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ مال بیٹے کے لیے ہے اور باپ کے لیے کچھ نہیں۔

32173

(۳۲۱۷۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَأَلْتُہ عَنْ رَجُلٍ أَعْتَقَ مَمْلُوکًا لَہُ فَمَاتَ وَمَاتَ الْمَوْلَی وَتَرَکَ الَّذِی أَعْتَقَہُ أَبَاہُ وَابْنَہُ ، فَقَالَ إبْرَاہِیمُ : لأَبِیہِ السُّدُسُ ، وَمَا بَقِیَ فَہُوَ لاِبْنِہِ۔
(٣٢١٧٤) مغیرہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا کہ جس نے اپنے غلام کو چھوڑا، پھر وہ مرگیا اور مولیٰ مرگیا اور جس نے آزاد کیا تھا اس نے اپنے باپ اور بیٹے کو چھوڑا، تو ابراہیم نے فرمایا کہ اس کے باپ کے لیے مال کا چھٹا حصّہ اور باقی اس کے بیٹے کے لیے ہے۔

32174

(۳۲۱۷۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ہُوَ لِلاِبْنِ۔
(٣٢١٧٥) منصور حسن سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ وہ بیٹے کے لیے ہے۔

32175

(۳۲۱۷۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ : أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ ذَلِکَ۔
(٣٢١٧٦) محمد بن سالم شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بھی یہی فرماتے تھے۔

32176

(۳۲۱۷۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا یَقُولاَنِ : ہُوَ لِلاِبْنِ۔
(٣٢١٧٧) شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حکم اور حماد کو فرماتے سنا کہ وہ بیٹے کے لیے ہے۔

32177

(۳۲۱۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا وَأَبَا إِیَاسَ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ عَنِ امْرَأَۃٍ أَعْتَقَتْ غُلاَمًا لَہَا ثُمَّ مَاتَتْ وَتَرَکَتْ أَبَاہَا وَابْنَہَا ، فَقَالُوا : الْوَلاَئُ لِلاِبْنِ ، وَقَالَ أَبُو إیَاسٌ : الْوَلاَئُ لِوَلَدِہَا مَا بَقِیَ مِنْہُمْ۔
(٣٢١٧٨) شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حکم اور حماد اور ابو ایاس معاویہ بن قرہ سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنے غلام کو آزاد کیا تھا، پھر وہ مرگئی اور اپنے باپ اور بیٹے کو چھوڑ گئی، ان سب نے فرمایا کہ ولاء بیٹے کے لیے ہے ، اور ابو ایاس نے اس طرح فرمایا کہ ولاء اس کی اولاد کے لیے ہے جب تک ان میں باقی رہے۔

32178

(۳۲۱۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لِلاِبْنِ۔
(٣٢١٧٩) ابن جریج عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ ولاء بیٹے کے لیے ہے۔

32179

(۳۲۱۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : بَلَغَنِی عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنَّہُ قَالَ : الْوَلاَئُ لِلاِبْنِ۔
(٣٢١٨٠) سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے زید بن ثابت سے یہ بات پہنچی ہے فرمایا کہ ولاء بیٹے کے لیے ہے۔

32180

(۳۲۱۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لِلاِبْنِ۔ وَہُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ۔
(٣٢١٨١) سفیان حماد سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ولاء بیٹے کے لیے ہے، اور یہی سفیان کا قول ہے۔

32181

(۳۲۱۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، قَالَ : کَانَ إبْرَاہِیمُ یَقُولُ : لِلأَبِ سُدُسُ الْوَلاَئِ وَلِلاِبْنِ خَمْسَۃُ أَسْدَاسِ الْوَلاَئِ۔ قَالَ شُعْبَۃُ : قُلْتُ لأَبِی مَعْشَرٍ : أَسَمِعْتہ مِنْ إبْرَاہِیمَ یَقُولُہُ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ ، وَقَالَ مُغِیرَۃُ : سَمِعْتہ مِنْ إبْرَاہِیمَ یَقُولُہُ۔
(٣٢١٨٢) ابو معشر فرماتے ہیں کہ ابراہیم فرماتے تھے کہ باپ کے لیے ولاء کا چھٹا حصّہ اور بیٹے کے لیے بقیہ پانچ حصّے ہیں، شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو معشر سے کہا کیا آپ نے ابراہیم کو یہ فرماتے سنا ہے ؟ فرمایا کہ میں نے سنا ہے، اور مغیرہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابراہیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

32182

(۳۲۱۸۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ : أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : الْوَلاَئُ بِمَنْزِلَۃِ الْمَالِ۔
(٣٢١٨٣) شعبی روایت کرتے ہیں کہ شریح فرماتے تھے کہ ولاء مال کی طرح ہے۔

32183

(۳۲۱۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ: أَنَّہُ کَانَ یُجْرِی الْوَلاَئَ مُجْرَی الْمَالِ۔
(٣٢١٨٤) شعبی دوسری سند سے شریح سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ولاء کو مال کے قائم مقام قرار دیتے تھے۔

32184

(۳۲۱۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ فِی رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَکَ مَوْلًی لَہُ وَجَدَّہُ وَأَخَاہُ لِمَنْ وَلاَئُ مَوْلاَہُ ؟ قَالَ عَطَائٌ : الْوَلاَئُ بَیْنَہُمَا نِصْفَیْنِ۔
(٣٢١٨٥) ابن جریج عطاء سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو مرجائے اور اپنے مولیٰ اور دادا اور بھائی کو چھوڑ جائے کہ اس کے مولیٰ کی ولاء کس کو ملے گی ؟ فرمایا کہ وہ ان دونوں کے درمیان آدھی آدھی تقسیم ہوگی۔

32185

(۳۲۱۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : قَالَ سُفْیَانُ : بَلَغَنِی عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّہُ قَالَ : الْوَلاَئُ لِلْجَدِّ۔
(٣٢١٨٦) سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے زہری سے یہ بات پہنچی ہے کہ ولاء دادا کے لیے ہے۔

32186

(۳۲۱۸۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : فِی رَجُلٍ تَرَکَ جَدَّہُ وَأَخَاہُ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لِلْجَدِّ لأَنَّہُ یُنْسَبُ إلَی الْجَدِّ ، وَلاَ یُنْسَبُ إلَی الأَخِ۔
(٣٢١٨٧) ابن ابی ذئب زہری سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو اپنے دادا اور بھائی کو چھوڑ جائے، فرمایا کہ ولاء دادا کے لیے ہوتی ہے، کیونکہ آدمی کی نسبت دادا کی طرف ہوتی ہے بھائی کی طرف نہیں ہوتی۔

32187

(۳۲۱۸۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ وَالأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عُمَرَ : فِی الْمَمْلُوکِ تَزَوَّجَ الْحُرَّۃَ فَتَلِدُ لَہُ أَوْلاَدًا فَیُعْتقُ ، قَالَ : یُلْحَقُ بِہِ وَلاَئُ وَلَدِہِ۔
(٣٢١٨٨) ابراہیم حضرت عمر سے اس غلام کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو آزاد عورت سے نکاح کرے اور اس کی اولاد پیدا ہو اور وہ آزاد ہوجائے، فرمایا کہ اس کے ساتھ اس کی اولاد کی ولاء ملائی جائے گی۔

32188

(۳۲۱۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ الأَعْمَشُ : أَرَاہُ عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ عُمَرُ : إذَا کَانَتِ الْحُرَّۃُ تَحْتَ الْمَمْلُوکِ فَوَلَدَتْ ، فَوَلاَئُ وَلَدِہَا لِمَوَالِی الأُمِ ، فَإِذَا أُعْتِقَ الأَبُ جَرَّ الْوَلاَئَ۔
(٣٢١٨٩) اعمش ابراہیم سے روایت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انھوں نے اسود سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ جب آزاد عورت غلام کے ماتحت ہو اور اولاد جنے تو اس کی اولاد کی ولاء ماں کے موالی کے لیے ہے، جب باپ آزاد ہوگا تو ولاء کو کھینچ لے گا۔

32189

(۳۲۱۹۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عُمَرَ وَعَلِیٍّ وَعَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ کَانُوا یَقُولُونَ : إذَا لَحِقَتْہُ الْعَتَاقَۃُ وَلَہُ أَوْلاَدٌ مِنْ حُرَّۃٍ جَرَّ وَلاَئَہُمْ ، فَقُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ : فَالْجَدُّ ، قَالَ : الْجَدُّ یَجُرُّ کَمَا یَجُرُّ الأَبُ۔
(٣٢١٩٠) شعبی حضرت عمر، علی ، عبداللہ اور زید (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے تھے کہ جب آدمی کو آزادی مل جائے اور اس کی آزاد عورت سے اولاد ہو تو وہ ان کی ولاء کو کھینچ لے گا، راوی کہتے ہیں کہ میں نے شعبی سے کہا کہ دادا کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا کہ دادا بھی اسی طرح ولاء کھینچ لیتا ہے جس طرح باپ کھینچ لیتا ہے۔

32190

(۳۲۱۹۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : یَرْجِعُ الْوَلاَئُ إلَی مَوَالِی الأَبِ إذَا أُعْتِقَ ، وَحَدَّثَ أَنَّ عُمَرَ وَعُثْمَانَ قَضَیَا بِہِ ، وَأَنَّ شُرَیْحًا لَمْ یَقْضِ بِہِ ، ثُمَّ قَضَی بِہِ۔
(٣٢١٩١) حارث حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ولاء باپ کے موالی کی طرف لوٹتی ہے جب کہ اس کو آزاد کیا جائے، اور انھوں نے یہ بیان فرمایا کہ حضرت عمر (رض) اور عثمان (رض) نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے اور شریح نے پہلے اس کے مطابق فیصلہ نہیں فرمایا تھا، پھر اس کے مطابق فیصلہ فرمایا۔

32191

(۳۲۱۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ مُکَاتَبًا لِلزُّبَیْرِ تَزَوَّجَ أُمَّ وَلَدٍ لِرَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، قَالَ : فَوَلَدَتْ أَوْلاَدًا ، ثُمَّ أُعْتِقَ ، فَاخْتَصَمَ الزُّبَیْرُ وَرَافِعٌ فِی ، وَلاَئِہِمْ إلَی عُثْمَانَ فَقَضَی بِالْوَلاَئِ لِلزُّبَیْرِ۔
(٣٢١٩٢) ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں حضرت زبیر کے ایک مکاتب نے حضرت رافع بن خدیج کی امّ ولد سے نکاح کیا ، فرمایا کہ اس کے بعد اس نے بہت سے بچے جنے، پھر وہ آزاد ہوگیا، چنانچہ حضرت زبیر اور رافع حضرت عثمان کے پاس فیصلہ لے کر گئے تو انھوں نے حضرت زبیر کے لیے ولاء کا فیصلہ فرما دیا۔

32192

(۳۲۱۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حُمَیْدٍ الأَعْرَجِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ : أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَضَی بِالْوَلاَئِ لِلزُّبَیْرِ۔
(٣٢١٩٣) محمد بن ابراہیم تیمی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان نے ولاء کا حضرت زبیر کے لیے فیصلہ فرمایا۔

32193

(۳۲۱۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : إذَا أُعْتِقَ الأَبُ جَرَّ الْوَلاَئَ۔
(٣٢١٩٤) اسود حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جب باپ آزاد ہوگا ولاء کو کھینچ لے گا۔

32194

(۳۲۱۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ صَمْعَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إِذَا تَزَوَّجَ الْمَمْلُوکُ الْحُرَّۃَ ، فما جری فِی الرَّحِمِ فَوَلاَؤُہُ لِمَوَالِی الأُمِّ ، فَإِذَا أُعْتِقَ الأَبُ جَرَّ الْوَلاَئَ۔
(٣٢١٩٥) عکرمہ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جب غلام آزاد عورت سے نکاح کرے تو جو رحم سے پیدا ہوگا اس کی ولاء ماں کے موالی کے لیے ہوگی، جب باپ آزاد ہوگا ولاء کو کھینچ لے گا۔

32195

(۳۲۱۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ یُقَالَ لَہُ : إبْرَاہِیمُ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا أُعْتِقَ الأَبُ جَرَّ الْوَلاَئَ۔
(٣٢١٩٦) جابر انصار کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں جس کو ابراہیم کہا جاتا تھا کہ وہ حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جب باپ آزاد ہوگا ولاء کو کھینچ لے گا۔

32196

(۳۲۱۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا إسْرَائِیلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ شُرَیْحٍ : أَنَّہُ کَانَ لاَ یَقْضِی بِجَرِّ الْوَلاَئِ حَتَّی حَدَّثَہُ الأَسْوَدُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ قَضَی بِہِ ، فَقَضَی شُرَیْحٌ۔
(٣٢١٩٧) عامر شریح سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ولاء کے کھینچنے کے بارے میں فیصلہ نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ اسود نے ان سے بیان فرمایا کہ عبداللہ (رض) نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے، تو وہ بھی اس پر فیصلہ فرمانے لگے۔

32197

(۳۲۱۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ: یَجُرُّ وَلاَئَ وَلَدِہِ۔
(٣٢١٩٨) عکرمہ بن خالد حضرت عمر بن عبد العزیز سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ باپ اپنے بیٹے کی ولاء کو کھینچ لیتا ہے۔

32198

(۳۲۱۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : یَجُرُّ وَلاَئَ وَلَدِہِ۔
(٣٢١٩٩) ہشام حضرت محمد سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ باپ اپنے بیٹے کی ولاء کو کھینچ لیتا ہے۔

32199

(۳۲۲۰۰) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَرْجِعُ الْوَلاَئُ إلَی مَوَالِی الأَبِ إذَا أُعْتِقَ۔
(٣٢٢٠٠) یونس روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ ولاء باپ کے موالی کی طرف لوٹتی ہے جب وہ آزاد ہوجاتا ہے۔

32200

(۳۲۲۰۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ وَخِلاَسٍ : أَنَّہُمَا قَالاَ : إذَا تَزَوَّجَ الْمَمْلُوکُ الْحُرَّۃَ فَوَلَدَتْ أَوْلاَدًا ، ثُمَّ أُعْتِقَ فَإِنَّہُ یَجُرُّ الْوَلاَئَ۔
(٣٢٢٠١) قتادہ حضرت سعید اور خلاس سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جب غلام آزاد عورت سے نکاح کرے اور وہ بہت سے بچے جنے پھر اس کو آزاد کردیا جائے تو وہ ولاء کو کھینچ لیتا ہے۔

32201

(۳۲۲۰۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ: الْجَدُّ یَجُرُّ الْوَلاَئَ۔
(٣٢٢٠٢) عبداللہ بن ابی السَّفر حضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ دادا ولاء کو کھینچ لیتا ہے۔

32202

(۳۲۲۰۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ۔ وَعَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَعِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، قَالاَ : مَا وَلَدَتْ وَہُوَ مَمْلُوکٌ فَالْوَلاَئُ لِمَوَالِی الأُمِ ، وَمَا وَلَدَتْ وَہُوَ حُرٌّ فَالْوَلاَئُ لِمَوَالِی الأَبِ۔
(٣٢٢٠٣) قیس بن سعد مجاہد سے اور عکرمہ بن خالد یزید بن عبد الملک سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ عورت اپنے شوہر کی غلامی کی حالت میں جو بچہ جنے اس کی ولاء ماں کے موالی کے لیے ہوگی اور جو باپ کی آزادی کی حالت میں جنے اس کی ولاء باپ کے موالی کے لیے ہوگی۔

32203

(۳۲۲۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : لاَ یَجُرُّ الْوَلاَئَ ، إلاَّ مَا وَلَدَتْ وَہُوَ حُرٌّ۔
(٣٢٢٠٤) معمر روایت کرتے ہیں کہ زہری نے فرمایا کہ ولاء کو وہی کھینچ سکتا ہے جس کو عورت اس حال میں جنے کہ شوہر آزاد ہو۔

32204

(۳۲۲۰۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : رَجُلٌ تَزَوَّجَ حرَّۃً فَوَلَدَتْ ، ثُمَّ عُتِقَ الْعَبْدُ ، لِمَنْ وَلاَئُ وَلَدِہِ ؟ قَالَ : وَلاَئُ وَلَدِہِ لأَہْلِ أُمِّہِمْ۔
(٣٢٢٠٥) ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء سے کہا کہ ایک آدمی نے ایک آزاد عورت سے نکاح کیا اور بچہ جنا پھر غلام کو آزاد کردیا گیا تو اس کی اولاد کی ولاء کس کے لیے ہے ؟ فرمایا کہ اس کی اولاد کی ولاء اس کی ماں کے خاندان کے لیے ہے۔

32205

(۳۲۲۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ کَانَ یَقُولُ : إذَا أُعْتِقَ الرَّجُلُ وَأَعْتَقَ ابْنَہُ رَجُلٌ آخَرُ جَرَّ ، وَلاَئَ أَبِیہِ فَأَتَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ ، فَقَالَ : عُمَرُ یَقُولُ ہَذَا ؟ قَالَ : نَحْنُ نَقُولُہُ۔
(٣٢٢٠٦) ابن عون روایت کرتے ہیں کہ حسن فرماتے تھے کہ جب آدمی کو آزاد کردیا جائے اور اس کے بیٹے کو دوسرا آدمی آزاد کر دے تو وہ اپنے بیٹے کی ولاء کو کھینچ لیتا ہے ، چنانچہ ان کے پاس محمد بن سیرین آئے اور انھوں نے پوچھا کہ کیا یہ بات حضرت عمر فرماتے تھے ؟ فرمایا کہ یہ بات ہم کہتے ہیں۔

32206

(۳۲۲۰۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی رَجُلٍ أَعْتَقَہُ قَوْمٌ وَأَعْتَقَ أَبَاہُ آخَرُونَ ، قَالَ : یَتَوَارَثَانِ بِالأَرْحَامِ وَجِنَایَتُہُمَا عَلَی عَاقِلَۃِ مَوَالِیہِمَا۔
(٣٢٢٠٧) مغیرہ ابراہیم سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جس کو ایک جماعت نے آزاد کیا ہو اور اس کے باپ کو دوسروں نے آزاد کیا ہو، فرمایا کہ وہ رشتہ داری کے اعتبار سے ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور ان کی جنایت ان کے موالی کی عاقلہ پر ہوگی۔

32207

(۳۲۲۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ : اخْتَصَمَ عَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ فِی مَوْلًی لِصَفِیَّۃَ إلَی عُمَرَ فَقَضَی عُمَرُ بِالْمِیرَاثِ لِلزُّبَیْرِ وَالْعَقْلِ عَلَی عَلِیٍّ۔
(٣٢٢٠٨) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) اور زبیر (رض) حضرت صفیہ کے مولیٰ کے بارے میں حضرت عمر کے پاس فیصلہ لے کر گئے تو حضرت عمر نے میراث کا فیصلہ حضرت زبیر کے حق میں اور تاوان کا حضرت علی پر فیصلہ فرمایا۔

32208

(۳۲۲۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی عَبْدِ اللہِ : إذَا کَانَ أَحَدُ الْعَصَبَۃِ أَقْرَبَ بِأُمٍّ فَأَعْطِہِ الْمَالَ۔
(٣٢٢٠٩) ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت عبداللہ کو لکھا کہ جب عصبہ میں کوئی ماں کے زیادہ قریب ہو تو مال اسی کو دو ۔

32209

(۳۲۲۱۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالدَّیْنِ قَبْلَ الْوَصِیَّۃِ ، وَأَنْتُمْ تَقْرَؤُونَ : (مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصَی بِہَا ، أَوْ دَیْنٍ) وَأَنَّ أَعْیَانَ بَنِی الأُمِّ یَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِی الْعَلاَتِ : الإِخْوَۃُ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ دُونَ الإِخْوَۃِ مِنَ الأَبِ۔
(٣٢٢١٠) حارث حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرض کا وصیت سے پہلے فیصلہ فرمایا اور تم یہ آیت پڑھتے ہو (مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصَی بِہَا ، أَوْ دَیْنٍ ) اور حقیقی بھائی وارث ہوں گے نہ کہ باپ شریک۔

32210

(۳۲۲۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، قَالَ : سَأَلْت الشَّعْبِیَّ ، عَنْ بَنِی عَمٍّ لأَبٍ وَأَمٍّ إلَی ثَلاَثَۃٍ ؟ وَعَنْ بَنِی عَمٍّ لأَبٍ إلَی اثْنَیْنِ ؟ فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : الْمَالُ لِبَنِی الْعَلاَتِ۔
(٣٢٢١١) مالک بن مِغْول فرماتے ہیں کہ میں نے شعبی سے تین حقیقی چچا زاد اور دو باپ شریک چچا زاد کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ مال باپ شریک چچا زادوں کے لیے ہے۔

32211

(۳۲۲۱۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إذَا کَانَتِ الْعَصَبَۃُ أَحَدُہُمْ أَقْرَبَ بِأُمٍّ ، فَالْمَالُ لَہُ فِی الْوَلاَئِ۔
(٣٢٢١٢) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ جب عصبہ میں کوئی ماں کے زیادہ قریب ہو تو ولاء میں مال اسی کے لیے ہے۔

32212

(۳۲۲۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : أَنَّ عَلِیًّا وَعَبْدَ اللہِ وَزَیْدًا ، قَالُوا : الْوَلاَئُ لِلکُبْرِ۔
(٣٢٢١٣) ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) ، عبداللہ (رض) ، اور زید (رض) فرماتے تھے کہ ولاء بڑے کے لیے ہے۔

32213

(۳۲۲۱۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ وَزَیْدٍ ، قَالُوا : الْوَلاَئُ لِلکُبْرِ۔
(٣٢٢١٤) ابراہیم حضرت عمر، عبداللہ اور زید (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ولاء بڑے کے لیے ہے۔

32214

(۳۲۲۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ شُرَیْحٍ: أَنَّہُ قَضَی فِیہِ کَمَا یُقْضَی فِی الْمَالِ، قَالَ: وَکَانَ عَلِیٌّ وَزَیْدٌ یَجْعَلاَنِہِ لِلکُبْرِ۔
(٣٢٢١٥) شعبی روایت کرتے ہیں کہ شریح نے اس کے بارے میں وہی فیصلہ فرمایا ہے جو مال میں کیا جاتا ہے، اور علی اور زید (رض) بڑے کو دیا کرتے تھے۔

32215

(۳۲۲۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ وَسُفْیَانُ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ رِیَاحٍ الثَّقَفِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْقِلٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : الْوَلاَئُ شُعْبَۃٌ مِنَ الرِّقِّ ، فَمَنْ أَحْرَزَ الْمِیرَاثَ أَحْرَزَ الْوَلاَئَ۔
(٣٢٢١٦) عبداللہ بن معقل حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ولاء غلامی کا ایک شعبہ ہے، پس جو میراث لیتا ہے وہی ولاء بھی لے گا۔

32216

(۳۲۲۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِ ابْنِ رِیَاحٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لِلکُبْرِ۔
(٣٢٢١٧) ابن ریاح روایت کرتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ولاء بڑے کے لیے ہے۔

32217

(۳۲۲۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لِلکُبْرِ۔
(٣٢٢١٨) لیث روایت کرتے ہیں کہ حضرت طاؤس نے فرمایا کہ ولاء بڑے کے لیے ہے۔

32218

(۳۲۲۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ الْغِفَارِیِّ ، قَالَ : إذَا مَاتَ الْمُعْتِقُ الأَوَّلُ فَأَیُّکُمْ مَنْ یَرِثُہُ فَلَہُ وَلاَئُ مَوْلاَہُ۔
(٣٢٢١٩) قیس بن مسلم روایت کرتے ہیں کہ ابو مالک غفاری نے فرمایا کہ جب پہلا آزاد کرنے والا مرجائے تو جو بھی اس کا وارث ہو اس کے لیے اس کے مولیٰ کی ولاء ہے۔

32219

(۳۲۲۲۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : إذَا مَاتَ مَوْلَی الْقَوْمِ نُظِرَ إلَی أَقْرَبِ النَّاسِ مِنْہُ فَجُعِلَ لَہُ مِیرَاثُہُ۔
(٣٢٢٢٠) یونس ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ جب کسی جماعت کا آزاد شدہ غلام مرجائے تو اس کے سب سے قریبی شخص کو دیکھا جائے گا اور اس کو اس کی میراث دی جائے گی۔

32220

(۳۲۲۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَانَ شُرَیْحٌ یُجْرِی الْوَلاَئَ مُجْرَی الْمَالِ ، قَالَ الشَّعْبِیُّ : وَأَہْلُ الْمَدِینَۃِ یَقُولُونَ : الْوَلاَئُ لِلکُبْرِ۔
(٣٢٢٢١) شعبی فرماتے ہیں کہ شریح ولاء کو مال کے قائم مقام قرار دیتے تھے ، شعبی فرماتے ہیں کہ اھل مدینہ فرماتے تھے کہ ولاء بڑے کے لیے ہے۔

32221

(۳۲۲۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ : أَنْ شُرَیْحًا قَضَی فِی آلِ الأَشْعَثِ أَنَّ الْوَلاَئَ بَیْنَ الْعَمِّ وَبَنِی الأَخِ۔
(٣٢٢٢٢) ابن عون فرماتے ہیں کہ شریح نے آلِ اشعث کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ ولاء چچا اور بھتیجوں کے درمیان تقسیم ہوگی۔

32222

(۳۲۲۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، سَمِعَ سُنَیْنًا أَبَا جَمِیلَۃَ یَقُولُ : وَجَدْت مَنْبُوذًا عَلَی عَہْدِ عُمَرَ ، فَذَکَرَہُ عَرِیفِیٌّ لِعُمَرَ فَدَعَانِی فَسَأَلَنِی فَأَخْبَرْتہ ، فَقَالَ : ہُوَ حُرٌّ ، وَوَلاَؤُہُ لَک وَعَلَیْنَا رَضَاعُہُ۔
(٣٢٢٢٣) سُنَین ابو جمیلہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کے زمانے میں ایک بچہ پڑا ہوا پایا۔ تو میرے قاصد نے اس کا ذکر حضرت عمر سے کیا، آپ نے مجھے بلایا اور مجھ سے سوال کیا میں نے بتادیا پھر آپ نے فرمایا کہ یہ آزاد ہے اور اس کی ولاء تمہارے لیے اور اس کے دودھ پلانے کا خرچہ ہم پر ہے۔

32223

(۳۲۲۲۴) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : الْمَنْبُوذُ حُرٌّ ، فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ یُوَالِیَ الَّذِی الْتَقَطَہُ : وَالاَہُ ، وَإِنْ أَحَبَّ أَنْ یُوَالِیَ غَیْرَہُ : وَالاَہُ۔
(٣٢٢٢٤) جعفر اپنے والد کے واسطے سے حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ راستے میں پڑا ہوا بچہ آزاد ہے اگر وہ بچہ اس سے موالاۃ قائم کرنا چاہے جس نے اس کو اٹھایا ہے تو کرلے، اور اگر دوسرے سے موالاۃ کرنا چاہے تب بھی کرسکتا ہے۔

32224

(۳۲۲۲۵) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : السَّاقِطُ یُوَالِی مَنْ شَائَ۔
(٣٢٢٢٥) ابن جریج عطاء سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ راستے میں گرا ہوا بچہ جس سے چاہے موالاۃ کرے ۔

32225

(۳۲۲۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مِیرَاثُ اللَّقِیطِ بِمَنْزِلَۃِ اللُّقَطَۃِ۔
(٣٢٢٢٦) مغیرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ لقیط کی میراث لقطہ کے حکم میں ہے۔

32226

(۳۲۲۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : جَرِیرَتُہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ ، وَمِیرَاثُہُ لَہُمْ۔
(٣٢٢٢٧) ہشام روایت کرتے ہیں کہ حسن نے فرمایا کہ اس کے ساتھ ملا ہوا مال بیت المال میں اور اس کی میراث اٹھانے والوں کے لیے ہے۔

32227

(۳۲۲۲۸) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَعْطَی مِیرَاثَ الْمَنْبُوذِ للَّذِی کَفَلَہُ۔
(٣٢٢٢٨) زہری روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے پڑے ہوئے بچے کی میراث اس شخص کو دی جس نے اس کی کفالت کی تھی۔

32228

(۳۲۲۲۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ رُؤْبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ النَّصْرِیِّ ، عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَعِ ، قَالَ : تَرِثُ الْمَرْأَۃُ ثَلاَثَۃً : لَقِیطَہَا ، وَعَتِیقَہَا ، وَالْمُلاعَنَۃ : ابْنَہَا۔
(٣٢٢٢٩) عبد الواحد نصری حضرت واثلہ بن اسقع سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ عورت تین اشخاص کی وارث ہوتی ہے، اٹھائے ہوئے بچے کی، آزاد شدہ کی اور لعان کرنے والی اپنے بیٹے کی۔

32229

(۳۲۲۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عُمَرَ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوْہَبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ تَمِیمًا الدَّارِیَّ یَقُولُ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ مَا السُّنَّۃُ فِی الرَّجُلِ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ یُسْلِمُ عَلَی یَدَیَ الرَّجُلِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ؟ قَالَ : ہُوَ أَوْلَی النَّاسِ بِمَحْیَاہُ وَمَمَاتِہِ۔ (ترمذی ۲۱۱۲۔ احمد ۱۰۲)
(٣٢٢٣٠) حضرت تمیم داری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ 5! اہل کتاب کا جو آدمی مسلمانوں میں سے کسی کے ہاتھ پر اسلام لے آئے اس کے بارے میں کیا سنت ہے ؟ فرمایا کہ وہ لوگوں میں اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد اس کا وارث ہوگا۔

32230

(۳۲۲۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ : أَنَّ رَجُلاً أَتَی عُمَرَ فَقَالَ : إنَّ رَجُلاً أَسْلَمَ عَلَی یَدَیَّ فَمَاتَ وَتَرَکَ أَلْفَ دِرْہَمٍ ، فَتَحَرَّجْت مِنْہَا ، فَرَفَعْتہَا إلَیْک ؟ فَقَالَ : أَرَأَیْت لَوْ جَنَی جِنَایَۃً عَلَی مَنْ کَانَتْ تَکُونُ ؟ قَالَ : عَلَیَّ ، قَالَ : فَمِیرَاثُہُ لَک۔
(٣٢٢٣١) مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمر کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ایک آدمی میرے ہاتھ پر اسلام لایا پھر مرگیا اور اس نے ایک ہزار درہم چھوڑے، میں اس سے پریشان ہوا اور آپ کے پاس لایا ہوں، آپ نے فرمایا اگر وہ کوئی جنایت کرتا تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی ؟ اس نے کہا کہ مجھ پر، فرمایا کہ پھر اس کی میراث بھی تمہارے لیے ہے۔

32231

(۳۲۲۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : إذَا وَالَی رَجُلٌ رَجُلاً فَلَہُ مِیرَاثُہُ وَعَلَیْہِ عَقْلُہُ۔
(٣٢٢٣٢) زہری روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی کسی سے موالاۃ کرے تو اس کی میراث اس کے لیے ہے اور اس کی جنایت اس پر ہے۔

32232

(۳۲۲۳۳) حَدَّثَنَا جَرِیرُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ عَلَی یَدَی الرَّجُلِ ، فَلَہُ مِیرَاثُہُ وَعَلَیْہِ عَقْلُہُ۔
(٣٢٢٣٣) ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی کسی کے ہاتھ پر اسلام لے آئے اس کی میراث اس کے لیے ہے اور اس کا تاوان بھی اس پر ہے۔

32233

(۳۲۲۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَضَی أَبِی فِی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ أَسْلَمَ عَلَی یَدَیْ رَجُلٍ فَمَاتَ وَتَرَکَ ابْنَۃً ، فَأَعْطَی ابْنَتَہُ النِّصْفَ ، وَأَعْطَی الَّذِی أَسْلَمَ عَلَی یَدَیْہِ النِّصْفَ۔
(٣٢٢٣٤) عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ حضرت أبی نے ذمیوں میں سے ایک آدمی کے بارے میں فیصلہ فرمایا جو کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہوا تھا اور پھر مرگیا اور ایک بیٹی چھوڑ گیا، آپ نے اس کی بیٹی کو نصف مال دیا، اور جس کے ہاتھ پر اسلام لایا تھا اس کو بھی نصف دے دیا۔

32234

(۳۲۲۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: کَانَ فِینَا رَجُلٌ نَازِلٌ أَقْبَلَ مِنَ الدَّیْلَمِ ، فَمَاتَ وَتَرَکَ ثَلاَثُ مِئَۃ دِرْہَمٍ ، فَأَتَیْت ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَأَلْتُہُ ؟ فَقَالَ : ہَلْ لَہُ مِنْ رَحِمٍ؟ أَوْ ہَلْ لأَحَدٍ مِنْکُمْ عَلَیْہِ عَقْدُ وَلاَئٍ؟ قُلْنَا: لاَ ، قَالَ: فَہَاہُنَا وَرِثَہُ کَثِیرٌ۔ یَعْنِی : بَیْتَ الْمَالِ۔
(٣٢٢٣٥) مسروق فرماتے ہیں کہ ایک آدمی ہمارے پاس دیلم سے آکر ٹھہرا ہوا تھا ، وہ مرگیا اور اس نے تین سو درہم چھوڑے میں حضرت ابن مسعود کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ کیا اس کا کوئی رشتہ دار ہے ؟ کیا تم میں سے اس کے ساتھ کسی کی موالاۃ ہے ؟ ہم نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا کہ پھر یہاں بہت سے ورثہ ہیں، یعنی بیت المال میں۔

32235

(۳۲۲۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی الأَشْعَثِ ، عَنْ مَوْلاَہُ ، قَالَ : سَأَلْتُ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ أَسْلَمَ عَلَی یَدَیَّ وَعَاقَدَنِی فَمَاتَ ؟ قَالَ : أَنْتَ أَحَقُّ النَّاسِ بِمِیرَاثِہِ مَا لَمْ یَتْرُکْ وَارِثًا ، فَإِنْ لَمْ یَتْرُکْ وَارِثًا ، فَإِنْ أَبَیْتَ فَہَذَا بَیْتُ الْمَالِ۔
(٣٢٢٣٦) ابو الاشعث اپنے مولیٰ سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میں نے حضرت عمر سے ایک آدمی کے بارے میں سوال کیا جو میرے ہاتھ پر مسلمان ہوا تھا اور اس نے میرے ساتھ معاملہ کیا، اور پھر مرگیا ، فرمایا کہ تم اس کے مال سے مستحق ہو جب کہ اس نے کوئی وارث نہ چھوڑا ہو، اگر تم انکار کرو تو یہ بیت المال ہے۔

32236

(۳۲۲۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، قَالَ: حدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ أَبِی صَالِحٍ الأَسْلَمِیُّ، عَنْ شیخ یُکنی أَبَا مُدْرِکٍ: أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ یُقَالَ لَہُ: حَبَشِیٌّ أَتَی عَلِیًّا لِیُوَالِیَہُ، فَأَبَی أَنْ یُوَالِیَہُ وَرَدَّہ، قَالَ: فَأَتَی الْعَبَّاسَ - أَو ابْنَ الْعَبَّاسِ - فَوَالاَہُ۔
(٣٢٢٣٧) ربیع بن ابی صالح أسلمی ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں جن کی کنیت ابو مدرک تھی کہ اھل عراق میں سے ایک شخص جس کو حبشی کہا جاتا تھا حضرت علی (رض) کے پاس آیا تاکہ آپ کے ساتھ موالاۃ کرے، آپ نے اس سے موالاۃ کرنے سے انکار کردیا اور اس کو لوٹا دیا، کہتے ہیں کہ پھر وہ حضرت عباس یا حضرت ابن عباس کے پاس آیا اور ان سے موالاۃ کرلی۔

32237

(۳۲۲۳۸) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِیَاثٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَن یَقُولُ فِی رَجُلٍ أَسْلَمَ عَلَی یَدَی رَجُلٍ ، فَقَالَ : لَہُ مِیرَاثُہُ إلاَّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أُخْتٌ ، فَإِنْ کَانَتْ أُخْتٌ فَلَہَا الْمَالُ وَہِیَ أَحَقُّ بِہِ۔
(٣٢٢٣٨) عثمان بن غیاث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو ایک آدمی کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا جو ایک آدمی کے ہاتھ پر اسلام لایا تھا آپ نے فرمایا کہ اس کے لیے اس کی میراث ہے مگر یہ کہ اس کی کوئی بہن ہو، اگر ہوئی تو اسی کو مال ملے گا اور وہ اس کی زیادہ حق دار ہے۔

32238

(۳۲۲۳۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ : أَنَّ أَبَا الْہُذَیْلِ أَسْلَمَ عَلَی یَدَیْہِ رَجُلٌ ، فَمَاتَ وَتَرَکَ عَشْرَۃَ آلاَفِ دِرْہَمٍ ، فَأَتَی بِہَا أَبُو الہُذَیْلٍ زِیَادًا ، فَقَالَ زِیَادٌ : أَنْتَ أَحَقُّ بِہَا ، فَقَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہَا ، فَقَالَ زِیَادٌ : أَنْتَ وَارِثُہُ ، فَأَبَی ، فَأَخَذَہَا زِیَادٌ ، فَجَعَلَہَا فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣٢٢٣٩) ابن سیرین فرماتے ہیں کہ ابو الہذیل کے ہاتھ پر ایک آدمی مسلمان ہوا اور پھر مرگیا۔ اور دس ہزار درہم چھوڑ گیا، ابو ہذیل اس کو زیاد کے پاس لائے، زیاد نے فرمایا کہ آپ اس کے مستحق ہیں، انھوں نے فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں، زیاد نے فرمایا کہ آپ اس کے وارث ہیں ، لیکن انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا، چنانچہ زیاد نے اس کو لیا اور بیت المال میں ڈال دیا۔

32239

(۳۲۲۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ۔ وَعَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالاَ : مِیرَاثُہُ لِلْمُسْلِمِینَ ، وَعَقْلُہُ عَلَیْہِمْ۔
(٣٢٢٤٠) مطرف شعبی سے اور یونس حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا کہ اس کی میراث مسلمانوں کے لیے ہے، اور اس کا تاوان ان پر ہے۔

32240

(۳۲۲۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا دَاوُد بْنُ أَبِی عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَتْ لَنَا ظِئْرٌ وَلَہَا ابْنٌ أَسْلَمَ عَلَی أَیْدِینَا : فَمَاتَ وَتَرَکَ مَالاً فَسَأَلْت الشَّعْبِیَّ ؟ فَقَالَ : ادْفَعْہُ إلَی أُمِّہِ۔
(٣٢٢٤١) داؤد بن ابی عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہماری ایک دائی تھی جس کا ایک بیٹا ہمارے ہاتھ پر اسلام لایا تھا، وہ مرگیا اور مال چھوڑ گیا، میں نے حضرت شعبی سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس کی ماں کو دے دو ۔

32241

(۳۲۲۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لاولاَئَ إلاَّ لِذِی نِعْمَۃٍ۔
(٣٢٢٤٢) مطرف شعبی سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ولاء نہیں ہے مگر احسان کرنے والے کے لئے۔

32242

(۳۲۲۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ : فِی رَجُلٍ وَالَی رَجُلاً فَأَسْلَمَ عَلَی یَدَیْہِ ، قَالَ : لاَ یَرِثُہُ ، إلاَّ أَنَّہُ إنْ شَائَ أَوْصَی لَہُ بِمَالِہِ کُلِّہِ۔
(٣٢٢٤٣) یونس حضرت حسن سے اس آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو کسی آدمی سے موالاۃ کرے اور وہ اس کے ہاتھ پر اسلام لے آئے، فرمایا کہ وہ اس کا وارث نہیں ہوگا، مگر یہ کہ اگر وہ چاہے تو اس کے لیے پورے مال کی وصیت کرسکتا ہے۔

32243

(۳۲۲۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَصْبَہَانِیِّ ، عَنْ مُجَاہِدِ بْنِ وَرْدَانٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ : أَنَّ مَوْلًی لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَعَ مِنْ نَخْلَۃٍ فَمَاتَ وَتَرَکَ مَالاً وَلَمْ یَدَعْ وَلَدًا وَلاَ حَمِیمًا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَعْطُوا مِیرَاثَہُ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ قَرْیَتِہِ۔ (ابوداؤد ۲۸۹۴۔ ترمذی ۲۱۰۵)
(٣٢٢٤٤) عروہ بن زبیر حضرت عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک مولیٰ ایک درخت سے گر کر مرگیا اور اس نے مال چھوڑا اور کوئی اولاد یا دوست نہیں چھوڑا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کی میراث اس کے گاؤں والوں میں سے کسی کو دے دو ۔

32244

(۳۲۲۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ : أَنَّ رَجُلاً مِنْ جُرْہُمٍ تُوُفِّیَ بِالسَّرَاۃِ وَتَرَکَ مَالاً ، فَکُتِبَ فِیہِ إلَی عُمَرَ ، فَکَتَبَ عُمَرُ إلَی الشَّامِ ، فَلَمْ یَجِدُوا بَقِیَ مِنْ جُرْہُمٍ وَاحِدٌ ، فَقَسَمَ عُمَرُ مِیرَاثَہُ فِی الْقَوْمِ الَّذِینَ تُوُفِّیَ فِیہِمْ۔
(٣٢٢٤٥) محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان فرماتے ہیں کہ قبیلہ جرھم کا ایک آدمی مقام سراۃ میں فوت ہوگیا اور اس نے مال چھوڑا ، اس کے بارے میں حضرت عمر کو لکھا گیا تو حضرت عمر (رض) نے شام کی طرف خط لکھا، لیکن قبیلہ جرھم کا کوئی آدمی نہیں ملا، تو حضرت عمر نے اس کی میراث ان لوگوں میں تقسیم فرما دی جن میں وہ فوت ہوا تھا۔

32245

(۳۲۲۴۶) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَہْلٍ ، قَالَ : مَاتَ مَوْلًی عَلَی عَہْدِ عُثْمَانَ لَیْسَ لَہُ مَوْلًی ، فَأَمَرَ عُثْمَان بِمَالِہِ فَأُدْخِلَ بَیْتَ الْمَالِ۔
(٣٢٢٤٦) عبد الرحمن بن عمرو بن سہل فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان کے زمانے میں ایک شخص مراجس کا کوئی مولیٰ نہیں تھا، آپ نے اس کی میراث کو بیت المال میں داخل فرما دیا۔

32246

(۳۲۲۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ : سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ مَاتَ وَلَمْ یَتْرُکْ مَوْلًی عَتَاقَۃً وَلاَ وَارِثًا ؟ قَالَ : مَالُہُ حَیْثُ وَضَعَہُ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ أَوْصَی بِشَیْئٍ فَمَالُہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ۔
(٣٢٢٤٧) شعبی فرماتے ہیں کہ مسروق سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو مرگیا تھا اور مرتے وقت اس نے ” مولیٰ عتاقہ “ یا کوئی وارث نہیں چھوڑا ، آپ نے فرمایا کہ اس کا مال وہیں لگے گا جہاں اس نے لگایا، اگر اس نے کوئی وصیت نہیں کی تھی تو اس کا مال بیت المال میں جائے گا۔

32247

(۳۲۲۴۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَحْمَرَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَائَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ عِنْدِی مِیرَاثَ رَجُلٍ مِنَ الأَزْدِ ، وَإِنِّی لَمْ أَجِدْ أَزْدِیًّا أَدْفَعُہُ إلَیْہِ ، قَالَ : انْطَلِقْ فَالْتَمِسْ أَزْدِیًّا عَامًا - أَوْ حَوْلاً - فَادْفَعْہُ إلَیْہِ ، قَالَ : فَانْطَلَقَ ثُمَّ أَتَاہُ فِی الْعَامِ السَّابِعِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ مَا وَجَدْت أَزْدِیًّا أَدْفَعُہُ إلَیْہِ ، قَالَ : انْطَلِقْ إلَی أَوَّلِ خُزَاعِیٍّ تَجِدُہُ فَادْفَعْہُ إلَیْہِ ، قَالَ : فَلَمَّا قَفَّی قَالَ : عَلَیَّ بِہِ ، قَالَ : فَاذْہَبْ فَادْفَعْہُ إلَی أَکْبَرِ خُزَاعَۃَ۔ (ابوداؤد ۲۸۹۵۔ احمد ۳۴۷)
(٣٢٢٤٨) حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے پاس قبیلہ ازد کے ایک شخص کی میراث ہے اور مجھے کوئی ازدی نہیں ملا جس کو میں دے دوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاؤ اور کسی ازدی کو ایک سال تک تلاش کرو اور اس کو دے دو ، چنانچہ وہ ساتویں سال آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ 5! مجھے کوئی ازدی نہیں ملا جس کو دے دوں، فرمایا کہ پھر سب سے پہلے خزاعی کے پاس جاؤ جو تمہیں ملے اس کو دے دو ، کہتے ہیں کہ جب وہ شخص جانے کے لیے مڑا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس لاؤ، اور فرمایا کہ اس کو قبیلہ خزاعہ کے سب سے بڑے کو دے دو ۔

32248

(۳۲۲۴۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، عَنْ عُمَرَ : أَنَّ رَجُلاً مَاتَ وَلَمْ یَتْرُکْ عَصَبَۃً ، فَقَالَ عُمَرُ : یَرِثُہُ الَّذِی کَانَ یَغْضَبُ لِغَضَبِہِ وَجِیرَانُہُ۔
(٣٢٢٤٩) یحییٰ بن جعد ہ حضرت عمر سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی مرگیا اور اس نے عصبہ نہیں چھوڑے، حضرت عمر نے فرمایا کہ اس کا وارث وہ شخص ہوگا جس کو اس کے غصہ آنے کے وقت غصہ آتا تھا، اور اس کے پڑوسی۔

32249

(۳۲۲۵۰) حَدَّثَنَا یَزِیدٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ عَتَبَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : تُوُفِّیَ رَجُلٌ مِنَ الْحَبَشَۃِ ، فَأُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِیرَاثِہِ ، قَالَ : اُنْظُرُوا ہَلْ لَہُ وَارِثٌ ؟ فَلَمْ یَجِدُوا لَہُ وَارِثًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُنْظُرُوا مَنْ ہَاہُنَا مِنْ مُسْلِمِی الْحَبَشَۃِ فَادْفَعُوا إلَیْہِمْ مِیرَاثَہُ۔
(٣٢٢٥٠) سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ حبشہ کا ایک آدمی فوت ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کی میراث لائی گئی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دیکھو کیا اس کا کوئی وارث ہے ؟ لوگوں کو اس کا کوئی وارث نہیں ملا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دیکھو یہاں حبشہ کے مسلمانوں میں سے کون ہے ؟ اس کو اس کی میراث دے دو ۔

32250

(۳۲۲۵۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ : أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ کَتَبَ إلَی عُمَرَ فِی الرَّاہِبِ یَمُوتُ لَیْسَ لَہُ وَارِثٌ ، فَکَتَبَ إلَیْہِ : أَنْ أَعْطِ مِیرَاثَہُ الَّذِینَ کَانُوا یُؤَدُّونَ جِزْیَتَہُ۔
(٣٢٢٥١) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العاص نے حضرت عمر کو ایک راہب کے بارے میں لکھا جس کا کوئی وارث نہیں تھا، آپ نے فرمایا کہ اس کی میراث ان لوگوں کو دے دو جو اس کا جزیہ ادا کرتے تھے۔

32251

(۳۲۲۵۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ : فِی الَّذِی یَمُوتُ لَیْسَ لَہُ وَارِثٌ ، قَالَ : مِیرَاثُہُ لأَہْلِ قَرْیَتِہِ یَسْتَعِینُونَ بِہِ فِی خَرَاجِہِمْ۔
(٣٢٢٥٢) حضرت ابراہیم اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو مرجائے اور اس کا کوئی وارث نہ ہو، کہ اس کی میراث اس کی بستی والوں کے لیے ہے جس کے ذریعے وہ اپنے خراج میں مدد حاصل کریں گے۔

32252

(۳۲۲۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنْ رَجُلٍ بَایَعَ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ ، فَکَانَ لَہَا عِنْدَہُ شَیْئٌ فَنَبَذَہَا فَلَمْ یَجِدْہَا ، أَیَجْعَلُہُ فِی بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِینَ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٣٢٢٥٣) سلیمان بن مغیرہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جس نے اہل ذمہ میں سے ایک عورت سے بیعت کی تھی، اس عورت کی اس کے پاس کوئی چیز تھی، اس نے اس سے معاملہ ختم کردیا، پھر وہ عورت اس کو نہ ملی، کیا وہ آدمی اس چیز کو مسلمانوں کے بیت المال میں ڈال دے ؟ فرمایا جی ہاں !

32253

(۳۲۲۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کُنْتُ آخِرَ النَّاسِ عَہْدًا بِعُمَرَ ، فَسَمِعْتہ یَقُولُ : الْکَلاَلَۃُ مَنْ لاَ وَلَدَ لَہُ۔
(٣٢٢٥٤) طاؤس روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں حضرت عمر کے پاس لوگوں میں سب سے آخر میں موجود تھا، میں نے ان کو فرماتے ہوئے سنا کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو۔

32254

(۳۲۲۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : رَأَیْت فِی الْکَلاَلَۃِ رَأْیًا ، فَإِنْ یَکُ صَوَابًا فَمِنَ اللہِ ، وَإِنْ یَکُ خَطَأً فَمِنْ قِبَلِی وَالشَّیْطَانِ : الْکَلاَلَۃُ مَا عَدَا الْوَلَدَ وَالْوَالِدَ۔
(٣٢٢٥٥) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ میری کلالہ کے بارے میں ایک رائے ہے، اگر وہ درست ہو تو اللہ کی جانب سے ہے، اور اگر خطاء ہو تو میری اور شیطان کی جانب سے، کلالہ وہ رشتہ دار ہیں جو اولاد اور والد کے علاوہ ہوں۔

32255

(۳۲۲۵۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : قَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ : الْکَلاَلَۃُ مَنْ لاَ وَلَدَ لَہُ ، وَلاَ وَالِدَ۔
(٣٢٢٥٦) حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے مجھ سے فرمایا کہ کلالہ وہ ہے جس کی نہ اولاد ہو نہ والد۔

32256

(۳۲۲۵۷) حَدَّثَنَا الْمُقْرِیئُ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی أَیُّوبَ، قَالَ: حدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ : أَنَّہُ قَالَ : مَا أَعْضَلَ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئٌ مَا أَعْضَلَتْ بِہِمَ الْکَلاَلَۃُ۔
(٣٢٢٥٧) ابو الخیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عقبہ بن عامر نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا کسی اور چیز نے مشقت میں نہیں ڈالا جتنا ان کو کلالہ نے مشقت میں ڈالا۔

32257

(۳۲۲۵۸) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنِ الْحَکَمِ، قَالَ: سَأَلْتُہ عَنِ الْکَلاَلَۃِ، فَقَالَ: مَا دُونَ الْوَلَدِ وَالأَبِ۔
(٣٢٢٥٨) شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اولاد اور باپ کے علاوہ۔

32258

(۳۲۲۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ یَعْلَی ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ : أَنَّہُ قَرَأَ ہَذَا الْحَرْفَ : وَلَہُ أَخٌ ، أَوْ أُخْتٌ لأم۔
(٣٢٢٥٩) قاسم روایت کرتے ہیں کہ سعد بن مالک نے اس طرح قراءت کی وَلَہُ أَخٌ ، أَوْ أُخْتٌ لأم۔

32259

(۳۲۲۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَلِیمِ بْنِ عَبْدٍ السَّلُولِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الْکَلاَلَۃُ مَا خَلاَ الْوَالِدَ وَالْوَلَدَ۔
(٣٢٢٦٠) سلیم بن عبد سلولی روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ کلالہ اولاد اور والد کے علاوہ رشتہ دار ہیں۔

32260

(۳۲۲۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنِ السُّمَیْطِ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ یَقُولُ : الْکَلاَلَۃُ مَا خَلاَ الْوَلَدَ وَالْوَالِدَ۔
(٣٢٢٦١) سُمیط فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فرماتے تھے کہ کلالہ اولاد اور والد کے علاوہ رشتہ دار ہیں۔

32261

(۳۲۲۶۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سُفْیَانِ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الْکَلاَلَۃُ ہُوَ الْمَیِّتُ۔
(٣٢٢٦٢) سفیان بن حسین ایک آدمی کے واسطے سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ کلالہ میت کو کہتے ہیں۔

32262

(۳۲۲۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْوَلاَئِ ، وَعَنْ ہِبَتِہِ۔
(٣٢٢٦٣) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولاء کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔

32263

(۳۲۲۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِیّ : الْوَلاَئُ بِمَنْزِلَۃِ الْحِلْفِ ، لاَ یُبَاعُ ، وَلاَ یُوہَبُ ، أَقِرُّوہُ حَیْثُ جَعَلَہُ اللَّہُ تَعَالَی۔
(٣٢٢٦٤) مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ ولاء معاہدے کے حکم میں ہے اس کو بیچا جاسکتا ہے نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے، اس کو وہیں ٹھہراؤ جہاں اس کو اللہ نے رکھا ہے۔

32264

(۳۲۲۶۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: إنَّمَا الْوَلاَئُ کَالنَّسَبِ، أَیَبِیعُ الرَّجُلُ نَسَبَہُ؟۔
(٣٢٢٦٥) ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ولاء نسب کی طرح ہے ، کیا کوئی اپنے نسب کو فروخت کرتا ہے ؟

32265

(۳۲۲۶۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ وَحَفْصٌ وَأَبُو خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لاَ یُبَاعُ وَلاَ یُوہَبُ۔
(٣٢٢٦٦) عطاء روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ولاء کو بیچا جاسکتا ہے نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔

32266

(۳۲۲۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ أَیُّوبَ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : الْوَلاَئُ کَالرَّحِمِ لاَ یُبَاعُ ، وَلاَ یُوہَبُ۔
(٣٢٢٦٧) قتادہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ولاء رشتہ داری کی طرح ہے اس کو فروخت کیا جاسکتا ہے نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔

32267

(۳۲۲۶۸) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : الْوَلاَئُ کَالنَّسَبِ ، لاَ یُبَاعُ وَلاَ یُوہَبُ۔
(٣٢٢٦٨) سعید بن مسیب نے فرمایا کہ ولاء نسب کی طرح ہے نہ اسے بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔

32268

(۳۲۲۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، قَالَ : الْوَلاَئُ نَسَبٌ ، لاَ یُبَاعُ ، وَلاَ یُوہَبُ۔
(٣٢٢٦٩) سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ ولاء نسب کی طرح ہے نہ اسے بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔

32269

(۳۲۲۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی مِسْکِینٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لاَ یُبَاعُ ، وَلاَ یُوہَبُ۔
(٣٢٢٧٠) ابراہیم فرماتے ہیں کہ ولاء کو بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔

32270

(۳۲۲۷۱) حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ ہِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ وَابْنِ سِیرِینَ، أَنَّہُمَا قَالاَ: الْوَلاَئُ شُجْنَۃٌ کَالنَّسَبِ لاَ یُبَاعُ، وَلاَ یُوہَبُ۔
(٣٢٢٧١) حسن اور ابن سیرین فرماتے ہیں کہ ولاء نسب کی طرح ایک رشتہ داری ہے اس کو فروخت کیا جاسکتا ہے نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔

32271

(۳۲۲۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لاَ یُبَاعُ ، وَلاَ یُوہَبُ۔
(٣٢٢٧٢) عامر فرماتے ہیں کہ ولاء کو نہ بیچا جاسکتا ہے نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔

32272

(۳۲۲۷۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : الْوَلاَئُ لاَ یُبَاعُ ، وَلاَ یُوہَبُ ، وَلاَ یُتَصَدَّقُ بِہِ۔
(٣٢٢٧٣) طاؤس فرماتے ہیں کہ ولاء کو نہ بیچا جاسکتا ہے ، نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کو صدقہ کیا جاسکتا ہے۔

32273

(۳۲۲۷۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ : وَہَبَتْ مَیْمُونَۃُ وَلاَئَ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ لاِبْنِ عَبَّاسٍ۔
(٣٢٢٧٤) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت میمونہ نے سلیمان بن یسار کی ولاء حضرت ابن عباس کو ہبہ کردی تھی۔

32274

(۳۲۲۷۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ عَن رَجُلٍ أَعْتَقَ رَجُلاً فَانْطَلَقَ الْمُعْتَقُ فَوَالَی غَیْرَہُ ؟ قَالَ : لَیْسَ لَہُ ذَاکَ إلاَّ أَنْ یَہَبَہُ الْمُعْتِقُ۔
(٣٢٢٧٥) منصور فرماتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جس نے ایک آدمی کو آزاد کیا، پھر آزاد شدہ شخص گیا اور دوسرے آدمی کو اپنا ولی بنا لیا، فرمایا کہ یہ اس کے لیے جائز نہیں مگر یہ کہ آزاد کرنے والا اس کو ہبہ کر دے۔

32275

(۳۲۲۷۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ : أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ مُحَارِبٍ وَہَبَتْ وَلاَئَ عَبْدِہَا لِنَفْسِہِ وَأَعْتَقَتْہُ وَأَعْتَقَ نَفْسَہُ ، قَالَ : فَوَہَبَ نَفْسَہُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، قَالَ : وَمَاتَتْ ، فَخَاصَمَ الْمَوَالِی إلَی عُثْمَانَ ، قَالَ : فَدَعَا عُثْمَان بِالْبَیِّنَۃِ عَلَی مَا قَالَ : قَالَ : فَأَتَاہُ بِالْبَیِّنَۃِ ، فَقَالَ عُثْمَان : اذْہَبْ فَوَالِ مَنْ شِئْت۔ أَبُو بَکْرٍ : فَوَالَی عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ۔
(٣٢٢٧٦) ابوبکر بن عمرو بن حزم فرماتے ہیں کہ قبیلہ محارب کی ایک عورت نے اپنے غلام کی ولاء ان کو ہبہ کردی تھی اور اس کو آزاد کردیا اور ان کو بھی آزاد کردیا، کہتے ہیں کہ پھر انھوں نے اپنی ولاء عبد الرحمن بن عمرو بن حزم کو ہبہ کردی، اور وہ عورت مرگئی تو موالی نے حضرت عثمان کے سامنے قضیہ پیش کیا تو حضرت عثمان نے اس پر بینہ طلب کیا، وہ بینہ لائے ، تو حضرت عثمان نے فرمایا کہ جاؤ اور جس سے چاہو ولاء کرو، ابوبکر فرماتے ہیں کہ انھوں نے عبد الرحمن بن عمرو بن حزم سے موالاۃ کرلی۔

32276

(۳۲۲۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَنْصُورٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ وَالشُّعَبِیِّ ، أَنَّہُمَا قَالاَ : لاَ بَأْسَ بِبَیْعِ ، وَلاَئِ السَّائِبَۃِ وَہِبَتِہِ۔
(٣٢٢٧٧) منصور روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اور شعبی نے فرمایا کہ سائبہ کی ولاء بیچنے اور ہبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، (” سائبہ “ جس کو اللہ کے نام پر آزاد کیا گیا ہو، مترجم)

32277

(۳۲۲۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ : أَنَّ امْرَأَۃً وَہَبَتْ وَلاَئَ مَوَالِیہَا لِزَوْجِہَا ، فَقَالَ : ہِشَامُ بْنُ ہُبَیْرَۃَ : أَمَّا أَنَا فَأَرَاہُ لِزَوْجِہَا مَا عَاشَ ، فَإِذَا مَاتَ رَدَدْتہ إلَی وَرَثَۃِ الْمَرْأَۃِ۔
(٣٢٢٧٨) قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے موالی کی ولاء اپنے شوہر کو ہبہ کردی تو ہشام بن ہبیرہ نے کہا کہ میری رائے میں وہ اس کے شوہر کے لیے ہے جب تک وہ زندہ رہے، جب وہ مرجائے گا تو میں اس کو عورت کے ورثہ کی طرف لوٹاؤں گا۔

32278

(۳۲۲۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ إذَا أَذِنَ الْمَوْلَی أَنْ یُوَالِیَ غَیْرَہُ۔
(٣٢٢٧٩) ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی دوسرے شخص سے موالاۃ کرے جبکہ مولیٰ نے اجازت دے دی ہو۔

32279

(۳۲۲۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ - وَجَدْتہ فِی مَکَان آخَرَ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ - : أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِبَیْعِ الْوَلاَئِ إذَا کَانَ مِنْ مُکَاتَبَۃٍ ، وَیَکْرَہُہُ إذَا کَانَ عِتْقًا۔
(٣٢٢٨٠) سعید قتادہ سے روایت کرتے ہیں اور ایک مقام پر میں نے یہ روایت سعید بن مسیب سے پائی ہے کہ وہ ولاء کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے جب کہ وہ اس کے مکاتب کی ہو ۔ اور اس کو اس صورت میں ناپسند سمجھتے تھے جبکہ وہ آزادی کی صورت میں ہو۔

32280

(۳۲۲۸۱) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ عَن بَیْعِ الْوَلاَئِ ؟ فَقَالَ : ہُوَ مُحْدَثٌ۔
(٣٢٢٨١) منصور فرماتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے ولاء کو بیچنے کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا کہ یہ بدعت ہے۔

32281

(۳۲۲۸۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ تَرِثُ النِّسَائُ مِنَ الْوَلاَئِ إلاَّ مَا أَعْتَقْنَ۔
(٣٢٢٨٢) ابراہیم ایک دوسری سند سے فرماتے ہیں عورتیں ولاء کی وارث نہیں ہوتیں مگر جن کو وہ آزاد کریں۔

32282

(۳۲۲۸۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، سَمِعْت عَامِرًا یَقُولُ ، فِی امْرَأَۃٍ تُوُفِّیَتْ وَلَہَا ثَلاَثَۃُ بَنِینَ ذُکُورٍ ، وَابْنَتَانِ ، إحْدَاہُمَا غَائِبَۃٌ بِالشَّامِ ، وَالأُخْرَی عِنْدَہَا ، فَزَعَمَتْ أَنَّ لَہَا عِنْدَ ابْنَتِہَا الَّتِی بِالشَّامِ مَالاً ، وَأَنَّہَا قَالَتْ لِبَنِیہَا : أُحِبُّ أَنْ تَطْلُبُوا لَہَا الْمَالَ الَّذِی عِنْدَہَا بِمَا یُصِیبُہَا مِنْ مِیرَاثِی ، فَقَالُوا : نَعَمْ ، قَالَتْ : وَأُحِبُّ أَنْ تَجْعَلُوا مَا یُصِیبُہَا مِنْ مِیرَاثِی لأُخْتِہَا ، فَیصِیبُہَا کَماَ یُصِیب رَجُلٍ مِنْکُمْ ، فَقَالُوا : نَعَمْ ، ثُمَّ إنَّ ابْنَتَہَا جَائَتْ بَعْدَ مَا اقْتَسَمُوا الْمِیرَاثَ فَطَلَبَتْ مَا یُصِیبُہَا مِنْ مِیرَاثِہَا ، قَالَتْ : لَمْ یَکُنْ لَہَا عِنْدِی مَالٌ إبْرَاہِیمُ ؟ فَقَالَ : یُؤْخَذُ مِنْ کُلِّ إنْسَانٍ مِنْہُمْ بِالسَّوِیَّۃِ فَیُرَدُّ عَلَیْہَا ، وَقَالَ عَامِرٌ : یُؤْخَذُ أَحَدُ السَّہْمَیْنِ اللَّذَیْنِ أَصَابَتِ الْجَارِیَۃُ ، فَیُرَدُّ عَلَی أُخْتِہَا ، فَیُصِیبُ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا سَہْمٌ ، وَلِکُلِّ رَجُلٍ سَہْمَانِ۔
(٣٢٢٨٣) زکریا فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عامر کو اس عورت کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا جو فوت ہوئی تو اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، اور ایک شام میں غائب تھی اور دوسری اس کے پاس تھی، اس کا گمان تھا کہ اس کے پاس اس شام میں غائب ہونے والی بیٹی کے لیے مال ہے، اور اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ تم اس کے لیے مال تلاش کرو جو اس کے پاس ہے، اس کے عوض جو اس کو میراث میں ملے گا، انھوں نے کہا جی ہاں ! اور اس نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ اس کی میراث اس کی بہن کو دے دوں، اس طرح اس کو اتنا مال مل جائے جتنا ایک مرد کو ملتا ہے، انھوں نے کہا ٹھیک ہے ، پھر اس کی بیٹی میراث کی تقسیم کے بعد آئی، اور اس نے اپنے حصّے کی میراث کا مطالبہ کیا، اس نے کہا کہ اس کے لیے میرے پاس مال نہیں، تو ابراہیم نے فرمایا کہ ہر شخص سے برابر حصّہ لے کر اس کو دیا جائے گا، اور حضرت عامر نے فرمایا کہ دو حصّے جو لڑکی نے لیے ان میں سے ایک حصّہ لیا جائے گا اور اس کی بہن کو واپس دیا جائے گا، اس طرح ہر ایک کو ایک ایک حصّہ اور ہر مرد کو دو حصّے ملیں گے۔

32283

(۳۲۲۸۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَدْہَمَ السَّدُوسِیِّ ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِہِ : أَنَّ امْرَأَۃً مَاتَتْ وَہِیَ مُسْلِمَۃٌ وَتَرَکَتْ أُمًّا لَہَا نَصْرَانِیَّۃً ، فَأَسْلَمَتْ أُمُّہَا قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ مِیرَاثُ ابْنَتِہَا ، فَأَتَوْا عَلِیًّا فَذَکَرُوا ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ : لاَ مِیرَاثَ لَہَا ، ثُمَّ قَالَ : کَمْ تَرَکَتْ فَأَخْبَرُوہُ ، فَقَالَ : انیلُوہَا مِنْہُ بِشَیْئٍ۔
(٣٢٢٨٤) أدھم سدوسی اپنی قوم کے چند آدمیوں سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت مرگئی اور وہ مسلمان تھی اور اس نے اپنی نصرانیہ ماں چھوڑی، پھر اس کی ماں بیٹی کی میراث تقسیم ہونے سے پہلے اسلام لے آئی تو ورثاء حضرت علی (رض) کے پاس آئے، آپ نے فرمایا اس کے لیے کوئی میراث نہیں، پھر آپ نے فرمایا اس نے کتنا مال چھوڑا ہے ؟ انھوں نے بتایا تو آپ نے فرمایا کہ اس کو اس میں سے کچھ دے دو ۔

32284

(۳۲۲۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : إذَا مَاتَ الْمَیِّتُ یُرَدُّ الْمِیرَاثُ لأَہْلِہِ۔
(٣٢٢٨٥) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ جب میت مرجائے تو اس کی میراث اس کے گھر والوں کو دے دی جائے۔

32285

(۳۲۲۸۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنِ ابْنِ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَنْ أُعْتِقَ عِنْدَ الْمَوْتِ ، أَوْ أَسْلَمَ عِنْدَ الْمَوْتِ فَلاَ حَقَّ لِوَاحِدٍ مِنْہُمْ ، لأَنَّ الْحُقُوقَ وَجَبَتْ عِنْدَ الْمَوْتِ۔
(٣٢٢٨٦) ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو موت کے وقت آزاد کردیا جائے یا موت کے وقت اسلام لے آئے تو ان میں سے کسی کو کوئی حق نہیں ، کیونکہ حقوق موت کے وقت واجب ہوتے ہیں۔

32286

(۳۲۲۸۷) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ شَیْخًا یَتَوَکَّأُ عَلَی عَصَی ، فَقِیلَ : ہَذَا وَارِثُ صَفِیَّۃَ أَسْلَمَ عَلَی مِیرَاثٍ ، فَلَمْ یُوَرَّثْ۔
(٣٢٢٨٧) حصین فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شیخ کو دیکھا جو لاٹھی کا سہارا لیے ہوئے تھے، لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت صفیہ کا وارث ہے، ان کی میراث کے وقت اسلام لایا تو اس کو میراث نہیں دی گئی۔

32287

(۳۲۲۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَۃَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَکَمَ وَحَمَّادًا عَنْ رَجُلٍ أَسْلَمَ عَلَی مِیرَاثٍ؟ فَقَالاَ: لاَ یَرِثُ۔
(٣٢٢٨٨) شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حماد سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا جو میراث کی تقسیم کے وقت اسلام لایا، انھوں نے فرمایا کہ وہ وارث نہیں ہوگا۔

32288

(۳۲۲۸۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ : فِی الْعَبْدِ یُعْتِقُ عَلَی الْمِیرَاثِ : أَنَّہُ لَیْسَ لَہُ شَیْئٌ۔
(٣٢٢٨٩) زہری اس غلام کے بارے میں فرماتے ہیں جو میراث کے وقت آزاد کردیا جائے ، کہ اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔

32289

(۳۲۲۹۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ یَزِیدِ بْنِ قَتَادَۃَ : أَنَّ أَبَاہُ تُوُفِّیَ وَہُوَ نَصْرَانِیٌّ ، وَیَزِیدٌ مُسْلِمٌ وَلَہُ إخْوَۃٌ نَصَارَی ، فَلَمْ یُوَرِّثْہُ عُمَرُ مِنْہُ ، ثُمَّ تُوُفِّیَتْ أُمُّ یَزِیدَ وَہِیَ مُسْلِمَۃٌ ، فَأَسْلَمَ إخْوَتُہُ بَعْدَ مَوْتِہَا ، فَطَلَبُوا الْمِیرَاثَ فَارْتَفَعُوا إلَی عُثْمَانَ فَسَأَلَ عَنْ ذَلِکَ ، فَوَرَّثَہُمْ۔
(٣٢٢٩٠) یزید بن قتادہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد فوت ہوئے جو کہ نصرانی تھے اور یزید مسلمان تھے اور ان کے نصرانی بھائی بھی تھے، تو حضرت عمر نے ان کو ان کا وارث نہیں بنایا ، پھر یزید کی والدہ فوت ہوگئیں جو مسلمان تھیں اور ان کی موت کے بعد ان کے بھائی اسلام لے آئے اور انھوں نے میراث کا مطالبہ کیا، اور فیصلہ حضرت عثمان کے پاس لے گئے، انھوں نے اس بارے میں پوچھا پھر ان کو وارث بنادیا۔

32290

(۳۲۲۹۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : النَّصْرَانِیُّ إذَا مَاتَ لَہُ الْمَیِّتُ فَقُسِمَ مِیرَاثُہُ وَبَقِیَ بَعْضُہُ ، ثُمَّ أَسْلَمَ فَقَدْ أَدْرَکَ۔
(٣٢٢٩١) عکرمہ فرماتے ہیں کہ جب نصرانی کا کوئی رشتہ دار مرجائے اور اس کی میراث تقسیم کرنے کے بعد کچھ بچ جائے پھر وہ اسلام لائے تو اس نے پا لیا۔

32291

(۳۲۲۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : مَنْ أَسْلَمَ عَلَی مِیرَاثٍ ، قَالَ : یَرِثُ مَا لَمْ یُقْسَمْ ، وَفِی الْعَبْدِ یُعْتَقُ عَلَی مِیرَاثٍ ، قَالَ : یَرِثُ مَا لَمْ یُقْسَمْ۔
(٣٢٢٩٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جو میراث کی تقسیم کے وقت اسلام لائے وہ وارث ہوگا جب تک میراث تقسیم نہ ہوجائے اور غلام کی صورت میں جو میراث کے وقت آزاد کردیا جائے، فرمایا کہ وہ وارث ہوگا جب تک میراث تقسیم نہ ہو۔

32292

(۳۲۲۹۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عَلِیٌّ : مَنْ أَسْلَمَ عَلَی مِیرَاثِہِ فَہُوَ لَہُ۔
(٣٢٢٩٣) حسن فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا کہ جو میراث کے وقت اسلام لائے وہ اس کا حق دار ہے۔

32293

(۳۲۲۹۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، قَالَ : أَخَذْت ہَذِہِ الْفَرَائِضَ مِنْ فِرَاسٍ زَعَمَ أَنَّہُ کَتَبَہَا لَہُ الشَّعْبِیُّ : ۱۔ قَضَی زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَابْنُ مَسْعُودٍ : أَنَّ الأُخْوَۃَ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ شُرَکَائُ الإِخْوَۃِ مِنَ الأُمِّ فِی بَنِیہِمْ : ذَکَرِہِمْ وَأُنْثَاہُمْ ، وَقَضَی عَلِیٌّ : أَنَّ لِبَنِی الأُمِّ دُونَ بَنِی الأَبِ وَالأُمِ۔ ۲۔ وَقَضَی عَلِیٌّ وَزَیْدٌ : أَنَّہُ لاَ تَرِثُ جَدَّۃٌ أُمُّ أَبٍ مَعَ ابْنِہَا ، وَوَرَّثَہَا عَبْدُ اللہِ مَعَ ابْنِہَا السُّدُسَ۔ ۳۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتْ أُمَّہَا وَإِخْوَتَہَا کُفَّارًا وَمَمْلُوکِینَ ، قَضَی عَلِیٌّ وَزَیْدٌ : لأُمِّہَا الثُّلُثَ وَلِعَصَبَتِہَا الثُّلُثَیْنِ کَانَا لاَ یُوَرِّثَانِ کَافِرًا وَلاَ مَمْلُوکًا مِنْ مُسْلِمٍ حُرٍّ ، وَلاَ یَحْجُبَانِ بِہِ ، وَکَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ یَحْجُبُ بِہِمْ وَلاَ یُوَرِّثُہُمْ ، فَقَضَی : لِلأُمِّ السُّدُسَ وَلِلْعَصَبَۃِ مَا بَقِی۔ ۴۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتْ زَوْجَہَا وَإِخْوَتِہَا لأُمِّہَا ، وَلَہَا ابْنٌ مَمْلُوک : قَضَی عَلِیٌّ وَزَیْدٌ : لِزَوْجِہَا النِّصْف ، وَلإِخْوَتِہَا الثُّلُث ، وَلِلْعَصَبَۃِ مَا بَقِیَ ، وَقَضَی عَبْدُ اللہِ : لِلزَّوْجِ الرُّبُعَ ، وَمَا بَقِیَ فَہُوَ لِلْعَصَبَۃِ۔ ۵۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتْ أُمَّہَا وَإِخْوَتَہَا کُفَّارًا وَمَمْلُوکِینَ : قَضَی عَلِیٌّ وَزَیْدٌ : لأُمِّہَا الثُّلُثَ ، وَلِلْعَصَبَۃِ مَا بَقِی ، وَقَضَی عَبْدُ اللہِ : لأُمِّہَا السُّدُسَ وَلِلْعَصَبَۃِ مَا بَقِیَ۔ ۶۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتْ زَوْجَہَا وَإِخْوَتَہَا لأُمِّہَا ، وَلاَ عَصَبَۃَ لَہَا ، قَضَی زَیْدٌ : لِلزَّوْجِ النِّصْفَ وَلِلإِخْوَۃِ الثُّلُثَ ، وَقَضَی عَلِیٌّ وَعَبْدُ اللہِ : أَنْ یُرَدَّ مَا بَقِیَ عَلَی الإِخْوَۃِ مِنَ الأُمِّ ، لأَنَّہُمَا کَانَا لاَ یَرُدَّانِ مِنْ فُضُولِ الْفَرَائِضِ عَلَی الزَّوْجِ شَیْئًا وَیَرُدَّانِہَا عَلَی أَدْنَی رَحِمٍ یُعْلَمُ۔ ۷۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتْ أُمَّہَا قَضَوْا جَمِیعًا لِلأُمِّ الثُّلُثَ ، وَقَضَی عَلِیٌّ وَابْنُ مَسْعُودٍ : بِرَدِّ مَا بَقِیَ عَلَی الأُمِّ۔ ۸۔ رَجُلٌ تَرَکَ أُخْتَہُ لأَبِیہِ وَأُمَّہُ ، وَأُمِّہ ، قَضَوْا جَمِیعًا : لأُخْتِہِ لأَبِیہِ وَأُمِّہِ النِّصْفَ، وَلأُمِّہِ الثُّلُثَ ، وَقَضَی عَلِیٌّ وَعَبْدُ اللہِ : أَنْ یُرَدَّ مَا بَقِیَ - وَہُوَ سَہْمٌ - ، عَلَیْہِما عَلَی قَدْرِ مَا وِرْثًا ، فَیَکُونُ لِلأُخْتِ ثَلاَثَۃُ أَخْمَاسٍ وَیَکُونُ لِلأُمِّ خُمُسَا الْمَالِ۔ ۹۔ رَجُلٌ تَرَکَ أُخْتَہُ لأَبِیہِ وَجَدَّتَہُ وَامْرَأَتَہُ ، قَضَوْا جَمِیعًا لأُخْتِہِ النِّصْفَ وَلاِمْرَأَتِہِ الرُّبُعَ ، وَلِجَدَّتِہِ سَہْمٌ ، وَرَدَّ عَلِیٌّ مَا بَقِیَ عَلَی أُخْتِہِ وَجَدَّتِہِ عَلَی قِسْمَۃِ فَرِیضَتِہِمْ ، وَأَمَّا عَبْدُ اللہِ فَرَدَّہُ عَلَی الأُخْتِ لأَنَّہُ کَانَ لاَ یَرُدُّ عَلَی جَدَّۃٍ ، إلاَّ أَنْ لاَ یَکُونَ وَارِثًا غَیْرَہَا۔ ۱۰۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتْ أُمَّہَا وَأُخْتَہَا لأُمِّہَا قَضَوْا جَمِیعًا : لأُمِّہَا الثُّلُثَ وَلأُخْتِہَا السُّدُسَ ، وَرَدَّ عَلِیٌّ مَا بَقِیَ عَلَیْہَا عَلَی قِسْمَۃِ فَرِیضَتِہِمْ فَیَکُونُ لِلأُمِّ الثُّلُثَانِ ، وَلِلأُخْتِ الثُّلُثُ وَقَضَی عَبْدُ اللہِ : أَنَّ مَا بَقِیَ یُرَدُّ عَلَی الأُمِّ ، لأَنَّہُ کَانَ لاَ یَرُدُّ عَلَی إخْوَۃٍ لأُمٍّ مَعَ أُمٍّ ، فَیَصِیرُ لِلأُمِّ خَمْسَۃُ أَسْدَاسٍ ، وَلِلأُخْتِ سُدُسٌ۔ ۱۱۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتْ أُخْتَہَا لأَبِیہَا وَأُمَّہَا ، وَأُخْتَہَا لأَبِیہَا قَضَوْا جَمِیعًا ، لأُخْتِہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا النِّصْفَ ، وَلأُخْتِہَا لأَبِیہَا السُّدُسَ ، وَرَد مَا بَقِیَ عَلَیْہِمَا عَلَی قِسْمَۃِ فَرِیضَتِہِمْ ، فَیَکُونُ لِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ ثَلاَثَۃُ أَرْبَاعٍ ، وَلِلأُخْتِ لِلأَبِ رُبُعٌ ، وَرَدَّ عَبْدُ اللہِ مَا بَقِیَ عَلَی الأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ فَیَصِیرُ لَہَا خَمْسَۃُ أَسْدَاسِ الْمَالِ ، وَلِلأُخْتِ لِلأَبِ سُدُسُ الْمَالِ ، کَانَ لاَ یَرُدُّ عَلَی أُخْتٍ لأَبٍ مَعَ أُخْتٍ لأَمٍّ وأَبٍ۔ ۱۲۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتْ إخْوَتَہَا لأَبِیہَا وَأُمِّہَا ، وَأُمَّہَا ، قَضَوْا جَمِیعًا : لأُمِّہَا السُّدُسَ وَلإِخْوَتِہَا الثُّلُثَ ، وَرَدَّ مَا بَقِیَ عَلَیْہِمْ عَلَی قِسْمَۃِ فَرِیضَتِہِمْ ، فَیَکُونُ لِلأُمِّ الثُّلُثُ وَلِلإِخْوَۃِ الثُّلُثَانِ ، وَأَمَّا عَبْدُ اللہِ فَإِنَّہُ رَدَّ مَا بَقِیَ عَلَی الأُمِ ، فَیَکُونُ لِلأُمِّ الثُّلُثَانِ وَلِلإِخْوَۃِ الثُّلُثُ۔ ۱۳۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتِ ابْنَتَہَا وَابْنَۃَ ابْنِہَا قَضَوْا جَمِیعًا : لاِبْنَتِہَا النِّصْفَ ، وَلاِبْنَۃِ ابْنِہَا السُّدُسَ ، وَرَدَّ عَلِیٌّ مَا بَقِیَ عَلَیْہِمَا عَلَی قِسْمَۃِ فَرِیضَتِہِمْ ، وَرَدَّ عَبْدُ اللہِ مَا بَقِیَ عَلَی الاِبْنَۃِ خَاصَّۃً۔ ۱۴۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتِ ابْنَتَہَا وَجَدَّتَہَا قَضَوْا جَمِیعًا لِلاِبْنَۃِ النِّصْفَ ، وَلِلْجَدَّۃِ السُّدُسَ ، وَرَدَّ عَلِیٌّ مَا بَقِیَ عَلَیْہِمَا عَلَی قِسْمَۃِ فَرِیضَتِہِمْ ، وَرَدَّ عَبْدُ اللہِ مَا بَقِیَ عَلَی الاِبْنَۃِ خَاصَّۃً ۱۵۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتِ ابْنَتَہَا وَابْنَۃَ ابْنِہَا وَأُمَّہَا قَضَوْا جَمِیعًا : أَنَّ لاِبْنَتِہَا النِّصْفَ وَلاِبْنَۃِ ابْنِہَا السُّدُسَ وَلأُمِّہَا السُّدُسَ ، وَرَدَّ مَا بَقِیَ عَلَیْہِمْ عَلَی قِسْمَۃِ فَرِیضَتِہِمْ ، وَرَدَّ عَبْدُ اللہِ مَا بَقِیَ عَلَی الاِبْنَۃِ وَالأُمِ ، وَأَمَّا زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَإِنَّہُ جَعَلَ الْفَضْلَ مِنْ ذَلِکَ کُلِّہِ فِی بَیْتِ الْمَالِ ، لاَ یَرُدُّ عَلَی وَارِثٍ شَیْئًا ، وَلاَ یَزِیدُ أَبَدًا عَلَی فَرَائِضِ اللہِ شَیْئًا۔ ۱۶۔ امْرَأَۃٌ تَرَکَتْ إخْوَتَہَا مِنْ أُمِّہَا رِجَالاً وَنِسَائً وَہُمْ عَصَبَتُہَا : یَقْتَسِمُونَ الثُّلُثَ بَیْنَہُمْ بِالسَّوِیَّۃِ ، وَالثُّلُثَانِ لِذُکُورِہِمْ دُونَ النِّسَائِ۔
(٣٢٢٩٤) زکریا بن ابی زائدہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ فرائض فراس سے حاصل کیے ، اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ ان کو شعبی نے لکھ کردیے ہیں :
١- حضرت زید بن ثابت اور ابن مسعود (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ حقیقی بھائی ماں شریک بھائیوں کے ساتھ مذکر اور مونث اولاد کے مال میں شریک ہیں، اور حضرت علی (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ماں شریک بھائیوں کے لیے مال ہے حقیقی بھائیوں کے لیے نہیں ہے۔
٢- اور حضرت علی اور زید (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دادی اپنے بیٹے کے ہوتے ہوئے وارث نہیں ہوتی اور حضرت عبداللہ نے اس کو اس کے بیٹے کے ہوتے ہوئے مال کے چھٹے حصّے کا وارث بنایا۔
٣- ایک عورت نے اپنی ماں اور بھائیوں کو کفر اور غلامی کی حالت میں چھوڑا، اس کے بارے میں حضرت علی (رض) اور زید (رض) نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کی ماں کے لیے تہائی مال اور عصبہ کے لیے دو تہائی مال ہے، اور دونوں حضرات کافر اور غلام کو آزاد مسلمان سے وارث نہیں بناتے تھے، اور اس سے محروم بھی نہیں کرتے تھے، اور حضرت ابن مسعود (رض) ان کے ذریعے محروم تو کرتے، لیکن ان کو وارث نہیں بناتے تھے، انھوں نے ماں کے لیے چھٹے حصّے کا فیصلہ فرمایا اور عصبہ کے لیے بقیہ مال کا۔
٤- ایک عورت نے اپنے شوہر اور ماں شریک بھائیوں کو چھوڑا اور اس کا ایک بیٹا غلام تھا ، حضرت علی (رض) اور زید (رض) نے اس کے شوہر کے لیے نصف بھائیوں کے لیے تہائی اور عصبہ کے لیے بقیہ کا فیصلہ فرمایا اور حضرت عبداللہ نے شوہر کے لیے چوتھائی اور عصبہ کے لیے بقیہ مال کا فیصلہ فرمایا۔
٥- ایک عورت نے اپنی ماں اور بھائیوں کو کفر اور غلامی کی حالت میں چھوڑا ، حضرت علی (رض) اور زید (رض) نے اس کی ماں کے لیے ایک تہائی اور عصبہ کے لیے بقیہ مال کا فیصلہ فرمایا، اور حضرت عبداللہ نے اس کی ماں کے لیے مال کے چھٹے حصّے اور عصبہ کے لیے بقیہ مال کا فیصلہ فرمایا۔
٦- ایک عورت نے اپنے شوہر اور ماں شریک بھائیوں کو چھوڑا اور اس کا کوئی عصبہ نہیں تھا، حضرت زید نے شوہر کے لیے نصف اور بھائیوں کے لیے ایک تہائی کا فیصلہ فرمایا، اور حضرت علی اور عبداللہ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ بقیہ مال دوبارہ ماں شریک بھائیوں پر لوٹا دیا جائے، کیونکہ وہ فرائض میں سے بچے ہوئے مال میں سے شوہر پر کچھ نہیں لوٹاتے تھے، اور اس کو قریبی رشتہ داروں پر لوٹاتے تھے جو معلوم ہو۔
٧- ایک عورت نے اپنی ماں کو چھوڑا، تمام حضرات نے ماں کے لیے ایک تہائی مال کا فیصلہ فرمایا، اور حضرت علی اور ابن مسعود نے بقیہ مال کو ماں پر لوٹانے کا فیصلہ فرمایا۔
٨- ایک آدمی نے اپنی حقیقی بہن اور ماں کو چھوڑا، تمام حضرات نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کی حقیقی بہن کے لیے نصف اور ماں کے لیے ایک تہائی مال ہے، اور حضرت علی اور عبداللہ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ بقیہ مال جو ایک حصّہ ہے ان دونوں پر ان کے حصّے کے مطابق لوٹا دیا جائے، اس طرح بہن کے لیے تین پانچویں حصّے ( ٥/٣) اور ماں کے لیے دو پانچویں حصّے (٥/٢) ہوں گے۔
٩- ایک آدمی نے اپنی باپ شریک بہن اور دادی اور بیوی کو چھوڑا، ان سب حضرات نے بہن کے لیے نصف اور بیوی کے لیے ایک چوتھائی مال اور دادی کے لیے ایک حصّے کا فیصلہ فرمایا، اور حضرت علی نے بقیہ مال اس کی بہن اور دادی پر ان کے حصّے کے مطابق لوٹا دیا، اور حضرت عبداللہ نے مال بہن پر لوٹا دیا کیونکہ وہ دادی پر مال لوٹانے کے قائل نہیں تھے، الّا یہ کہ اس کے علاوہ کوئی وارث نہ ہو۔
١٠- ایک عورت نے اپنی ماں اور ماں شریک بہن کو چھوڑا ، سب نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کی ماں کے لیے ایک تہائی مال اور اس کی بہن کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہے ، اور حضرت علی نے بقیہ مال کا دونوں پر ان کے حصّے کے مطابق لوٹانے کا فیصلہ فرمایا، پس ماں کے لیے دو تہائی مال اور بہن کے لیے ایک تہائی مال ہے، اور حضرت عبداللہ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ بقیہ مال ماں پر لوٹایا جائے گا، کیونکہ وہ ماں کے ہوتے ہوئے ماں شریک بہن پر مال کو نہیں لوٹاتے تھے، اس طرح ماں کے لیے پانچ چھٹے حصّے اور بہن کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہوگا۔
١١- ایک عورت نے اپنی ایک حقیقی بہن اور ایک باپ شریک بہن کو چھوڑا تو سب حضرات نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی حقیقی بہن کے لیے نصف مال اور باپ شریک بہن کے لیے مال کا چھٹا حصّہ اور بقیہ مال ان دونوں پر ان کے حصّے کے مطابق لوٹایا جائے گا، اس طرح حقیقی بہن کے لیے تین چوتھائی اور باپ شریک بہن کے لیے ایک چوتھائی ہوگا، اور حضرت عبداللہ نے بقیہ مال کو حقیقی بہن پر لوٹایا، اس طرح اس کے لیے مال کے پانچ چھٹے حصّے ہوں گے، اور باپ شریک بہن کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہوگا، اور آپ حقیقی بہن کے ہوتے ہوئے باپ شریک بہن پر مال نہیں لوٹاتے تھے۔
١٢- ایک عورت نے اپنی حقیقی بہن اور ماں کو چھوڑا، سب نے اس کی ماں کے لیے چھٹے حصّے اور بھائیوں کے لیے ایک تہائی کا فیصلہ فرمایا ، اور بقیہ مال ان پر ان کے حصّے کے مطابق لوٹایا اور حضرت عبداللہ نے بقیہ مال صرف بیٹی پر لوٹایا۔
١٣- ایک عورت نے اپنی بیٹی اور پوتی کو چھوڑا، سب نے اس کی بیٹی کے لیے نصف اور پوتی کے لیے مال کے چھٹے حصے کا فیصلہ فرمایا اور حضرت علی نے بقیہ مال ان پر ان کے حصّے کے مطابق لوٹایا، اور حضرت عبداللہ نے بقیہ مال صرف بیٹی پر لوٹا دیا۔
١٤- ایک عورت نے اپنی بیٹی اور دادی کو چھوڑا ، سب نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی بیٹی کے لیے نصف اور دادی کے لیے مال کا چھٹا حصّہ ہے۔ اور حضرت علی نے بقیہ مال ان کے حصّے کے مطابق لوٹایا، اور حضرت عبداللہ نے بقیہ مال صرف بیٹی پر لوٹایا۔
١٥- ایک عورت نے اپنی بیٹی اور پوتی اور ماں کو چھوڑا، سب نے فیصلہ کیا کہ اس کی بیٹی کے لیے نصف اور پوتی کے لیے مال کا چھٹا حصّہ اور ماں کے لیے چھٹا حصّہ ہے، اور بقیہ مال ان پر ان کے حصّے کے مطابق لوٹایا، اور حضرت عبداللہ نے بقیہ مال بیٹی اور ماں پر لوٹایا اور حضرت زید بن ثابت نے اس سے فاضل مال کو بیت المال میں ڈال دیا، کہ وارث پر کچھ نہیں لوٹایا، اور اللہ کے فرائض پر کبھی کچھ اضافہ نہیں کرتے تھے۔
١٦- ایک عورت نے اپنے ماں شریک بھائیوں کو چھوڑا جو اس کے عصبہ تھے، وہ ایک تہائی کو اپنے درمیان برابر تقسیم کرلیں، اور دو تہائی ان کے مردوں کے لیے نہ کہ عورتوں کے لئے۔

32294

(۳۲۲۹۵) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ أَوْصَی بِعِتْقٍ وَصَدَقَۃٍ وَفِی سَبِیلِ اللہِ ؟ فَقَالَ شُرَیْحٌ : یُعْطَی کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہَا بِحِصَّتِہِ۔
(٣٢٢٩٥) زکریا روایت کرتے ہیں کہ حضرت عامر سے ایک آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے آزاد کرنے اور صدقہ کرنے اور اللہ کے راستے میں دینے کی وصیت کی تھی، حضرت شریح نے فرمایا کہ ہر جگہ اس کے حصّے کے مطابق دیا جائے گا۔
تم کتاب الفرائض والحمد للہ کما ہو أہلہ

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔