HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

28. کتاب الرد علی ابی حنیفۃ (یہ کتاب امام ابو حنیفہ کی تردید میں ہے)

الطحاوي

6414

۶۴۱۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْحَضْرَمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، ح .
٦٤١٢: خالد بن عبدالرحمن نے حماد بن سلمہ سے روایت نقل کی ہے۔
اہل مدینہ میں سے بعض لوگوں نے مونچھوں کے کاٹنے کو مونڈنے پر ترجیح دی ہے۔
فریق ثانی نے مونڈنے کو کاٹنے سے افضل قرار دیا اور ترجیح دی ہے۔

6415

۶۴۱۳: وَحَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ ثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْفِطْرَۃُ عَشَرَۃٌ فَذَکَرَ قَصَّ الشَّارِبِ .
٦٤١٣: سلمہ بن محمد نے عمار بن یاسر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ دس چیزیں فطرت سے ہیں پھر ان میں مونچھیں کاٹنا بھی ذکر فرمایا ہے۔
تخریج : مسلم فی الطہارۃ ٥٦‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٢٩‘ ترمذی فی الادب باب ١٤‘ نسائی فی الزینہ باب ١‘ ابن ماجہ فی الطہارہ باب ٨‘ مسند احمد ٦؍١٣٧۔

6416

۶۴۱۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَیْبَۃَ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٤١٤: حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی کی مثل روایت نقل کی ہے۔

6417

۶۴۱۵: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَنِیِّ بْنُ رِفَاعَۃَ ، عَنْ أَبِیْ عَقِیْلٍ ، وَیُوْنُسَ قَالَا : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ الْفِطْرَۃُ خَمْسٌ ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٤١٥: جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فطرۃ پانچ چیزیں ہیں پھر آپ نے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٥١‘ ٦٣‘ مسلم فی الطہارۃ ٤٩؍٥٠‘ ابو داؤد فی الترجل باب ١٦‘ ترمذی فی الادب باب ١٤‘ نسائی فی الطہارۃ باب ٨؍٩‘ ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ٨‘ مالک فی صفہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روایت ٣‘ مسند احمد ٢‘ ٢٢٩؍٤١٠۔

6418

۶۴۱۶: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ ، عَنْ أَبِیْ عَوْنٍ الثَّقَفِیِّ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، رَأَیْ رَجُلًا طَوِیْلَ الشَّارِبِ ، فَدَعَا بِسِوَاکٍ وَشَفْرَۃٍ ، فَقَصَّ شَارِبَ الرَّجُلِ عَلَی عُوْدِ السِّوَاکِ .
٦٤١٦: ابو عون ثقفی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کی مونچھیں لمبی ہیں تو آپ نے مسواک اور چھری منگوائی اور اس کی مونچھیں مسواک کی لکڑی پر رکھ کر کاٹ دیں۔

6419

۶۴۱۷: حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالَ ثَنَا الْمَسْعُوْدِیُّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، طَوِیْلَ الشَّارِبِ ، فَدَعَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسِوَاکٍ ، ثُمَّ دَعَا بِشَفْرَۃٍ ، فَقَصَّ شَارِبَ الرَّجُلِ عَلَی سِوَاکٍ
٦٤١٧: محمد بن عبیداللہ نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا جس کی مونچھیں لمبی تھیں پس جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسواک منگوائی پھر چھری منگوائی اور مسواک پر رکھ کر اس کی مونچھیں کاٹ دیں۔

6420

۶۴۱۸: حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیرِ ، ح
٦٤١٨: بکار نے ابراہیم بن ابی الوزیر سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6421

۶۴۱۹: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِیْ صَخْرَۃَ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ الْمُحَارِبِیِّ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ : أَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ شَارِبِیْ عَلَی سِوَاکٍ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ اِلَی ہٰذِہِ الْآثَارِ ، وَاخْتَارُوْا لَہَا قَصَّ الشَّارِبِ عَلَی اِحْفَائِہٖ۔ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : بَلْ یُسْتَحَبُّ اِحْفَائُ الشَّوَارِبِ ، نَرَاہُ أَفْضَلَ مِنْ قَصِّہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ
٦٤١٩: جامع بن شداد محاربی نے حضرت مغیرہ بن عبداللہ سے انھوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری مونچھیں مسواک پر کاٹیں۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگ اہل مدینہ میں اس طرف گئے ہیں کہ انھوں نے مونچھیں کاٹنے کو مونڈنے پر ترجیح دی ہے۔ دوسروں نے کہا مونچھوں کو مونڈنا کاٹنے سے بہتر ہے بلکہ اس کو مستحب قرار دیا اور ہم اس کو کاٹنے سے افضل جانتے ہیں۔ دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : بنحوہ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٧٢‘ مسند احمد ٤‘ ٢٥٣؍٢٥٥۔

6422

۶۴۲۰: بِمَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ مُحْرِزٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجُزُّ شَارِبَہُ وَکَانَ اِبْرَاھِیْمُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَجُزُّ شَارِبَہُ .
٦٤٢٠: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مونچھیں مونڈتے اور ابراہیم (علیہ السلام) بھی اپنی مونچھیں مونڈتے تھے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٠١‘ باختلاف یسیر من الالفاظ۔

6423

۶۴۲۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ ح ۔
٦٤٢١: ابوبکر بن نافع نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے۔

6424

۶۴۲۲: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، کِلَاہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَحْفُوْا الشَّوَارِبَ ، وَأَعْفُوا اللِّحَی .
٦٤٢٢: نافع نے ابن عمر (رض) سے دونوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روایت کی ہے۔ مونچھوں کو مونڈو اور ڈاڑھی کو بڑھاؤ۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٦٤‘ مسلم فی الطہارۃ ٥٢؍٥٣‘ ترمذی فی الادب باب ٨‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٤‘ مسند احمد ٢‘ ١٦؍٥٢۔

6425

۶۴۲۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ ، عَنْ نَافِعٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٤٢٣: مالک نے حضرت نافع سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6426

۶۴۲۴: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ جَعْفَرٍ الْمَدِیْنِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَزَادَ وَلَا تَشَبَّہُوْا بِالْیَہُوْدِ .
٦٤٢٤: عبداللہ بن عبیداللہ نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے اور یہ اضافہ کیا ہے ولا تشبھوا بالیہود “ یہود کی مشابہت مت اختیار کرو۔

6427

۶۴۲۵: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ ثِنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُزُّوْا الشَّوَارِبَ ، وَأَرْخُوْا ، أَوْ أَعْفُوْا اللِّحَی .
٦٤٢٥: علاء بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مونچھوں کو کاٹو اور داڑھی کو چھوڑو یا بڑھاؤ۔
تخریج : مسلم فی الطہارۃ ٥٥‘ مسند احمد ٢‘ ٣٦٥؍٣٦٦۔

6428

۶۴۲۶: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ أَحْفُوْا الشَّوَارِبَ ، وَأَعْفُوْا اللِّحَی .فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَمَرَ بِاِحْفَائِ الشَّوَارِبِ ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ الْاِحْفَائُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا ، فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ .وَفِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ ، جُزُّوْا الشَّوَارِبَ فَذَاکَ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ جَزًّا ، مَعَہُ الْاِحْفَائُ ، وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ عَلٰی مَا دُوْنَ ذٰلِکَ .فَقَدْ ثَبَتَ مُعَارَضَۃُ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ ، بِحَدِیْثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَعَمَّارٍ ، وَعَائِشَۃَ ، الَّذِیْ ذٰکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ الْمُغِیْرَۃِ ، فَلَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی شَیْئٍ ، لِأَنَّہٗ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ ذٰلِکَ ، وَلَمْ یَکُنْ بِحَضْرَتِہِ مِقْرَاضٌ ، یَقْدِرُ عَلَی اِحْفَائِ الشَّارِبِ .وَیَحْتَمِلُ أَیْضًا حَدِیْثُ عَمَّارٍ وَعَائِشَۃَ ، وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ ، فِیْ ذٰلِکَ مَعْنًی آخَرَ ، یَحْتَمِلُ أَنْ تَکُوْنَ الْفِطْرَۃُ ، ہِیَ الَّتِیْ لَا بُدَّ مِنْہَا ، وَہِیَ قَصُّ الشَّارِبِ ، وَمَا سِوٰی ذٰلِکَ فَضْلٌ حَسَنٌ .فَثَبَتَتِ الْآثَارُ کُلُّہَا الَّتِیْ رَوَیْنَاہَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، وَلَا تَضَادُّ ، وَیَجِبُ بِثُبُوْتِہَا أَنَّ الْاِحْفَائَ أَفْضَلُ مِنَ الْقَصِّ .وَہٰذَا مَعْنَیْ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّا رَأَیْنَا الْحَلْقَ قَدْ أُمِرَ بِہٖ فِی الْاِحْرَامِ ، وَرُخِّصَ فِی التَّقْصِیرِ .فَکَانَ الْحَلْقُ أَفْضَلَ مِنْ التَّقْصِیرِ ، وَکَانَ التَّقْصِیرُ ، مَنْ شَائَ فَعَلَہٗ، وَمَنْ شَائَ زَادَ عَلَیْہٖ، اِلَّا أَنَّہٗ یَکُوْنُ بِزِیَادَتِہِ عَلَیْہِ أَعْظَمَ أَجْرًا مِمَّنْ قَصَّ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ حُکْمُ الشَّارِبِ قَصُّہُ حَسَنٌ ، وَاِحْفَاؤُہُ أَحْسَنُ وَأَفْضَلُ .وَہٰذَا مَذْہَبُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ ،
٦٤٢٦: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا مونچھوں کو منڈواؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مونچھوں کو مونڈنے کا حکم دیا پس اس سے مونڈنا ثابت ہوگیا جیسا کہ روایت ابن عمر (رض) میں ہے اور روایت ابن عباس (رض) اور ابوہریرہ (رض) میں جزوا کا لفظ ہے اس میں دو احتمال ہیں۔ کاٹنا بمع مونڈنا۔ ! ممکن ہے کہ اس کے علاوہ صرف کاٹنا مراد ہو۔ اب روایت ابن عمر (رض) روایت ابوہریرہ ‘ عمار ‘ عائشہ (رض) کے بھی معارض ہے جن کا ہم نے اس باب میں ذکر کیا ہے۔ باقی روایت مغیرہ (رض) میں کسی بات کی بھی دلیل نہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کیا ہو اور اس وقت قینچی موجود نہ ہو کہ جس سے مونچھوں کو مونڈا جاسکتا ہو اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ روایت حضرت عمار اور عائشہ اور ابوہریرہ (رض) دوسرا معنی رکھتی ہوں اور فطرت سے مراد وہ ہو جس کے بغیر چارہ کار نہیں اور وہ مونچھوں کا کاٹنا ہے اور اس کے علاوہ بہتر اور خوب ہے اب تمام آثار جو اس روایت میں ذکر کئے گئے ان میں تضاد نہ رہا اور ان کے ثابت ہونے سے یہ لازم آیا کہ مونڈنا کاٹنے سے افضل ہے آثار کو سامنے رکھ کر اس باب کا یہی مطلب ہے۔ ہم نے غور کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ احرام میں حلق کا حکم ہے اور قصر کی رخصت ہے پس حلق قصر سے افضل ہوا پس قصر جو چاہے کرلے۔ البتہ قصر پر اضافہ کرنے میں اجر بہت ہی بڑا ہے پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ مونچھوں کا بھی حکم ہو اور اس کا کاٹنا اچھا ہو اور منڈوانا احسن و افضل ہو اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔ متقدمین کی ایک جماعت سے بھی یہی مروی ہے۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٦٤‘ مسلم فی الطہارۃ ٥٢؍٥٣‘ ٥٤؍٥٥‘ ترمذی فی الادب ١٨٦‘۔
صحابہ کرام (رض) کے عمل سے اس کی تائید :

6429

۶۴۲۷: مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِسْمَاعِیْلُ بْنُ أَبِیْ خَالِدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ وَوَاثِلَۃَ بْنَ الْأَسْقَعِ ، یُحْفِیَانِ شَوَارِبَہُمَا وَیُعْفِیَانِ لِحَاہُمَا ، وَیُصَفِّرَانِہَا .قَالَ اِسْمَاعِیْلُ :
٦٤٢٧: اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) اور واثلہ بن اسقع (رض) کو دیکھا وہ مونچھیں منڈواتے ہیں اور داڑھی کو بڑھاتے ہیں اور زرد کرتے ہیں

6430

۶۴۲۸: وَحَدَّثَنِیْ عُثْمَانُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ رَافِعٍ الْمَدَنِیُّ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ، وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ ، وَأَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ ، وَأَبَا أُسَیْدٍ السَّاعِدِیَّ ، وَرَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ ، وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، وَأَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، وَسَلَمَۃَ بْنَ الْأَکْوَعِ ، یَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ .
٦٤٢٨: عثمان بن عبیداللہ مدنی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر ‘ ابوہریرہ ‘ ابو سعید خدری ‘ ابو اسید ساعدی ‘ رافع بن خدیج ‘ جابر بن عبداللہ ‘ سلمی بن اکوع ‘ انس بن مالک (رض) سب کو اسی طرح کرتے پایا۔

6431

۶۴۲۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا أَبُو ثَابِتٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَافِعٍ قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ ، وَأَبَا أُسَیْدٍ ، وَرَافِعَ بْنَ خَدِیجٍ ، وَسَہْلَ بْنَ سَعْدٍ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ، وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحْفُوْنَ شَوَارِبَہُمْ .
٦٤٢٩: عبدالعزیز بن محمد نے عثمان بن عبیداللہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری ‘ ابو اسید ‘ رافع ابن خدیج ‘ سہل بن سعد ‘ عبداللہ بن عمر ‘ جابر بن عبداللہ ‘ ابوہریرہ (رض) سب اپنی مونچھوں کو منڈواتے تھے۔

6432

۶۴۳۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ یُحْفِیْ شَارِبَہٗ، حَتّٰی یُرٰی بَیَاضُ الْجِلْدِ .
٦٤٣٠: عاصم بن محمد نے اپنے والد سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اپنی مونچھوں کو اس طرح مونڈتے کہ جلد کی سفیدی نظر آنے لگتی۔

6433

۶۴۳۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ یُحْفِیْ شَارِبَہُ .
٦٤٣١: ابراہیم بن محمد بن حاطب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو مونچھیں منڈواتے دیکھا۔

6434

۶۴۳۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ الْأَصْبَہَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ الْحَلَبِیِّ قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ یُحْفِیْ شَارِبَہٗ، کَأَنَّہٗ یَنْتِفُہُ .
٦٤٣٢: عثمان بن ابراہیم جلی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو اس طرح مونچھیں مونڈواتے ہوا دیکھا گویا کہ ان بالوں کو اکھاڑ رہے ہیں۔

6435

۶۴۳۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ یُحْفِیْ شَارِبَہُ .
٦٤٣٣: عبداللہ بن دینار نے حضرت ابن عمر (رض) کے متعلق نقل کیا کہ وہ اپنی مونچھوں کو مونڈتے تھے۔

6436

۶۴۳۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، عَنِ ابْنِ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ سَالِمٍ قَالَ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشَدَّ اِحْفَائً لِشَارِبِہٖ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، کَانَ یُحْفِیْہٖ، حَتّٰی اِنَّ الْجِلْدَ لَیُرَی .فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ کَانُوْا یُحْفُوْنَ شَوَارِبَہُمْ ، وَفِیْہِمْ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ ، وَہُوَ مِمَّنْ رَوَیْنَا عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ مِنَ الْفِطْرَۃِ قَصُّ الشَّارِبِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ قَصَّ الشَّارِبِ مِنَ الْفِطْرَۃِ ، وَہُوَ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْہُ، وَأَنَّ مَا بَعْدَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِحْفَائِ ، ہُوَ أَفْضَلُ ، وَفِیْہِ مِنْ اِصَابَۃِ الْخَیْرِ ، مَا لَیْسَ فِی الْقَصِّ .
٦٤٣٤: عقبہ بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے بڑھ کر کسی کو مونچھیں منڈوانے والا نہیں دیکھا وہ اس قدر منڈواتے کہ چمڑا نظر آجاتا۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جو اپنی مونچھوں کو مونڈتے تھے ان میں ابوہریرہ (رض) بھی ہیں جنہوں نے قص الشارب کی روایت کی ہے پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ مونچھوں کا کاٹنا فطرت سے ہے یعنی اس کے بغیر چارہ کار نہیں اور اس سے زائد مونڈنے والا عمل افضل ہے۔ (بخاری فی الاستیذان باب ٥١‘ مسلم فی الطیانۃ : ٤٩) اور اس سے وہ بھلائی مل جاتی ہے جو مونچھیں کاٹنے میں نہیں ملتی۔
حاصل : یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جو اپنی مونچھوں کو مونڈتے تھے ان میں ابوہریرہ (رض) بھی ہیں جنہوں نے قص الشارب کی روایت کی ہے پس اس سے یہ دلالت مل گئی کہ مونچھوں کا کاٹنا فطرت سے ہے یعنی اس کے بغیر چارہ کار نہیں اور اس سے زائد مونڈنے والا عمل افضل ہے۔
تخریج : بخاری فی الاستیذان باب ٥١‘ واللباس باب ٦٣‘ مسلم فی الطہارۃ روایت ٤٩‘ مسند احمد ٢؍١١٨۔
اور اس سے وہ بھلائی مل جاتی ہے جو مونچھیں کاٹنے میں نہیں ملتی۔

6437

۶۴۳۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ ، سَمِعَ أَبَا أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیَّ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَسْتَقْبِلُوْا الْقِبْلَۃَ لِغَائِطٍ ، وَلَا لِبَوْلٍ ، وَلٰـکِنْ شَرِّقُوْا أَوْ غَرِّبُوْا .فَقَدِمْنَا الشَّامَ ، فَوَجَدْنَا مَرَاحِیْضَ قَدْ بُنِیَتْ نَحْوَ الْقِبْلَۃِ ، فَنَنْحَرِفُ عَنْہَا ، وَنَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ .
٦٤٣٥: عطاء ابن یزید لیثی نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہ قبلہ کی طرف قضائے حاجت اور پیشاب کے وقت منہ کرو بلکہ مشرق اور مغرب کی طرف رخ کرو پس ہم شام میں آئے تو وہاں بیت الخلاء کو قبلہ رخ بنے ہوئے پایا۔ چنانچہ ہم رخ موڑ کر بیٹھے تھے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الصلوۃ باب ٢٩‘ مسلم فی الطہارۃ روایت ٥٩‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٤‘ ترمذی فی الطہارۃ باب ٦‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٩‘ ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ١٧‘ مسند احمد ٥؍٤٢١۔
علماء کی ایک جماعت نے پیشاب و پائخانہ کے وقت قبلہ کی طرف رخ اور پشت دونوں کی ممانعت فرمائی ہے اس قول کو ائمہ احناف نے اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی : کا قول یہ ہے کہ مکانات میں قبلہ کی طرف منہ کرنے یا پشت میں کوئی حرج نہیں البتہ جنگل کے اندر ایسا کرنا ممنوع ہے۔

6438

۶۴۳۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ أَبِیْ أَیُّوْبَ فَقَدِمْنَا الشَّامَ اِلَی آخِرِ الْحَدِیْثِ .
٦٤٣٦: یونس نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ انھوں نے حضرت ابو ایوب کا قول ” فقد منالشام۔۔۔ ذکر نہیں کیا۔

6439

۶۴۳۷: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُصْعَبٍ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ حَارِثَۃَ ، أَنَّ أَبَا أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیَّ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔، وَذَکَرَ کَلَامَ أَبِیْ أَیُّوْبَ أَیْضًا .
٦٤٣٧: عبدالرحمن بن یزید بن حارثہ کہتے ہیں کہ ابو ایوب انصاری نے روایت کی پھر اسی طرح ذکر کیا البتہ عبدالرحمن نے اس میں ابو ایوب کا کلام بھی ذکر کیا ہے۔

6440

۶۴۳۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ اِسْحَاقَ ، مَوْلًی لِآلِ الشِّفَائِ ، امْرَأَۃٍ ، وَکَانَ یُقَالُ لَہٗ مَوْلَی أَبِیْ طَلْحَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیَّ یَقُوْلُ ، وَہُوَ بِمِصْرَ ، وَاللّٰہِ مَا أَدْرِیْ کَیْفَ أَصْنَعُ بِہٰذِہِ الْکَرَابِیسِ ، فَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا ذَہَبَ أَحَدُکُمْ لِغَائِطٍ ، أَوْ لِبَوْلٍ فَلَا یَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ ، وَلَا یَسْتَدْبِرْہَا بِفَرْجِہٖ .
٦٤٣٨: رافع بن اسحاق نے جو آل شفاء کے مولا ہیں ان کو مولاء ابی طلحہ بھی کہا جاتا ہے انھوں نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کو مصر میں کہتے سنا اللہ کی قسم مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں ان کرابیس کا کیا کروں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم میں کوئی پیشاب پاخانے کے لیے جائے تو وہ نہ تو قبلہ کی طرف پیٹھ کرے اور نہ منہ کرے۔
تخریج : مسند احمد ٤١٤؍٥۔

6441

۶۴۳۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَخْبَرَہٗ عَنْ أَبِیْہِ‘ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَی أَنْ یَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ .
٦٤٣٩: نافع سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے اس کو اپنے والد کی طرف سے خبر دی کہ اس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات سنی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیشاب و پاخانہ کے لیے قبلہ رخ ہونے سے منع فرماتے تھے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٢١٠۔

6442

۶۴۴۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْکُوْفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ النَّحْوِیُّ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ رَجُلٌ : اِنِّیْ أَظُنُّ أَنَّ صَاحِبَکُمْ یُعَلِّمُکُمْ ، حَتّٰی اِنَّہٗ لَیُعَلِّمُکُمْ کَیْفَ تَأْتُوْنَ الْغَائِطَ .فَقَالَ لَہٗ : أَجَلْ ، وَاِنْ شَجَرْت ؛ اِنَّہٗ لَیَفْعَلُ اِنَّہٗ لَیَنْہَانَا اِذَا أَتَی أَحَدُنَا الْغَائِطَ ، أَنْ یَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ .
٦٤٤٠: عبدالرحمن بن یزید نے اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ایک آدمی سے نقل کیا ہے کہ جس کو ایک آدمی نے کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ تمہارا صاحب تمہیں تعلیم دیتا ہے اور اس حد تک تعلیم دیتا ہے کہ تم نے کس طرح بیت الخلاء جانا ہے اس انصاری نے کہا ہاں ! اگرچہ تو تمسخر اڑا رہا ہے بیشک وہ ایسا کرتے ہیں اور ہمیں اس بات سے منع کرتے ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی ایک قضائے حاجت کے لیے جائے تو وہ قبلہ کی طرف رخ کرے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٤٣٧۔

6443

۶۴۴۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، وَاللَّیْثُ وَابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ الزُّبَیْدِیِّ قَالَ : أَنَا أَوَّلُ مَنْ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ حَدَّثَ النَّاسَ بِذٰلِکَ .
٦٤٤١: یزید بن حبیب ‘ عبداللہ بن حارث زبید (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ تم میں سے کوئی شخص ہرگز قبلہ رخ ہو کر پیشاب نہ کرے اور میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے لوگوں کو یہ بات سنائی۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطہارہ باب ١٧‘ مسند احمد ٤؍١٩٠۔

6444

۶۴۴۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ ، قَالَ : أَنَا أَوَّلُ مَنْ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَی النَّاسَ أَنْ یَبُوْلُوْا مُسْتَقْبِلِی الْقِبْلَۃِ ، فَخَرَجْت اِلَی النَّاسِ ، فَأَخْبَرْتُہُمْ .
٦٤٤٢: یزید بن ابی حبیب نے حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں سب سے پہلا وہ شخص ہوں جس نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات سے منع کرتے سنا کہ وہ قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کریں پھر میں لوگوں کی طرف نکل کر گیا اور میں نے ان کو اطلاع دی۔

6445

۶۴۴۳: حَدَّثَنَا أَبُو الْبِشْرِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ رَافِعٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْحَارِثِ الزُّبَیْدِیَّ ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ۔
٦٤٤٣: یزید بن ابی حبیب نے جبلہ بن رافع سے انھوں نے عبداللہ بن حارث زبیدی (رض) پھر انھوں نے اسی طرح روایت ذکر کی ہے۔

6446

۶۴۴۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَہْلُ بْنُ ثَعْلَبَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ الزُّبَیْدِیِّ ، قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَبُوْلَ الرَّجُلُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ سَمِعَ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٤٤٤: سہل بن ثعلبہ نے عبداللہ بن حارث زبیدی (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے سے پہلے سے منع فرمایا اور میں پہلا شخص ہوں جس نے یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی۔

6447

۶۴۴۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا جَنْدَلُ بْنُ وَالِقٍ ، قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ : نُہِیْنَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ لِقَضَائِ الْحَاجَۃِ .
٦٤٤٥: عبدالرحمن بن یزید سے سلمان سے روایت کی ہے کہ ہمیں قضائے حاجت کے لیے قبلہ کی طرف رخ کرنے سے منع فرمایا۔

6448

۶۴۴۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَکِیْمٍ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّمَا أَنَا لَکُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ ، أُعَلِّمُکُمْ ، فَاِذَا أَتَی أَحَدُکُمُ الْغَائِطَ ، فَلَا یَسْتَقْبِلْ الْقِبْلَۃَ ، وَلَا یَسْتَدْبِرْہَا .
٦٤٤٦: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہارے لیے والد کی طرح ہوں تم کو سکھاتا ہوں جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو وہ قبلہ کی طرف منہ کرے نہ پیٹھ کرے۔
تخریج : بخاری فی الوضو باب ١١‘ نسائی فی الطہارۃ باب ٢٥‘ مسند احمد ٥؍٤١٦۔

6449

۶۴۴۷: حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیْسَی ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادٍ مِثْلَہٗ۔
٦٤٤٧: صفوان ابن عیسیٰ نے محمد ابن عجلان سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6450

۶۴۴۸: حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ کَثِیْرِ بْنِ عُفَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِذَا خَرَجَ أَحَدُکُمْ لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ ، فَلَا یَسْتَقْبِلْ الْقِبْلَۃَ ، وَلَا یَسْتَدْبِرْہَا ، وَلَا یَسْتَقْبِلْ الرِّیحَ .
٦٤٤٨: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جب تم میں سے کوئی پیشاب یا پاخانے کے لیے جائے تو وہ نہ قبلے کی طرف رخ کرے نہ اس کی طرف پیٹھ کرے اور نہ ہی ہوا کے رخ کی طرف پیشاب کرے۔

6451

۶۴۴۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ أَبِیْ مَعْقِلٍ الْأَسَدِیِّ ، وَکَانَ قَدْ صَحِبَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ ، لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ .
٦٤٤٩: عمرو ابن یحییٰ نے معقل بن ابی معقل اسدی صحابی (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں پیشاب و پاخانے کے لیے قبلہ کی طرف رخ کرنے سے منع فرمایا۔

6452

۶۴۵۰: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ الْعَطَّارُ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا أَبُو زَیْدٍ ، مَوْلٰی بَنِیْ ثَعْلَبَۃَ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ أَبِیْ مَعْقِلٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٤٥٠: ابو زید مولا ابن ثعلبہ نے معقل بن ابی معقل سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6453

۶۴۵۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا أَبُو کَامِلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی ، عَنْ أَبِیْ زَیْدٍ ، عَنْ مَعْقِلٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَۃِ ، لِغَائِطٍ ، أَوْ بَوْلٍ ، فِی جَمِیْعِ الْأَمَاکِنِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ ، أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبُوْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِاسْتِقْبَالِ الْقِبْلَۃِ ، لِلْغَائِطِ وَالْبَوْلِ ، فِی الْأَمَاکِنِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٦٤٥١: ابو زید نے معقل سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے پیشاب پاخانے میں قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنے کو تمام مقامات میں ناپسند قرار دیا ہے اور انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا ہے اس قول کو اختیار کرنے والوں میں امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ شامل ہیں۔ پیشاب پاخانے کے لیے قبلہ کی طرف رخ کرنے میں مکانات میں کوئی حرج نہیں اور انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا ہے۔

6454

۶۴۵۲: بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : اِنَّ نَاسًا یَقُوْلُوْنَ : اِذَا قَعَدْت لِحَاجَتِکَ، فَلَا تَسْتَقْبِلْ الْقِبْلَۃَ وَلَا بَیْتَ الْمَقْدِسِ .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : لَقَدْ ارْتَقَیْتُ عَلَی ظَہْرِ بَیْتٍ ، فَرَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی لَبِنَتَیْنِ ، مُسْتَقْبِلَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ، لِحَاجَتِہِ
٦٤٥٢: واسع بن حبان نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب تم قضائے حاجت میں بیٹھو تو قبلہ اور بیت المقدس کی طرف رخ مت کرو عبداللہ کہتے ہیں میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھا تو میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو اینٹوں پر بیت المقدس کی طرف رخ کر کے قضائے حاجت کرتے پایا۔
تخریج : بخاری فی الوضو باب ١٢‘ مسلم فی الطہارۃ روایت نمبر ٦١‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٥‘ نسائی فی الطہارۃ باب ٢١‘ ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ١٨‘ مالک فی القبلہ روایت ٨‘ دارمی فی الوضو باب ٨‘ مسند احمد ٢؍٤١۔

6455

۶۴۵۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا أَنَسٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٤٥٣: انس نے یحییٰ بن سعید سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6456

۶۴۵۴: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : أَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حِبَّانَ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ : ظَہَرْتُ عَلٰی أَحَادٍ لِیْ فِیْ بَیْتِ حَفْصَۃَ ، فِیْ سَاعَۃٍ لَمْ أَکُنْ أَظُنُّ أَنَّ أَحَدًا یَخْرُجُ فِیْہَا، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٤٥٤: واسع بن حبان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو یہ فرماتے سنا کہ میں حضرت حفصہ (رض) کے گھر میں اپنی ایک دیوار پر چڑھا اچانک میری نگاہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پڑی۔ اس وقت میرا گمان نہیں تھا کہ کوئی نکلتا ہو پھر انھوں نے روایت اسی طرح نقل کردی۔

6457

۶۴۵۵: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، وَیَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ ، وَعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : رَقَیْتُ فَوْقَ بَیْتِ حَفْصَۃَ ، فَاِذَا أَنَا بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٍ عَلَی مَقْعَدَتِہٖ، مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ ، مُسْتَدْبِرَ الشَّامِ .
٦٤٥٥: واسع بن حبان نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں حضرت حفصہ (رض) کے مکان کی چھت پر چڑھا اچانک میری نگاہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پڑی آپ اپنی قضائے حاجت کی جگہ بیٹھے تھے اور آپ کا رخ قبلہ کی طرف تھا اور شام کی طرف پیٹھ تھی۔

6458

۶۴۵۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ .ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ وَاسِعِ بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہٗ قَالَ : یَتَحَدَّثُ النَّاسُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْغَائِطِ ، بِحَدِیْثٍ ، وَقَدْ اطَّلَعْتُ یَوْمًا ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ظَہْرِ بَیْتٍ ، یَقْضِیْ حَاجَتَہٗ، مَحْجُوْبًا عَلَیْہِ بِلَبِنٍ ، فَرَأَیْتُہٗ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .
٦٤٥٦: واسع ابن حبان نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قضائے حاجت کے بارے میں ایک روایت بیان کرتے تھے میں نے ایک دن جھانک کر دیکھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گھر کی چھت پر قضائے حاجت میں مصروف تھے اور کچی اینٹوں کی دیوار آپ کو ڈھانپنے والی تھی پس میں نے آپ کو قبلہ کی طرف رخ کئے ہوئے دیکھا۔

6459

۶۴۵۷: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی الصَّلْتِ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، فَذَکَرُوْا اسْتِقْبَالَ الْقِبْلَۃِ بِالْفَرْجِ .فَقَالَ عِرَاکُ بْنُ مَالِکٍ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : ذُکِرَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ نَاسًا یَکْرَہُوْنَ اسْتِقْبَالَ الْقِبْلَۃِ بِالْفُرُوْجِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوَ قَدْ فَعَلُوْہَا ؟ حَوِّلُوْا مَقْعَدَتِیْ نَحْوَ الْقِبْلَۃِ .
٦٤٥٧: خالد بن ابی صلت کہتے ہیں کہ ہم عمر بن عبدالعزیز کے پاس تھے پس انھوں نے شرمگاہ سے قبلہ کی طرف رخ کرنے کا ذکر کیا تو عراک بن مالک کہنے لگے کہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ لوگوں کا ذکر ہوا کہ کچھ لوگ اپنی شرمگاہ کا رخ قبلہ کی طرف کرنے کو ناپسند کرتے ہیں تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا ایسا ہی وہ کرتے ہیں میرے بیٹھنے کی جگہ کا رخ قبلہ کی طرف پھیر دو ۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢١٩‘ ٢٢٧۔

6460

۶۴۵۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوْسَی قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ أَنَّہٗ رَأَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبُوْلُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .
٦٤٥٨: جابر بن عبداللہ نے حضرت ابو قتادہ (رض) سے نقل کیا کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرتے دیکھا۔
تخریج : ترمذی فی الطہارۃ باب ٧‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٤‘ مسنداحمد ٣؍٣٦٠‘ ٥؍٣٨٠۔

6461

۶۴۵۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنِ ابْنِ اِسْحَاقَ قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ مُجَاہِدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ وَنَسْتَدْبِرَہَا بِفُرُوْجِنَا لِلْبَوْلِ ، ثُمَّ رَأَیْتُہٗ قَبْلَ مَوْتِہِ بِعَامٍ ، یَبُوْلُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .
٦٤٥٩: مجاہد بن جبیر نے جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنے سے منع فرمایا پھر میں نے دیکھا کہ وفات سے ایک سال پہلے آپ قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کر رہے تھے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٣٦٥‘ ٥؍٣٨٠۔

6462

۶۴۶۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی الصَّلْتِ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، فَذَکَرُوْا الرَّجُلَ یَجْلِسُ عَلَی الْخَلَائِ ، فَیَسْتَقْبِلُ الْقِبْلَۃَ ، فَکَرِہُوْا ذٰلِکَ فَحَدَّثَ عِرَاکُ بْنُ مَالِکٍ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ ذٰلِکَ ذُکِرَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَوَ قَدْ فَعَلُوْہَا ؟ حَوِّلُوْا مَقْعَدَتِیْ اِلَی الْقِبْلَۃِ .فَکَانَتْ ہٰذِہِ الْآثَارُ حُجَّۃً لِأَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ ، عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، وَمُوْجِبَۃَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَنَّ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ تَأْخِیْرَ الْاِبَاحَۃِ عَنِ النَّہْیِ ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ ، فَہِیَ نَاسِخَۃٌ لِلْآثَارِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَاہَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .وَقَدْ خَالَفَ قَوْمٌ فِی الْقَوْلَیْنِ جَمِیْعًا ، فَقَالُوْا : بَلْ نَقُوْلُ : اِنَّ ہٰذِہِ الْآثَارَ کُلَّہَا لَا یَنْسَخُ شَیْئٌ مِنْہَا شَیْئًا .وَذٰلِکَ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْحَارِثِ أَخْبَرَ فِیْ حَدِیْثِہٖ، أَنَّہٗ أَوَّلُ مَنْ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَیْ عَنْ ذٰلِکَ .قَالَ : وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ حَدَّثَ النَّاسَ بِذٰلِکَ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ النَّہْیُ لَمْ یَقَعْ عَلَی الْبَوْلِ وَالْغَائِطِ فِیْ جَمِیْعِ الْأَمَاکِنِ ، وَوَقَعَ عَلَی خَاص مِنْہَا ، وَہِیَ الصَّحَارَی .ثُمَّ جَائَ أَبُو أَیُّوْبَ ، فَکَانَتْ حِکَایَتُہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہِیَ النَّہْیُ خَاصَّۃً ، فَذٰلِکَ یَحْتَمِلُ مَا احْتَمَلَہٗ حَدِیْثُ ابْنِ جَزْئٍ عَلٰی مَا فَسَّرْنَاہٗ، وَکَرَاہَۃُ الْاِسْتِقْبَالِ فِی الْکَرَابِیسِ الْمَذْکُوْرِ فِیْہٖ، فَہُوَ عَنْ رَأْیِہٖ، وَلَمْ یَحْکِہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَدْ یَجُوْزُ الْاِسْتِقْبَالُ اِلٰی أَنْ یَکُوْنَ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا سَمِعَ ، فَعَلِمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِہٖ الصَّحَارَی ، ثُمَّ حَکَمَ ہُوَ لِلْبُیُوْتِ بِرَأْیِہِ بِمِثْلِ ذٰلِکَ .وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ الْبُیُوْتَ وَالصَّحَارَی ، اِلَّا أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یُبَیِّنُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَنَا أَنَّہٗ أَرَادَ أَحَدَ الْمَعْنَیَیْنِ دُوْنَ الْآخَرِ .وَحَدِیْثُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، وَحَدِیْثُ مَعْقِلِ بْنِ أَبِیْ مَعْقِلٍ وَحَدِیْثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، مِمَّا فِیْہَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَمِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا .ثُمَّ عُدْنَا اِلٰی مَا رَوَیْنَاہُ فِی الْاِبَاحَۃِ ، فَاِذَا ابْنُ عُمَرَ یَقُوْلُ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ظَہْرِ بَیْتٍ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلَی اِبَاحَتِہِ لِاسْتِدْبَارِ الْقِبْلَۃِ لِلْغَائِطِ أَوْ الْبَوْلِ ، فِی الصَّحَارَی وَالْبُیُوْتِ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلَی الْاِبَاحَۃِ لِذٰلِکَ فِی الْبُیُوْتِ خَاصَّۃً فَکَانَ أَرَادَ بِہٖ ، فِیْمَا رُوِیَ عَنْہُ فِی النَّہْیِ عَلَی الصَّحَارَی خَاصَّۃً .فَأَوْلَی بِنَا أَنْ نَجْعَلَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ زَائِدًا عَلَی الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ ، غَیْرَ مُخَالِفٍ لَہَا ، فَیَکُوْنُ ہٰذَا عَلَی الْبُیُوْتِ ، وَتِلْکَ الْأَحَادِیْثُ الْأُوَلُ عَلَی الصَّحَارَی ، وَہٰذَا قَوْلُ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ
٦٤٦٠: خالد بن ابی صلت کہتے ہیں کہ ہم عمر بن عبدالعزیز کے پاس تھے انھوں نے اس آدمی کا ذکر کیا جو بیت الخلاء میں بیٹھ کر قبلہ کی طرف رخ کرے تو انھوں نے اس بات کو ناپسند کیا چنانچہ عراک بن مالک عروہ بن زبیر سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ اس بات کا تذکرہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوا تو آپ نے فرمایا کیا وہ ایسا کرتے ہیں تو میرے بیت الخلاء میں بیٹھنے کی جگہ کا رخ قبلہ کی طرف موڑ دو ۔ ان آثار کو فریق ثانی فریق اول کے خلاف بطور حجت پیش کیا ہے ان سے ان کا مؤقف ثابت ہو رہا ہے کیونکہ ممانعت کے بعد اباحت اس کو منسوخ کرنے والی ہے جیسا کہ حدیث جابر (رض) صاف طور پر پہلے آثار کی ناسخ ہے۔ فریق ثالث کا کہنا ہے کہ ان آثار میں کوئی بات بھی پہلے آثار کی ناسخ نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ عبداللہ بن الحارث (رض) پہلے شخص ہیں جنہوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استقبال قبلہ سے منع کرتے سنا اور یہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے لوگوں سے اس کے متعلق بات فرمائی۔ تو اب اس کے مطابق یہ کہنا درست ہے کہ پیشاب اور پاخانے میں استقبال قبلہ کی ممانعت تمام مقامات کے لیے نہ ہوگی بلکہ فقط صحرا کے لیے ہوگی۔ پھر حضرت ابو ایوب کی روایت میں آیا ہے کہ یہ ممانعت خاص ہے اور اس میں وہی احتمال ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا اور بیت الخلاء میں قبلہ کی طرف رخ کرنے کی کراہت جو اس روایت میں مذکور ہے وہ ان کی اپنی رائے ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انھوں نے اس کو بیان نہیں کیا تو ممکن ہے کہ استقبال کو آپ نے جائز قرار دیا ہو پھر انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ سنا جو سنا تو اس سے انھوں نے جان لیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد اس سے صحرا ہیں پھر انھوں نے گھروں کے متعلق بھی اپنے اجتہاد سے وہی حکم لگا دیا۔ یہ عین ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحرا اور گھر دونوں مراد لیے ہوں البتہ اس میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو ہمارے سامنے ان دو معنوں میں سے ایک کی وضاحت کر دے باقی رہی روایت عبدالرحمن بن یزید اور حدیث معقل بن ابی معقل اور حدیث ابوہریرہ (رض) جو کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ان کا مفہوم بھی اسی طرح ہے۔ اب ہم روایات اباحت کو دیکھتے ہیں تو ابن عمر (رض) کہہ رہے ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک گھر کی چھت پر قبلہ رخ بیٹھے دیکھا تو اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ قضائے حاجت کے لیے قبلہ کی طرف پشت کرنے کا صحرا اور گھر دونوں میں جواز ثابت ہو۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ فقط گھروں میں قضائے حاجت کے لیے اس طرح بیٹھنے کا جواز ثابت ہو اور ممانعت کی روایات میں صحرا مراد ہوں۔ پس ہمارے بہتر یہ ہے کہ اس حدیث کو پہلی حدیث پر اضافہ شمار کریں ان کے مخالف قرار نہ دیں۔ پس اس سے مراد گھروں میں اباحت اور پہلی احادیث سے صحرا میں ممانعت تسلیم کی جائے یہ امام مالک بن انس رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٢١٩‘ ٢٢٧‘ ٢٣٩۔

6463

۶۴۶۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّہٗ سَمِعَ مَالِکًا یَقُوْلُ ، ذٰلِکَ .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلٰی حَدِیْثِ أَبِی قَتَادَۃَ ، فَفِیْہِ : أَنَّہٗ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبُوْلُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .فَقَدْ یَکُوْنُ رَآہٗ حَیْثُ رَآہٗ ابْنُ عُمَرَ ، فَیَکُوْنُ مَعْنَیْ حَدِیْثِہٖ، وَحَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ سَوَائً .أَوْ یَکُوْنُ رَآہٗ فِیْ صَحْرَائَ ، فَیُخَالِفُ حَدِیْثَ ابْنِ عُمَرَ ، وَیَنْسَخُ الْأَحَادِیْثَ الْأُوَلَ ، فَہُوَ عِنْدَنَا غَیْرُ نَاسِخٍ لَہَا ، حَتّٰی یُعْلَمَ یَقِینًا أَنَّہٗ قَدْ نَسَخَہَا .وَأَمَّا حَدِیْثُ جَابِرٍ ، فَفِیْہِ النَّہْیُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَۃِ وَاسْتِدْبَارِہَا ، لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ ، وَلَمْ یُبَیِّنْ مَکَانًا .فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلٰی مَا فَسَّرْنَا وَبَیَّنَّا مِنْ حَدِیْثِ أَبِیْ أَیُّوْبَ ، فَلَا حُجَّۃَ فِیْہِ أَیْضًا تُوْجِبُ مُضَادَّۃَ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ ، وَأَبِی قَتَادَۃَ .قَالَ جَابِرٌ فِیْ حَدِیْثِہِ : ثُمَّ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبُوْلُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .فَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْبَوْلُ کَانَ فِی الْمَکَانِ الَّذِی لَمْ یَکُنْ نَہْیُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَوَّلِ وَقَعَ عَلَیْہٖ، فَلَمْ نَعْلَمْ شَیْئًا مِنْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، نَسَخَ شَیْئًا مِنْہَا شَیْئٌ .ثُمَّ عُدْنَا اِلٰی حَدِیْثِ عِرَاکٍ فَفِیْہِ أَنَّہٗ ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ نَاسًا یَکْرَہُوْنَ اسْتِقْبَالَ الْقِبْلَۃِ بِفُرُوْجِہِمْ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَوِّلُوْا مَقْعَدَتِی مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَنْکَرَ قَوْلَہُمْ ، لِأَنَّہُمْ کَرِہُوْا ذٰلِکَ فِیْ جَمِیْعِ الْأَمَاکِنِ ، فَأَمَرَ بِتَحْوِیْلِ مَقْعَدَتِہِ نَحْوَ الْقِبْلَۃِ ، لِیَرُدَّ عَلَیْہِمْ ، وَلِیُعْلِمَ أَنَّہٗ لَمْ یَقَعْ نَہْیُہُ عَلٰی ذٰلِکَ ، وَاِنَّمَا وَقَعَ النَّہْیُ عَلَی اسْتِقْبَالِہَا فِیْ مَکَان دُوْنَ مَکَان .وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ نَسْخَ النَّہْیِ الْأَوَّلِ فِی الْأَمَاکِنِ کُلِّہَا ، لِأَنَّ النَّہْیَ کَانَ قَدْ وَقَعَ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ عَنْ ذٰلِکَ ، فَلَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ أَیْضًا عَلٰی نَسْخٍ وَلَا غَیْرِہٖ۔ فَلَمَّا کَانَ حُکْمُ ہٰذِہِ الْآثَارِ کَذٰلِکَ ، کَانَ أَوْلَی بِنَا أَنْ نُصَحِّحَہَا کُلَّہَا .فَنَجْعَلَ مَا فِیْہِ النَّہْیُ مِنْہَا عَلَی الصَّحَارَی ، وَمَا فِیْہِ الْاِبَاحَۃُ عَلَی الْبُیُوْتِ ، حَتّٰی لَا تَضَادَّ مِنْہَا شَیْئٌ .
٦٤٦١: یونس نے ابن وہب سے بیان کیا کہ میں نے امام مالک کو یہ بات کہتے سنا۔ اب ہم حدیث ابی قتادہ کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبلہ رخ کر کے پیشاب کرتے دیکھا تو ممکن ہے کہ انھوں نے اسی جگہ دیکھا ہو جہاں ابن عمر (رض) نے دیکھا تو ان کی روایت کا بھی وہی مفہوم ہوا جو روایت ابن عمر (رض) کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے صحرا میں دیکھا ہو تو یہ روایت ابن عمر (رض) کی روایت کے خلاف ہوئی۔ یہ پہلی احادیث کے لیے ناسخ بن جائے گی حالانکہ ہمارے نزدیک یہ اس کی ناسخ نہیں ہے جب تک کہ یقین سے یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس نے اس کو منسوخ کردیا۔ پھر حدیث جابر۔ تو اس میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلہ کی طرف قضائے حاجت میں منہ اور پیٹھ کرنے سے منع فرمایا لیکن ہمارے لیے جگہ کی وضاحت نہیں فرمائی۔ پس اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وہی ہو جو ہم نے پیچھے حدیث ابو ایوب کے بارے میں بیان کردیا۔ تو اس صورت میں کوئی ایسی دلیل نہیں پائی جاتی جو اس کو حدیث ابن عمر (رض) اور حدیث ابو قتادہ (رض) سے متضاد ثابت کرے۔ جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرتے دیکھا۔ پس اس میں یہ احتمال ہے کہ یہ پیشاب کرنا ایسے مقام میں تھا جس کی ممانعت پہلی بار آپ نے نہیں فرمائی۔ پس ان آثار میں کوئی چیز ہمیں ایسی معلوم نہ ہوئی جس نے کسی دوسری روایت کو منسوخ کیا ہو۔ اب ہم حدیث عراک کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ اس میں آپ کے سامنے ایسے لوگوں کا ذکر کیا گیا جو اپنی شرمگاہوں کا رخ قبلہ کی طرف کرنے کو ناپسند کرتے ہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے بیت الخلاء کا رخ قبلہ کی طرف پھیر دو تو اب اس روایت میں یہ درست ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات کا انکار کیا ہو کیونکہ ان لوگوں نے اس کو تمام مقامات کے لیے خیال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بیت الخلاء کے بدلنے کا حکم دیا تاکہ ان کی تردید ہوجائے اور ان کو معلوم ہوجائے کہ ممانعت ہر جگہ کے لیے نہیں۔ قبلہ رخ کرنے کی ممانعت بعض مقامات میں ہے اور بعض میں نہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ تمام مقامات میں جو ممانعت تھی وہ منسوخ ہوگئی کیونکہ پہلے آثار میں ممانعت موجود ہے۔ پس اس روایت میں کوئی نسخ اور غیر نسخ کی دلیل نہیں۔ جب ان آثار کا معاملہ اسی طرح ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا تو اب زیادہ بہتر یہی ہے کہ ان تمام کو ہم صحیح قرار دیں ممانعت والی روایات کو صحرا پر محمول کریں اور اباحت والی روایات کو گھروں پر محمول کریں تاکہ ان میں کوئی روایت ایک دوسرے سے متضاد نہ رہے۔
امام شعبی (رض) کے قول سے اس بات کی تائید :

6464

۶۴۶۲: وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، عَنْ حَاتِمٍ ، عَنْ عِیْسَی بْنِ أَبِیْ عِیْسَی الْخَیَّاطِ ، ح .
٦٤٦٢: ابن وہب نے حاتم سے انھوں نے عیسیٰ بن ابی عیسیٰ خیاط سے روایت کی ہے۔

6465

۶۴۶۳: وَحَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسَی ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَی ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّہٗ سَأَلَہٗ عَنِ اخْتِلَافِ ہٰذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ فَقَالَ الشَّعْبِیُّ : صَدَقَا وَاللّٰہِ، أَمَّا حَدِیْثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، فَعَلَی الصَّحَارَی ، اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ ، فَلَا تَسْتَقْبِلُوْھُمْ ، وَاِنَّ حُشُوْشَکُمْ ہٰذِہٖ، لَا قِبْلَۃَ فِیْہَا .فَ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَیْ یُحْمَلُ ہٰذِہِ الْآثَارُ حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ مِنْہَا شَیْئٌ .
٦٤٦٣: عبداللہ بن موسیٰ نے عیسیٰ سے انھوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ میں نے ان سے ان دونوں روایتوں کے اختلاف کے بارے میں پوچھا تو شعبی کہنے لگے اللہ کی قسم دونوں نے سچ کہا حدیث ابوہریرہ (رض) صحراؤں کے متعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فرشتے نماز پڑھتے ہیں پس ان کی طرف رخ کرنے کی ممانعت فرمائی اور تمہارے یہ بیت الخلاء یعنی جو گھروں میں ہیں ان میں کوئی قبلہ کا لحاظ نہیں ان آثار کو اس معنی پر محمول کیا جائے گا تاکہ ان میں کوئی روایت دوسری کے متضاد نہ ہے۔
اس بات میں امام طحاوی (رح) نے فریق ثانی کے قول کو ترجیح دی ہے اور ترتیب میں اسے تیسرے نمبر پر آخر میں لانا چاہیے تھا۔ فریق اول و ثالث کی روایات کی مناسب تاویل فرمائی ہے۔

6466

۶۴۶۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ طَلْحَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَکَلَ مِنْ خَضْرَاوَاتِکُمْ ہٰذِہٖ، ذَوَاتِ الرِّیحِ ، فَلَا یَقْرَبَنَّا فِیْ مَسَاجِدِنَا ، فَاِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَتَأَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْہُ بَنُو آدَمَ .
٦٤٦٤: عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرإﷺ نے فرمایا جو کوئی تمہاری ان سبزیات میں سے کھائے جو کہ بدبو والی ہیں وہ ہماری مساجد کے قریب مت جائے اس لیے کہ فرشتوں کو بھی ان چیزوں سے ایذا پہنچتی ہے جن سے اولاد آدم کو ایذا پہنچتی ہے۔
بعض لوگوں نے بو والی سبزیات کے استعمال کو مطلقا ممنوع قرار دیا۔
فریق ثانی : ان کو کھانے کی ممانعت حرمت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ لوگوں کی ایذا کی وجہ سے ہے اس لیے پکی ہوئی کھا کر مسجد میں آنے کی ممانعت نہ ہوگی اسی قول کو ائمہ احناف نے اختیار کیا ہے۔

6467

۶۴۶۵: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ ، فَلَا یَأْتِ الْمَسَاجِدَ .
٦٤٦٥: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اس پودے میں سے کچھ کھائے وہ ہماری مساجد کے قریب نہ آئے۔
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٦٠‘ مسلم فی المساجد روایت ٦٨‘ ٧٢‘ ابو داؤد فی الاطعمہ باب ٤٠‘ نسائی فی المساجد باب ١٦‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ٥٨‘ دارمی فی الاطعمہ باب ٢١‘ مالک فی الطہارہ حدیث ١‘ مسند احمد ٢؍١٣‘ ١٢؍٣‘ ٣٨٠‘ ٣٨٧۔

6468

۶۴۶۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الْبَقْلَۃِ ، فَلَا یَقْرَبَنَّ الْمَسْجِدَ ، حَتّٰی یَذْہَبَ رِیحُہَا یَعْنِی : الثُّوْمَ .
٦٤٦٦: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جو آدمی اس سبزی میں سے کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے جب تک اس کی بو ختم نہ ہو (یعنی لہسن)
تخریج : مسلم فی المساجد روایت ٦٩‘ ٧٤‘ ابو داؤد فی الاطعمہ باب ٤٠‘ مسند احمد ٤؍١٩٤۔

6469

۶۴۶۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، وَفَہْدٌ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَکْلِ الثُّوْمِ بِخَیْبَرَ .
٦٤٦٧: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر میں لہسن کھانے سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی المغازی باب ٣٨۔

6470

۶۴۶۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ شَرِیْکِ بْنِ حَنْبَلٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الْبَقْلَۃِ ، فَلَا یَقْرَبَنَّا أَوْ یُؤْذِیَنَّا فِیْ مَسْجِدِنَا .
٦٤٦٨: شریک بن حنبل نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اس سبزی میں سے کھایا وہ ہمارے قریب نہ جائے یا یہ فرمایا کہ ہماری مسجد میں ہمیں تکلیف نہ دے۔
تخریج : ابو داؤد فی الاطعمہ باب ٤٠‘ مسند احمد ٤؍٢٥٢۔

6471

۶۴۶۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ صَالِحٍ الْحَنَفِیُّ ، مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ ، قَالَ : ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیْسَی ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ ، عَنْ عَمِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ ، فَلَا یَقْرَبَنَّ مَسَاجِدَنَا یَعْنِی الثُّوْمَ .
٦٤٦٩: زہری نے عباد بن تمیم سے اور انھوں نے اپنے چچا سے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی اس سبزی میں سے کھائے یعنی لہسن۔ وہ ہماری مساجد کے قریب نہ آئے۔

6472

۶۴۷۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ صُہَیْبٍ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ أَنَسًا : مَا سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ فِی الثُّوْمِ ؟ .فَقَالَ : یَعْنِیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ ، فَلَا یَقْرَبَنَّا ، وَلَا یُصَلِّیَنَّ مَعَنَا .
٦٤٧٠: عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ تم نے لہسن کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا سنا تو انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ جو اس پودے کو کھائے نہ وہ ہمارے قریب آئے اور نہ ہرگز ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔

6473

۶۴۷۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الْبَقْلَۃِ فَلَا یَقْرَبَنَّا فِیْ مَسْجِدِنَا ، أَوْ لَا یَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا .
٦٤٧١: عطاء نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اس سبزی میں سے کھایا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے یا یہ فرمایا ہماری مساجد کے قریب ہرگز نہ آئے۔

6474

۶۴۷۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ بَشِیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ ، فَلَا یُنَاجِیْنَا .
٦٤٧٢: بشر بن بشیر نے اپنے والد سے بیان کیا اور یہ اصحاب شجرہ میں سے تھے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو اس پودے میں سے کھائے وہ ہمارے ساتھ سرگوشی نہ کرے۔

6475

۶۴۷۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : ثَنَا حَکَمُ بْنُ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی الرَّبَابِ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَسِیْرٍ لَہٗ وَاِنَّا نَزَلْنَا فِیْ مَکَان فِیْہِ شَجَرُ ثُوْمٍ ، فَبَثَّ أَصْحَابُہُ فِیْہٖ، فَأَکَلُوْا مِنْہٗ، ثُمَّ غَدَوْا اِلَی الْمُصَلَّی .فَوَجَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رِیحَ الثُّوْمِ ، فَقَالَ لَا تَقْرَبُوْا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ ، ثُمَّ تَأْتُوا الْمَسَاجِدَ .قَالَ : ثُمَّ جَائُ وْا الثَّانِیَۃَ اِلَی الْمُصَلّٰی ، فَوَجَدَ رِیْحَہَا ، فَقَالَ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ ، فَلَا یَقْرَبَنَّ الْمُصَلّٰی .
٦٤٧٣: ابو رباب نے حضرت معقل بن یسار (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے ہم ایک ایسی جگہ اترے جہاں لہسن کے پودے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ وہاں پھیل گئے اور اس میں سے کھایا پھر وہ صبح سویرے نماز کی طرف گئے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لہسن کی بو پائی آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس درخت کو کھا کر مساجد میں مت آؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ دوسری مرتبہ مسجد کی طرف آئے تو آپ نے لہسن کی بو پائی تو ارشاد فرمایا جس نے اس سبزی کو کھایا ہو وہ ہمارے قریب مت آئے یا یہ فرمایا کہ ہماری مساجد میں وہ ہمیں ایذاء نہ پہنچائے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کچھ لوگوں نے بو والی سبزیوں کا کھانا سرے سے مکروہ قرار دیا اور ان آثار کو انھوں نے دلیل بنایا۔ دوسروں نے کہا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے کھانے سے منع فرمایا مگر اس وجہ سے نہیں کہ وہ حرام ہے بلکہ اس کی بو حاضرین مسجد کو ایذا پہنچانے والی ہے اور دوسری روایات اس پر دلالت کرتی ہیں۔

6476

۶۴۷۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ شَرِیْکِ بْنِ حَنْبَلٍ، عَنْ عَلِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَکَلَ ہٰذِہِ الْبَقْلَ فَلَا یَقْرَبَنَّا ، أَوْ یُؤْذِیَنَّا فِیْ مَسَاجِدِنَا .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَرِہَ قَوْمٌ أَکْلَ الْبُقُوْلِ ، ذَوَاتِ الرِّیحِ أَصْلًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، وَقَالُوْا : اِنَّمَا نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَکْلِہَا ، لَا لِأَنَّہَا حَرَامٌ ، وَلٰـکِنْ لِئَلَّا یُؤْذَی بِرِیحِہَا ، مَنْ یَحْضُرُ مَعَہُ الْمَسْجِدَ ، وَقَدْ جَائَ فِیْ ذٰلِکَ آثَارٌ أُخَرُ ، مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ .
missing

6477

۶۴۷۵: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ الْیَعْمُرِیِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، اِنَّکُمْ لَتَأْکُلُوْنَ مِنْ شَجَرَتَیْنِ خَبِیْثَتَیْنِ ، ہٰذَا الثُّوْمُ ، وَہٰذَا الْبَصَلُ ، وَلَقَدْ کُنْتُ أَرَی الرَّجُلَ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْجَدُ مِنْہُ رِیحُہٗ، فَیُؤْخَذُ بِیَدِہٖ، فَیُخْرَجُ اِلَی الْبَقِیعِ ، فَمَنْ کَانَ أَکِلَہُمَا ، فَلْیُمِتْہُمَا طَبْخًا .فَہٰذَا عُمَرُ ، قَدْ أَخْبَرَ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ، بِمَنْ أَکَلَہَا عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ أَبَاحَ ہُوَ أَکْلَہُمَا ، بَعْدَ أَنْ یُمَاتَا طَبْخًا .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ النَّہْیَ عَنْہُ، لَمْ یَکُنْ لِلتَّحْرِیْمِ .
٦٤٧٥: معدان بن طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے لوگو ! تم یہ ناپسندیدہ پودے کھاتے ہو یعنی لہسن اور پیاز اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دیکھا کرتا تھا کہ جس سے ان کی بو پائی جاتی اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو بقیع کی طرف نکال دیا جاتا پس جو شخص تم میں سے ان دونوں کو استعمال کرے تو پکا کر ان کی بو کو ختم کرلے۔ یہ عمر (رض) ہیں جنہوں نے بتلا دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں جو شخص کھاتا تھا وہ کیا کرتا تھا حضرت عمر (رض) نے ان کی بو کو ختم کر کے کھانے کو مباح قرار دیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ممانعت حرمت کے لیے نہیں ہے۔
تخریج : مسلم فی المساجد روایت ٧٨‘ نسائی فی المساجد باب ١٧‘ ابن ماجہ فی الاطعمہ باب ٥٩‘ مسند احمد ١؍١٥‘ ٤؍١٩۔

6478

۶۴۷۶: وَقَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہَاتَیْنِ الشَّجَرَتَیْنِ الْخَبِیْثَتَیْنِ ، فَلَا یَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا ، فَاِنْ کُنْتُمْ لَا بُدَّ آکِلِیْہِمَا ، فَأَمِیْتُوْھُمَا طَبْخًا .فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ أَبَاحَ أَکْلَہُمَا بَعْدَ ذَہَابِ رِیحِہِمَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ نَہْیَہُ عَنْ أَکْلِہِمَا اِنَّمَا کَانَ لِکَرَاہَتِہِ رِیحَہُمَا ، لَا أَنَّہُمَا حَرَامٌ فِیْ أَنْفُسِہِمَا .
٦٤٧٦: معاویہ بن قرہ نے اپنے والد (رض) سے نقل کیا انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جس نے ان دونوں ناپسندیدہ پودوں سے کھایا وہ ہماری مسجد کے قریب ہرگز نہ آئے اگر تمہیں اس کے کھانے کے بغیر چارہ کار نہ ہو تو پکا کر ان کی بو ختم کرلو۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جنہوں نے ازالہ بو کے بعد اس کے کھانے کو مباح قرار دیا ہے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس کے کھانے کی ممانعت اس کی ناپسندیدہ بو کی وجہ سے ہے۔ اس بناء پر نہیں کہ بذات خود یہ حرام ہیں۔

6479

۶۴۷۷: وَقَدْ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ھِلَالٍ الرَّاسِبِیُّ وَغَیْرُہٗ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ بْنِ أَبِیْ مُوْسَی ، عَنْ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ : أَکَلْت الثُّوْمَ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَیْتُ الْمَسْجِدَ ، وَقَدْ سُبِقْتُ بِرَکْعَۃٍ ، فَدَخَلْتُ مَعَہُمْ فِی الصَّلَاۃِ ، فَوَجَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رِیحَہٗ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ الْخَبِیْثَۃِ ، فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ، حَتّٰی یَذْہَبَ رِیحُہَا .فَأَتْمَمْتُ صَلَاتِی ، فَلَمَّا سَلَّمْتُ قُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ اِلَّا أَعْطَیْتنِیْ یَدَکَ، فَنَاوَلَنِیْ یَدَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَدْخَلْتُہَا فِیْ کُمِّی ، حَتّٰی انْتَہَیْتُ اِلٰی صَدْرِی فَوَجَدَہُ مَعْصُوْبًا فَقَالَ اِنَّ لَک عُذْرًا .فَفِی قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ الْخَبِیْثَۃِ ، فَلَا یَقْرَبَنَا فِیْ مَسْجِدِنَا، حَتّٰی یَذْہَبَ رِیحُہَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ اِنَّمَا نَہٰی عَنْ أَکْلِہَا لِئَلَّا یُؤْذِیَ رِیحُہَا مَنْ یَحْضُرُ الْمَسْجِدَ ، لَا لِأَنَّ أَکْلَہَا حَرَامٌ .
٦٤٧٧: ابو بردہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں لہسن استعمال کیا پھر میں مسجد میں آیا اور ایک رکعت مجھ سے نکل گئی میں صحابہ کرام کے ساتھ نماز میں شامل ہوا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بو محسوس کی جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا جس نے اس بدبو دار پودے کو کھایا ہے وہ ہماری نماز کی جگہ کے قریب مت آئے جب تک کہ اس کی بو باقی ہو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ” ان من اکل من ہذہ۔۔۔“ میں اس بات کی دلیل ہے لہسن کھانے والے کو مسجد سے اس لیے روکا گیا کہ لہسن کی و حاضرین مسجد کو ایذاء نہ دے ‘ اس لیے انھیں روکا گیا کہ اس کا کھانا حرام ہے۔
تخریج : مسلم فی المساجد ٦٩؍٧١‘ ابو داؤد فی الاطعمہ باب ٤٠‘ نسائی فی المساجد باب ١٧‘ مالک فی الطہارۃ ١‘ مسند احمد ٢؍٢٦٦۔

6480

۶۴۷۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ، کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا أَکَلَ مِنْ طَعَامٍ ، بَعَثَ بِفَضْلِہِ اِلٰی أَبِیْ أَیُّوْبَ .قَالَ : فَبَعَثَ اِلَیْہِ ذَاتَ یَوْمٍ بِقَصْعَۃٍ لَمْ یَأْکُلْ مِنْہَا فَأَتَاہُ أَبُو أَیُّوْبَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَحَرَامٌ ہُوَ ؟ قَالَ لَا ، وَلٰـکِنْ کَرِہْتہ لِرِیحِہِ قَالَ : فَأَنَا أَکْرَہُ مَا کَرِہْت .
٦٤٧٨: سماک بن حرب نے حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھانا تناول فرماتے تو بچا ہوا کھانا حضرت ابو ایوب کی طرف بھیج دیتے۔ ابو ایوب کہتے ہیں کہ ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیالہ واپس بھیج دیا اس میں سے کچھ بھی استعمال نہ فرمایا۔ تو ابو ایوب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا وہ حرام ہے ؟ فرمایا نہیں۔ لیکن مجھے اس کی بوناپسند ہے۔ تو ابو ایوب کہنے لگے میں بھی اس کو ناپسند کرتا ہوں جس کو آپ ناپسند کرتے ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٤١٥؍٤١٦‘ ٤١٧۔

6481

۶۴۷۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ یَزِیْدَ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : نَزَلْتُ عَلَی أُمِّ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیَّۃِ الَّتِیْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَزَلَ عَلَیْہِمْ ، فَحَدَّثَتْنِیْ أَنَّہُمْ تَکَلَّفُوْا لَہٗ طَعَامًا ، فِیْہِ بَعْضُ ہٰذِہِ الْبُقُوْلِ ، فَأَتَوْہٗ، فَکَرِہَہٗ، فَقَالَ لِأَصْحَابِہٖ کُلُوْھُ ، فَاِنِّیْ لَسْتُ کَأَحَدِکُمْ ، اِنِّیْ أَخَافُ أَنْ أُوذِیَ صَاحِبِی .
٦٤٧٩: عبیداللہ بن ابی یزید نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میرے ہاں ام ایوب انصاریہ (رض) تشریف لائیں جن کے ہاں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہمان تھے اور مجھے بیان کیا کہ ہم نے آپ کے لیے ایک پر تکلف کھانا تیار کیا اس میں بعض سبزیات (لہسن وغیرہ) تھے تو آپ نے اس کو ناپسند فرمایا پھر اپنے صحابہ کرام (رض) کو فرمایا اس کو کھاؤ۔ میں تم جیسا نہیں مجھے خطرہ ہے کہ کہیں میں اپنے صاحب (جبرائیل علیہ السلام) کی ایذا کا باعث نہ بنوں۔
تخریج : ترمذی فی الاطعمہ باب ١٤‘ ابن ماجہ فی الاطعمہ باب ٥٩‘ دارمی فی الاطعمہ باب ٢١‘ مسند احمد ٦؍٤٣٣۔

6482

۶۴۸۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ مَرَّۃً - أُخْرَی ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ : سَمِعْت أُمَّ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیَّۃَ قَالَتْ: نَزَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَرَّبْت اِلَیْہِ طَعَامًا ، فِیْہِ مِنْ بَعْضِ ہٰذِہِ الْبُقُوْلِ فَلَمْ یَأْکُلْہٗ، وَقَالَ اِنِّیْ أَکْرَہُ أَنْ أُوذِیَ صَاحِبِی .
٦٤٨٠: عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ام ایوب انصاریہ کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا جس میں ان سبزیات (لہسن وغیرہ) میں سے کوئی چیز تھی۔ آپ نے اس کو نہیں کھایا اور فرمایا مجھے اپنے ساتھی (جبرائیل علیہ السلام) کو ایذا دینا پسند نہیں۔
تخریج : مسند احمد ٥‘ ٤١٦؍٤١٦‘ ٤١٧۔

6483

۶۴۸۱: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ ، عَنْ أَبِیْ رُہْمٍ السَّمَعِیِّ ، أَنَّ أَبَا أَیُّوْبَ حَدَّثَہٗ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کُنْتُ تُرْسِلُ بِالطَّعَامِ فَأَنْظُرُ ، فَاِذَا رَأَیْتُ أَثَرَ أَصَابِعِکَ، وَضَعْتُ یَدِی فِیْہٖ، حَتّٰی کَانَ ہٰذَا الطَّعَامُ الَّذِی أَرْسَلْتُ بِہٖ ، فَنَظَرْتُ فِیْہٖ، فَلَمْ أَرَ فِیْہِ أَثَرَ أَصَابِعِک .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجَلْ ، اِنَّ فِیْہِ بَصَلًا ، فَکَرِہْتُ أَنْ آکُلَہٗ مِنْ أَجْلِ الْمَلَکِ - الَّذِیْ یَأْتِینِیْ، وَأَمَّا أَنْتُمْ فَکُلُوْھُ .
٦٤٨١: ابو رہم سماعی کہتے ہیں کہ مجھے ابو ایوب (رض) نے بیان کیا کہ میں نے گزارش کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جب کھانا واپس بھیجتے تو میں اس میں آپ کی انگلیوں کے اثرات دیکھتی۔ جب میں آپ کی انگلیوں کا اثر پاتی تو میں اس کو استعمال کرلیتی۔ آج جو کھانا آپ نے بھیجا ہے میں نے اس میں دیکھا مگر آپ کی انگلیوں کا اثر نہ پایا۔
تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جی ہاں ! اس میں پیاز ہے میں نے فرشتے کی وجہ سے جو میرے ہاں آتا ہے اس کو نہیں کھایا۔ باقی تم اس کو استعمال کرو۔

6484

۶۴۸۲: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَنْصَارِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِئُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٤٨٢: ابن لہیعہ نے یزید بن ابی حبیب سے پھر اس نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6485

۶۴۸۳: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَیَّاشُ بْنُ وَلِیْدٍ الرَّقَّامُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یُسَمِّ الشَّجَرَۃَ .
٦٤٨٣: مرثد بن بن عبداللہ نے حضرت ابو امامہ (رض) سے انھوں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ البتہ اس میں پودے کا نام مذکور نہیں۔

6486

۶۴۸۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ سَوَادَۃَ أَنَّ سُفْیَانَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ حَدَّثَہٗ ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِہٖ، اِلَّا أَنَّہٗ قَالَ : بَصَلٌ ، أَوْ کُرَّاثٌ وَزَادَ فِیْ آخِرِہِ وَلَیْسَ بِمُحَرَّمٍ .فَقَدْ أَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذِہِ الْاِثَارِ لِلنَّاسِ ، أَکْلَ الْبَصَلِ وَالْکُرَّاثِ ، وَأَنَّ - ذٰلِکَ غَیْرُ مُحَرَّمٍ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : ہٰذَا الَّذِیْ ذَکَرْتَ، اِنَّمَا ہُوَ عَلٰی مَا کَانَ مِنْہُمَا قَدْ طُبِخَ .فَأَمَّا مَا کَانَ غَیْرَ مَطْبُوْخٍ ، فَہُوَ دَاخِلٌ فِی النَّہْیِ الَّذِیْ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْمَا ذَکَرْنَا عَنْہُ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ اِنَّمَا کَرِہَہُ لِرِیحِہِ وَقَدْ أَبَاحَ أَصْحَابُہُ أَکْلَہٗ۔فَمَا کَانَتْ رِیحُہُ فِیْہِ قَائِمَۃً بَعْدَ الطَّبْخِ ، کَانَ عَلٰی حُکْمِہِ قَبْلَ الطَّبْخِ ، اِذْ کَانَ اِنَّمَا کَرِہَ أَکْلَہٗ فِیْہِمَا جَمِیْعًا ، مِنْ أَجْلِ رِیحِہٖ۔ فَدَلَّ اِبَاحَتُہُ أَکْلَہٗ لَہُمْ بَعْدَ الطَّبْخِ وَرِیحُہُ مَوْجُوْدَۃٌ عَلٰی أَنَّ أَکْلَہُمْ اِیَّاہُ قَبْلَ الطَّبْخِ ، مُبَاحٌ لَہُمْ أَیْضًا .
٦٤٨٤: سفیان بن عبداللہ نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ انھوں نے بصل یاکراث کا نام بھی ذکر کیا اور آخر میں ” لیس بمحرم “ کے لفظ بھی فرمائے ہیں۔ ان آثار میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو لوگوں کے لیے مباح قرار دیا اور یہ حرام نہیں ہے۔ ان روایات میں جو اباحت کے لیے پیش کی گئیں ان میں تو پکے ہوئے پیاز وغیرہ کا ذکر ہے جو پکا ا ہوا نہ ہو وہ تو آثار اول کی نہی میں اسی طرح شامل ہے۔ ان آثار میں تو یہ مذکور ہے کہ اس کی کراہت بدبو کی وجہ سے ہے اور صحابہ کرام (رض) کے لیے اس کا کھانا مباح تھا جس میں بو ابھی پکانے کے باوجود باقی ہو وہ کچے کے حکم میں ہے۔ اس لیے کہ اس کا دونوں صورتوں میں مکروہ ہونا بو کی وجہ سے ہے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ اس کے پکانے کے بعد اس کے کھانے کی اباحت ہے جبکہ اس میں مہک باقی ہے تو اس کا پکانے سے پہلے کھانا بھی ان کے لیے مباح ہے۔

6487

۶۴۸۵: وَقَدْ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَطَائُ بْنُ أَبِیْ رَبَاحٍ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَکَلَ ثُوْمًا أَوْ بَصَلًا ، فَلْیَعْتَزِلْنَا ، أَوْ یَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا فَیَقْعُدْ فِیْ بَیْتِہٖ وَأَنَّہٗ أُتِیَ بِقِدْرٍ ، أَوْ بِبَدْرٍ فِیْہِ خَضْرَاوَاتٌ مِنْ بُقُوْلٍ ، فَوَجَدَ لَہَا رِیحًا فَسَأَلَ عَنْہَا فَأُخْبِرَ بِمَا فِیْہَا مِنَ الْبُقُوْلِ فَقَالَ : قَرِّبُوْہَا اِلٰی بَعْضِ أَصْحَابِہٖ کَانَ مَعَہٗ، فَلَمَّا رَآہٗ کَرِہَ أَکْلَہٗ قَالَ : کُلْ فَاِنِّیْ أُنَاجِی مَنْ لَا تُنَاجِی .
٦٤٨٥: عطاء بن ابی رباح نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے لہسن یا پیاز استعمال کیا۔ وہ ہم سے الگ رہے یا فرمایا وہ ہماری مسجد سے الگ رہے وہ اپنے گھر میں بیٹھے آپ کے پاس ایک تھال یا ہنڈیا لائی گئی جس میں سبزیات تھیں آپ نے اس میں بو پائی آپ نے ان سبزیات کے متعلق پوچھا جو اس میں موجود تھیں۔ تو راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے آپ کے ساتھ والوں کے سامنے رکھ دیا جب انھوں نے دیکھا کہ آپ نے ان کو استعمال نہیں کیا تو انھوں نے بھی کھانا پسند نہ کیا تو فرمایا۔ تم کھاؤ مجھے اس سے بات کرنا ہوتی ہے جس سے تمہیں سرگوشی کی ضرورت نہیں۔ یعنی (فرشتہ)
تخریج : بخاری فی الاذان باب ١٦٠‘ والاطعمہ باب ١٩‘ والاعتصام باب ٢٤‘ ابو داؤد فی الاطعمہ باب ٤٠‘ ترمذی فی الاطعمہ باب ١٣‘ نسائی فی المساجد باب ١٦‘ مسند احمد ٣‘ ٦٥؍٨٥‘ ٣٨٧؍٣٨٧‘ ٤؍١٩٤۔

6488

۶۴۸۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَکَلَ مِنَ الْکُرَّاثِ ، فَلَا یَغْشَنَا فِیْ مَسَاجِدِنَا ، حَتّٰی یَذْہَبَ رِیحُہَا فَاِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَتَأَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْہُ الْاِنْسَانُ .
٦٤٨٦: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو پیاز کھائے وہ مساجد میں ہمارے پاس نہ آئے جب تک کہ اس کی بو نہ دور ہو۔ فرشتوں کو بھی ان چیزوں سے ایذا ہوتی ہے جن سے انسانوں کو پہنچتی ہے۔

6489

۶۴۸۷: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُعَاوِیَۃَ الْعَتَّابِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ح .وَحَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ .ثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ ، عَنْ حَبَّۃَ عَنْ عَلِی قَالَ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَأْکُلَ الثُّوْمَ وَقَالَ لَوْلَا أَنَّ الْمَلَکَ یَنْزِلُ عَلَیَّ ، لَأَکَلْتُہٗ .فَقَدْ دَلَّ مَا ذَکَرْنَا عَلَی اِبَاحَۃِ أَکْلِہَا ، مَطْبُوْخًا کَانَ أَوْ غَیْرَ مَطْبُوْخٍ ، لِمَنْ قَعَدَ فِیْ بَیْتِہٖ، وَکَرَاہَۃِ حُضُوْرِ الْمَسْجِدِ ، وَرِیحُہُ مَوْجُوْدٌ ، لِئَلَّا یُؤْذِیَ بِذٰلِکَ مَنْ یَحْضُرُہُ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ وَبَنِی آدَمَ ، فَبِہٰذَا نَأْخُذُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٦٤٨٧: حبہ نے حضرت علی (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ تم لہسن استعمال کرو اور فرمایا اگر فرشتہ مجھ پر نازل نہ ہوتا تو میں اسے ضرور کھاتا۔ ان روایات سے کھانے کی اباحت ثابت ہوگئی خواہ پکا ہو یا کچا ہو مگر اسے جس نے گھر میں بیٹھنا ہو تاکہ مسجد کی حاضری سے دوسروں کو اس کی بو سے تکلیف نہ ہو۔ وہاں فرشتے اور انسان دونوں موجود ہوتے ہیں اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں یہی ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

6490

۶۴۸۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَاصِمٍ ، قَالَ : ثَنَا الْجُرَیْرِیُّ ، عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : أَحْسَبُہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَا أَتَی أَحَدُکُمْ عَلٰی حَائِطٍ ، فَلْیُنَادِ صَاحِبَہُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، فَاِنْ أَجَابَہٗ، وَاِلَّا فَلْیَأْکُلْ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُفْسِدَ ، وَاِذَا أَتَیْ عَلَی غَنَمٍ ، فَلْیُنَادِ صَاحِبَہُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، فَاِنْ أَجَابَہٗ، وَاِلَّا فَلْیَشْرَبْ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُفْسِدَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ: فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا فَجَعَلُوْا لِمَنْ مَرَّ بِالْحَائِطِ ، أَنْ یُنَادِیَ صَاحِبَہُ ثَلَاثًا ، فَاِنْ أَجَابَہٗ، وَاِلَّا فَأَکَلَ، وَکَذٰلِکَ فِی الْغَنَمِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِی أَنْ یَأْکُلَ مِنْ غَیْرِ ضَرُوْرَۃٍ ، فَاِنْ کَانَتْ ضَرُوْرَۃٌ فَالْأَکْلُ لَہٗ مِنْ ذٰلِکَ وَالشُّرْبُ لَہٗ مُبَاحٌ .قَالُوْا : وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْاِبَاحَۃَ الْمَذْکُوْرَۃَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، ہِیَ عَلَی الضَّرُوْرَۃِ .
٦٤٨٨: ابو نضرہ نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے۔ ابو نضرہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا گزر باغ کے پاس سے ہو تو اس کے مالک کو تین مرتبہ آواز دے اگر وہ جواب دے تو مناسب ہے ورنہ بگاڑنے کے بغیر کھائے اور جب بکریوں کے پاس سے گزرے تو اس کے مالک کو تین مرتبہ آواز دے اگر وہ جواب دے تو مناسب ہے ورنہ خرابی پیدا کرنے کے بغیر پی لے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگ اس طرف گئے ہیں انھوں نے اس روایت کو اس آدمی سے متعلق قرار دیا جس کا گزر کسی باغ سے ہو تو وہ اسے تین مرتبہ آواز دے پھر اگر وہ جواب دے تو ٹھیک ورنہ اس سے پھل استعمال کرے اور بکریوں میں بھی اسی طرح۔ دوسروں نے کہا بلاضرورت استعمال کرنا جائز نہیں اگر ضرورت پیش آجائے تو اسے کھانا اور پینا دونوں مباح ہیں۔ اس روایت کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے کہ اس روایت میں اباحت مذکورہ کا تعلق ضرورت سے ہے۔
بعض لوگوں کا قول یہ ہے کہ اگر کسی باغ کے پاس سے گزرے اس کو تین مرتبہ آواز سے جواب آئے تو ٹھیک ورنہ اس باغ کے پھل کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
فریق ثانی : اگر کسی کی چیز استعمال کی نوبت مجبوراً پہنچے تو استعمال کرے ورنہ بلاضرورت شدیدہ استعمال نہ کرے اگر اس وقت بھی احتراز کرے تو بہتر ہے۔

6491

۶۴۸۹: فَذَکَرُوْا مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُخَوَّلُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِصْمَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ یَقُوْلُ : اِذَا أَرْمَلَ الْقَوْمُ فَصَبَّحُوْا الْاِبِلَ ، فَلْیُنَادُوْا الرَّاعِیَ ثَلَاثًا ، فَاِنْ لَمْ یَجِدُوْا الرَّاعِیَ ، وَوَجَدُوْا الْاِبِلَ ، فَلْیَتَصَبَّحُوْا لَبَنَ الرَّاوِیَۃِ ، اِنَّ کَانَ فِی الْاِبِلِ رَاوِیَۃٌ ، وَلَا حَقَّ لَہُمْ فِیْ بَقِیَّتِہَا ، فَاِنْ جَائَ الرَّاعِی ، فَلْیُمْسِکْہُ رَجُلَانِ وَلَا یُقَاتِلُوْھُ ، وَیَشْرَبُوْا ، فَاِنْ کَانَ مَعَہُمْ دَرَاہِمُ ، فَہُوَ حَرَامٌ عَلَیْہِمْ اِلَّا بِاِذْنِ أَہْلِہَا . فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ مَا أُبِیْحَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، اِنَّمَا ہُوَ الضَّرُوْرَۃُ .وَقَدْ جَائَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا یَدُلُّ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی أَیْضًا .
٦٤٨٩: عبداللہ بن عصمہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) کو فرماتے سنا کہ جس وقت لوگوں کے پاس زاد راہ ختم ہوجائے اور ان کا گزر اونٹوں والوں کے پاس سے ہو تو انھیں چاہیے کہ چرواہے کو تین مرتبہ آواز دیں اگر چرواہا نہ ملے اور اونٹ مل جائے تو پانی لینے والی اونٹنی کا دودھ دوھ لیں اگر اونٹوں میں پانی لانے والی اونٹنی ہو بقیہ اونٹوں کا ان پر کوئی حق نہیں اگر اس دوران میں چرواہا آجائے تو اس کو دو آدمی روک لیں اور اس سے لڑائی نہ کریں اور دودھ پی لیں اگر ان کے پاس دراہم موجود ہوں تو مالکوں کی اجازت کے بغیر وہ دودھ ان پر حرام ہے۔ اس روایت میں دلیل ہے کہ حدیث اول میں جو چیز ان کے لیے مباح کی گئی وہ ضرورت کی بنیاد پر ہے اور یہی معنی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دیگر احادیث میں مروی ہے روایت یہ ہے :

6492

۶۴۹۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ بَکْرِ بْنِ مُضَرَ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْہَادِ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا یَحْتَلِبَنَّ أَحَدُکُمْ مَاشِیَۃَ أَخِیْہِ بِغَیْرِ اِذْنِہٖ، أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یُؤْتَی مَعًا مَشْرُبَتُہٗ، فَیُکْسَرَ خِزَانَتُہٗ، فَیُحْمَلَ طَعَامُہٗ؟ فَاِنَّمَا تَخْزُنُ لَہُمْ ضُرُوْعُ مَوَاشِیہِمْ أَطْعِمَتَہُمْ ، فَلَا یَحْتَلِبَنَّ أَحَدُکُمْ مَاشِیَۃَ امْرِئٍ اِلَّا بِاِذْنِہِ .
٦٤٩٠: یزید بن ہاد نے انس بن مالک (رض) انھوں نے نافع سے انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ تم میں کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے چوپایوں کو بلااجازت نہ دوہے کیا تم میں کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ اس کے پینے کے گھاٹ پر آئے اور اس کی الماری کو توڑے اور اس کا غلہ اٹھا کرلے جائے ان کے چوپاؤں کے تھن ان کے لیے خزانہ ہیں جو وہ کھاتے ہیں تم میں سے کوئی بھی کسی آدمی کے چوپاؤں کا دودھ بلا اجازت ہرگز نہ دوہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الجہاد باب ٨٥‘ ابن ماجہ فی التجارات باب ٤٨‘ مالک فی الاستیذان روایت ١٧‘ مسند احمد ٢؍٦۔

6493

۶۴۹۱: حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا الثَّوْرِیُّ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أُمَیَّۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٦٤٩١: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6494

۶۴۹۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُصْمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ رَفَعَہُ قَالَ : لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ نَخْلُ صِوَارِ نَاقَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ أَہْلِہَا فَاِنَّہٗ خَاتَمُہُمْ عَلَیْہَا .
٦٤٩٢: عبداللہ بن عصم کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید (رض) کو مرفوع روایت بیان کرتے سنا کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اونٹنیوں کے غلے سے ان کے مالکوں کی اجازت کے بغیر کوئی چیز لیں ان کی ان پر وہی مہر ہے۔

6495

۶۴۹۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ سُہَیْلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ أَبِیْ حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ أَنْ یَأْخُذَ عَصَا أَخِیْہِ بِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسٍ مِنْہُ قَالَ وَذٰلِکَ لِشِدَّۃِ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِ .
٦٤٩٣: حضرت عبدالرحمن بن سعید نے حضرت ابو حمید ساعدی سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی کو اس کی اجازت کے بغیر لے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا مال مسلمانوں پر اللہ نے بہت سخت طور پر حرام کیا ہے۔
تخریج : مسند احمد ٥؍٤٢٥۔

6496

۶۴۹۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ حَارِثَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ یَثْرِبِی قَالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِیْہِ شَیْئٌ اِلَّا بِطِیْبِ نَفْسٍ مِنْہُ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنْ لَقِیْتُ غَنَمَ ابْنِ عَمِّی ، آخُذُ مِنْہَا شَیْئًا ؟ فَقَالَ اِنْ لَقِیْتَہَا تَحْمِلُ شَفْرَۃً وَأَزْنَادًا ، بِخَبْتِ الْجَمِیشِ کَذَا فِی النُّسَخِ الْمَنْقُوْلِ عَنْہَا فَلَا تُہِجْہَا .فَہٰذِہِ الْآثَارُ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، تَمْنَعُ مَا تَوَہَّمَ مَنْ ذَہَبَ فِیْ تَأْوِیْلِ الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، اِلٰی مَا ذَکَرْنَاہُ .وَلَوْ ثَبَتَ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ ، لَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْحَدِیْثُ ، کَانَ فِیْ حَالِ وُجُوْبِ الضِّیَافَۃِ ، حِیْنَ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہَا ، وَأَوْجَبَہَا لِلْمُسَافِرِیْنَ ، عَلَی مَنْ حَلُّوْا بِہٖ .
٦٤٩٤: عمارہ بن حارثہ نے عمرو یثربی سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی اس کی خوش طبعی کے بغیر لے ‘ میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں اپنے چچازاد بھائی کی بکریاں پاؤں کیا اس میں سے کوئی چیز لے سکتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تو ان بکریوں کو اس حال میں پالے کہ وہ چھری اور چقماق اٹھائے ہوئے ہو اور بےآب وگیاہ زمین میں ہو تب بھی اس کو پریشان نہ کر۔ پہلی حدیث کی جو تاویل فریق اول نے کی اس سے جو وہم پیدا ہوتا تھا یہ تمام آثار اس کی تردید کرتے ہیں اگر بالفرض پہلی روایت کی وہ تاویل مان بھی لی جائے تب بھی یہ احتمال ہے کہ اس روایت کا تعلق اس موقع سے ہے جب ضیافت لازم ہوجاتی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسافرین کے لیے جہاں وہ اتریں اس کو لازم قرار دیا اس روایت کا تعلق اس موقع سے ہے (جیسا کہ ان روایات سے ثابت ہے)

6497

۶۴۹۵: فَاِنَّہٗ حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، وَوَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْمِقْدَامِ ، أَبِیْ کَرِیْمَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃُ الضَّیْفِ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ ، فَاِنْ أَصْبَحَ بِفِنَائِہٖ، فَاِنَّہٗ دَیْنٌ ، اِنْ شَائَ اقْتَضَاہٗ، وَاِنْ شَائَ تَرَکَہُ .
٦٤٩٥: شعبی نے مقدام ابو کریمہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر مسلمان پر مہمان کی رات کی ضیافت واجب ہے اور اگر وہ اس کے صحن میں صبح کرے تو وہ قرض ہے خواہ اسے پورا کرے یا چھوڑ دے۔
تخریج : ابو داؤد فی الاطعمۃ باب ٥‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٥‘ مسند احمد ٤؍١٣٠۔

6498

۶۴۹۶: حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٤٩٦: ابو داؤد نے شعبہ سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح ذکر کی۔

6499

۶۴۹۷: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ مَنْصُوْرٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٤٩٧: حصیب نے وہیب سے انھوں نے منصور سے پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6500

۶۴۹۸: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ حَدَّثَہٗ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَیُّمَا ضَیْفٍ نَزَلَ بِقَوْمٍ ، فَأَصْبَحَ الضَّیْفُ مَحْرُوْمًا ، فَلَہٗ أَنْ یَأْخُذَ بِقَدْرِ قِرَاہٗ، وَلَا حَرَجَ عَلَیْہِ .
٦٤٩٨: ابو طلحہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس کسی کے پاس کوئی مہمان جائے اور صبح تک مہمان محروم رہے تو مہمانی کی مقدار چیز لے لینے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٨٠۔

6501

۶۴۹۹: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا عَمِّی ، قَالَ : ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ نُعَیْمِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٤٩٩: نعیم بن زیاد نے ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6502

۶۵۰۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُسْہِرٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ ، عَنِ الزُّبَیْدِیِّ ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ رُؤْبَۃَ أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ عَوْفٍ الْجُرَشِیِّ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیْ کَرِبَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَیُّمَا رَجُلٍ ضَافَ بِقَوْمٍ ، فَلَمْ یَقْرُوْھُ ، کَانَ لَہٗ أَنْ یُعْقِبَہُمْ بِمِثْلِ قِرَاہُ .
٦٥٠٠: عبدالرحمن بن ابی عوف جرشی نے حضرت مقدام بن معدی کرب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی کسی کے ہاں مہمان بنا اور انھوں نے اس کی مہمانی نہیں کی تو اس کو حق حاصل ہے کہ وہ مہمانی کی مقدار ان سے اپنا حق وصول کرے۔
تخریج : ابو داؤد فی الاطعمہ باب ٣٢‘ دارمی فی الاطعمہ باب ١١۔

6503

۶۵۰۱: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّک تَبْعَثُنَا فَنَمُرُّ بِقَوْمٍ .قَالَ اِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوْا لَکُمْ بِمَا یَنْبَغِی لِلضَّیْفِ ، فَاقْبَلُوْا ، فَاِنْ لَمْ یَفْعَلُوْا ، فَخُذُوْا مِنْہُمْ حَقَّ الضَّیْفِ الَّذِیْ یَنْبَغِی .فَأَوْجَبَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، الضِّیَافَۃَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، وَجَعَلَہَا دَیْنًا وَجَعَلَ لِلَّذِی وَجَبَتْ لَہٗ أَخْذَہَا ، کَمَا یَأْخُذُ الدَّیْنَ .ثُمَّ نَسَخَ ذٰلِکَ .فَمَا رُوِیَ فِیْ نَسْخِہٖ،
٦٥٠١: ابوالخیر نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے ہم نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور ہمارا کسی قوم کے پاس سے گزر ہوتا ہے ‘ آپ نے فرمایا اگر تم کسی قوم کے پاس اترو اگر وہ اس بات کا حکم دے دیں جو مہمان کے لیے مناسب ہے تو اسے قبول کرلو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے اپنا مناسب حق وصول کرو۔ ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ضیافت واجب ہے اور اس کو قرض کی طرح قرار دیا اور جس کے لیے واجب ہوئی ہے وہ اسے قرض کی طرح لے سکتا ہے پھر یہ حکم منسوخ کردیا گیا (روایات نسخ یہ ہیں)
تخریج : بخاری فی المظالم باب ١٨‘ مسلم فی اللقطہ روایت ١٧‘ ابو داؤد فی الاطعمۃ باب ٥‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٥‘ مسند احمد ٤؍١٤٩۔
روایات نسخ :

6504

۶۵۰۲: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ ، قَالَ : ثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی قَالَ : ثَنَا الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ قَالَ : جِئْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِی ، قَدْ کَادَتْ أَنْ تَذْہَبَ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجُوْعِ ، فَجَعَلْنَا نَتَعَرَّضُ لِلنَّاسِ فَلَمْ یُضِفْنَا أَحَدٌ .فَأَتَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَصَابَنَا جُوْعٌ شَدِیدٌ ، فَتَعَرَّضْنَا لِلنَّاسِ فَلَمْ یُضِفْنَا أَحَدٌ فَأَتَیْنَاک .فَذَہَبَ بِنَا اِلَی مَنْزِلِہٖ ، وَعِنْدَہٗ أَرْبَعَۃُ أَعْنُزٍ ، فَقَالَ : یَا مِقْدَادُ ، أَحْلِبْہُنَّ ، وَجَزِّئٍ اللَّبَنَ کُلَّ اثْنَیْنِ جُزْئً ا وَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا .
٦٥٠٢: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت مقداد بن اسود (رض) سے روایت کی ہے۔ میں اور میرا ایک دوست آئے قریب تھا کہ بھوک کی وجہ سے ہماری شنوائی اور آنکھیں جاتی رہیں ہم نے اپنے آپ کو لوگوں پر پیش کیا مگر ہماری کسی نے مہمانی نہ کی۔ پھر ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمیں سخت بھوک نے آلیا۔ ہم نے اپنے آپ کو لوگوں پر پیش کیا مگر کسی نے ہماری مہمانی نہ کی پس ہم آپ کی خدمت میں آئے ہیں آپ ہمیں اپنے مکان پر لے گئے اس وقت آپ کے پاس چار بکریاں تھیں آپ نے فرمایا اے مقداد ان کو دوہ اور ہر دودھ کو دو حصوں میں بانٹتے جاؤ اور طویل روایت بیان کی۔

6505

۶۵۰۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَدِمْت الْمَدِیْنَۃَ أَنَا وَصَاحِبٌ لِی ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔أَفَلَا تَرَی أَنَّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُضَیِّفُوْھُمْ ، وَقَدْ بَلَغَتْ بِہِمُ الْحَاجَۃُ اِلٰی مَا ذَکَرَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، ثُمَّ لَمْ یُعَنِّفْہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ذٰلِکَ .فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَا عَلٰی نَسْخِ مَا کَانَ أَوْجَبَ عَلَی النَّاسِ مِنْ الضِّیَافَۃِ .وَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَالُ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ ، کَحُرْمَۃِ دَمِہِ .
٦٥٠٣: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت مقداد بن اسود (رض) سے روایت کی کہ میں اور میرا ایک ساتھی مدینہ منورہ آئے پھر اسی طرح روایت نقل کی۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مہمانی نہیں کی۔ حالانکہ ضرورت نے ان کو انتہاء تک پہنچا دیا تھا جیسا کہ روایت میں مذکور ہے۔ پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان پر سختی نہ کی۔ پس جو ہم نے بیان کیا ہے اس سے ضیافت کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہم پہلے یہ روایت ذکر کر آئے کہ ” مال المسلم علی المسلم حرام “ ۔ (الحدیث)

6506

۶۵۰۴: وَقَدْ حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہِ أَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : لَا یَأْخُذْ أَحَدُکُمْ مَتَاعَ صَاحِبِہٖ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا ، وَاِذَا أَخَذَ أَحَدُکُمْ عَصَا أَخِیْہٖ، فَلْیَرُدَّہَا اِلَیْہِ .وَقَدْ عَمِلَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الضِّیَافَۃِ ،
٦٥٠٤: عبداللہ بن سائب نے اپنے والد اپنے دادا سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا تم میں سے کوئی شخص دوسرے کا سامان بطور مذاق اور نہ ہی سنجیدگی سے لے۔ جب تم میں سے کوئی دوسرے ساتھی کی لاٹھی لے تو پھر وہ اس کو واپس کر دے۔
تخریج : ابو داؤد فی الادب باب ٨٥‘ ترمذی فی الفتن باب ٣‘ مسند احمد ٤؍٢٢١۔
عمل صحابہ کرام (رض) سے ثبوت :

6507

۶۵۰۵: بِمَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیْدَ الْعَطَّارُ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ، مَوْلٰی سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ : کُنْتُ مَعَ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ فِیْ سَفَرٍ ، فَآوَانَا اللَّیْلُ اِلَی قَرْیَۃِ دِہْقَانٍ ، وَاِذَا الْاِبِلُ عَلَیْہَا أَحْمَالُہَا .فَقَالَ لِیْ سَعْدٌ اِنْ کُنْتُ تُرِیْدُ أَنْ تَکُوْنَ مُسْلِمًا حَقًّا ، فَلَا تَأْکُلْ مِنْہَا شَیْئًا فَبِتْنَا جَائِعَیْنِ .فَہٰذَا سَعْدُ یَقُوْلُ اِنْ سَرَّک أَنْ تَکُوْنَ مُسْلِمًا حَقًّا ، فَلَا تَأْکُلْ مِنْہَا شَیْئًا فَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ اِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَہٗ، حَقِیْقَۃُ عِلْمِہٖ بِہٖ ، اِذْ کَانَ عِنْدَہُ مِنْ أُمُوْرِ الْاِسْلَامِ ، وَلَمْ یَأْخُذْ أَہْلَ الْقَرْیَۃِ بِحَقِّ الضِّیَافَۃِ .فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّہٗ لَمْ تَکُنْ - حِیْنَئِذٍ - الضِّیَافَۃُ وَاجِبَۃً ، وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی أَعْلَمُ .
٦٥٠٥: سعد بن ابی وقاص کے مولیٰ عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں سعد (رض) کے ساتھ سفر میں تھا۔ ہم نے رات کو دہقان بستی میں قیام کیا۔ اچانک ہم نے اونٹ دیکھے کہ جن پر ان کے بوجھ لادے تھے۔ تو مجھے حضرت سعد (رض) نے فرمایا اگر تو سچا مسلمان ہے تو ان چیزوں میں سے کوئی چیز مت کھانا چنانچہ ہم نے بھوک کی حالت میں رات گزاری۔ یہ حضرت سعد (رض) جو اپنے غلام کو فرما رہے ہیں کہ اگر تو سچا مسلمان ہے تو ان کی کوئی چیز بلااجازت مت کھانا۔ یہ بات یقینی ہے کہ ان کو اپنے امور اسلام پر وسیع علم کی وجہ سے حق ضیافت کے متعلق معلوم تھا کہ وہ لازم نہیں۔ زبردستی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ واجب نہ رہی تھی۔ واللہ اعلم۔
امام طحاوی (رح) نے فریق ثانی کے مسلک کو ترجیح دی ہے کہ ضیافت کا وجوب منسوخ ہوچکا۔ اب کھلائے تو تبرع اور نیکی ہے۔

6508

۶۵۰۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِمَتْ عَلَیْہِ أَقْبِیَۃٌ ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ أَبِیْ مَخْرَمَۃَ ، فَقَالَ : یَا بُنَیَّ ، اِنَّہٗ قَدْ بَلَغَنِیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِمَتْ عَلَیْہِ أَقْبِیَۃٌ فَہُوَ یَقْسِمُہَا ، فَاذْہَبْ بِنَا اِلَیْہِ .قَالَ : فَذَہَبْنَا ، فَوَجَدْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَنْزِلِہِ فَقَالَ لِی أَبِی: یَا بُنَیَّ ، اُدْعُ لِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ الْمِسْوَرُ : فَأَعْظَمْتُ ذٰلِکَ، وَقُلْتُ أَدْعُو لَک رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ ، ، .فَقَالَ : یَا بُنَیَّ ، اِنَّہٗ لَیْسَ بِجَبَّارٍ. فَدَعَوْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَخَرَجَ وَعَلَیْہِ قَبَائٌ مِنْ دِیْبَاجٍ مُزَرٌّ بِذَہَبٍ فَقَالَ یَا مَخْرَمَۃُ ، ہٰذَا خَبَّأْتُہُ لَک فَأَعْطَاہُ اِیَّاہُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلَی ہٰذَا، فَقَالُوْا لَا بَأْسَ بِلُبْسِ الْحَرِیْرِ ، لِلرِّجَالِ وَالنِّسَائِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَکَرِہُوْا لُبْسَ الْحَرِیْرِ لِلرِّجَالِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِالْآثَارِ الْمُتَوَاتِرَۃِ الْمَرْوِیَّۃِ ، فِی النَّہْیِ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَمِنْہَا ، مَا
٦٥٠٦: ابن ابی ملیکہ نے حضرت مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں جبے آئے یہ بات ابو مخرمہ کو پہنچی تو انھوں نے کہا اے بیٹے مجھے یہ معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں کچھ جبّے آئے ہیں اور آپ ان کو تقسیم فرما رہے ہیں تو تم ہمیں وہاں لے جاؤ۔ مسور کہتے ہیں کہ ہم وہاں گئے ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے مکان میں پایا۔ میرے والد نے کہا میرے بیٹے ۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرے لیے بلاؤ۔ مسور کہتے ہیں میں نے اس بات کو بڑا سمجھا اور میں نے کہا کیا میں تمہارے لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلاؤں ؟ انھوں نے کہا وہ سخت خو نہیں ہیں۔ پس میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دی تو آپ باہر تشریف لائے اور ایک ریشمی جبہ پہن رکھا تھا اس میں سونے کا کڑھاؤ تھا اور فرمایا اے مخرمہ یہ جبہ میں نے تمہارے لیے چھپا کر رکھا تھا۔ وہ جبہ آپ نے مخرمہ کو دیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ریشمی لباس میں کوئی حرج نہیں خواہ مرد پہنیں یا عورتیں اور انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے کہا انھوں نے ریشم کا پہننا مردوں کے لیے مکروہ قرار دیا اور آثار متواترہ سے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہوئے ہیں استدلال کیا۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٤٤‘ مسلم فی اللباس ١٦‘ مسند احمد ٣؍٣٨٣۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ریشم کا لباس مرد و عورت ہر ایک کے لیے درست ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ ریشم کا پہننا مکروہ تحریمی اور ممنوع ہے اس قول کو ائمہ احناف نے اختیار کیا ہے۔

6509

۶۵۰۷: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَبَ بِالْجَابِیَۃِ ، فَقَالَ : نَہَیْ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ اِلَّا مَوْضِعَ أُصْبُعَیْنِ أَوْ ثَلَاثٍ أَوْ أَرْبَعٍ .
٦٥٠٧: سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جابیہ میں خطبہ دیا اور فرمایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریشم پہننے سے منع فرمایا مگر دو انگلیوں یا تین انگلیوں یا چار انگلیوں کی مقدار۔
تخریج : ترمذی فی اللباس باب ١۔

6510

۶۵۰۸: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا مُعَاذٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ ، اِلَّا مَوْضِعَ أُصْبُعَیْنِ ، أَوْ ثَلَاثٍ ، أَوْ أَرْبَعٍ .
٦٥٠٨: ابو عثمان نہدی نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ریشم پہننے سے منع فرمایا سوائے دو تین یا چار انگلیوں کی مقدار۔

6511

۶۵۰۹: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اِیَّاکُمْ وَالْحَرِیْرَ ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہٰی عَنْہُ وَقَالَ : لَا تَلْبَسُوْا مِنْہُ اِلَّا مَا کَانَ ہٰکَذَا وَأَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأُصْبُعَیْہِ .
٦٥٠٩: ابو عثمان نہدی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اپنے آپ کو ریشم سے بچاؤ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع کیا اور فرمایا اسے نہ پہنو مگر اس طرح اور اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔
تخریج : مسلم فی اللباس باب ١٢‘ ١٣‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ١٨۔

6512

۶۵۱۰: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٥١٠: حسین بن نصر کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ہارون سے سنا پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6513

۶۵۱۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ ، قَالَ : أَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ ، وَأَنَا بِأَذْرَبِیجَانَ ، مَعَ عُتْبَۃَ بْنِ فَرْقَدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَانَا عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ اِلَّا ہٰکَذَا ، قَالَ : فَأَعْلَمَنَا أَنَّہَا الْأَعْلَامُ .
٦٥١١: ابو عثمان نہدی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا خط آیا جب کہ میں عتبہ بن فرقد کے ساتھ آذر بائیجان میں تھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح کے علاوہ ہمیں ریشم پہننے سے منع فرمایا اور انھوں نے ہمیں بتلایا کہ وہ نشانات ہیں۔

6514

۶۵۱۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَمِیْلِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْوَضِیئِ قَالَ : رَأَیْتُ عَلِیًّا ، وَرَأٰی عَلٰی رَجُلٍ بُرْدًا یَتَلَأْلَأُ فَقَالَ : فِیْہِ حَرِیْرٌ ؟ ، فَقَالَ : نَعَمْ ؛ فَأَخَذَہٗ، فَجَمَعَ صِنْفَتَیْہِ بَیْنَ أُصْبُعَیْہِ فَشَقَّہُ فَقَالَ أَمَا اِنِّیْ لَمْ أَحْسُدْکَ عَلَیْہٖ، وَلٰـکِنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْحَرِیْرِ .
٦٥١٢: ابوالوضئی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو دیکھا اور انھوں نے ایک آدمی پر ایک چادر دیکھی جو چمک رہی تھی تو انھوں نے فرمایا اس میں ریشم ہے چنانچہ اس نے جواب میں کہا کہ ہاں پس اس کو پکڑا اور اس کے دونوں کناروں کو اپنی دونوں انگلیوں کے درمیان جمع کیا اور اس کو چیر دیا اور فرمایا مجھے تم پر کوئی حسد نہیں ہو الیکن میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے ریشم سے منع فرمایا۔

6515

۶۵۱۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَارِمٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ مَرَرْتُ بِعُطَارِدٍ ، أَوْ بِلَبِیْدٍ ، وَہُوَ یَعْرِضُ عَلَیْہِ حُلَّۃَ حَرِیْرٍ، فَلَوْ اشْتَرَیْتَہَا لِلْجُمُعَۃِ وَلِلْوُفُوْدِ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا ، مَنْ لَا خَلَاقَ لَہٗ فِی الْآخِرَۃِ .
٦٥١٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطارد اور لبید کے پاس سے میرا گزر ہوا تو ان کو ریشمی حلہ پیش کیا جا رہا تھا اگر میں آپ کے لیے خرید لیتا تاکہ آپ جمعہ اور وفود کے لیے اس کو استعمال فرمائیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا میں وہ ریشم پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ٦٦‘ مسلم فی اللباس حدیث ٧‘ ١٠‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ١٦‘ مسند احمد ٢؍٢٤‘ ٤٩۔

6516

۶۵۱۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ ، عُطَارِدًا ، وَلَا لَبِیْدًا .
٦٥١٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے البتہ عطادر اور لبید کا ذکر نہیں کیا۔

6517

۶۵۱۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، وَعَمْرٌو ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَذَکَرَ أَنَّ الرَّجُلَ عُطَارِدٌ ، أَوْ لَبِیْدٌ .
٦٥١٥: سالم نے اپنے والد سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی اور بیان کیا کہ وہ آدمی عطارد یا لبید ہے۔

6518

۶۵۱۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ : قَالَ لِیْ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ : مَا الْاِسْتَبْرَقُ ؟ .قُلْتُ : مَا غَلُظَ مِنْ الدِّیْبَاجِ ، وَخَشُنَ مِنْہُ .فَقَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ : رَأَیْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلٰی رَجُلٍ حُلَّۃً مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ، فَأَتَی بِہَا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اشْتَرِ ہٰذِہٖ، فَالْبَسْہَا لِوَفْدِ النَّاسِ ، اِذَا قَدِمَ عَلَیْکَ .فَقَالَ : اِنَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرَ ، مَنْ لَا خَلَاقَ لَہٗ قَالَ : فَمَضَی لِذٰلِکَ مَا مَضَی .ثُمَّ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بَعَثَ اِلَیْہِ بِحُلَّۃٍ فَأَتَاہُ بِہَا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، بَعَثْتَ اِلَیَّ بِہٰذِہٖ، وَقَدْ قُلْتَ فِیْ مِثْلِ ہٰذَا مَا قُلْتَ ؟ .فَقَالَ اِنَّمَا بَعَثْتُ اِلَیْکَ بِہَا لِتُصِیْبَ بِہَا مَالًا .وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ یَکْرَہُ الْعَلَمَ فِی الثَّوْبِ مِنْ أَجْلِ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .
٦٥١٦: ابو اسحق کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے کہا کہ استبرق کیا ہے میں نے کہا موٹا اور کھردرا ریشم وہ کہنے لگے میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ عمر (رض) نے ایک آدمی پر استبرق کا جوڑا دیکھا وہ اس کو لے کر آئے اور کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو خرید لیں تاکہ وفود کے لیے آپ اس کو پہنیں جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا ریشم وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ بات آئی گئی ہوگئی پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کی طرف ایک ریشمی جوڑا بھیجا حضرت عمر (رض) اس کو لے کر آئے اور کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے یہ میری طرف بھیجا ہے حالانکہ آپ اس جیسے جوڑے کے بارے میں وہ فرما چکے جو آپ فرما چکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے یہ جوڑا تمہاری طرف اس لیے بھیجا تاکہ اس سے تم مال حاصل کرو۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) اس حدیث کی وجہ سے کپڑے میں نقش و نگار کو ناپسند کرتے تھے۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ١٤‘ مسلم فی اللباس روایت ٨‘ ٩۔

6519

۶۵۱۷: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبِی قَالَ : سَمِعْتُ الصَّقْعَبَ بْنَ زُہَیْرٍ ، یُحَدِّثُ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : أَتَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِیٌّ ، عَلَیْہِ جُبَّۃٌ مَکْفُوْفَۃٌ بِحَرِیْرٍ ، أَوْ قَالَ : مَزْرُوْرَۃٌ بِدِیْبَاجٍ ، فَقَامَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا وَأَخَذَ بِمَجَامِعِ جُبَّتِہِ فَجَذَبَہَا بِہٖ ثُمَّ قَالَ : لَا أَرٰی عَلَیْکَ ثِیَابَ مَنْ لَا یَعْقِلُ وَہُوَ حَدِیْثٌ طَوِیْلٌ ، فَاخْتَصَرْنَا مِنْہُ ہٰذَا الْمَعْنَی .
٦٥١٧: عطاء ابن یسار نے عبداللہ ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دیہاتی آیا جس پر ریشمی آستینوں والاجبہ تھا یا ریشمی بٹن بنے ہوئے تھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف ناراضگی سے کھڑے ہوئے اور اس کو جبے کی آستین سے پکڑا اور اس کو کھینچا پھر فرمایا کیا میں تم پر بےعقل لوگوں کا لباس نہیں دیکھتا یہ حدیث طویل ہے ہم نے اس میں یہ مفہوم مختصر کرلیا ہے۔

6520

۶۵۱۸: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیْ شَیْخٍ الْہُنَائِیِّ قَالَ : کُنْتُ فِیْ مَلَاٍِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ فَقَالَ : أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ ، ہَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ ؟ قَالَ : قَالُوْا اللّٰہُمَّ نَعَمْ قَالَ : وَأَنَا أَشْہَدُ .
٦٥١٨: ابو شیخ ہنائی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی ایک جماعت میں حضرت امیر معاویہ کے پاس تھا آپ نے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریشم پہننے سے منع فرمایا انھوں نے کہا جی ہاں اللہ کی قسم۔ آپ نے کہا میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں۔

6521

۶۵۱۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٥١٩: حجاج نے حمام سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت بیان کی ہے۔

6522

۶۵۲۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنِیْ حُمَیْدٌ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرَ ، مَنْ لَا خَلَاقَ لَہٗ .
٦٥٢٠: بکر بن عبداللہ نے ابن عمر (رض) سے وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ریشم وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

6523

۶۵۲۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، قَالَ ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ ، قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا حُمْرَانُ ، قَالَ : حَجَّ مُعَاوِیَۃُ ، فَدَعَا نَفَرًا مِنَ الْأَنْصَارِ فِی الْکَعْبَۃِ فَقَالَ أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ ، أَلَمْ تَسْمَعُوْا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہٰی عَنْ ثِیَابِ الْحَرِیْرِ ؟ فَقَالُوْا : اللّٰہُمَّ نَعَمْ ، قَالَ : وَأَنَا أَشْہَدُ .
٦٥٢١: حمران کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے حج کیا اور انصار کی ایک جماعت کو کعبہ میں بلایا اور فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم نے نہیں سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریشمی لباس سے منع فرمایا ہے انھوں نے کہا اللہ کی قسم ایسا ہی ہے پھر انھوں نے فرمایا میں بھی اس بات پر گواہ ہوں۔

6524

۶۵۲۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی قَالَ : اسْتَسْقَی حُذَیْفَۃُ بِالْمَدَائِنِ فَأَتَاہُ دِہْقَانٌ بِاِنَائٍ مِنْ فِضَّۃٍ ، فَرَمَی بِہٖ ثُمَّ قَالَ اِنِّیْ کُنْتُ نَہَیْتُہُ عَنْہُ فَأَبَی أَنْ یَنْتَہِیَ ، اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الشُّرْبِ فِیْ آنِیَۃِ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ وَالدِّیْبَاجِ وَقَالَ دَعُوْھُ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا ، وَہِیَ لَکُمْ فِی الْآخِرَۃِ۔
٦٥٢٢: ابن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے مدائن میں پانی مانگا ان کے پاس ایک دیہاتی چاندی کے پیالے میں پانی لایا پھر فرمایا میں نے اس کو منع کیا تھا اس نے باز رہنے سے انکار کردیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے اور چاندی کے برتنوں میں پانی پینے سے منع فرمایا ہے اور اسی طرح باریک اور موٹا ریشم پہننے سے اور فرمایا کہ یہ ان کے لیے دنیا میں چھوڑ دو تمہارے لیے آخرت میں ہوں گے۔

6525

۶۵۲۳: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، مِثْلَہٗ۔
٦٥٢٣: حکم نے ابن ابی لیلیٰ نے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6526

۶۵۲۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا مَسْعُوْدُ بْنُ سَعْدٍ الْجُعْفِیُّ ، عَنْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ زِیَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، مِثْلَہٗ۔
٦٥٢٤: یزید بن ابی زیاد نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6527

۶۵۲۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو اِسْحَاقَ الضَّرِیْرُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، مِثْلَہٗ۔
٦٥٢٥: مجاہد نے ابن ابی لیلیٰ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6528

۶۵۲۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْھَاعَنْ مُعَاوِیَۃَ قَالَ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ وَالذَّہَبِ .
٦٥٢٦: علی بن عبداللہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت معاویہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریشم اور سونا پہننے سے منع فرمایا۔

6529

۶۵۲۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ لَیْثٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہٰی عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ .
٦٥٢٧: بنی لیث کے ایک آدمی نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریشم پہننے سے منع فرمایا۔

6530

۶۵۲۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو التَّیَّاحِ ، عَنْ حَفْصٍ اللَّیْثِیِّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٥٢٨: حفص لیثی نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6531

۶۵۲۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَیَّاشٌ الرَّقَّامُ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ مَطَرٍ عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا أَلْبَسُ الْقَمِیْصَ الْمُکَفَّفَ بِالْحَرِیْرِ وَأَوْمَی الْحَسَنُ اِلَی جَیْبِ قَمِیْصِہٖ۔
٦٥٢٩: حسن نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اس قمیص کو نہیں پہنتا جس کی آستین ریشم کی بنی ہوئی ہوں اور حسن (رح) نے اپنے قمیص کے گریبان کی طرف اشارہ فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ٨‘ مسند احمد ٤؍٤٤٢۔

6532

۶۵۳۰: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَنِیِّ بْنِ أَبِیْ عَقِیْلٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، ح .
٦٥٣٠: عبدالرحمن بن زیاد سے شعبہ سے روایت نقل کی ہے۔

6533

۶۵۳۱: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، وَوَہْبٌ قَالَا ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ سُوَیْد بْنِ مُقَرِّنٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ : نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ وَالدِّیْبَاجِ ، وَالشُّرْبِ فِیْ آنِیَۃِ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ .
٦٥٣١: معاویہ بن سوید نے حضرت بارء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں موٹا اور باریک ریشم پہننے اور سونا چاندی کے برتنوں میں پینے کی ممانعت فرمائی۔
تخریج : بخاری فی الاشربہ باب ٢٧‘ ابو داؤد فی الاشربہ باب ١٧‘ ترمذی فی الاشربہ باب ١٠‘ مسند احمد ٤؍٩٢۔

6534

۶۵۳۲: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ یَقُوْلُ : قَالَ : مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ .
٦٥٣٢: ثابت بنانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن زبیر کو یہ کہتے سنا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٢٥‘ مسلم فی اللباس روایت ١١‘ ٢١‘ ترمذی فی الادب باب ١‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ١٦‘ مسند احمد ١؍٢٠‘ ٢؍١٦٦‘ ٣؍٢٣‘ ٤؍١٥٦‘ ٦؍٣٢٤۔

6535

۶۵۳۳: حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ .ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ دَاوٗدَ السَّرَّاجِ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ وَلَوْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ یَلْبَسُہٗ أَہْلُ الْجَنَّۃِ ، وَلَا یَلْبَسُہُ ہُوَ .
٦٥٣٣: داؤد سراج نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں نہ پہنے گا اگرچہ وہ جنت میں داخل ہوجائے دوسرے اہل جنت پہنیں گے وہ نہ پہنے گا۔
تخریج : ١؍٣٧‘ ٢؍٣٢٩‘ ٣؍٢٨١‘ ٤؍٥۔

6536

۶۵۳۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْمَرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ : قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ صُہَیْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ .
٦٥٣٤: عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس دنیا میں ریشم پہنے وہ آخرت میں نہ پہنے گا۔
تخریج : ١؍٢٦‘ ٢؍٣٦‘ ٣؍٢٠٩‘ ١٠٦‘ ٤؍١٥٦۔

6537

۶۵۳۵: حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ صُہَیْبٍ ، وَسَأَلْتُہُ عَنِ الْحَرِیْرِ فَقَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا فَقُلْتُ : عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : سَدِیدًا ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٥٣٥: شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے عبدالعزیز بن صہیب سے ریشم کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ میں نے حضرت انس (رض) کو فرماتے سنا میں نے کہا کیا یہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہے انھوں نے کہا درست ہے پھر اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6538

۶۵۳۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ ثِنَا : شُعْبَۃُ عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ بِذٰلِکَ .
٦٥٣٦: حمیدالطویل نے حضرت انس (رض) اور کہا کہ ہم اس کو بیان کرتے تھے۔

6539

۶۵۳۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَبَحْرٌ قَالَ یُوْنُسُ : أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، وَقَالَ بَحْرٌ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ ہِشَامَ بْنَ أَبِیْ رُقَیَّۃَ اللَّخْمِیَّ حَدَّثَہٗ قَالَ : سَمِعْتُ مَسْلَمَۃَ بْنَ مَخْلَدٍ یَخْطُبُ وَہُوَ یَقُوْلُ أَمَا لَکُمْ فِی الْقُطْنِ ، فِی الْکَتَّانِ ، مَا یُغْنِیکُمْ عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ ؟ وَہٰذَا فِیْکُمْ رَجُلٌ ، یُخْبِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قُمْ یَا عُقْبَۃُ .فَقَامَ عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرٍ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا حُرِمَہُ أَنْ یَلْبَسُہٗ فِی الْآخِرَۃِ .
٦٥٣٧: ہشام بن ابی رقیہ لخمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے مسلمہ بن مخلد کو خطبہ دیتے سنا کیا تمہیں کپاس اور کتان فائدہ نہیں دیتے۔ کیا وہ تمہیں ریشم پہننے سے بےنیاز نہیں کرتے تم میں ایسا آدمی ہے جو تمہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اطلاع دیتا ہے اے عقبہ اٹھو ! تو حضرت عقبہ بن عامر (رض) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں اس کے پہننے سے محروم کردیا جائے گا۔
تخریج : ١؍٣٧‘ ٣٩‘ ٣٣٧‘ ٣؍٢٣‘ ٦٨١‘ ٦؍٤٣٠۔

6540

۶۵۳۸: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ ہِشَامٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ ، عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ السَّائِبِ أَنَّ الْوَلِیْدَ ، أَبَا عَمَّارٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو أُمَامَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا اِلَّا مَنْ لَا خَلَاقَ لَہٗ .
٦٥٣٨: ابو عمار ولید نے ابو امامہ (رض) سے روایت کی ہے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا دنیا میں ریشم وہی پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

6541

۶۵۳۹: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی زَیْدُ بْنُ وَاقِدٍ ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُسَیْنٍ حَدَّثَہٗ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ وَمَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَشْرَبْہُ فِی الْآخِرَۃِ ، وَمَنْ شَرِبَ فِیْ آنِیَۃِ الْفِضَّۃِ وَالذَّہَبِ ، لَمْ یَشْرَبْ بِہِمَا فِی الْآخِرَۃِ .ثُمَّ قَالَ لِبَاسُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، وَشَرَابُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، وَآنِیَۃُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ .فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ الْمُتَوَاتِرَۃِ ، النَّہْیُ عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ .فَاحْتَمَلَ أَنْ تَکُوْنَ نَسَخَتْ مَا فِیْہِ الْاِبَاحَۃُ لِلُبْسِہٖ، وَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ مَا فِیْہِ الْاِبَاحَۃُ ہُوَ النَّاسِخَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ؛ لِنَعْلَمَ النَّاسِخَ مِنْ ذٰلِکَ ، مِنَ الْمَنْسُوْخِ
٦٥٣٩: خالد بن عبداللہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں نہ پہنے گا اور جس نے دنیا میں شراب پی وہ آخرت میں نہ پئے گا اور جس نے سونے چاندی کے برتنوں میں پیا وہ آخرت میں ان برتنوں سے نہ پئے گا۔ پھر ریشم یہ اہل جنت کا لباس اور شراب یہ اہل جنت کا مشروب اور سونے چاندی کے برتن یہ اہل جنت کے برتن ہیں۔ ان آثار متواترہ میں ریشم پہننے کی نفی پائی جاتی ہے اب اس میں دو احتمال ہیں۔ پہلے پائی جانے والی اباحت کے لیے یہ ناسخ ہیں۔ ! اباحت ان کی ناسخ ہے اب ناسخ و منسوخ کی پہچان کے لیے غور کیا۔

6542

۶۵۴۰: فَاِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْعَلَّافُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ سَوَائٍ ، عَنْ سَعِیْدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ أُکَیْدِرَ دَوْمَۃَ ، أَہْدَیْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُبَّۃً مِنْ سُنْدُسٍ ، وَذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یَنْہَیْ عَنِ الْحَرِیْرِ ، فَلَبِسَہَا ، فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْہَا .فَقَالَ وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ، لَمَنَادِیلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِی الْجَنَّۃِ ، أَحْسَنُ مِنْ ہٰذِہِ .
٦٥٤٠: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ دومۃ الجندل کے حکمران اکیدر نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ریشم کا ایک جبہ بھیجا اور یہ ریشم سے ممانعت سے پہلے کی بات ہے پس آپ نے اسے پہنا تو لوگوں نے بہت پسند کیا اور متعجب ہوئے تو آپ نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے سعد بن معاذ کے جنتی رومال وہ اس سے بہت زیادہ خوبصورت ہیں۔
تخریج : بخاری فی الہبہ باب ٢٨‘ بدء الخلق باب ٨‘ مسلم فی فضائل الصحابہ حدیث ١٢٧‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٨‘ مسند احمد ٣؍٢٠٧‘ ٢٢٩؍٢٥١۔

6543

۶۵۴۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، وَاللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ ، أَنَّہٗ سَمِعَ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یَقُوْلُ : خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ ، وَعَلَیْہِ فَرُّوْجُ حَرِیْرٍ ، فَصَلَّی فِیْہٖ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَزَعَہٗ، وَقَالَ لَا یَنْبَغِی لِبَاسُ ہٰذِہِ لِلْمُتَّقِیْنَ .
٦٥٤١: ابوالخیر کہتے ہیں کہ میں نے عقبہ بن عامر (رض) کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن گھر سے باہر تشریف لائے اور آپ نے ریشم کی قبا پہن رکھی تھی پس اس میں نماز ادا فرمائی پھر نماز سے واپس لوٹ کر اس کو اتار دیا اور فرمایا یہ متقین کے لباس کے لائق نہیں۔
تخریج : مسند احمد ٤؍١٤٣۔

6544

۶۵۴۲: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ وَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٥٤٢: عبدالحمید بن جعفر نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کی پھر اپنی اسناد سے اسی طرح ذکر فرمایا۔

6545

۶۵۴۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ ، عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّہٗ قَالَ : أُہْدِیَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرُّوْجُ حَرِیْرٍ ، فَلَبِسَہُ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔فَدَلَّتْ ہٰذِہِ الْآثَارُ أَنَّ لُبْسَ الْحَرِیْرِ کَانَ مُبَاحًا ، وَأَنَّ النَّہْیَ عَنْ لُبْسِہٖ، کَانَ بَعْدَ اِبَاحَتِہٖ، فَعَلِمْنَا أَنَّ مَا جَائَ فِی النَّہْیِ عَنْ لُبْسِہٖ، ہُوَ النَّاسِخُ لَمَا جَائَ فِیْ اِبَاحَۃِ لُبْسِہٖ۔ وَہٰذَا أَیْضًا ، قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، وَأَکْثَرِ الْعُلَمَائِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ،
٦٥٤٣: ابوالخیر سے حضرت عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ریشم کی قبا بطور ہدیہ دی گئی پس اس کو پہنا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی۔ یہ آثار دلالت کر رہے ہیں کہ ریشم کا استعمال مباح تھا اور ممانعت اس کی اباحت کے بعد اتری ہے پس اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ جن روایات میں پہننے کی ممانعت وارد ہے وہ پہننے کے متعلق اباحت کی روایات کے لیے ناسخ ہیں اور یہ بھی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ اور اکثر علماء امت کا قول ہے۔ اس سلسلہ میں صحابہ کرام (رض) سے مروی روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ١٦‘ واللباس باب ١٢‘ مسلم فی اللباس ٢٣‘ نسائی فی القبلۃ باب ١٩‘ مسند احمد ٤؍١٤٩۔

6546

۶۵۴۴: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ عَمَّہُ اِسْمَاعِیْلَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، دَخَلَ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَلَی عُمَرَ ، وَعَلَیْہِ قَمِیْصٌ مِنْ حَرِیْرٍ ، وَقُلْبَانِ مِنْ ذَہَبٍ ، فَشَقَّ الْقَمِیْصَ ، وَفَکَّ الْقُلْبَیْنِ وَقَالَ اذْہَبْ اِلَی أُمِّکَ .
٦٥٤٤: اسماعیل بن عبدالرحمن عبدالرحمن کے ساتھ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئے اس وقت وہ ریشم کی قمیص پہنے ہوئے تھا اور سونے کے دو کنگن پہن رکھے تھے حضرت عمر (رض) نے قمیص کو چیر دیا اور کنگنوں کو اتار لیا اور فرمایا اپنی ماں کے پاس جاؤ۔

6547

۶۵۴۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ وَبَرَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ سُوَیْد بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : أَتَیْنَا عُمَرَ ، وَعَلَیْنَا مِنْ ثِیَابِ أَہْلِ فَارِسٍ ، أَوْ قَالَ : کِسْرَی فَقَالَ بَرَّحَ اللّٰہُ ہٰذِہِ الْوُجُوْہَ فَرَجَعْنَا فَأَلْقَیْنَاہَا ، وَلَبِسْنَا ثِیَابَ الْعَرَبِ ، فَرَجَعْنَا اِلَیْہِ فَقَالَ أَنْتُمْ خَیْرٌ مِنْ قَوْمٍ أَتَوْنِیْ، وَعَلَیْہِمْ ثِیَابُ قَوْمٍ ، لَوْ رَضِیَہَا اللّٰہُ لَہُمْ ، لَمْ یُلْبِسْہُمْ اِیَّاہَا ، لَا یَصْلُحُ ، أَوْ لَا یَحِلُّ ، اِلَّا أُصْبُعَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا یَعْنِی : الْحَرِیْرَ .
٦٥٤٥: سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئے ہم نے فارسیوں کا لباس پہن رکھا تھا یا کسری کے لوگوں کا لباس تھا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان چہروں کو دور کرے۔ ہم نے پلٹ کر ان کپڑوں کو اتار پھینکا اور عرب کا لباس زیب تن کیا پھر ہم ان کی خدمت میں گئے تو آپ نے فرمایا۔ تم ان لوگوں سے بہتر ہو جو میرے پاس آئے انھوں نے دوسری قوم کا لباس پہن رکھا تھا اگر اللہ تعالیٰ اس قوم پر راضی ہوتا تو ان کو یہ لباس نہ پہناتا اور یہ ریشم درست نہیں یا حلال نہیں مگر دو یا تین یا چار انگلیوں کی مقدار۔

6548

۶۵۴۶: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ سُمَیْعٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِینِ ، عَنْ أَبِیْ عَمْرٍو السَّیْبَانِیِّ قَالَ : رَأَیْ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ عَلٰی رَجُلٍ ، جُبَّۃً فِیْ صَدْرِہِ لَیِّنَۃً مِنْ دِیْبَاجٍ .فَقَالَ لَہٗ عَلِیٌّ مَا ہٰذَا الشَّیْئُ الَّذِیْ تَحْتَ لِحْیَتِکَ ؟ فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَنْظُرُ فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : اِنَّمَا یَعْنِیْ، الدِّیْبَاجَ .
٦٥٤٦: ابو عمرو شیبانی کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ایک آدمی ایسا جبہ پہنے ہوئے پایا جس کے گریبان میں ریشم لگا تھا۔ تو حضرت علی (رض) نے فرمایا یہ تمہاری داڑھی کے نیچے کیا ہے ؟ آدمی دیکھنے لگا تو دوسرے آدمی نے اسے کہا ان کی مراد یہ ریشم ہے۔

6549

۶۵۴۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَفْوَانَ قَالَ : اسْتَأْذَنَ سَعْدُ بْنُ أَبِیْ وَقَّاصٍ ، عَلٰی ابْنِ عَامِرٍ ، وَتَحْتَہُ مَرَافِقُ مِنْ حَرِیْرٍ ، فَأَمَرَ بِہَا فَرُفِعَتْ فَدَخَلَ عَلَیْہِ سَعْدٌ ، وَعَلَیْہِ مِطْرَفٌ ، شَطْرُہُ حَرِیْرٌ .فَقَالَ لَہٗ ابْنُ عَامِرٍ : یَا أَبَا اِسْحَاقَ ، ، اسْتَأْذَنْتَ عَلِیَّ وَتَحْتِی مَرَافِقُ مِنْ حَرِیْرٍ ، فَأَمَرْتُ بِہَا فَرُفِعَتْ .فَقَالَ : نِعْمَ الرَّجُلُ أَنْتَ ، یَا ابْنَ عَامِرٍ ، اِنْ لَمْ تَکُنْ مِنْ الَّذِیْنَ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَذْہَبْتُمْ طَیِّبَاتِکُمْ فِیْ حَیَاتِکُمْ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا ؛ لَأَنْ أَضْطَجِعَ عَلٰی جَمْرِ الْغَضَائِ ، أَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ أَضْطَجِعَ عَلَی مَرَافِقِ حَرِیْرٍ. قَالَ فَہٰذَا عَلَیْکَ مِطْرَفٌ ، شَطْرُہُ خَزٌّ ، وَشَطْرُہُ حَرِیْرٌ قَالَ : اِنَّمَا یَلِیْ جِلْدِی مِنْہُ الْخَزُّ .
٦٥٤٧: صفوان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے ابن عامر (رض) کے ہاں آنے کی اجازت طلب کی ان کے نیچے ریشمی گدے تھے انھوں نے ان کو اٹھانے کا حکم دیا حضرت سعد (رض) ان کے ہاں آئے تو انھوں نے ایک چادر پہن رکھی تھی جس کی ایک جانب ریشم کی تھی ان کو ابن عمار (رض) نے کہا اے ابو اسحاق ! آپ نے جب اجازت طلب کی تو میرے نیچے ریشمی گدا تھا میں نے ان کو اٹھانے کا حکم دیا تو وہ اٹھا لیے گئے۔ تو انھوں نے کہا اے ابن عامر ! تم خوب آدمی ہو اگر تو ان لوگوں سے نہ ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اذہبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا “ (الاحقاف : ٢٠) کیونکہ غضباء نام درخت کے انگاروں پر لوٹنا مجھے ریشمی گدے پر لیٹنے کی بنسبت زیادہ پسند ہے۔ تو ابن عامر (رض) کہنے لگے یہ تم نے چادر اوڑھ رکھی ہے جس کی ایک جانب ریشم کی ہے اور ایک جانب اون اور ریشم کی ہے تو وہ کہنے لگے میری جلد ریشم سے ملاصق ہے۔

6550

۶۵۴۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِیْبٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ : أَرَأَیْتُ ہٰذَا الَّذِیْ تَقُوْلُ فِیْ ہٰذَا الْحَرِیْرِ ، أَشَیْئٌ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَوْ وَجَدْتَہُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ؟ .قَالَ : مَا وَجَدْتُہُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ، وَلَا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلٰـکِنِّیْ رَأَیْتُ أَہْلَ الْاِسْلَامِ یَکْرَہُوْنَہٗ.
٦٥٤٨: طلق بن حبیب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو کہا اس ریشم سے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں کیا اس کے متعلق آپ نے کوئی چیز جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے یا کتاب اللہ میں کوئی چیز پائی ہے۔ انھوں نے کہا میں نے نہ تو قرآن مجید میں اس کے متعلق پایا اور نہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ سنا۔ لیکن میں نے اہل اسلام (صحابہ کرام) کو اس سے نفرت کرتے پایا۔

6551

۶۵۴۹: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْخَصِیْبِ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : لَا أَعْلَمُہُ اِلَّا قَالَ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : دَخَلْنَا عَلٰی ابْنِ عُمَرَ بِالْبَطْحَائِ فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : اِنَّ ثِیَابَنَا ہٰذِہٖ، یُخَالِطُہَا الْحَرِیْرُ .قَالَ : دَعُوْھُ ، قَلِیْلَہٗ وَکَثِیْرَہُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ ذَاہِبُوْنَ اِلٰی أَنَّ مَا حَرُمَ مِنْ ذٰلِکَ ، فَقَدْ دَخَلَ فِیْہِ النِّسَائُ وَالرِّجَالُ جَمِیْعًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَبِسُہٗ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ وَلَمْ یَخُصَّ فِیْ ذٰلِکَ الرِّجَالَ دُوْنَ النِّسَائِ .قَالُوْا : قَدْ رَأَیْنَا آنِیَۃَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، حُرِّمَتْ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ ، ؛ لِأَنَّہَا آنِیَاتُ الْکُفَّارِ ، فَاسْتَوَی فِیْ ذٰلِکَ النِّسَائُ وَالرِّجَالُ .فَکَذٰلِکَ الْحَرِیْرُ ، لَمَّا حَرُمَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ ؛ لِأَنَّہٗ لِبَاسُ الْکُفَّارِ ، اسْتَوَی فِیْہِ الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ جَمِیْعًا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَی مَنْ ذَہَبَ اِلَی ہٰذَا الْقَوْلِ ، أَنَّہٗ قَدْ نُہِیَ عَنْ لُبْسِ الثِّیَابِ الْمُصَبَّغَاتِ ، وَقِیْلَ : اِنَّہَا لِبَاسُ الْکُفَّارِ .وَرُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ،
٦٥٤٩: حسن کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عمر (رض) کی خدمت میں بطحاء میں داخل ہوئے تو ان کو ایک آدمی نے کہا ہمارے یہ کپڑے ریشم ملے ہوئے ہیں آپ نے فرمایا اس کے قلیل و کثیر کو چھوڑ دو ۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگ تو ادھر چلے گئے کہ مرد و عورتیں سب پر ریشم حرام ہے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کو دلیل بنایا ہے ” من لبسہ فی الدنیا یلبسہ فی الآخرہ “ اس میں مردوں اور عورتوں میں سے کسی کی تخصیص نہیں ہے۔ اس کی مزید دلیل یہ ہے کہ سونے چاندی کے برتن مسلمانوں پر حرام ہیں کیونکہ وہ کفار کے برتن ہیں اس میں مردوں اور عورتوں کا کوئی فرق نہیں اسی طرح ریشم جب مسلمانوں کے لیے حرام ہے کیونکہ وہ کفار کا لباس ہے تو اس میں مردوں اور عورتوں کا حکم برابر ہے۔ ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ رنگین کپڑوں کے پہننے کی ممانعت ہے اور ان کو کفار کا لباس قرار دیا گیا اور اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مندرجہ ذیل روایات وارد ہیں۔ اب ہم غور کرتے ہیں کہ کیا ثیاب کفار ہونے کی علت کی وجہ سے ان کپڑوں کا عورتوں کو پہننا حرام ہے یا نہیں۔ (روایات ملاحظہ ہوں)

6552

۶۵۵۰: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو : أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأٰی عَلَیْہِ ثَوْبَیْنِ مُعَصْفَرَیْنِ قَالَ ہٰذِہِ مِنْ ثِیَابِ الْکُفَّارِ، فَلَا تَلْبَسْہَا .
٦٥٥٠ : عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے دیکھے تو فرمایا یہ کفار کے کپڑے ہیں ‘ ان کو مت پہنو۔

6553

۶۵۵۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا ہَارُوْنُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْخَزَّازُ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ: ثَنَا یَحْیَی ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الثِّیَابَ الْمُصَبَّغَۃَ ، ثِیَابُ الْکُفَّارِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، ہَلْ حَرُمَ لُبْسُہَا لِہٰذِہِ الْعِلَّۃِ ، عَلَی النِّسَائِ أَمْ لَا ؟ فَاِذَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَدْ۔
٦٥٥١ : یحییٰ نے بھی اپنی اسناد سے اس کی مثل ذکر کیا ہے ‘ اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رنگے ہوئے کپڑے کفار کے کپڑے ہیں ‘ اب ہم غور کرتے ہیں کہ آیا اس علت کی وجہ سے ان کپڑوں کا عورتوں کے لیے بھی پہننا حرام ہے یا نہیں ؟

6554

۶۵۵۲: حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَ : ثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ زَاذَانَ ، عَنْ زِیَادٍ النُّمَیْرِیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ مُعَصْفَرٌ فَقَالَ لَہٗ لَوْ أَنَّ ثَوْبَکَ ہٰذَا کَانَ فِیْ تَنُّوْرٍ ، لَکَانَ خَیْرًا لَکَ فَذَہَبَ الرَّجُلُ فَجَعَلَہٗ تَحْت الْقِدْرِ ، أَوْ فِی التَّنُّوْرِ ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا فَعَلَ ثَوْبُکَ ؟ قَالَ : صَنَعْتُ بِہٖ مَا أَمَرْتَنِی .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا بِہٰذَا أَمَرْتُکَ ، أَوَلَا أَلْقَیْتَہُ عَلَی بَعْضِ نِسَائِکَ ؟ .فَکَانَ ذٰلِکَ التَّحْرِیْمُ عَلَی الرِّجَالِ ، دُوْنَ النِّسَائِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،
٦٥٥٢: زیاد نمیری نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے زعفرانی رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے آپ نے اسے فرمایا اگر تمہارے یہ کپڑے تمہارے جسم کی بجائے تنور میں ڈالے جائیں تو تمہارے حق میں یہ بہتر تھا وہ شخص گیا اور اس نے اپنے کپڑوں کو ہنڈیا کے نیچے یا تنور میں ڈال دیا اور پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا تیرے کپڑوں کا کیا بنا ؟ اس نے کہا میں نے ان کا وہی علاج کیا جو آپ نے بتلایا تھا تو اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے تمہیں اس بات کا حکم تو نہ دیا تھا تو نے اس کو اپنے گھر کی کسی عورت پر کیوں نہ ڈالا۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ تحریم مردوں کے لیے تھی نہ کہ عورتوں کے لئے۔ دیگر صحابہ کرام سے بھی اس سلسلہ میں روایات مروی ہیں۔

6555

۶۵۵۳: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ حَازِمٍ ، عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، قَالَ : ثَنَا بُنْدَارٌ ، قَالَ ثَنَا ابْنُ أَبِیْ عَدِی ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ أَبِیْ مَعْشَرٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ ، فَرَأَیْتُ عَلَیْہَا ثِیَابًا مُصَبَّغَۃً .
٦٥٥٣: ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں گیا میں نے ان کو رنگین کپڑے پہنے ہوئے پایا۔

6556

۶۵۵۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ : کَانَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ ، وَعَائِشَۃُ ، وَأُمُّ حَبِیْبَۃَ ، یَلْبَسْنَ الْمُعَصْفَرَاتِ .
٦٥٥٤: موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ حضرت امّ سلمہ ‘ عائشہ ‘ ام حبیبہ (رض) زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے استعمال فرماتی تھیں۔

6557

۶۵۵۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُو الزُّبَیْرِ ، أَنَّہٗ سَمِعَ جَابِرًا یَقُوْلُ لِأَہْلِہِ : لَا تَلْبَسُوْا ثِیَابَ الطِّیْبِ ، وَتَلْبَسُوْا الثِّیَابَ الْمُعَصْفَرَۃَ مِنْ غَیْرِ الطِّیْبِ .
٦٥٥٥: ابوالزبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر (رض) کو یہ فرماتے سنا کہ وہ اپنے گھر والوں کو فرما رہے تھے خوشبو دار کپڑے مت استعمال کرو اور خوشبو کے بغیر زعفرانی کپڑے پہنو۔

6558

۶۵۵۶: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ عَنْ ہِشَامِ ، بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیقِ أَنَّہَا کَانَتْ تَلْبَسُ الثِّیَابَ الْمُعَصْفَرَاتِ وَہِیَ مُحْرِمَۃٌ ، لَیْسَ فِیْہِنَّ زَعْفَرَانٌ .
٦٥٥٦: عروہ اپنے والد سے انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے نقل کیا کہ وہ زعفرانی کپڑے پہنے ہوئے تھیں جبکہ وہ حالت احرام میں تھیں ان کپڑوں میں زعفران کا اثر نہ تھا۔
تخریج : مالک فی الحج ١١۔

6559

۶۵۵۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ أَنَّہَا قَالَتْ : مَا رَأَیْتُ أَسْمَائَ لَبِسَتْ اِلَّا الْمُعَصْفَرَ ، حَتّٰی لَقِیَتْ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ، وَاِنْ کَانَتْ لَتَلْبَسُ - الثَّوْبَ یَقُوْمُ قِیَامًا مِنَ الْعُصْفُرِ .فَمَا یُنْکِرُوْنَ أَنْ یَکُوْنَ الْحَرِیْرُ - کَذٰلِکَ ، فَیَکُوْنُ لُبْسُہُ مَکْرُوْہًا لِلرِّجَالِ ، غَیْرَ مَکْرُوْہٍ لِلنِّسَائِ .فَاِنْ قَالُوْا لَنَا : فَلِمَ لَا تُشَبِّہُوْنَ حُکْمَ لِبَاسِ الْحَرِیْرِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، بِحُکْمِ اسْتِعْمَالِ آنِیَۃِ - الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ؟ قِیْلَ لَہُمْ : ؛ لِأَنَّ الثِّیَابَ الْمُصَبَّغَۃَ ہِیَ مِنْ اللِّبَاسِ ، وَکَذٰلِکَ ثِیَابُ الْحَرِیْرِ وَالدِّیْبَاجِ ، وَالذَّہَبَ - وَالْفِضَّۃَ ، ہُمَا مِنَ الْأَوَانِیْ، وَاللِّبَاسُ بَعْضُہٗ بِبَعْضٍ أَشْبَہٗ مِنْہُ بِالْآنِیَۃِ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،
٦٥٥٧: فاطمہ بنت منذر کہتی ہیں کہ میں نے اسماء کو ہمیشہ زعفرانی رنگ کے لباس میں دیکھا یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی اور اگر وہ دوسرا کپڑا پہنتی تو وہ وہی ہوتا جو زعفرانی رنگ کے قائم مقام ہوتا۔ پس یہ فریق ریشم کو عورتوں کے حق میں کیونکر اس طرح نہیں سمجھتے کہ اس کا پہننا مردوں کے لیے مکروہ اور عورتوں کے لیے مکروہ نہ ہو۔ اگر کوئی معترض کہے کہ آپ لوگ ریشمی لباس کو زعفرانی لباس سے مشابہت دینے کو تیار ہیں مگر سونے چاندی کے برتنوں سے کیونکر تشبیہ نہیں دیتے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا ‘ لباس کو لباس سے مشابہت مناسب ہوگی یا اس چیز سے جو برتنوں اور لباس دونوں سے متعلق ہے اس کا بڑا حصہ تو برتنوں سے مشابہت رکھتا ہے پس مشابہت کامل تو لباس کو لباس سے ہوگی (واللہ اعلم) یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہ منقول ہے (ملاحظہ ہو)
یہ قول امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہ منقول ہے (ملاحظہ ہو)

6560

۶۵۵۸: مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ أَبِی الصَّعْبَۃِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ہَمْدَانَ یُقَالُ لَہٗ أَفْلَحُ عَنِ ابْنِ زُرَیْرٍ أَنَّہٗ سَمِعَ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ یَقُوْلُ : اِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَخَذَ حَرِیْرًا فِیْ یَمِیْنِہٖ، وَأَخَذَ ذَہَبًا فَجَعَلَہٗ فِیْ یَسَارِہٖ، ثُمَّ قَالَ اِنَّ ہٰذَیْنِ حَرَامٌ عَلَی ذُکُوْرِ أُمَّتِی .
٦٥٥٨: ابن زریر نے حضرت علی (رض) کو کہتے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ریشم کو اپنے دائیں جانب رکھا اور سونے کو پکڑ کر بائیں طرف رکھا پھر فرمایا یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ١٠‘ ترمذی فی اللباس باب ١‘ نسائی فی الزینہ باب ٤٠‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ١٩‘۔

6561

۶۵۵۹: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ أَبِی الصَّعْبَۃِ ، عَنْ أَبِیْ أَفْلَحَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زُرَیْرٍ الْغَافِقِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٥٥٩: عبداللہ بن زریر غافقی نے حضرت علی (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6562

۶۵۶۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ أَبِی الصَّعْبَۃِ الْقُرَشِیِّ ، عَنْ أَبِیْ عَلِی الْہَمْدَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زُرَیْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ یَقُوْلُ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَفِیْ اِحْدَیْ یَدَیْہِ ذَہَبٌ ، وَفِی الْأُخْرٰی حَرِیْرٌ ، فَقَالَ ہٰذَانِ حَرَامٌ عَلَی ذُکُوْرِ أُمَّتِی وَحِلٌّ لِاِنَاثِہَا .
٦٥٦٠: عبداللہ بن زریر غافقی کہتے ہیں کہ میں نے جناب حضرت علی (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے اور آپ کے ایک ہاتھ میں سونا اور دوسرے ہاتھ میں ریشم تھا اور فرمایا یہ دونوں میری امت کے مردوں کے لیے حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہیں۔

6563

۶۵۶۱: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ أَنَّ عَبْدَ الْعَزِیْزِ بْنَ أَبِی الصَّعْبَۃِ الْقُرَشِیَّ حَدَّثَہٗ ، ثُمَّ ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٥٦١: ابو حبیب کہتے ہیں کہ عبدالعزیز بن ابی الصعبۃ قرشی نے مجھے بیان کیا پھر اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6564

۶۵۶۲: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ بْنِ أَنْعُمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٥٦٢: عبدالرحمن بن رافع نے حضرت ابن عمر (رض) انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6565

۶۵۶۳: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ ، وَصَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَا : ثَنَا الْمُقْرِئُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زِیَادٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٥٦٣: عبدالرحمن بن زیادالمقرئی نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔

6566

۶۵۶۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، وَابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، وَأَبُو زُرْعَۃَ الدِّمَشْقِیُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالُوْا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ ثَابِتُ بْنُ أَرْقَمَ ، قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ عَمَّتِی أُنَیْسَۃُ بِنْتُ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، عَنْ أَبِیہَا ، زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ وَزَادَ عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : اِنَّک لِتَقُوْلَ ہٰذَا، وَہٰذَا أَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ یَنْہَیْ عَنْہُ، قَالَتْ : وَکَانَ فِیْ یَدِی قُلْبَانِ مِنْ ذَہَبٍ ، فَقَالَ ضَعِیہِمَا وَرَکِبَ حُمَیِّرًا لَہٗ، فَانْطَلَقَ ثُمَّ رَجَعَ ، فَقَالَ أَعِیْدِیہِمَا فَقَدْ سَأَلْتُہٗ، فَقَالَ لَا بَأْسَ بِہٖ .
٦٥٦٤: انیسہ بنت زید بن ارقم نے اپنے والد زید بن ارقم (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے اور علی بن عبدالرحمن کی روایت یہ اضافہ ہے کہ تم یہ کہتے ہو اور یہ حضرت علی (رض) اس سے منع کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے تو انھوں نے کہا ان دونوں کو اتار کر رکھ دو اور اپنے گدھے پر سوار ہو کر گئے پھر واپس لوٹے اور کہنے لگے ان دونوں کو دوبارہ پہن لو۔ میں نے ان سے سوال کیا ہے تو انھوں نے فرمایا۔ ان کے پہننے میں کچھ حرج نہیں ہے۔

6567

۶۵۶۵: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ قَالَ : حَدَّثَنِی الْحَسَنُ بْنُ ثَوْبَانَ ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ أَبِیْ رُقَیَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَسْلَمَۃَ بْنَ مَخْلَدٍ یَقُوْلُ لِعُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ قُمْ ، فَحَدِّثْ النَّاسَ بِمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْنِی : فَقَامَ عُقْبَۃُ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ کَذِبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ بَیْتَہُ مِنْ جَہَنَّمَ .وَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْحَرِیْرُ وَالذَّہَبُ ، حَرَامٌ عَلَی ذُکُوْرِ أُمَّتِی ، حِلٌّ لِاِنَاثِہِمْ .
٦٥٦٥: ہشام بن ابی رقیہ کہتے ہیں کہ میں نے مسلمہ بن مخلد سے پوچھا وہ عقبہ بن عامر (رض) کو کہہ رہے تھے اٹھو ! اور لوگوں کو وہ بات بتلاؤ جو تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے چنانچہ عقبہ کھڑے ہو کر کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے اور میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے ریشم اور سونا یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام اور ان کی عورتوں پر حلال ہیں۔

6568

۶۵۶۶: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ الْأَنْمَاطِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ ، عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ الْحَرِیْرُ وَالذَّہَبُ ، حَلَالٌ لِاِنَاثِ أُمَّتِی ، حَرَامٌ عَلَی ذُکُوْرِہَا .
٦٥٦٦: سعید بن ابی ہند نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا ہے سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور اس کے مردوں کے لیے حرام ہے۔

6569

۶۵۶۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَبَیَّنَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، مَنْ قَصَدَ اِلَیْہِ بِالنَّہْیِ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، وَأَنَّہُمْ الرِّجَالُ دُوْنَ النِّسَائِ .فَقَالَ الْآخَرُوْنَ : فَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَابْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّہُمَا جَعَلَا قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ عَلَی الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٦٥٦٧: سعید بن ابی ہند نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابو موسیٰ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ ان آثار سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پہلے آثار میں ممانعت سے مقصود مرد ہیں عورتیں شامل نہیں ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) اور ابن الزبیر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ” من لبس الحریر فی الدنیا لم یلبسہ فی الآخرہ “ کو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے عام قرار دیا ہے۔ چنانچہ دلیل میں روایات ذکر کی گئی ہیں۔

6570

۶۵۶۸: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ ، عَنْ یُوْسُفَ بْنِ مَاہَکَ قَالَ : سَأَلَتِ امْرَأَۃٌ ابْنَ عُمَرَ قَالَتْ : أَتَحَلَّی بِالذَّہَبِ ؟ .قَالَ : نَعَمْ ، قَالَتْ : فَمَا تَقُوْلُ لِیْ فِی الْحَرِیْرِ ؟ قَالَ : یُکْرَہُ ذٰلِکَ ، قَالَتْ : مَا یُکْرَہٗ؟ أَخْبِرْنِیْ، أَحَلَالٌ ہُوَ ، أَمْ حَرَامٌ ؟ قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ مَنْ لَبِسُہٗ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ .
٦٥٦٨: یوسف بن ماہک کہتے ہیں کہ ایک عورت نے ابن عمر (رض) سے دریافت کیا کہ کیا سونے کے زیور میں پہن لوں ؟ انھوں نے فرمایا جی ہاں اس نے پوچھا۔ آپ ریشم کے متعلق کیا فرماتے ہیں فرمایا یہ مکروہ ہے۔ اس نے پوچھا مکروہ کیا ہوتا ہے آپ مجھے بتلائیں کہ آیا حلال ہے یا حرام ہے ؟ کہنے لگے ہم بات کرتے تھے کہ جس نے اس کو دنیا میں پہنا وہ اس کو آخرت میں نہ پہنے گا۔

6571

۶۵۶۹: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ رَوَّادٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ امْرَأَۃً سَأَلَتْہُ عَنْ لُبْسِ الْحَرِیْرِ ، فَکَرِہَہُ .فَقَالَتْ : وَلِمَ ؟ فَقَالَ لَہَا : أَمَا اِذْ أَبَیْتِ فَسَأُخْبِرُکِ ، کُنَّا نَقُوْلُ ، مَنْ لَبِسُہٗ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ .
٦٥٦٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک عورت نے ریشم پہننے سے متعلق ان سے سوال کیا تو انھوں نے اس کو ناپسند و مکروہ قرار دیا تو اس عورت نے کہا اس کی کیا وجہ ہے تو فرمایا اگر تو اس کا انکار کرتی ہے تو میں تمہیں بتلاتا ہوں ہم یہ کہا کرتے تھے جس نے اس کو دنیا میں پہنا وہ اس کو آخرت میں نہ پہنے گا۔

6572

۶۵۷۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُو ذُبْیَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ یَخْطُبُ یَقُوْلُ یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، لَا تُلْبِسُوْا نِسَائَ کُمُ الْحَرِیْرَ ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ .قَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ : وَأَنَا أَقُوْلُ ، مَنْ لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ ، لَمْ یَدْخُلْ الْجَنَّۃَ ، ؛ لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ .
٦٥٧٠: ابو دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن الزبیر (رض) خطبہ دیتے سنا۔ کہ اے لوگو ! تم لوگوں کو ریشم مت پہناؤ۔ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میں نے سنا کہ جس نے ریشم کو دنیا میں پہنا وہ آخرت میں نہ پہنے گا۔ ابن الزبیر کہنے لگے میں کہتا ہوں جس نے اس کو آخرت میں نہ پہنا وہ جنت میں نہ جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ولباسہم فیہا حریر “ (الحج۔ ٢٣)

6573

۶۵۷۱: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَزْرَقُ بْنُ قَیْسٍ الْحَارِثِیُّ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ یَخْطُبُ یَوْمَ التَّرْوِیَۃِ ، وَہُوَ یَقُوْلُ یَا أَیُّہَا النَّاسُ لَا تَلْبَسُوْا الْحَرِیْرَ وَلَا تُلْبِسُوْھُ نِسَائَ کُمْ وَلَا أَبْنَائَ کُمْ ، فَاِنَّہٗ مَنْ لَبِسُہٗ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،
٦٥٧١: ازرق بن قیس حارثی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن زبیر (رض) کو ترویہ کے دن خطبہ دیتے سنا۔ اے لوگو ! تم ریشم نہ پہنو ! اور نہ تم اپنی عورتوں اور بچوں کو پہناؤ۔ اس لیے کہ جس نے اس کو دنیا میں پہنا وہ آخرت میں نہ پہنے گا۔
مزید اس سلسلہ کی روایات :
انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایات بھی نقل کی ہیں۔

6574

۶۵۷۲: مَا حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ أَبَا عُشَانَۃَ الْمَعَافِرِیَّ حَدَّثَہٗ ، أَنَّہٗ سَمِعَ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ الْجُہَنِیَّ یُخْبِرُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَمْنَعُ أَہْلَہُ الْحِلْیَۃَ وَالْحَرِیْرَ ، وَیَقُوْلُ اِنْ کُنْتُنَّ تُحْبِبْنَ حِلْیَۃَ الْجَنَّۃِ وَحَرِیْرَہَا ، فَلَا تَلْبَسْنَہَا فِی الدُّنْیَا .قِیْلَ لَہُمْ : أَمَّا قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَبِسُہٗ فِی الدُّنْیَا ، لَمْ یَلْبَسْہُ فِی الْآخِرَۃِ فَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِہٖ الرِّجَالَ خَاصَّۃً ، وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِہٖ الرِّجَالَ وَالنِّسَائَ .وَمَا ذَکَرْنَا مِنْ حَدِیْثِ عَلِی ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، وَزَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، وَأَبِیْ مُوْسَی ، یُخْبِرُوْنَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا أَرَادَ بِہٖ الرِّجَالَ ، دُوْنَ النِّسَائِ ، فَہُوَ أَوْلَی .وَہٰذَا الْمَعْنَی أَوْلَی أَنْ یُحْمَلَ عَلَیْہِ وَجْہُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، حَتّٰی لَا یُضَادَّ مَا ذَکَرْنَا قَبْلَہٗ۔وَلَئِنْ کَانَ مَا ذَکَرُوْھُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَابْنِ الزُّبَیْرِ فِیْ ذٰلِکَ ، حُجَّۃً ، فَاِنَّ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ عَنْ عَلِیْ مِمَّا یُخَالِفُ ذٰلِکَ ، أَحْرَی بِأَنْ یَکُوْنَ حُجَّۃً .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ہٰذَا أَیْضًا عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، خِلَافُ ذٰلِکَ .
٦٥٧٢: ابو عشانہ معافری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) جہنی کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ خبر دیتے سنا کہ آپ اپنے اہل کو زیور و ریشم سے منع فرماتے اور فرماتے اگر تم جنت کا زیور و ریشم پسند کرتی ہو۔ تو اس کو دنیا میں مت پہنو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ” من لبسہ فی الدنیا “ ۔۔۔اس سے مراد فقط مرد بھی ہوسکتے ہیں۔ ! مراد بقول تمہارے مرد و عورتیں دونوں ہوں اور ہم نے حضرت علی ‘ ابن عمر ‘ زید بن ارقم ‘ ابو موسیٰ (رض) کی روایات ذکر کی ہیں انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا کہ اس سے مراد مرد ہیں عورتیں نہیں۔ پس یہ احتمال متعین ہوا۔ یہ مطلب لینے سے دونوں روایات میں تضاد نہ رہے گا۔ اگر ابن عمر (رض) اور ابن زبیر (رض) کی بات کو وہ حجت قرار دیتے ہیں تو حضرت علی (رض) کا قول ان سے بڑھ کر حجت ہے اور اب تو فیصلہ ہی ہوگیا کہ حضرت ابن عمر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے قول کے خلاف اور حضرت علی (رض) کے قول کی حمایت میں نقل کیا ہے۔
تخریج : نسائی فی الزینہ باب ٣٩۔

6575

۶۵۷۳: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَا : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : سَمِعْتُ نَافِعًا یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَیْ عُمَرُ عُطَارِدَ التَّمِیْمِیَّ یُقِیْمُ فِی السُّوْقِ حُلَّۃً سِیَرَائَ .فَقَالَ عُمَرُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، لَوْ اشْتَرَیْتُہُا لِوَفْدِ الْعَرَبِ ، اِذَا قَدِمُوْا عَلَیْکَ ؟ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرَ فِی الدُّنْیَا ، مَنْ لَا خَلَاقَ لَہٗ فِی الْآخِرَۃِ .فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ أُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِحُلَلٍ سِیَرَائَ ، فَبَعَثَ اِلَی عُمَرَ بِحُلَّۃٍ ، وَاِلَی أُسَامَۃَ بِحُلَّۃٍ ، وَأَعْطَیْ عَلِیًّا حُلَّۃً فَأَمَرَہٗ أَنْ یَشُقَّہَا خُمُرًا بَیْنَ نِسَائِہٖ۔ قَالَ : وَرَاحَ أُسَامَۃُ بِحُلَّتِہٖ، فَنَظَرَ اِلَیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَظَرًا ، عَرَفَ أَنَّہٗ کَرِہَ مَا صَنَعَ فَقَالَ اِنِّیْ لَمْ أَبْعَثْ بِہَا اِلَیْکَ لِتَلْبَسَہَا ، اِنَّمَا بَعَثْتُ بِہَا اِلَیْکَ لِتَشُقَّہَا خُمُرًا ، بَیْنَ نِسَائِکَ .
٦٥٧٣: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے جناب عمر (رض) نے عطارد تمیمی کو دیکھا کہ ایک ریشمی دھاری دار جوڑے کی قیمت لگا رہا ہے تو حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ اس کو عرب کے وفود کی آمد پر پہننے کے لیے خرید لیں تو مناسب ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ دنیا میں تو وہ ریشم پہنتا ہے جس کا آخرت میں حصہ نہیں ہے جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں دھاری دار ریشمی جوڑے آئے تو آپ نے عمر (رض) کی طرف ایک جوڑا اور ایک جوڑا اسامہ کو اور ایک جوڑا علی (رض) کو عنایت فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ عورتوں کے مابین دوپٹے کے لیے کاٹ کر دے دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اسامہ اپنا جوڑا لے کر جانے لگے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف اس طرح دیکھا گویا انھوں نے ان کے اس عمل کو ناپسند کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہنو بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ اسے پھاڑ کر عورتوں کے دوپٹے بنا لو۔

6576

۶۵۷۴: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا حَامِدُ بْنُ یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا : سُفْیَانُ قَالَ ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ مُوْسَی ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : أَبْصَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُلَّۃً سِیَرَائَ عَلَی عُطَارِدَ ، فَکَرِہَہَا لَہٗ، وَنَہَاہُ عَنْہَا ، ثُمَّ اِنَّہٗ کَسَا عُمَرَ مِثْلَہَا .فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قُلْتَ فِیْ حُلَّۃِ عُطَارِدَ مَا قُلْتَ ، وَتَکْسُوْنِیْ ہٰذِہٖ۔ ؟ فَقَالَ لَمْ أَکْسُکَہَا لِتَلْبَسَہَا ، اِنَّمَا أَعْطَیْتُکَہَا ، لِتُلْبِسَہَا النِّسَائَ .فَأَخْبَرَ ابْنُ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ قَوْلَہٗ اِنَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرُ فِی الدُّنْیَا ، مَنْ لَا خَلَاقَ لَہٗ اِنَّمَا قَصَدَ بِہٖ الرِّجَالَ دُوْنَ النِّسَائِ وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا، عَنْ عَلِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٦٥٧٤: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطارد (رض) پر ایک دھاری دار جوڑا دیکھا آپ نے وہ ان کے لیے ناپسند کیا اور آئندہ ان کو اس سے منع کردیا پھر آپ حضرت عمر (رض) اسی طرح کا کپڑا عنایت فرمایا تو حضرت عمر (رض) نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے عطارد کو اس سے منع فرمایا اور مجھے عنایت فرما رہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا یہ میں نے تمہیں خود پہننے کو نہیں دیا بلکہ تمہیں اس لیے دیا ہے تاکہ تم اپنی عورتوں کو پہناؤ۔ حضرت ابن عمر (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس روایت میں بتلا دیا کہ ” انما یلبس الحریر “ (الحدیث) اس سے مرادمرد ہیں عورتیں اس میں شامل نہیں اور یہ بات حضرت علی (رض) نے بھی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے براہ راست نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری فی الجمعہ باب ٧‘ والہبہ باب ٢٩‘ ابو داؤد فی الصلاۃ باب ٢١٣‘ واللباس باب ٧‘ نسائی فی الجمعہ باب ١١‘ والزینہ باب ٨٢‘ مالک فی اللبس ١٨‘ مسند احمد ١؍٩٢۔
روایت حضرت علی (رض) :

6577

۶۵۷۵: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ ثِنَا : یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ أَبِیْ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ ، عَنْ عَلِی ، أَنَّ أُکَیْدِرَ دَوْمَۃَ ، أَہْدَی لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَوْبَ حَرِیْرٍ فَأَعْطَاہُ اِیَّاہُ وَقَالَ اُشْقُقْہُ خُمُرًا بَیْنَ النِّسَائِ .وَرُوِیَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ فِیْ ذٰلِکَ ،
٦٥٧٥: ابو صالح حنفی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ دومہ کے حکمران اکیدر نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ریشم کا ایک کپڑا بھیجا آپ نے وہ علی (رض) کو دیا اور فرمایا اس کو کاٹ کر اپنے ہاں عورتوں کے دوپٹے بناؤ۔

6578

۶۵۷۶: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ الطَّیَالِسِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ عَوْنٍ الثَّقَفِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ الْحَنَفِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُوْلُ أُہْدِیَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُلَّۃٌ سِیَرَائُ مِنْ حَرِیْرٍ ، فَبَعَثَ بِہَا اِلَیَّ فَلَبِسْتُہَا ، فَرَأَیْتُ الْکَرَاہَۃَ فِیْ وَجْہِہٖ، فَأَطَرْتُہَا خُمُرًا بَیْنَ نِسَائِی .
٦٥٧٦: ابو صالح حنفی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دھاری دار ریشمی جوڑا ہدیہ میں لایا گیا آپ نے وہ میری طرف بھیجا میں نے اسے پہن لیا تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناپسندیدگی کے آثار محسوس کئے۔ میں اس کو کاٹ کر اپنے ہاں عورتوں کے دوپٹے بنا دیئے۔

6579

۶۵۷۷: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ عَوْنٍ ، مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٥٧٧: ابو عون نے محمد بن عبداللہ سے انھوں نے پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6580

۶۵۷۸: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، عَنْ عَلِی ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٥٧٨: زید بن وہب نے حضرت علی (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6581

۶۵۷۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ أَنَّ اِبْرَاھِیْمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُنَیْنٍ حَدَّثَہٗ : أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہٗ : أَنَّہٗ سَمِعَ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ یَقُوْلُ کَسَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُلَّۃً سِیَرَائَ فَرُحْتُ فِیْہَا .فَقَالَ لِیْ یَا عَلِیُّ ، اِنِّیْ لَمْ أَکْسُکَہَا لِتَلْبَسَہَا .فَرَجَعْتُ اِلَی فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَأَعْطَیْتُہَا طَرَفَہَا ، کَأَنَّہَا تَطْوِی مَعِی فَشَقَقْتُہَا ، فَقَالَتْ : تَرِبَتْ یَدَاکَ یَا ابْنَ أَبِیْ طَالِبٍ ، مَاذَا جِئْتَ بِہٖ ؟ .قُلْتُ : نَہَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ أَلْبَسَہَا ، فَالْبَسِیہَا ، وَاکْسِی نِسَائَ کِ .
٦٥٧٩: ابراہیم بن عبداللہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ انھوں نے حضرت علی (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک دھاری دار جوڑا عنایت فرمایا میں بہت خوش ہوا تو آپ نے مجھے فرمایا اے علی ! یہ میں نے تجھے پہننے کو نہیں دیا۔ پس میں حضرت فاطمہ (رض) کے ہاں لوٹ کر آیا میں نے اس کا ایک کنارہ حضرت فاطمہ (رض) کو پکڑایا۔ گویا وہ اس کو میرے ساتھ لپیٹتی تھیں پھر میں نے اس کو پھاڑ دیا انھوں نے کہا اے ابو طالب کے بیٹے تیرے ہاتھ میں خاک ہو۔ تم کیا لائے ہو۔ میں نے کہا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس کو پہننے سے منع فرمایا پس تم عورتیں اس کو پہنو اور دوسری عورتوں کو پہناؤ۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٣٠‘ مسلم فی اللباس ١٩‘ مسند احمد ١؍٩٢۔

6582

۶۵۸۰: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ ثَنَا عِمْرَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِیْ فَاخِتَۃَ ، عَنْ جَعْدَۃَ ، عَنْ عَلِی قَالَ أَہْدَی أَمِیْرُ أَذْرَبِیجَانَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُلَّۃً مُسَیَّرَۃً بِحَرِیْرٍ ، اِمَّا سَدَاہَا ، وَاِمَّا لُحْمَتُہَا ، فَبَعَثَ بِہَا اِلَیَّ فَأَتَیْتُہٗ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَلْبَسُہَا ؟ .قَالَ لَا ، أَکْرَہُ لَکَ مَا أَکْرَہُ لِنَفْسِی ، وَلٰـکِنْ اجْعَلْہَا خُمُرًا بَیْنَ الْفَوَاطِمَ .قَالَ : فَقَطَّعْتُ مِنْہَا أَرْبَعَ خُمُرٍ ، خِمَارًا لِفَاطِمَۃَ بِنْتَ أَسَدِ بْنِ ہَاشِمٍ أُمِّ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ ، وَخِمَارًا لِفَاطِمَۃَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَخِمَارًا لِفَاطِمَۃَ بِنْتِ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَخِمَارًا لِفَاطِمَۃَ أُخْرَی قَدْ نَسَیْتُہَا .
٦٥٨٠: جعدہ نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ آذر بائیجان کے حاکم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ایک جوڑا بھیجا جس میں ریشم تھا اس کا تانا بانا ریشم کا تھا یا اس کا تانا ریشم یا بانا ریشم کا تھا آپ وہ میری طرف بھیج دیا میں اسے لے کر آیا اور عرخ کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں اسے پہن لوں آپ نے فرمایا نہیں میں تمہارے لیے بھی وہ چیز ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں بلکہ اسے فاطمہ نامی عورتوں کے درمیان دوپٹوں میں تقسیم کر دو ۔ حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس سے چار دوپٹے بنائے۔ ایک دوپٹہ حضرت فاطمہ بنت رسول والدہ علی کے لیے ایک دوپٹہ حضرت فاطمہ (رض) بنت رسول کے لیے ایک دوپٹہ حضرت فاطمہ بنت حمزہ (رض) کے لیے اور ایک دوپٹہ ایک اور فاطمہ (رض) کے لیے بنایا۔ راوی کہتا ہے میں اس فاطمہ کی (ولدیت) بھول گیا۔

6583

۶۵۸۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِیْ فَاخِتَۃَ ، عَنْ جَعْدَۃَ بْنِ ہُبَیْرَۃَ ، عَنْ عَلِی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُہْدِیَتْ لَہٗ حُلَّۃٌ لُحْمَتُہَا أَوْ سَدَاہَا ، اِبْرَیْسَمُ .فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَلْبَسُہَا ؟ قَالَ : لَا ، أَکْرَہُ لَکَ مَا أَکْرَہُ لِنَفْسِی ، وَلٰـکِنْ اقْطَعْہَا خُمُرًا ، لِفُلَانَۃَ ، وَفُلَانَۃَ ، وَفُلَانَۃَ ، وَذَکَرَ فِیْہِنَّ فَاطِمَۃَ قَالَ ، فَشَقَقْتُہَا أَرْبَعَ خُمُرٍ .
٦٥٨١: حضرت جعدہ بنت ہبیرہ (رض) حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک جوڑا پیش کیا گیا جس کا تانا بانا ریشم کا تھا میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں اسے پہن لوں۔ آپ نے فرمایا نہیں ! میں تمہارے لیے بھی وہ چیز ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں۔ بلکہ اس سے تم فلاں فلاں خواتین کے دوپٹے بنا لو۔ ان میں حضرت فاطمۃ الزہرا (رض) کا بھی نام لیا۔ میں نے اس کے چار دوپٹے بنائے۔

6584

۶۵۸۲: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ أَبِیْ لَیْلَی قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُوْلُ أُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِحُلَّۃِ حَرِیْرٍ ، فَبَعَثَ بِہَا اِلَیَّ فَلَبِسْتُہَا ، فَرَأَیْتُ الْکَرَاہَۃَ فِیْ وَجْہِہٖ، فَأَطَرْتُہَا خُمُرًا بَیْنَ النِّسَائِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ۔
٦٥٨٢: ابن ابی لیٰ کہتے ہیں کہ میں حضرت علی (رض) کو فرماتے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک ریشمی جوڑا آیا تو آپ نے میری طرف بھیج دیا میں نے اسے پہنا تو آپکے چہرہ انور پر ناگواری کے آثار پائے چنانچہ میں نے اسے پہنا تو آپ کے چہرہ انور پر ناگواری کے آثار پائے چنانچہ میں نے اسے خواتین کے درمیان دوپٹہ بنا کر تقسیم کردیا۔
تخریج : مسند احمد ١؍١١٨‘ ١٣٩۔

6585

۶۵۸۳: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّہٗ رَأَیْ عَلٰی أُمِّ کُلْثُوْمٍ ، بِنْتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُرْدَ حَرِیْرٍ سِیَرَائَ .
٦٥٨٣: زہری نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی امّ کلثوم (رض) کے پاس میں نے ایک دھاری دار ریشمی چادر دیکھی۔ تخریج : بخاری فی اللباس باب ٣٠‘ ابو داؤد فی اللباس باب ١١‘ نسائی فی الزینہ باب ٨٣‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ١٩۔

6586

۶۵۸۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ ، عَنِ الزُّبَیْدِیِّ عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، مِثْلَہٗ۔
٦٥٨٤: زہری نے حضرت انس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6587

۶۵۸۵: حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْسُفَ ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ وَمَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ مِثْلَہٗ۔
٦٥٨٥: زہری نے حضرت انس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6588

۶۵۸۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْخَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ ، وَحَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ ، قَالَ : ثَنَا بَقِیَّۃُ عَنِ الزُّبَیْدِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، مِثْلَہٗ۔قَالَ : قَالَ وَالسِّیَرَائُ الْمُضَلَّعُ بِالْقَزِّ .
٦٥٨٦: زہری نے حضرت انس (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ زہری کہتے ہیں کہ سیراء سے مراد ایسی چادر ہے جس کے کناروں پر ریشم لگا ہو۔

6589

۶۵۸۷: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : رَأَیْتُ عَلَی زَیْنَبَ ، بِنْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بُرْدًا سِیَرَائَ مِنْ حَرِیْرٍ .فَقَدْ ثَبَتَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ ، مِمَّا قَدَّمْنَا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ النَّظَرِ ، اِبَاحَۃُ لُبْسِ الْحَرِیْرِ لِلنِّسَائِ وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ .
٦٥٨٧: زہری نے حضرت انس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے حضرت زینب بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک دھاری دار ریشمی کناروں والی چادر دیکھی۔ ان روایات سے وہ بات ثابت ہوئی ہے جو ہم نظر سے ثابت کرچکے کہ عورتوں کے لیے ریشمی لباس پہنناجائز ہے یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : نسائی فی الزینہ باب ٨٣۔
عمل صحابہ کرام (رض) سے تصدیق مزید :

6590

۶۵۸۸: وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، نَزَعَ الْحَرِیْرَ عَنِ الْغُلَامِ ، وَتَرَکَہُ عَلَی الْجَوَارِی .قَالَ مِسْعَرٌ : وَسَأَلْتُ عَنْہُ عَمْرَو بْنَ دِیْنَارٍ ، فَلَمْ یَعْرِفُہُ .
٦٥٨٨: عمرو بن دینار (رح) روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے لڑکے سے ریشم کو اتار دیا اور بچیوں پر ریشم کو چھوڑ دیا۔ مسعر راوی کہتے ہیں کہ میں نے عمرو سے پوچھا تو انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
امام طحاوی (رح) نے اس باب میں اس قول کو دلائل سے ثابت کیا ہے کہ سونا چاندی ‘ اور ریشم عورتوں کے لیے پہننا جائز ہے مردوں کے لیے ناجائز ہے البتہ سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال دونوں کے لیے حرام ہے۔ (واللہ اعلم)

6591

قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : قَدْ رَوَیْنَا فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْبَابِ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّہْیَ ، عَنِ الْحَرِیْرِ .فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ ذٰلِکَ النَّہْیَ قَدْ وَقَعَ عَلَی قَلِیْلِہِ وَکَثِیْرِہٖ، فَکَرِہُوْا بِذٰلِکَ لُبْسَ الْمُعَلَّمِ بِعَلَمِ الْحَرِیْرِ .وَالثَّوْبِ الَّذِی لُحْمَتُہُ غَیْرُ حَرِیْرٍ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : قَدْ وَقَعَ النَّہْیُ مِنْ ذٰلِکَ عَلٰی مَا جَاوَزَ الْأَعْلَامَ ، وَعَلٰی مَا کَانَ سَدَاہُ غَیْرَ حَرِیْرٍ ، لَا عَلَی غَیْرِ ذٰلِکَ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ، بِمَا قَدْ رَوَیْنَا فِی بَابِ لُبْسِ الْحَرِیْرِ عَنْ عُمَرَ فِی اسْتِثْنَائِہٖ، مِمَّا حَرُمَ عَلَیْہِمْ مِنَ الْحَرِیْرِ ، الْأَعْلَامَ .
امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اس باب کے علاوہ ہم سابقہ باب میں ریشم کی حرمت ذکر کر آئے جو کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے اب اس میں دو مسلک ہیں۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ قلیل و کثیر حرام ہے چنانچہ انھوں نے ریشمی نقش ونگار والے کپڑے کو حرام قرار دیا اور وہ کپڑا جس کا باناریشمی نہ ہو (بلکہ تانا ریشمی ہو) دوسروں نے کہا نقش و نگار سے جو زائد ہو اس کے متعلق ممانعت وارد ہے اور جس کا تانا رشیم کا نہ ہو (بلکہ باناریشم کا ہو) اس کے علاوہ کی ممانعت نہیں ہے انھوں نے اس کی دلیل کے لیے جو روایات باب لبس الحریر میں حضرت عمر (رض) سے نقل کی گئی ہیں ان سے استدلال کیا ہے کہ حرام ریشم سے نقش و نگار مستثنیٰ ہے۔ حرمت ریشم تو ثابت شدہ ہے اب اس کی اقل قلیل مقدار یا نقش نگار وغیرہ بھی حرام ہیں یا نہیں اس میں دو رائے ہیں۔ قلیل و کثیر حرام ہے یہ امام مالک کا قول ہے اور امام شافعی (رح) مطلقاً رخصت کے قائل ہیں۔ فریق ثانی کا مؤقف نقش ونگار اور قلیل مقدار اس حرمت سے مستثنیٰ ہے ائمہ احناف رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔ (اشعہ ج ٤ ص ٥٧٩)

6592

۶۵۸۹: وَبِمَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ : ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِکٍ الْمُزَنِیّ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ أَبِیْ ہِنْدٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ عَائِشَۃُ ، قَالَتْ : کَانَتْ لَنَا قَطِیْفَۃٌ عَلَمُہَا حَرِیْرٌ ، فَکُنَّا نَلْبَسُہَا .
٦٥٨٩: سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا ہمارے پاس ایک چادر تھی جس کے نقش و نگار ریشمی تھے ہم اس کو پہن لیا کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی اللباس ٨٨‘ نسائی فی الزینہ باب ١١٠‘ مسند احمد ٦؍٤٩‘ ٥٣۔

6593

۶۵۹۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسُ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ زِیَادٍ، عَنْ أَبِیْ عُمَرَ ، مَوْلَی أَسْمَائَ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ اشْتَرَی جُبَّۃً ، فِیْہَا خَیْطٌ أَحْمَرُ فَرَدَّہَا. فَأَتَیْتُ أَسْمَائَ ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہَا .فَقَالَتْ : بُؤْسًا لِابْنِ عُمَرَ ، یَا جَارِیَۃُ ، نَاوِلِینِیْ جُبَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَأَخْرَجَتْ اِلَیْنَا جُبَّۃً مَکْفُوْفَۃَ الْجَیْبِ ، وَالْکُمَّیْنِ ، وَالْفَرُّوْجِ ، بِالدِّیْبَاجِ .
٦٥٩٠: اسماء کے مولیٰ ابو عمر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے ایک جبہ خریدا جس میں سرخ دھاگہ لگا ہوا تھا تو آپ نے اسے واپس کردیا پھر میں حضرت اسمائ (رض) کی خدمت میں آیا اور ان سے اس بات کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا۔ ابن عمر (رض) پر افسوس ! اے لونڈی مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ جبہ دو پھر انھوں نے مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک جبہ دکھایا جس کی گریبان ‘ آستین اور کشادہ حصہ ریشم سے تھا۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ٩‘ ابن ماجہ فی للابس باب ١٨۔

6594

۶۵۹۱: حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ ، ح
٦٥٩١: حسین بن عبداللہ نے ہیثم بن جمیل روایت کی ہے۔

6595

۶۵۹۲: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : اِنَّمَا نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ الثَّوْبِ الْمُصْمَتِ ، وَأَمَّا السَّدَی وَالْعَلَمُ ، فَلَا .
٦٥٩٢: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کپڑے سے منع فرمایا جو مکمل ریشم کا ہو۔ البتہ تانا اور نقش و نگار ریشمی ہو تو کوئی حرج نہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ٩‘ مسند احمد ١؍٢١٨‘ ٣١٣۔

6596

۶۵۹۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، فَذَکَرَ بِاِِسْنَادِہِ مِثْلَہُ .
٦٥٩٣: زہیر بن معاویہ نے خصیف سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔ ان روایات سے ریشم کے علاوہ اس کپڑے کے پہننے کی اباحت ثابت ہوئی جس پر ریشمی نقش لگایا تانا ریشمی ہو اور اس کی صحت پر اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے لباسوں میں مخلوط کپڑے کا استعمال ہے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔

6597

۶۵۹۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِیْ یَذْکُرُ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : رَأَیْتُ عَلَی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِی ، جُبَّۃَ خَز .
٦٥٩٤: شعبی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسین بن علی (رض) کو اون و ریشم کا مخلوط جبہ پہنے پایا۔

6598

۶۵۹۵: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنِ الْعَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلَی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِی ، مِطْرَفَ خَز .
٦٥٩٥: عیزار بن حریث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسین بن علی (رض) کو چادر پہنے دیکھا جو اون و ریشم سے مخلوط تھی۔

6599

۶۵۹۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا بَکْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِیْدٍ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ رَأٰی عَلٰی سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ جُبَّۃً شَامِیَّۃً ، قِیَامُہَا قَزٌّ .قَالَ بُسْرٌ : وَرَأَیْتُ عَلَی زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، خَمَائِصَ مُعَلَّمَۃً .
٦٥٩٦: بشر بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کو ایک شامی جبہ پہنے پایا جس کا تانا ریشمی تھا۔ بشر کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت (رض) کو ریشمی نقش والی چادر پہنے دیکھا۔

6600

۶۵۹۷: حَدَّثَنَا عَلِیٌّ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ ، قَالَ : رَأَیْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِیْ وَقَّاصٍ ، وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ ، وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، وَأَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، یَلْبَسُوْنَ الْخَزَّ .
٦٥٩٧: وہب بن کیسان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) اور ابوہریرہ ‘ جابر بن عبداللہ ‘ انس (رض) کو دیکھا کہ وہ تمام اون و ریشم کا مخلوط کپڑا استعمال کرتے تھے۔

6601

۶۵۹۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ .ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ .أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا کَسَتْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ ، مِطْرَفَ خَز ، کَانَتْ عَائِشَۃُ تَلْبَسُہُ .
٦٥٩٨: عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو اون و ریشم کی مخلوط چادر پہنائی۔ جس کو خود حضرت عائشہ (رض) بھی پہن لیتی تھیں۔

6602

۶۵۹۹: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ .ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ ، قَالَ .ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِیْ عَمَّارٍ ، مَوْلٰی بَنِیْ ہَاشِمٍ قَالَ .قَدِمَتْ عَلَی مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ مَطَارِفُ خَز ، فَکَسَاہَا نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَکَأَنِّیْ أَنْظُرُ اِلٰی أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَعَلَیْہِ مِنْہَا مِطْرَفٌ أَغْبَرُ ، کَأَنِّیْ أَنْظُرُ اِلَی طَرَائِقِ الْاِبْرَیْسَمِ فِیْہِ .
٦٥٩٩: عمار بن ابی عمار مولیٰ بنو ہاشم کہتے ہیں کہ مروان بن حکم کے پاس اون و ریشم کی مخلوط چادریں آئیں تو اس نے بعض اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ چادریں پہنائیں گویا اب بھی وہ منظر میرے سامنے ہے کہ ان پر خاکستری رنگ کی چادر ہے گویا اب بھی میری نگاہ میں چادر کی ریشمی لکیریں ہیں۔

6603

۶۶۰۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ .ثَنَا صَالِحُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ وَرْدَانَ ، قَالَ .ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ .رَأَیْتُ عَلٰی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، جُبَّۃَ خَز ، وَمِطْرَفَ خَز ، وَعِمَامَۃَ خَز .
٦٦٠٠: عبداللہ بن عون کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) کو اون و ریشم کے مخلوط جبہ میں ملبوس اور ریشمی تانے والی چادر اوڑھے اور ریشمی تانے والی پگڑی پہنے پایا۔

6604

۶۶۰۱: حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ .ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ .ثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُوْنَ ، عَنْ شُعَیْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلٰی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ جُبَّۃَ خَز ، وَمِطْرَفَ خَز ، أَوْ قَالَ : وَبُرْنُسَ خَز .
٦٦٠١: شعیب بن حبحاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) پر ریشم کے تانے والا جبہ اور ریشمی تانے والی چادر دیکھی یا اس طرح کہا میں نے ریشمی تانے والی ٹوپی دیکھی۔

6605

۶۶۰۲: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ أَنَّہٗ رَأٰی عَلٰی أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، مِطْرَفَ خَزٍّ .فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ کَانُوْا یَلْبَسُوْنَ الْخَزَّ ، وَقِیَامُہٗ حَرِیْرٌ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرَیْنِ عَلٰی أَہْلِ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ ، أَنَّ الْخَزَّ ، یَوْمَئِذٍ ، لَمْ یَکُنْ فِیْہِ حَرِیْرٌ .فَیُقَالُ لَہُمْ : وَمَا دَلِیْلُکُمْ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ ، وَقَدْ ذَکَرْنَا فِیْ بَعْضِ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، أَنَّ جُبَّۃَ سَعْدٍ کَانَ قِیَامُہَا قَزًّا .وَرَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ کِتَابِنَا ہٰذَا، فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْبَابِ ، أَنَّہٗ دَخَلَ عَلٰی ابْنِ عَامِرٍ ، وَعَلَیْہِ جُبَّۃٌ ، شَطْرُہَا خَزٌّ ، وَشَطْرُہَا حَرِیْرٌ .فَکَلَّمَہُ ابْنُ عَامِرٍ فِیْ ذٰلِکَ ، فَقَالَ : اِنَّمَا یَلِیْ جِلْدِی مِنْہٗ، الْخَزُّ .فَدَلَّ ہٰذَا عَلٰی أَنَّ خَزَّہُمْ کَانَ کَخَزِّ النَّاسِ مِنْ بَعْدِہِمْ ، فِیْہِ حَرِیْرٌ ، وَفِیْہِ خَزٌّ .فَفِی ثُبُوْتِ ذٰلِکَ ، ثُبُوْتُ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مَنْ أَبَاحَ لُبْسَ الثَّوْبِ مِنْ غَیْرِ الْحَرِیْرِ الْمُعَلَّمِ بِالْحَرِیْرِ ، وَلُبْسَ الثَّوْبِ الَّذِی قِیَامُہٗ حَرِیْرٌ ، وَظَاہِرُہُ غَیْرُ حَرِیْرٍ. وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٦٦٠٢: محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) پر ریشمی تانے والی چادر دیکھی۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کی جماعت ہے جو کہ خز کو استعمال کرتے ہیں جس کا تانا ریشمی ہوتا تھا۔ اگر کوئی معترض کہے کہ فریق اول کہتا ہے کہ ان دنوں خز۔ میں ریشم نہ ہوتا تھا۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو بات تم نے کہی اس کی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں اس کے بالمقابل ہم نے جو آثار نقل کئے ہیں ان میں حضرت سعد (رض) کے بعض آثار میں یہ لفظ موجود ہیں کہ ” ان جبۃ سعد کان قیامہا خزا “ اس کا تانا ریشمی تھا ہم گزشتہ ابواب میں ذکر کر آئے کہ حضرت سعد (رض) حضرت عقبہ بن عامر (رض) کے ہاں گئے تو اس وقت ان کا جبہ اس طرح کا تھا کہ جس کا ایک حصہ مخلوط اور ایک حصہ ریشم کا تھا تو ابن عامر (رض) نے اس سلسلہ میں ان سے بات کی جس میں فرمایا میرے جسم سے ملے ہوئے حصہ کا کپڑا مخلوط (اون و ریشم) ہے اس سے فریق ثانی کی بات ثابت ہوتی ہے جن کے ہاں غیر ریشم ایسا کپڑا پہننا مباح ہے جس پر ریشمی نقش نگار ہوں اور اسی طرح اس کپڑے کا استعمال درست ہے جس کا تانا ریشمی اور بانا غیر ریشمی ہو۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

6606

۶۶۰۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ .وَقَالَ أَصْحَابُ الْاِمْلَائِ ، مِنْہُمْ بِشْرُ بْنُ وَلِیَدٍ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ یَشُدَّہَا بِالذَّہَبِ .وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ : لَا بَأْسَ أَنْ یَشُدَّہَا بِالذَّہَبِ ، کَذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِأَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، فِی قَوْلِہٖ الَّذِیْ رَوَاہُ مُحَمَّدٌ ، عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ ، عَنْہُ، أَنَّہٗ قَدْ نُہِیَ عَنْ الذَّہَبِ وَالْحَرِیْرِ ، فَنُہِیَ عَنِ اسْتِعْمَالِہِمَا وَکَانَ مَا نُہِیَ عَنْہُ مِنَ الْحَرِیْرِ ، قَدْ دَخَلَ فِیْہِ لِبَاسُہٗ، وَعَصَبُ الْجِرَاحِ بِہٖ .فَکَذٰلِکَ مَا نُہِیَ عَنْہُ مِنِ اسْتِعْمَالِ الذَّہَبِ ، یَدْخُلُ فِیْہِ شَدُّ السِّنِّ بِہٖ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِمُحَمَّدٍ فِیْمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ ، عَلٰی أَبِیْ حَنِیْفَۃَ فِیْ رِوَایَتِہِ عَنْ أَبِیْ یُوْسُفَ عَنْہُ، أَنَّ مَا ذُکِرَ مِنْ تَعْصِیْبِ الْجِرَاحِ بِالْحَرِیْرِ ، اِنْ کَانَ مَا فَعَلَ ؛ لِأَنَّہٗ عِلَاجٌ لِلْجِرَاحِ ، فَلَا بَأْسَ بِہٖ ، لِأَنَّ ذٰلِکَ دَوَائٌ ، کَمَا أَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَامّ ، وَعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ ، لُبْسَ الْحَرِیْرِ مِنَ الْحَکَّۃِ الَّتِیْ کَانَتْ بِہِمَا ، کَذٰلِکَ عَصَائِبُ الْحَرِیْرِ ، اِنْ کَانَتْ عِلَاجًا لِلْجُرْحِ لِتَقِلَّ مِدَّتُہٗ، کَمَا أَنَّ الثَّوْبَ الْحَرِیْرَ عِلَاجٌ ، لِلْحَکَّۃِ ، فَلَا بَأْسَ بِہَا ، وَاِنْ یَکُنْ عِلَاجًا لِلْجُرْحِ ، فَکَانَتْ ہِیَ وَسَائِرُ الْعَصَائِبِ فِیْ ذٰلِکَ سَوَائً ، فَہِیَ مَکْرُوْہَۃٌ .فَکَذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا مِنَ الذَّہَبِ ، اِنْ کَانَ یُرَادُ مِنْہُ أَنَّہٗ لَا یُنْتِنُ کَمَا تُنْتِنُ الْفِضَّۃُ ، فَلَا بَأْسَ بِہٖ ، وَقَدْ أَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَرْفَجَۃَ بْنِ أَسْعَدَ ، أَنْ یَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَہَبٍ . قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ ، قَدْ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِی الرَّجُلِ یَتَحَرَّکُ سِنُّہٗ، فَیُرِیْدُ أَنْ یَشُدَّہَا بِالذَّہَبِ .فَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ : لَیْسَ لَہٗ ذٰلِکَ ، وَأَنْ یَشُدَّہَا بِالْفِضَّۃِ کَذٰلِکَ .
٦٦٠٣: علی بن معبد نے محمد بن حسن اور ابو یوسف نے امام ابوحنیفہ (رح) سے یہ قول نقل کیا ہے۔ اصحاب امالی کا قول ہے کہ بشر بن ولید نے ابو یوسف سے انھوں نے امام ابوحنیفہ (رح) سے نقل کیا دانتوں کو سونے (کے تار) سے باندھنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام محمد کا قول ہے کہ سونے (کے تار) سے باندھنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کی دلیل ہے کہ محمد (رح) نے ابو یوسف (رح) سے جو امام ابوحنیفہ (رح) کا قول نقل کیا ہے اس میں یہ ہے کہ سونے اور ریشم کے استعمال سے منع کیا گیا اور ریشم کی اس ممانعت میں ریشم کا لباس اور زخموں پر پٹی باندھنا بھی شامل ہے اسی طرح سونے کے استعمال سے منع کیا گیا اس میں دانت کا باندھنا بھی شامل ہے۔ امام محمد کی دلیل ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا جو قول محمد (رح) نے ابو یوسف (رح) کی وساطت سے نقل کیا اس میں زخم پر مرہم پٹی کے لیے ریشمی پٹی کا جواز مذکور ہے کیونکہ یہ دواء ہے جیسا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر اور عبدالرحمن بن عوف (رض) کے لیے خارش کی وجہ سے ریشم کے پہننے کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح ریشمی کپڑے سے مرہم پٹی کا بھی حکم ہے۔ اگر اس سے کم مدت میں زخم درست ہوتا ہو جیسا کہ ریشمی کپڑا خارش کا علاج ہے تو پھر کوئی حرج نہیں اور اگر زخم کا علاج نہ ہو تو پھر یہ اور دوسری پٹیاں برابر ہیں اس صورت میں ریشمی پٹی مکروہ ہوگی پس اسی طرح سونے کا حکم ہے اگر اس سے بدبو سے حفاظت ہو اور چاندی کی طرح بدبو نہ دینے لگے تو تب کوئی حرج نہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفجہ بن اسعد (رض) کے لیے سونے کی ناک بنوانے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ (روایت یہ ہے)
سونے کے تار سے دانت کی بندش جائز ہے یا نہیں۔ سونے کے تار سے بندش درست نہیں البتہ چاندی سے درست ہے۔ اس قول کو امام ابوحنیفہ (رح) نے اختیار فرمایا۔ !: سونے کے تار سے دانتوں کی بندش درست ہے اس قول کو امام محمد (رح) نے اختیار کیا اور امام ابو یوسف (رح) کا قول بھی یہی ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : اگر کسی آدمی کا دانت ہلنے لگے وہ اس کو سونے سے مضبوط کرنا اور باندھنا چاہتا ہو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ سونے سے باندھنا جائز نہیں۔ البتہ چاندی سے ان کو باندھ سکتا ہے۔

6607

۶۶۰۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَشْہَبِ ، ح .
٦٦٠٤: حجاج بن منہال نے ابوالاشہب سے روایت کی ہے۔

6608

۶۶۰۵: وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا غَسَّانُ بْنُ عُبَیْدٍ الْمُصَلِّی قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَشْہَبِ ، ح .
٦٦٠٥: غسان بن عبید المصلی نے ابوالاشہب سے روایت کی ہے۔

6609

۶۶۰۶: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَشْہَبِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ طَرَفَۃَ ، عَنْ جَدِّہِ عَرْفَجَۃَ بْنِ أَسْعَدَ أَنَّہٗ أُصِیْبَ أَنْفُہُ یَوْمَ الْکُلَابِ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَاِتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ ، فَأَنْتَنَ عَلَیْہٖ، فَشَکَا ذٰلِکَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَمَرَہٗ أَنْ یَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَہَبٍ ، فَفَعَلَ .
٦٦٠٦: ابوالاشہب نے عبدالرحمن بن طرفہ سے انھوں نے اپنے دادا عرفجہ بن اسعد (رض) سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت کی لڑائی جنگ کلاب میں ان کی ناک کو نقصان پہنچا انھوں نے چاندی کی ناک بنوائی تو اس میں تعفن پیدا ہوا تو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں سونے کی ناک بنوانے کی اجازت مرحمت فرمائی اور انھوں نے اسی طرح کیا۔
تخریج : ابو داؤد فی الخائم باب ٧‘ ترمذی فی اللباس باب ٣١‘ نسائی فی الزینہ باب ٤١‘ مسند احمد ٥؍٢٣۔

6610

۶۶۰۷: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، وَالْخَصِیْبُ بْنُ نَاصِحٍ ، وَأَسَدُ بْنُ مُوْسَی ، قَالُوْا : ثَنَا أَبُو الْأَشْہَبِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنُ طَرَفَۃَ عَنْ عَرْفَجَۃَ ، مِثْلَہٗ۔فَقَدْ أَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَرْفَجَۃَ بْنِ أَسْعَدَ ، أَنْ یَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَہَبٍ ، اِذَا کَانَ تُنْتِنُ الْفِضَّۃُ .فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فِی الْأَنْفِ ، کَانَ کَذٰلِکَ ، السِّنُّ ، لَا یَشُدُّہَا بِالذَّہَبِ اِذَا کَانَ أَیْ غَیْرُہُ لَا یُنْتِنُ ، فَیَکُوْنُ النَّتْنُ الَّذِیْ مِنَ الْفِضَّۃِ مُبِیْحًا لِاسْتِعْمَالِ الذَّہَبِ ، کَمَا کَانَ النَّتِنُ الَّذِیْ یَکُوْنُ مِنْہَا فِی الْأَنْفِ مُبِیْحًا لِاسْتِعْمَالِ الذَّہَبِ مَکَانَہَا ، فَہٰذِہِ حُجَّۃٌ .وَفِیْ ذٰلِکَ حُجَّۃٌ أُخْرَی ، أَنَّا رَأَیْنَا اسْتِعْمَالَ الْفِضَّۃِ مَکْرُوْہًا کَمَا اسْتِعْمَالَ الذَّہَبِ مَکْرُوْہًا .فَلَمَّا کَانَا مُسْتَوِیَیْنِ فِی الْکَرَاہَۃِ ، وَقَدْ عَمَّہُمَا النَّہْیُ جَمِیْعًا ، وَکَانَ شَدُّ السِّنِّ بِالْفِضَّۃِ خَارِجًا مِنْ الْاِسْتِعْمَالِ الْمَکْرُوْہٖ، کَانَ کَذٰلِکَ شَدُّہَا بِالذَّہَبِ أَیْضًا ، خَارِجًا مِنْ الْاِسْتِعْمَالِ الْمَکْرُوْہِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَأَیْنَا خَاتَمَ الْفِضَّۃِ أُبِیْحَ لِلرِّجَالِ ، وَمُنِعُوْا مِنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ ، فَقَدْ أُبِیْحَ لَہُمْ مِنَ الْفِضَّۃِ ، مَا لَمْ یُبَحْ لَہُمْ مِنَ الذَّہَبِ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ کَانَ النَّظَرُ مَا حَکَیْنَا وَہُوَ اِبَاحَۃُ خَاتَمِ الذَّہَبِ لِلرِّجَالِ ، کَخَاتَمِ الْفِضَّۃِ .وَلٰـکِنَّا مُنِعْنَا مِنْ ذٰلِکَ ، وَجَائَ النَّہْیُ عَنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ نَصًّا ، فَقُلْنَا بِہٖ ، وَتَرَکْنَا لَہٗ النَّظَرَ ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ ، لَجَعَلْنَاہُ فِی الْاِبَاحَۃِ کَخَاتَمِ الْفِضَّۃِ .فَکَذٰلِکَ شَدُّ السِّنِّ ، لَمَّا أُبِیْحَ بِالْفِضَّۃِ ، ثَبَتَ أَنَّ شَدَّہَا بِالذَّہَبِ کَذٰلِکَ ، حَتّٰی یَأْتِیَ بِالتَّفْرِقَۃِ بَیْنَ ذٰلِکَ ، سُنَّۃٌ یَجِبُ بِہَا تَرْکُ النَّظَرِ ، کَمَا جَائَ فِیْ خَاتَمِ الذَّہَبِ سُنَّۃٌ ، نَہَتْ عَنْہُ فَتَمَّتْ بِہَا الْحُجَّۃُ ، وَوَجَبَ لَہَا تَرْکُ النَّظَرِ ، فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا ، مَا قَالَ مُحَمَّدٌ . فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : وَمَا الَّذِیْ رُوِیَ فِی النَّہْیِ مِنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ ؟ . قِیْلَ لَہٗ : قَدْ رُوِیَتْ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ، آثَارٌ مُتَوَاتِرَۃٌ ، جَائَ تْ مَجِیْئًا صَحِیْحًا ، وَسَنَذْکُرُہَا فِی بَابِ النَّہْیِ عَنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ اِبَاحَۃُ شَدِّ الْأَسْنَانِ بِالذَّہَبِ فَمِنْ ذٰلِکَ
٦٦٠٧: عبدالرحمن بن طرفہ نے عرفجہ (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفجہ بن اسعد (رض) کے لیے سونے کی ناک کی اجازت اس لیے مرحمت فرمائی کہ چاندی کی ناک گوشت میں تعفن پیدا کرتی تھی۔ جب ناک کا یہ حکم ہے تو دانت کا بھی یہی حکم ہے کہ اس کو سونے سے باندھنے کی اس وقت اجازت ہے جبکہ دیگر اشیاء سے باندھنا خرابی کا باعث ہو۔ چاندی وغیرہ کے دانت کا تعفن پیدا کرنا سونے کے استعمال کو مباح کرنے والا ہے۔ جیسا کہ چاندی کی ناک کا تعفن سونے کی ناک کو مباح کرنے کا باعث تھا۔ پس یہ ایک دلیل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چاندی کا استعمال اسی طرح مکروہ و ناجائز ہے جیسا کہ سونے کا استعمال ناجائز و مکروہ ہے جب دونوں کا درجہ کراہت میں برابر ہے اور ممانعت میں دونوں شامل ہیں اور دانت کا چاندی سے باندھنا استعمال مکروہ سے خارج ہے تو سونے سے باندھنا بھی اسی طرح ہوگا یعنی استعمال حرام سے خارج شمار ہوگا۔ چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے مباح ہے مگر سونے کی انگوٹھی مباح نہیں تو ان کی چاندی کی ایک مقدار مباح کردی گئی جو سونے میں مباح نہیں کی گئی۔ (پس دونوں کا حکم یکساں نہ رہا) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نظر کا تقاضا تو اسی طرح تھا کہ جس طرح چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے مباح ہے سونے کی انگوٹھی کا بھی یہی حکم ہو۔ لیکن اس کی ممانعت کردی گئی اور سونے کی انگوٹھی کے ممنوع ہونے میں نص وارد ہے اسی کو اختیار کیا اور قیاس کو ترک کردیا اگر نص نہ ہوتی تو اس کو بھی اباحت میں وہی درجہ حاصل ہوتا جو چاندی کو ہے۔ اسی طرح دانت کا باندھنا جب چاندی میں مباح ہے تو سونے سے بھی مباح ہے جب تک کہ ان کے مابین تفریق کے لیے اسی طرح سنت کی دلیل نہ آجائے جس سے قیاس کا چھوڑنا لازم ہوجائے جیسا کہ سونے کی انگوٹھی کے متعلق سنت وارد ہوئی ہے جس سے اس کی ممانعت کردی گئی اور اس سے حجت تمام ہو کر ترک قیاس لازم ہوا۔ پس ان دونوں دلیلوں سے امام محمد (رح) کا مؤقف ثابت ہوگیا۔ اگر کوئی معترض کہے کہ سونے کی انگوٹھی کے متعلق وہ کون سی روایت ہے جو اس کی ممانعت ثابت کرتی ہے۔ ان کو جواب میں کہے کہ اس سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر آثار مروی ہیں ہم ان کو باب النہی عن خاتم الذہب میں ان شاء اللہ ذکر کریں گے۔
دانت کے باندھنے کا متقدمین سے ثبوت :

6611

۶۶۰۸: مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، وَمُوْسَی بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَا : ثَنَا طُعْمَۃُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : رَأَیْتُ صُفْرَۃَ الذَّہَبِ بَیْنَ ثَنَایَا ، أَوْ قَالَ ، بَیْن ثَنِیَّتِی مُوْسَی بْنِ طَلْحَۃَ .
٦٦٠٨: ابو غسان اور موسیٰ بن داؤد دونوں نے طعمہ بن عمرو سے روایت کی ہے میں نے موسیٰ بن طلحہ کے دانتوں کے درمیان یا دو دانتوں میں سونے کی زردی دیکھی۔

6612

۶۶۰۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ ، قَالَ : رَأَیْتُ الْحَسَنَ شَدَّ أَسْنَانَہُ بِالذَّہَبِ .
٦٦٠٩: حمیدالطویل کہتے ہیں کہ میں نے حسن (رح) کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے دانت سونے سے بندھوائے۔

6613

۶۶۱۰: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَشْہَبِ ، عَنْ حَمَّادٍ قَالَ : رَأَیْتُ الْمُغِیْرَۃَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، أَمِیْرَ الْکُوْفَۃِ ، قَدْ ضَبَّبَ أَسْنَانَہُ بِالذَّہَبِ .فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِاِبْرَاھِیْمَ ، فَقَالَ : لَا بَأْسَ بِہٖ .
٦٦١٠: حماد کہتے ہیں کہ میں نے مغیرہ بن عبداللہ امیر کوفہ کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے دانتوں کو سونے سے باندھا ہوا ہے میں نے یہ بات ابراہیم کو بتلائی تو انھوں نے فرمایا اس میں کچھ حرج نہیں۔

6614

۶۶۱۱: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَبَا التَّیَّاحِ ، وَأَبَا حَمْزَۃَ ، وَأَبَا نَوْفَلِ بْنَ أَبِیْ عَقْرَبٍ ، قَدْ ضَبَّبُوْا أَسْنَانَہُمْ بِالذَّہَبِ .
٦٦١١: شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالتیاح ‘ ابو حمزہ ‘ ابو نوفل بن ابی عقرب کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے دانتوں کو سونے سے بندھوایا ہوا ہے۔

6615

۶۶۱۲: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُبَیْدَ اللّٰہِ بْنَ الْحَسَنِ قَاضِیَ الْبَصْرَۃِ ، قَدْ شَدَّ أَسْنَانَہُ بِالذَّہَبِ .فَقَدْ وَافَقَ مَا رَوَیْنَا عَنْہُمْ مِنْ ہٰذَا ، مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ فِیْہِ نَأْخُذُہُ .
٦٦١٢: خصیب کہتے ہیں کہ میں نے عبیداللہ بن الحسن قاضی بصرہ کو دیکھا کہ انھوں نے سونے سے اپنے دانتوں کو بندھوا رکھا ہے۔
ان تابعین رحمہم اللہ کا عمل امام محمد (رح) کے قول کے موافق ہوا۔
اس باب میں امام طحاوی (رح) نے امام محمد (رح) کے مؤقف کو ترجیح دی ہے سونے کے تار سے دانتوں کو باندھنا درست ہے۔

6616

۶۶۱۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو رَجَائٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلَی الْبَرَائِ خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ ، فَقِیْلَ لَہٗ۔قَالَ قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَنِیْمَۃً فَأَلْبَسَنِیْہِ وَقَالَ : الْبَسْ مَا کَسَاکَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی اِبَاحَۃِ لُبْسِ خَوَاتِمِ الذَّہَبِ لِلرِّجَالِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَقَالُوْا : قَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَلْبَسُوْنَ خَوَاتِیْمَ الذَّہَبِ .فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٦٦١٣: ابو رجاء نے محمد بن مالک سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت براء کے ہاتھ میں ایک سونے کی انگوٹھی دیکھی۔ ان سے کہا گیا (یہ سونے کی انگوٹھی ہے) انھوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے یہ مجھے پہنائی اور فرمایا تم اس چیز کو پہن لو جو تمہیں اللہ اور رسول پہنائے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگوں نے سونے کی انگوٹھی کو مردوں کے لیے مباح قرار دیا اور اس حدیث سے استدلال کیا اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جماعت سے سونے کی انگوٹھیاں پہننا ثابت ہے۔ جیسا کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ (روایات یہ ہیں)
کیا سونے کی انگوٹھی مردوں کے لیے مباح ہے۔ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مردوں کے لیے یہ جائز ہے۔
فریق ثانی : مردوں کو سونے کی انگوٹھی کا استعمال جائز نہیں بلکہ مکروہ تحریمی ہے۔

6617

۶۶۱۴: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ فِیْ یَدِ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ ، وَرَأَیْتُ فِیْ یَدِ صُہَیْبٍ ، خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ ، وَرَأَیْتُ فِیْ یَدِ سَعْدٍ ، خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ .
٦٦١٤: مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے طلحہ بن عبیداللہ کے ہاتھ میں سونے کی ایک انگوٹھی دیکھی اور صہیب کے ہاتھ میں سونے کی ایک انگوٹھی دیکھی اور سعد کے ہاتھ میں سونے کی ایک انگوٹھی دیکھی۔

6618

۶۶۱۵: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عِیْسَی بْنِ طَلْحَۃَ أَنَّہٗ أَخْبَرَہٗ، أَنَّ طَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ، قُتِلَ وَفِیْ یَدِہِ خَاتَمٌ مِنْ ذَہَبٍ .
٦٦١٥: عیسیٰ بن طلحہ نے بتلایا کہ طلحہ بن عبیداللہ (رض) جب قتل ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سونے کی ایک انگوٹھی تھی۔

6619

۶۶۱۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدِ بْنِ الْعَاصِ أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْعَاصِ قُتِلَ وَفِیْ یَدِہِ خَاتَمٌ مِنْ ذَہَبٍ .
٦٦١٦: یحییٰ بن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن العاص جب قتل ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی۔

6620

۶۶۱۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو السَّفَرِ ، ح
٦٦١٧: مالک بن مغول کہتے ہیں کہ ہمیں ابوالسفر نے بیان کیا۔

6621

۶۶۱۸: وَحَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا خَلَّادُ بْنُ یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو السَّفَرِ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلَی الْبَرَائِ ، خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ .فَذَہَبُوْا اِلَی تَقْلِیْدِ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، مَعَ مَا تَعَلَّقُوْا بِہٖ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ حَدِیْثِ الْبَرَائِ ، الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ فِی أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .وَلَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ مِنَ النَّظَرِ ، أَنَّہٗ قَدْ نَہٰی عَنِ اسْتِعْمَالِ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، نَہْیًا وَاحِدًا ، وَمَنَعَ مِنَ الْأَکْلِ فِیْ آنِیَۃِ الْفِضَّۃِ ، کَمَا مَنَعَ مِنَ الْأَکْلِ فِیْ آنِیَۃِ الذَّہَبِ .فَلَمَّا کَانَ قَدْ سَوَّی فِیْ ذٰلِکَ ، بَیْنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، وَجَعَلَ حُکْمَہُمَا وَاحِدًا ، ثُمَّ ثَبَتَ أَنَّ خَاتَمَ الْفِضَّۃِ ، لَیْسَ مَا نَہٰی عَنْہُ، کَانَ کَذٰلِکَ خَاتَمُ الذَّہَبِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَکَرِہُوْا خَوَاتِیْمَ الذَّہَبِ لِلرِّجَالِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٦٦١٨: یونس بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ ہمیں ابوالسفر نے بیان کیا کہ میں نے حضرت برائ (رض) کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی۔ پہلی روایت براء کے علاوہ ان آثار کو دلیل بناتے ہوئے سونے کی انگوٹھی کا جواز فریق اول نے ثابت کیا ہے۔ ان کی دوسری قیاسی دلیل یہ ہے کہ سونے چاندی کے استعمال کی ممانعت یکساں ہے چاندی کے برتنوں میں بھی اسی طرح کھانا ممنوع ہے جیسا سونے کے برتنوں میں جب دونوں حرمت میں برابر ہیں تو ان کا حکم ایک رہا جب یہ ثابت ہوگیا کہ چاندی کی انگوٹھی ممانعت میں شامل نہیں تو سونے کی انگوٹھی کا بھی یہی حکم ہوا۔
فریق ثانی کا مؤقف : سونے کی انگوٹھی مردوں کے لیے مکروہ تحریمی ہے اس کی دلیل یہ روایات ہیں۔

6622

۶۶۱۹: بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ دَاوٗدَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُنَیْنٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ قَالَ : نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّخَتُّمِ بِالذَّہَبِ .
٦٦١٩: ابراہیم بن عبداللہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت علی (رض) بن ابی طالب سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ٨‘ ترمذی فی اللباس باب ١٢‘ نسائی فی الزبینہ باب ١٧۔

6623

۶۶۲۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ حُنَیْنٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَلِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٢٠: ابراہیم بن عبداللہ نے اپنے والد سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے علی (رض) سے اور حضرت علی (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6624

۶۶۲۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُنَیْنٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَلِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٢١: ابراہیم بن عبداللہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت علی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6625

۶۶۲۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ .ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ قَیْسٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُنَیْنٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَلِی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٢٢: ابراہیم بن عبداللہ نے اپنے والد سے اور انھوں نے ابن عباس (رض) سے انھوں نے حضرت علی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6626

۶۶۲۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ ، ح :
٦٦٢٣: یونس نے عبداللہ بن یوسف سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6627

۶۶۲۴: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، قَالَا : ثَنَا اللَّیْثُ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ أَنَّ اِبْرَاھِیْمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہ بْنِ حُنَیْنٍ حَدَّثَہٗ أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ عَلِیًّا یَقُوْلُ نَہَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ .
٦٦٢٤: ابراہیم بن عبداللہ نے اپنے والد سے بیان کیا کہ انھوں نے حضرت علی (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٢‘ واللباس باب ٤٥‘ مسلم فی اللباس ٢؍٢٩‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٨‘ ترمذی فی الادب باب ٤٥‘ نسائی فی التطبیق باب ٧‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ٤٠‘ مسند احمد ١‘ ٩٤؍٨١‘ ٤؍٢٨٤۔

6628

۶۶۲۵: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ بْنِ مَرْیَمَ ، عَنْ عَلِی قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ .
٦٦٢٥: ہبیرہ بن مریم نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی النکاح باب ٧١‘ والمرضیٰ باب ٤‘ مسلم فی اللباس ٣١؍٥٢‘ مسند احمد ١‘ ١٠٥؍١١٦۔

6629

۶۶۲۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِی قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَتَخَتَّمْ بِالذَّہَبِ .
٦٦٢٦: حارث نے حضرت علی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ ہم سونے کی انگوٹھی نہ پہنیں۔

6630

۶۶۲۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا النُّفَیْلِیُّ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْأَزْدِیِّ ، عَنْ أَبِی الْکَنُوْدِ قَالَ : أَتَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ فَقَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ حَلْقَۃِ الذَّہَبِ .
٦٦٢٧: ابوالکنود کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس آیا تو انھوں نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔

6631

۶۶۲۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ یَزِیْدَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٦٢٨: شعبہ نے یزید سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٤٥‘ مسلم فی اللباس ٣‘ ترمذی فی الادب باب ٤٥‘ نسائی فی الاشربہ باب ٢٦‘ مسند احمد ١؍١١٩‘ ٤؍٢٨٤۔

6632

۶۶۲۹: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَجُلًا جَلَسَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَلَیْہِ خَاتَمٌ مِنْ ذَہَبٍ ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَبِسَ خَاتَمَ حَدِیدٍ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہٰذِہِ لِبْسَۃُ أَہْلِ النَّارِ .فَرَجَعَ فَلَبِسَ خَاتَمَ وَرِقٍ فَسَکَتَ عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٦٢٩: عمرو بن شعیب نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیٹھا اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی تو اس سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعراض فرمایا۔ پھر اس نے لوہے کی ناگوٹھی استعمال کی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ اہل نار کا لباس ہے۔ پھر وہ لوٹا اور اس نے چاندی کی انگوٹھی پہنی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے۔

6633

۶۶۳۰: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَنِیِّ بْنُ رِفَاعَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، ح .
٦٦٣٠: عبدالرحمن بن زیاد کہتے ہیں ک ہمیں شعبہ نے روایت کی ہے۔

6634

۶۶۳۱: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ سُوَیْدٍ بْنِ مُقَرِّنٍ ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ .فَہٰذَا الْبَرَائُ قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ ہٰذَا خِلَافَ مَا رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .
٦٦٣١: معاویہ بن سوید نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔
حاصل : یہ حضرت برائ (رض) ہیں جن سے ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس باب میں اس کے خلاف روایت نقل کی جو کہ ہم نے اس باب کی شروع میں نقل کی ہے۔

6635

۶۶۳۲: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو التَّیَّاحِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ لَیْثٍ یَقُوْلُ : أَشْہَدُ عَلَی عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَنَّہٗ حَدَّثَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ نَہٰی عَنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ .
٦٦٢٣: ابوالتیاح کہتے ہیں کہ میں نے بنو لیث کے ایک آدمی کو کہتے سنا کہ میں عمران بن حصین (رض) کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ نے سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔

6636

۶۶۳۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ حَفْصٍ اللَّیْثِیِّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٣٣: حفص لیثی نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6637

۶۶۳۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ نَہِیْکٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہٰی عَنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ .
٦٦٣٤: بشر بن نہیک نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کی ناگوٹھی سے منع فرمایا۔

6638

۶۶۳۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ ثِنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ رَاشِدٍ ، یُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ أَبِیْ ثَعْلَبَۃَ الْخُشَنِیِّ ، قَالَ : جَلَسَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَلَیْہِ خَاتَمٌ مِنْ ذَہَبٍ ، فَقَرَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہٗ ، بِقَضِیْبٍ کَانَ فِیْ یَدِہٖ، ثُمَّ غَفَلَ عَنْہُ، فَرَمَی الرَّجُلُ بِخَاتَمِہٖ، ثُمَّ نَظَرَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَیْنَ خَاتَمُکَ ؟ فَقَالَ : أَلْقَیْتُہُ .قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَظُنَّنَا اِلَّا وَقَدْ أَوْجَعْنَاکَ وَأَغْرَمْنَاکَ .
٦٦٣٥: عطاء بن یزید نے حضرت ابو ثعلبہ خثنی (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا اور اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ہاتھ کو کھجور کی شاخ سے ٹھٹھکایا پھر اس سے بےتوجہی اختیار فرمائی اس آدمی نے اپنی انگوٹھی پھینک دی پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیری انگوٹھی کہاں ہے ؟ اس نے کہ ا میں نے پھینک دی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمارا خیال یہی ہے کہ ہم نے تمہیں تکلیف پہچائی اور تم پر چٹی ڈال دی۔
تخریج : نسائی فی الزینہ باب ٤٥‘ مسند احمد ٤؍١٩٥۔

6639

۶۶۳۶: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عُمَارَۃِ بْنِ غَزِیَّۃَ الْأَنْصَارِیِّ ، عَنْ سُمَی ، مَوْلَی أَبِیْ بَکْرٍ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعَلَیْہِ خَاتَمٌ مِنْ ذَہَبٍ ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَانْطَلَقَ فَلَبِسَ خَاتَمًا مِنْ حَدِیدٍ ، ثُمَّ جَائَ فَأَعْرَضَ عَنْہُ فَانْطَلَقَ فَنَزَعَہٗ، وَلَبِسَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ ، فَأَقَرَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَقْبَلَ اِلَیْہِ .فَقَدْ رُوِیَتْ ہٰذِہِ الْآثَارُ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّہْیِ عَنِ التَّخَتُّمِ بِالذَّہَبِ .مِنْہَا حَدِیْثُ الْبَرَائِ الَّذِی قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْہَا وَہُوَ أَصَحُّ وَأَثْبَتُ ، مِمَّا رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ فِی الْاِبَاحَۃِ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ أَحَدُ الْفَرِیْقَیْنِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَاسِخًا لِمَا قَدْ رَوَاہُ الْفَرِیْقُ الْآخَرُ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ
٦٦٣٦: ابو صالح کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے روایت کی ہے کہ ایک شخص جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی آپ نے اس سے اعراض فرمایا وہ چلا گیا اور اس نے لوہے کی انگوٹھی پہنی پھر آیا تو آپ نے توجہ نہ فرمائی وہ چلا گیا اور وہ انگوٹھی اتار دی اور چاندی کی انگوٹھی پہن لی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس انگوٹھی کو برقرار رکھا اور اس کی طرف توجہ فرمائی۔
حاصل : جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ آثار سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت میں وارد ہوئے ان میں سے ایک حضرت برائ (رض) کی روایت ہے جو کہ اباحت والی روایات سے زیادہ صحیح و ثابت ہے۔
احتمال : اب اس میں یہ احتمال ہے کہ فریق اول و ثانی کی روایات میں سے ایک ناسخ اور دوسری منسوخ ہوں اب اس پر غور کرتے ہیں۔

6640

۶۶۳۷: حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ ، وَجُلُّ فَصِّہِ مِمَّا یَلِیْ کَفِّہٖ، فَاِتَّخَذَہُ النَّاسُ ، فَرَمَی بِہٖ ، وَاِتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ ، أَوْ فِضَّۃٍ .
٦٦٣٧: نافع نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے کی انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ اپنی ہتھیلی کی طرف پہنا پس لوگوں نے اس کو اختیار کرلیا پس آپ نے اس کو پھینک دیا اور چاندی کی ناگوٹھی بنوائی۔ ورق کا لفظ فرمایا فضہ کا۔ تخریج : بخاری فی اللباس باب ٤٥؍٤٦‘ مسلم فی اللباس ٥٤؍٦٢‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ٤١‘ مسند احمد ٢؍٣٤‘ ٨٦؍٩٦‘ ١١٩؍١٢٧۔

6641

۶۶۳۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٣٨: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6642

۶۶۳۹: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْن سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : قَرَأْتُ عَلٰی مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَانَ یَلْبَسُ خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ ، ثُمَّ قَامَ فَنَبَذَہُ فَقَالَ لَا أَلْبَسُہٗ أَبَدًا فَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِیْمَہُمْ .
٦٦٣٩: عبداللہ بن دینار نے حضرت ابن عمر (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے کی انگوٹھی پہنتے تھے پھر آپ اٹھے اور اس کو پھینک دیا اور فرمایا میں اسے کبھی نہ پہنوں گا تو تمام لوگوں نے اپنی انگوٹھیاں اتار پھینکیں۔
تخریج : بخاری فی الایمان باب ٦‘ والاعتصام باب ٤‘ ترمذی فی اللباس باب ١٦‘ مالک فی صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٣٧‘ مسند احمد ٢؍٦٠‘ ٦٨۔

6643

۶۶۴۰: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مَعْبَدٍ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٤٠: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6644

۶۶۴۱: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ زِیَادٍ ، أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ قَالَ : حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ ، فَاِتَّخَذَ أَصْحَابُہُ خَوَاتِیْمَ مِنْ ذَہَبٍ ، ثُمَّ رَمَی بِہٖ ، وَاِتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ ، وَکَتَبَ فِیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ .
٦٦٤١: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تو آپ کے صحابہ کرام نے سونے کی انگوٹھیاں بنوالیں پھر آپ نے اس کو اتار پھینکا اور چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور اس کا نقش یہ تھا ” محمد رسول اللہ ﷺ“۔
تخریج : بخاری فی اللباس ٤٦؍٥٠‘ ٥١؍٥٢‘ مسلم فی اللباس ٥٦؍٥٧‘ ٥٨‘ ابن ماجہ فی اللباس باب ٣٩‘ مسند احمد ٢‘ ٩٤؍١٤١۔

6645

۶۶۴۲: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِیَاثٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَثَبَتَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ ، أَنَّ خَوَاتِیْمَ الذَّہَبِ ، قَدْ کَانَ لُبْسُہَا مُبَاحًا ، ثُمَّ نَہٰی عَنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَثَبَتَ أَنَّ مَا فِیْہِ تَحْرِیْمُ لُبْسِہَا ، ہُوَ النَّاسِخُ لِمَا فِیْہِ اِبَاحَۃُ لُبْسِہَا .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ ، فَقَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْمَا تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لَہٗ، فِیْ غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ ، وَأَنَّہٗ یُوَافِقُ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مَنْ ذَہَبَ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی الْاِبَاحَۃِ .وَلٰـکِنَّ السُّنَّۃَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِی النَّہْیِ عَنْ ذٰلِکَ ، قَدْ حَظَرَتْ ذٰلِکَ ، وَمَنَعَتْ مِنْہُ .وَمِمَّا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّہْیِ عَنْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٦٦٤٢: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ ان آثار سے معلوم ہوا کہ وہ روایات جن میں پہننے کی ممانعت وارد ہوئی ہے وہ ناسخ ہیں اور اباحت والی روایات منسوخ ہیں۔ آثار کے پیش نظر اس باب کا یہی حکم ہے۔ نظر کا جو تقاضا ہے وہ ہم پیچھے ذکر کر آئے قیاس تو یہی چاہتا ہے کہ سونے کا استعمال مباح ہو لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس کی ممانعت میں وارد ہوا جس میں اس سے منع کردیا اور روک دیا۔
ممانعت کی چند روایات :

6646

۶۶۴۳: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ حُنَیْنٍ ، مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَلِی ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ نَہَاہُ عَنِ التَّخَتُّمِ بِالذَّہَبِ .
٦٦٤٣: نافع مولیٰ ابن عمر (رض) نے حنین مولیٰ ابن عباس (رض) سے انھوں نے حضرت علی (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔

6647

۶۶۴۴: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حُنَیْنٍ ، عَنْ أَبِیْھَاعَنْ عَلِی ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَہَلْ تَجِدُ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ نَہْیًا ؟ .قِیْلَ لَہٗ : نَعَمْ
٦٦٤٤: ابراہیم بن عبداللہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت علی (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
سوال : کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی اور صحابی سے بھی ممانعت کی روایت وارد ہے۔
جواب : جی ہاں۔ ملاحظہ فرمائیں۔

6648

۶۶۴۵: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، مَوْلَی أُمِّ بُرْثُنٍ ، عَنْ زِیَادٍ ، عَامِلِ الْبَصْرَۃِ ، قَالَ : وَفَدْنَا اِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَعَ الْأَشْعَرِیِّ ، فَرَأَیْ عَلَیَّ خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ .فَقَالَ عُمَرُ : لَقَدْ تَشَبَّہْتُمْ بِالْعَجَمِ ، ثَلَاثًا یَقُوْلُہَا : تَخَتَّمُوْا بِہٰذَا الْوَرِقِ .قَالَ : فَقَالَ الْأَشْعَرِیُّ : أَمَّا أَنَا ، فَخَاتَمِیْ حَدِیدٌ ، فَقَالَ عُمَرُ : ذَاکَ أَخْبَثُ وَأَنْتَنُ .
٦٦٤٥: بصرہ کے عامل زیاد روایت کرتے ہیں کہ ہم ابو موسیٰ (رض) کے ساتھ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئے تو آپ نے میرے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی اور فرمایا تم نے عجمیوں کی مشابہت اختیار کرلی یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی پھر فرمایا چاندی کی انگوٹھیاں بناؤ اشعری کہنے لگے میری انگوٹھی لوہے کی ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا وہ تو اس سے بھی زیادہ خبیث اور بدبو دار ہے۔

6649

۶۶۴۶: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنِ الْأَزْہَرِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَسْتَضِیئُوْا بِنِیْرَانِ أَہْلِ الشِّرْکِ ، وَلَا تَنْقُشُوْا عَرَبِیًّا قَالَ : فَسَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنْ ذٰلِکَ ، فَقَالَ : قَوْلُہٗ لَا تَنْقُشُوْا عَرَبِیًّا لَا تَنْقُشُوْا فِیْ خَوَاتِیْمِکُمْ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ .وَقَوْلُہٗ لَا تَسْتَضِیئُوْا بِنِیْرَانِ أَہْلِ الشِّرْکِ یَقُوْلُ لَا تُشَاوِرُوْھُمْ فِیْ أُمُوْرِکُمْ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ نَقْشِ الْخَوَاتِیْمِ ، بِشَیْئٍ مِنَ الْعَرَبِیَّۃِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَلَمْ یَرَوْا بِنَقْشِ غَیْرِ الْعَرَبِیَّۃِ بَأْسًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا کَانَ عَلَی خَوَاتِیْمِ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٦٤٦: ازہر بن راشد کہتے ہیں کہ حضرت انس (رض) کہنے لگے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل شرک کی آگ کی روشنی سے مت روشنی حاصل کرو اور عربی نقش نہ بناؤ۔ میں نے حسن سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ : لاتنقشو اعربیا کا مطلب یہ ہے کہ اپنی انگوٹھیوں میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نقش مت بناؤ اور لاتستضیؤا بنیزان اہل الشرک کا مطلب یہ ہے اپنے معاملات میں ان سے مشورہ مت لو۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انگوٹھی کا نقش کسی بھی عربی لفظ میں بنوانا مکروہ ہے اور انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا عربی کے علاوہ دوسرے کسی نقش میں کوئی حرج قرار نہیں دیا اور انھوں نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کے متعلق انگوٹھی کے سلسلے میں وارد روایات سے استدلال کیا۔
تخریج : نسائی فی الزینہ باب ٥١‘ مسند احمد ٣؍٠٠۔
انگوٹھی کا نقش کسی عربی لفظ سے درست ہے یا نہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ کسی عربی لفظ سے انگوٹھی کا نقش جائز نہیں۔
فریق ثانی : انگوٹھی پر عربی نقش میں کوئی حرج نہیں البتہ وہ نقش جس کو آپ نے روک دیا وہ ممنوع ہے۔

6650

۶۶۴۷: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی ، عَنْ مَنْصُوْرٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَتْنَا أُمُّ نَافِعٍ ، بِنْتُ أَبِی الْجَعْدِ ، مَوْلَی النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، عَنْ أَبِیہَا قَالَ : کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، اِبِلًا ، قَابِضًا اِحْدَیْ یَدَیْہٖ، بَاسِطًا الْأُخْرَی .
٦٦٤٧: مولیٰ نعمان بن مقرن ابو جعد نے روایت کی کہ حضرت نعمان بن مقرن کی انگوٹھی کا نقش اونٹ کا نقش تھا جس کا ایک گٹنا بدھا ہوا اور دوسرا پھیلا ہوا تھا۔

6651

۶۶۴۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ جَعْدٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ قَالَ : کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَبْدِ اللّٰہِ، ذُبَابَانِ .
٦٦٤٨: قاسم روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ کی انگوٹھی کا نقش دو مکھیاں تھیں۔

6652

۶۶۴۹: حَدَّثَنَا عَلِیٌّ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُوْسَی بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ : کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ حُذَیْفَۃَ ، کَرْکِیَّانِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِنَقْشِ الْعَرَبِیَّۃِ عَلَی الْخَوَاتِیْمِ ، غَیْرَ مَا مَنَعَ مِنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِنْ الْاِنْتِقَاشِ عَلَی خَاتَمِہٖ۔ وَقَالُوْا : لَا حُجَّۃَ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، فِیْمَا احْتَجُّوْا بِہٖ فِیْ ذٰلِکَ ، ؛ لِأَنَّ حَدِیْثَہُمْ الَّذِی رَوَوْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَا یَثْبُتُ مِنْ طَرِیْقِ الْاِسْنَادِ ، وَاِنَّمَا أَصْلُہٗ، عَنْ عُمَرَ ، لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٦٦٤٩: عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ کی انگوٹھی کا نقش دو کو نج تھے۔
فریق ثانی کا مؤقف : انگوٹھی پر عربی نقش کا کوئی حرج نہیں سوائے اس نقش کے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگوٹھی پر بنانے سے منع کیا ہو۔
فریق اول کی دلیل کا جواب : سند کے لحاظ سے وہ روایت ثابت نہیں اور وہ حضرت عمر (رض) کا مقولہ ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نہیں جیسا کہ اسی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔

6653

۶۶۵۰: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا شُرَیْحُ بْنُ النُّعْمَانِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَا تَنْقُشُوْا فِیْ خَوَاتِیْمِکُمُ الْعَرَبِیَّۃَ .فَہٰذَا ہُوَ أَصْلُ حَدِیْثِ أَنَسٍ ہٰذَا، عَنْ عُمَرَ ، لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ثُمَّ لَوْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَکَانَ تَفْسِیْرُہُ عِنْدَنَا ، مَا قَالَ الْحَسَنُ ؛ لِأَنَّ نَقْشَ خَاتَمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ کَذٰلِکَ ، فَنَہَی أَنْ یُنْقَشَ عَلَیْہِ .
٦٦٥٠: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اپنی انگوٹھیوں کے عربی نقش مت بناؤ اس روایت کی اصل یہی ہے کہ حضرت انس (رض) نے حضرت عم (رض) کا قول نقل کیا ہے۔ دوسرا جواب : اگر بالفرض وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوجائے تو اس کی تفسیر وہی ہے جو حضرت حسن نے فرمائی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کے نقش کی طرح انگوٹھی بنانے کی ممانعت کی گئی (کیونکہ وہ آپ کی انگوٹھی دوسرے ممالک میں خطوط پر مہر لگانے کے لیے استعمال ہوتی تھی)

6654

۶۶۵۱: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ ثُمَامَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَۃَ أَسْطُرٍ ، سَطْرٌ مُحَمَّدٌ وَسَطْرٌ رَسُوْلُ وَسَطْرٌ اللّٰہِ فَہٰذَا کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٦٥١: ثمامہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کے نقش کی تین سطریں تھیں ایک سطر میں محمد اور دوسری سطر میں رسول اور تیسری سطر میں اللہ کا لفظ تھا یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کا نقش تھا۔
تخریج : بخاری فی الخمس باب ٥‘ واللباس باب ٥٥‘ ترمذی فی اللباس باب ١٧۔

6655

۶۶۵۲: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ یَکْتُبَ اِلٰی کَسْرَی وَقَیْصَرٍ .فَقِیْلَ لَہٗ : اِنَّہُمْ لَا یَقْبَلُوْنَ کِتَابَک اِلَّا بِخَاتَمٍ ، فَاِتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّۃٍ ، نَقْشُہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ .
٦٦٥٢: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسری اور قیصر کی طرف خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے کہا گیا کہ وہ آپ کا خط مہر کے بغیر قبول نہیں کریں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس کا نقش (محمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تھا۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٥٠‘ ٥٢‘ مسلم فی اللباس روایت ٥٨‘ ابو داؤد فی الخاتم باب ١‘ ترمذی فی الاستیذان باب ٢٥۔

6656

۶۶۵۳: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : أَرَادَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَکْتُبَ کِتَابًا اِلَی الرُّوْمِ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِ انْتَقَشَ فِیْ خَاتَمِہِ الْعَرَبِیَّۃَ ، ثُمَّ قَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ أَصْحَابُہٗ مِنْ بَعْدِہٖ۔
٦٦٥٣: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روم (کے بادشاہ) کی طرف خط لکھنے کا ارادہ فرمایا پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
حاصل : یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ جن کی انگوٹھی کا نقل عربی زبان میں تھا پھر ان کے بعد صحابہ کرام نے اسی طرح کیا۔

6657

۶۶۵۴: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِیُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی ، عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : قَدِمَ عَمْرُو بْنُ سَعِیْدٍ ، مَعَ أَخِیْہٖ، عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَنَظَرَ اِلٰی حَلْقَۃٍ فِیْ یَدِہِ فَقَالَ : مَا ہٰذِہِ الْحَلْقَۃُ فِیْ یَدِک ؟ قَالَ : ہٰذِہِ حَلْقَۃٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ .قَالَ : فَمَا نَقْشُہَا ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ أَرِنِیْہِ : فَتَخَتَّمَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَمَاتَ وَہُوَ فِیْ یَدِہِ ثُمَّ أَخَذَہُ أَبُوْبَکْرٍ بَعْدَ ذٰلِکَ ، فَکَانَ فِیْ یَدِہٖ، ثُمَّ أَخَذَہُ عُمَرُ ، فَکَانَ فِیْ یَدِہٖ، ثُمَّ أَخَذَہُ عُثْمَانُ ، فَکَانَ فِیْ یَدِہِ عَامَّۃِ خِلَافَتِہٖ، حَتّٰی سَقَطَ مِنْہُ فِی بِئْرِ أَرِیْسَ .فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمْ یُنْکِرْ عَلَی خَالِدِ بْنِ سَعِیْدٍ ، لُبْسَ مَا ہُوَ مَنْقُوْشٌ بِالْعَرَبِیَّۃِ .
٦٦٥٤: عمرو بن یحییٰ نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ عمرو بن سعد اپنے بھائی کے ساتھ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے ہاتھ میں ایک چھلا دیکھا آپ نے فرمایا یہ چھلا جو تمہارے ہاتھ میں ہے یہ کیسا ہے۔ تو انھوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ چھلا ہے آپ نے فرمایا اس کا نقش کیا ہے ؟ اس نے کہا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فرمایا مجھے دکھاؤ۔ پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو مہر کے لیے استعمال فرماتے تھے۔ جب آپ کی وفات ہوئی تو وہ آپ کے دست اقدس میں تھی۔ پھر اس کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے لیا وہ ان کے ہاتھ میں رہی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے لے لیا۔ پس وہ ان کے ہاتھ میں رہی۔ پھر اس کو حضرت عثمان (رض) نے لے لیا وہ زمانہ خلافت میں ان کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ بیرا ریس میں ان کے ہاتھ سے گر پڑی۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ آپ نے خالد بن سعید کو ہاتھ میں عربی نقش والی انگوٹھی سے منع نہیں فرمایا۔

6658

۶۶۵۵: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : ثَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ صُبَیْحٍ ، عَنْ حَیَّانَ الصَّائِغِ ، قَالَ : کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیقِ نِعْمَ الْقَادِرُ اللّٰہُ .
٦٦٥٥: حیان صائغ سے روایت ہے کہ جناب ابوبکر صدیق (رض) کی انگوٹھی کا نقش ” نعم القادر اللہ “ تھا۔ اللہ تعالیٰ خوب قدرت والا ہے۔

6659

۶۶۵۶: حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِیْ جَعْفَرٍ ، قَالَ : کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لِلّٰہِ الْمُلْکُ .
٦٦٥٦: ابو جعفر سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) کی انگوٹھی کا نقش یہ تھا ” اللہ الملک “ اللہ بادشاہ ہے۔

6660

۶۶۵۷: حَدَّثَنَا عَلِیٌّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ .فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَخُلَفَاؤُہُ الرَّاشِدُوْنَ الْمَہْدِیُّوْنَ ، قَدْ نَقَشُوْا عَلَی خَوَاتِیْمِہِمُ الْعَرَبِیَّۃَ .فَدَلَّ مَا فَعَلُوْا مِنْ ذٰلِکَ ، عَلٰی أَنَّہٗ غَیْرُ مَحْظُوْرٍ عَلَیْہِمْ ، وَأَنَّہٗ اِنَّمَا أُرِیْدَ بِالنَّہْیِ ، أَنْ لَا یُنْقَشَ عَلَی خَاتَمِ الْاِمَامِ ؛ لِئَلَّا یَفْتَعِلَ فِیْمَا بِیَدِہِ مِنَ الْأَمْوَالِ ، الَّتِیْ لِلْمُسْلِمِیْنَ .أَلَا تَرَی أَنَّ عُمَرَ قَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ النَّہْیَ عَنْ ذٰلِکَ ، ثُمَّ قَدْ لَبِسَ ہُوَ مِنْ بَعْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا ہُوَ مَنْقُوْشٌ بِالْعَرَبِیَّۃِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَا کُرِہَ مِنَ الْعَرَبِیَّۃِ ، ہُوَ الْعَرَبِیَّۃُ الْمَوْضُوْعَۃُ عَلَی خَاتَمِ اِمَامِ الْمُسْلِمِیْنَ خَاصَّۃً ، لَا غَیْرَ ذٰلِکَ .وَأَمَّا مَا رُوِیَ ، مِمَّا کَانَ نَقْشَ خَاتَمِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، وَابْنِ مَسْعُوْدٍ ، وَحُذَیْفَۃَ ، فَاِنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنُوْا فَعَلُوْا ذٰلِکَ ، وَلَہُمْ أَنْ یَنْقُشُوْا مَکَانَہُمْ عَرَبِیًّا .
٦٦٥٧: قتادہ کہتے ہیں کہ ابو عبیدہ بن جراح (رض) کی انگوٹھی کا نقش یہ تھا ” الحمد اللہ “ تمام تعریفوں کا حقدار اللہ ہے۔ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور خلفاء راشدین المہدیین ہیں جنہوں نے اپنی انگوٹھیوں کا نقش عرب میں بنوایا تھا ان کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ممنوع نہیں اور ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ امام کی انگوٹھی والا نقش نہ بنوایا جائے تاکہ اس کے ذریعہ وہ (جھوٹی مہریں لگا کر) مسلمانوں کے اموال کے سلسلہ میں کوئی کارروائی نہ کرے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم نے حضرت عمر (رض) سے اس کی ممانعت نقل کی ہے پھر ان کا عمل ذکر کیا کہ انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عربی میں منقوش انگوٹھی خود استعمال فرمائی۔ اس سے بھی یہ دلالت مزید مل گئی کہ جس عربی نقش والی انگوٹھی کو انھوں نے ناپسند کیا وہ امام و مقتدا والی ہے۔ اس کے علاوہ کا یہ حکم نہیں۔ اب رہی وہ روایات جو حضرت نعمان بن مقرن ‘ ابن مسعود ‘ حذیفہ (رض) کی سند سے منقول ہیں تو ممکن ہے کہ انھوں نے اس طرح کیا اور وہ اس کی بجائے عربی میں بھی نقش بنوا سکتے تھے۔ (یہ بھی ممکن ہے کہ سنداً یہ روایات کمزور ہوں)

6661

۶۶۵۸: وَلَقَدْ حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْقَوَارِیْرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَنْقُشَ الرَّجُلُ عَلَی خَاتَمِہِ صُوْرَۃً .وَقَالَ : اِذَا خَتَمْتَ لَہَا ، فَقَدْ صَوَّرْتَ بِہَا .
٦٦٥٨: عمرو نے حضرت حسن (رح) سے روایت کی ہے کہ وہ انگوٹھی کے نگینہ پر تصویر بنانے کو ناپسند و مکروہ قرار دیتے تھے اور فرماتے جب تم اس کی مہر لگاؤ گے تو تم نے گویا تصویر بنائی۔

6662

۶۶۵۹: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا مُعَلَّی بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا مُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَیَّاشُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الْہَیْثَمِ بْنِ شُفَی الْحَجَرِیِّ ، عَنْ أَبِیْ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِیْ رَیْحَانَۃَ ، قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبُوْسِ الْخَاتَمِ اِلَّا لِذِیْ سُلْطَانٍ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ لُبْسِ الْخَاتَمِ اِلَّا لِذِیْ سُلْطَانٍ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِلُبْسِہِ لِسَائِرِ النَّاسِ ، مِنْ سُلْطَانٍ وَغَیْرِہٖ، بَأْسًا .وَکَانَ مِنْ حُجَّتِہِمْ فِیْ ذٰلِکَ ، الْحَدِیْثُ الَّذِی قَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِی الْبَابِ الَّذِی قَبْلَ ہٰذَا الْبَابِ ، أَنَّہٗ أَلْقَی خَاتَمَہٗ، فَأَلْقَی النَّاسُ خَوَاتِیْمَہُمْ .فَقَدْ دَلَّ ہٰذَا عَلٰی أَنَّ الْعَامَّۃَ ، قَدْ کَانَتْ تَلْبَسُ الْخَوَاتِیْمَ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ .فَکَیْفَ تَحْتَجُّ بِہٰذَا وَہُوَ مَنْسُوْخٌ ؟ .قِیْلَ لَہٗ : اِنَّ الَّذِی احْتَجَجْنَا بِہٖ مِنْہٗ، لَیْسَ بِمَنْسُوْخٍ ، وَاِنَّمَا الْمَنْسُوْخُ ، تَرْکُ لُبْسِ الْخَاتَمِ مِنَ الذَّہَبِ ، لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلِغَیْرِہِ مِنْ أُمَّتِہٖ۔وَقَبْلَ ذٰلِکَ فَقَدْ کَانَ ہُوَ ، وَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ سَوَائً .فَلَمَّا نُسِخَ لُبْسُ خَوَاتِیْمِ الذَّہَبِ ، کَانَ الْحَکَمُ مُتَقَدِّمًا فِیْ لُبْسِہِ وَلُبْسِہِمُ الْخَوَاتِیْمَ ، سَوَائً ، وَکَأَنَّ النَّسْخَ لَمْ یَمْنَعْہُ، ہُوَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ لُبْسِ خَاتَمِ الْفِضَّۃِ ، فَکَذٰلِکَ أَیْضًا لَا یَمْنَعُہُمْ مِنْ لُبْسِ الْخَوَاتِیْمِ مِنْ فِضَّۃٍ .فَہٰذَا الَّذِی أَرَدْنَا مِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِمَّنْ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ سُلْطَانٌ ، أَنَّہُمْ کَانُوْا یَلْبَسُوْنَ الْخَوَاتِیْمَ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٦٦٥٩: ابو عامر نے حضرت ابو ریحانہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکام کے علاوہ دوسروں کو انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ایک جماعت علماء کہتی ہے کہ حاکم کے علاوہ کسی دوسرے کو انگوٹھی کا استعمال مکروہ ہے انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ تمام لوگ خواہ وہ صاحب اقتدار ہوں یا غیر ‘ انگوٹھی کے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔ ان کی دلیل وہ روایت ہے کہ جس میں مذکور ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگوٹھی پھینک دی تو دوسرے لوگوں نے بھی پھینک دیں اس سے یہ خود دلالت مل گئی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں عام لوگ بھی انگوٹھیاں پہنتے تھے۔ اگر کوئی کہے کہ آپ منسوخ روایت سے استدلال کر رہے ہیں۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا جس بات سے ہم نے اس روایت سے استدلال کیا ہے وہ تو منسوخ نہیں ہے۔ منسوخ سونے کی انگوٹھی کا آپ اور آپ کی امت کے لیے پہننا ہے (مطلق انگوٹھی پہننا تو مخالف کو بھی مسلم ہے) اور اس اعلان نسخ سے پہلے پہننے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے لوگ سب شریک تھے پھر سونے کی انگوٹھی منسوخ ہوئی مگر آپ کے اور دوسرے لوگوں کے لیے انگوٹھی کا حکم تو اسی طرح باقی رہا۔ اس نسخ نے آپ کو چاندی کی انگوٹھی سے نہ روکا۔ تو اسی طرح دوسرے لوگوں کے لیے بھی رکاوٹ نہ ہوگی اس روایت سے ہمارا استدلال صرف اتنا ہی ہے۔ ورنہ تو ان لوگوں سے اس کا پہننا ثابت ہے جو حاکم و بادشاہ نہ تھے۔ روایات ملاحظہ ہوں۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ٨‘ نسائی فی الزینہ باب ٢٠‘ مسند احمد ٤‘ ١٣٤؍١٣٥۔
حاکم کے علاوہ اور کسی کو مہر والی انگوٹھی پہننا کیسا ہے۔
نمبر 1: علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ حاکم کے علاوہ اور کسی کو مہر والی انگوٹھی کا استعمال درست نہیں۔
فریق ثانی : انگوٹھی کے پہننے میں حاکم و غیر حاکم دونوں برابر ہیں جس حد تک مباح ہے ہر ایک کو جائز ہے۔

6663

۶۶۶۰: مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حَاتِمُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ أَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ ، کَانَا یَتَخَتَّمَانِ فِیْ یَسَارِہِمَا ، وَکَانَ فِیْ خَوَاتِیْمِہِمَا ذِکْرُ اللّٰہِ .
٦٦٦٠: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت حسن و حسین (رض) اپنے بائیں ہاتھوں میں انگوٹھیاں پہنتے تھے اور ان انگوٹھیوں پر ذکراللہ منقش تھا۔

6664

۶۶۶۱: حَدَّثَنَا عَلِیٌّ ، قَالَ : ثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا رِشْدِیْنُ بْنُ کُرَیْبٍ أَنَّہٗ قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ الْحَنَفِیَّۃَ یَتَخَتَّمُ فِیْ یَسَارِہِ
٦٦٦١: رشد بنکریب کہتے ہیں کہ میں نے ابن حنفیہ (رح) کو دیکھا کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی استعمال فرماتے تھے۔

6665

۶۶۶۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ ، یَتَخَتَّمَانِ فِیْ یَسَارِہِمَا .
٦٦٦٢: جعفر بن محمد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت حسن و حسین (رض) اپنے بائیں ہاتھوں میں انگوٹھیاں پہنتے تھے۔

6666

۶۶۶۳: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَطَائٍ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، رَجُلًا مُتَقَلِّدًا بِسَیْفٍ .
٦٦٦٣: ابراہیم بن عطاء نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمران بن حصین (رض) کی انگوٹھی کا نقش تلوار گلے میں لٹکانے والا آدمی تھا۔

6667

۶۶۶۴: حَدَّثَنَا عَلِیٌّ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ أَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ رَأَیْتُ قَیْسَ بْنَ أَبِیْ حَازِمٍ ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ ، وَقَیْسَ بْنِ ثُمَامَۃَ ، وَالشَّعْبِیَّ ، یَتَخَتَّمُوْنَ بِیَسَارِہِمْ .
٦٦٦٤: یونس بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے قیس بن ابی حازم ‘ عبدالرحمن بن الاسود ‘ قیس بن ثمامہ اور شعبی رحمہم اللہ اپنے بائیں ہاتھوں میں انگوٹھیاں پہنے دیکھا۔
نظر طحاویسوال :
اگر بادشاہ کے لیے انگوٹھی پہننا جائز ہے کیونکہ یہ زیور تو نہیں تو دیگر لوگوں کے لیے بھی اس کا پہننا درست ہے کیونکہ یہ زیور نہیں ہے۔

6668

۶۶۶۵: حَدَّثَنِیْ عَلِیٌّ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مُغِیْرَۃَ ، قَالَ : کَانَ نَقْشُ خَاتَمِ اِبْرَاھِیْمَ نَحْنُ بِاَللّٰہِ وَلَہٗ .فَہٰؤُلَائِ الَّذِیْنَ رَوَیْنَا عَنْہُمْ ہٰذِہِ الْآثَارَ ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَابِعِیہِمْ ، قَدْ کَانُوْا یَتَخَتَّمُوْنَ ، وَلَیْسَ لَہُمْ سُلْطَانٌ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ، مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَاِنَّ السُّلْطَانَ ، اِذَا کَانَ لَہٗ لُبْسُ الْخَاتَمِ ، ؛ لِأَنَّہٗ لَیْسَ بِحِلْیَۃٍ ، فَکَذٰلِکَ أَیْضًا غَیْرُ السُّلْطَانِ لَہٗ أَیْضًا لُبْسُہُ ؛ لِأَنَّہٗ لَیْسَ بِحِلْیَۃٍ .وَقَدْ رَأَیْنَا مَا نُہِیَ عَنْہُ مِنِ اسْتِعْمَالِ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، یَسْتَوِی فِیْہٖ، السُّلْطَانُ وَالْعَامَّۃُ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ ، مَا أُبِیْحَ لِلسُّلْطَانِ مِنْ لُبْسِ الْخَاتَمِ ، یَسْتَوِی فِیْہِ ہُوَ وَالْعَامَّۃُ .وَاِنْ کَانَ اِنَّمَا أُبِیْحَ الْخَاتَمُ لِاحْتِیَاجِہِ اِلَیْہِ لِیَخْتِمَ بِہٖ مَالَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَأَنَّہٗ أَیْضًا مُبَاحٌ لِلْعَامَّۃِ ؛ لِاحْتِیَاجِہِمْ اِلَیْہِ لِلْخَتْمِ ، عَلٰی أَمْوَالِہِمْ وَکُتُبِہِمْ ، فَلَا فَرْقَ فِیْ ذٰلِکَ بَیْنَ السُّلْطَانِ ، وَغَیْرِ السُّلْطَانِ۔
٦٦٦٥ : حضرت مغیرہ سے مروی ہے کہ ابراہیم (رض) کی انگوٹھی کا نقش نحن باللّٰہ ولہ تھا۔ پس یہ صحابہ (رض) وتابعین (رح) ہیں جن سے ہم نے یہ آثار نقل کیے ہیں ‘ یہ سب حضرات انگوٹھیاں پہنتے تھے حالانکہ ان میں کوئی بھی حاکم نہ تھا۔ اس باب کا حکم روایات کے پیش نظر یہی ہے۔ اگر بادشاہ کے لیے انگوٹھی پہننا جائز ہے کیونکہ یہ زیور تو نہیں تو دیگر لوگوں کے لیے بھی اس کا پہننا درست ہے کیونکہ یہ زیور نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چاندی اور سونے (کے برتنوں) کی ممانعت میں بادشاہ اور عام لوگ برابر ہیں پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں بھی حکم اسی طرح ہو۔ اسی طرح بادشاہ کو چاندی کی انگوٹھی روا ہے تو وہ اور عام لوگ اس حکم میں دونوں برابر ہیں اگر بادشاہ کے لیے اس طور پر مباح کی گئی تاکہ وہ اس سے اموال مسلمین کے سلسلہ میں مہریں لگائے اور یہ بات عام بات عام لوگوں کے لیے مباح ہے (ضروریات میں کم زیادہ کا بس فرق ہے) کیونکہ ان کو بھی یہ ضرورت ہے کہ وہ اپنے اموال و خطوط پر مہر لگائیں اس سلسلہ میں بادشاہ اور غیر بادشاہ کا کوئی فرق نہیں۔ اس باب کا حکم روایات کے پیش نظر یہی ہے۔

6669

۶۶۶۶: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرِ ح .
٦٦٦٦: ابراہیم بن مرزوق کہتے ہیں ہم سے ابو عامر نے بیان کیا۔
تخریج : مسند احمد ٦‘ ١٣٧؍١٩٢۔
کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو ایک جماعت علماء نے بالکل ممنوع قرار دیا۔
فریق ثانی : اگر تلویث جسم و ثیاب کا خطرہ نہ ہو اور ضرورت بھی ہو تو حرج نہیں تلویث کا خطرہ ہو تو درست نہیں۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کو منع کیا ہے انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : اس میں کچھ حرج نہیں ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔

6670

۶۶۶۷: وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا بَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمًا ، مُنْذُ أُنْزِلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَرِہَ قَوْمٌ الْبَوْلَ قَائِمًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِہٖ بَأْسًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ،
٦٦٦٧: مقدام بن شریح نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا جب سے آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کو منع کیا ہے انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ دوسروں نے کہا اس میں کچھ حرج نہیں ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : بخاری فی الوضو باب ٦٠‘ ٦١‘ والمظالم باب ٢٧‘ مسلم فی الطہارۃ حدیث ٧٣‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ١٢‘ ترمذی فی الطہارۃ باب ٩‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٦؍٢٣‘ ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ١٣‘ دارمی فی الوضو باب ٩‘ مسند احمد ١؍٢٨٤‘ ٤؍٢٤٦‘ ٥؍٣٨٢۔

6671

۶۶۶۸: بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ ، شَقِیْقِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَالَ وَہُوَ قَائِمٌ ، عَلَی سُبَاطَۃِ قَوْمٍ ، ثُمَّ أُتِیَ بِوَضُوْئٍ، فَتَوَضَّأَ ، وَمَسَحَ عَلَی خُفَّیْہِ .
٦٦٦٨: شقیق بن سلمہ نے حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ نے کھڑے ہونے کی حالت میں ایک قوم کی کوڑی پر پیشاب کیا پھر پھر آپ کے پاس پانی لایا گیا تو آپ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔

6672

۶۶۶۹: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَا : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٦٦٩: شعبہ نے سلیمان سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6673

۶۶۷۰: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ، مِثْلَہٗ۔حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَنْصُوْرٌ ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِبَاحَۃُ الْبَوْلِ قَائِمًا ، وَہٰذَا أَوْلَی مِمَّا ذَکَرْنَا قَبْلَہٗ عَنْ عَائِشَۃَ ؛ لِأَنَّ حَدِیْثَ عَائِشَۃَ اِنَّمَا فِیْہِ مَنْ حَدَّثَکَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ، بَالَ قَائِمًا بَعْدَمَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ ، فَلَا تُصَدِّقْہُ .أَیْ : أَنَّ الْقُرْآنَ ، لَمَّا نُزِلَ عَلَیْہِ أُمِرَ فِیْہِ بِالطَّہَارَۃِ ، وَاجْتِنَابِ النَّجَاسَۃِ ، وَالتَّحَرُّزِ مِنْہَا .فَلَمَّا رَأَتْ عَائِشَۃُ ذٰلِکَ ، وَعَلِمَتْ تَعْظِیْمَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ لِأَمْرِ اللّٰہِ، وَکَانَ الْأَغْلَبُ عِنْدَہَا ، أَنَّ مَنْ بَالَ قَائِمًا ، لَا یَکَادُ یَسْلَمُ مِنْ اِصَابَۃِ الْبَوْلِ ثِیَابَہُ وَبَدَنَہٗ، قَالَتْ ذٰلِکَ ، وَلَیْسَ فِیْہِ حِکَایَۃٌ مِنْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوَافِقُ ذٰلِکَ .ثُمَّ جَائَ حُذَیْفَۃُ فَأَخْبَرَ أَنَّہٗ رَأَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ ، بَعْدَ نُزُوْلِ الْقُرْآنِ عَلَیْہٖ، یَبُوْلُ قَائِمًا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ اِبَاحَۃُ الْبَوْلِ قَائِمًا ، اِذَا کَانَ الْبَائِلُ فِیْ ذٰلِکَ یَأْمَنُ مِنَ النَّجَاسَۃِ عَلَی بَدَنِہِ وَثِیَابِہٖ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ فِیْ ہٰذَا ، مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا ذَہَبْنَا اِلَیْہِ مِنْ مَعْنَیْ حَدِیْثِہَا الَّذِیْ ذٰکَرْنَا .
٦٦٧٠: ابو عوانہ نے سلیمان سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ابو وائل نے حضرت حذیفہ سے پھر انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس روایت میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اباحت کا ثبوت ہے اور یہ روایات اس روایت سے اولیٰ ہیں جو ہم نے پہلے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کی ہے کیونکہ حدیث عائشہ (رض) میں یہ مذکورے کہ جو تمہیں یہ بیان کرے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول قرآن کے بعد کھڑے ہو کر پیشاب کیا اس کی مت تصدیق کرو یونی جب قرآن مجید اترا تو اس میں طہارت کا حکم ملا۔ اور نجاست سے پرہیز و گریز کا حکم دیا گیا جب کہ حضرت عائشہ (رض) یہ دیکھا اور جاتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی بہت تعظیم فرماتے تو عائشہ (رض) کے ہاں اغلب بات یہی ہے کہ جس نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا وہ کپڑے اور بدن کو پیشاب لگنے سے بچ نہیں سکتا تو اس بات کے پیش نظر انھوں نے یہ بات فرمائی حالانکہ روایت میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی ایسی بات منقول نہیں ہے جو اس کی تصدیق کرے۔ پھر دوسری طرف حضرت حذیفہ نے خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ میں نزول قرآن کے بعد کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا ہے پس اس سے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اباحت کا ثبوت ملتا ہے بشرطیکہ کپڑے اور بدن پر نجاست نہ لگے۔
MU اس روایت میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اباحت کا ثبوت ہے اور یہ روایات اس روایت سے اولیٰ ہیں جو ہم نے پہلے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کی ہے کیونکہ حدیث عائشہ (رض) میں یہ مذکورے کہ جو تمہیں یہ بیان کرے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول قرآن کے بعد کھڑے ہو کر پیشاب کیا اس کی مت تصدیق کرو یونی جب قرآن مجید اترا تو اس میں طہارت کا حکم ملا۔ اور نجاست سے پرہیز و گریز کا حکم دیا گیا جب کہ حضرت عائشہ (رض) یہ دیکھا اور جاتا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی بہت تعظیم فرماتے تو عائشہ (رض) کے ہاں اغلب بات یہی ہے کہ جس نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا وہ کپڑے اور بدن کو پیشاب لگنے سے بچ نہیں سکتا تو اس بات کے پیش نظر انھوں نے یہ بات فرمائی حالانکہ روایت میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی ایسی بات منقول نہیں ہے جو اس کی تصدیق کرے۔
پھر دوسری طرف حضرت حذیفہ نے خود جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ میں نزول قرآن مجدی کے بعد کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا ہے پس اس سے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اباحت کا ثبوت ملتا ہے بشرطیکہ کپڑے اور بدن پر نجاست نہ لگے۔
روایت عائشہ صدیقہ (رض) کا معنی خود ان کی زبان سے :

6674

۶۶۷۱: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، وَقَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہٗ رَأَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبُوْلُ قَائِمًا فَکَذِّبْہٗ، فَاِنِّیْ رَأَیْتُہُ یَبُوْلُ جَالِسًا .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا دَفَعَتْ بِہٖ عَائِشَۃُ رِوَایَۃَ رُؤْیَۃِ مَنْ رَأَیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبُوْلُ قَائِمًا ، وَاِنَّمَا رُؤْیَتُہَا اِیَّاہُ یَبُوْلُ جَالِسًا .فَلَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَنَا دَلِیْلٌ عَلٰی ذٰلِکَ ؛ لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَبُوْلَ جَالِسًا فِیْ وَقْتٍ، وَیَبُوْلَ قَائِمًا فَقْتٍ آخَرَ ، فَلَمْ تَحْکِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا شَیْئًا یَدُلُّ عَلٰی کَرَاہِیَۃِ الْبَوْلِ قَائِمًا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ بَالَ قَائِمًا .
٦٦٧١: مقدام بن شریح نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جو شخص تمہیں یہ بیان کرے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے اس نے آپ پر جھوٹ بولا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیٹھ کر پیشاب کرتے دیکھا۔ اس روایت میں اس بات پر دلالت ہے جس کی حضرت عائشہ (رض) تردید کر رہی ہیں کہ جو یہ کہتا ہے کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا ہے جبکہ خود حضرت عائشہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیٹھ کر پیشاب کرتے دیکھا۔ تو اس میں ہمارے ہاں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر کبھی پیشاب نہیں کیا بلکہ ممکن ہے کہ آپ نے کسی وقت بیٹھ کر اور دوسرے وقت (ضرورۃً ) کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہو۔ تو حضرت عائشہ (رض) نے ایسی کوئی بات نقل نہیں کی جو کھڑے ہو کر پیشاب کی کراہت (تحریمی) پر دلالت کرتی ہو۔
دیگر صحابہ کرام ] سے اس کا ثبوت :

6675

۶۶۷۲: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ شُعْبَۃَ أَنَّہٗ حَدَّثَ عَنْ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ : رَأَیْتُ عُمَرَ بَالَ قَائِمًا فَأَنْجَحَ حَتّٰی کَادَ یُصْرَعَ .
٦٦٧٢: زید بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا انھوں نے اپنی حاجت کو پورا کیا یہاں تک کہ وہ گرنے کے قریب ہوگئے (معلوم ہوتا ہے وہ کسی مجبوری کی وجہ سے تھا)

6676

۶۶۷۳: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ وَأَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ أَنَّہٗ رَأَیْ عَلِیًّا بَالَ قَائِمًا .
٦٦٧٣: سلمہ بن کھیل نے ابوظبیان سے روایت کی ہے کہ انھوں نے حضرت علی (رض) کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا۔

6677

۶۶۷۴: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سُلَیْمَانَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٦٧٤: شعبہ نے حضرت سلیمان (رح) سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔

6678

۶۶۷۵: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : ثَنَا ، أَبِیْ عَنِ الْأَعْمَشِ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٦٧٥: ابی نے اعمش سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے۔

6679

۶۶۷۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ الْیَمَانِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ یَبُوْلُ قَائِمًا .
٦٦٧٦: قبیصہ بن ذویب کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت (رض) کو کھڑے پیشاب کرتے دیکھا۔

6680

۶۶۷۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیْسَی ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، أَنَّہٗ قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَبُوْلُ قَائِمًا .فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ کَانُوْا یَبُوْلُوْنَ قِیَامًا ، وَذٰلِکَ ، عِنْدَنَا ، عَلٰی أَنَّہُمْ کَانُوْا یَأْمَنُوْنَ أَنْ یُصِیْبَ شَیْئٌ مِنْ ذٰلِکَ ثِیَابَہُمْ وَأَبْدَانَہُمْ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، مَا یُخَالِفُ مَا رَوَیْتَ عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .فَذَکَرَ۔
٦٦٧٧: عبداللہ بن دینار نے روایت کی کہ میں نے ابن عمر (رض) کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا۔ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو کھڑے ہو کر (ضرورۃً ) پیشاب کرلیتے تھے۔ مگر اس شرط سے کہ وہ پیشاب ان کے بدن و کپڑوں کو ملوث نہ کرتا تھا۔ حضرت عمر (رض) سے اس کے خلاف روایت موجود ہے۔
تخریج : مالک فی الطہارۃ ١١٢۔

6681

۶۶۷۸ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِی ، قَالَ ثِنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اِدْرِیْسَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : مَا بُلْت قَائِمًا مُنْذُ أَسْلَمْتُ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عُمَرُ لَمْ یَبُلْ قَائِمًا مُنْذُ أَسْلَمَ ، حَتّٰی قَالَ ہٰذَا الْقَوْلَ ، ثُمَّ بَالَ بَعْدَ ذٰلِکَ قَائِمًا ، عَلٰی مَا رَوَاہٗ عَنْہُ زَیْدُ بْنُ وَہْبٍ .فَفِیْ ذٰلِکَ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَرَی بِالْبَوْلِ قَائِمًا بَأْسًا .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا ، مَا قَدْ رَوَیْنَاہٗ عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ بَوْلِہِ قَائِمًا .وَقَدْ حَدَّثَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِمَا قَدْ ذَکَرْنَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی رُجُوْعِ عُمَرَ ، عَنْ کَرَاہِیَۃِ الْبَوْلِ قَائِمًا ، اِذَا کَانَ ذٰلِکَ ، لَمَا رَوَاہٗ عَنْہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ .وَلَمْ یَکُنْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ، یَتْرُکُ مَا سَمِعَہُ مِنْ عُمَرَ ، اِلَّا اِلٰی مَا ہُوَ أَوْلَی عِنْدَہُ مِنْ ذٰلِکَ .
٦٦٧٨: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے جب سے میں اسلام لایا میں نے کھڑے ہو کر کبھی پیشاب نہیں کیا۔ یہ عین ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اسلام لانے کے بعد کھڑے ہو کر پیشاب نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ یہ بات کہی پھر اس کے بعد کیا ہو جیسا کہ زید بن وہب نے روایت کی ہے۔ اس میں یہ دلالت ہے کہ وہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے اور اس پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے جو خود ابن عمر (رض) سے اس باب میں ان کے کھڑے ہو کر پیشاب کے متعلق نقل ہوئی ہے اور عمر (رض) کو یہ واقعہ پیش آیا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ اس سے حضرت عمر (رض) کا رجوع بھی معلوم ہوا کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں کراہت نہیں۔ جس طرح کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے روایت کی ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) حضرت عمر (رض) سے جو بات سنی تھی اس کو اسی لیے چھوڑا کہ اس سے اولیٰ بات مل گئی۔
تخریج : ترمذی فی الطہارۃ باب ٨‘ ابن ماجہ فی الطہارۃ باب ١٤۔
جواب : یہ عین ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اسلام لانے کے بعد کھڑے ہو کر پیشاب نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ یہ بات کہی پھر اس کے بعد کیا ہو جیسا کہ زید بن وہب نے روایت کی ہے۔ اس میں یہ دلالت ہے کہ وہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں کوئی حرج خیال نہ کرتے تھے اور اس پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے جو خود ابن عمر (رض) سے اس باب میں ان کے کھڑے ہو کر پیشاب کے متعلق نقل ہوتی ہے اور عمر (رض) کو یہ واقعہ پیش آیا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ اس سے حضرت عمر (رض) کا رجوع بھی معلوم ہوا کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں کراہت نہیں۔ جس طرح کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے روایت کی ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) حضرت عمر (رض) سے جو بات سنی تھی اس کو اسی لیے چھوڑا کہ اس سے اولیٰ بات مل گئی۔

6693

۶۶۹۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ ، قَالَا : أَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الطَّالَقَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیْ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْجَارُوْدِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَجَرَ عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا۔
٦٦٩٠: ابو مسلم نے حضرت جارود (رض) سے روایت کی اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پینے پر ڈانٹا۔
تخریج : مسلم فی الاشربہ ١١٢؍١١٣‘ ترمذی فی الاشربہ باب ١١‘ ابن ماجہ فی الاشربہ باب ١٢‘ دارمی فی الاشربہ باب ٢٤‘ مسند احمد ٣‘ ٥٤؍١٩٩‘ ٢٧٧؍٢٠١١۔
خلاصہ الزام :
کھڑے ہو کر پانی پینے کو علماء کی ایک جماعت نے مکروہ قرار دیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : کھڑے ہو کر پانی پینے میں گناہ نہیں ضرورت کے لیے پی سکتے ہیں البتہ آداب کے خلاف ہے۔

6694

۶۶۹۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ عَرُوْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیْ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْجَارُوْدِ بْنِ الْمُعَلّٰی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٩١: ابو مسلم نے حضرت جارود بن معلی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6695

۶۶۹۲ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِیْدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیْ مُسْلِمٍ ، عَنِ الْجَارُوْدِ ، وَعَنْ سَعِیْدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٩٢: قتادہ نے حضرت انس (رض) انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6696

۶۶۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ وَہِشَامٌ ، قَالَا : ثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٩٣: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6697

۶۶۹۴ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ قَتَادَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٦٩٤: ہشام بن ابو عبداللہ نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6698

۶۶۹۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِیُّ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٦٩٥: ابو داؤد نے ہشام دستوائی سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6699

۶۶۹۶ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، وَعَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیْ عِیْسَی الْأُسْوَارِیُّ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ۔
٦٦٩٦: ابو عیسیٰ ا سواری نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6700

۶۶۹۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُوْسَی بْنُ اِسْمَاعِیْلَ ، ح .
٦٦٩٧: ابو داؤد نے موسیٰ بن اسماعیل سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6701

۶۶۹۸ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ.قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ الشُّرْبِ قَائِمًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِالشُّرْبِ قَائِمًا بَأْسًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٦٦٩٨: عکرمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ کھڑے ہو کر پینا مکروہ ہے اور انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا ہے۔ جبکہ دیگر علماء کا کہنا ہے کہ کھڑے ہو کر پینے میں کوئی گناہ نہیں انھوں نے ان آثار کو دلیل بنایا ہے۔

6702

۶۶۹۹ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : قَالَ لِی ابْنُ أَبِیْ طَالِبٍ ائْتِنِیْ بِوَضُوْئٍ فَأَتَیْتُہُ بِہٖ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ قَامَ بِفَضْلِ وَضُوْئِہٖ، فَشَرِبَ قَائِمًا ، فَعَجِبْتُ لِذٰلِکَ فَقَالَ : أَتَعْجَبُ یَا بُنَیَّ ؟ اِنِّیْ رَأَیْتُ أَبَاکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَصْنَعُ ذٰلِکَ۔
٦٦٩٩: محمد بن علی بن حسین نے اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ مجھے حضرت علی (رض) نے فرمایا میرے لیے وضو کا پانی لاؤ۔ میں لایا تو آپ نے وضو کیا پھر آپ کھڑے ہوئے اور وضو سے بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا۔ مجھے اس پر تعجب سا ہوا تو انھوں نے فرمایا اے بیٹے تم اس پر تعجب کر رہے ہو ؟ میں نے آپ کے باپ (نانا) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کرتے پایا۔
تخریج : بخاری فی الاشربہ باب ١٦‘ نسائی فی الطہارۃ باب ٧٧؍٩٠‘ مسند احمد ١؍١٣٩۔

6703

۶۷۰۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ عَلِیًّا شَرِبَ فَضْلَ وَضُوْئِہٖ قَائِمًا .ثُمَّ قَالَ : اِنَّ نَاسًا یَکْرَہُوْنَ أَنْ یَشْرَبُوْا قِیَامًا ، وَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مَا فَعَلْتُ۔
٦٧٠٠: نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے وضو سے بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا۔ پھر فرمایا کچھ لوگ کھڑے ہو کر پینے کو ناپسند کرتے ہیں حالانکہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔
تخریج : بخاری فی الشربہ باب ١٦‘ مسند احمد ١‘ ١٠٢؍١٤٤۔

6704

۶۷۰۱ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، قَالَ : ثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٧٠١: مسعر نے عبدالملک سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6705

۶۷۰۲ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا وَرْقَائُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ وَمَیْسَرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، أَنَّہٗ شَرِبَ قَائِمًا فَقِیْلَ لَہٗ فِیْ ذٰلِکَ .فَقَالَ : اِنْ أَشْرَبْ قَائِمًا ، فَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ قَائِمًا ، وَاِنْ أَشْرَبْ جَالِسًا ، فَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ۔
٦٧٠٢: زاذان اور میسرہ نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کھڑے ہو کر پانی پیا تو ان سے کہا گیا (آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ ) تو انھوں نے فرمایا اگر میں نے کھڑے ہو کر پیا ہے تو میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے اور اگر میں بیٹھ کر پیوں تو میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیٹھ کر پیتے دیکھا ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٣٤۔

6706

۶۷۰۳ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ عَنْ عَلِیٍّ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٠٣: زاذان نے حضرت علی (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6707

۶۷۰۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٧٠٤: حجاج نے حماد سے روایت کی پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی کی مثل روایت بیان کی ہے۔

6708

۶۷۰۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْرَبُ وَہُوَ قَائِمٌ۔
٦٧٠٥: شعبی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا۔

6709

۶۷۰۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : نَاوَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَلْوًا مِنْ مَائِ زَمْزَمَ ، فَشَرِبَ وَہُوَ قَائِمٌ۔
٦٧٠٦: عمار نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زمزم کے پانی کا ایک ڈول دیا تو آپ نے کھڑے ہو کر پیا۔
تخریج : بخاری فی الحج باب ٦٧‘ مسلم فی الاشربہ روایت ١١٨‘ ١١٩‘ ترمذی فی الاشربہ باب ١٢‘ نسائی فی المناسک باب ١٦٥‘ ابن ماجہ فی الاشربہ باب ٢١‘ مسند احمد ١؍٢١٤۔

6710

۶۷۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٠٧: شعبی نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6711

۶۷۰۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ أَبِیْ فَرْوَۃَ الْمَدَنِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَتْنَا عُبَیْدَۃُ بِنْتُ نَابِلٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَانَ یَشْرَبُ قَائِمًا۔
٦٧٠٨: عائشہ بنت سعد نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے۔

6712

۶۷۰۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیْ قَالَ : ثَنَا حَفْصٌ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : کُنَّا نَشْرَبُ ، وَنَحْنُ قِیَامٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٦٧٠٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کھڑے ہو کر پانی پی لیا کرتے تھے۔
تخریج : ترمذی فی الاشربہ باب ١١‘ مسند احمد ٢؍١٢۔

6713

۶۷۱۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَا : ثَنَا عِمْرَانُ بْنُ جَرَِیْرٍ ، عَنْ أَبِی الْبِزْرِیّ ، وَہُوَ یَزِیْدُ بْنُ عُطَارِدَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : کُنَّا نَشْرَبُ وَنَحْنُ قِیَامٌ ، وَنَأْکُلُ وَنَحْنُ نَسْعٰی ، عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٦٧١٠: یزید بن عطارد نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے اور چلنے کی حالت میں کھالیتے تھے۔
تخریج : مسند احمد ٢‘ ٢٤‘ ٢٩۔

6714

۶۷۱۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ جَرِیْرٍ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنَ عُطَارِدَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧١١: یزید بن عطارد نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6715

۶۷۱۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الْکَرِیْمِ بْنُ مَالِکٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْبَرَائُ بْنُ زَیْدٍ ، أَنَّ أُمَّ سُلَیْمٍ حَدَّثَتْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، شَرِبَ وَہُوَ قَائِمٌ ، مِنْ قِرْبَۃٍ۔
٦٧١٢: براء بن زید بیان کرتے ہیں کہ ام سلیم نے مجھے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشک سے کھڑے ہونے کی حالت میں پانی پیا۔
تخریج : بنحوہ مسند احمد ٦؍٣٧٦۔

6716

۶۷۱۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْکَرِیْمِ الْجَزَرِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِی الْبَرَائُ بْنُ بِنْتِ أَنَسٍ ، وَہُوَ ابْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : حَدَّثَتْنِیْ أُمِّیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَیْہَا ، وَفِیْ بَیْتِہَا قِرْبَۃٌ مُعَلَّقَۃٌ ، فَشَرِبَ مِنَ الْقِرْبَۃِ قَائِمًا۔
٦٧١٣: براء بن زید نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ میری والدہ نے مجھے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے تو میرے ہاں ایک لٹکی ہوئی مشک سے کھڑے ہو کر پانی نوش فرمایا۔
تخریج : مسند احمد ٦؍٤٣١۔

6717

۶۷۱۴ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَرِبَ مِنْ قِرْبَۃٍ مُعَلَّقَۃٍ ، وَہُوَ قَائِمٌ۔ فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ اِبَاحَۃُ الشُّرْبِ قَائِمًا وَأَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا اِذَا رُوِیَ حَدِیْثَانِ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَاحْتَمَلَا الْاِتِّفَاقَ ، وَاحْتَمَلَا التَّضَادَّ أَنْ نَحْمِلَہُمَا عَلَی الْاِتِّفَاقِ لَا عَلَی التَّضَادِّ ، وَکَانَ مَا رَوَیْنَا فِیْ ہٰذَا الْفَصْلِ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِبَاحَۃَ الشُّرْبِ قَائِمًا ، وَفِیْمَا رَوَیْنَا عَنْہُ فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَہٗ، النَّہْیَ عَنْ ذٰلِکَ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ النَّہْیُ لَمْ یُرَدْ بِہٖ ہٰذِہِ الْاِبَاحَۃُ وَلٰـکِنْ أُرِیْدَ بِہٖ مَعْنًی آخَرُ ، فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ .
٦٧١٤: حمید نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لٹکے ہوئے مشکیزے سے کھڑے ہونے کی حالت میں پانی نوش فرمایا۔ ان روایات سے کھڑے ہو کر پانی پینے کا جواز معلوم ہوتا ہے ہمارے لیے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ جب دو قسم کی روایات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہوں اور ان میں تضاد اور موافقت دونوں احتمال موجود ہوں تو ہمیں تضاد کی بجائے موافقت پر محمول کرنا چاہیے چنانچہ اس فصل میں مروی روایات سے کھڑے ہو کر پانی پینے کا جائز ہونا معلوم ہوتا ہے اور اس سے پچھلی فصل میں ممانعت ثابت ہوتی ہے پس اب اس میں یہ احتمال پیدا ہوا کہ جس میں ممانعت ہے اس میں یہ اباحت مراد نہیں بلکہ اور کوئی دوسرا مفہوم مراد ہے غور کرنے سے یہ روایت سامنے آئی۔

6718

۶۷۱۵ : فَاِذَا فَہْدٌقَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ : ثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : اِنَّمَا أَکْرَہَ الشُّرْبَ قَائِمًا ؛ لِأَنَّہٗ دَائٌ .فَأَخْبَرَ الشَّعْبِیُّ فِیْ ہٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ النَّہْیُ ، وَأَنَّہٗ لِمَا یَخَافُ مِنْہُ مِنْ الضَّرَرِ وَحُدُوْثِ الدَّائِ لَا غَیْرَ ذٰلِکَ .فَأَرَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ النَّہْیِ الْاِشْفَاقَ عَلٰی أُمَّتِہٖ وَأَمْرُہٗ اِیَّاہُمْ بِمَا فِیْہِ صَلَاحُہُمْ ، فِیْ دِیْنِہِمْ وَدُنْیَاہُمْ ، کَمَا قَدْ قَالَ لَہُمْ أَمَّا أَنَا ، فَلَا آکُلُ مُتَّکِئًا.
٦٧١٥: شعبی کہتے ہیں کھڑے ہو کر پینا اس لیے مکروہ ہے کیونکہ اس سے بیماری کا خطرہ ہے۔ اس میں شعبی نے وہ معنی بتلایا جس کی وجہ سے ممانعت ہے کہ اس سے نقصان اور بیماری کے پیدا ہونے کا خطرہ ہے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت پر شفقت کرتے ہوئے ممانعت فرمائی اور ان کو ایسی بات کا حکم دیا جس میں ان کی دینی اور دنیوی بھلائی تھی جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت ابو جحیفہ میں فرمایا اما انا فلا اکل متکئا ۔
حاصل : اس میں شعبی نے وہ معنی بتلایا جس کی وجہ سے ممانعت ہے کہ اس سے نقصان اور بیماری کے پیدا ہونے کا خطرہ ہے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت پر شفقت کرتے ہوئے ممانعت فرمائی اور ان کو ایسی بات کا حکم دیا جس میں ان کی دینی اور دنیوی بھلائی تھی جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت ابو جحیفہ میں فرمایا اما انا فلا اکل متکئا ۔

6719

۶۷۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ ، ثَنَا سَہْلُ بْنِ بَکَّارٍ ، ح .
٦٧١٦: ابن ابی داؤد نے سہل بن بکار سے روایت کی ہے۔

6720

۶۷۱۷ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَا : ثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ رُقَیَّۃَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْأَقْمَرِ عَنْ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَّا أَنَا فَلَا آکُلُ مُتَّکِئًا۔
٦٧١٧: علی بن اقمر نے حضرت ابو جحیفہ (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں تک میرا معاملہ ہے میں تو تکیہ لگا کر نہیں کھاتا۔
تخریج : بخاری فی الاطعمہ باب ١٣‘ ابو داؤد فی الاطعمہ باب ١٦‘ ترمذی فی الاطعمہ باب ٢٨‘ ابن ماجہ فی الاطعمہ باب ٦‘ دارمی فی الاطعمہ باب ٣١‘ مسند احمد ٤؍٣٠٨۔

6721

۶۷۱۸ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٧١٨: علی بن اقمر نے حضرت ابو جحیفہ (رض) سے نقل کیا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح فرماتے سنا پھر اسی طرح روایت نقل کی۔

6722

۶۷۱۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٦٧١٩: علی بن اقمر نے حضرت ابو جحیفہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6723

۶۷۲۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا مِسْعَرُ بْنُ کِدَامٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْأَقْمَرِ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا جُحَیْفَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔فَلَیْسَ ذٰلِکَ عَلٰی طَرِیْقِ التَّحْرِیْمِ مِنْہُ عَلَیْہِمْ ، أَنْ یَأْکُلُوْا کَذٰلِکَ ، وَلٰـکِنْ لِمَعْنًیْ فِی الْأَکْلِ مُتَّکِئًا خَافَہُ عَلَیْہِمْ .
٦٧٢٠: علی ابن اقمر نے کہا کہ میں نے حضرت ابو جحیفہ (رض) کو یہ فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح روایت نقل کی۔ یہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٹیک لگا کر کھانے کو منع کیا تو یہ ممانعت حرمت کے لیے نہیں بلکہ امت پر ایک خطرے کو محسوس کرتے ہوئے یہ ممانعت فرمائی جیسا امام شعبی کے قول سے معلوم ہوتا ہے (وہ یہ ہے) ۔

6724

۶۷۲۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ قَالَ : قَالَ الشَّعْبِیُّ اِنَّمَا کَرِہَ الْأَکْلَ مُتَّکِئًا مَخَافَۃَ أَنْ تَعْظُمَ بُطُوْنُہُمْ۔ فَأَخْبَرَ الشَّعْبِیُّ بِالْمَعْنَی الَّذِیْ کَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِہِ الْأَکْلَ مُتَّکِئًا ، وَأَنَّہٗ اِنَّمَا ہُوَ لِمَا یَحْدُثُ عَنْہُ، مِنْ عِظَمِ الْبَطْنِ .فَکَذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَنْہُ مِنَ النَّہْیِ عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا ، اِنَّمَا ہُوَ لِمَعْنًیْ یَکُوْنُ مِنْ ذٰلِکَ ، کَرِہَہٗ مِنْ أَجْلِہٖ، لَا غَیْرَ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ہٰذَا أَیْضًا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو .
٦٧٢١: جریر کہتے ہیں کہ شعبی (رح) نے فرمایا ٹیک لگا کر کھانا مکروہ اس لیے قرار دیا کہ کہیں اس سے ان کے پیٹ نہ بڑے ہوجائیں۔ امام شعبی نے ٹیک لگا کر کھانے کی ممانعت کی وجہ بتادی کہ اس سے پیٹ بڑھ جاتا ہے بالکل اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت اور کراہت بھی اسی لیے ہے کہ وہ نقصان کا باعث ہے نہ کہ کچھ اور عبداللہ ابن عمر (رض) سے بھی ٹیک لگا کر کھانے کے سلسلے میں کراہت کی روایات وارد ہیں۔

6725

۶۷۲۲ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، ح .
٦٧٢٢: محمد بن حجاج نے اسد سے روایت کی ہے۔

6726

۶۷۲۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَا ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ ، عَنْ شُعَیْبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَأْکُلُ مُتَّکِئًا قَطُّ۔ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ اجْتَنَبَ ذٰلِکَ ، لِمَا قَالَ الشَّعْبِیُّ ، وَقَدْ یَجُوْزُ فِیْ ذٰلِکَ مَعْنًی آخَرُ .
٦٧٢٣: ثابت بنانی نے شعیب بن عبداللہ بن عمرو (رض) سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے کبھی بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹیک لگا کر کھاتے نہیں دیکھا۔ ممکن ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اس بناء پر گریز کیا جو شعبی نے نقل کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور معنی مقصود ہو (روایت ملاحظہ ہو)
تخریج : ابو داؤد فی الاطعمہ باب ١٦‘ ابن ماجہ فی المقدمہ باب ٢١‘ مسند احمد ٢؍١٦٥۔

6727

۶۷۲۴ : فَاِنَّہٗ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ جَعْفَرٍ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ الْأَعْوَرِ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْکُلُ مُتَّکِئًا ، فَنَزَلَ عَلَیْہِ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَقَالَ : اُنْظُرُوْا اِلٰی ھٰذَا الْعَبْدِ ، کَیْفَ یَأْکُلُ مُتَّکِئًا قَالَ : فَجَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ہٰذَا ہُوَ الْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ قَالَ : لَا آکُلُ مُتَّکِئًا ؛ لِأَنَّہٗ فِعْلُ الْمُلُوْکِ الْجَبَابِرَۃِ ، وَفِعْلُ الْأَعَاجِمِ ، فَکَرِہَ ذٰلِکَ ، وَرَغَّبَ فِیْ فِعْلِ الْعَرَبِ .کَمَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ :
٦٧٢٤: اسماعیل الاعور کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹیک لگا کر کھا رہے تھے تو جبرائیل امین آئے اور کہنے لگے اس بندے کو دیکھو کس طرح ٹیک لگا کر کھا رہا ہے تو اسی وقت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدھے بیٹھ گئے۔ ممکن ہے کہ یہ معنی مراد ہو جس کی بناء پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا کیونکہ یہ متکبر بادشاہوں کی علامت ہے اور عجمیوں کا طریقہ ہے اس لیے اس کو ناپسند فرمایا اور اہل عرب کے فعل کو پسند کیا جیسا کہ حضرت عمر (رض) کی روایت میں وارد ہے۔

6728

۶۷۲۵ : فَاِنَّہٗ حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : ثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ أَبِیْ عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ .قَالَ : أَتَانَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ اخْشَوْشِنُوْا ، وَاخْشَوْشِبُوْا ، وَاخْلَوْلِقُوْا ، وَتَمَعْدَدُوْا کَأَنَّکُمْ مُعَدٌّ ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّنَعُّمَ ، وَزِیَّ الْعَجَمِ۔ أَفَلَا تَرٰی أَنَّہٗ نَہَاہُمْ عَنْ زِیِّ الْعَجَمِ ، وَأَمَرَہُمْ بِالتَّمَعْدُدِ ، وَہُوَ الْعَیْشُ الْخَشِنُ ، الَّذِیْ تَعْرِفُہُ الْعَرَبُ ، فَکَذٰلِکَ الْأَکْلُ مُتَّکِئًا نُہُوْا عَنْہُ ؛ لِأَنَّہٗ فِعْلُ الْعَجَمِ .وَأَمَّا الشُّرْبُ قَاعِدًا فَأُمِرُوْا بِہٖ ، خَوْفًا مِمَّا یُحْدِثُ عَلَیْہِمْ فِیْ صُدُوْرِہِمْ ، وَلَیْسَ فِیْ ذٰلِکَ شَیْئٌ مِنْ زِیِّ الْعَجَمِ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ اِبَاحَۃِ الشُّرْبِ قَائِمًا ، عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
٦٧٢٥: ابو عثمان نہدی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا خط آیا کہ جفاکشی اختیار کرو اور مشقت پر صبر کرو اور اپنے کو مٹا دو ۔ تروتازہ ہوجاؤ گویا تم تنومندہو اور عیش پرستی سے اپنے آپ کو بچاؤ اور عجمیوں کا لباس مت پہنو۔ کہ آپ نے ان کو عجمیوں کے لباس سے منع کیا اور سخت زندگی گزارنے کا حکم دیا جس کو عرب پہچانتے تھے اور ٹیک لگا کر کھانے کی ممانعت بھی عجمیوں کی وجہ سے کی گئی رہا بیٹھ کر پینا تو اس کا حکم دیا گیا تاکہ ان کے سینے میں کوئی چیز پیدا نہ ہو عجم کے لباس کی عادات سے اس کا کوئی تعلق نہیں (کیا تم دیکھتے نہیں کہ انھوں نے ان کو عجمیوں کے لباس سے منع کیا اور کھردری زندگی گزارنے کا حکم دیا جس سے عرب واقف تھے)
صحابہ کرام ] سے کھڑے ہو کر پینے کی اباحت کا ثبوت :

6729

۶۷۲۶ : مَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیْ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلٰی، عَنْ بِشْرِ بْنِ غَالِبٍ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ دَارِہٖ، فَقَامَ اِلٰی بُخْتِیَّۃٍ لَہٗ، فَمَسَّحَ ضَرْعَہَا ، حَتّٰی اِذَا دَرَّتْ ، دَعَا بِاِنَائِ ، فَحَلَبَ ثُمَّ شَرِبَ وَہُوَ قَائِمٌ ، ثُمَّ قَالَ : یَا بِشْرُ ، اِنِّیْ اِنَّمَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ ، لِتَعْلَمَ أَنَّا نَشْرَبُ ، وَنَحْنُ قِیَامٌ۔
٦٧٢٦: بشر بن غالب کہتے ہیں کہ میں حسین بن علی (رض) کے پاس ان کے گھر میں گیا وہ اپنی بختی اونٹنی کی طرف کھڑے ہوئے اور اس کے تھنوں کو پسایا جب وہ دودھ سے بھر آئے تو انھوں نے برتن منگوایا اور اس کو دوہا پھر اس کو اس حالت میں پی لیا کہ وہ کھڑے تھے پھر فرمایا۔ اے بشر ! میں نے یہ اس لیے کیا تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ ہم کھڑے ہو کر بھی پی لیتے ہیں۔

6730

۶۷۲۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : رَأَیْتُ أَبِیْ یَشْرَبُ وَہُوَ قَائِمٌ .
٦٧٢٧: عامر بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ وہ کھڑے ہو کر پانی پی رہے تھے۔

6731

۶۷۲۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْبَارِقِیِّ قَالَ : نَاوَلْتُ ابْنَ عُمَرَ اِدَاوَۃً ، فَشَرِبَ مِنْہَا قَائِمًا مِنْ فِیْہَا .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ نَہٰی أَنْ یُشْرَبَ مِنْ فِی السِّقَائِ .
٦٧٢٨: علی بن عبداللہ بارقی کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کو مشکیزہ دیا پس آپ نے اس میں سے کھڑے ہو کر پانی پیا۔
مشکیزے سے پانی پینے کی ممانعت :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشکیزے سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے (روایت ملاحظہ ہو)

6732

۶۷۲۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ الشُّرْبِ مِنْ فِی السَّقَّائِ۔
٦٧٢٩: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشکیزے سے پانی پینے سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الاشربہ باب ٢٤‘ ابو داؤد فی الاشربہ باب ١٤‘ نسائی فی الضحایا باب ٤٤‘ ابن ماجہ فی الاشربہ باب ٢٠‘ دارمی فی الاشربہ باب ٢٠‘ ١٩‘ مسند احمد ١؍٢٢٦‘ ٢؍٢٣٠‘ ٣٢٧۔

6733

۶۷۳۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَلَمْ یَکُنْ ہٰذَا النَّہْیُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَلٰی تَحْرِیْمِ ذٰلِکَ ، عَلٰی أُمَّتِہٖ، حَتّٰی یَکُوْنَ مَنْ فَعَلَہٗ مِنْہُمْ عَاصِیًا لَہٗ، وَلٰـکِنْ لِمَعْنًیْ قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ مَا ہُوَ ؟ .
٦٧٣٠: عکرمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ پس یہ ممانعت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امت پر تحریم کے لیے نہیں کہ جس کے کرنے والے کو گناہ گار کہا جائے بلکہ اس کا معنی مختلف لیا گیا ہے۔ جیسا کہ ان روایات میں ملاحظہ کریں گے۔
پانی کا متعفن ہونا :

6734

۶۷۳۱ : فَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الشُّرْبِ مِنْ فِی السِّقَائِ ؛ لِأَنَّہٗ یُنْتِنُہٗ، فَہٰذَا مَعْنَاہُ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ مَعْنًی آخَرُ۔
٦٧٣١: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشکیزے سے براہ راست پانی پینے سے منع فرمایا کیونکہ مشکیزہ اس پانی کو بدبودار کردیتا ہے۔
شیطان کا ٹھکانا :

6735

۶۷۳۲ : وَہُوَ مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : کَانَ یَکْرَہُ الشُّرْبَ مِنْ ثُلْمَۃِ الْقَدَحِ ، وَعُرْوَۃِ الْکُوْزِ ، وَقَالَ : ہُمَا مَقْعَدَا الشَّیْطَانِ۔ فَلَمْ یَکُنْ ہٰذَا النَّہْیُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی طَرِیْقِ التَّحْرِیْمِ ، بَلْ کَانَ عَلٰی طَرِیْقِ الْاِشْفَاقِ مِنْہُ عَلٰی أُمَّتِہٖ وَالرَّأْفَۃِ بِہِمْ ، وَالنَّظَرِ لَہُمْ .وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ : اِنَّمَا نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ ، ؛ لِأَنَّہٗ الْمَوْضِعُ الَّذِیْ یَقْصِدُہُ الْہَوَامُّ ، فَنَہٰی عَنْ ذٰلِکَ خَوْفَ أَذَاہَا .فَکَذٰلِکَ مَا ذَکَرْنَا عَنْہُ فِیْ صَدْرِ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ نَہْیِہِ عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا ، لَیْسَ عَلَی التَّحْرِیْمِ الَّذِیْ یَکُوْنُ فَاعِلُہُ عَاصِیًا ، وَلٰـکِنْ لِلْمَعْنَی الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ فِیْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا تَقَدَّمَ ، مِنْ ہٰذَا الْبَابِ ، أَنَّہٗ أَتٰی بَیْتَ أُمِّ سُلَیْمٍ ، فَشَرِبَ مِنْ قِرْبَۃٍ وَہُوَ قَائِمٌ مِنْ فِیْہَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ نَہْیَہُ الَّذِیْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ، لَیْسَ عَلَی النَّہْیِ الَّذِیْ یَجِبُ عَلَی مُنْتَہِکِہِ أَنْ یَکُوْنَ عَاصِیًا .وَلٰـکِنَّہٗ عَلَی النَّہْیِ مِنْ أَجْلِ الْخَوْفِ ، فَاِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ ، ارْتَفَعَ النَّہْیُ فَہٰذَا عِنْدَنَا مَعْنٰی ہٰذِہِ الْآثَارِ ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا ، أَنَّہٗ نَہٰی عَنِ اخْتِنَاثِ الْأَسْقِیَۃِ ، وَہُوَ : أَنْ یُکْسَرَ ، فَیُشْرَبَ مِنْ أَفْوَاہِہَا .
٦٧٣٢: لیث نے مجاہد سے بیان کیا کہ وہ پیالے کے ٹوٹے ہوئے حصہ اور کوزے کی دستے والی جانب سے پینا ناپسند کرتے اور فرماتے یہ شیطان کے ٹھکانے ہیں۔ پس یہ ممانعت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حرمت کے لیے نہ تھی بلکہ امت پر رحمت و شفقت کی توجہ کے پیش نظر تھی۔ بعض نے کہا کہ کیونکہ وہ مقامات کیڑے مکوڑوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے پس ان کی ایذا کے ڈر سے ممانعت فرمائی۔ اسی طرح کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت بھی تحریم کے لیے نہیں کہ جس کا کرنے والا گناہ گار ہو بلکہ اس کا مطلب بھی وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ہم نے جناب امّ سلیم (رض) کی روایت ذکر کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور لٹکی ہوئی مشک سے کھڑے ہو کر پانی پیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت ایسی نہیں جس کی مخالفت سے گناہ لازم ہو۔ بلکہ ممانعت خطرے کے پیش نظر ہے جب خطرہ نہ ہو تو ممانعت نہ ہوگی۔ آثار کو سامنے رکھ کر ہمارے ہاں یہی معنی ہے۔ واللہ اعلم۔ روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ” اختناث اسقیہ “ کی ممانعت وارد ہے یعنی ” اختناث اسقیہ “ یہ ہے کہ مشکیزے کے منہ کو توڑ کر باہر کی طرف موڑ دیا جائے اس سے پانی پینے کی ممانعت فرمائی ہے روایت یہ ہے۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٨٠‘ عن ابی سعید (رض) ۔

6736

۶۷۳۳ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ اِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ ، قَالَ : ثَنَا الشَّافِعِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ اخْتِنَاثِ الْأَسْقِیَۃِ۔
٦٧٣٣: عبیداللہ بن عبداللہ نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے ” اختناث اسقیہ “ سے منع فرمایا۔
تخریج : بخاری فی الاشربہ باب ٢٣‘ مسلم فی الاشربہ ١١٠‘ ابو داؤد فی الاشربہ باب ١٥‘ ترمذی فی الاشربہ باب ١٧‘ ابن ماجہ فی الاشربہ باب ١٩‘ دارمی فی الاشربہ باب ١٩‘ مسند احمد ٣؍٦‘ ٦٧۔

6737

۶۷۳۴ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ اخْتِنَاثُہَا ، أَنْ تُکْسَرَ فَیُشْرَبُ مِنْہَا .فَالْوَجْہُ الَّذِیْ نَہٰی عَنْ ذٰلِکَ ، ہُوَ الْوَجْہُ الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ ، نُہِیَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ فِی السِّقَائِ۔
٦٧٣٤: ابن ابی ذئب نے زہری سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے ابن ابی ذئب کہتے ہیں اختناث۔ منہ کو توڑ کر اس سے پانی پینے کو کہتے ہیں۔ پس جس وجہ سے مشکیزہ سے پانی پینے کی ممانعت ہے کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت کی بھی وہی وجہ ہے۔

6738

۶۷۳۵ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَرِہَ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ اِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرٰی۔
٦٧٣٥: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ آدمی دونوں پاؤں میں سے ایک دوسرے پر رکھے۔
تخریج : بالفاظ مختلف مسلم فی اللباس ٧٢‘ ابو داؤد فی الادب باب ١٩؍٢٠۔
ایک پاؤں کو دوسرے پر رکھ کر چت لیٹنا ممنوع ہے ایک جماعت نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
فریق ثانی اس طرح لیٹنے میں کچھ گناہ نہیں ممانعت منسوخ ہوچکی۔

6739

۶۷۳۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، وَزَادَ وَہُوَ مُضْطَجِعٌ۔
٦٧٣٦: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس میں مضطجع کا اضافہ ہے یعنی جبکہ وہ چت لیٹنے والا ہو۔

6740

۶۷۳۷ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثِنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، ح .
٦٧٣٧: سلیمان بن شعیب نے عبدالرحمن بن زید سے روایت کی ہے۔

6741

۶۷۳۸ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ ، قَالَا : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٣٨: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6742

۶۷۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ خِدَاشٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٣٩: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6743

۶۷۴۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أُمَیَّۃُ بْنُ بِسْطَامٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ نَہٰی أَنْ یَثْنِیَ الرَّجُلُ اِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرٰی۔ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ ، فَکَرِہَ قَوْمٌ وَضْعَ اِحْدَی الرِّجْلَیْنِ عَلَی الْأُخْرٰی ، لِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٦٧٤٠: ابوبکر بن حفص نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدمی کو ایک پاؤں پر دوسرا پاؤں (جبکہ چت لیٹا ہو) رکھنے سے منع فرمایا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ایک پاؤں کا دوسرے پر رکھنا چت لیٹنے کی حالت میں منع کیا گیا۔ ایک جماعت اسی طرف گئی ہے اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
مزید اسی سلسلہ کی روایت :

6744

۶۷۴۱ : بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ قَالَ : کَانَ الْأَشْعَثُ ، وَجَرِیْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، وَکَعْبٌ ، قُعُوْدًا ، فَرَفَعَ الْأَشْعَثُ اِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرٰی وَہُوَ قَاعِدٌ .فَقَالَ لَہٗ کَعْبُ بْنُ عُجْرَۃَ : ضُمَّہَا ، فَاِنَّہٗ لَا یَصْلُحُ لِبَشَرٍ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِذٰلِکَ بَأْسًا ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ ، بِمَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٧٤١: ابو وائل کہتے ہیں کہ اشعث ‘ جریر بن عبداللہ اور کعب بیٹھے تھے اشعث نے ایک پاؤں کو دوسرے پر بیٹھنے کی حالت میں بلند کیا۔ تو ان کو حضرت کعب بن عجرہ (رض) نے کہا ان کو ساتھ ملاؤ یہ کسی انسان کے لائق نہیں۔ فریق ثانی نے فریق اوّل کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا انھوں نے اس سلسلہ میں ان روایات سے استدلال کیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : انھوں نے اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا انھوں نے اس سلسلہ میں ان روایات سے استدلال کیا ہے۔

6745

۶۷۴۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ ، عَنْ عَمِّہِ قَالَ : رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُسْتَلْقِیًا فِی الْمَسْجِدِ ، وَاضِعًا اِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرٰی۔
٦٧٤٢: عباد بن تمیم نے اپنے چچا سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد میں چت لیٹے پایا آپ نے اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پر رکھا ہوا تھا۔
تخریج : بخاری فی الصلاۃ باب ٨٥‘ مسلم فی اللباس ٧٥‘ ابو داؤد فی الادب باب ٣١‘ ترمذی فی الادب باب ١٩‘ نسائی فی المساجد باب ٢٨٢‘ دارمی فی الاستیذان باب ٢٧‘ مالک فی السفر ٨٧‘ مسند احمد ٢‘ ٣‘ ٣٩‘ ٤٢۔

6746

۶۷۴۳ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَعْقُوْبَ بْنِ أَبِیْ عَبَّادٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبَّادُ بْنُ تَمِیْمٍ ، عَنْ عَمِّہٖ ، عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٤٣: عباد بن تمیم نے اپنے چچا عبداللہ بن زید سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6747

۶۷۴۴ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ : قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، قَالَ : ثَنَا الزُّہْرِیُّ ، قَالَ حَدَّثَنِیْ عَبَّادُ بْنُ تَمِیْمٍ ، عَنْ عَمِّہٖ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٤٤: عباد بن تمیم نے اپنے چچا سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6748

۶۷۴۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَیُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ ، عَنْ عَمِّہٖ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٤٥: عباد بن تمیم نے اپنے چچا سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6749

۶۷۴۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٧٤٦: مالک نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6750

۶۷۴۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدُ اللّٰہِ الْمَاجِشُوْنِ ، ح.
٦٧٤٧: حجاج نے عبدالعزیز بن عبداللہ ماجشون سے روایت کی ہے۔

6751

۶۷۴۸ : وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَحْمُوْدُ بْنُ لَبِیْدٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ ، عَنْ عَمِّہٖ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَہٰذِہِ الْآثَارُ قَدْ جَائَ تْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاِبَاحَۃِ مَا مَنَعَتْ مِنْہُ الْآثَارُ الْأُوَلُ .وَأَمَّا مَا ذَکَرُوْھُ ، مِمَّا احْتَجُّوْا بِہٖ مِنْ قَوْلِ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ ، فَاِنَّہٗ قَدْ رُوِیَ عَنْ جَمَاعَۃٍ ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، خِلَافُ ذٰلِکَ.
٦٧٤٨: محمود بن لبید نے عباد بن تمیم سے انھوں نے اپنے چچا سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ پہلے آثار میں جس بات کی ممانعت ہے ان آثار میں اس کی اباحت ثابت ہو رہی ہے۔ باقی انھوں نے کعب بن عجرہ (رض) کی جو روایت پیش کی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے خلاف روایت نقل کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

6752

۶۷۴۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ ، وَیُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَعِیْدِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، کَانَا یَفْعَلَانِ ذٰلِکَ .
٦٧٤٩: سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) اس طرح کرتے تھے۔

6753

۶۷۵۰ : حَدَّثَنِی ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ ثِنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ : کَانَ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ ، وَعُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، یَجْلِسُ أَحَدُہُمْ مُتَرَبِّعًا ، وَاِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلٰی الْأُخْرٰی .
٦٧٥٠: سالم ابوالنضر کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمرو عثمان (رض) تربع کی حالت میں بیٹھتے اور ایک پاؤں کو دوسرے پر رکھتے تھے۔

6754

۶۷۵۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سَعِیْدِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَرْبُوْعٍ أَنَّہٗ رَأٰی عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَلَ ذٰلِکَ .
٦٧٥١: عبدالرحمن بن یربوع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان (رض) کو ایسا کرتے پایا۔

6755

۶۷۵۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ نَوْفَلٍ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ رَأٰی أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ ، فِیْ مَسْجِدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَعَلَ ذٰلِکَ .
٦٧٥٢: محمد بن نوفل نے بیان کیا کہ میں نے حضرت اسامہ بن زید (رض) کو مسجد نبوی میں اسی طرح کرتے پایا ہے۔

6756

۶۷۵۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّہٗ رَأَی ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یَفْعَلُ ذٰلِکَ .
٦٧٥٣: نافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو ایسے کرتے پایا۔

6757

۶۷۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ مُضْطَجِعًا بِالْأَرَاکِ وَاضِعًا اِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرٰی وَہُوَ یَقُوْلُ : رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ۔
٦٧٥٤: عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ کو چت لیٹے اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پر رکھے ہوئے یہ کہتے پایا : ” ربنا لا تجعلنا فتنۃ للقوم الظالمین “ (یونس : ٨٥)

6758

۶۷۵۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ قَاعِدًا ، قَدْ وَضَعَ اِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرٰی .فَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ ہٰؤُلَائِ الْجِلَّۃِ ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَہٰذَا مِمَّا لَا یَصِلُ اِلٰی تَبْیِینِہٖ، مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَنَسْتَعْمِلَ فِیْہٖ، مَا اسْتَعْمَلْنَاہُ فِیْ غَیْرِہِ مِنْ أَبْوَابِ ہٰذَا الْکِتَابِ .وَلٰـکِنْ لِمَا رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا وَصَفْنَا فِی الْفَصْلِ الْمُتَقَدِّمِ ، وَرُوِیَ عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ أَنَّہٗ قَالَ : اِنَّہٗ لَا یَصْلُحُ لِبَشَرٍ فَکَانَ مَعْنٰی ہٰذَا ، عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ، أَنَّہَا لَا تَصْلُحُ لِبَشَرٍ لِنَہْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہَا ، ؛ لِأَنَّہٗ لَا یَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ یُخَالِفَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ثُمَّ قَدْ جَائَ مَا ذَکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الثَّانِیْ مِنْ اِبَاحَتِہَا ، بِاسْتِعْمَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیَّاہَا .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ أَحَدُ الْأَمْرَیْنِ قَدْ نَسَخَ الْآخَرَ ، فَلَمَّا وَجَدْنَا أَبَا بَکْرٍ ، وَعُمَرَ ، وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، وَہُمُ الْخُلَفَائُ الرَّاشِدُوْنَ الْمَہْدِیُّوْنَ ، عَلٰی قُرْبِہِمْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَعِلْمِہِمْ بِأَمْرِہٖ، قَدْ فَعَلُوْا ذٰلِکَ بَعْدَہٗ، بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِہٖ جَمِیْعًا ، وَفِیْہِمْ الَّذِیْ حَدَّثَ بِالْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْکَرَاہَۃِ ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ أَحَدٌ مِنْہُمْ ، ثُمَّ فَعَلَہٗ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ ، وَابْنُ عُمَرَ وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ، فَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْہِمْ مُنْکِرٌ .ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ ہٰذَا ، ہُوَ مَا عَلَیْہِ أَہْلُ الْعِلْمِ ، مِنْ ہٰذَیْنِ الْخَبَرَیْنِ الْمَرْفُوْعَیْنِ ، وَبَطَلَ بِذٰلِکَ مَا خَالَفَہٗ، لِمَا ذَکَرْنَا وَبَیَّنَّا .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ الْحَسَنِ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی غَیْرِ ہٰذَا الْمَعْنَی .
٦٧٥٥: عمران بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) کو اس حالت میں بیٹھے دیکھا کہ انھوں نے اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پر رکھا ہوا ہے۔ یہ روایات ہم نے اجلہ صحابہ کرام (رض) سے کی ہیں۔ جس کی وضاحت قیاس و نظر سے ہو سکے تاکہ ہم اس قیاس کو دوسرے ابواب کی طرح یہاں بھی استعمال کریں لیکن جب ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ روایات نقل کرچکے جو کہ شروع باب میں آئیں اور حضرت کعب بن عجرہ (رض) سے روایت وارد ہوئی کہ کسی شخص کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت جائز نہیں تو ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ ہے۔ واللہ اعلم۔ کہ کسی شخص کو اس پر عمل اس لیے جائز نہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت جائز نہیں۔ دوسری فصل میں وہ روایات لائی گئیں جن سے اس عمل کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود یہ عمل کیا۔ اب ان دونوں روایات میں اس بات کا احتمال ہے کہ یہ ایک دوسری کے لیے ناسخ ہوں۔ پس جب حضرت ابوبکر و عمرو عثمان (رض) جو خلفاء راشدین اور ہادی مہدی ہیں ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرب رہا اور وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوسروں سے زیادہ جاننے والے ہیں انھوں نے تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں یہ عمل کیا اور ان میں وہ حضرات بھی ہیں جنہوں نے کراہت سے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ روایات نقل کی ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ پھر حضرت ابن مسعود ‘ ابن عمر ‘ اسامہ بن زید ‘ انس بن مالک (رض) نے یہ عمل کیا اور ان پر بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ان دو مرفوع روایات میں سے اس روایت پر اہل علم کا عمل ہے۔ اس کے ساتھ وہ باطل ہوا جو اس کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اور تفصیل سے بیان کیا۔ اور حضرت حسن (رح) سے تو دوسرے معنی پر دلالت کرنے والی روایت بھی مروی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

6759

۶۷۵۶ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ الْأَیْلِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی السَّرِیُّ بْنُ یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا عَقِیْلٌ قَالَ : قِیْلَ لِلْحَسَنِ : قَدْ کَانَ یُکْرَہُ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ اِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرٰیْ؟ فَقَالَ الْحَسَنُ : مَا أَخَذُوْا ذٰلِکَ اِلَّا عَنِ الْیَہُوْدِ .فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ کَانَ مِنْ شَرِیْعَۃِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ ، کَرَاہَۃُ ذٰلِکَ الْفِعْلِ ، فَکَانَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی ذٰلِکَ .فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِاتِّبَاعِ مَا کَانُوْا عَلَیْہٖ، ؛ لِأَنَّ حُکْمَہُ أَنْ یَکُوْنَ عَلَی شَرِیْعَۃِ النَّبِیِّ الَّذِیْ کَانَ قَبْلَہٗ، حَتّٰی یُحْدِثَ اللّٰہُ لَہٗ شَرِیْعَۃً تَنْسَخُ بِشَرِیْعَتِہٖ .ثُمَّ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخِلَافِ ذٰلِکَ ، وَبِاِبَاحَۃِ ذٰلِکَ الْفِعْلِ ، لَمَّا أَبَاحَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہٗ، مَا قَدْ کَانَ حَظَرَہٗ، عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَہٗ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ الْحَسَنِ خِلَافُ ذٰلِکَ أَیْضًا .
٦٧٥٦: عقیل کہتے ہیں کہ حسن (رح) کو کہا گیا کہ یہ بات مکروہ قرار دی جاتی تھی کہ آدمی اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھے تو حسن کہنے لگے انھوں نے یہ بات یہود سے اخذ کی ہے۔ ممکن ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں یہ کراہت ہو۔ پس اس پر قائم تھے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے پیغمبر کی شریعت پر چلنے کا حکم تھا جب تک اس کے متعلق کوئی نیا حکم نہ اترے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فعل کو مباح کردیا اور اس کے خلاف حکم دیا کہ آپ کے لیے اس چیز کو جائز کردیا جو آپ سے پہلے پیغمبر کے لیے جائز نہ تھی۔
حضرت حسن (رح) سے اس کے خلاف قول۔ (ملاحظہ ہو)

6760

۶۷۵۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّہٗ کَانَ یَفْعَلُہٗ، یَعْنِی : یَضَعُ اِحْدَی الرِّجْلَیْنِ عَلَی الْأُخْرٰی وَقَالَ : اِنَّمَا کُرِہَ لَہٗ ذٰلِکَ أَنْ یَفْعَلَہٗ بَیْنَ یَدَی الْقَوْمِ ، مَخَافَۃَ أَنْ یَنْکَشِفَ .وَالْوَجْہُ الْأَوَّلُ عِنْدِی أَشْبَہُ - مِنْ ہٰذَا .أَلَا تَرٰی اِلٰی قَوْلِ کَعْبٍ اِنَّہَا لَا تَصْلُحُ لِبَشَرٍ ۔ فَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ الْمَعْنَی الَّذِیْ رُوِیَ عَنِ الْحَسَنِ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، لَمْ یَقُلْ ذٰلِکَ کَعْبٌ .وَلٰـکِنَّہٗ اِنَّمَا قَالَ ذٰلِکَ ، لِعِلْمِہٖ بِنَہْیِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ لِمَا کَانَ عَلَیْہِ مِنَ اتِّبَاعِ مَنْ قَبْلَہٗ، ثُمَّ نَسَخَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَلَمْ یَعْلَمْہُ کَعْبٌ ، فَکَانَ عَلَی الْأَمْرِ الْأَوَّلِ ، وَعَلِمَہٗ غَیْرُہٗ، فَرَجَعَ اِلَیْہٖ، وَتَرَکَ مَا تَقَدَّمَہُ .
٦٧٥٧: حمید نے حسن (رح) سے روایت کی کہ وہ اس پر عمل کرتے تھے یعنی ایک پاؤں کو دوسرے پر رکھا کرتے تھے اور فرماتے یہ اس وقت مکروہ ہے جب کسی کے سامنے کیا جائے تاکہ بےپردگی نہ ہوجائے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں میرے ہاں پہلی وجہ زیادہ مناسب ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کعب فرماتے ہیں ” انہا لا تصلح لبشر “ اگر یہ معنی جو حضرت حسن (رح) نے ذکر کیا مراد ہوتا تو حضرت کعب یہ نہ کہتے۔ بلکہ آپ نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ممانعت کا علم ہونے کی بنیاد پر یہ بات فرمائی ہے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ پر پہلے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع ضروری تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو منسوخ کردیا اور حضرت کعب (رض) کو اس کا علم نہ ہوا تو وہ پہلے حکم پر ہی قائم رہے جبکہ دوسرے حضرات کو اس کا علم ہوگیا اور انھوں نے پہلے حکم کو ترک کر کے دوسرے کی طرف رجوع کرلیا۔

6761

۶۷۵۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ وَعَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ ، مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْ مُوْسَی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِذَا مَرَّ أَحَدُکُمْ فِیْ مَسْجِدِنَا ، أَوْ فِیْ مَسَاجِدِنَا ، وَفِیْ یَدِہِ سِہَامٌ ، فَلْیُمْسِکْ بِنِصَالِہَا ، لَا یَعْقِرُ بِہَا أَحَدًا۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ - یَتَخَطَّی الرَّجُلُ الْمَسْجِدَ ، وَہُوَ حَامِلٌ مَا أَرَادَ حَمْلَہٗ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، وَقَالُوْا : لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یَدْخُلَ الْمَسْجِدَ ، وَہُوَ حَامِلٌ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ ، اِلَّا أَنْ یَکُوْنَ دَخَلَ بِہٖ یُرِیْدُ بِدُخُوْلِہٖ الصَّلَاۃَ ، أَوْ أَنْ یَکُوْنَ اِذَا دَخَلَہٗ، یُرِیْدُ بِہٖ الصَّدَقَۃَ ، فَأَمَّا أَنْ یَدْخُلَ بِہٖ یُرِیْدُ تَخَطِّیَ الْمَسْجِدِ ، فَاِنَّ ذٰلِکَ مَکْرُوْہٌ .وَقَالُوْا : قَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَرَادَ بِمَا ذَکَرْنَا ، فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُوْسَی ، الْاِدْخَالَ لِلصَّدَقَۃِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، ہَلْ نَجِدُ شَیْئًا مِنَ الْآثَارِ یَدُلُّ عَلَیْہِ۔
٦٧٥٨: ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے جب تم میں سے کوئی ہماری مسجد سے گزرے یا مساجد سے گزرے اور اس کے ہاتھ میں تیر ہوں۔ تو وہ اس کا پھل ہاتھ میں تھام لے۔ کہیں اس کے ساتھ کسی کو زخمی نہ کر دے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ مسجد سے گزرنے میں کچھ حرج نہیں خواہ آدمی کوئی چیز اٹھانے والا ہو۔ انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا ہے۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ کسی کو مناسب نہیں کہ وہ مسجد میں کوئی چیز اٹھاکر گزرے سوائے اس کے کہ وہ نماز یا صدقہ کا ارادہ رکھتا ہو اور اگر وہ مسجد کو عبور کرنا چاہتا ہو تو یہ مکروہ ہے۔ مذکورہ روایت میں احتمال ہے کہ ممکن ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقہ کے لیے داخل ہوئے ہوں۔
تخریج : بخاری فی الفتن باب ٧‘ مسلم فی البر ١٢٠‘ نسائی فی المساجد باب ٢٦‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٥١‘ دارمی فی المقدمہ باب ٥٣‘ مسند احمد ٣؍٣٠٨۔
خلاصہ الزام :
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مسجد سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں خواہ کوئی چیز اٹھائے ہوئے ہو۔
فریق ثانی : مسجد میں سے کسی چیز کو اٹھاکر گزرنا ویسے عبور کے لیے گزرنا جائز نہیں بلکہ مکروہ ہے۔
اس پر آثار سے دلالت :

6762

۶۷۵۹ : .فَاِذَا یُوْنُسُ قَدْ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، وَاللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، یَزِیْدُ أَحَدُہُمَا عَلَی الْآخَرِ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کَانَ الرَّجُلُ یَتَصَدَّقُ بِنَبْلٍ فِی الْمَسْجِدِ ، فَأَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا یَمُرَّ بِہَا اِلَّا وَہُوَ آخِذٌ بِنُصُوْلِہَا۔
٦٧٥٩: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی تیر صدقہ کرنا چاہتا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حکم دیا کہ مسجد سے وہ اس طرح گزرے کہ اس کا پھل ہاتھ میں تھام لے (تاکہ کسی کو ایذا نہ پہنچے)
تخریج : مسلم فی البر ١٢٢‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ٦٥‘ مسند احمد ٣؍٣٥٠۔

6763

۶۷۶۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ ، عَنِ اللَّیْثِ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَحْوَہٗ۔فَبَیَّنَ جَابِرٌ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّ الَّذِیْنَ کَانُوْا یَدْخُلُوْنَ بِہَا الْمَسْجِدَ ، اِنَّمَا کَانُوْا یُرِیْدُوْنَ بِہَا الصَّدَقَۃَ فِیْہِ لَا التَّخَطِّیَ .فَہٰذَا ہُوَ مَا أَبَاحَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِمَّا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُوْسٰی۔
٦٧٦٠: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اس روایت میں جابر (رض) نے وضاحت کردی کہ مسجد میں اشیاء لے کر داخل ہونے والے صدقہ کا ارادہ رکھتے تھے مسجد کو فقط عبور کرنا مقصود نہ تھا۔ پس یہی صورت ہے جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت ابو موسیٰ میں مباح قرار دیا ہے۔

6764

۶۷۶۱ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، وَحَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ، وَیَزِیْدُ ابْنُ زُرَیْعٍ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ السَّدُوْسِیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّہُمْ قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَیَنْحَنِیْ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ ، اِذَا الْتَقَیْنَا ؟ .قَالَ : لَا قَالُوْا ، فَیُعَانِقُ بَعْضُنَا بَعْضًا ؟ قَالَ لَا .قَالُوْا : أَفَیُصَافِحُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ ؟ قَالَ تَصَافَحُوْا۔
٦٧٦١: حنظلہ سدوسی نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم ایک دوسرے کے لیے جھکیں جبکہ ایک دوسرے سے ملیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا۔ پھر ایک دوسرے سے معانقہ کریں آپ نے فرمایا نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا۔ کیا ایک دوسرے سے مصافحہ کریں آپ نے فرمایا مصافحہ کرو۔
تخریج : ابن ماجہ فی الادب باب ١٥۔
خلاصہ الزام
: امام ابوحنیفہ و محمد رحمہم اللہ نے معانقہ کو مکروہ قرار دیا ہے۔ فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ اس میں چنداں حرج نہیں ہے اس قول کو امام ابو یوسف (رح) نے اختیار کیا ہے۔

6765

۶۷۶۲ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ ھِلَالٍ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی ھٰذَا فَکَرِہُوْا الْمُعَانَقَۃَ ، مِنْہُمْ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ ، وَمُحَمَّدٌ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمَا .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِہَا بَأْسًا ، وَمِمَّنْ ذَہَبَ اِلَی ذٰلِکَ ، أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .وَکَانَ مِمَّا احْتَجُّوْا بِہٖ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٦٧٦٢: حنظلہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم نے عرض کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے معانقہ کو اس روایت کی بناء پر مکروہ قرار دیا ہے۔ ان میں امام ابوحنیفہ (رح) اور محمد (رح) ہیں۔ فریق ثانی کا کہنا ہے اس میں کوئی حرج نہیں یہ امام ابو یوسف (رح) نے اختیار کیا ہے۔ دلیل یہ روایات ہیں :

6766

۶۷۶۳ : مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ ، مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ مُجَالِدِ ابْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : لَمَّا قَدِمْنَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِیِّ ، تَلَقَّانِیْ، فَاعْتَنَقَنِیْ۔
٦٧٦٣: عبداللہ بن جعفر نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ہم جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں نجاشی کے ہاں سے پہنچے تو آپ مجھے ملے تو آپ نے مجھے گلے لگا لیا۔

6767

۶۷۶۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّیْمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنِ الْأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : وَافَقَ قُدُوْمُ جَعْفَرٍ فَتْحَ خَیْبَرَ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا أَدْرِیْ بِأَیِّ الشَّیْئَیْنِ أَنَا أَشَدُّ فَرَحًا ، بِفَتْحِ خَیْبَرَ ، أَوْ بِقُدُوْمِ جَعْفَرٍ ثُمَّ تَلَقَّاہُ فَاعْتَنَقَہٗ، وَقَبَّلَ بَیْنَ عَیْنَیْہِ۔
٦٧٦٤: شعبی کہتے ہیں حضرت جعفر (رض) کی آمد فتح خیبر کے موقع پر تھی تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے معلوم نہیں کہ آج مجھے کس بات کی زیادہ خوشی ہے آیا فتح خیبر کی یا آمد جعفر کی پھر آپ ان کو ملے تو ان کو گلے لگا لیا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔

6768

۶۷۶۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ یَحْیٰی بْنِ مُحَمَّدٍ الشَّجَرِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیٰی بْنِ عَبَّادٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَدِمَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ الْمَدِیْنَۃَ ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَیْتِیْ، فَأَتَاہٗ، فَقَرَعَ الْبَابَ ، فَقَامَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُرْیَانًا ، وَاللّٰہِ مَا رَأَیْتُہٗ عُرْیَانًا قَبْلَہٗ، فَاعْتَنَقَہٗ وَقَبَّلَہٗ ۔وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
٦٧٦٥: عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ زید بن حارثہ مدینہ میں آئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر میں تھے۔ وہ آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ ننگے بدن ان کی طرف اٹھے اللہ کی قسم میں نے اس سے پہلے کبھی آپ کو اس طرح ننگا جسم نہ دیکھا تھا اور آپ نے ان کو گلے لگایا اور بوسہ دیا۔
تخریج : ترمذی فی الاستیذان باب ٣٢۔
اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روایات :

6769

۶۷۶۶ : مَا حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ غَالِبٍ التَّمَّارِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانُوْا ، اِذَا الْتَقَوْا ، تَصَافَحُوْا ، وَاِذَا قَدِمُوْا مِنْ سَفَرٍ ، تَعَانَقُوْا .
٦٧٦٦: شعبی بیان کرتے ہیں کہ اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ملتے تو باہمی مصافحہ کرتے اور جب سفر سے آتے تو معانقہ کرتے۔

6770

۶۷۶۷ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، ح .
٦٧٦٧: احمد بن داؤد نے ابوالولید سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6771

۶۷۶۸ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٧٦٨: یحییٰ بن حماد نے شعبہ سے روایت کی پھر اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

6772

۶۷۶۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ: ثَنَا أَبُو غَالِبٍ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ قَالَتْ : قَدِمَ عَلَیْنَا سَلْمَانُ ، فَقَالَ : أَیْنَ أَخِیْ ؟ قُلْتُ فِی الْمَسْجِدِ ، فَأَتَاہٗ، فَلَمَّا رَآہٗ اعْتَنَقَہٗ .فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَدْ کَانُوْا یَتَعَانَقُوْنَ. فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَا رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اِبَاحَۃِ الْمُعَانَقَۃِ ، مُتَأَخِّرٌ عَمَّا رُوِیَ عَنْہُ مِنَ النَّہْیِ عَنْ ذٰلِکَ .فَبِذٰلِکَ نَأْخُذُ ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ .
٦٧٦٩: ابو غالب نے ام الدردائ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہمارے ہاں سلمان (رض) آئے اور انھوں نے پوچھا میرا بھائی کہاں ہے ؟ میں نے کہا مسجد میں۔ چنانچہ وہ ان کے پاس گئے جب ان کو دیکھا تو ان سے معانقہ کیا۔ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو کہ باہمی معانقہ کرتے تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جو روایات معانقہ کی اباحت والی ہیں وہ ممانعت والی روایات سے متاخر ہیں۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں یہ ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔ اس باب میں امام طحاوی نے امام ابو یوسف (رح) کے مسلک کو اپنایا ہے اور معانقہ کو درست و مباح قرار دیا ہے۔

6773

۶۷۷۰ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُدْرِکٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَۃَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُجٰی ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃٌ۔
٦٧٧٠: عبداللہ بن یحییٰ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت علی (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ کہ (رحمت کے) فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصاویر ہوں۔
تخریج : بخاری فی بدء الخلق باب ٧‘ واللباس باب ٩٢‘ مسلم فی اللباس ٨٥‘ ابو داؤد فی الطہارۃ باب ٨٩‘ ترمذی فی الادب ٤٤‘ نسائی فی الطہارۃ باب ١٦٧‘ دارمی فی الاستیذان باب ٣٤‘ مسند احمد ٦؍١٤٣‘ ١‘ ٨٣؍١٠٤۔
خلاصہ الزام :
علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ کپڑوں پر جاندار کی تصاویر ہوں تو ان کو کسی صورت میں بھی گھر رکھنا درست نہیں اور نہ ان کا استعمال جائز ہے۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے جن کپڑوں پر تصاویر ہوں اور وہ روندنے اور فرش کے لیے استعمال کئے جائیں تو یہ درست ہے ورنہ مکروہ ہے۔ اس قول کو ائمہ احناف رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔

6774

۶۷۷۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِسْحَاقَ ، وَحِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٧٧١: یعقوب بن اسحاق اور حبان بن ہلال دونوں نے شعبہ سے روایت کی پھر اپنی اسناد سے روایت کی ہے۔

6775

۶۷۷۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، قَالَ : ثَنَا مُغِیْرَۃُ بْنُ مِقْسَمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْحَارِثُ الْعُکْلِیُّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَحْیٰی ، عَنْ عَلِیٍّ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ لِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ : اِنَّا لَا نَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبٌ ، وَلَا صُوْرَۃٌ وَلَا تِمْثَالٌ۔
٦٧٧٢: عبداللہ بن یحییٰ نے حضرت علی (رض) روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں (شوقیہ) کتا اور (جاندار کی) تصویر اور مورتی ہو۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٩٢‘ مسند احمد ١؍٨٠۔

6776

۶۷۷۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُکَیْرٍ ، عَنْ کُرَیْبٍ، مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، حِیْنَ دَخَلَ الْبَیْتَ وَجَدَ فِیْہِ صُوْرَۃَ اِبْرَاھِیْمَ ، وَصُوْرَۃَ مَرْیَمَ فَقَالَ أَمَّا ہُمْ ، فَقَدْ سَمِعُوْا أَنَّ الْمَلَائِکَۃَ لَا تَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃُ اِبْرَاھِیْمَ، فَمَا لَہٗ یَسْتَقْسِمُ۔
٦٧٧٣: کریب مولیٰ ابن عباس (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس میں ابراہیم (علیہ السلام) کی تصویر اور مریم کی تصویر پائی پھر فرمایا۔ پھر یہ لوگ سن چکے ہیں کہ ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصاویر ہوں اور یہ ابراہیم (علیہ السلام) کی تصویر ہے۔ پس کیا ہے اس کے لیے کہ یہ استسقام کر رہی ہے (حالانکہ ابراہیم (علیہ السلام) تو استسقام نہ کرنے والے تھے)
تخریج : مسند احمد ١؍٢٧٧۔

6777

۶۷۷۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَبِیْ طَلْحَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا ، فِیْہِ صُوْرَۃٌ۔
٦٧٧٤: حضرت ابن عباس (رض) سے حضرت ابو طلحہ (رض) سے نقل کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویر ہو۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٠٤‘ ١٠٧‘ ٣؍٩٠‘ ٤‘ ٢٨؍٢٩‘ ٦‘ ٢٤٦؍٣٣٠۔

6778

۶۷۷۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُہَیْلُ بْنُ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٧٥: سعید بن یسار نے ابو طلحہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6779

۶۷۷۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أُمَیَّۃُ بْنُ بِسْطَامٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٧٦: زید بن خالد نے ابو ایوب (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6780

۶۷۷۷ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّا لَا نَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃٌ۔
٦٧٧٧: ابو سلمہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا کہ ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویر ہو۔

6781

۶۷۷۸ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا أَبُو زَیْدِ بْنُ أَبِی الْعَمْرِۃِ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ مُوْسَیْ بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : اشْتَرَیْتُ نُمْرُقَۃً فِیْہَا تَصَاوِیْرُ ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَآہَا ، تَغَیَّرَ ثُمَّ قَالَ یَا عَائِشَۃُ ، مَا ہٰذِہٖ؟ .فَقُلُْتُ :نُمْرُقَۃٌ اشْتَرَیْتُہَا لَکَ ، تَقْعُدُ عَلَیْہَا ، قَالَ اِنَّا لَا نَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ تَصَاوِیْرُ۔
٦٧٧٨: قاسم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے ایک گدا خریدا جس میں تصاویر تھیں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے اور اس کو دیکھا تو آپ کا چہرہ متغیر ہوا پھر فرمایا اے عائشہ ! یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ گدا ہے جو میں نے آپ کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں تو آپ نے فرمایا ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویریں ہوں۔
تخریج : بخاری فی النکاح باب ٧٦‘ والبیوع باب ٤٠‘ واللباس باب ٩٢‘ مسلم فی اللباس ٩٤؍٩٦‘ مالک فی الاستیذان ٨‘ مسند الحمد ٦؍١١٢۔

6782

۶۷۷۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : حَدَّثَنِی الْأَوْزَاعِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْقَاسِمُ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَا مُسْتَتِرَۃٌ بِقِرَامِ سِتْرٍ ، فِیْہِ صُوْرَۃٌ ، فَہَتَکَہٗ، ثُمَّ قَالَ اِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، الَّذِیْنَ یُشَبِّہُوْنَ بِخَلْقِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔
٦٧٧٩: قاسم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے میں ایک سرخ رنگ کے پردہ سے ڈھانپنے والی تھی اس میں تصاویر تھیں آپ نے اس کو پھاڑ دیا اور فرمایا قیامت کے دن سب سے سخت عذاب والے وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت کرنے والے ہیں۔
تخریج : مسلم فی اللباس ٩١؍٩٢‘ نسائی فی الزینہ باب ١١٢‘ مسند احمد ٦‘ ٣٦؍٨٥۔

6783

۶۷۸۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ کُرَیْبٍ ، مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃٌ۔
٦٧٨٠: کریب مولیٰ ابن عباس (رض) نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصاویر ہوں۔
تخریج : مسند احمد ١‘ ١٣٩؍١٤٦‘ ٤‘ ٢٨؍٢٩‘ ٦‘ ١٤٣؍٢٤٦‘ ٣٣٠۔

6784

۶۷۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ ذِئْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ ، فَرَأٰیْ فِیْہَا صُوْرَۃً ، فَأَمَرَنِیْ فَأَتَیْتُہٗ بِدَلْوٍ مِنْ مَائٍ ، فَجَعَلَ یَضْرِبُ بِہٖ الصُّوَرَ ، یَقُوْلُ قَاتَلَ اللّٰہُ قَوْمًا یُصَوِّرُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُوْنَ۔
٦٧٨١: عمیر مولی ابن عباس (رض) نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ کعبہ میں داخل ہوئے آپ نے اس میں ایک تصویر دیکھی پھر آپ نے حکم دیا تو میں آپ کے پاس پانی کا ایک ڈول لایا آپ وہ پانی تصاویر پر گرانے لگے اور زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرے جو ایسی چیزوں کی تصاویر بناتے ہیں جن کو وہ پیدا نہیں کرسکتے۔

6785

۶۷۸۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ حَدَّثَہٗ عَنْ أَبِیْھَا أَنَّ جِبْرِیْلَ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّا لَا نَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃٌ۔
٦٧٨٢: سالم بن عبداللہ نے اپنے والد سے نقل کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصاویر ہوں۔

6786

۶۷۸۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ لَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنِ ابْنِ السَّبَّاقِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مَیْمُوْنَۃَ ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٧٨٣: حضرت ابن عباس (رض) نے امّ المؤمنین میمونہ (رض) سے اور انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6787

۶۷۸۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ قَالَ : سَأَلْتُ جَابِرًا عَنِ الصُّوَرِ فِی الْبَیْتِ ، وَعَنِ الرَّجُلِ یَفْعَلُ ذٰلِکَ .فَقَالَ : زَجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَنْ ذٰلِکَ۔
٦٧٨٤: ابوالزبیر کہتے ہیں میں نے جابر سے گھر کے اندر تصاویر کے اور مصور کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر ڈانٹ ڈپٹ فرمائی ہے۔

6788

۶۷۸۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدِ بْنِ الْأَصْبَہَانِیِّ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ عَنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ دَارَ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ ، فَاِذَا بِتَمَاثِیْلَ .فَقَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَہَبَ یَخْلُقُ خَلْقًا کَخَلْقِی ، فَلْیَخْلُقُوْا ذَرَّۃً ، أَوْ لِیَخْلُقُوْا حَبَّۃً ، أَوْ لِیَخْلُقُوْا شَعِیْرَۃً ۔ قَالَ : أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ ذَاہِبُوْنَ اِلٰی کَرَاہِیَۃِ اتِّخَاذِ مَا فِیْہِ الصُّوَرُ مِنْ الثِّیَابِ ، وَمَا کَانَ یُوْطَأُ مِنْ ذٰلِکَ وَیُمْتَہَنُ ، وَمَا کَانَ مَلْبُوْسًا ، وَکَرِہُوْا کَوْنَہُ فِی الْبُیُوْتِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَا کَانَ مِنْ ذٰلِکَ یُوْطَأُ وَیُمْتَہَنُ ، فَلَا بَأْسَ بِہٖ ، وَکَرِہُوْا مَا سِوٰی ذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
٦٧٨٥: ابو زرعہ کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ (رض) کے ساتھ دار مروان میں داخل ہوا تو اچانک اس میں مورتیوں کو دیکھا تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس سے بڑا ظالم کون ہے جو میری مخلوق کی طرح مخلوق بنانے لگا۔ پس ان کو چاہیے کہ وہ ایک ذرہ بنا کردکھائیں یا ایک دانہ بنا کردکھائیں یا ایک جو بنا کردکھائیں۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : کہ ایک جماعت علماء کی اس طرف گئی ہے کہ اس کپڑے کا استعمال جس میں تصاویر ہوں خواہ اس کو پاؤں میں روندا جائے تاکہ اس کی تذلیل کی جائے یا اس کو پہنا جائے بہرحال اس کا استعمال مکروہ ہے بلکہ اس کا گھروں کے اندر رکھنا بھی مکروہ ہے انھوں نے ان آثار سے استدلال کیا ہے۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ جن تصاویر والے کپڑے کو روندا یا اس کی تذلیل کی جاتی ہے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں اور اس کے علاوہ مکروہ ہے ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : بخاری فی اللباس باب ٩٠‘ والتوحید باب ٥٦‘ مسلم فی اللباس روایت ١٠١۔

6789

۶۷۸۶ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أُمِّہٖ أَسْمَائَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، وَکَانَتْ فِیْ حِجْرِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ ، وَعِنْدِیْ نَمَطٌ لِیْ فِیْہِ صُوْرَۃٌ ، فَوَضَعْتُہٗ عَلٰی سَہْوَتِیْ فَاجْتَبَذَہٗ وَقَالَ لَا تَسْتُرِی الْجِدَارَ .قَالَتْ : فَصَنَعْتُہٗ وِسَادَتَیْنِ ، فَأَخَذَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَرْتَفِقُ عَلَیْہِمَا۔
٦٧٨٦: اسماء بنت عبدالرحمن حضرت عائشہ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر سے واپس لوٹے ہمارے پاس تصاویر والا ایک گدا تھا میں نے اس کو کھڑکی پر ڈال دیا تو آپ نے اس کو وہاں سے کھینچ دیا اور فرمایا دیواروں کو مت ڈھانکو۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں میں نے اس کو دو حصے کر کے اس کے دو بچھونے بنا دیئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر آرام فرماتے تھے۔

6790

۶۷۸۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرٌو ، عَنْ بُکَیْرٍ الْأَشَجِّ ، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ عَطَائٍ مَوْلٰی بَنِی الْأَزْہَرِ ، أَنَّہٗ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، یَذْکُرُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَانَ یَرْتَفِقُ عَلَیْہِمَا
٦٧٨٧: قاسم بن محمدامّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان بچھونوں پر راحت فرماتے تھے۔

6791

۶۷۸۸ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ بَکْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ بُکَیْرٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَہٗ ، أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہٗ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا کَانَتْ نَصَبَتْ سِتْرًا ، فِیْہِ تَصَاوِیْرُ ، فَدَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَزَعَہٗ، فَقَطَعَتْہُ وِسَادَتَیْنِ .فَقَالَ رَجُلٌ فِی الْمَجْلِسِ حِیْنَئِذٍ یُقَالُ لَہٗ رَبِیْعَۃُ بْنُ عَطَائٍ مَوْلٰی بَنِیْ أَزْہَرَ : سَمِعْتَ أَبَا مُحَمَّدٍ ، یَذْکُرُ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْتَفِقُ عَلَیْہِمَا ؟ .فَقَالَ : لَا ، وَلٰـکِنْ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ یَذْکُرُ ذٰلِکَ عَنْہَا۔
٦٧٨٨: عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں کہ میرے والد نے حضرت عائشہ (رض) سے یہ روایت نقل کی کہ میں نے ایک پردہ لٹکایا جس میں تصاویر تھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داخل ہوئے تو آپ نے اس کو اتار دیا پھر میں نے کاٹ کر اس کے دو گدے بنا دیئے اس وقت مجلس میں بنی ازہر کا مولیٰ ربیعہ بن عطاء بھی تھا اس نے کہا میں نے تو ابو محمد کو عائشہ (رض) سے یہ نقل کرتے سنا کہ آپ ان پر آرام بھی فرماتے تھے کہنے لگے نہیں لیکن قاسم بن محمد سے میں نے سنا کہ وہ اس کا تذکرہ کرتے تھے۔
تخریج : مسلم فی اللباس روایت ٨٧‘ نسائی فی الزینہ باب ١١٠‘ مسند احمد ٦؍١١٢۔

6792

۶۷۸۹ : حَدَّثَنِی ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی الْوَزِیرِ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا جَعَلَتْ سِتْرًا فِیْہِ تَصَاوِیْرُ اِلَی الْقِبْلَۃِ .فَأَمَرَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَنَزَعَتْہٗ، وَجَعَلَتْ مِنْہُ وِسَادَتَیْنِ ، فَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْلِسُ عَلَیْہِمَا۔
٦٧٨٩: عبدالرحمن بن قاسم نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ قبلہ کی جانب میں نے تصاویر والا کپڑا لٹکایا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اتارنے کا حکم دیا میں نے اس کو اتار دیا میں نے اس کی دو گدیاں بنادیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر بیٹھتے تھے۔

6793

۶۷۹۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، أَنَّہَا اسْتَتَرَتْ بِنُمْرُقَۃٍ فِیْہَا تَصَاوِیْرُ .فَلَمَّا رَآہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَامَ عَلَی الْبَابِ ، فَلَمْ یَدْخُلْ ، فَعَرَفْتُ فِیْ وَجْہِہِ الْکَرَاہَۃَ .فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ، وَاِلٰی رَسُوْلِہٖ ، فَمَاذَا أَذْنَبْتُ ؟ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا بَالُ ہٰذِہِ النُّمْرُقَۃِ ؟ قُلْتُ : اشْتَرَیْتُہَا لَک ؛ لِتَقْعُدَ عَلَیْہَا ، وَتَتَوَسَّدَہَا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ أَصْحَابَ ہٰذِہٖ الصَُّوَرِ ، یُقَدَّمُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہُمْ : أَحْیُوْا مَا خَلَقْتُمْ .ثُمَّ قَالَ اِنَّ الْبَیْتَ الَّذِیْ فِیْہِ الصُّوَرُ ، لَا تَدْخُلُہُ الْمَلَائِکَۃُ۔
٦٧٩٠: قاسم بن محمد روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) امّ المؤمنین (رض) نے ایک گدیلے کو بچھایا جس پر تصاویر تھیں جب اس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اندر داخل نہ ہوئے حضرت عائشہ (رض) نے چہرے پر ناپسندیدگی دیکھی تو کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے کیا غلطی کی جو بھی غلطی ہے اس کی میں اللہ اور اس کے رسول سے معافی مانگتی ہوں ؟ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ گدا کیسا ہے ؟ میں نے کہا اس کو میں نے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس پر سہارا لگائیں۔ اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان تصاویر والے قیامت کے دن آئیں گے اور ان کو کہا جائے گا جو تم نے بنایا ان کو زندہ کرو۔ پھر فرمایا وہ گھر جس میں تصاویر ہوں وہاں فرشتے نہیں آتے۔
تخریج : بخاری فی النکاح باب ٧٦‘ مالک فی الاستیذان ٨‘ مسند احمد ٦؍٣٤٦۔

6794

۶۷۹۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : قَالَتْ عَائِشَۃُ کَانَ ثَوْبٌ فِیْہِ تَصَاوِیْرُ ، فَجَعَلْتُہٗ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُصَلِّی ، فَکَرِہَہٗ، أَوْ قَالَتْ : فَنَہَانِیْ فَجَعَلْتُہٗ وَسَائِدَ۔فَقَالَ أَہْلُ ہٰذِہِ الْمَقَالَۃِ : فَمَا کَانَ مِمَّا یُوْطَأُ فَلَا بَأْسَ لِہٰذِہِ الْآثَارِ ، وَمَا کَانَ مِنْ غَیْرِ مَا یُوْطَأُ ، فَہُوَ الَّذِیْ جَائَ تْ فِیْہِ الْآثَارُ الْأُوَلُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ اسْتَثْنٰی مِمَّا نَہٰی عَنْہُ مِنَ الصُّوَرِ ، اِلَّا مَا کَانَ رَقْمًا فِیْ ثَوْبٍ .
٦٧٩١: عبدالرحمن بن قاسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں ایک کپڑا تھا جس میں تصاویر تھیں اس کو میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا جبکہ آپ نماز ادا فرما رہے تھے۔ تو آپ نے اس بات کو ناپسند کیا یا اس طرح کہا کہ آپ نے مجھے منع فرمایا تو میں نے اس کے تکئے بنا لئے۔ فریق ثانی نے ان آثار کے پیش نظریہ استدلال کیا کہ جو روندا جائے اس میں کوئی حرج نہیں اور پہلے آثار میں جس کا تذکرہ ہے وہ ہے جو اس کے علاوہ استعمال کیا جانے والا ہے جو کہ درست نہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن تصاویر کی ممانعت فرمائی ان میں سے جو مستثنیٰ ہیں ان کا تذکرہ فرمایا یعنی جو کہ کپڑے پر چھپی ہوئی ہیں۔ (ملاحظہ ہوں)
تخریج : مسلم فی اللباس ٩٣‘ نسائی فی الزینہ باب ١١٠‘ دارمی فی الاستیذان باب ٣٣‘ مسند احمد ٦؍١٧٢۔

6795

۶۷۹۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ بُکَیْرَ بْنَ الْأَشَجِّ حَدَّثَہٗ : أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِیْدٍ حَدَّثَہٗ ، أَنَّ زَیْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُہَنِیَّ حَدَّثَہُمْ ، وَمَعَ بُشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ ، عُبَیْدُ اللّٰہِ الْخَوْلَانِیُّ ، أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ حَدَّثَہٗ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃٌ .قَالَ بُشْرٌ: فَمَرِضَ زَیْدُ بْنُ خَالِدٍ ، فَعُدْنَاہٗ، فَاِذَا نَحْنُ فِیْ بَیْتِہٖ، بِسِتْرٍ فِیْہِ تَصَاوِیْرُ .فَقُلْتُ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الْخَوْلَانِیِّ : أَلَمْ تَسْمَعْہُ۔حَدَّثَنَا فِی التَّصَاوِیْرِ ؟ قَالَ : اِنَّہٗ قَدْ قَالَ اِلَّا رَقْمًا فِیْ ثَوْبٍ ، أَلَمْ تَسْمَعْہٗ؟ قُلْتُ لَا: قَالَ : بَلٰی ، قَدْ ذَکَرَ ذٰلِکَ۔
٦٧٩٢: بشر بن سعید نے حضرت زید بن خالد جہنی اور بشر اور عبیداللہ خولانی دونوں نے ابو طلحہ انصاری سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویر ہو۔ بشر کہتے ہیں زید بن خالد بیمار ہوئے ہم ان کی عیادت کو گئے جب ہم ان کے گھر میں پہنچے تو وہ ایک پردہ تھا جس میں تصاویر تھیں۔ میں نے عبیداللہ خولانی کو کہا کیا تم نے ان سے تصاویر کے متعلق روایت بیان کرتے نہیں سنا ؟ اس نے کہا انھوں نے ایسا کہا ہے مگر چھاپے والی تصاویر کو مستثنیٰ کیا ہے کیا تم نے نہیں سنا ؟ میں نے کہا نہیں۔ انھوں نے کہا کیوں نہیں انھوں نے ذکر کیا ہے۔
تخریج : بخاری فی بدء الخلق باب ٧‘ واللباس باب ٩٢‘ مسلم فی اللباس ٨٥‘ ابو داؤد فی اللباس باب ٤٥‘ ترمذی فی اللباس باب ١٨‘ نسائی فی القبلہ باب ١٢‘ دارمی فی الاستیذان باب ٣٣‘ مالک فی الاستیذان ٧۔

6796

۶۷۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : اشْتَکٰی أَبُو طَلْحَۃَ بْنُ سَہْلٍ فَقَالَ لِیْ عُثْمَانُ بْنُ حُنَیْفٍ: ہَلْ لَک فِیْ أَبِیْ طَلْحَۃَ تَعُوْدُہٗ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ قَالَ : فَجِئْنَاہٗ، فَدَخَلْنَا عَلَیْہٖ، وَتَحْتَہٗ نَمَطٌ فِیْہِ صُوْرَۃٌ، فَقَالَ : انْزِعُوْا ہٰذَا النَّمَطَ ، فَأَلْقُوْھُ عَنِّیْ .فَقَالَ لَہٗ عُثْمَانُ بْنُ حُنَیْفٍ : أَوَمَا سَمِعْتَ ، یَا أَبَا طَلْحَۃَ ، رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ نَہٰی عَنِ الصُّوْرَۃِ ؟ قَالَ اِلَّا رَقْمًا فِیْ ثَوْبٍ، أَوْ ثَوْبًا فِیْہِ رَقْمٌ ؟ قَالَ : بَلٰی ، وَلٰـکِنَّہٗ أَطْیَبُ لِنَفْسِی ، فَأَمِیطُوْھُ عَنِّی۔
٦٧٩٣: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ بن سہیل بیمار ہوگئے تو مجھے عثمان بن حنیف نے کہا کیا تم ابو طلحہ کی بیمار پرسی کرو گے ؟ میں نے کہا جی ہاں ! عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی خدمت میں آئے اور ان کے ہاں داخل ہوئے ان کے نیچے گدا تھا جس پر تصویر تھی تو انھوں نے کہا اس گدے کو میرے نیچے سے کھینچ دو اور دور پھینک دو ۔ ان کو عثمان بن حنیف نے کہا کیا تم نے اے طلحہ نہیں سنا جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تصویر سے منع فرمایا اور فرمایا مگر وہ جو کپڑے پر چھپی ہو۔ یا ایسا کپڑا ہو جس میں تصویر چھپی ہوں انھوں نے کہا کیوں نہیں لیکن میرے لیے سکون کا باعث یہ ہے اس لیے اس کو مجھ سے دور کر دو ۔

6797

۶۷۹۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ أَبِی النَّضْرِ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ مَکَانَ عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ۔فَثَبَتَ بِمَا رَوَیْنَا خُرُوْجُ الصُّوَرِ الَّتِیْ فِی الثِّیَابِ ، مِنِ الصُّوَرِ الْمَنْہِیِّ عَنْہَا ، وَثَبَتَ أَنَّ الْمَنْہِیَّ عَنْہُ، الصُّوَرُ الَّتِیْ ھِیَ : نَظِیْرُ مَا یَفْعَلُہُ النَّصَارٰی فِیْ کَنَائِسِہِمْ ، مِنِ الصُّوَرِ فِیْ جُدْرَانِہَا ، وَمِنْ تَعْلِیقِ الثِّیَابِ الْمُصَوَّرَۃِ فِیْہَا .فَأَمَّا مَا کَانَ یُوْطَأُ وَیُمْتَہَنُ ، وَیُفْرَشُ ، فَہُوَ خَارِجٌ مِنْ ذٰلِکَ ، وَہٰذَا مَذْہَبُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالَی.
٦٧٩٤: مالک نے ابوالنضر سے بیان کیا اور انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی البتہ انھوں نے عثمان بن حنیف کی جگہ سہل بن حنیف کہا ہے۔ ان روایات سے ثابت ہوگیا کہ کپڑوں میں چھپی ہوئی تصاویر ممنوعہ تصاویر سے خارج ہیں۔ اور اس سے ثابت ہوا کہ اس میں ممنوعہ تصاویر سے مراد وہ تصاویر ہیں جن کو نصاری وغیرہ اپنے گرجہ گاہوں میں بناتے تھے یعنی دیوار پر بنی ہوئی تصاویر اور دیواروں پر تصاویر والے کپڑوں میں جو بنی ہوں اور ان کو لٹکایا جائے۔ البتہ جو روندی جائیں اور ان کی تذلیل کی جائے اور ان کو بچھایا جائے وہ اس سے خارج ہیں۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔

6798

۶۷۹۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو کَامِلٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنِ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ وَہُوَ مُتَّکِئٌ عَلَی وِسَادَۃٍ حَمْرَائَ ، فِیْہَا تَصَاوِیْرُ ، قَالَ : فَقُلْتُ : أَلَیْسَ ہٰذَا یُکْرَہٗ؟۔فَقَالَ : لَا ، اِنَّمَا یُکْرَہُ مَا یُعَلَّقُ مِنْہٗ، وَمَا نُصِبَ مِنْ التَّمَاثِیْلِ ، وَأَمَّا مَا وُطَائَ ، فَلَا بَأْسَ بِہٖ .قَالَ : ثُمَّ حَدَّثَنِیْ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اِنَّ أَصْحَابَ ہٰذِہٖ الصَُّوَرِ یُعَذَّبُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یَنْفُخُوْا فِیْہَا الرُّوْحَ ، یُقَالُ لَہُمْ أَحْیُوْا مَا خَلَقْتُمْ۔فَدَلَّ ہٰذَا مِنْ قَوْلِ سَالِمٍ ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .ثُمَّ اخْتَلَفَ النَّاسُ بَعْدَ ذٰلِکَ ، فِیْ ہٰذِہٖ الصَُّوَرِ مَا ہِیَ ؟ فَقَالَ قَوْمٌ : قَدْ دَخَلَ فِیْ ذٰلِکَ صُوْرَۃُ کُلِّ شَیْئٍ ، مِمَّا لَہٗ رُوْحٌ ، وَمِمَّا لَیْسَ لَہٗ رُوْحٌ ، قَالُوْا : ؛ لِأَنَّ الْأَثَرَ جَائَ فِیْ ذٰلِکَ مُبْہَمًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٦٧٩٥: لیث بیان کرتے ہیں کہ میں سالم بن عبداللہ کے ہاں گیا وہ ایک سرخ تکیہ کو سہارا بنائے ہوئے تھے جس میں تصاویر تھیں۔ راوی کہتے ہیں میں نے ان سے کہا کیا یہ مکروہ نہیں ہے ؟ انھوں نے کہا نہیں۔ مکروہ وہ ہیں جو لٹکائی جائیں اور جو تماثیل کی طرح گاڑی جائیں جو روندی جائیں ان میں کوئی حرج نہیں۔ راوی کہتے ہیں پھر اس نے مجھے اپنے والد سے یہ روایت بیان کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان تصاویر والے قیامت کے دن عذاب دیئے جائیں گے تاکہ وہ اس میں روح ڈالیں ان کو کہا جائے گا جو تم نے بنایا اس کو زندہ کرو۔ سالم کا یہ قول ہماری بات پر دلالت کرتا ہے پھر علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ان تصاویر کی حقیقت کیا ہے ؟ فریق اوّل کا کہنا یہ ہے کہ ہر اس چیز کی تصویر اس میں داخل ہے جس میں روح ہو۔ اور وہ بھی جس میں روح نہ ہو۔ کیونکہ اس سلسلہ میں جو اثر وارد ہوا ہے وہ مبہم ہے۔ مزید یہ روایات بھی دلیل ہیں۔

6799

۶۷۹۶ : بِمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ وَیَحْیٰی بْنُ عِیْسٰی ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی الضُّحٰی ، عَنْ مَسْرُوْقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، الْمُصَوِّرُوْنَ۔
٦٧٩٦: مسروق نے عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں میں سب سے زیادہ عذاب تصویر کشی والوں کو ہوگا۔
تخریج : بخاری فی اللباس ٨٩؍٩١‘ ٩٢؍٩٥‘ مسلم فی اللباس ٩٦؍٩٦‘ نسائی فی الزینہ باب ١١٣‘ مسند احمد ١؍٣٧٥‘ ٢؍٢٤۔

6800

۶۷۹۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : ثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِیْ جُحَیْفَۃَ ، أَخْبَرَنِیْ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمُصَوِّرَ۔وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : مَا لَمْ یَکُنْ لَہٗ مِنْ ذٰلِکَ رُوْحٌ ، فَلَا بَأْسَ بِتَصْوِیْرِہٖ، وَمَا کَانَ لَہٗ رُوْحٌ ، فَہُوَ الْمَنْہِیُّ عَنْ تَصْوِیْرِہٖ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ .
٦٧٩٧: عون بن ابی جحیفہ نے اپنے والد سے خبر دی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مصور پر لعنت کی ہے۔ جب تک تصویر میں روح نہ ہو اس میں حرج نہیں روح والی ممنوع ہے۔ دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٢٥‘ والطلاق باب ٥١‘ واللباس باب ٩٦‘ مسند احمد ٤؍٣٠٨۔

6801

۶۷۹۸ : حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُمْرَانَ ، قَالَ : ثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِیْ جَمِیْلَۃَ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ ، اِذْ أَتَاہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا ابْنَ عَبَّاسٍ ، اِنَّمَا مَعِیْشَتِیْ مِنْ صَنْعَۃِ یَدِیْ، وَأَنَا أَصْنَعُ ہٰذِہِ التَّصَاوِیْرَ .فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَا أُحَدِّثُکَ اِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : مَنْ صَوَّرَ صُوْرَۃً ، فَاِنَّ اللّٰہَ مُعَذِّبُہٗ عَلَیْہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، حَتّٰی یَنْفُخَ فِیْہَا الرُّوْحَ ، وَلَیْسَ بِنَافِخٍ أَبَدًا۔قَالَ : فَرَبَا الرَّجُلُ رَبْوَۃً شَدِیدَۃً ، وَاصْفَرَّ وَجْہُہٗ فَقَالَ وَیْحَکَ ، اِنْ أَبَیْتَ اِلَّا أَنْ تَصْنَعَ ، فَعَلَیْکَ بِالشَّجَرِ ، وَکُلِّ شَیْئٍ لَیْسَ فِیْہِ رُوْحٌ۔
٦٧٩٨: سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کے پاس تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اس نے کہا اے ابن عباس (رض) ! میرا گزر اوقات ہاتھ کی صنعت سے ہے اور میں یہ تصاویر بناتا ہوں ابن عباس (رض) نے فرمایا میں تمہیں وہی بات بیان کروں گا جو میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے آپ نے فرمایا جس نے ایک تصویر بھی بنائی اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کو عذاب دیتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ وہ اس میں روح ڈالے اور وہ کبھی بھی اس میں روح نہ ڈال سکے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس آدمی کا رنگ زرد ہوگیا آپ نے فرمایا تم پر افسوس ہے اگر تو نے ضرور تصویر بنانی ہے تو درخت کی بناؤ اور ہر اس چیز کی بناؤ جس میں روح نہیں۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ١٠٤‘ مسلم فی اللباس ١٠٠‘ ابو داؤد فی الادب باب ٨٨‘ ترمذی فی اللباس باب ١٩‘ نسائی فی الزینہ باب ١١٢‘ مسند احمد ١؍٢١٦‘ ٢؍١٤٥۔

6802

۶۷۹۹ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَوْنٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔وَقَدْ دَلَّ عَلٰی صِحَّۃِ مَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مِنْ ہٰذَا، قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنَّ اللّٰہَ مُعَذِّبُہُ عَلَیْہَا ، حَتّٰی یَنْفُخَ فِیْہَا الرُّوْحَ۔فَدَلَّ ذٰلِکَ ، عَلٰی أَنَّ مَا نُہِیَ مِنْ تَصْوِیْرِہٖ، ہُوَ مَا یَکُوْنُ فِیْہِ الرُّوْحُ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ، عَنْ غَیْرِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُصَوِّرُوْنَ یُعَذَّبُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَیُقَالُ لَہُمْ : أَحْیُوْا مَا خَلَقْتُمْ۔
٦٧٩٩: سفیان نے عون سے روایت کی ہے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ ابن عباس (رض) نے جو بات کہی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے اس پر دلالت مل گئی کہ ” ان اللہ معذبہ علیہا حتی ینفخ فیہا الروح “ اس کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک عذاب دیتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ اس میں روح ڈالے (نہ وہ ڈال سکے گا نہ وہ چھوٹے گا) اس سے یہ دلالت ملی کہ جو تصویر ممنوع ہے وہ ذی روح کی تصویر ہے اور اس سلسلے میں حضرت ابن عباس (رض) کے علاوہ صحابہ کرام سے بھی روایات وارد ہیں (ملاحظہ ہوں) کہ مصوروں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا جو تم نے بنایا اس کو زندہ کرو۔

6803

۶۸۰۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُصَوِّرُوْنَ یُعَذَّبُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، یُقَالُ لَہُمْ : أَحْیُوْا مَا خَلَقْتُمْ۔
٦٨٠٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مصوروں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا جو تم نے بنایا اس کو زندہ کرو۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤۔

6804

۶۸۰۱ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٨٠١: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6805

۶۸۰۲ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا مُوْسَیْ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَیُّوْبَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ، مِثْلَہٗ۔
٦٨٠٢: حماد بن سلمہ نے ایوب سے پھر انھوں نے اپنے اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6806

۶۸۰۳ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیٰی ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَوَّرَ صُوْرَۃً ، عُذِّبَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یَنْفُخَ فِیْہَا الرُّوْحَ ، وَلَیْسَ بِنَافِخٍ۔فَمَعْنٰی ْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، مَعْنٰی مَا رَوَیْنَاہٗ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَا یَدُلُّ عَلَی ھٰذَا الْمَعْنَی .
٦٨٠٣: عکرمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کوئی تصویر بنائی اس کو قیامت میں اس وقت تک عذاب ہوگا جب تک وہ اس میں روح نہ ڈالے اور وہ اس میں روح ڈال نہیں سکتا۔ ان آثار کا معنی وہی ہے جو ابن عباس (رض) کے اثر کا ہم نے روایت کیا ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں اور بھی ایسی روایات ہیں جو اس معنی پر دلالت کرتی ہیں۔
مزید روایات :

6807

۶۸۰۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوُحَاظِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَیْ بْنُ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ مُجَاہِدٌ الْکُوْفَۃَ ، أَتَیْتُہٗ أَنَا وَأَبِیْ، فَحَدَّثَنَا عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، اِنِّیْ جِئْتُکَ الْبَارِحَۃَ ، فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَدْخُلَ الْبَیْتَ ؛ لِأَنَّہٗ کَانَ فِی الْبَیْتِ تِمْثَالُ رَجُلٍ ، فَمُرْ بِالتِّمْثَالِ ، فَلْیُقْطَعْ رَأْسُہٗ، حَتّٰی یَکُوْنَ کَہَیْئَۃِ الشَّجَرَۃِ۔
٦٨٠٤: مجاہد نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل آئے اور انھوں نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں گزشتہ رات آپ کے ہاں آیا مگر میں اندر داخل نہ ہوسکا کیونکہ گھر میں ایک آدمی کی مورتی تھی اس مورتی کے متعلق کہہ دیں کہ اس کا سر کاٹ ڈالا جائے تاکہ وہ درخت کی طرح ہوجائے۔
تخریج : ابو داؤد فی اللباس باب ١‘ ترمذی فی الادب باب ٤٤‘ مسند احمد ٢؍٣٠٥۔

6808

۶۸۰۵ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : اسْتَأْذَنَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ ، عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اُدْخُلْ فَقَالَ : کَیْفَ أَدْخُلُ ، وَفِیْ بَیْتِکَ سِتْرٌ ، فِیْہِ تَمَاثِیْلُ خَیْلٍ وَرِجَالٍ ؟ فَاِمَّا أَنْ تَقْطَعَ رُئُوْسَہَا ، وَاِمَّا أَنْ تَجْعَلَہَا بِسَاطًا ، فَاِنَّا - مَعْشَرَ الْمَلَائِکَۃِ - لَا نَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ تَمَاثِیْلُ۔فَلَمَّا أُبِیْحَتْ التَّمَاثِیْلُ بَعْدَ قَطْعِ رُئُ وْسِہَا الَّذِیْ لَوْ قُطِعَ مِنْ ذِی الرُّوْحِ ، لَمْ یَبْقَ ، دَلَّ ذٰلِکَ عَلَی اِبَاحَۃِ تَصْوِیْرِ مَا لَا رُوْحَ لَہٗ، وَعَلٰی خُرُوْجِ مَا لَا رُوْحَ لِمِثْلِہٖ مِنَ الصُّوَرِ ، مِمَّا قَدْ نُہِیَ عَنْہُ فِی الْآثَارِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عِکْرَمَۃَ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ أَیْضًا۔
٦٨٠٥: مجاہد نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں گھر میں آنے کی اجازت مانگی۔ آپ نے فرمایا داخل ہوجاؤ۔ تو انھوں نے کہا میں کس طرح داخل ہوں جبکہ آپ کے گھر میں پردہ ہے جس میں مورتیاں بنی ہیں۔ گھوڑے اور مردوں کی مورتیاں ہیں یا تو ان کے سر کاٹ ڈالیں یا اس کو بچھونا بنالیں بیشک ہم ملائکہ کی جماعت ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں مورتیاں ہوں۔ جب تماثیل کے سر کاٹ ڈالنے کے بعد اس کپڑے کا استعمال درست ہے تو وہ سر جو ذی روح سے کاٹ ڈالا جائے تو وہ ذی روح نہ رہے۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ غیر ذی روح کی تصویر درست ہے اور بےروح اشیاء اس حکم سے خارج ہیں جس میں ممانعت وارد ہے۔ روایت عکرمہ بھی ملاحظہ کرلیں۔

6809

۶۸۰۶ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النُّعْمَانِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو ثَابِتٍ الْمَدَنِیُّ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : الصُّوْرَۃُ الرَّأْسُ ، فَکُلُّ شَیْئٍ لَیْسَ لَہٗ رَأْسٌ ، فَلَیْسَ بِصُوْرَۃٍ .وَفِی قَوْلِ جِبْرِیْلَ ، صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہٖ، لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اِمَّا أَنْ تَجْعَلَہَا بِسَاطًا ، وَاِمَّا أَنْ تَقْطَعَ رُئُوْسَہَا دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یُبَحْ مِنَ اسْتِعْمَالِ مَا فِیْہِ تِلْکَ الصُّوَرِ اِلَّا بِأَنْ یُبْسَطَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ طَلْحَۃَ أَنَّہٗ کَانَ فِیْ بَیْتِہٖ سِتْرٌ فِیْہِ تَصَاوِیْرُ ، وَلَمْ یَدْخُلْ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ، فِیْمَا سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃٌ ؛ لِأَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِلَّا مَا کَانَ رَقْمًا فِیْ ثَوْبٍ۔قِیْلَ لَہٗ : أَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ السِّتْرِ ، فَاِنَّمَا ہُوَ فِعْلُ أَبِیْ طَلْحَۃَ ، وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُوْقِفْہُ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ الثَّوْبَ الْمُسْتَثْنٰی ھُوَ السِّتْرُ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ السِّتْرُ أَیْضًا فِیْمَا اسْتَثْنٰی .فَلَمَّا احْتَمَلَ مَا ذَکَرْنَاہٗ، وَکَانَ فِیْ حَدِیْثِ مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا وَصَفْنَا ، عَلِمْنَا أَنَّ الثِّیَابَ الْمَبْسُوْطَۃَ ، کَہَیْئَۃِ الْبُسُطِ ، لَا مَا سِوَاہَا مِنَ الثِّیَابِ الْمُعَلَّقَۃِ وَالْمَلْبُوْسَۃِ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالَی۔
٦٨٠٦: عکرمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ تصویر اصل سر ہے جس کا سر نہ ہو وہ تصویر نہیں۔ یہ بات جبرائیل (علیہ السلام) کے قول میں موجود ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انھوں نے حدیث ابوہریرہ (رض) میں کہا ہے۔ ” اما ان تجعلہا بساطا واما ان تقطع رؤسہا “ اس سے یہ دلیل مل گئی کہ جس کپڑے میں ذی روح کی تصویر ہو اس کے استعمال کی ایک شکل ہے اور وہ بچھونا بنانا ہے۔ ابو طلحہ (رض) والی روایت میں ہے کہ ان کے گھر میں پردہ تھا جس میں تصاویر تھیں اور یہ ان کے ہاں اس میں داخل نہیں تھا جو انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سن رکھا تھا۔ ” لاتدخل الملائکہ بیتا فیہ صورۃ “ کیونکہ انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے : ” الا ما کان رقما فی ثوب “ کا ارشاد سنا تھا۔ آپ نے جس پردے کا ذکر کیا وہ حضرت ابو طلحہ کا عمل ہے اور یہ ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات پر ان کو مطلع نہ فرمایا ہو کہ پردہ بھی اس استثنائی حکم میں داخل ہے۔ جب یہ احتمال ہے اور مجاہد کی حضرت ابوہریرہ (رض) والی روایت جو بیان کی گئی تو اس سے معلوم ہوا بچھے ہوئے کپڑے بچھونے کا حکم رکھتے ہیں پہنے اور لٹکے ہوئے کپڑے اس طرح نہیں۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

6810

۶۸۰۷ : حَدَّثَنِیْ مُوْسَیْ بْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیٰی بْنِ سَعِیْدٍ الْقَطَّانِ ، قَالَ : ثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِی الْجُعْفِیُّ ، عَنْ زَائِدَۃَ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، قَالَ : لَا یَقُوْلُ أَحَدُکُمْ اِنِّیْ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ ثُمَّ یَعُوْدُ فَیَکُوْنُ کَذِبُہٗ، وَیَکُوْنُ ذَنْبًا ، وَلٰـکِنْ لِیَقُلْ اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ، وَتُبْ عَلَیَّ۔وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرِ بْنَ أَبِیْ عِمْرَانَ ، یَکْرَہٗ أَنْ یَقُوْلَ الرَّجُلُ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ وَلٰـکِنَّہٗ یَقُوْلُ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ، وَأَسْأَلُہُ التَّوْبَۃَ۔وَقَالَ : رَأَیْتُ أَصْحَابَنَا یَکْرَہُوْنَ ذٰلِکَ ، وَیَقُوْلُوْنَ : التَّوْبَۃُ مِنَ الذَّنْبِ ہِیَ تَرْکُہٗ، وَتَرْکُ الْعَوْدُ عَلَیْہٖ، وَذٰلِکَ غَیْرُ مَوْہُوْمٍ مِنْ أَحَدٍ فَاِذَا قَالَ أَتُوْبُ اِلَیْہِ فَقَدْ وَعَدَ اللّٰہَ أَنْ لَا یَعُوْدَ اِلٰی ذٰلِکَ الذَّنْبِ ، فَاِذَا عَادَ اِلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ ، کَانَ کَمَنْ وَعَدَ اللّٰہَ ثُمَّ أَخْلَفَہٗ. وَلٰـکِنْ أَحْسَنُ ذٰلِکَ أَنْ یَقُوْلَ أَسْأَلُ اللّٰہَ التَّوْبَۃَ أَیْ : أَسْأَلُ اللّٰہَ أَنْ یَنْزِعَنِیْ عَنْ ہٰذَا الذَّنْبِ ، وَلَا یُعِیْدَنِیْ اِلَیْہِ أَبَدًا .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ خُثَیْمٍ۔
٦٨٠٧: ربیع بن خثیم کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی یہ نہ کہے ” انی استغفر اللہ واتوب الیہ “ پھر وہ گناہ کی طرف لوٹے گا تو یہ اس کا جھوٹ ہوجائے گا اور گناہ بن جائے گا بلکہ اس طرح کہے : ” اللہم اغفرلی وتب علی “ مزید دلیل یہ ہے۔
ابو جعفر بن عمران (رح) کا مسلک یہ ہے کہ وہ استغفر اللہ واتوب الیہ کے کلمات کا کہنا درست قرار نہ دیتے تھے۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ ان کلمات میں کوئی حرج نہیں ہے۔
امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : میں نے ابو جعفر بن ابی عمران سے سنا کہ وہ استغفر اللہ واتوب الیہ کہنا مکروہ قرار دیتے تھے بلکہ اس طرح کہنے کا کہتا : استغفر اللہ واسالہ التوبہ۔ میں نے اپنے کئی علماء کو پایا کہ وہ اس کو ناپسند کرتے اور کہتے ہیں گناہ سے توبہ کا مطلب ترک گناہ ہے اور اس کی طرف دوبارہ نہ لوٹنا ہے اور اس کا کہنے والوں کو خیال بھی نہیں۔ جب اس نے کہا اتوب الیہ تو اس نے اللہ تعالیٰ سے گناہ کی طرف نہ لوٹنے کا وعدہ کرلیا جب اس کے بعد اس کی طرف لوٹا تو یہ اسی طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر کے مکر گیا لیکن بہتر یہ ہے کہ اس طرح کہے ” اسال اللہ التوبہ “ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس گناہ سے پیچھے کھینچ لے اور کبھی اس کی طرف نہ لوٹائے اور یہ بات ربیع بن خثیم سے مروی ہے۔ روایت یہ ہے۔

6811

۶۸۰۸ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِیُّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْوَاسِطِیُّ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ الْہَجَرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التَّوْبَۃُ مِنَ الذَّنْبِ ، أَنْ یَتُوْبَ الرَّجُلُ مِنَ الذَّنْبِ ، ثُمَّ لَا یَعُوْدُ اِلَیْہِ۔فَہٰذِہٖ صِفَۃُ التَّوْبَۃِ ، وَہٰذَا غَیْرُ مَأْمُوْنٍ عَلٰی أَحَدٍ ، غَیْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنَّہٗ مَعْصُوْمٌ ، وَلِذٰلِکَ کَانَ یَقُوْلُ ، فِیْمَا قَدْ رُوِیَ عَنْہُ ۔
٦٨٠٨: ابوالاحوص نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ گناہ سے توبہ یہ ہے کہ آدمی گناہ سے رجوع کرے پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے۔ یہ توبہ کی حالت ہے اور اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات معصوم کے علاوہ اور کسی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی وجہ سے آپ فرماتے تھے۔ جیسا کہ روایات میں ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٤٤٦۔
حاصل : یہ توبہ کی حالت ہے اور اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات معصوم کے علاوہ اور کسی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی وجہ سے آپ فرماتے تھے۔ جیسا کہ روایات میں ہے۔

6812

۶۸۰۹ : مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ ، وَحَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ ، قَالَا : ثَنَا بَقِیَّۃُ بْنُ الْوَلِیْدِ ، عَنِ الزُّبَیْدِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنِّیْ لَأَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ وَقَالَ أَنَسٌ اِنَّمَا قَالَ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔
٦٨٠٩: حارث بن ہشام نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ میں دن میں سو سو مرتبہ توبہ و رجوع کرتا ہوں اور حضرت انس (رض) کی روایت میں ستر مرتبہ کا ذکر ہے۔

6813

۶۸۱۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ أُوَیْسٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ عَتِیْقٍ ، وَمُوْسَیْ بْنِ عُقْبَۃَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : اِنِّیْ لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ ، أَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔
٦٨١٠: ابوبکر بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ میں دن میں اللہ تعالیٰ سے استغفار اور توبہ ستر مرتبہ سے زیادہ کرتا ہوں۔
تخریج : بخاری فی الدعوات باب ٣‘ مسلم فی الذکر ٤٢‘ ابو داؤد فی الدیات باب ٣‘ ابن ماجہ فی الدب باب ٥٧‘ مسند احمد ٤‘ ٢١١؍٢٦٠‘ ٥؍١١٤۔

6814

۶۸۱۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سَلَامَۃُ بْنُ رَوْحٍ ، قَالَ : ثَنَا عُقَیْلٌ ، قَالَ : ثَنَا الزُّہْرِیُّ أَنَّ أَبَا بَکْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ أَخْبَرَہٗ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٨١١: حارث بن ہشام نے خبر دی کہ ابوہریرہ (رض) فرماتے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اسی طرح روایت ذکر کی۔

6815

۶۸۱۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، عَنْ یُوْنُسَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٨١٢: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6816

۶۸۱۳ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُوْسَیْ بْنُ عُقْبَۃَ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ حَدَّثَہٗ ، عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ بْنِ أَبِیْ مُوْسَی ، عَنْ أَبِیْہَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنِّیْ لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ ، مِائَۃَ مَرَّۃٍ۔
٦٨١٣: ابو بردہ بن ابی موسیٰ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک میں اللہ تعالیٰ سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں دن میں سو مرتبہ۔

6817

۶۸۱۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : ثَنَا زِیَادُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ بُرْدَۃَ بْنُ أَبِیْ مُوْسٰی قَالَ : ثَنَا الْأَغَرُّ الْمُزَنِیّ قَالَ : خَرَجَ اِلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، رَافِعًا یَدَیْہِ وَہُوَ یَقُوْلُ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ، ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْہٖ، فَوَاللّٰہِ اِنِّیْ لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ، وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ ، مِائَۃَ مَرَّۃٍ : قَالُوْا : فَہٰذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُہٗ، لِأَنَّہٗ مَعْصُوْمٌ مِنَ الذُّنُوْبِ ، وَأَمَّا غَیْرُہُ فَلَا یَنْبَغِی أَنْ یَقُوْلَ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہٗ .غَیْرُ مَعْصُوْمٍ مِنَ الْعَوْدِ ، فِیْمَا تَابَ مِنْہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِہٖ بَأْسًا ، أَنْ یَقُوْلَ الرَّجُلُ أَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ ، مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٨١٤: ابو بردہ بن ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت اغر مزنی (رض) نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لائے اس طرح کہ آپ اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے فرما رہے تھے : ” یا ایہا الناس استغفروا ربکم “ اے لوگو ! اللہ تعالیٰ سے جو تمہارا رب ہے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو ‘ اللہ کی قسم میں دن میں سو مرتبہ اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرتا ہوں ۔ یہ کلمات رسول معصوم (رض) فرماتے ہیں۔ باقی رہے ان کے علاوہ لوگ ان کو یہ کہنا مناسب نہیں کیونکہ وہ اس گناہ کی طرف لوٹنے سے معصوم نہیں جس سے انھوں نے ابھی توبہ کی ہے۔ ان کلمات کے کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کہے ” اتوب الی اللہ عزوجل “ ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔

6818

۶۸۱۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مُوْسَیْ بْنُ عُقْبَۃَ ، عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ قَالَ مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا ، کَثُرَ فِیْہِ لَغَطُہٗ، ثُمَّ قَالَ قَبْلَ أَنْ یَقُوْمَ سُبْحَانَک رَبَّنَا ، لَا اِلٰہَ اِلَّا أَنْتَ ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ اِلَیْکَ غُفِرَ لَہٗ مَا کَانَ فِیْ مَجْلِسِہٖ ذٰلِکَ۔
٦٨١٥: سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کسی مجلس میں بیٹھے اور اس نے کئی غلط باتیں کہہ ڈالیں پھر اس نے مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ کہہ لیا : ” سبحٰنک ربنا “ اے ہمارے رب آپ سبحان ہیں آپ کے سوا کوئی معبود نہیں میں آپ سے استغفار و توبہ کرتا ہوں تو اس کی اس مجلس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤٩٤۔

6819

۶۸۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ کَفَّارَۃُ الْمَجْلِسِ ، سُبْحَانَک اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ اِلَیْکَ۔
٦٨١٦: ثابت نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجلس کا کفارہ ‘ سبحانک اللہم ۔۔۔ اے اللہ تو سبحان ہے اور میں تیری تعریف کرتا ہوں اور تجھ سے توبہ و استغفار کرتا ہوں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤١٩‘ بلفظ مختلف۔

6820

۶۸۱۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ : بَلَغَنِیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَا مِنْ اِنْسَانٍ یَکُوْنُ فِیْ مَجْلِسٍ فَیَقُوْلُ ، حِیْنَ یُرِیْدُ أَنْ یَقُوْمَ سُبْحَانَک اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، لَا اِلٰہَ اِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ اِلَیْکَ اِلَّا غُفِرَ لَہٗ مَا کَانَ فِیْ ذٰلِکَ الْمَجْلِسِ۔قَالَ فَحَدَّثَنَا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ یَزِیْدُ بْنُ خُصَیْفَۃَ فَقَالَ : ہٰکَذَا حَدَّثَنِی السَّائِبُ بْنُ یَزِیْدَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٨١٧: اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جو آدمی کسی مجلس میں ہو۔ اور وہ یہ کہہ دے جبکہ وہ اٹھنا چاہتا ہو۔ اے اللہ تو سبحان ہے۔ اے اللہ اور میں تیری تعریف کرتا ہوں تیرے سواء کوئی معبود نہیں میں آپ سے توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ اس کے اس مجلس والے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں اس روایت کو یزید بن خصٰفہ نے ہمیں بیان کیا اور کہا کہ اسی طرح مجھے سائب بن یزید نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔

6821

۶۸۱۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ ، عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ زُرَارَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْمُ مِنَ الْمَجْلِسِ اِلَّا قَالَ : سُبْحَانَک اللّٰہُمَّ رَبِّیْ وَبِحَمْدِکَ، لَا اِلٰہَ اِلَّا أَنْتَ ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ اِلَیْکَ .فَقُلْتُ لَہٗ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، مَا أَکْثَرُ مَا تَقُوْلُ ہٰؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ ، اِذَا قُمْتَ؟ فَقَالَ : اِنَّہٗ لَا یَقُوْلُہُنَّ أَحَدٌ حِیْنَ یَقُوْمُ مِنْ مَجْلِسِہٖ اِلَّا غُفِرَ لَہٗ، مَا کَانَ فِیْ ذٰلِکَ الْمَجْلِسِ۔ فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ رُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا مَا ذَکَرْنَا ، وَہُوَ أَوْلَی الْقَوْلَیْنِ عِنْدَنَا ، لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ، قَدْ أَمَرَ بِذٰلِکَ فِیْ کِتَابِہٖ فَقَالَ : فَتُوْبُوْا اِلٰی بَارِئِکُمْ وَقَالَ : تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَصُوْحًا۔وَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ ، فِی الْآثَارِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا ، فَلِہٰذَا أَبَحْنَا ذٰلِکَ ، وَخَالَفْنَا أَبَا جَعْفَرٍ ، فِیْمَا ذَہَبَ اِلَیْہِ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ، اِنَّمَا أَمَرَہُمْ فِیْ کِتَابِہٖ أَنْ یَتُوْبُوْا ، وَالتَّوْبَۃُ ہِیَ تَرْکُ الذُّنُوْبِ ، وَتَرْکُ الْعَوْدِ اِلَیْہَا ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَوْلِہِمْ قَدْ تُبْنَا اِنَّمَا ذٰلِکَ، الْخُرُوْجُ عَنِ الذُّنُوْبِ ، وَتَرْکُ الْعَوْدِ اِلَیْہَا قَالَ : وَکَذٰلِکَ رُوِیَ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَصُوْحًا۔
٦٨١٨: زرارہ نے حضرت عائشہ (رض) سے وہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کسی مجلس سے اٹھنے لگتے تو یہ پڑھتے۔ ” سبحانک اللّٰہم۔۔۔“ میں نے گزارش کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب آپ مجلس سے اٹھتے ہیں تو یہی کلمات کہتے ہیں آپ نے فرمایا ان کلمات کو جب کوئی آدمی اپنی مجلس سے اٹھتے ہوئے کہہ لیتا ہے تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں جو کہ اس سے اس مجلس میں سرزد ہوئے۔ یہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہی مروی ہے جو ہم نے ذکر کیا اور ہمارے نزدیک یہ بہتر قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا حکم فرمایا ہے۔ ” فتوبوا الی بارئکم “ (البقرہ : ٥٤) اور فرمایا : ” توبوا الی اللہ توبۃ نصوحا “ (التحریم : ٨) اللہ تعالیٰ سے خالص توبہ کرو۔ مندرجہ بالا آثار میں بھی اسی بات کا حکم فرمایا اسی وجہ سے ہم نے اس کلمہ کو مباح قرار دیا اور ابو جعفر کے قول کی مخالفت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں توبہ کا حکم فرمایا ہے کہ وہ توبہ کریں اور توبہ تو گناہ کے چھوڑنے کو کہا جاتا ہے اور اس کی طرف دوبارہ نہ لوٹنا اور تبنا کا لفظ توبہ نہیں بلکہ یہ تو گناہ سے خروج ہے۔ اور اس کی طرف نہ لوٹنا ہے اور اسی طرح قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ ” توبوا الی اللہ توبۃ نصوحا “ (التحریم : ٨)

6822

۶۸۱۹ : فَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُوْسَیْ بْنُ زِیَادٍ الْمَخْزُوْمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، قَالَ : ثَنَا سِمَاکٌ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُوْلُ التَّوْبَۃُ النَّصُوْحُ ، أَنْ یَجْتَنِبَ الرَّجُلُ أَیَّ شَیْئٍ کَانَ یَعْمَلُہٗ، فَیَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْہٗ، ثُمَّ لَا یَعُوْدُ اِلَیْہِ أَبَدًا۔
٦٨١٩: نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو فرماتے سنا خالص توبہ یہ ہے کہ آدمی اس چیز سے گریز کرے جو وہ کرتا تھا اور اس سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے پھر اس کی طرف دوبارہ نہ لوٹے۔

6823

۶۸۲۰ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ عُمَرَ ، مِثْلَہٗ۔: فَہٰذِہٖ صِفَۃُ التَّوْبَۃِ الَّتِی أَمَرَہُمْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا فِیْ کِتَابِہٖ .فَأَمَّا قَوْلُہُمْ نَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ لَیْسَ مِنْ ہٰذَا فِیْ شَیْئٍ .قِیْلَ لَہُمْ : اِنَّ ذٰلِکَ وَاِنْ کَانَ کَمَا ذَکَرْتُمْ ، فَاِنَّا لَمْ نُبِحْ لَہُمْ أَنْ یَقُوْلُوْا نَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی أَنَّہُمْ مُعْتَقِدُوْنَ لِلرُّجُوْعِ اِلٰی مَا تَابُوْا مِنْہُ .وَلٰـکِنَّا أَبَحْنَا لَہُمْ ذٰلِکَ ، عَلٰی أَنَّہُمْ یُرِیْدُوْنَ بِہٖ تَرْکَ مَا وَقَعُوْا فِیْہِ مِنَ الذَّنْبِ ، وَلَا یُرِیْدُوْنَ الْعَوْدَۃَ فِیْ شَیْئٍ مِنْہُ .فَاِذَا قَالُوْا ذٰلِکَ ، وَاعْتَقَدُوْا ہٰذَا بِقُلُوْبِہِمْ ، کَانُوْا فِیْ ذٰلِکَ مَأْجُوْرِیْنَ مُثَابِیْنَ .فَمَنْ عَادَ مِنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ تِلْکَ الذُّنُوْبِ ، کَانَ ذٰلِکَ ذَنْبًا أَصَابَہٗ، وَلَمْ یُحْبِطْ ذٰلِکَ أَجْرَہُ الْمَکْتُوْبَ لَہٗ، بِقَوْلِہٖ الَّذِیْ تَقَدَّمَ مِنْہٗ، وَاعْتِقَادِہِ مَعَہٗ، مَا اعْتَقَدَ .فَأَمَّا مَنْ قَالَ أَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ مُعْتَقِدٌ أَنَّہٗ یَعُوْدُ اِلٰی مَا تَابَ مِنْہٗ، فَہُوَ بِذٰلِکَ الْقَوْلِ ، فَاسِقٌ مُعَاقَبٌ عَلَیْہٖ، لِأَنَّہٗ کَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ فِیْمَا قَالَ : وَأَمَّا اِذَا قَالَ ، وَہُوَ مُعْتَقِدٌ لِتَرْکِ الذَّنْبِ ، الَّذِیْ کَانَ وَقَعَ فِیْہٖ، وَعَازِمٌ أَنْ لَا یَعُوْدَ اِلَیْہِ أَبَدًا ، فَہُوَ صَادِقٌ فِیْ قَوْلِہٖ ، مُثَابٌ عَلٰی صِدْقِہٖ، اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ النَّدَمُ تَوْبَۃٌ۔
٦٨٢٠: نعمان بن بشیر نے حضرت عمر (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ یہ توبہ کی وہ کیفیت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حکم فرمایا ہے باقی ان کا قول ” نتوب الی اللہ “ یہ اس میں دلیل کا کام نہیں دے سکتا۔ اگرچہ جیسا تم نے ذکر کیا اسی طرح ہے ہم نے ان کے لیے یہ کہنا جائز نہیں قرار دیا ” نتوبوا الی اللہ عزوجل “ جبکہ وہ ان گناہوں کی طرف لوٹنے کا ارادہ رکھتے ہوں جن سے انھوں نے توبہ کی ہے لیکن ہم نے ان کے لیے یہ اس طور پر جائز رکھا ہے کہ جب ان کا ارادہ یہ ہو کہ جس گناہ میں وہ مبتلا ہوئے ہیں اس کے چھوڑنے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں اور اس کی طرف لوٹنے کا بالکل ارادہ نہیں رکھتے جب وہ کلمات کہیں گے اور دلوں میں یہ اعتماد رکھیں گے تو وہ اس سلسلے میں ماجور اور ثواب پانے والے ہوں گے پھر ان میں سے جو آدمی ان گناہوں کی طرف لوٹ گیا تو وہ اس کا گناہ ہے جو اس نے کیا اس سے اس کا سابقہ لکھا ہوا اجر مٹایا نہ جائے گا وہ اجر جو کہ اس کے سابقہ قول و اعتقاد سے لکھا گیا۔ رہا وہ شخص جس میں اتوب الی اللہ کا کلمہ اس اعتقاد سے کہا کہ وہ دوبارہ گناہ کی طرف لوٹ جائے گا تو وہ اس کہنے میں گناہ گار ہے قابل سزا ہے کیونکہ وہ اللہ کے ذمے اسی طرح ہے جیسے اس نے کہا اور جس آدمی نے گناہ چھوڑنے کا اعتقاد رکھتے ہوئے یہ کہا اور اس کا پختہ ارادہ یہ ہے کہ وہ کبھی اس کی طرف نہیں لوٹے گا تو وہ اتوب الیہ کہنے میں سچا ہے اور ان شاء اللہ اس کی سچائی پر اس کو ثواب ملے گا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ندامت کو توبہ قرار دیا ہے (جیسا ان روایات میں ہے)

6824

۶۸۲۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ الْجَزَرِیِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ زِیَادُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَعْقِلٍ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ أَبِیْ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ فَقَالَ لَہٗ أَبِی : أَنْتَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ النَّدَمُ تَوْبَۃٌ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ .
٦٨٢١: عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود کے پاس آیا میرے والد نے ان سے کہا کیا تم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ ندامت توبہ ہے انھوں نے کہا جی ہاں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الزہد باب ٣٥‘ مسند احمد ١؍٣٧٦۔

6825

۶۸۲۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، عَنْ مَالِکٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ ، عَنْ شُرَحْبِیْلَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٨٢٢: شرحبیل نے اپنے والد سے انھوں نے ابن مسعود (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

6826

۶۸۲۳ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ الْجَزَرِیِّ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ وَابْنِ الْجَرَّاحِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٨٢٣: ابن جراح نے عبداللہ بن مغفل (رض) سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6827

۶۸۲۴ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَمِیْلٍ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیْمِ، عَنْ زِیَادٍ ، وَلَیْسَ بِابْنِ أَبِیْ مَرْیَمَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٨٢٤: عبدالکریم نے زیاد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی۔

6828

۶۸۲۵ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْکَرِیْمِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُغَفَّلٍ نَحْوَہٗ۔فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ جَعَلَ النَّدَمَ تَوْبَۃً .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَنْ قَالَ أَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مِنْ ذَنْبِ کَذَا وَکَذَا وَہُوَ نَادِمٌ عَلٰی مَا أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ الذَّنْبِ ، أَنَّہٗ مُحْسِنٌ ، مَأْجُوْرٌ عَلٰی قَوْلِہٖ ذٰلِکَ۔
٦٨٢٥: عبدالکریم نے عبداللہ بن مغفل سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جنہوں نے شرمندگی کو توبہ قرار دیا اس سے یہ دلالت مل گئی کہ جس شخص نے ” اتوب الی اللہ من ذنب کذا “ کہ میں فلاں گناہ سے توبہ کرتا ہوں اور اس کو اس گناہ پر شرمندگی بھی ہے تو یہ آدمی نیکی کرنے والا ہے اور اس کو اس قول پر اجر ملے گا۔

6829

۶۸۲۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِیْکٍ أَنَّ عَتِیْکَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَتِیْکٍ ، وَہُوَ جَدُّ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَبُو أُمِّہٖ، أَخْبَرَہٗ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَتِیْکٍ أَخْبَرَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائَ یَعُوْدُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ ثَابِتٍ، فَوَجَدَہُ قَدْ غُلِبَ ، فَصَاحَ بِہٖ فَلَمْ یُجِبْہُ .فَاسْتَرْجَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ غَلَبَنَا عَلَیْکَ یَا أَبَا الرَّبِیْعِ فَصَاحَ النِّسْوَۃُ وَبَکَیْنَ ، فَجَعَلَ ابْنُ عَتِیْکٍ یُسْکِتُہُنَّ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعْہُنَّ فَاِذَا وَجَبَ ، فَلَا تَبْکِیَنَّ بَاکِیَۃٌ .قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَمَا الْوُجُوْبُ قَالَ اِذَا مَاتَ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ الْبُکَائِ عَلَی الْمَیِّتِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَبِمَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الْمَیِّتَ ، لَیُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ۔
٦٨٢٦: عبداللہ بن عبداللہ نے جابر بن عتیق سے روایت کی وہ بتاتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ بن ثابت کی تیمارداری کے لیے آئے ان پر بیماری کا غلبہ دیکھا آپ نے ان کو آواز دی مگر انھوں نے جواب نہ دیا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اناللہ پڑھی اور فرمایا اے ابوالربیع ہم تیرے معاملے میں مغلوب کردیئے گئے عورتوں نے چیخنا اور رونا شروع کردیا ابن عتیق ان کو خاموش کرنے لگے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کو چھوڑ دو جب واجب ہوجائے تو کوئی رونے والی نہ روئے انھوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واجب ہونا کیا ہے فرمایا موت کا آنا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں کہ میت پر رونا مکروہ ہے بعض لوگوں کا یہ خیال ہے اور انھوں نے اسی روایت کو دلیل بنایا اور دوسری وہ روایت کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الجنائز باب ١١‘ نسائی فی الجنائز باب ١٤۔
خلاصہ الزام :
اہل میت کا اس پر بلابین رونا بھی مکروہ ہے اس لیے کہ میت پر رونے سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔
فریق ثانی : میت پر رونے میں کچھ حرج نہیں بشرطیکہ زبان سے فحش کلمات جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مشتمل ہوں اور نوحہ وغیرہ نہ کیا جائے۔

6830

۶۸۲۷ : حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَزْرَقِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُالْجَبَّارِ ابْنُ الْوَرْدِ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ یَقُوْلُ : لَمَّا مَاتَتْ أُمُّ أَبَانَ ، بِنْتُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، حَضَرْتُ مَعَ النَّاسِ ، فَجَلَسْتُ بَیْنَ یَدَیْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ، فَبَکَی النِّسَائُ .فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : أَلَا تَنْہَیْ ہٰؤُلَائِ عَنِ الْبُکَائِ ؟ اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : اِنَّ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُکَائِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ۔فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : قَدْ کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ ذٰلِکَ ، فَخَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِالْبَیْدَائِ ، اِذَا رَکْبٌ .فَقَالَ : یَا ابْنَ عَبَّاسٍ ، مَنَ الرَّکْبُ ؟ فَذَہَبْت ، فَاِذَا ہُوَ صُہَیْبٌ وَأَہْلُہُ .فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ :یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، ہٰذَا صُہَیْبٌ وَأَہْلُہُ .فَلَمَّا دَخَلْنَا الْمَدِیْنَۃَ ، وَأُصِیْبَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، جَلَسَ صُہَیْبٌ یَبْکِیْ عَلَیْہِ وَہُوَ یَقُوْلُ : وَا حُبَّاہٗ، وَا صَاحِبَاہُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : لَا تَبْکِ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّ الْمَیِّتَ ، لَیُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُکَائِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ۔قَالَ : فَذَکَرَ ذٰلِکَ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَتْ أَمَّ وَاللّٰہِ، مَا تُحَدِّثُوْنَ ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَنِ الْکَاذِبِیْنَ ، وَلٰـکِنَّ السَّمْعَ یُخْطِئُ ، وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْقُرْآنِ لِمَا یَشْفِیْکُمْ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی وَلٰـکِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لِیَزِیْدَ الْکَافِرَ عَذَابًا ، بِبَعْضِ بُکَائِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ۔
٦٨٢٧: ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ جب ام عمان بنت عثمان فوت ہوگئیں تو میں بھی لوگوں کے ساتھ جنازے میں گیا میں ابن عمر (رض) اور ابن عباس (رض) کے اگلی جانب بیٹھا عورتیں رونے لگیں تو ابن عمر (رض) نے فرمایا تم ان کو رونے سے کیوں نہیں منع کرتے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ میت کو اس کے بعض گھر والوں کے رونے سے عذاب ملتا ہے ابن عباس (رض) کہنے لگے یہ بات عمر (رض) بھی کہا کرتے تھے میں ایک دن عمر (رض) کے ساتھ نکلا ہم جب مقام بیدا میں پہنچے تو اچانک ایک قافلہ سامنے آیا آپ نے فرمایا اے ابن عباس (رض) یہ کن کا قافلہ ہے میں ان کی طرف گیا تو وہ صہیب اور ان کے گھر والے تھے میں واپس لوٹا اور میں نے بتلایا امیرالمومنین (رض) ! یہ صہیب اور ان کے گھر والے ہیں جب ہم مدینہ میں داخل ہوئے اور حضرت عمر (رض) زخمی ہوگئے تو حضرت صہیب ان کے پاس بیٹھ کر رونے لگے اور کہہ رہے تھے اے میرے پیارے ‘ اے میرے ساتھی حضرت عمر (رض) نے کہا مت رو بیشک میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا بیشک میت اس کے بعض گھر والوں کے رونے پر عذاب دی جاتی ہے راوی کہتے ہیں اس بات کا تذکرہ حضرت عائشہ (رض) کے سامنے کیا گیا تو انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم تم اس روایت کو جھوٹے لوگوں کی طرف سے بیان نہیں کرتے لیکن سننے میں غلطی ہوجاتی ہے بیشک تمہارے لیے قرآن مجید میں ایسی بات ہے جو اس سے شفاء بخشنے والی ہے : الا تزر وازرۃ وزر اخری ۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب میں اضافہ فرما دیں گے اس کے بعض گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٣٢‘ مسلم فی الجنائز باب ٢٢‘ نسائی فی الجنائز باب ١٥۔

6831

۶۸۲۸ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ ، لَمْ یَذْکُرْ قَضِیَّۃَ صُہَیْبٍ .قَالُوْا : فَلَمَّا کَانَ الْمَیِّتُ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَہْلِہٖ عَلَیْہٖ، کَانَ بُکَاؤُہُمْ عَلَیْہِ مَکْرُوْہًا لَہُمْ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِالْبُکَائِ عَلَی الْمَیِّتِ اِذَا کَانَ بُکَائً لَا مَعْصِیَۃَ مَعَہٗ، مِنْ قَوْلٍ فَاحِشٍ ، وَلَا نِیَاحَۃٍ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٦٨٢٨: عمرو ابن دینار نے ابن ابی ملیکہ سے اسی طرح روایت ذکر کی البتہ صہیب (رض) کا واقعہ ذکر نہیں کیا اس فریق کا کہنا یہ ہے کہ جب میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے تو ان کا رونا اس پر مکروہ ہے۔ کچھ اور لوگوں نے یہ بات کہی کہ میت پر رونے میں کچھ حرج نہیں جبکہ رونے میں کوئی معصیت اور نافرمانی نہ ہو جیسے فحش کلمات اور نوحہ اور انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا۔

6832

۶۸۲۹ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : اشْتَکٰی سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ شَکْوٰی لَہٗ، فَأَتَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُوْدُہٗ، مَعَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ .فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْہٖ، وَجَدَہُ فِیْ غَشْیَتِہِ فَقَالَ : قَدْ قَضٰی ، فَقَالُوْا : لَا ، وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَبَکٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَلَمَّا رَأَی الْقَوْمُ بُکَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بَکَوْا فَقَالَ : أَلَا تَسْمَعُوْنَ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَا یُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَیْنِ ، وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ ، وَلٰـکِنْ یُعَذِّبُ بِہٰذَا وَأَشَارَ اِلٰی لِسَانِہٖ أَوْ یُرْحَمُ۔
٦٨٢٩: سعید بن حارث انصاری نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) بیمار ہوگئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی عیادت کے لیے عبدالرحمن بن عوف ‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ آئے۔ جب آپ داخل ہوئے تو ان کو غشی میں پایا۔ آپ نے فرمایا۔ کیا وہ فوت ہوگئے انھوں نے کہا نہیں۔ اللہ کی قسم یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے آنسو بہنے لگے۔ جب صحابہ کرام نے آپ کا رونا دیکھا تو وہ بھی رونے لگے اور فرمایا سنو ! بیشک اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو بہانے سے عذاب نہیں دیتا اور نہ دل کے غم سے۔ لیکن اس کے سبب عذاب دیتے ہیں یا رحم فرماتے ہیں اور آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا ۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٤٤‘ والتوحید باب ٢٥‘ مسلم فی الجنائز ١٢‘ ابو داؤد فی الجنائز باب ١٧‘ ابن ماجہ باب ٤٩‘ مسند احمد ٢؍٤٤١۔

6833

۶۸۳۰ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ : سَمِعْتُ سُفْیَانَ یَقُوْلُ : حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَبْصَرَ امْرَأَۃً تَبْکِیْ عَلٰی مَیِّتٍ ، فَنَہَاہَا .فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعْہَا ، یَا أَبَا حَفْصٍ ، فَاِنَّ النَّفْسَ مُصَابَۃٌ وَالْعَیْنَ بَاکِیَۃٌ ، وَالْعَہْدَ قَرِیْبٌ۔
٦٨٣٠: وہب بن کیسان سے حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ جناب عمر (رض) نے ایک عورت کو میت پر روتے دیکھا تو اس کو منع کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو چھوڑ دو ۔ اے ابو حفص۔ دل کو دکھ پہنچتا ہے اور آنکھ روتی ہے اور وقت قریب ہے۔ (صدمہ تازہ ہے)

6834

۶۸۳۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ حَدَّثَنِیْ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنِسَائِ بَنِیْ عَبْدِ الْأَشْہَلِ یَبْکِیْنَ ہَلْکَاہُنَّ یَوْمَ أُحُدٍ .فَقَالَ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلٰـکِنَّ حَمْزَۃَ لَا بَوَاکِیَ لَہٗ فَجَائَ نِسَائُ الْأَنْصَارِ یَبْکِیْنَ حَمْزَۃَ .فَاسْتَیْقَظَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ وَیْحَہُنَّ ، مَا انْقَلَبْنَ بَعْدَ مُرُوْرِہِنَّ ، فَلْیَنْقَلِبْنَ وَلَا یَبْکِیْنَ عَلٰی ھَالِکٍ بَعْدَ الْیَوْمِ۔
٦٨٣١: نافع نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر بنو عبدالاشہل کی عورتوں کے پاس سے ہوا جو کہ یوم احد میں فوت ہونے والوں پر رو رہی تھیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حمزہ (رض) کو تو کوئی رونے والی نہیں تو انصار کی عورتیں آئیں اور حضرت حمزہ (رض) پر رونے لگیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان پر افسوس ہے یہ جانے کے بعد واپس نہیں لوٹیں اب ان کو لوٹ جانا چاہیے اور آج کے بعد کسی مرنے والے پر نہ روئیں۔
تخریج : ابن ماجہ فی الجنائز باب ٥٣‘ نسائی فی الجنائز باب ١٦‘ مسند احمد ٦؍٤٠۔

6835

۶۸۳۲ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُوْنٍ بَعْدَ مَوْتِہٖ، وَدُمُوْعُہٗ تَسِیْلُ عَلَی لِحْیَتِہِ۔فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا ، اِبَاحَۃُ الْبُکَائِ عَلَی الْمَوْتَی ، وَذٰلِکَ أَنَّ ذٰلِکَ غَیْرُ ضَار لَہُمْ ، وَلَا سَبَبَ لِعَذَابِہِمْ .وَلَوْلَا ذٰلِکَ ، لَمَا بَکَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا أَبَاحَ الْبُکَائَ ، وَلَمَنَعَ مِنْ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَاِنَّ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ الَّذِیْ ذٰکَرْت ، مَا یَدُلُّ عَلٰی نَسْخِ مَا کَانَ أَبَاحَ مِنْ ذٰلِکَ ، وَہُوَ قَوْلُہٗ وَلَا یَبْکِیْنَ عَلَی ھَالِکٍ بَعْدَ الْیَوْمِ۔قِیْلَ لَہٗ : مَا فِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْت ، قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ قَوْلُہٗ : وَلَا یَبْکِیْنَ عَلَی ھَالِکٍ بَعْدَ الْیَوْمِ أَیْ مِنْ ہَلْکَاہُنَّ الَّذِیْنَ قَدْ بَکَیْنَ عَلَیْہِمْ مُنْذُ ہَلَکُوْا اِلٰی ھٰذَا الْوَقْتِ ، لِأَنَّ فِیْ ذٰلِکَ الْبُکَائِ مَا قَدْ أَتَیْنَ بِہٖ عَلٰی مَا جَلَا عَنْہُنَّ حُزْنَہُنَّ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ تَفْسِیْرِ الْبُکَائِ ، الَّذِیْ قَصَدَ اِلَی النَّہْیِ فِیْ نَہْیِہٖ عَنِ الْبُکَائِ عَلَی الْمَوْتٰی .
٦٨٣٢: قاسم نے عائشہ (رض) سے روایت کی کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ وہ عثمان بن مظعون کو ان کی وفات کے بعد چوم رہے ہیں اس حال میں آپ کے آنسو داڑھی پر بہہ رہے ہیں۔ ان مذکورہ آثار میں مرنے والوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور نہ یہ ان کے عذاب کا سبب ہیں اگر یہ نہ ہوتا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ روتے اور نہ رونے کو جائز قرار دیتے بلکہ اس سے ضرور روک دیتے۔ اعتراض : ابن عمر (رض) کی مذکورہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو مباح تھا وہ منسوخ ہوگیا اور وہ آپ کا یہ ارشاد ہے ” ولا یبکین علی حالک بعدالیوم “ الحدیث۔ آپ نے جو بات کہی اس کا اس میں کچھ بھی تذکرہ نہیں اور ممکن ہے کہ آپ کا یہ ارشاد ” ولا یبکین الی آخرہ کا مطلب یہ ہو کہ جو لوگ اب تک ہلاک ہوگئے ہیں جن پر تم رو چکی ہو ان بن پر مت رو کیونکہ اس رونے سے ان کا غم دور ہوجاتا ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود مرنے والوں پر رونے کی ممانعت کی وضاحت منقول ہے (جیسا اس روایت میں ہے)
حاصل : ان مذکورہ آثار میں مرنے والوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور نہ یہ ان کے عذاب کا سبب ہیں اگر یہ نہ ہوتا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ روتے اور نہ رونے کو جائز قرار دیتے بلکہ اس سے ضرور روک دیتے۔
اعتراض : ابن عمر (رض) کی مذکورہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو مباح تھا وہ منسوخ ہوگیا اور وہ آپ کا یہ ارشاد ہے ” ولا یبکین علی حالک بعدالیوم “ الحدیث۔
الجواب : آپ نے جو بات کہی اس کا اس میں کچھ بھی تذکرہ نہیں اور ممکن ہے کہ آپ کا یہ ارشاد ” ولا یبکین الی آخرہ کا مطلب یہ ہو کہ جو لوگ اب تک ہلاک ہوگئے ہیں جن پر تم رو چکی ہو ان بن پر مت رو کیونکہ اس رونے سے ان کا غم دور ہوجاتا ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود مرنے والوں پر رونے کی ممانعت کی وضاحت منقول ہے (جیسا اس روایت میں ہے)

6836

۶۸۳۳ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ : أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدَیَّ ، فَانْطَلَقْتُ مَعَہٗ اِلَی ابْنِہٖ اِبْرَاھِیْمَ وَہُوَ یَجُوْدُ بِنَفْسِہِ. فَأَخَذَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَوَضَعَہُ فِیْ حِجْرِہٖ ، حَتّٰی خَرَجَتْ نَفْسُہٗ، فَوَضَعَہٗ ، ثُمَّ بَکٰی .فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَتَبْکِیْ وَأَنْتَ تَنْہٰی عَنِ الْبُکَائِ ؟ .فَقَالَ : اِنِّیْ لَمْ أَنْہَ عَنِ الْبُکَائِ ، وَلٰـکِنْ نَہَیْتُ عَنْ صَوْتَیْنِ أَحْمَقَیْنِ فَاجِرَیْنِ ، صَوْتٍ عِنْدَ نَغْمَۃِ لَہْوٍ وَلَعِبٍ وَمَزَامِیْرِ شَیْطَانٍ ، وَصَوْتٍ عِنْدَ مُصِیْبَۃٍ ، لَطْمِ وُجُوْہٍ ، وَشَقِّ جُیُوْبٍ ، وَہٰذَا رَحْمَۃٌ ، مَنْ لَا یَرْحَمُ ، لَا یُرْحَمُ ، یَا اِبْرَاھِیْمُ ، وَلَوْلَا اِنَّہٗ وَعْدٌ صَادِقٌ ، وَقَوْلٌ حَقٌّ وَاِنَّ آخِرَنَا سَیَلْحَقُ أَوَّلَنَا ، لَحَزِنَّا عَلَیْکَ حُزْنًا ہُوَ أَشَدُّ مِنْ ہٰذَا ، وَاِنَّا بِک لَمَحْزُوْنُوْنَ ، تَبْکِی الْعَیْنُ ، وَیَحْزَنُ الْقَلْبُ ، وَلَا نَقُوْلُ مَا یُسْخِطُ الرَّبَّ۔فَأَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، بِالْبُکَائِ الَّذِیْ نَہٰی عَنْہُ فِی الْأَحَادِیْثِ الْأُوَلِ ، وَأَنَّہٗ الْبُکَائُ الَّذِیْ مَعَہُ الصَّوْتُ الشَّدِیدُ ، وَلَطْمُ الْوُجُوْہٖ، وَشَقُّ الْجُیُوْبِ .وَبَیَّنَ أَنَّ مَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ الْبُکَائِ ، فَمَا فُعِلَ مِنْ جِہَۃِ الرَّحْمَۃِ ، أَنَّہٗ بِخِلَافِ ذٰلِکَ الْبُکَائِ الَّذِیْ نُہِیَ عَنْہُ .وَأَمَّا مَا ذَکَرْنَاہُ عَنْ عَمْرٍو ، ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الْمَیِّتَ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ فَقَدْ ذَکَرْنَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اِنْکَارَ ذٰلِکَ فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لِیَزِیْدَ الْکَافِرَ عَذَابًا فِیْ قَبْرِہٖ ، بِبَعْضِ بُکَائِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ۔وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْبُکَائُ الَّذِیْ یُعَذَّبُ بِہٖ الْکَافِرُ فِیْ قَبْرِہٖ، یَزْدَادُ بِہٖ عَذَابًا عَلَی عَذَابِہٖ ، بُکَائً قَدْ کَانَ أَوْصٰی لَہٗ فِیْ حَیَاتِہٖ. فَاِنَّ أَہْلَ الْجَاہِلِیَّۃِ ، قَدْ کَانُوْا یُوْصُوْنَ بِذٰلِکَ ، أَہْلِیْہِمْ أَنْ یَفْعَلُوْھُ بَعْدَ وَفَاتِہِمْ .فَیَکُوْنُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یُعَذِّبُہٗ فِیْ قَبْرِہٖ بِسَبَبٍ ، قَدْ کَانَ سَبَبُہٗ فِیْ حَیَاتِہٖ ، فُعِلَ بَعْدَ مَوْتِہٖ۔وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِغَیْرِ ہٰذَا اللَّفْظِ۔
٦٨٣٣: عطاء نے جابر (رض) سے اور انھوں نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے روایت کی کہ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے ابراہیم کی طرف گیا وہ جانکنی کے عالم میں تھا چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنی گود میں لٹا لیا۔ یہاں تک کہ اس کی روح پرواز کرگئی پھر اس کو رکھ دیا اور رونے لگے میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ روتے ہیں حالانکہ آپ تو رونے سے منع فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے رونے سے منع نہیں کیا لیکن میں نے فاجرین کی دو احمق آوازوں سے منع کیا ہے ایک خوشی کے وقت لہو و لعب کے گانے اور شیطانی باجوں کی آواز اور مصیبت کے وقت کی آواز جس میں چہروں پر تھپڑ مارے جائیں اور گریبان کو پھاڑا جائے۔ باقی یہ تو رحمت کے آنسو ہیں جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا اے ابراہیم اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اس کا قول برحق ہے اور ہمارا پچھلا عنقریب پہلے سے جا ملے گا تو ہم ضرور تم پر اس سے بھی زیادہ غم کرتے اور بیشک تمہاری وجہ سے ہم غم گین ہیں آنکھ رو رہی ہے اور دل غمزدہ ہے اور ہم وہ بات نہیں کہتے جس سے ہمارا رب ناراض ہو۔ اس روایت میں اس رونے کی وضاحت کردی جس کو پہلی روایات میں ممنوع قرار دیا گیا اس سے مراد ایسا رونا ہے جس کے ساتھ چیخ و پکار ‘ چہروں کا پیٹنا اور گریبان کا پھاڑنا ہو اور یہ بھی وضاحت کردی کہ اس کے علاوہ رونا رحمت ہے۔ یہ ممنوعہ رونے سے مختلف ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت عمر (رض) والی روایات کہ ” ان المیت یعذب ببکاء اہلہ علیہ “ ہم نے حضرت عائشہ (رض) سے اس کا انکار نقل کردیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قبر میں کافر کی سزا میں اضافہ فرماتے ہیں جبکہ اس کے گھر والے اس پر روتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے وہ رونا مراد ہو جس کی وہ اپنی زندگی میں وصیت کرتا تھا کہ اس کی موت کے بعد رویا جائے۔ زمانہ جاہلیت میں نوحہ و بین کی وصیت کر جاتے کہ وہ ان کی موت کے بعد اس طرح روئیں۔ پس اللہ تعالیٰ اس رونے کے سبب سے اس کافر کو قبر میں بھی عذاب دیتا ہے کیونکہ وہ زندگی میں اس کا سبب بنا اور اس کی موت کے بعد کیا گیا یہ روایت حضرت عائشہ (رض) سے ان الفاظ کے علاوہ دیگر الفاظ سے بھی مروی ہے۔ (ملاحظہ ہو)
تخریج : ترمذی فی الجنائز باب ٢٥۔

6837

۶۸۳۴ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہَا قَالَتْ : یَغْفِرُ اللّٰہُ لِأَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یَقُوْلُ : اِنَّ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَیِّ۔وَاللّٰہِ مَا ذَاکَ اِلَّا اِیہَامًا مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَہٗ، اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُوْلُ : وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی۔وَمَا ذَاکَ اِلَّا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلٰی قَبْرِ یَہُوْدِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْتُمْ تَبْکُوْنَ عَلَیْہٖ، وَاِنَّہٗ لَیُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِہِ یَقُوْلُ : بِعَمَلِہٖ۔ فَأَخْبَرَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّمَا أَخْبَرَ أَنَّ ذٰلِکَ الْکَافِرَ یُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِہٖ بِعَمَلِہٖ ، وَأَہْلُہٗ یَبْکُوْنَ عَلَیْہٖ، وَقَدْ مَنَعَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، أَنْ تَزِرَ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ مَیِّتًا لَا یُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِہٖ بِبُکَائِ حَیْ لَمْ یَأْمُرْ بِہٖ فِیْ حَیَاتِہٖ، وَمَاتَ ، لِحَدِیْثِ جَابِرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ الْبُکَائُ الْمَکْرُوْھُ مَا ہُوَ ، وَأَنَّہٗ ہُوَ الَّذِیْ مَعَہُ اللَّطْمُ وَالشَّقُّ .فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا اِبَاحَۃُ الْبُکَائِ عَلَی الْمَیِّتِ ، اِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَہٗ سَبَبٌ مَکْرُوْہٌ ، مِنْ شَقِّ ثَوْبٍ ، وَلَطْمِ وَجْہٍ ، وَنِیَاحَۃٍ ، وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ .
٦٨٣٤: عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) امّ المؤمنین سے بیان کیا کہ وہ فرماتی تھیں اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن بن عمر (رض) کو معاف کرتے کہ وہ کہتے تھے کہ میت کو زندہ لوگوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے اللہ کی قسم ! یہ عبداللہ بن عمر (رض) کو وہم ہوا اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ” ولا تزر وازرۃ وزر اخری “ (فاطر ١٨) کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور اس کا واقعہ یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک یہودی کی قبر کے پاس سے ہوا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اے لوگو ! ) تم رو رہے ہو اور اس کو اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ فرمایا۔ اس کے عمل کے باعث۔ اس روایت میں حضرت عائشہ (رض) نے بتلا دیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کافر کو تو اس کے عمل کی وجہ سے قبر میں عذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر نالہ و شؤن میں مصروف ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس بات کو غلط قرار دیا کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ زندوں کے رونے سے قبر میں اس میت کو عذاب نہیں ہوتا جس نے اپنے اوپر زندگی میں رونے کا حکم نہ دیا ہو۔ جیسا کہ جابر بن عبدالرحمن بن عوف کی روایت میں ہے۔ مکروہ رونا وہ ہے جس میں منہ پر تھپڑ مارنا اور گریبان کا پھاڑنا پایا جائے اور ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سے میت پر رونے کا جواز ثابت ہوا بشرطیکہ اس کے ساتھ کوئی مکروہ سبب نہ ہو مثلاً کپڑے پھاڑنا ‘ چہرے پر تھپڑ مارنا ‘ نوحہ کرنا اور جو اس کے مشابہہ ہوں۔

6838

۶۸۳۵ : وَقَدْ حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ عَبْدُ الْحَمِیدِ الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : دَخَلَ عَلَیَّ قَرَظَۃُ بْنُ کَعْبٍ ، وَعَلٰی أَبِیْ مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِیِّ ، وَثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ وَعِنْدَہُمْ جَوَارٍ یُغَنِّیْنَ .فَقُلْت: أَتَفْعَلُوْنَ ہٰذَا ، وَأَنْتُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالُوْا : اِنْ کُنْتُ تَسْمَعُ ، وَاِلَّا فَامْضِ ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِی اللّٰہْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ ، وَفِی الْبُکَائِ عَلَی الْمَیِّتِ۔فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الْمَیِّتَ یُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِہٖ، بِنِیَاحَۃِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ۔
٦٨٣٥: عامر بن سعد کہتے ہیں کہ میں قرظہ بن کعب اور ابو مسعود انصاری (رض) ثابت بن قیس کے ہاں داخل ہوا اس وقت ان کے پاس لونڈیاں تھیں جو گیت و اشعار گا رہی تھیں میں نے کہا تم اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو کر یہ کرتے ہو۔ انھوں نے کہا۔ اگر تو نے سننا ہے تو سنو ورنہ اپنا راستہ لو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شادی کے موقعہ پر اتنے لہو کی اجازت دی ہے اور اسی طرح میت پر رونے کی اجازت دی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ سے قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ (جیسا کہ یہ روایت ہے)

6839

۶۸۳۶ : وَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، أَبُو الْہُذَیْلِ الطَّائِیُّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیْعَۃَ قَالَ : نِیْحَ عَلٰی قَرَظَۃَ بْنِ کَعْبٍ ، فَخَطَبَ الْمُغِیْرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ فَقَالَ : مَا بَالُ النِّیَاحَۃِ فِیْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ ؟ اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّ کَذِبًا عَلَیَّ لَیْسَ کَکَذِبٍ عَلٰی أَحَدٍ ، مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ وَمَنْ یُنَحْ عَلَیْہِ عُذِّبَ بِمَا نِیْحَ عَلَیْہٖ، أَوْ لِمَا نِیْحَ عَلَیْہِ۔قِیْلَ لَہٗ : ہٰذَا، عِنْدَنَا ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ۔ عَلَی النِّیَاحَۃِ الَّتِیْ کَانُوْا یُوْصُوْنَ بِہَا أَہْلِیْہِمْ ، فَتَکُوْنُ مَفْعُوْلَۃً بَعْدَہُمْ بِوَصِیَّتِہِمْ بِہَا فِیْ حَیَاتِہِمْ ، فَیُعَذَّبُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٦٨٣٦: علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ قرظہ بن کعب پر نوحہ کیا گیا۔ تو حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے خطبہ دیا اور فرمایا۔ اس امت میں نوحہ کا کیا جواز ہے ؟ بیشک میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ مجھ پر جھوٹ بولنا وہ تمہارے ایک دوسرے پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں۔ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا آگ بنا لے۔ اور جس پر نوحہ کیا جائے تو اس کو نوحہ کی وجہ سے عذاب ہوگا یا فرمایا اس وجہ سے عذاب ہوگا کہ اس پر نوحہ کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی تاویل یہ ہے کہ اس سے وہ نوحہ مراد ہے جس کی زمانہ جاہلیت میں وصیت کی جاتی تھی اور وہ نوحہ زندگی میں مرنے والے کے حکم کی وجہ سے ان کی وصیت کے مطابق کیا جاتا تھا۔ پس اس وجہ سے ان کو عذاب دیا جاتا تھا۔ واللہ اعلم۔
تخریج : بخاری فی الجنائز باب ٣٤‘ مسلم فی الجنائز ٢٨‘ ترمذی فی الجنائز باب ٢٣‘ مسند احمد ٢؍٦١‘ ٤؍٢٥٢۔

6840

۶۸۳۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْبَاغَنْدِیُّ قَالَا : ثَنَا خَلَّادُ بْنُ یَحْیٰی، قَالَ: ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ اِسْمَاعِیْلَ بْنِ أَبِیْ خَالِدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ قَیْحًا ، خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔
٦٨٣٧: عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ اگر کسی کا پیٹ پیپ سے بھرے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ شعر سے بھرا ہو۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ٩٢‘ مسلم فی الشعر ٧؍٨‘ ابو داؤد فی الادب باب ٨٧‘ ترمذی فی الادب باب ٧١‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٤٢‘ دارمی فی الاستیذان باب ٦٩‘ مسند احمد ١؍١٧٥‘ ٢‘ ٣٩؍٩٦‘ ٣‘ ٨؍٤١۔
خلاصہ الزام :
: اشعار کو پڑھنا اور نقل کرنا بعض علماء نے مکروہ قرار دیا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : یہ ہے جس شعر میں فحش گفتگو نہ ہو اس کا نقل کرنا درست ہے اس میں حرج نہیں۔

6841

۶۸۳۸ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الصَّائِغُ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ قَیْحًا حَتّٰی یُرِیَہٗ، خَیْرٌ لَہٗ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔
٦٨٣٨: محمد بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر کسی کا پیٹ پیپ سے بھرا ہو اور وہ اس کے پھیپھڑے میں پڑجائے تو یہ شعروں کے ساتھ اس کے بھرنے سے بہتر ہے۔

6842

۶۸۳۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٨٣٩: عبدالصمد بن عبدالوارث نے شعبہ سے پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6843

۶۸۴۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ حَتّٰی یُرِیَہٗ۔
٦٨٤٠: ابو عامر نے شعبہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ ” حتی یریہ “ کے لفظ نہیں کہے۔

6844

۶۸۴۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ حَنْظَلَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ۔
٦٨٤١: سالم بن عبداللہ نے عبداللہ بن عمر (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کرتے سنا۔

6845

۶۸۴۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ جَعْفَرٍ الرَّازِیّ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٨٤٢: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6846

۶۸۴۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔، وَزَادَ حَتّٰی یُرِیَہٗ۔
٦٨٤٣: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اور ” حتی یریہ “ کا اضافہ کیا ہے۔

6847

۶۸۴۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ شِیَاسَۃَ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ، مِنْ عَانَتِہٖ اِلٰی لَہَاتِہٖ قَیْحًا ، یَتَمَخَّضُ مِثْلَ السِّقَائِ ، خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔
٦٨٤٤: یزید بن ابی حبیب نے حضرت عبدالرحمن بن شیاسہ سے اور انھوں نے حضرت عوف بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا اگر کسی کا پیٹ پیپ سے پیڈو سے حلق تک بھرا ہو اور مشک کی طرح اچھلے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ شعروں سے بھرا ہو۔

6848

۶۸۴۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ قَیْحًا ، خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَکَرِہَ قَوْمٌ رِوَایَۃَ الشِّعْرِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِرِوَایَۃِ الشِّعْرِ ، الَّذِیْ لَا قَذَعَ فِیْہِ .وَقَالُوْا : ہٰذَا الَّذِیْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّمَا ہُوَ عَلَی خَاص مِنِ الشِّعْرِ .فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٦٨٤٥: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی کا پیٹ اگر پیپ سے بھرا ہو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرا ہو۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : شعروں کو نقل کرنا بعض لوگوں نے مکروہ قرار دیا اور انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ شعر نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں جس میں فحش گفتگو نہ ہو۔ فریق اوّل کا کہنا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات میں وہ خاص قسم کے اشعار ہیں جو فحش گوئی وغیرہ پر مشتمل ہوں۔ جیسا ان روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

6849

۶۸۴۶: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ قَالَ ، قِیْلَ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : اِنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ قَیْحًا ، خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔فَقَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یَرْحَمُ اللّٰہُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، حَفِظَ أَوَّلَ الْحَدِیْثِ، وَلَمْ یَحْفَظْ آخِرَہٗ، اِنَّ الْمُشْرِکِیْنَ کَانُوْا یَہْجُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ قَیْحًا ، خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا ، مِنْ مُہَاجَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
٦٨٤٦: ابو صالح کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا گیا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں ” لان یمتلی جوف احدکم “ الحدیث۔ تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابوہریرہ (رض) پر رحمت فرمائے انھوں نے حدیث کا ابتدائی حصہ محفوظ کیا اور پچھلا حصہ یاد نہ کیا۔ مشرکین جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو کرتے تھے تو آپ نے فرمایا : ” لان یمتلی جوف احدکم۔۔۔“ کہ اگر کسی کا پیٹ پیپ سے بھرا ہو تو وہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرا ہو۔ یعنی وہ شعر جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو پر مشتمل ہوں۔

6850

۶۸۴۷ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ الْبَغْدَادِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو عُبَیْدٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ ، یُحَدِّثُ عَنِ الشَّرْقِیِّ بْنِ الْقُطَامِیِّ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ قَیْحًا ، خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا یَعْنِیْ مِنِ الشِّعْرِ الَّذِیْ ھُجِیَ بِہٖ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .قَالُوْا : وَقَدْ رُوِیَ فِیْ اِبَاحَۃِ الشِّعْرِ ، آثَارٌ۔
٦٨٤٧: شعبہ کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر کسی کا سینہ پیپ سے بھرا ہو تو وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ان اشعار سے پر ہو جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو پر مشتمل ہوں۔
جواز شعر سے متعلق روایات :

6851

۶۸۴۸ : .فَمِنْہَا مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْمُنْذِرِ بْنِ الْحِزَامِیِّ ، قَالَ : ثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیْسٰی ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ ، رَأٰیْ نِسَائً یَلْطِمْنَ وُجُوْہَ الْخَیْلِ بِالْخَمْرِ فَتَبَسَّمَ فَقَالَ یَا أَبَا بَکْرٍ ، کَیْفَ قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ ؟ فَأَنْشَدَ أَبُوْبَکْرٍ .عَدِمْتُ بُنَیَّتِیْ اِنْ لَمْ تَرَوْہَا تُثِیْرُ النَّقْعَ مِنْ کَنَفٰی کَدَائَ یُنَازَعْنَ الْأَعِنَّۃَ مُسْرَجَاتٍ یُلَطِّمُہُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَائُ ہٰکَذَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ ، وَأَہْلُ الْعِلْمِ بِالْعَرَبِیَّۃِ یَرَوْنَ الْبَیْتَ الْأَوَّلَ عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ. تُثِیْرُ النَّقْعَ مَوْعِدُہَا کَدَائَ حَتّٰی تَسْتَوِیَ قَافِیَۃُ ہٰذَا الْبَیْتِ ، مَعَ قَافِیَۃِ الْبَیْتِ الَّذِیْ بَعْدَہٗ. قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُدْخُلُوْہَا ، مِنْ حَیْثُ قَالَ۔
٦٨٤٨: معن بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ مجھے ابن عمر (رض) نے نافع سے اور انھوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو عورتوں کو دیکھا کہ وہ گھوڑوں کے چہروں کو اپنے دوپٹے سے صاف کر رہی تھیں۔ آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا اے ابوبکر (رض) ! حسان بن ثابت نے کیا کہا ہے جناب حضرت ابوبکر (رض) نے یہ اشعار پڑھے۔ میں اپنے کو گم کردوں اگر تم گھوڑوں کو مقام کداء میں میرے کندھوں کے اوپر غبار اڑاتے نہ دیکھو۔ وہ اس حال میں مقابلہ کرتے ہیں کہ ان کو لگامیں ڈالی گئیں ہیں اور ان پر زین کسے گئے ہیں اور عورتیں اپنے دوپٹوں سے ان کے چہروں (کے غبار) کو صاف کر رہی ہیں۔ ہمیں احمد بن داؤد نے اسی طرح بیان کیا عربی کا علم رکھنے والے پہلے شعر کو اور انداز سے پڑھتے ہیں۔ ” ستثیرالنقع موعدھا کدائ “ وہ گھوڑے گرد و غبار اڑاتے ہیں جن کا مقام کداء ہے۔ اس طرح سے مصرعہ کا قافیہ دوسرے شعر کے قافیہ کے مطابق ہوجاتا ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ان گھوڑوں کو وہیں سے داخل کرو جہاں سے حسان نے کہا ہے۔

6852

۶۸۴۹ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الزُّہْرِیُّ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً ۔
٦٨٤٩: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بیشک بعض شعر حکمت والے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ٩٠‘ ابو داؤد فی الادب باب ٨٧‘ ترمذی فی الادب باب ٦٩‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٤١‘ دارمی فی الاستیذان باب ٦٨‘ مسند احمد ٣؍٤٥٦‘ ٥؍١٢٥۔

6853

۶۸۵۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَیْحٍ ، عَنْ .أَبِیْھَا.قَالَ : قُلْت لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَمَثَّلُ بِشَیْئٍ مِنِ الشِّعْرِ ؟ فَقَالَتْ : نَعَمْ ، مِنْ شِعْرِ ابْنِ رَوَاحَۃَ ، وَرُبَّمَا قَالَ ہٰذَا الْبَیْتَ .وَیَأْتِیْکَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تَزَوَّدْ ۔
٦٨٥٠: مقدام بن شریح نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کیا جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی شعر کو تمثیل کے لیے پڑھتے تھے۔ تو انھوں نے کہا ہاں۔ ابن رواحہ (رض) کے اشعار اور بعض اوقات یہ بھی بطور تمثیل کہا۔
” ویاتیک بالاخبار من لم تزود “ تیرے پاس وہ لوگ خبریں لائیں گے جن کو تو نے زاد راہ بھی نہیں دیا۔
تخریج : ترمذی فی الادب باب ٧٠‘ مسند احمد ٦؍٢٢٢۔

6854

۶۸۵۱ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ مَعِینٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدَۃُ .بْنُ .سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : اسْتَأْذَنَ حَسَّانٌ ، النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھِجَائِ الْمُشْرِکِیْنَ .قَالَ فَکَیْفَ بِنَسَبِیْ فِیْہِمْ قَالَ : أَسُلُّکَ مِنْہُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَۃُ مِنَ الْعَجِیْنِ۔
٦٨٥١: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حسان (رض) نے مشرکین کی ہجو کے لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا۔ تم کیسے کرو گے جبکہ میرا نسب بھی ان میں ہے ؟ تو انھوں نے عرض کیا میں آپ کو ان سے اس طرح الگ کرلوں گا جس طرح بال آٹے سے الگ کرلیا جاتا ہے۔ (یعنی میری ہجو کا اثر آپ تک ذرہ بھر نہ پہنچے گا اور وہ اس کی لپیٹ سے نہ بچ سکیں گے)

6855

۶۸۵۲ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ حَسَّانٍ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیُّ ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کُنَّا جُلُوْسًا بِفِنَائِ الْکَعْبَۃِ ، أَحْسَبُہٗ قَالَ مَعَ أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَانُوْا یَتَنَاشَدُوْنَ الْأَشْعَارَ .فَوَقَفَ بِنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ ، فَقَالَ : فِیْ حَرَمٍ ، وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ ، یَتَنَاشَدُوْنَ الْأَشْعَارَ ؟ .فَقَالَ رَجُلٌ مِنْہُمْ : یَا ابْنَ الزُّبَیْرِ ، اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّمَا نَہٰی عَنِ الشِّعْرِ ، الَّذِیْ اِذَا أُتِیَتْ فِیْہِ النِّسَائُ ، وَتُزْدَرٰی فِیْہِ الْأَمْوَاتُ۔فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الشِّعْرُ الَّذِیْ قَالَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنَ الشِّعْرِ الَّذِیْ نَہٰی عَنْہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .
٦٨٥٢: شعبی کہتے ہیں کہ ہم صحن کعبہ میں بیٹھے تھے میرا خیال یہ ہے کہ انھوں نے یہ بھی کہا اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے تھے وہ ایک دوسرے کو اشعار سنا رہے تھے۔ تو ہمارے پاس عبداللہ بن زبیر (رض) آ کر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے حرم میں اور کعبہ کے پاس تم ایک دوسرے کو شعر پڑھ کر سنا رہے ہو ؟ تو ان میں سے ایک آدمی نے کہا اے ابن زبیر (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان اشعار سے منع فرمایا جن میں عورتوں کا تذکرہ ہو اور اس سے مردوں پر عیب لگایا جائے۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ شروع باب میں جن اشعار کی ممانعت کی گئی اس سے مراد وہی ہوں جن کی ممانعت اس روایت میں ہے۔

6856

۶۸۵۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ وَعَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکَمًا۔
٦٨٥٣: عبدالرحمن بن یزید نے حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک بعض شعر حکمت والے ہیں۔
تخریج : ابو داؤد فی الادب باب ٨٧‘ ترمذی فی الادب باب ٦٩‘ مسند احمد ١‘ ٢٦٩؍٣٢٧‘ ٣٣٢۔

6857

۶۸۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ وَفَہْدٌ وَاِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالُوْا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً۔
٦٨٥٤: زر نے عبداللہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ بیشک بعض شعر حکمت والے ہیں۔
تخریج : ترمذی فی الادب باب ٦٩‘ مسنداحمد ٣؍٤٥٦‘ ٥؍١٢٥۔

6858

۶۸۵۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ مَرْوَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ یَغُوْثَ ، عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکَمًا۔
٦٨٥٥: عبدالرحمن بن اسود نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ بیشک بعض شعر حکمت والے ہیں۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٧٣‘ ٣٠٣‘ ٣٠٩۔

6859

۶۸۵۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ أَبِی الْوَزِیرِ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ یَغُوْثَ۔
٦٨٥٦: ابراہیم بن سعد نے زہری سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے البتہ عبداللہ بن اسود بن عبد یغوث سے ذکر کی ہے۔

6860

۶۸۵۷ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ سَعْدٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ یَغُوْثَ۔
٦٨٥٧: یزید بن ہارون نے ابراہیم بن سعد سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے البتہ انھوں نے عبداللہ بن اسود بن عبد یغوث کہا ہے۔

6861

۶۸۵۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ یَحْمٰی أَعْرَاضَ الْمُؤْمِنِیْنَ ؟۔قَالَ کَعْبٌ : أَنَا .قَالَ ابْنُ رَوَاحَۃَ : أَنَا ، قَالَ اِنَّک لَتُحْسِنُ الشِّعْرَ۔قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ : أَنَا اِذًا ، قَالَ اُہْجُہُمْ ، فَاِنَّہٗ سَیُعِیْنُک عَلَیْہِمْ رُوْحُ الْقُدُسِ۔
٦٨٥٨: شعبی نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایمان والوں کی عزتوں سے کون دفاع کرے گا۔ تو کعب کہنے لگے لو میں دفاع کروں گا۔ ابن رواحہ بولے میں دفاع کروں گا آپ نے فرمایا تم خوب اشعار کہتے ہو۔ حسان کہتے ہیں پھر میں کروں گا آپ نے فرمایا۔ ان کی ہجو کرو۔ بیشک جبرائیل امین بھی اس میں تمہاری معاونت کریں گے۔

6862

۶۸۵۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : ثَنَا أَبُو اِبْرَاھِیْمَ التَّرْجُمَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ ہِشَامِ ابْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضَعَ لِحَسَّانِ بْنِ ثَابِتٍ مِنْبَرًا ، فِی الْمَسْجِدِ ، یَنْشُدُ عَلَیْہِ الشِّعْرَ۔
٦٨٥٩: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسان کے لیے مسجد میں منبر رکھواتے اور وہ اس پر بیٹھ کر شعر کہتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الادب باب ٨٧‘ ترمذی فی الادب باب ٧٠‘ مسند احمد ٦؍٧٢۔

6863

۶۸۶۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ ، الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، عَنِ ابْنِ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ فُضَیْلٍ .
٦٨٦٠: محمد بن فضیل نے ابن ابی داؤد جیسی حدیث ذکر کی جو اس روایت سے پہلے ہے وہ ابن نمیر عن ابن فضیل ہے۔

6864

۶۸۶۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ ، ح .
٦٨٦١: ابن مرزوق نے عفان سے روایت کی ہے۔

6865

۶۸۶۲ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَجَائٍ قَالُوْا : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَدِیُّ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ : سَمِعْتُ الْبَرَائَ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لِحَسَّانٍ اُہْجُہُمْ ، أَوْ ہَاجَہُمْ ، وَجِبْرِیْلُ مَعَکُ ۔
٦٨٦٢: عدی بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے براء کو کہتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میں نے حسان کو یہ فرماتے سنا تم ان کی ہجو کرو۔ یا ہاجہم کا لفظ فرمایا۔ جبرائیل کی معاونت تمہارے ساتھ ہے۔
تخریج : بخاری فی بدء الخلق باب ٧‘ والمغازی باب ٣٠‘ والادب باب ٩١‘ مسلم فی فضائل الصحابہ ١٥٣‘ مسند احمد ٤‘ ٢٨٦؍٢٩٨‘ ٣٠١؍٣٠٢۔

6866

۶۸۶۳ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَدِیْ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٨٦٣: ابو اسحاق شیبانی نے عدی سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

6867

۶۸۶۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ ، قَالَ : ثَنَا عِیْسَیْ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَدِیُّ بْنُ ثَابِتٍ ، یَعْنِیْ: قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَقُوْلُ لِحَسَّانِ بْنِ ثَابِتٍ لَا یَزَالُ مَعَک رُوْحُ الْقُدُسِ ، مَا ہَجَوْتُ الْمُشْرِکِیْنَ۔
٦٨٦٤: عدی بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسان بن ثابت سے یہ کہتے سنا جب تک تم مشرکین کی ہجو کرو گے تو جبرائیل تمہارے ساتھ رہیں گے (القائے خیر کے لئے)

6868

۶۸۶۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، مَرَّ عَلٰی حَسَّانٍ وَہُوَ یَنْشُدُ فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَانْتَہَرَہٗ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ .فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ حَسَّانٌ ، فَقَالَ : قَدْ کُنْتُ أَنْشُدُ فِیْہٖ، وَفِیْہِ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْکِ فَانْطَلَقَ عَنْہُ عُمَرُ .فَقَالَ حَسَّانٌ لِأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، أَمَّا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ یَا حَسَّانُ أَجِبْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ، اللّٰہُمَّ أَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ؟ قَالَ : اللّٰہُمَّ ، نَعَمْ۔
٦٨٦٥: سعید بن مسیب نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) کا گزر حضرت حسان (رض) کے پاس سے ہوا وہ مسجد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں شعر پڑھ رہے تھے آپ نے ان کو ڈانٹا۔ تو حسان (رض) نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میں اس میں شعر پڑھا کرتا تھا اور اس مجلس میں وہ ہستی ہوتی جو تم سے بہتر تھی تو حضرت عمر (رض) (یہ سن کر) آگے چل دیئے۔ تو حسان (رض) نے ابوہریرہ (رض) کو کہا کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے نہیں سنا اے حسان ! تم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جواب دو ۔ اے اللہ تو روح القدس سے اس کی مدد فرما۔ تو انھوں نے کہا اللہ کی قسم یہ اسی طرح ہے۔
تخریج : مسلم فی فضائل الصحابہ ١٥١؍١٥٢‘ نسائی فی المساجد باب ٢٤‘ مسند احمد ٢؍٢٦٩۔

6869

۶۸۶۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلٰی، قَالَ : ثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ أَنَّ حَسَّانَ ، ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ قَوْلِہٖ قَدْ کُنْتُ أَنْشُدُ فِیْہٖ، وَفِیْہِ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْک فَاِنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْہٗ .
٦٨٦٦: زہری نے عروہ سے روایت کی کہ حسان (رض) نے پھر اسی طرح روایت بیان کی سوائے اس جملے کے ” کنت انشر فیہ و فیہ من ہو خیر منک “ اس کو ذکر نہیں کیا۔

6870

۶۸۶۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہٗ سَمِعَ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ یَسْتَشْہِدُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٨٦٧: ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حسان بن ثابت (رض) کو سنا کہ وہ ابوہریرہ (رض) کو قسم دے رہے ہیں پھر اسی طرح روایت بیان کی۔

6871

۶۸۶۸ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَنْبَسَۃَ الْقُرَشِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ جَدِّیْ عَنْبَسَۃُ ، عَنْ یُوْنُسَ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِیْعٍ ، وَکَانَ شَاعِرًا أَنَّہٗ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَلَا أَنْشُدُکَ مَحَامِدَ حَمِدْتُ بِہَا رَبِّیْ؟ .قَالَہٗ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَا اِنَّ رَبَّک یُحِبُّ الْحَمْدَ وَمَا اسْتَزَادَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ شَیْئًا .
٦٨٦٨: حسن نے اسود بن سریع (رض) سے روایت کی یہ شاعر تھے کہ انھوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی تعریفات کے وہ اشعار نہ سناؤں جن میں میں نے اپنے رب کی حمد کی ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ سنو ! بیشک تمہارا رب حمد کو پسند کرتا ہے اس سے زائد آپ نے اور کچھ نہیں فرمایا۔

6872

۶۸۶۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِیْعٍ مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ فَجَعَلْتُ أَنْشُدُہٗ۔
٦٨٦٩: عبدالرحمن بن ابی بکر نے اسود بن سریع (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں : ” فجعلت انشدہ “ میں پڑھنے لگا۔

6873

۶۸۷۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُسْہِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی الرِّجَالِ ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ- : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَأَحْسَنَ ، ثُمَّ قَالَ کَعْبٌ ، فَأَحْسَنَ ، ثُمَّ قَالَ حَسَّانٌ فَأَشْفٰی فَاسْتَشْفٰی .
٦٨٧٠: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے عبداللہ بن رواحہ نے شعر کہے تو بہت خوب اشعار کہے پھر کعب نے اشعار کہے تو انھوں نے بھی خوب کہے پھر حسان (رض) نے کہے تو انھوں نے شفایاب کردیا۔
تخریج : مسلم فی فضائل الصحابہ ١٥٧۔

6874

۶۸۷۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَبْدَۃَ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ یَعْقُوْبَ عَنْ عُتْبَۃَ عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : صَدَّقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُمَیَّۃَ بْنَ أَبِی الصَّلْتِ فِی شِعْرِہٖ، وَقَالَ : رَجُلٌ وَنُوْرٌ تَحْتَ رِجْلِ یَمِیْنِہٖ وَالْیُسْرٰی لِلْأُخْرٰی وَلَیْثٌ مُرْصَدُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقَ وَقَالَ : وَالشَّمْسُ تَطْلُعُ کُلَّ آخِرِ لَیْلَۃٍ حَتّٰی الصَّبَاحِ وَلَوْنُہَا یَتَوَرَّدُ یَأْبٰی فَمَا تَطْلُعُ لَنَا فِیْ رُسْلِہَا اِلَّا مَعْذَبَۃً وَاِلَّا تُجْلَدُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقَ۔
٦٨٧١: عکرمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیہ بن صلت کے اس شعر کی تصدیق فرمائی۔ رجل ونور تحت رجل یمینہ۔ والیسرٰی للاخری ولیث مرصد اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس نے سچ کہا۔ اس نے کہا۔ والشمس تطلع کل آخر لیلۃ۔ حتی الصباح ولونہا تیورد اور سورج ہر رات کے آخر میں طلوع ہونے تک اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔ ویابی فما تطلع لنا فی رسلھا۔ الا معذبۃ وان لا یخلذ۔ وہ انکار کر دے گا اور رکاوٹ کے دور میں وہ طلوع نہ ہوگا مگر باعث عذاب و فنا ہونے والا بن کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس نے سچ کہا۔
تخریج : دارمی فی الاستیذان باب ٦٧۔

6875

۶۸۷۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مَعْشَرٍ الْبَرَائُ ، عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ طَیْسَلَۃَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مَعْنُ بْنُ ثَعْلَبَۃَ وَالْحَرُّ بَعْدَہٗ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَعْشَی الْمَازِنِیُّ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَنْشَدْتُہٗ : یَا مَالِکَ النَّاسِ وَدَیَّانَ الْعَرَبْ اِنِّیْ لَقِیْتُ دِرْبَۃً مِنْ الذِّرَبْ خَرَجْتُ أَبْغِیْہَا الطَّعَامَ فِیْ رَجَبْ أَخْلَفَتِ الْعَہْدَ وَلَطَّتْ بِالذَّنَبِ وَہُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ قَالَ : فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : وَہُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبَ۔
٦٨٧٢: معن بن ثعلبہ نے نقل کیا ہے کہ اعشیٰ مازنی کہتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور یہ شعر پڑھ کر سنائے۔ اے لوگو کے مالک اور عرب کے حکمران۔ میں نے زبان دراز عورتوں میں سے ایک عورت کو پایا۔ ! اس کو رزق کی تلاش نے تھکا دیا اس نے وعدہ کی خلاف ورزی کی اور ذلیل لوگوں کے ہاں پناہ لے لی۔ " وہ عورتیں ایک ایسا شر ہیں جو دوسروں پر غالب آجاتی ہیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے یہ غالب ہونے والا شر ہے جو غالب آتی ہیں جس پر غالب آتی ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٠٢۔

6876

۶۸۷۳ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَنْصُوْرٍ قَالَ ثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ حُمَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکَمًا۔
٦٨٧٣: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک شعر میں حکمت ہے۔

6877

۶۸۷۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، ح .
٦٨٧٤: ابراہیم بن عبیدہ نے عبداللہ سے روایت کی۔

6878

۶۸۷۵ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٦٨٧٥: عبدالرحمن بن یزید نے عبداللہ سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کی روایت کی ہے۔

6879

۶۸۷۶ : حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَعْلَیْ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِیْدِ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : اسْتَنْشَدَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شِعْرَ أُمَیَّۃَ بْنِ أَبِی الصَّلْتِ ، فَأَنْشَدْتُہٗ ، فَکُلَّمَا أَنْشَدْتُہٗ بَیْتًا ، قَالَ : ہِیْہِ حَتّٰی أَنْشَدْتُہٗ مِائَۃَ قَافِیَۃٍ قَالَ حَتّٰی کَادَ ابْنُ أَبِی الصَّلْتِ یُسْلِمُ۔
٦٨٧٦: عمرو بن ثرید نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیہ بن صلت کے اشعار پڑھنے کے لیے کہا تو میں نے آپ کو پڑھ کر سنائے جب بھی میں ایک شعر پڑھتا۔ آپ فرماتے اور پڑھو ! یہاں تک کہ میں نے ایک سو شعر سنائے اور فرمایا قریب تھا کہ ابن ابی صلت اسلام لے آتا۔
تخریج : مسلم فی الشعر ١‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٤١‘ مسند احمد ٤؍٣٨٨۔

6880

۶۸۷۷ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُعَلَّیْ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْوَاسِطِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَکَمِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ ، لِشَاب مِنْ شُبَّانِہِمْ قُمْ ، فَاذْکُرْ فَضْلَکَ وَفَضْلَ قَوْمِکَ فَقَامَ فَقَالَ : نَحْنُ الْکِرَامُ فَلَا حَیٌّ یُعَادِلُنَا نَحْنُ الْکِرَامُ وَفِیْنَا یُقْسَمُ الرُّبُعُ وَنُطْعِمُ النَّاسَ عِنْدَ الْقَحْطِ کُلَّہُمْ مِنَ الشَّرِیفِ اِذَا لَمْ یُوْنُس الْقَرَعُ اِذَا أَبَیْنَا فَلَا یُعْدَلُ بِنَا أَحَدٌ اِنَّا کِرَامٌ وَعِنْدَ الْفَخْرِ نَرْتَفِعُ قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا حَسَّانُ أَجِبْہُ فَقَالَ : نَصَرْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَالدِّیْنَ عَنْوَۃً عَلٰی رَغْمِ عَاتٍ مِنْ بَعِیْدٍ وَحَاضِرِ بِضَرْبٍ کَاِنْزَاعِ الْمَخَاضِ مُشَاشَۃً وَطَعْنٍ کَأَفْوَاہِ اللِّقَاحِ الصَّوَادِرِ أَلَسْنَا نَخُوْضُ الْمَوْتَ فِیْ حَوْمَۃِ الْوَغٰی اِذَا صَارَ بَرْدُ الْمَوْتِ بَیْنَ الْعَسَاکِرِ وَنَضْرِبُ ہَامَ الدَّارِعِیْنَ وَنَنْتَمِیْ اِلٰی حَسَبٍ مِنْ حَرَمِ غَسَّانَ بَاہِرِ وَلَوْلَا حَبِیْبُ اللّٰہِ قُلْنَا تَکَرُّمًا عَلَی النَّاسِ بِالْحَنِیْنِ ہَلْ مِنْ مَفَاخِرِ فَأَحْیَاؤُنَا مِنْ خَیْرِ مَنْ وَطِیَ الْحَصٰی وَأَمْوَاتُنَا مِنْ خَیْرِ أَہْلِ الْمَقَابِرِ فَلَمَّا جَائَ تْ ہٰذِہِ الْآثَارُ مُتَوَاتِرَۃً بِاِبَاحَۃِ قَوْلِ الشِّعْرِ ، ثَبَتَ أَنَّ مَا نُہِیَ عَنْہُ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، لَیْسَ لِأَنَّ الشِّعْرَ مَکْرُوْہٌ ، وَلٰـکِنْ لِمَعْنًیْ کَانَ فِیْ خَاص مِنِ الشِّعْرِ ، قَصَدَ بِذٰلِکَ النَّہْیَ اِلَیْہِ .وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ فِیْ تَأْوِیْلِ ہٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَاہَا ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ اِلَی خِلَافِ التَّأْوِیْلِ الَّذِیْ وَصَفْنَا .فَقَالُوْا : لَوْ کَانَ أُرِیْدَ بِذٰلِکَ مَا ہُجِیَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنِ الشِّعْرِ ، لَمْ یَکُنْ لِذِکْرِ الْاِمْتِلَائِ مَعْنًی ، لِأَنَّ قَلِیْلَ ذٰلِکَ وَکَثِیْرَہُ کُفْرٌ وَلٰـکِنْ ذِکْرُ الْاِمْتِلَائِ ، یَدُلُّ عَلٰی مَعْنًی فِی الْاِمْتِلَائِ ، لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَہٗ. قَالَ: فَہُوَ عِنْدَنَا ، عَلَی الشِّعْرِ الَّذِیْ یَمْلَأُ الْجَوْفَ، فَلَا یَکُوْنُ فِیْہِ قُرْآنٌ وَلَا تَسْبِیْحٌ وَلَا غَیْرُہٗ۔ فَأَمَّا مَا کَانَ فِیْ جَوْفِہٖ الْقُرْآنُ وَالشِّعْرُ مَعَ ذٰلِکَ ، فَلَیْسَ مِمَّنْ امْتَلَأَ جَوْفُہٗ شِعْرًا ، فَہُوَ خَارِجٌ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِکُمْ قَیْحًا ، خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا۔
٦٨٧٧: عمرو بن حکم نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہنے لگے کہ اقرع بن حابس نے اپنے ایک نوجوان کو کہا۔ اٹھو اور اپنی فضیلت اور اپنی قوم کی فضیلت بیان کرو۔ وہ اٹھا اور کہنے لگا۔ ہم شریف لوگ ہیں کوئی قبیلہ ہمارے برابر نہیں ہم شرفاء ہیں اور ہم میں بلند مکان ہم میں تقسیم ہوتا ہے۔ ہم لوگ قحط کے وقت تمام لوگوں کو اونٹ کے کوہان کی چربی کھلاتے ہیں جب کہ چھوٹے اونٹ نہ پائے جائیں۔ جب ہم آجائیں تو ہمارے برابر کوئی نہیں ہوسکتا۔ ہم عزت والے ہیں اور فخر کے وقت ہم سربلند ہوتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے حسان تو اس کا جواب دے۔ تو حسان (رض) نے یہ اشعار پڑھے۔ ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین کی بھرپور طریقے سے مدد کی ان لوگوں کے برخلاف جو شہروں اور دیہاتوں کے سرکش تھے۔ ایسی مار کے ساتھ ہم نے مدد کی جو حاملہ اونٹنی کے پیشاب کی طرح دیر تک جاری رہنے والی ہے اور ایسی نیزہ بازی سے جو دودھ والی اور سیراب کرنے والی اونٹنیوں کے منہ کی طرح کھلی تھی (یعنی وسیع نیزہ بازی) کیا ہم وہ نہیں جو میدان جنگ کے بلند ٹیلے پر موت کے منہ میں گھس جانے والے ہیں۔ جبکہ موت کی چادر لشکروں میں پھیل جائے۔ ہم ذرہ پوشوں کی کھوپڑیاں اڑانے والے ہیں اور ہم عظمت والے غسان قبیلہ کی اصل کی طرف نسب کی نسبت کرتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حبیب نہ ہوتا تو ہم لوگوں پر عظمت کے طور پر دونوں قبیلوں کے مقابلے میں کہتے کہ کیا کوئی ہے جو فخر میں مقابلہ کرنے والا ہو۔ ہمارے زندہ لوگ زمین پر چلنے والے لوگوں میں سب سے بہتر ہیں اور ہمارے مرنے والے اہل قبور میں سب سے بہتر ہیں۔ جب اشعار کہنے سے متعلق آثار متواترہ وارد ہیں تو اس سے ثابت ہوگیا کہ جن آثار میں ممانعت وارد ہے وہ اس بناء پر نہیں کہ شعر بری چیز ہے بلکہ اس وجہ سے جو اشعار میں پائی جائے اس کی وجہ سے ممانعت ہے اور وہی ممانعت سے مقصود ہیں۔ بعض لوگوں نے شروع باب کی روایات کی اور تاویل کی ہے اگر ان اشعار سے ہجویات کے وہ اشعار مراد ہوتے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق مشرکین نے کہے تو پھر امتلاء کا کوئی مفہوم نہیں بنتا۔ کیونکہ اس کا تو تھوڑا زیادہ سب کفر ہے لیکن امتلاء کا ذکر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پیٹ بھرنے میں جو بات ہے وہ اس سے کم میں نہیں تو ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے وہ شعر مراد ہیں جو جوف اور پیٹ کو بھرنے والے ہوں اس میں قرآن ‘ تسبیح وغیرہ میں سے کوئی چیز نہ ہو۔ باقی وہ شخص جس کے پیٹ میں قرآن مجید اور شعردونوں ہوں تو وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جن کے متعلق یہ وعید ہے بلکہ وہ اس قول رسول ” لان یمتلی جوف۔۔۔“ کی وعید سے خارج ہے۔ ابو عبید کی طرف یہ تاویل منسوب ہے۔

6881

۶۸۷۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ قَالَ : سَمِعْتُ عُبَیْدَ اللّٰہِ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، یُفَسِّرُ ہٰذَا الْحَدِیْثَ عَلٰی ھٰذَا التَّفْسِیْرِ ، وَسَمِعْتُ ابْنَ أَبِیْ عِمْرَانَ أَیْضًا ، وَعَلِیَّ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، یَذْکُرَانِ ذٰلِکَ ، عَنْ أَبِیْ عُبَیْدٍ أَیْضًا .
٦٨٧٨: ابو عمران کہتے ہیں کہ میں نے عبیداللہ بن محمد بن عائشہ سے سنا کہ وہ اس کی تفسیر اسی طرح کرتے تھے اور ابن ابی عمران اور علی بن عبدالعزیز دونوں بیان کرتے تھے کہ ابو عبید یہی تفسیر کرتے تھے۔

6882

۶۸۷۹ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا وَرْقَائُ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ ہِلَالِ بْنِ یَسَافَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَرْفَجَۃَ قَالَ : کُنَّا مَعَ سَالِمِ بْنِ عُبَیْدٍ ، فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ .فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ فَقَالَ سَالِمٌ وَعَلَیْکَ وَعَلٰی أُمِّکَ، مَا شَأْنُ السَّلَامِ وَشَأْنُ مَا ہٰہُنَا .ثُمَّ سَارَ سَاعَۃً ثُمَّ قَالَ لِلرَّجُلِ : أَعْظَمُ عَلَیْکَ مَا قُلْتُ لَکَ؟ قَالَ : وَدِدْتُ لَمْ تَذْکُرْ أُمِّیْ بِخَیْرٍ وَلَا غَیْرِہٖ۔ قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَقَالَ : السَّلَامُ عَلَیْکُمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْکَ وَعَلٰی أُمِّکَ، اِذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ ، فَلْیَقُلْ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ أَوْ عَلٰی کُلِّ حَال وَلْیَرُدُّوْا عَلَیْکَ یَرْحَمُک اللّٰہُ وَلْتَرُدَّ عَلَیْہِمْ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ۔
٦٨٧٩: خالد بن عرفجہ کہتے ہیں کہ ہم سالم بن عبید کے ساتھ تھے۔ تو قوم میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی۔ تو اس نے السلام علیکم کہا۔ سالم نے کہا تم پر اور تمہاری ماں پر سلام۔ یہاں سلام کا کیا مطلب ہے ؟ پھر تھوڑی دیر چلے اس کے بعد اس شخص سے سالم کہنے لگے میری بات بری لگی ہوگی۔ اس نے کہا میں چاہتا تھا کہ تو میری ماں کا خیر و شر میں سے کسی چیز کے ساتھ تذکرہ نہ کر۔ تو سالم کہنے لگے ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے کہ جماعت میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا السلام علیکم تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم پر اور تمہاری ماں پر سلام ہو۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے یہی کہنا چاہیے۔ ” الحمد للہ رب العالمین یا علی کل حال اور سننے والوں کو یرحمک اللہ سے جواب دینا چاہیے اور تمہیں ان کو یغفر اللہ لکم سے جواب دینا چاہیے۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ١٢٦‘ ترمذی فی الادب باب ٣‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٢٠‘ مسند احمد ١, ١٢٠‘ ١٢٢‘ ٢؍٣٥٣‘ ٥؍٤١٩‘ ٦؍٨٠۔
خلاصہ الزام :
چھینکنے والے کو السلام علیکم کہنا چاہیے جیسا روایت میں مذکور ہے ائمہ احناف نے اسی طرح کہا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : چھینکنے والے کو جب یرحمک اللہ کہا جائے اس کے جواب میں پھر یھد یکم اللہ ویصلح بالکم کہے۔

6883

۶۸۸۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، عَنْ ہِلَالِ بْنِ یَسَافَ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ أَشْجَعَ قَالَ : کُنَّا مَعَ سَالِمٍ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٨٨٠: ہلال بن یساف نے اشجع کے ایک شیخ سے انھوں نے حضرت سالم (رض) سے پھر انھوں نے اسی طرح روایت ذکر کی ہے۔

6884

۶۸۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ مَنْصُوْرٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی ھٰذَا ، فَقَالُوْا : ہٰکَذَا یَنْبَغِی أَنْ یَقُوْلَ الْعَاطِسُ وَیُقَالُ لَہٗ، عَلٰی مَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، ہٰکَذَا مَذْہَبُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : بَلْ یَقُوْلُ الْعَاطِسُ بَعْدَ أَنْ یُشَمَّتَ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٦٨٨١: ابو عوانہ نے منصور سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگ کہتے ہیں چھینک والے کو اسی طرح کہنا چاہیے اور اس کو اسی طرح کہا جائے جیسے روایت میں ہے۔ امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا مذہب اسی طرح ہے۔ چھینکنے والے کو جب یرحمک اللہ کہا جائے تو اس کے بعد اسے اس طرح کہنا چاہیے یہدیکم اللہ ویصلح بالکم۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے دل کی درستی کرے انھوں نے ان روایات کو دلیل بنایا ہے۔

6885

۶۸۸۲ : بِمَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْجَارُوْدِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ لَہِیْعَۃَ ، عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ ، أَنَّہٗ سَمِعَ عُبَیْدَ بْنَ أُمِّ کِلَابٍ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ یَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا عَطَسَ ، حَمِدَ اللّٰہَ فَیُقَالُ لَہٗ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ فَیَقُوْلُ لَہُمْ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہٗ، وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔
٦٨٨٢: عبید بن ام کلاب نے عبداللہ بن جعفر سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب چھینک آتی تو الحمد للہ کہتے اور آپ کے جواب میں یرحمک اللہ کہا جاتا اور آپ ان کے لیے اس طرح دعا مانگتے ” یہدیکم اللہ ویصلح بالکم “
تخریج : بخاری فی الادب باب ١٢٦‘ ابو داؤد فی الادب باب ٩١‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٢٠‘ دارمی فی الاستیذان باب ٣٠‘ مسند احمد ١؍١٢٠‘ ١٢٢۔

6886

۶۸۸۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ مَعْشَرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ یَحْیٰی، عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہَا قَالَتْ : عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَاذَا أَقُوْلُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ؟ قَالَ قُلْ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ قَالَ الْقَوْمُ مَاذَا نَقُوْلُ لَہٗ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ : قُوْلُوْا یَرْحَمُک اللّٰہُ قَالَ : مَاذَا أَقُوْلُ لَہُمْ ؟ قَالَ : قُلْ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔فَقَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی : اِنَّمَا کَانَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ لِأَنَّ الَّذِیْنَ کَانُوْا بِحَضْرَتِہٖ، یَہُوْدٌ ، وَکَانَ تَعْلِیْمُہٗ لِلْعَاطِسِ فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ قَوْلِہٖ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ اِنَّمَا ہُوَ لِأَنَّ مَنْ کَانَ بِحَضْرَتِہِ حِیْنَئِذٍ ، کَانُوْا یَہُوْدًا .احْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٦٨٨٣: عمرہ بنت عبدالرحمن حضرت امّ المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کرتی ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں ایک آدمی کو چھینک آئی تو اس نے عرض کیا اے نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں کیا الفاظ کہوں آپ نے فرمایا تم الحمداللہ کہو۔ دوسرے حضرات نے دریافت کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا تم یرحمک اللہ کہو۔ اس چھینکنے والے نے دریافت کیا میں ان کو جواب میں کیا کہوں۔ آپ نے فرمایا تم کہو۔ ” یہدیکم اللہ ویصلح بالکم “ فریق اوّل کا کہنا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ الفاظ ” یہدیکم اللہ ویصلح بالکم “ اس لیے فرمائے کہ آپ کی مجلس میں یہودی تھے اور حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں ان الفاظ کی جو تعلیم مذکور ہے۔ تو اس وقت بھی وہاں یہود موجود تھے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں حضرت ابو بردہ کی روایت ذکر کی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٣٥٣‘ ٤؍٤٠٠‘ ٤١١‘ ٥‘ ٤١٩؍٤٢٢‘ ٦؍٧٩۔

6887

۶۸۸۴ : بِمَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ الدَّیْلَمِ ، عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی قَالَ : کَانَتِ الْیَہُوْدُ یَتَعَاطَسُوْنَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجَائَ أَنْ یَقُوْلَ یَرْحَمُکُمُ اللّٰہُ وَکَانَ یَقُوْلُ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔
٦٨٨٤: حضرت ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت کی ہے کہ یہود جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں اس غرض سے چھینکتے کہ آپ ان کو یرحمک اللہ کہیں گے لیکن آپ ان کو ” یہدیکم اللہ ویصلح بالکم “ فرماتے۔
تخریج : ابو داؤد فی الادب باب ٩٣‘ ترمذی فی الادب باب ٣‘ مسند احمد ٤‘ ٤٠٠؍٤١١۔

6888

۶۸۸۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ حَکِیْمِ بْنِ الدَّیْلَمِ ، عَنْ الضَّحَّاکِ ، عَنْ أَبِیْ بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَاِنَّمَا کَانَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ لِلْیَہُوْدِ ، عَلٰی مَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .فَأَمَّا الْمُسْلِمُوْنَ ، فَیَقُوْلُوْنَ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ سَالِمِ بْنِ عُبَیْدٍ الَّذِیْ ذٰکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، وَلَیْسَتْ لَہُمْ عِنْدَنَا ، حُجَّۃٌ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، عَلٰی أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُخْرٰی ، لِأَنَّ الَّذِیْ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّ الْیَہُوْدَ کَانُوْا یَتَعَاطَسُوْنَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، رَجَائَ أَنْ یَقُوْلَ لَہُمْ یَرْحَمُکُمُ اللّٰہُ فَکَانَ یَقُوْلُ لَہُمْ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔فَاِنَّمَا کَانَ ہٰذَا الْقَوْلُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْیَہُوْدِ ، وَاِنْ کَانُوْا عَاطِسِیْنَ .وَلَیْسَ یَخْتَلِفُوْنَ ہُمْ وَمُخَالِفُوْھُمْ فِیْمَا یَقُوْلُ الْمُشَمِّتُ لِلْعَاطِسِ .وَاِنَّمَا اخْتِلَافُہُمْ ، فِیْمَا یَقُوْلُ الْعَاطِسُ بَعْدَ التَّشْمِیْتِ ، وَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُوْسٰی مِنْ ہٰذَا شَیْئٌ ، فَلَمْ یُضَادَّ حَدِیْثُ أَبِیْ مُوْسٰی ہٰذَا، حَدِیْثَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ ، وَلَا حَدِیْثَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اللَّذَیْنِ ذَکَرْنَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رُوِیَ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ النَّخَعِیِّ۔
٦٨٨٥: ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت کی ہے اور وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کرتے ہیں۔ اس روایت کے مطابق یہ الفاظ یہود کے لیے فرمائے باقی مسلمانوں کے لیے وہ الفاظ ہیں جو سالم بن عبید (رض) کی روایت میں موجود ہیں جو شروع باب میں مذکور ہوئے۔ فریق اوّل کا کہنا ہے مگر پھر بھی اس روایت میں فریق اوّل کے لیے فریق ثانی کے خلاف کوئی دلیل موجود نہیں۔ کیونکہ اس روایت میں صرف یہ بات ہے کہ یہود جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس غرض سے چھینکتے کہ آپ ان کے لیے یرحمک اللہ کہیں مگر آپ ان کو ” یہدیکم اللہ ویصلح بالکم “ فرماتے تھے تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول یہود کے لیے تھا جبکہ وہ چھینکتے اس سلسلہ میں فریقین کے مابین کوئی اختلاف نہیں کہ چھینکنے والے کو جواب دینے والا کیا الفاظ کہے اختلاف تو اس قدر ہے کہ چھینکنے والا یرحمکم اللہ کے بعد کیا الفاظ کہے۔ تو روایت ابو موسیٰ میں اس کا کچھ بھی تذکرہ نہیں۔ فلہذا یہ روایت حضرت عبداللہ بن جعفر اور حضرت عائشہ (رض) کی مذکورہ روایات کے خلاف نہیں ہے۔
ابراہیم نخعی (رح) کی روایت سے استدلال :
فریق اوّل اپنی حجت کے طور پر ابراہیم نخعی (رح) کی یہ روایت پیش کرتے ہیں۔

6889

۶۸۸۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ عِیْسٰی ، ح .
٦٨٨٦: محمد بن عمرو نے یحییٰ بن عیسیٰ سے روایت کی ہے۔

6890

۶۸۸۷ : وَحَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ ، قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ عِنْدَ الْعَاطِسِ ، قَالَتْہُ الْخَوَارِجُ لِأَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلنَّاسِ .ہٰکَذَا لَفْظُ حَدِیْثِ أَبِیْ بِشْرٍ ، وَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَلِأَنَّہُمْ کَانُوْا لَا یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلنَّاسِ۔قِیْلَ لَہُمْ : وَکَیْفَ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْخَوَارِجُ أَحْدَثَتْ ہٰذَا، وَقَدْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُہُ وَیُعَلِّمُہٗ أَصْحَابَہٗ؟ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٦٨٨٧: سفیان نے واصل سے انھوں نے ابراہیم سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا ” یہدیکم اللہ ویصلح بالکم “ چھینکنے کے وقت خوارج کہتے کیونکہ وہ لوگوں کے لیے استغفار طلب نہیں کرتے تھے۔ یہ کہنا کس طرح درست ہے کہ خوارج نے اس کو ایجاد کیا ہے حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو خود فرماتے اور اپنے صحابہ کرام کو سکھاتے تھے اس سلسلہ میں مزید روایات موجود ہیں۔

6891

۶۸۸۸ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ ، وَوَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلَی ، عَنْ أَخِیْہٖ، عَنْ أَبِیْھَاعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی، عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ ، فَلْیَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلْیَقُلْ لَہٗ أَخُوْھُ أَوْ صَاحِبُہُ یَرْحَمُک اللّٰہُ وَلْیَقُلْ یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔
٦٨٨٨: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے نقل کیا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہے اور اس کا بھائی یا ساتھی یرحمک اللہ کہے اور وہ اس کے جواب میں ” یہدیکم اللہ ویصلح بالکم “ کہے۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ١٢٦‘ ترمذی فی الادب باب ٣‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٢٠‘ مسند احمد ١؍١٢٠‘ ١٢٢؍٢‘ ٣٥٣‘ ٥؍٤١٩‘ ٦؍٨۔

6892

۶۸۸۹ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ ، مِثْلَہٗ۔
٦٨٨٩: عبدالرحمن بن زیاد نے شعبہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6893

۶۸۹۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ وَحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَا : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ حَسَّانٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ السَّمَّانِ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَثَبَتَ بِذٰلِکَ ، انْتِفَائُ مَا قَالَ اِبْرَاھِیْمُ ، وَکَانَ مَا رُوِیَ مِنْ ہٰذَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَصْبَحَ مَجِیْئًا ، وَأَظْہَرُ مِمَّا رُوِیَ ، فِیْ خِلَافِہٖ، فَہُوَ أَحَبُّ اِلَیْنَا ، مِمَّا خَالَفَہٗ.
٦٨٩٠: ابو صالح السمان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ابراہیم کی بات درست نہیں ہے جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہے وہ روایت کے لحاظ سے زیادہ درست ہے اور اس سے زیادہ واضح اور ہمیں زیادہ پسند ہے اس سے جو اس کے خلاف ہے۔ امام طحاوی (رح) کا رجحان قول ثانی کی طرف ہے اسی لیے اس کو زیادہ صحیح اور اظہر قرار دیا ہے۔

6894

۶۸۹۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : قَالَ أَبُوْ سَلَمَۃَ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ : اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تُوْرِدْ الْمُمْرِضَ عَلَی الْمُصِحِّ۔فَقَالَ لَہُ الْحَارِثُ بْنُ أَبِی ذُبَابٍ فَاِنَّک قَدْ کُنْتُ حَدَّثَتْنَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا عَدْوَیْ فَأَنْکَرَ ذٰلِکَ ، أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ ، فَقَالَ الْحَارِثُ : بَلَی .فَتَمَارٰی ھُوَ وَأَبُوْ ھُرَیْرَۃَ ، حَتّٰی اشْتَدَّ أَمْرُہُمَا فَغَضِبَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ وَقَالَ لِلْحَارِثِ ، ذَکَرَہٗ مُسْلِمٌ ، فَرَطَنَ بِالْحَبَشِیَّۃِ ، ثُمَّ قَالَ لِلْحَارِثِ أَتَدْرِیْ مَا قُلْتُ؟ قَالَ الْحَارِثُ لَا قُلْتُ :تُرِیْدُ مِنَّا بِذٰلِکَ أَنِّیْ لَمْ أُحَدِّثْک مَا تَقُوْلُ۔قَالَ أَبُوْ سَلَمَۃَ : لَا أَدْرِی ، أَنَسِیَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ أَمْ شَابَہٗ، غَیْرَ أَنِّیْ لَمْ أَرَ عَلَیْہِ کَلِمَۃً نَسِیَہَا بَعْدَ اِنْ کَانَ یُحَدِّثُنَا بِہَا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، غَیْرَ اِنْکَارِہٖ مَا کَانَ یُحَدِّثُنَا فِیْ قَوْلِہٖ : لَا عَدْوٰی۔
٦٨٩١: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیمار کو تندرست پر مت لاؤ۔ ان کو حارث بن ابی ذباب نے کہا تم نے خود ہی تو ہمیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات بیان فرمائی کہ کوئی مرض متعدی نہیں تو ابوہریرہ (رض) نے اس بات کا انکار کیا تو حارث نے کہا کیوں نہیں آپ نے بیان کی ہے۔ چنانچہ حارث اور ابوہریرہ (رض) آپس میں جھگڑے یہاں تک کہ ان کا معاملہ سخت ہوگیا تو ابوہریرہ (رض) غصے میں آگئے اور حارث کو کہا۔ امام مسلم نے اس بات کو اپنی روایت میں ذکر کیا ہے۔ کہ انھوں نے حبشی زبان میں گفتگو کی پھر حارث کو کہا۔ جو کچھ میں نے کہا کیا تم اس کو سمجھے ہو ؟ حارث نے جواب میں کہا نہیں سمجھا۔ میں تو یہی کہتا ہوں کہ تمہاری مراد اس سے یہی تھی کہ میں نے وہ بات تمہیں بیان نہیں کی جو تم بیان کرتے ہو۔ ابو سلمہ کہتے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ آیا ابوہریرہ (رض) بھول گئے یا ان کو اشتباہ ہوا البتہ نسیان کا کلمہ ان کے بارے میں بیان کرنا میں پسند نہیں کرتا کیونکہ اس سے پہلے وہ ہم سے اپنا یہ ارشاد بیان کرتے لا عدویٰ ۔
تخریج : بخاری فی الطلب باب ٥٣‘ مسلم فی السلام روایت ١٠٤‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٢٤‘ مسند احمد ٢؍٢٠٦۔
خلاصہ الزام :
بعض علماء کا خیال ہے کہ صحت مند کو بیمار کے پاس جانے سے گریز کرنا چاہیے۔

6895

۶۸۹۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ أَبَا سَلَمَۃَ حَدَّثَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا عَدْوٰی وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا یُوْرِدُ مُمْرِضٌ عَلٰی مُصِحِّ ۔ قَالَ أَبُوْ سَلَمَۃَ : کَانَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ بِہِمَا کِلَیْہِمَا ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .ثُمَّ .صَمَتَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ بَعْدَ ذٰلِکَ عَنْ قَوْلِہٖ : لَا عَدْوٰی وَأَقَامَ عَلٰی أَنَّ لَا یُوْرِدُ مُمْرِضٌ عَلٰی مُصِحِّ ثُمَّ حَدَثَ مِثْلُ حَدِیْثِ ابْنِ أَبِیْ دَاوٗدَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی ھٰذَا ، فَکَرِہُوْا اِیْرَادَ الْمُمْرِضُ عَلَی الْمُصِحِّ ، وَقَالُوْا : اِنَّمَا کُرِہَ ذٰلِکَ ، مَخَافَۃَ الْاِعْدَائِ ، وَأُمِرُوْا بِاجْتِنَابِ ذِی الدَّائِ وَالْفِرَارِ مِنْہُ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا بِمَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ فِی الطَّاعُوْنِ ، فِیْ رُجُوْعِہٖ بِالنَّاسِ ، فَارًّا مِنْہُ .
٦٨٩٢: ابو سلمہ نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا عدویٰ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی بیمار صحت یاب کے پاس نہ جائے ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) یہ دونوں روایتیں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے لا عدویٰ کے قول سے خاموشی اختیار کرلی البتہ ” لایورد “ والی روایت پر قائم رہے پھر انھوں نے یہ روایت ابن ابی داؤد کی طرح بیان کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ بیمار کا صحیح کے پاس جانا مکروہ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ اس بات کو اس لیے ناپسند کیا گیا تاکہ بیماری میں تعدیہ نہ ہو اسی لیے بیمار آدمی سے پرہیز اور گریز کا حکم دیا گیا اور انھوں نے اس سلسلے میں حضرت عمر (رض) والی روایت سے استدلال کیا کہ آپ لوگوں سمیت واپس لوٹے اور اس واپسی کا مقصد طاعون سے گریز تھا (جیسا ان روایات میں ہے) ۔

6896

۶۸۹۳ : فَذَکَرُوْا مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ : ثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَقْبَلَ اِلَی الشَّامِ فَاسْتَقْبَلَہٗ أَبُو طَلْحَۃَ ، وَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ ، فَقَالَا : یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، اِنَّ مَعَک وُجُوْھُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَخِیَارُہُمْ ، وَاِنَّا تَرَکْنَا مِنْ بَعْدِنَا مِثْلَ حَرِیْقِ النَّارِ ، فَارْجِعِ الْعَامَ ، یَعْنِیْ: فَرَجَعَ عُمَرُ فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ ، جَائَ فَدَخَلَ ، یَعْنِی الطَّاعُوْنَ .
٦٨٩٣: اسحاق بن عبداللہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) شام کے دورے پر روانہ ہوئے تو حضرت ابو طلحہ اور ابو عبیدہ نے ان کا استقبال کیا اور دونوں نے کہا اے امیرالمومنین آپ کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے چنے ہوئے لوگ ہیں ہم نے اپنے پچھلے لوگوں کو آگ کی جلن کی طرح پھوڑے میں مبتلا پایا پس آپ اس سال لوٹ جائیں تو حضرت عمر (رض) لوٹ آئے جب اگلا سال آیا اور آپ شام میں داخل ہوئے تو پھر طاعون پھیل گیا۔

6897

۶۸۹۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ اِلَی الشَّامِ ، حَتّٰی اِذَا کَانَ بِسَرْغٍ ، لَقِیَہٗ أُمَرَائُ الْأَجْنَادِ ، أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ ، وَأَصْحَابُہٗ، فَأَخْبَرُوْھُ أَنَّ الْوَبَائَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ .قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَقَالَ عُمَرُ اُدْعُ لِی الْمُہَاجِرِیْنَ الْأَوَّلِیْنَ فَدَعَاہُمْ فَاسْتَشَارَہُمْ ، فَأَخْبَرَہُمْ أَنَّ الْوَبَائَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ ، فَاخْتَلَفُوْا عَلَیْہِ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : قَدْ خَرَجْتُ لِأَمْرٍ وَلَا نَرٰی أَنْ تَرْجِعَ عَنْہُ .وَقَالَ بَعْضُہُمْ : مَعَکَ بَقِیَّۃُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَا نَرٰی أَنْ تَقَدَّمَہُمْ عَلٰی ھٰذَا الْوَبَائِ فَقَالَ : اِرْتَفَعُوْا عَنِّیْ .ثُمَّ قَالَ اُدْعُوْا لِی الْأَنْصَارَ فَدَعَوْتہمْ لَہٗ، فَسَلَکُوْا سَبِیْلَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَاخْتَلَفُوْا کَاخْتِلَافِہِمْ ، فَقَالَ : ارْتَفَعُوْا عَنِّیْ .ثُمَّ قَالَ اُدْعُ لِیْ مَنْ کَانَ ہَاہُنَا ، .مِنْ .مَشْیَخَۃِ قُرَیْشٍ ، مِنْ مُہَاجِرَۃِ الْفَتْحِ فَدَعَوْتُہُمْ ، فَلَمْ یَخْتَلِفْ عَلَیْہِ مِنْہُمْ رَجُلَانِ .قَالُوْا : نَرٰی أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ ، وَلَا تَقَدَّمَہُمْ عَلٰی ھٰذَا الْوَبَائِ .فَنَادٰی عُمَرُ فِی النَّاسِ فِیْ مُصْبِحٍ عَلٰی ظَہْرٍ ، فَأَصْبَحُوْا عَلَیْہِ۔قَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ : أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللّٰہِ ؟ فَقَالَ عُمَرُ لَوْ غَیْرُک قَالَہَا یَا أَبَا عُبَیْدَۃَ ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللّٰہِ اِلٰی قَدَرِ اللّٰہِ، أَرَأَیْتُ لَوْ کَانَتْ لَک اِبِلٌ ، فَہَبَطَتْ وَادِیًا ، لَہٗ عُدْوَتَانِ ، اِحْدَاہُمَا خِصْبَۃٌ ، وَالْأُخْرٰی جَدْبَۃٌ ، أَلَیْسَ اِنْ رَعَیْتَ الْخِصْبَۃَ ، رَعَیْتُہُا بِقَدَرِ اللّٰہِ، وَاِنْ رَعَیْتَ، الْجَدْبَۃَ رَعَیْتُہُا بِقَدَرِ اللّٰہِ ؟ ۔قَالَ : فَجَائَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ ، وَکَانَ غَائِبًا فِیْ بَعْضِ حَاجَتِہٖ، فَقَالَ اِنَّ عِنْدِیْ مِنْ ہٰذَا عِلْمًا ، اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : اِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِأَرْضٍ ، فَلَا تَقْدُمُوْا عَلَیْہٖ، وَاِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا ، فَلَا تَخْرُجُوْا فِرَارًا مِنْہُ قَالَ : فَحَمِدَ اللّٰہَ عُمَرُ ، ثُمَّ انْصَرَفَ .
٦٨٩٤: عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جب حضرت عمر (رض) شام کے دورے پر روانہ ہوئے تو جب آپ مقام سرغ میں پہنچے تو آپ کو اجناد کے امراء ملے جن میں حضرت ابو عبیدہ (رض) اور ان کے ساتھی تھے انھوں نے اطلاع دی کہ شام کے علاقہ میں وباء داخل ہوچکی ہے ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا مہاجرین اولین کو بلاؤ چنانچہ ان کو بلا کر ان سے مشورہ کیا اور ان کو بتلایا کہ شام میں وباء بڑھ چکی (اب اس کا کیا حکم ہے) انھوں نے اس سلسلے میں مختلف رائے دی بعض نے کہا آپ ایک کام کے لیے نکلے ہم مناسب خیال نہیں کرتے کہ آپ کرنے کے بغیر واپس لوٹ جائیں دوسروں نے کہا آپ کے پاس بقیہ لوگ اور اصحاب رسول ہیں ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ آپ ان کو لے کر وباء میں داخل ہوں آپ نے فرمایا تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ پھر فرمایا تم میرے لیے انصار کو بلاؤ چنانچہ میں نے ان کو بلایا چنانچہ وہ بھی مہاجرین کی راہ پر چلے اور اسی طرح اختلاف کیا آپ نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ جاؤ پھر فرمایا یہاں جو قریش کے بوڑھے لوگ فتح کے مہاجرین میں سے ہیں ان کو بلاؤ چنانچہ ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہیں کیا سب نے کہا ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ لوگوں کو لے کر لوٹ جائیں اور اس وباء پر ان کو پیش نہ کریں چنانچہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں میں اعلان کردیا کہ میں صبح کے وقت سفر پر جانے والا ہوں چنانچہ وہ صبح سویرے آگئے حضرت ابو عبیدہ کہنے لگے کیا اللہ کی تقدیر سے آپ بھاگتے ہیں حضرت عمر (رض) کہنے لگے اگر تیرے علاوہ اور کوئی یہ کلمہ کہتا (تو مجھے جواب کی ضرورت نہیں تھی) ہاں اللہ کی تقدیر سے ہم اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں تمہارا کیا خیال ہے اگر آپ کے پاس اونٹ ہوں اور ان اونٹوں کے ساتھ ایک ایسی وادی میں اتریں جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سبز اور دوسرا قحط زدہ ہو تو کیا اسی طرح نہیں کہ اگر تم سرسبز میں جانور چراؤ تو وہ اللہ کی تقدیر سے ہیں اور اگر تم قحط والے حصے میں جانور چراؤ تو وہاں بھی اللہ کی تقدیر سے چراؤ گے راوی کہتے ہیں کہ اچانک عبدالرحمن بن عوف آگئے وہ کسی ضرورت کی وجہ سے وہاں موجود نہیں تھے وہ کہنے لگے اس سلسلے میں میرے پاس معلومات ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ جب تمہیں معلوم ہو کہ کسی زمین میں طاعون پھیل گیا ہے تو وہاں مت جاؤ اور جب کسی ایسی زمین میں واقع ہو جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے فرار اختیار کرتے ہوئے مت نکلو ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے الحمد للہ کہا پھر واپس روانہ ہوگئے۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ٣٠‘ والحیل باب ١٣‘ مسلم فی السلام روایت ٩٨‘ مالک فی المدینہ روایت ٢٢‘ مسند احمد ١؍١٩۔

6898

۶۸۹۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ اِلَی الشَّامِ .فَلَمَّا جَائَ بِسَرْغٍ ، بَلَغَہٗ أَنَّ الْوَبَائَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ ، فَأَخْبَرَہٗ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذَکَرَ مَا فِیْ حَدِیْثِ یُوْنُسَ ، الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا، مِنْ حَدِیْثِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ خَاصَّۃً ، قَالَ : فَرَجَعَ عُمَرُ مِنْ سَرْغٍ .
٦٨٩٥: عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) شام کی طرف روانہ ہوئے جب مقام سرغ میں پہنچے تو ان کو اطلاع ملی کہ شام میں وباء پھیل گئی ہے تو ان کو عبدالرحمن بن عوف نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ روایت ذکر کی جس میں وہی تذکرہ ہے جو روایت یونس میں گزرا خاص طور پر حدیث عبدالرحمن ہیں یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) مقام سرغ سے لوٹے۔

6899

۶۸۹۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ ھِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، حِیْنَ أَرَادَ الرُّجُوْعَ مِنْ سَرْغٍ ، وَاسْتَشَارَ النَّاسَ .فَقَالَتْ طَائِفَۃٌ ، مِنْہُمْ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ أَمِنَ الْمَوْتِ تَفِرُّ ؟ اِنَّمَا نَحْنُ بِقَدَرٍ ، وَلَنْ یُصِیْبَنَا اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا۔فَقَالَ عُمَرُ : یَا أَبَا عُبَیْدَۃَ ، لَوْ کُنْتُ بِوَادٍ ، اِحْدٰی عُدْوَتَیْہِ مُخَصَّبَۃٌ ، وَالْأُخْرٰی مُجْدِبَۃٌ ، أَیُّہُمَا کُنْتُ تَرْعٰی؟ قَالَ : الْمُخَصَّبَۃُ .قَالَ : فَاِنَّا اِنْ تَقَدَّمْنَا فَبِقَدَرٍ ، وَاِنْ تَأَخَّرْنَا فَبِقَدَرٍ ، وَفِیْ قَدَرٍ ، نَحْنُ .
٦٨٩٦: حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے جب مقام سرغ سے لوٹنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں سے مشورہ کیا ایک جماعت نے جن میں ابو عبیدہ (رض) بھی تھے انھوں نے کہا کیا موت سے آپ بھاگتے ہیں اور ہمارا تو وقت مقرر ہے اور ہمیں وہی ملے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے ابو عبیدہ اگر تم ایک وادی میں ہو جس کا ایک کنارہ شاداب ہو اور دوسرا قحط زدہ ہو تم ان میں سے کس کنارے پر چراؤ گے انھوں نے کہا سرسبز کنارے پر آپ (رض) نے فرمایا ہمارا آنا بھی اللہ کی تقدیر سے ہے اور ہمارا واپس لوٹنا بھی اللہ کی تقدیر سے ہے اور ہم بھی اللہ کی تقدیر میں ہیں۔

6900

۶۸۹۷ : حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَکَمِ الْجِیزِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِیٍّ ، ح .
٦٨٩٧: حسین جیزی نے عاصم بن علی سے بیان کیا۔

6901

۶۸۹۸ : وَحَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ : سَمِعْتُ طَارِقَ بْنَ شِہَابٍ ، قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ اِلٰی أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ .فَقَالَ لَنَا ذَاتَ یَوْمٍ لَا عَلَیْکُمْ أَنْ تَخْفُوْا عَنِّیْ ، فَاِنَّ ہٰذَا الطَّاعُوْنَ قَدْ وَقَعَ فِیْ أَہْلِی ، فَمَنْ شَائَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَنَزَّہَ فَلْیَتَنَزَّہْ ، وَاحْذَرُوْا اثْنَتَیْنِ ، أَنْ یَقُوْلَ قَائِلٌ : خَرَجَ خَارِجٌ فَسَلِمَ ، وَجَلَسَ جَالِسٌ فَأُصِیْبَ ، لَوْ کُنْتُ خَرَجْتُ لَسَلِمْت کَمَا سَلِمَ آلُ فُلَانٍ أَوْ یَقُوْلُ قَائِلٌ : لَوْ کُنْتُ جَلَسْتُ لَأُصِبْتُ کَمَا أُصِیْبَ آلُ فُلَانٍ ، وَاِنِّیْ سَأُحَدِّثُکُمْ مَا یَنْبَغِیْ لِلنَّاسِ فِی الطَّاعُوْنِ ، اِنِّیْ کُنْتُ مَعَ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ ، وَأَنَّ الطَّاعُوْنَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ ، وَأَنَّ عُمَرَ کَتَبَ اِلَیْہِ اِذَا أَتَاک کِتَابِیْ ہٰذَا، فَاِنِّیْ أَعْزِمُ عَلَیْکَ، اِنْ أَتَاک مُصْبِحًا ، لَا تُمْسِیْ حَتّٰی تَرْکَبَ ، وَاِنْ أَتَاک مُمْسِیًا ، لَا تُصْبِحُ حَتّٰی تَرْکَبَ اِلَیَّ فَقَدْ عَرَضَتْ لِیْ اِلَیْکَ حَاجَۃٌ لَا غِنَائِیْ عَنْک فِیْہَا۔فَلَمَّا قَرَأَ أَبُو عُبَیْدَۃَ الْکِتَابَ قَالَ : اِنَّ أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَرَادَ أَنْ یُسْتَبْقَیْ مَنْ لَیْسَ بِبَاقٍ .فَکَتَبَ اِلَیْہِ أَبُو عُبَیْدَۃَ اِنِّیْ فِیْ جُنْدٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اِنِّیْ فَرَرْتُ مِنَ الْمَنَاۃِ وَالسَّیْرِ لَنْ أَرْغَبَ بِنَفْسِیْ عَنْہُمْ ، وَقَدْ عَرَفْنَا حَاجَۃَ أَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ، فَحَلِّلْنِیْ مِنْ عَزْمَتِکَ۔ فَلَمَّا جَائَ عُمَرَ الْکِتَابُ ، بَکَی ، فَقِیْلَ لَہٗ : تُوُفِّیَ أَبُو عُبَیْدَۃَ ؟ قَالَ : لَا ، وَکَانَ قَدْ کَتَبَ اِلَیْہِ عُمَرُ : اِنَّ الْأُرْدُنَّ أَرْضُ عُمْقٍ ، وَاِنَّ الْجَابِیَۃَ أَرْضُ نُزْہَۃٍ بِالْمُسْلِمِیْنَ اِلَی الْجَابِیَۃِ۔فَقَالَ لِی أَبُو عُبَیْدَۃَ : انْطَلِقْ فَبَوِّئْ الْمُسْلِمِیْنَ مَنْزِلَہُمْ ، فَقُلْتُ :لَا أَسْتَطِیْعُ .قَالَ : فَذَہَبَ لِیَرْکَبَ وَقَالَ لِیْ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ قَالَ : فَأَخَذَہُ أَخْذَۃٌ ، فَطُعِنَ فَمَاتَ ، وَانْکَشَفَ الطَّاعُوْنُ .قَالُوْا : فَہٰذَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ یَخْرُجُوْا مِنَ الطَّاعُوْنِ ، وَوَافَقَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَوٰی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا یُوَافِقُ مَا ذَہَبَ اِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْ مِثْلِ ہٰذَا، مَا رَوٰی عَبْدُ الرَّحْمٰنِ .
٦٨٩٨: ابن شہاب نے ابو موسیٰ اشعری کی طرف نسبت کر کے بیان کیا ہمیں ایک دن فرمانے لگے تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم مجھ سے چھپے رہو یہ طاعون میرے گھر میں داخل ہوگئی ہے پس جو چاہے تم میں سے بچے وہ علیحدگی اختیار کرے اور دو چیزوں سے خاص طور پر احتیاط کرو کہ کہنے والا یہ کہے کہ نکلنے والا نکل گیا وہ بچ گیا اور بیٹھنے والا بیٹھا رہا پس اس کو طاعون پہنچ گئی اگر میں بھی نکل جاتا تو میں بھی اسی طرح بچ جاتا جس طرح فلاں گھر والے بچ گئے۔ کوئی کہنے والا یوں کہنے لگے اگر میں بھی بیٹھا رہتا تو مجھے بھی طاعون آ لیتی جیسے فلاں کو آئی میں تمہیں عنقریب بتاتا ہوں کہ طاعون میں لوگوں کو کیا مناسب ہے میں حضرت ابو عبیدہ کے ساتھ شام میں تھا اور شام میں طاعون بڑھ گئی حضرت عمر (رض) نے ان کی طرف خط لکھا کہ جب تمہیں میرا یہ خط پہنچے تو میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اگر یہ صبح سویرے خط آئے تو شام ہونے سے پہلے تم سوار ہوجاؤ اور اگر شام کے وقت آئے تو صبح ہونے سے پہلے تم میری طرف سوار ہو کر آ جاؤ مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے جس میں تمہارے بغیر مجھے چارہ کار نہیں جب حضرت ابو عبیدہ (رض) نے یہ خط پڑھا تو کہنے لگے امیرالمومنین اس کو باقی رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں چنانچہ ان کی طرف حضرت ابو عبیدہ (رض) نے لکھا میں مسلمانوں کے لشکر میں ہوں مجھے آرزو اور رازداری سے نفرت ہے میں اپنے نفس کے بارے میں رغبت رکھتے ہوئے ان سے ہرگز دوری اختیار نہیں کرسکتا ہمیں امیرالمومنین کی ضرورت معلوم ہوگئی پس اپنی قسم کو میرے بارے میں توڑ دیجئے جب حضرت عمر (رض) کے پاس خط پہنچا تو وہ رو پڑے ان سے پوچھا گیا کیا ابو عبیدہ کی وفات ہوگئی انھوں نے کہا نہیں حضرت عمر (رض) نے ان کی طرف لکھا تھا کہ اردن گہری سرزمین ہے اور جابیہ صحت مند سرزمین ہے پس تم مسلمانوں کو لے کر جابیہ میں آ جاؤ مجھے ابو عبیدہ کہنے لگے کہ جاؤ اور مسلمانوں کے لیے ان کے ٹھکانے مقرر کر دو میں نے کہا میں اس کی طاقت نہیں رکھتا راوی کہتے ہیں کہ وہ سوار ہونے کے لیے چلے گئے تو مجھے ایک آدمی نے کہا کہ ان کو طاعون نے پکڑ لیا ہے چنانچہ وہ طاعون میں مبتلا ہوئے اور وفات پائی اور طاعون پھیل پڑا۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جنہوں نے لوگوں کو طاعون سے نکلنے کا حکم دیا اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سلسلے میں ان کی موافقت کی اور عبدالرحمن بن عوف (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک ارشاد نقل کیا تو اس رائے کے موافق تھا اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے علاوہ بھی دیگر صحابہ ] نے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔

6902

۶۸۹۹ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ یَحْیٰی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنِ الْحَضْرَمِیِّ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِذَا کَانَ الطَّاعُوْنُ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا ، فَلَا تَفِرُّوْا مِنْہَا ، وَاِذَا کَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَہْبِطُوْا عَلَیْہَا۔
٦٨٩٩: سعید بن مسیب نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ جب طاعون کسی مقام میں ہو۔ وہاں موجودہو تو اس سرزمین سے مت بھاگو اور جب کسی سرزمین میں نہ ہو وہاں مت جاؤ۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٨٠‘ ١٨٦۔

6903

۶۹۰۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی الْحَضْرَمِیُّ أَنَّ لَاحِقًا حَدَّثَہٗ أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ حَدَّثَہٗ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٠٠: سعید بن مسیب نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6904

۶۹۰۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ قَالَ اِنَّ ہٰذَا الْوَجَعَ وَالسَّقَمَ ، رِجْزٌ وَعَذَابٌ عُذِّبَ بِہٖ بَعْضُ ہٰذِہِ الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ ، ثُمَّ بَقِیَ فِی الْأَرْضِ ، فَیَذْہَبُ الْمَرَّۃَ وَیَأْتِی الْأُخْرٰی فَمَنْ سَمِعَ بِہَا فِیْ أَرْضٍ فَلَا یَقْدَمَنَّ عَلَیْہٖ، وَمَنْ وَقَعَ بِأَرْضٍ وَہُوَ بِہَا ، فَلَا یُخْرِجُہُ الْفِرَارُ مِنْہُ۔
٦٩٠١: عامر بن سعد نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا یہ درد اور بیماری یہ عذاب تھا جس سے پہلی امتوں میں سے ایک کو عذاب دیا گیا۔ (بنی اسرائیل) پھر یہ زمین میں باقی رہ گئی۔ کبھی ختم ہوتی ہے اور کبھی پھر سے لوٹ آتی ہے جو آدمی یہ سنے کہ فلاں سرزمین میں یہ بیماری واقع ہے تو وہاں نہ جائے اور جو ایسی جگہ میں ہو جہاں طاعون موجود ہو تو وہاں سے فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلے۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٩٣۔

6905

۶۹۰۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ ہٰذَا الطَّاعُوْنَ رِجْزٌ وَعَذَابٌ عُذِّبَ بِہٖ قَوْمٌ ، فَاِذَا کَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَہْبِطُوْا عَلَیْہٖ، وَاِذَا وَقَعَ ، وَأَنْتُمْ بِأَرْضٍ ، فَلَا تَخْرُجُوْا عَنْہُ۔
٦٩٠٢: ابراہیم بن سعد نے کہا میں نے حضرت اسامہ بن زید سے سنا کہ وہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے تھے کہ یہ طاعون عذاب ہے جس سے پہلی اقوام میں سے ایک کو عذاب دیا گیا جب یہ کسی زمین میں ہو تو وہاں مت اترو۔ اور جب یہ آپڑے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے نکل کر مت جاؤ۔
تخریج : مسند احمد ٤؍١٩٥۔

6906

۶۹۰۳ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ أَبِی النَّضْرِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَاہُ یَسْأَلُ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ : أَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ الطَّاعُوْنَ ؟ قَالَ : نَعَمْ .قَالَ : کَیْفَ سَمِعْتُہٗ ؟ قَالَ : سَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ ہُوَ رِجْزٌ سَلَّطَہُ اللّٰہُ عَلَی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ، أَوْ عَلٰی قَوْمٍ ، فَاِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدُمُوْا عَلَیْہِ، وَاِنْ وَقَعَ وَأَنْتُمْ بِأَرْضٍ ، فَلَا تَخْرُجُوْا، فِرَارًا مِنْہُ۔
٦٩٠٣: عامر بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ اسامہ بن زید (رض) سے پوچھ رہے تھے کیا تم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طاعون کا تذکرہ سنا ہے انھوں نے کہا جی ہاں۔ انھوں نے کہا تم نے کس طرح سنا ؟ تو انھوں نے بتلایا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ وہ عذاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر مسلط فرمایا یا کسی قوم پر مسلط فرمایا۔ جب تم اس کے بارے میں سنو کہ یہ کسی سرزمین میں بڑھ گئی ہے تو وہاں مت جاؤ اور جب تمہارے موجود ہوتے ہوئے کسی جگہ پڑجائے تو وہاں سے فرار اختیار کرتے ہوئے مت نکلو۔

6907

۶۹۰۴ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ ، وَأَبِی النَّضْرِ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٩٠٤: ابن منکدر نے ابی النضر سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی۔

6908

۶۹۰۵ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ وَفَہْدٌ ، قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ الْہَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ ذُکِرَ الطَّاعُوْنُ عِنْدَہٗ فَقَالَ اِنَّہٗ رِجْسٌ ، أَوْ رِجْزٌ ، عُذِّبَ بِہٖ أُمَّۃٌ مِنَ الْأُمَمِ ، وَقَدْ بَقِیَتْ مِنْہُ بَقَایَا۔ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَ حَدِیْثِ یُوْنُسَ وَزَادَ قَالَ لِیْ مُحَمَّدٌ : فَحَدَّثْتُ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، فَقَالَ لِی : ہٰکَذَا حَدَّثَنِیْ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ۔
٦٩٠٥: عامر بن سعد نے اسامہ بن زید سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ آپ کے پاس طاعون کا تذکرہ کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ پلیدی یا عذاب ہے جس سے کسی امت کو عذاب دیا گیا اور اس سے باقی بچ گئی پھر انھوں نے یونس کی روایت کی طرح روایت کی البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ مجھے محمد نے کہا یہ روایت میں نے عمر بن عبدالعزیز (رح) کو بیان کی تو انھوں نے فرمایا اسی طرح مجھے عامر بن سعد نے بیان کی۔

6909

۶۹۰۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ خَالِدٍ الْمَخْزُوْمِیُّ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ أَوْ عَنْ عَمِّہٖ، عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ اِذَا وَقَعَ الطَّاعُوْنُ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا ، فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْہَا ، وَاِذَا کُنْتُمْ بِغَیْرِہَا ، فَلَا تَقْدُمُوْا عَلَیْہَا۔
٦٩٠٦: عکرمہ بن خالد مخزومی نے اپنے والد سے یا اپنے چچا سے اور اپنے دادا سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک میں فرمایا جب طاعون کسی سرزمین میں پڑجائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو اور جب تم اور کسی علاقے میں ہو تو وہاں مت جاؤ۔
تخریج : مسند احمد ١؍١٧٨‘ ٣؍٤١٦‘ ٤؍١٧٧‘ ٥؍٢٠٦۔

6910

۶۹۰۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ یَزِیْدَ بْنِ حُمَیْدٍ قَالَ : سَمِعْت شُرَحْبِیْلَ بْنَ حَسَنَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : اِنَّ الطَّاعُوْنَ وَقَعَ بِالشَّامِ فَقَالَ عَمْرٌو تَفَرَّقُوْا عَنْہُ فَاِنَّہٗ رِجْزٌ .فَبَلَغَ ذٰلِکَ شُرَحْبِیْلَ بْنَ حَسَنَۃَ فَقَالَ : قَدْ صَحِبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَسَمِعْتُہٗ .یَقُوْلُ اِنَّہَا رَحْمَۃُ رَبِّکُمْ ، وَدَعْوَۃُ نَبِیِّکُمْ وَمَوْتُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ ، فَاجْتَمِعُوْا لَہٗ، وَلَا تَفَرَّقُوْا عَلَیْہِ فَقَالَ عَمْرٌو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : صَدَقَ .قَالُوْا : فَقَدْ أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ أَنْ لَا یُقْدَمَ عَلَی الطَّاعُوْنِ ، وَذٰلِکَ لِلْخَوْفِ مِنْہُ .قِیْلَ لَہُمْ : مَا فِیْ ہٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی مَا ذَکَرْتُمْ ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ أَمَرَہٗ بِتَرْکِ الْقُدُوْمِ لِلْخَوْفِ مِنْہٗ، لَکَانَ یُطْلِقُ لِأَہْلِ الْمَوْضِعِ .الَّذِی .وَقَعَ فِیْہِ أَیْضًا الْخُرُوْجَ مِنْہٗ، لِأَنَّ الْخَوْفَ عَلَیْہِمْ مِنْہٗ، کَالْخَوْفِ عَلٰی غَیْرِہِمْ .فَلَمَّا مَنَعَ أَہْلَ الْمَوْضِعِ الَّذِیْ وَقَعَ فِیْہِ الطَّاعُوْنُ مِنَ الْخُرُوْجِ مِنْہٗ، ثَبَتَ أَنَّ الْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہِ مَنَعَہُمْ مِنَ الْقُدُوْمِ ، غَیْرُ الْمَعْنَی الَّذِیْ ذٰہَبْتُمْ اِلَیْہِ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا مَعْنٰی ذٰلِکَ الْمَعْنٰیْ؟ .قِیْلَ لَہٗ : ہُوَ - عِنْدَنَا ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - عَلٰی أَنْ لَا یَقْدُمَ عَلَیْہِ رَجُلٌ ، فَیُصِیْبَہٗ بِتَقْدِیرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِ أَنْ یُصِیْبَہُ فَیَقُوْلَ لَوْلَا أَنِّیْ قَدُمْت ہٰذِہِ الْأَرْضَ ، مَا أَصَابَنِیْ ہٰذَا الْوَجَعُ وَلَعَلَّہٗ لَوْ أَقَامَ فِی الْمَوْضِعِ الَّذِی خَرَجَ مِنْہُ لَأَصَابَہُ فَأُمِرَ أَنْ لَا یَقْدُمَہَا ، خَوْفًا مِنْ ہٰذَا الْقَوْلِ .وَکَذٰلِکَ أُمِرَ أَنْ لَا یَخْرُجَ مِنَ الْأَرْضِ الَّتِیْ نَزَلَ بِہَا ، لِئَلَّا یَسْلَمَ فَیَقُوْلَ لَوْ أَقَمْتُ فِی تِلْکَ الْأَرْضِ ، لَأَصَابَنِیْ مَا أَصَابَ أَہْلَہَا وَلَعَلَّہٗ لَوْ کَانَ أَقَامَ بِہَا ، مَا أَصَابَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ .فَأُمِرَ بِتَرْکِ الْقُدُوْمِ عَلَی الطَّاعُوْنِ ، لِلْمَعْنَی الَّذِیْ وَصَفْنَا ، وَبِتَرْکِ الْخُرُوْجِ عَنْہُ، لِلْمَعْنَی الَّذِیْ ذَکَرْنَا .وَکَذٰلِکَ مَا رَوَیْنَا عَنْہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ قَوْلِہٖ لَا یُوْرِدُ مُمْرِضٌ عَلٰی مُصِحٍ فَیُصِیْبُ الْمُصِحَّ ذٰلِکَ الْمَرَضُ ، فَیَقُوْلُ الَّذِی أَوْرَدَہُ عَلَیْہِ لَوْ أَنِّیْ لَمْ أُوْرِدْہُ عَلَیْہٖ، لَمْ یُصِبْہُ مِنْ ہٰذَا الْمَرَضِ شَیْئٌ وَلَعَلَّہٗ لَوْ لَمْ یُوْرِدْہُ أَیْضًا لَأَصَابَہُ کَمَا أَصَابَہُ لَمَّا أَوْرَدَہُ .فَأُمِرَ بِتَرْکِ اِیْرَادِہٖ وَہُوَ صَحِیْحٌ ، عَلٰی مَا ہُوَ مَرِیْضٌ ، لِہٰذِہِ الْعِلَّۃِ الَّتِیْ لَا یُؤْمَنُ عَلَی النَّاسِ وُقُوْعُہَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَقَوْلِہِمْ ، مَا ذَکَرْنَا بِأَلْسِنَتِہِمْ . وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ نَفْیِ الْاِعْدَائِ۔
٦٩٠٧: شرحبیل بن حسنہ حضرت عمرو بن عاص سے بیان کرتے ہیں کہ شام میں طاعون واقع ہوئی عمرو کہنے لگے اس سے الگ ہوجاؤ اس لیے کہ یہ عذاب ہے یہ بات حضرت شرحبیل بن حسنہ کو پہنچی تو کہنے لگے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں موجود تھا میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا یہ تمہارے رب کی رحمت ہے اور تمہارے پیغمبر کی دعا ہے اور تم سے پہلے صالحین کی موت ہے پس تم اس کے لیے جمع رہو اور منتشر مت ہو تو حضرت عمرو (رض) کہنے لگے انھوں نے سچ کہا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آثار میں حکم فرمایا کہ جہاں طاعون ہو وہاں آدمی نہ جائے اور یہ طاعون کے خطرے ہی کے پیش نظر ہے۔ جو بات تم نے کہی روایت میں اس کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اگر طاعون کے خطرے کی وجہ سے آمد کو چھوڑ دینے کا حکم ہوتا تو پھر یہ اس مقام کے تمام لوگوں کے لیے عام ہوتا جہاں یہ واقع ہوئی کہ وہ وہاں سے نکل جائیں کیونکہ ان کے متعلق خطرہ دوسروں کے خطرے کی طرح ہے تو جب اس مقام والے لوگوں کا طاعون کے مقام سے نکلنا ممنوع ہے تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہاں آنے کی ممانعت جس مقصد کی بنیاد پر ہے وہ اس سے مختلف ہے جو تم نے اختیار کیا۔ وہ کیا مقصد ہے واضح کریں۔ واللہ اعلم۔ ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی وہاں نہ جائے کہ اس کو اللہ کی تقدیر سے وہ طاعون پہنچ گئی تو وہ کہیں یہ نہ کہنے لگے اگر میں اس علاقہ میں نہ آتا تو یہ تکلیف نہ پہنچتی اور شاید وہ اگر اس جگہ میں اقامت اختیار کرتا جہاں سے وہ نکلا ہے تو ضرور اس کو یہ پہنچ جاتی اس لیے حکم دے دیا کہ وہ وہاں نہ جائے تاکہ اس قسم کی بات اس کی زبان سے نہ نکلے اور اسی طرح یہ حکم دیا کہ وہ اس سرزمین سے نہ نکلے جہاں طاعون اتری ہے تاکہ وہ یہ کہنے سے بچ جائے اگر میں اس زمین میں اقامت اختیار کرتا تو مجھے وہ طاعون پہنچ جاتی جو وہاں کے لوگوں کو پہنچی ہے شاید کہ وہ وہاں اقامت اختیار کرتا تو کوئی چیز بھی اس کو نہ پہنچتی اس لیے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طاعون والے علاقے میں جانے سے منع کیا جو کہ اسی بنیاد پر ہے جو ہم نے بیان کی اور وہاں سے نکلنے سے روک دیا اس کا وہی مطلب ہے جو ہم نے بیان کیا اسی طرح وہ روایات جو شروع باب میں ” لایورد ممرض علی مصح “ کہیں صحت یاب کو وہ بیماری نہ پہنچ جائے کہ وہ یہ کہنے لگ جائے کہ کاش کہ میں اس کی ملاقات کے لیے نہ آتا اور اس کو اس بیماری میں سے کوئی چیز پہنچتی حالانکہ شاید اگر وہ وہاں نہ آتا تو ضرور اس کو وہ تکلیف پہنچ جاتی جیسا کہ اس کے آنے سے وہ تکلیف اس کو پہنچی پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحت یاب کو مریض کے پاس جانے سے اسی لیے منع کیا کہ تاکہ لوگوں کے دلوں میں اور زبان پر اس قسم کے کلمات نہ آئیں۔
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعدی مرض کی نفی سے متعلق روایات :

6911

۶۹۰۸ : مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ یَحْییْ بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنِ الْحَضْرَمِیِّ ، أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیْدًا عَنِ الطِّیَرَۃِ ، فَانْتَہَرَنِیْ وَقَالَ مَنْ حَدَّثَکَ؟ فَکَرِہْتُ أَنْ أُحَدِّثَہٗ .فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَۃَ۔
٦٩٠٨: سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے سعید سے بدفالی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا تمہیں یہ بات کس نے بیان کی میں نے تو اس کا بیان کرنا بھی ناپسند کیا چنانچہ کہنے لگے میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ نہ کوئی بیماری متعدی ہے اور نہ بدفالی کی کچھ حقیقت ہے۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ١٩‘ مسلم فی السلام روایت ١٠٢‘ ابو داؤد فی الطب باب ٢٤‘ ابن ماجہ فی المقدمہ باب ١٠‘ مسند احمد ١؍١٧٤‘ ٢؍٢٥‘ ١٥٣‘ ٣؍١١٨‘ ١٣٠‘ ٣١٢۔

6912

۶۹۰۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ ، قَالَ : ثَنَا أَبَانُ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی ، فَذَکَرَہٗ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، وَزَادَ وَلَا ہَامَۃَ۔
٦٩٠٩: ابان نے یحییٰ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ البتہ ” ولا ہامۃ “ کا اضافہ ہے یعنی مردہ کی کھوپڑی سے کوئی جانور نکلنا کچھ حقیقت نہیں رکھتا ۔

6913

۶۹۱۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، ح .
٦٩١٠: فہد نے عثمان بن ابی شیبہ سے روایت کی ہے۔

6914

۶۹۱۱ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نُمَیْرٍ ، قَالَا : ثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ عُقْبَۃَ الشَّیْبَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حَمْزَۃُ الزَّیَّاتُ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِیْ ثَابِتٍ ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ یَزِیْدَ الْحِمَّانِیِّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُعْدِیْ سَقِیْمٌ صَحِیْحًا۔
٦٩١١: ثعلبہ بن یزید حمانی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی بیمار آدمی تعدیہ سے کسی صحت مند کو بیمار نہیں کرسکتا۔

6915

۶۹۱۲ : حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیْ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا طِیَرَۃَ ، وَلَا ہَامَۃَ ، وَلَا عَدْوٰی قَالَ رَجُلٌ : تَطْرَحُ الشَّاۃَ الْجَرْبَائَ فِی الْغَنَمِ ، فَتُجَرِّبُہُنَّ ؟ .قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَابْنُ عَبَّاسٍ فَالْأُوْلٰی ، مَنْ أَجْرَبَہَا ؟۔
٦٩١٢: عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہ بدفالی ہے نہ الو کی نحوست ہے اور نہ کوئی بیماری متعدی ہے ایک آدمی کہنے لگا خارشی بکری کو اگر بکریوں میں چھوڑا جائے تو وہ ان کو خارشی بنا دیتی ہے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ پہلی کو کس نے خارشی بنایا۔
تخریج : بخاری باب ٥٣‘ ٥٤‘ مسلم فی السم ١٠١‘ ابو داؤد فی الطب باب ٢٤‘ ترمذی فی الجنائز باب ٢٣‘ ابن ماجہ فی المقدمہ باب ١٠‘ مسند احمد ١؍٤٤٠‘ ٢‘ ٢٥؍٢٦٧‘ ٥٢٦؍٥٣١۔

6916

۶۹۱۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَشُکَّ فِیْ شَیْئٍ مِنْہٗ، وَذَکَرَہٗ کُلَّہٗ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٩١٣: ابو عوانہ نے سماک سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ انھوں نے اس میں سے کسی چیز کو شک سے بیان نہیں کیا بلکہ تمام جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا ہے۔

6917

۶۹۱۴ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ ، قَالَ : ثَنَا شُرَیْحُ بْنُ النُّعْمَانِ ، قَالَ ثِنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِیْرٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا عَدْوَی .فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَاِنَّ النَّقِیَّۃَ مِنَ الْجَرَبِ ، تَکُوْنُ بِجَنْبِ الْبَعِیْرِ ، فَیَشْمَلُ ذٰلِکَ الْاِبِلَ کُلَّہَا جَرَبًا ؟ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنْ أَعْدَی الْأَوَّلَ ؟ خَلَقَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ کُلَّ دَابَّۃٍ فَکَتَبَ أَجَلَہَا وَرِزْقَہَا ، وَأَثَرَہَا۔
٦٩١٤: ابو زرعہ بن عمرو بن جریر نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کوئی مرض متعدی نہیں۔ ایک آدمی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ذرا سی خارش اونٹ کی ایک جانب ہوتی ہے پھر وہ تمام اونٹوں میں خارش پیدا کردیتی ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بتاؤ پہلے تک کس نے مرض پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی تخلیق فرما کر اس کی مدت مقررہ ‘ رزق اور اس کے نشانہائے قدم لکھ دیئے۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ٢٥‘ ٥٣‘ مسلم فی السلام ١٠٢‘ ابو داؤد فی الطب باب ٢٤‘ مسنداحمد ١؍٢٦٩‘ ٢؍٢٦٧‘ ٤٥٥؍٥٢٦۔

6918

۶۹۱۵ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩١٥: ابو زرعہ نے ایک آدمی سے اس نے عبداللہ سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6919

۶۹۱۶ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ ، قَالَ : ثَنَا حَسَّانُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْکَرْمَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَسْرُوْقٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩١٦: ابو زرعہ نے ایک صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انھوں نے ابن مسعود (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6920

۶۹۱۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩١٧: ابو زرعہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6921

۶۹۱۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ وَیُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ حَمْزَۃَ وَسَالِمٍ ، ابْنٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہٗ قَالَ : لَا عَدْوٰی۔
٦٩١٨: حمزہ وسالم نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی مرض متعدی نہیں۔

6922

۶۹۱۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جَرِیْحٍ ، ح .
٦٩١٩: ابو عاصم نے ابن جریج سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6923

۶۹۲۰ : وَحَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، أَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ حَدَّثَہٗ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٢٠: ابوالزبیر نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6924

۶۹۲۱ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ ، قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٢١: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6925

۶۹۲۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٢٢: قتادہ نے انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6926

۶۹۲۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ عَجْلَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی الْقَعْقَاعُ بْنُ حَکِیْمٍ ، وَزَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، وَعُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مِقْسَمٍ ، عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔وَزَادَ وَلَا ہَامَۃَ ، وَلَا غُوْلَ ، وَلَا صَفَرَ۔قَالَ أَبُوْ صَالِحٍ : فَسَافَرْت اِلَی الْکُوْفَۃِ ثُمَّ رَجَعْت ، فَاِذَا أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ یَنْتَقِصُ لَا عَدْوٰی لَا یَذْکُرُہَا .فَقُلْتُ: وَلَا عَدْوَیْ فَقَالَ : أَبَیْتُ ؟ .
٦٩٢٣: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اور ” ولا ہامۃ ولا غول ولا صفر “ کا اضافہ کیا ہے۔ نہ الو کی نحوست ہے اور نہ غول کی کچھ حقیقت ہے اور نہ ہی ماہ صفر کی نحوست ہے۔ ابو صالح کہتے ہیں کہ میں نے کوفہ کا سفر کیا پھر واپس لوٹ کر آیا تو میں نے دیکھا کہ ابوہریرہ (رض) ” ولا عدوی “ کا لفظ کم کرتے تھے ۔ میں نے کہا ” ولا عدوی “ تو انھوں نے کہا میں اس سے انکاری ہوں۔
تخریج : مسلم فی السلام ١٠٧؍١٠٨‘ مسند احمد ٣‘ ٣١٢؍٣٨٢۔

6927

۶۹۲۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ وَغَیْرُہٗ، أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوٰی .فَقَالَ أَعْرَابِیٌّ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَمَا بَالُ الْاِبِلِ تَکُوْنُ فِی الرَّمْلِ ، کَأَنَّہَا الظِّبَائُ ، فَیَأْتِی الْبَعِیْرُ الْأَجْرَبُ فَیُجَرِّبُہَا ؟ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنْ أَعْدَی الْأَوَّلَ ؟۔
٦٩٤٢: ابو سلمہ نے بتلایا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی مرض متعدی نہیں دیہاتی کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اونٹ ریت والے علاقہ میں ہوتے ہیں گویا کہ یہ ہر نیاں ہیں۔ پھر خارشی اونٹ آ کر ان کو خارشی کردیتا ہے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے اول کو مرض کس نے پہنچایا۔

6928

۶۹۲۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : حَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٢٥: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6929

۶۹۲۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَعْرُوْفُ بْنُ سُوَیْدٍ الْحِزَامِیُّ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوٰی۔
٦٩٢٦: علی بن ریاح لخمی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی مرض متعدی نہیں۔

6930

۶۹۲۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِی السَّائِبُ بْنُ یَزِیْدَ ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٢٧: زہری نے سائب بن یزید جو نمر کے بھانجے ہیں انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6931

۶۹۲۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ وَسَعِیْدٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٢٨: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6932

۶۹۲۹ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الرَّبِیْعِ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَرْبَعٌ فِیْ أُمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، لَنْ یَدَعَہُنَّ النَّاسُ الطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ وَالنِّیَاحَۃُ وَمُطِرْنَا بِنَوْئِ کَذَا وَکَذَا وَالْعَدْوٰی یَکُوْنُ الْبَعِیْرُ فِی الْاِبِلِ ، فَیَجْرَبُ ، فَیَقُوْلُ : مَنْ أَعْدَی الْأَوَّلَ۔
٦٩٢٩: ابوالربیع نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا میری امت میں چار باتیں جاہلیت کے معاملات سے ہیں ان کو لوگ ترک نہ کریں گے۔ : نسب میں طعنہ زنی۔ ! نوحہ خوانی۔ " فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی۔ # اونٹوں میں خارش کے مرض میں ایک سے دوسرے کو لگ جانا تو آپ فرماتے کس نے پہلے کو خارشی کیا۔

6933

۶۹۳۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٩٣٠: سفیان نے علقمہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

6934

۶۹۳۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَعِیْدٍ الْأَشَجُّ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیْ أُسَامَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا عَدْوَی وَقَالَ فَمَنْ أَعْدَی الْأَوَّلَ؟
٦٩٣١: قاسم نے حضرت ابو اسامہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کوئی مرض متعدی نہیں اور فرمایا کس نے پہلے مرض لگایا ؟

6935

۶۹۳۲ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ أَبِیْ شَیْبَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ فَضَالَۃَ ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ الشَّھِیْدِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِ مَجْذُوْمٍ ، فَوَضَعَہَا فِی الْقَصْعَۃِ وَقَالَ : بِسْمِ اللّٰہِ، ثِقَۃً بِاَللّٰہِ ، وَتَوَکُّلًا عَلَی اللّٰہِ۔
٦٩٣٢: محمد بن منکدر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مجذوم کا ہاتھ پکڑا پھر اس کو پیالے میں رکھ دیا اور فرمایا بسم اللہ ثقۃ باللہ وتوکلا علی اللہ “ اللہ تعالیٰ کے نام اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد کر کے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے میں اس میں ڈالتا ہوں۔
تخریج : ابو داؤد فی الطب باب ٢٤‘ ترمذی فی الاطعمہ باب ١٩‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٤٤۔

6936

۶۹۳۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٣٣: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6937

۶۹۳۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا مُوْسَیْ بْنُ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ أَبِیْ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِیِّ ، عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُنْ مَعَ صَاحِبِ الْبَلَائِ ، تَوَاضُعًا لِرَبِّکَ، وَاِیْمَانًا۔فَقَدْ نَفَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَدْوٰی ، فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَاہَا ، وَقَدْ قَالَ فَمَنْ أَعْدَی الْأَوَّلَ۔أَیْ : لَوْ کَانَ اِنَّمَا أَصَابَ الثَّانِیْ لِمَا أَعْدَاہُ الْأَوَّلُ ، اِذًا ، لَمَا أَصَابَ الْأَوَّلَ شَیْئٌ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ مَعَہٗ مَا یُعْدِیْہِ .وَلٰـکِنَّہٗ لَمَّا کَانَ مَا أَصَابَ الْأَوَّلَ ، اِنَّمَا کَانَ بِقَدَرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، کَانَ مَا أَصَابَ الثَّانِیْ، کَذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ، فَنَجْعَلُ ہٰذَا مُضَادًّا ، لِمَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُوْرِدُ مُمْرِضٌ .عَلٰی .مُصِحٍّ کَمَا جَعَلَہٗ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ .قُلْتُ :لَا ، وَلٰـکِنْ یُجْعَلُ قَوْلُہٗ لَا عَدْوَی کَمَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفْیُ الْعَدْوَی أَنْ یَکُوْنَ أَبَدًا ، وَیُجْعَلُ قَوْلُہٗ لَا یُوْرِدُ مُمْرِضٌ عَلَی مُصِحٍّ عَلَی الْخَوْفِ مِنْہُ أَنْ یُوْرَدَ عَلَیْہِ فَیُصِیْبَہٗ بِقَدَرِ اللّٰہِ مَا أَصَابَ الْأَوَّلَ ، فَیَقُوْلُ النَّاسُ أَعْدَاہُ الْأَوَّلُ۔فَکُرِہَ اِیْرَادُ الْمُصِحِّ عَلَی الْمُمْرِضِ ، خَوْفَ ہٰذَا الْقَوْلِ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ أَیْضًا وَضْعَہُ یَدَ الْمَجْذُوْمِ فِی الْقَصْعَۃِ .فَدَلَّ فِعْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا عَلٰی نَفْیِ الْاِعْدَائِ ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ الْاِعْدَائُ مِمَّا یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ اِذًا ، لَمَا فَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُخَافُ ذٰلِکَ مِنْہٗ، لِأَنَّ فِیْ ذٰلِکَ جَرَّ التَّلَفِ اِلَیْہِ وَقَدْ نَہَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ وَلَا تَقْتُلُوْا أَنْفُسَکُمْ وَمَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہَدَفٍ مَائِلٍ فَأَسْرَعَ ، فَاِذَا کَانَ یُسْرِعُ مِنَ الْہَدَفِ الْمَائِلِ ، مَخَافَۃَ الْمَوْتِ ، فَکَیْفَ یَجُوْزُ عَلَیْہِ أَنْ یَفْعَلَ مَا یُخَافُ مِنْہُ الْاِعْدَائُ ؟ ، وَقَدْ ذُکِرَ فِیْمَا تَقَدَّمَ عَنْ ہٰذَا الْبَابِ أَیْضًا ، مَعْنٰی مَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الطَّاعُوْنِ ، فِیْ نَہْیِہٖ عَنِ الْہُبُوْطِ عَلَیْہٖ، وَفِیْ نَہْیِہِ عَنِ الْخُرُوْجِ عَنْہُ، وَأَنَّ نَہْیَہُ عَنِ الْہُبُوْطِ عَلَیْہِ خَوْفًا أَنْ یَکُوْنَ قَدْ سَبَقَ فِیْ عِلْمِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّہُمْ اِذَا ہَبَطُوْا عَلَیْہِ أَصَابَہُمْ فَیَہْبِطُوْنَ فَیُصِیْبَہُمْ فَیَقُوْلُوْنَ أَصَابَنَا ، لِأَنَّا ہَبَطْنَا عَلَیْہِ وَلَوْلَا أَنَّا ہَبَطْنَا عَلَیْہِ لَمَا أَصَابَنَا وَأَنَّ نَہْیَہٗ عَنِ الْخُرُوْجِ مِنْہٗ، لِئَلَّا یَخْرُجَ فَیَسْلَمَ ، فَیَقُوْلُ : سَلِمْت لِأَنِّیْ خَرَجْتُ، وَلَوْلَا أَنِّیْ خَرَجْتُ، لَمْ أَسْلَمْ۔فَلَمَّا کَانَ النَّہْیُ عَنِ الْخُرُوْجِ عَنِ الطَّاعُوْنِ ، وَعَنِ الْہُبُوْطِ عَلَیْہٖ، بِمَعْنًیْ وَاحِدٍ ، وَہُوَ الطِّیَرَۃُ ، لَا الْاِعْدَائُ ، کَانَ کَذٰلِکَ قَوْلُہٗ لَا یُوْرِدُ مُمْرِضٌ عَلٰی مُصِحِّ ہُوَ الطِّیَرَۃُ أَیْضًا ، لَا الْاِعْدَائُ .فَنَہَاہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذِہٖ کُلِّہَا ، عَنِ الْأَسْبَابِ الَّتِیْ مِنْ أَجْلِہَا یَتَطَیَّرُوْنَ .وَفِیْ حَدِیْثِ أُسَامَۃَ الَّذِیْ رَوَیْنَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَہُوَ بِہَا ، فَلَا یُخْرِجُہُ الْفِرَارُ مِنْہُ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ یُخْرَجَ مِنْہَا ، لَا عَنِ الْفِرَارِ مِنْہُ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٦٩٣٤: ابو مسلم خولانی نے حضرت ابو ذر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مصیبت زدہ کا ساتھ دو اپنے رب کی بارگاہ میں تواضع اختیار کرتے ہوئے اور اپنے رب پر ایمان لانے کی وجہ سے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آثار میں ” فمن اعدی الاول “ کہہ کر مرض میں تعدیہ کی نفی فرمائی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر دوسرے کو پہلے کی وجہ سے لگ گیا تو پہلے کو مرض کہاں سے لاحق ہوا۔ کیونکہ اس کے ساتھ تو کوئی ایسا نہ تھا جو اس تک جراثیم کو منتقل کرے۔ لیکن جب پہلے کو تقدیر الٰہی کی وجہ سے بیماری پہنچی تو دوسرے کو بھی اس وجہ سے پہنچی۔ یہ روایات ان روایات کے مخالف ہیں کہ جن میں آپ نے فرمایا کہ کوئی بیمار تندرست کے پاس نہ آئے جیسا کہ اس کو حضرت ابوہریرہ (رض) نے ان کے مخالف ٹھہرایا۔ یہ روایات ان کے خلاف نہیں لیکن جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” لاعدویٰ “ میں ہمیشہ کے لیے تعدیہ کی نفی فرمائی اور آپ کا ارشاد ” لایورد ممرض “ کا مطلب یہ ہے کہ اس خوف کی بنیاد پر کسی مریض کو صحت مند کے پاس نہ لایا جائے کہ اگر اسے وہاں لایا جائے اور قدرتی طور پر اس صحت مند کو وہ بیماری لاحق ہوگئی جس میں وہ مریض مبتلا تھا تو لوگ کہیں گے اس کو پہلے بیمار سے بیماری لگ گئی ہے تو اس خدشے کے پیش نظر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیمار کو صحت مند کے پاس لے جانے سے منع کیا ہے۔ اور ہم ان روایات میں ایک روایت نقل کر آئے کہ آپ نے کوڑھی کے ہاتھ کو پیالے میں ڈالا۔ تو آپ کا یہ فعل مبارک بھی مرض میں تعدیہ کے منافی ہے۔ اگر بیماری کا متعدی ہونا ممکن ہوتا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خوف سے یہ عمل نہ کرتے کیونکہ اس میں اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا اور فرمایا ” لاتقتلوا انفسکم “ اپنے کو ہلاک مت کرو۔ چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک جھکی ہوئی عمارت کے پاس سے ہوا تو آپ تیزی سے گزر گئے جب آپ گرنے والی دیوار کے نیچے سے موت کے خطرے کے پیش نظر تیزی سے گزر جاتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ تعدیہ کا خطرہ ہو اور آپ اس سے احتیاط نہ کریں۔ اس باب میں ہم نے روایات کے ضمن میں اس روایت کا مفہوم بیان کردیا کہ طاعون والے مقام میں مت جاؤ اور طاعون والے مقام سے مت نکلو۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ کا وہاں جانے سے روکنا اس خطرے کی بناء پر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں بات پہلے سے موجود ہے کہ جب یہ لوگ وہاں اتریں گے تو انھیں طاعون کی بیماری لگ جائے گی پس وہ اتریں اور وہ اس بیماری کا شکار ہوجائیں تو یہ لوگ کہیں گے کہ چونکہ ہم یہاں اترے ہیں اس بناء پر ہمیں یہ بیماری پہنچی ہے اگر وہاں نہ جاتے تو ہم طاعون میں مبتلا نہ ہوتے۔ اسی طرح وہاں سے نکلنے سے منع کرنا اس بناء پر تھا کہ ممکن ہے کہ وہ باہر جانے سے محفوظ رہے اور یہ کہنے لگے کہ میں تو اس لیے بچا کہ میں باہر آگیا تھا اگر میں وہاں سے نہ نکلتا تو نہ بچتا۔ تو جب طاعون والی جگہ سے نکلنے اور وہاں جانے کی ممانعت کا دارومدار ایک ہی وجہ پر ہے اور وہ بدفالی ہے بیماری کا متعدی ہونا نہیں تو آپ کے ارشاد گرامی کہ بیمار کو تندرست کے پاس نہ لایا جائے اس کو بھی بدفالی پر محمول کیا جائے گا بیماری کے متعدی ہونے پر نہیں۔ پس ان تمام روایات میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے اسباب سے منع فرمایا ہے جن کی بنیاد پر وہ بدفالی اختیار کرتے تھے۔ حضرت اسامہ (رض) کی روایت کہ ” اذا وقع بارض “ الحدیث۔ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر فرار مقصود نہ ہو تو نکلنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور اس پر یہ روایات بھی دال ہیں۔

6938

۶۹۳۵ : مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ وَقَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیٰی بْنُ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنْ أَبِیْ قِلَابَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُکْلٍ، قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ ، فَاجْتَوَوْہَا .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ خَرَجْتُمْ اِلٰی ذَوْدٍ لَنَا ، فَشَرِبْتُمْ مِنْ أَلْبَانِہَا وَأَبْوَالِہَا فَفَعَلُوْا وَصَحُّوْا ، ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیْثَ .
٦٩٣٥: ابو قلابہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے ان کو بخار ہوگیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم ہمارے اونٹوں کی طرف جاؤ۔ اور ان کے دودھ اور پیشاب پیو تو مناسب ہے چنانچہ انھوں نے اسی طرح کیا وہ تندرست ہوگئے پھر روایت اس طرح ذکر کی۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ١٥٢‘ الدیات باب ٢٢‘ مسلم فی القسامۃ ٩؍١٠‘ ترمذی فی الطہارۃ نسائی فی الطہارۃ باب ١٩٠‘ ابن ماجہ فی الحدود باب ٢٠‘ مسند احمد ٣‘ ١٠٧؍١٦١۔

6939

۶۹۳۶ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مَرْضٰی ، مِنْ حَیٍّ مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ ، فَأَسْلَمُوْا وَبَایَعُوْھُ ، وَقَدْ وَقَعَ الْمُوْمُ ، وَہُوَ : الْبِرْسَامُ .فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ہٰذَا الْوَجَعُ قَدْ وَقَعَ ، لَوْ أَذِنْتُ لَنَا ، فَخَرَجْنَا اِلَی الْاِبِلِ ، فَکُنَّا فِیْہَا .قَالَ نَعَمْ اُخْرُجُوْا فَکُوْنُوْا فِیْہَا۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہُمْ بِالْخُرُوْجِ اِلَی الْاِبِلِ ، وَقَدْ وَقَعَ الْوَبَائُ بِالْمَدِیْنَۃِ ، فَکَانَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - عَلٰی أَنْ یَکُوْنَ خُرُوْجُہُمْ لِلْعِلَاجِ ، لَا لِلْفِرَارِ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْخُرُوْجَ مِنَ الْأَرْضِ الَّتِیْ وَقَعَ بِہَا الطَّاعُوْنُ ، مَکْرُوْہٌ لِلْفِرَارِ مِنْہٗ، وَمُبَاحٌ لِغَیْرِ الْفِرَارِ .وَ عَلَی ھٰذَا الْمَعْنٰی - وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - رَجَعَ عُمَرُ بِالنَّاسِ ، مِنْ سَرْغٍ ، لَا عَلٰی أَنَّہٗ فَارٌّ مِمَّا قَدْ نَزَلَ بِہِمْ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ۔
٦٩٣٦: معاویہ بن قرہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عربوں کے ایک قبیلہ کے لوگ بیمار آئے اور وہ اسلام لائے اور بیعت کی۔ سرسام کی بیماری پھیل گئی انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بیماری پھیل گئی ہے اگر آپ ہمیں اجازت دے دیں کہ ہم اونٹوں کی طرف جائیں اور وہاں قیام کریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مناسب ہے تم وہاں رہو۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اونٹوں کی طرف جانے کا حکم فرمایا اس لیے کہ مدینہ منورہ میں وباء پھیل گئی تھی ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جانا علاج کی خاطر تھا فرار عن الوباء کی وجہ سے نہ تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ طاعون والے علاقہ سے فرار اختیار کرنا تو مکروہ ہے مگر اس کے علاوہ علاج وغیرہ کے لیے نکلنا جائز ہے۔ اسی بناء پر حضرت عمر (رض) لوگوں کے ساتھ مقام سرغ سے واپس لوٹ آئے اس وجہ سے نہیں کہ وہ اترنے والی وبا سے فرار اختیار کرنے والے تھے اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
تخریج : مسلم فی القسامۃ ١٣۔

6940

۶۹۳۷ : مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَیَّاشٍ الْحِمْصِیُّ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اللّٰہُمَّ اِنَّ النَّاسَ یُحِلُّوْنِ ثَلَاثَ خِصَالٍ وَأَنَا أَبْرَأُ اِلَیْکَ مِنْہُنَّ زَعَمُوْا أَنِّیْ فَرَرْتُ مِنِ الطَّاعُوْنِ ، وَأَنَا أَبْرَأُ اِلَیْکَ مِنْ ذٰلِکَ وَأَنِّیْ أَحْلَلْتُ لَہُمْ الطِّلَائَ ، وَہُوَ الْخَمْرُ ، وَأَنَا أَبْرَأُ اِلَیْکَ مِنْ ذٰلِکَ وَأَنِّیْ أَحْلَلْتُ لَہُمُ الْمَکْسَ ، وَہُوَ النَّجِسُ ، وَأَنَا أَبْرَأُ اِلَیْکَ مِنْ ذٰلِکَ .فَہٰذَا عُمَرُ یُخْبِرُ أَنَّہٗ یَبْرَأُ اِلَی اللّٰہِ أَنْ یَکُوْنَ فَرَّ مِنِ الطَّاعُوْنِ ، فَدَلَّ ذٰلِکَ ، أَنَّ رُجُوْعَہُ کَانَ لِأَمْرٍ آخَرَ غَیْرِ الْفِرَارِ .وَکَذٰلِکَ مَا أَرَادَ بِکِتَابِہٖ اِلٰی أَبِیْ عُبَیْدَۃَ أَنْ یَخْرُجَ ہُوَ وَمَنْ مَعَہُ مِنْ جُنْدِ الْمُسْلِمِیْنَ ، اِنَّمَا ہُوَ لِنَزَاہَۃِ الْجَابِیَۃِ ، وَعُمْقِ الْأُرْدُنِّ .فَقَدْ بَیَّنَ أَبُوْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیُّ ، فِیْ حَدِیْثِ شُعْبَۃَ الْمَکْرُوْھُ فِی الطَّاعُوْنِ مَا ہُوَ ؟ وَہُوَ أَنْ یَخْرُجَ مِنْہُ خَارِجٌ ، فَیَسْلَمُ فَیَقُوْلُ سَلِمْت لِأَنِّیْ خَرَجْت وَیَہْبِطُ عَلَیْہِ ہَابِطٌ فَیُصِیْبَہُ فَیَقُوْلُ أَصَابَنِیْ، لِأَنِّیْ ہَبَطْت۔وَقَدْ أَبَاحَ أَبُوْ مُوْسَیْ مَعَ ذٰلِکَ لِلنَّاسِ أَنْ یَتَنَزَّہُوْا عَنْہُ، اِنْ أَحَبُّوْا ، فَدَلَّ مَا ذَکَرْنَاہٗ، عَلَی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ وَصَفْنَا .فَہٰذَا مَعْنٰی ہٰذِہِ الْآثَارِ ، وَعِنْدَنَا ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ . وَأَمَّا الطِّیَرَۃُ ، فَقَدْ رَفَعَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَجَائَ تِ الْآثَارُ بِذٰلِکَ مَجِیْئًا مُتَوَاتِرًا .
٦٩٣٧: زید بن اسلم نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ اے اللہ لوگ تین خصال اختیار کرنے والے ہیں اور میں ان تینوں سے تیری بارگاہ میں برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ میں طاعون سے فرار اختیار کرنے والا ہوں۔ اے اللہ تعالیٰ میں تیری بارگاہ میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ ! میں نے نبیذ طلاء (گاڑھا نبیذ) کو ان کے لیے حلال کردیا حالانکہ وہ تو شراب ہے میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ " میں نے ان کے لیے مکس (ٹیکس سے زائد) کو ان کے لیے حلال کیا ہے حالانکہ وہ تو پلید ہے اے اللہ میں اس سے بھی تیری بارگاہ میں برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ یہ عمر (رض) ہیں جو اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ وہ اس سے بری الذمہ ہیں کہ وہ طاعون سے فرار اختیار کرنے والے ہوں۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ ان کی واپسی فرار کی وجہ سے نہ تھی بلکہ کسی دوسری غرض سے تھی۔ اسی طرح ان کا حضرت ابو عبیدہ (رض) کو یہ لکھنا کہ وہ خود اور اسلامی لشکر اس علاقہ سے نکل آئیں اس کی وجہ جابیہ کا پرفضا ہونا اور اردن کا گہرا ہونا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے شعبہ کی روایت میں واضح کردیا طاعون میں کیا چیز مکروہ ہے وہ یہ ہے کہ کوئی نکلے اور سلامت رہے اور یہ کہنے لگے کہ میں نکلنے کی وجہ سے بچ گیا اور وہاں کوئی چلا جائے اور وہ طاعون کا شکار ہوجائے تو کہنے لگے یہ طاعون میرے یہاں آنے کی وجہ سے مجھ پر پڑی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ نے لوگوں کا وہاں سے کوچ مباح کردیا اگر وہ پسند کریں۔ یہ آثار اس تفسیر پر دلالت کر رہے ہیں جو ہم نے بیان کی ہے۔ آثار کو سامنے رکھ کر ہمارے ہاں یہی معنی ہیں۔ بدفالی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی ختم کیا جیسا کہ متواتر روایات اس پر وارد ہوئی ہیں۔

6941

۶۹۳۸ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، وَرَوْحٌ قَالَا : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ عِیْسٰی ، رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ أَسَدٍ ، عَنْ زِر ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الطِّیَرَۃَ مِنَ الشِّرْکِ ، وَمَا مِنَّا اِلَّا ، وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُذْہِبُہٗ بِالتَّوَکُّلِ۔
٦٩٣٨: زر نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بدفالی شرک کی قسم ہے لیکن ہم میں سے جو بھی ہے اللہ تعالیٰ اس کو توکل سے لے جائیں گے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطب باب ٢٤‘ ترمذی فی السیر باب ٤٧‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٤٣‘ مسند احمد ١؍٣٨٩‘ ٤٤٠۔

6942

۶۹۳۹ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : حَدَّثَنَا شُرَیْحٌ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا طِیَرَۃَ۔
٦٩٣٩: ابو زرعہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بدفالی نہیں ہے۔

6943

۶۹۴۰ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا قَبِیْصَۃُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٤٠: ابو زرعہ نے ایک آدمی سے انھوں نے حضرت عبداللہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6944

۶۹۴۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ وَیُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ حَمْزَۃَ وَسَالِمٍ ، ابْنَیْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٤١: حمزہ وسالم دونوں نے اپنے والد ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6945

۶۹۴۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَلْقَمَۃُ ابْنُ أَبِیْ عَلْقَمَۃَ ، عَنْ أُمِّہٖ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یُبْغِضُ الطِّیَرَۃَ ، وَیَکْرَہُہَا۔
٦٩٤٢: علقمہ نے اپنی والدہ سے انھوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدفالی کو ناپسند قرار دیتے اور اس سے بغض کا اظہار فرماتے۔

6946

۶۹۴۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی ، قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ وَشُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا طِیَرَۃَ۔
٦٩٤٣: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ بدشگونی نہیں ہے۔

6947

۶۹۴۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا أَبِیْ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ أَبُوْ سَلَمَۃَ وَغَیْرُہٗ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٤٤: ابو سلمہ وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6948

۶۹۴۵ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٤٥: ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6949

۶۹۴۶ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَعْرُوْفُ بْنُ سُوَیْدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٤٦: علی بن رباح لخمی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کرتے سنا۔

6950

۶۹۴۷ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُشَیْشٍ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمٌ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٤٧: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6951

۶۹۴۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٩٤٨: شعبہ نے قتادہ سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

6952

۶۹۴۹ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَعِیْدٍ الْأَشَجُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ یَزِیْدَ عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٦٩٤٩: عبدالرحمن بن یزید بن قاسم نے حضرت ابو امامہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6953

۶۹۵۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ حِبَّانَ بْنِ قَطَنٍ ، عَنْ قَبِیْصَۃَ بْنِ الْمُخَارِقِ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْعِیَافَۃُ ، وَالطِّیَرَۃُ ، وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ۔فَلَمَّا نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الطِّیَرَۃِ ، وَأَخْبَرَ أَنَّہَا مِنِ الشِّرْکِ ، نَہَی النَّاسَ عَنِ الْأَسْبَابِ الَّتِیْ تَکُوْنُ عَنْہَا الطِّیَرَۃُ ، مِمَّا ذُکِرَ فِیْہِ ہٰذَا الْبَابُ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشُّؤْمُ فِی الثَّلَاثِ۔قِیْلَ لَہٗ : قَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، عَلٰی مَا ذَکَرْت .
٦٩٥٠: حبان بن قطن نے حضرت قبیصہ بن مخارق (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ عیافہ (پرندوں کو فال کے لیے اڑانا) الطیرۃ۔ (بدفالی) اور طرق۔ (منتر کے لیے کنکریاں پھینکنا) یہ بت پرستی سے ہیں۔ جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدفالی کو شرک کا حصہ قرار دیا اور اس سے روک دیا اور ان اسباب سے بھی منع کیا جن میں بدفالی لی جاتی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نحوست تین چیزوں میں ہے۔ گھوڑا ‘ عورت ‘ گھر۔ یہ روایت اسی طرح جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے جیسا کہ تم نے ذکر کی ہے۔ (روایت یہ ہے)
تخریج : ابو داؤد فی الطب باب ٢٣‘ مسند احمد ٣؍٤٧٧‘ ٥؍٦٠۔

6954

۶۹۵۱ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ : قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یُوْنُسُ ، وَمَالِکٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، عَنْ حَمْزَۃَ وَسَالِمٍ ، ابْنٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنَّمَا الشُّؤْمُ فِیْ ثَلَاثَۃٍ ، فِی الْمَرْأَۃِ ، وَالْفَرَسِ ، وَالدَّارِ۔
٦٩٥١: حمزہ وسالم دونوں نے اپنے والد ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ نحوست تین چیزوں میں ہے۔ عورت ‘ گھوڑا ‘ گھر۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٤٧‘ والنکاح باب ١٧‘ مسلم فی السلام ١١٥؍١٢٠‘ ابو داؤد فی الطب باب ٢٤‘ ترمذی فی الادب باب ٥٨‘ نسائی فی الخیل باب ٥‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٥٥‘ مالک فی الاستیذان ٢٢‘ مسند احمد ٢؍٨‘ ٣٦‘ ١١٥‘ ١٣٦۔

6955

۶۹۵۲ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا مَالِکٌ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، ذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٩٥٢: مالک نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت ذکر کی ہے۔

6956

۶۹۵۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ حَمْزَۃَ .
٦٩٥٣: ابن جریج نے ابن شہاب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ حمزہ کا ذکر نہیں کیا۔

6957

۶۹۵۴ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبٌ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ سَالِمٌ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : فَذَکَرَ مِثْلَہٗ۔
٦٩٥٤: سالم نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح فرماتے سنا ہے۔

6958

۶۹۵۵ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُتْبَۃُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا عَلَی خِلَافِ ہٰذَا الْمَعْنَی ، مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ ، وَغَیْرِہٖ۔
٦٩٥٥: حمزہ بن عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنے والد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اس مفہوم کے خلاف روایات بھی ابن عمر (رض) سے وارد ہیں۔

6959

۶۹۵۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ یَحْیٰی بْنِ أَبِیْ کَثِیْرٍ ، عَنِ الْحَضْرَمِیِّ ، أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ قَالَ : سَأَلْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ ، عَنِ الطِّیَرَۃِ ، فَانْتَہَرَنِیْ فَقَالَ مَنْ حَدَّثَکَ؟ فَکَرِہْتُ أَنْ أُحَدِّثَہٗ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : لَا طِیَرَۃَ ، وَاِنْ کَانَتْ الطِّیَرَۃُ فِیْ شَیْئٍ ، فَفِی الْمَرْأَۃِ ، وَالدَّارِ ، وَالْفَرَسِ۔
٦٩٥٦: سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن مالک (رض) سے بدشگونی کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے مجھے ڈانٹا اور فرمایا تمہیں یہ کس نے کہا ہے ؟ میں نے ان کے سامنے بیان کرنا ناپسند کیا تو انھوں نے فرمایا میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے۔ کوئی بدفالی نہیں اگر بدفالی ہوتی تو وہ عورت ‘ گھر اور گھوڑے میں ہوتی۔
تخریج : ابو داؤد فی الطب باب ٢٤‘ مسند احمد ٢؍٢٨٩‘ ٦‘ ١٥٠؍٢٤٠۔

6960

۶۹۵۷ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُتْبَۃُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : اِنْ کَانَ الشُّؤْمُ فِیْ شَیْئٍ ، فَفِیْ ثَلَاثٍ ، فِی الْفَرَسِ ، وَالْمَسْکَنِ ، وَالْمَرْأَۃِ۔
٦٩٥٧: حمزہ نے اپنے باپ ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا۔ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو وہ ان تین چیزوں میں ہوتی گھوڑا ‘ گھر ‘ عورت۔
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ٤٧‘ والنکاح باب ١٧‘ مسلم فی السلام ١١٨؍١١٩‘ ترمذی فی الادب باب ٥٨‘ ابن ماجہ فی النکاح باب ٥٥‘ مالک فی الاستیذان ٢١‘ مسند احمد ٢؍٢٨٩۔

6961

۶۹۵۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، سَمِعَ جَابِرًا یُحَدِّثُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٥٨: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6962

۶۹۵۹ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ أَنَّہٗ سَمِعَ سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ حَازِمٍ: فَکَأَنَّ سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ ، لَمْ یَکُنْ یُثْبِتُہٗ، وَأَمَّا النَّاسُ ، فَیُثْبِتُوْنَہٗ.
٦٩٥٩: ابو حازم نے حضرت سہل بن مسعود (رض) کو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے سنا ابو حازم کہتے ہیں گویا سعد ان کو ثابت نہیں کرتے تھے۔ اور دیگر لوگ اس کو ثابت کرتے تھے۔

6963

۶۹۶۰ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا حِبَّانُ ، قَالَ : ثَنَا أَبَانٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ الْحَضْرَمِیِّ ، عَنْ لَاحِقٍ حَدَّثَہٗ ، أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ حَدَّثَہٗ قَالَ : سَأَلْتُ سَعْدًا عَنِ الطِّیَرَۃِ ، فَانْتَہَرَنِیْ وَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَا طِیَرَۃَ ، وَاِنْ کَانَ الطِّیَرَۃُ فِیْ شَیْئٍ ، فَفِی الْمَرْأَۃِ ، وَالدَّارِ ، وَالْفَرَسِ۔
٦٩٦٠: سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ میں نے حضرت سعد (رض) سے بدفالی کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ آپ نے فرمایا بدفالی نہیں اور اگر کسی چیز میں ہوتی تو وہ عورت ‘ گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔
تخریج : روایت ٦٩٥٦ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

6964

۶۹۶۱ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ حُمَیْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ ، أَنَّہٗ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ، یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٦١: عبداللہ بن ابی بکر نے حضرت انس بن مالک (رض) سے سنا کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کرتے تھے۔

6965

۶۹۶۲ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ ، عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ ، عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ اِنْ کَانَ الشُّؤْمُ فِیْ شَیْئٍ ، فَفِیْ ثَلَاثٍ ، فِی الْمَرْأَۃِ ، وَالْفَرَسِ ، وَالدَّارِ۔
٦٩٦٢: ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو تین چیزوں میں ہوتی عورت ‘ گھوڑا ‘ گھر۔

6966

۶۹۶۳ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ أَبِیْ لَیْلٰی ، حَدَّثَنِیْ أَبِیْ، عَنْ أَبِیْ لَیْلٰی ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا عَدْوَی ، وَلَا طِیَرَۃَ ، وَاِنْ کَانَ فِیْ شَیْئٍ فَفِی الْمَرْأَۃِ ، وَالْفَرَسِ ، وَالدَّارِ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَا یَدُلُّ عَلَی غَیْرِ مَا فِی الْفَصْلِ الَّذِیْ قَبْلَ ہٰذَا الْفَصْلِ . وَذٰلِکَ أَنَّ سَعْدًا ، انْتَہَرَ سَعِیْدًا حِیْنَ ذَکَرَ لَہٗ الطِّیَرَۃَ ، وَأَخْبَرَہٗ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : لَا طِیَرَۃَ ثُمَّ قَالَ اِنْ تَکُنِ الطِّیَرَۃُ فِیْ شَیْئٍ ، فَفِی الْمَرْأَۃِ ، وَالْفَرَسِ ، وَالدَّارِ۔فَلَمْ یُخْبِرْ أَنَّہَا فِیْہِنَّ ، وَاِنَّمَا قَالَ اِنْ تَکُنْ فِیْ شَیْئٍ فَفِیْہِنَّ أَیْ : لَوْ کَانَتْ تَکُوْنُ فِیْ شَیْئٍ ، لَکَانَتْ فِیْ ہٰؤُلَائِ ، فَاِذَا لَمْ تَکُنْ فِیْ ہٰؤُلَائِ الثَّلَاثَۃِ ، فَلَیْسَتْ فِیْ شَیْئٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا تَکَلَّمَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ ، کَانَ عَلٰی غَیْرِ ہٰذَا اللَّفْظِ .
٦٩٦٣: عطیہ نے حضرت ابو سعید (رض) سے انھوں نے روایت کی کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی بیماری متعدی نہیں ‘ نہ بدفالی ہے۔ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو وہ عورت ‘ گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔ اس روایت میں ان روایات کے خلاف مضمون ہے جو کہ پہلے حصہ باب میں وارد ہوئی ہیں وہ یہ کہ حضرت سعد (رض) نے سعید کو بدفالی کے تذکرہ پر ڈانٹا اور بتلایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اس کی نفی کی ہے کہ کوئی بدفالی نہیں پھر فرمایا اگر یہ ہوتی تو پھر ان تینوں چیزوں میں ہوتی گھر ‘ گھوڑا اور عورت۔ (کیونکہ یہ اکثر آدمی کے ساتھ رہتی ہیں) ۔ یہ نہیں بتلایا کہ ان میں نحوست پائی جاتی ہے بلکہ فرمایا اگر کسی چیز میں ہوتی تو ان میں ہونی چاہیے تھی۔ جب ان میں نہیں تو کسی چیز میں نہیں۔ اور حضرت عائشہ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان دیگر الفاظ میں وارد ہوا ہے۔
روایات حضرت عائشہ (رض) ملاحظہ ہوں۔

6967

۶۹۶۴ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامُ بْنُ یَحْیٰی، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِیْ حَسَّانٍ ، قَالَ : دَخَلَ رَجُلَانِ مِنْ بَنِیْ عَامِرٍ، عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، فَأَخْبَرَاہَا أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ : اِنَّ الطِّیَرَۃَ فِی الْمَرْأَۃِ ، وَالدَّارِ ، وَالْفَرَسِ۔فَغَضِبَتْ وَطَارَتْ شُقَّۃٌ مِنْہَا فِی السَّمَائِ وَشُقَّۃٌ فِی الْأَرْضِ فَقَالَتْ وَالَّذِیْ نَزَّلَ الْقُرْآنَ عَلَی مُحَمَّدٍ ، مَا قَالَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطُّ ، اِنَّمَا قَالَ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ کَانُوْا یَتَطَیَّرُوْنَ مِنْ ذٰلِکَ۔فَأَخْبَرَتْ عَائِشَۃُ أَنَّ ذٰلِکَ الْقَوْلَ ، کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِکَایَۃً عَنْ أَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ ، لِأَنَّہٗ - عِنْدَہٗ - کَذٰلِکَ .
٦٩٦٤: ابو حسان کہتے ہیں کہ قبیلہ بنو عامر کے دو آدمی حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں آئے اور ان کو بتلایا کہ ابوہریرہ (رض) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بیان کر رہے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ عورت ‘ گھر اور گھوڑے میں نحوست ہے۔ (تو یہ سن کر) حضرت عائشہ (رض) سخت ناراض ہوئیں اور تیور بدل گئے اور فرمایا اس ذات کی قسم ہے جس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید کو اتارا ہے یہ کلمات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالکل نہیں فرمائے۔ بلکہ آپ نے فرمایا اہل جاہلیت ان تین چیزوں سے بدشگونی لیتے تھے۔ حضرت عائشہ (رض) نے بتلایا کہ یہ اہل جاہلیت کا قول ہے جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور حکایت نقل فرمایا۔ اس لیے نہیں کہ وہ آپ کے ہاں بھی اسی طرح ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦‘ ١٥٠؍٢٤٠۔

6968

۶۹۶۵ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ أَحْمَدَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا یَقُوْلُ : جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا خَیْرَ الْبَرِّیَّۃِ ، فَقَالَ ذَاکَ أَبِیْ اِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔
٦٩٥٦: مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) کو فرماتے سنا کہ ایک آدمی جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : یاخیرالبریہ اے مخلوق میں سب سے بہتر تو آپ نے فرمایا وہ تو میرے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے۔
تخریج : ابو داؤد فی السنۃ باب ١٨‘ مسند احمد ٣‘ ١٧٨؍١٨١۔
خلاصہ الزام :
حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے مابین انفرادی صفات میں ایک دوسرے پر ترجیح میں کوئی حرج نہیں۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے انبیاء (علیہم السلام) میں ترجیح کا سلسلہ ہرگز جائز نہیں ہے۔

6969

۶۹۶۶ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٦٩٦٦: مختار بن فلفل نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6970

۶۹۶۷ : حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مَرْزُوْقٍ ، وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوْنُسَ ، قَالَا : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادٍ مِثْلَہٗ۔
٦٩٦٧: حذیفہ نے سفیان سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے۔

6971

۶۹۶۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ ، قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِالتَّخْیِیْرِ بَیْنَ الْأَنْبِیَائِ فَیُقَالُ : اِنَّ فُلَانًا خَیْرٌ مِنْ فُلَانٍ ، عَلٰی مَا جَائَ مِمَّا کَانَ فِیْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَکَرِہُوْا التَّخْیِیْرَ بَیْنَ الْأَنْبِیَائِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٦٩٦٨: مختار بن فلفل نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان ترجیح میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً کہ فلاں فلاں سے بہتر ہے مگر یہ ان صفات میں ہوگا جو انفرادی طور پر ان میں پائی جاتی ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) میں ایک دوسرے پر ترجیح دینا جائز نہیں انھوں نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔

6972

۶۹۶۹ : بِمَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی الْمَازِنِیِّ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَخَیَّرُوْا بَیْنَ أَنْبِیَائِ اللّٰہِ۔
٦٩٦٩: عمرو بن یحییٰ مازنی نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں میں ایک کو دوسرے پر ترجیح مت دو ۔
تخریج : بخاری فی الخصومات باب ١‘ والدیات باب ٣٢‘ مسلم فی الفضائل ١٦٣‘ ابو داؤد فی السنہ باب ١٣‘ مسند احمد ٣‘ ٣١؍٣٣۔

6973

۶۹۷۰ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ ، قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیٰی بْنِ عُمَارَۃَ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔
٦٩٧٠: یحییٰ بن عمارہ نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابو سعید (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

6974

۶۹۷۱ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٦٩٧١: ابو نعیم نے سفیان سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے روایت نقل کی ہے۔

6975

۶۹۷۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا الْمَاجِشُوْنِ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ قَالَ : أَخْبَرَنِی الْأَعْرَجُ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ ، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ لَا تُفَضِّلُوْا۔فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُفَضَّلَ بَیْنَ الْأَنْبِیَائِ .وَرُوِیَ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلَی مُوْسٰی۔
٦٩٧٢: اعرج نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا۔ البتہ طویل روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ ” لاتفضلوا “ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انبیاء (علیہم السلام) میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے سے روکا۔ اور یہ روایت بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تم مجھے موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت مت دو ۔
تخریج : بخاری فی احادیث الانبیاء باب ٣٥‘ مسلم فی الفضائل ١٥٩۔

6976

۶۹۷۳ : عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ ، عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُخَیِّرُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی، فَاِنَّ النَّاسَ یَصْعَقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَأَکُوْنُ أَوَّلَ مَنْ یُفِیْقُ ، فَاِذَا مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ ، بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ ، فَلَا أَدْرِی أَصُعِقَ فِیْمَنْ کَانَ صُعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِیْ، أَوْ کَانَ فِیْمَنِ اسْتَثْنَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ؟۔فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُفَضِّلُوْھُ عَلَی مُوْسَیْ وَقَالَ لَہُمْ اِنِّیْ أَوَّلُ مَنْ یُفِیْقُ مِنِ الصَّعْقَۃِ ، فَأَجِدُ مُوْسَیْ قَائِمًا ، فَلَا أَدْرِی أَکَانَ فِیْمَنْ صُعِقَ قَبْلِیْ، فَأَفَاقَ قَبْلِیْ، أَمْ کَانَ فِیْمَنِ اسْتَثْنَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ؟۔فَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَنَا عَلٰی أَنَّہٗ جَازَ عِنْدَہٗ أَنْ یَکُوْنَ فِیْمَا اسْتَثْنَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَلَمْ تُصِبْہُ الصَّعْقَۃُ ، فَفُضِّلَ بِذٰلِکَ ، أَوْ صُعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلَہٗ، فَکَانَ فِیْ مَنْزِلَتِہٖ ، لِأَنَّہُمَا قَدْ صُعِقَا جَمِیْعًا .فَکَرِہَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذٰلِکَ ، تَفْضِیْلَہٗ عَلَیْہٖ، لِمَا احْتَمَلَ تَخَطِّی الصَّعْقَۃِ اِیَّاہُ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا أَنَّہٗ قَالَ لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یَقُوْلَ : أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی۔
٦٩٧٣: سعید بن مسیب (رض) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم مجھے موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت مت دو ۔ بیشک لوگ قیامت کے دن بےہوش ہوجائیں گے میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا۔ اچانک موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پائے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں مجھے معلوم نہیں کہ آیا وہ بےہوش ہونے والوں میں بیہوش ہوئے اور پھر مجھ سے پہلے ان کو ہوش آگیا یا وہ ان لوگوں سے ہیں جن کو اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ (الا من شاء اللہ کی طرف اشارہ فرمایا) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت سے منع فرمایا اور یہ فرمایا کہ مجھے پہلے ہوش آئے گا تو میں موسیٰ (علیہ السلام) کو کھڑا پاؤں گا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ آیا وہ بےہوش ہونے والوں سے ہیں یا وہ ان لوگوں سے ہیں کہ جن کو اس بےہوشی سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ پس ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس بات کو جائز قرار دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں سے ہوں جو کہ بےہوشی سے مستثنیٰ ہوں اور انھیں بےہوشی پہنچی ہی نہیں تو اس لحاظ سے ان کو فضیلت حاصل ہو یا وہ بےہوش ہوئے مگر آپ سے پہلے ان کو افاقہ ہوگیا (اس لحاظ سے فضیلت ہو) تو دونوں ایک ہی درجہ میں ہوئے اس لیے کہ دونوں میں بےہوشی طاری ہوئی تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی فضیلت ظاہر کرنے کو ناپسند فرمایا کیونکہ ممکن ہے کہ وہ بےہوشی سے محفوظ رہے ہوں حالانکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کسی آدمی کو یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ میں حضرت یونس بن متی سے افضل و بہتر ہوں۔ روایت یہ ہے :
تخریج : بخاری فی الخصومات باب ١‘ احادیث الانبیاء باب ٣١‘ تفسیر سورة ٨‘ مسلم فی الفضائل ١٦٠‘ ابو داؤد فی السنہ باب ١٣‘ مسند احمد ٢؍٢٦٤۔

6977

۶۹۷۴ : حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یَقُوْلَ : أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتَّی .
٦٩٧٤: ابوالعالیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی آدمی کو یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ میں حضرت یونس بن متیٰ (علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔
تخریج : بخاری فی احادیث الانبیاء باب ٢٤؍٣٥‘ مسلم فی الفضائل ١٦٦؍١٦٧‘ ترمذی فی الصلاۃ باب ٢٠۔

6978

۶۹۷۵ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : سَمِعْتُ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَا یَنْبَغِیْ لِعَبْدٍ أَنْ یَقُوْلَ أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتَّی۔
٦٩٧٥: حمید بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ کسی آدمی کو یہ کہنا جائز نہیں کہ میں (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) حضرت یونس بن متیٰ سے بہتر ہوں۔

6979

۶۹۷۶ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَلَمَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ عَلِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَأَنَّہٗ عَنِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَذَکَرَ مِثْلَہٗ، وَزَادَ قَدْ سَبَّحَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فِی الظُّلُمَاتِ فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّخْیِیْرِ بَیْنَہٗ، وَبَیْنَ أَحَدٍ مِنَ الْأَنْبِیَائِ بِعَیْنِہٖ ، وَأَخْبَرَ بِفَضِیْلَۃٍ لِکُلِّ مَنْ ذَکَرَہٗ مِنْہُمْ لَمْ تَکُنْ لِغَیْرِہٖ۔ فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ فَیُجْعَلُ مُضَادًّا لِحَدِیْثِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ؟ .قُلْتُ : لَیْسَ ہٰذَا عِنْدِی ، بِمُضَاد لَہٗ، لِأَنَّ حَدِیْثَ الْمُخْتَارِ ، اِنَّمَا ہُوَ عَلٰی أَنَّ اِبْرَاھِیْمَ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ ، فَلَمْ یَقْصِدْ فِیْ ذٰلِکَ اِلٰی أَحَدٍ دُوْنَ أَحَدٍ .وَفِی الْآثَارِ الْأُخَرِ ، تَفْضِیْلُ نَبِیْ عَلٰی نَبِی ، فَفِیْ تَفْضِیْلِ أَحَدِہِمْ بِعَیْنِہٖ عَلٰی آخَرَ مِنْہُمْ ، اِزْرَائٌ عَلَی الْمَفْضُوْلِ ، وَلَیْسَ فِیْ تَفْضِیْلِ رَجُلٍ عَلَی النَّاسِ اِزْرَائٌ عَلٰی أَحَدٍ مِنْہُمْ .ہٰذَا یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ الْمَعْنَی ، حَتّٰیْ لَا تَتَضَادَّ ہٰذِہِ الْآثَارُ .وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَطْلَعَ رَسُوْلَہٗ عَلٰی أَنَّ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ ، وَلَمْ یُطْلِعْہُ عَلَی تَفْضِیْلِ بَعْضِ الْأَنْبِیَائِ غَیْرَہٗ عَلٰی بَعْضٍ .فَوَقَفَ فِیْمَا لَمْ یُطْلِعْہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہٖ، فَأَمَرَ بِالْوَقْفِ عِنْدَہٗ، وَأَطْلَقَ الْکَلَامَ فِیْمَا أَطْلَعَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِ .
٦٩٧٦: عبداللہ بن سلمہ نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے گویا کہ انھوں نے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نقل کیا ہے پھر انھوں نے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اور یہ اضافہ کیا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے اندھیروں میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کی۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے روک دیا کہ انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان ترجیح دی جائے اور اس طرح آپ نے ہر پیغمبر (علیہ السلام) کی اس فضیلت کا ذکر کیا جو دوسرے کے لیے نہیں اسی کے ساتھ خاص ہے۔ یہ روایت تو مختار بن فلفل کی گزشتہ روایت کے مخالف ہے۔ یہ روایت میرے ہاں تو اس کے مخالف نہیں ہے کیونکہ حضرت مختار (رح) کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مخلوق میں بہتر ہیں تو اس میں کسی کو چھوڑ کر دوسرے کا قصد نہیں کیا گیا۔ جبکہ دیگر روایات میں ایک پیغمبر کی دوسرے پر فضیلت خاصہ کا تذکرہ ہے پس معین پیغمبر کو دوسرے پر فضیلت دینے سے مفضول کی توہین ہے جبکہ کسی دوسرے شخص کو دوسرے تمام لوگوں پر فضیلت دیتے ہیں تو اس صورت میں ان پر عیب جوئی نہیں ہے تو اس طرح ان روایات سے تضاد ختم ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات پر مطلع کردیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) تمام مخلوق سے بہتر ہیں اور اس بات کی اطلاع نہ دی ہو کہ بعض انبیاء کرام کو دوسرے بعض پر فضیلت حاصل ہے۔ تو جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اطلاع نہیں دی اس کے متعلق آپ نے توقف فرمایا اور دوسروں کو بھی توقف کا حکم فرمایا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دی اس میں کلام کو مطلق رکھا۔ (ممکن ہے کہ اس بات کی ممانعت ہو کہ اپنی رائے سے فضیلت نہ دو ۔ بس جو منقول ہے اس پر اکتفاء کرو کیونکہ اس کا تعلق اطلاع باری تعالیٰ پر موقوف ہے نص سے فضیلت وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض کے تحت ہے۔ مترجم واللہ اعلم)

6980

۶۹۷۷ : حَدَّثَنَا أَبُوْخَالِدٍ یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرٍ الْحَنَفِیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا نَہٰی أَنْ یُخْصَی الْاِبِلُ ، وَالْبَقَرُ ، وَالْغَنَمُ ، وَالْخَیْلُ۔وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ : مِنْہَا نَشَأَتِ الْخَلْقُ ، وَلَا تَصْلُحُ الْاِنَاثُ اِلَّا بِالذُّکُوْرِ .
٦٩٧٧: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں ‘ بیلوں ‘ بکروں ‘ گھوڑوں کو خصی کرنے سے منع فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں اسی سے مخلوق پیدا ہوئی اور مادہ بلا نر کے مناسب ہی نہیں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٤‘ باختلاف یسیر من اللفظ۔
خلاصہ الزام :
کسی نر جانور کو خصی کرنا یہ تغیر خلق اللہ کی قسم سے بن جاتا ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : جن جانوروں کے کاٹنے کا خطرہ ہو یا ان کے متعلق چربی سے بھرپور کرنے کا ارادہ ہو ان کو خصی کرنے میں کچھ قباحت نہیں۔

6981

۶۹۷۸ : حَدَّثَنَا یَزِیْدُ قَالَ ، ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ : ثَنَا عِیْسَیْ بْنُ یُوْنُسَ ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نَافِعٍ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی ھٰذَا ، فَقَالُوْا : لَا یَحِلُّ اِخْصَائُ شَیْئٍ مِنَ الْفُحُوْلِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ قَالُوْا : وَہُوَ الْاِخْصَائُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : مَا خِیْفَ عِضَاضُہٗ مِنَ الْبَہَائِمِ ، أَوْ مَا أُرِیْدَ شَحْمُہٗ مِنْہَا ، فَلَا بَأْسَ بِاِخْصَائِہٖ۔ وَقَالُوْا : ہٰذَا الْحَدِیْثُ الَّذِی احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْنَا مُخَالِفُنَا ، اِنَّمَا ہُوَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوْفٌ ، وَلَیْسَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٩٧٨: عیسیٰ بن یونس نے عبداللہ بن نافع سے پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگ اس طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کسی نر کو خصی کرنا حلال نہیں۔ انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” فلیغیرن خلق اللہ ۔۔۔“ اس آیت میں جس تغییر خلق کا ذکر ہے اس سے یہی خصی ہونا مراد ہے۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ جس کے متعلق خطرہ ہو کہ وہ دوسرے جانوروں کو کاٹے گا یا جس کے چربی سے بھرپور کرنے کا ارادہ ہو اسے خصی کرنے میں حرج نہیں۔ فریق مخالف کا کہنا ہے کہ جو روایت دلیل میں پیش کی جاتی ہے وہ ابن عمر (رض) پر موقوف ہے وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک مرفوعا ثابت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو۔

6982

۶۹۷۹ : فَذَکَرُوْا مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ۔، وَلَمْ یَذْکُرِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَارَ أَہْلُ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، اِنَّمَا ہُوَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَأَمَّا مَا ذَکَرُوْا مِنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ : فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ فَقَدْ قِیْلَ : تَأْوِیْلُہٗ مَا ذَہَبُوْا اِلَیْہِ .وَقِیْلَ : اِنَّہٗ دِیْنُ اللّٰہِ .وَقَدْ رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَحّٰی بِکَبْشَیْنِ مَوْجُوْئَ یْنِ ، وَہُمَا الْمَرْضُوْضَانِ خَصَاہُمَا ، وَالْمَفْعُوْلُ بِہٖ ذٰلِکَ ، قَدِ انْقَطَعَ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ نَسْلٌ فَلَوْ کَانَ اِخْصَاؤُہُمَا مَکْرُوْہًا ، اِذًا لَمَا ضَحَّیْ بِہِمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لِیَنْتَہِیَ النَّاسُ عَنْ ذٰلِکَ ، فَلَا یَفْعَلُوْنَہٗ، لِأَنَّہُمْ مَتٰی مَا عَلِمُوْا أَنَّ مَا أُخْصِیَ تُجْتَنَبُ أَوْ تُجَافٰی، أَحْجَمُوْا عَنْ ذٰلِکَ ، فَلَمْ یَفْعَلُوْھُ .أَلَا تَرٰی أَنَّ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ ، فِیْمَا رَوَیْنَاہٗ عَنْہُ فِیْ بَابِ رُکُوْبِ الْبِغَالِ أَنَّہٗ أُتِیَ بِعَبْدٍ خَصِیْ یَشْتَرِیْہِ .فَقَالَ : مَا کُنْتُ لَأُعِیْنَ عَلَی الْاِخْصَائِ .فَجَعَلَ ابْتِیَاعَہٗ اِیَّاہٗ، عَوْنًا عَلَی اِخْصَائِہٖ، لِأَنَّہٗ لَوْلَا مَنْ یَبْتَاعُہٗ، لِأَنَّہٗ خَصِیٌّ لَمْ یَخْصِہِ مَنْ أَخْصَاہٗ، فَکَذٰلِکَ اِخْصَائُ الْغَنَمِ ، لَوْ کَانَ مَکْرُوْہًا ، لَمَا ضَحَّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا قَدْ أُخْصِیَ مِنْہَا .وَلَا یُشْبِہُ اِخْصَائُ الْبَہَائِمِ اِخْصَائَ بَنِی آدَمَ ، لِأَنَّ اِخْصَائَ الْبَہَائِمِ ، اِنَّمَا یُرَادُ بِہٖ مَا ذَکَرْنَا ، مِنْ سَمَانَتِہَا ، وَقَطْعِ عَضِّہَا ، فَذٰلِکَ مُبَاحٌ .وَبَنُو آدَمَ ، فَاِنَّمَا یُرَادُ بِاِخْصَائِہِمُ الْمَعَاصِی ، فَذٰلِکَ غَیْرُ مُبَاحٍ .وَلَوْ کَانَ مَا رَوَیْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ صَحِیْحًا ، لَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ أُرِیْدَ الْاِخْصَائُ الَّذِیْ لَا یَبْقَیْ مَعَہُ شَیْئٌ ، مِنْ ذُکُوْرِ الْبَہَائِمِ ، حَتّٰی یُخْصٰی، فَذٰلِکَ مَکْرُوْہٌ ، لِأَنَّ فِیْہِ انْقِطَاعَ النَّسْلِ .أَلَا تَرَاہُ یَقُوْلُ فِیْ ذٰلِکَ الْحَدِیْثِ مِنْہَا نَشَأَتِ الْخَلْقُ أَیْ : فَاِذَا لَمْ یَنْشَأْ شَیْئٌ مِنْ ذٰلِکَ الْخَلْقِ ، فَذٰلِکَ مَکْرُوْہٌ .فَأَمَّا مَا کَانَ مِنَ الْاِخْصَائِ الَّذِیْ لَا یَنْقَطِعُ مِنْہُ نَشْئُ الْخَلْقِ ، فَہُوَ بِخِلَافِ ذٰلِکَ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ اِبَاحَۃِ اِخْصَائِ الْبَہَائِمِ ، عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ .
٦٩٧٩: نافع نے ابن عمر (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ نہیں ہے۔ پس اس کا موقوف ہونا ثابت ہوگیا باقی آیت جس کا تذکرہ بطور دلیل کیا گیا ہے تو اس کی ایک تاویل اگر وہ ہے جو فریق اوّل نے کی ہے تو دوسری تاویل تخلیق کے بدلنے سے دین فطرت کا بدلنا مراد ہے۔ روایات میں وارد ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کی اور وہ دو دنبے تھے جو موجؤین تھے اس کا معنی جس کے کپوروں کو کو ٹا گیا ہو۔ اس کی نسل کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا تو اگر خصی کرنا مکروہ ہوتا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی قربانی نہ کرتے تاکہ لوگ اس سے باز آجائیں اور نہ کریں کیونکہ لوگوں کو جب یہ معلوم ہوجاتا جو خصی ہو اس سے گریز کیا جاتا یا بچا جاتا ہے تو لوگ اس سے رک جاتے اور نہ کرتے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس ایک غلام لایا گیا جو خصی تھا تاکہ وہ خرید لیں (باب رکوب البغال) تو آپ نے فرمایا میں خصی پن پر معاون نہیں بن سکتا (اس لیے میں نہ خریدوں گا) تو آپ نے خصی غلام کی خریداری کو اعانت علی الاخصاء قرار دے کر نہ خریدا۔ کیونکہ اگر کوئی اس کو خصی ہونے کی بناء پر نہ خریدے گا تو پھر خصی کرنے والا آئندہ خصی نہ کرے گا۔ اسی طرح بکریوں میں خصی کرنا اگر مکروہ ہوتا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خصی کی قربانی نہ کرتے۔ نیز اس کو بنی آدم کے خصی کرنے پر قیاس نہیں کرسکتے کیونکہ جانوروں کے خصی کرنے سے ان کا موٹا کرنا اور ان کے کاٹنے سے حفاظت مقصود ہے اور یہ مباح ہے اور انسانوں کو خصی کرنے سے معاصی مقصود ہیں اور یہ ناجائز ہے۔ اگر اس روایت کو بوجوہ مان لیا جائے تو ممکن ہے کہ اس سے مراد ایسا خصی بنانا ہو جس کے ساتھ اور کوئی چیز نر حیوانات کی باقی نہ رہے اور یہ مکروہ ہے کیونکہ اس سے سلسلہ نسل کا انقطاع لازم آتا ہے اس پر دلالت یہ ہے کہ روایت میں ” منہا نشأت الخلق “ کہا گیا کہ جب اس سے کوئی چیز پیدا نہ ہو تو یہ مکروہ ہے۔ باقی ایسا خصی کرنا جس سے پیدائش کا سلسلہ منقطع نہ ہو وہ اس کے خلاف ہے۔
حیوانات کے خصی کرنے پر متقدمین سے ثبوت :

6983

۶۹۸۰ : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ عُرْوَۃَ أَنَّہٗ أَخْصٰی بَغْلًا لَہٗ۔
٦٩٨٠: ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ انھوں نے عروہ سے روایت کی کہ انھوں نے اپنے خچر کو خصی کیا۔

6984

۶۹۸۱ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ مِثْلَہٗ۔
٦٩٨١: ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

6985

۶۹۸۲ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ أَنَّ أَبَاہُ أَخْصٰی جَمَلًا لَہٗ۔
٦٩٨٢: سفیان نے ابن طاؤس سے روایت کی ہے کہ ان کے والد نے اپنے ایک اونٹ کو خصی کیا۔

6986

۶۹۸۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ عِمْرَانَ ، قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَطَائٍ قَالَ : لَا بَأْسَ بِاِخْصَائِ الْفَحْلِ اِذَا خُشِیَ عِضَاضُہٗ۔
٦٩٨٣: مالک بن مغول سے روایت ہے کہ حضرت عطاء نے فرمایا کہ نر کو خصی کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اس کے کاٹنے کا خطرہ ہو۔

6987

۶۹۸۴ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّہٗ اسْتَأْذَنَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ کِتَابَۃِ الْعِلْمِ ، فَلَمْ یَأْذَنْ لَہٗ ۔ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ کِتَابَۃِ الْعِلْمِ ، وَنُہُوْا عَنْ ذٰلِکَ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْہِ بِمَا ذَکَرْنَاہُ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِکِتَابَۃِ الْعِلْمِ بَأْسًا ، وَعَارَضُوْا مَا احْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہِمْ مُخَالِفُہُمْ ، مِنَ الْأَثَرِ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہٗ، بِمَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٦٩٨٤: عطاء ابن یسار کہتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری (رض) نے نقل کیا کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علمی باتیں لکھنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت نہیں دی۔ امام طحاوی (رح) : کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ علم کا لکھنا مکروہ ہے اور وہ اس سے منع کرتے ہیں اور اس روایت کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ کتابت علم میں کوئی حرج نہیں اور اس کا ثبوت یہ روایت ہے جو آئندہ سطور میں ذکر کر رہے ہیں۔
تخریج : ترمذی فی العلم باب ١١۔
خلاصہ الزام :
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ علم کا لکھنا مکروہ ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : کتابت علم میں کچھ حرج نہیں ہے۔

6988

۶۹۸۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ ، عَنِ الْمُخَارِقِ ، عَنْ طَارِقٍ قَالَ : خَطَبَنَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ : مَا عِنْدَنَا مِنْ کِتَابٍ نَقْرَؤُہٗ عَلَیْکُمْ اِلَّا کِتَابُ اللّٰہِ، وَہٰذِہٖ الصَّحِیْفَۃُ یَعْنِیْ، الصَّحِیْفَۃَ فِیْ دَوَاتِہٖ۔وَقَالَ : فِیْ غِلَافِ سَیْفٍ عَلَیْہِ أَخَذْنَاہَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فِیْہَا فَرَائِضُ الصَّدَقَۃِ۔
٦٩٨٥: طارق کہتے ہیں کہ علی المرتضیٰ (رض) نے ہمیں خطبہ دیا اور سوائے اللہ کی کتاب کے اور اس صحیفے کے جو آپ (رض) کی تلوار کے غلاف میں تھا جس کو ہم نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کیا ہے اس میں صدقہ کے فرائض کا بیان ہے۔
تخریج : بخاری فی الجذیعہ باب ١٠‘ والفرائض باب ٢١‘ مسند احمد ١؍١٠٠‘ ٢؍١٢٦۔

6989

۶۹۸۶ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی، قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ اِبْرَاھِیْمَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَلِیْ قَالَ : لَیْسَ عِنْدَنَا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ کِتَابٍ ، اِلَّا کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَشَیْئٌ فِیْ ہٰذِہٖ الصَّحِیْفَۃِ الْمَدِیْنَۃُ حَرَامٌ ، مَا بَیْنَ عِیْرٍ اِلٰی ثَوْرٍ وَفِی الْحَدِیْثِ غَیْرُ ہٰذَا .
٦٩٨٦: ابراہیم تیمی نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ ہمارے پاس جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کتاب اللہ کے سوا اور کوئی کتاب نہیں اور ایک چیز جو اس صحیفہ میں ہے کہ مدینہ حرم ہے اور اس کی حدود جبل عیر سے ثور تک ہے۔ اور حدیث میں اس کے علاوہ مذکور ہے۔
تخریج : بخاری فضائل المدینہ باب ١‘ مسند احمد ١؍١١٩۔

6990

۶۹۸۷ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا الْوَہْبِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ اِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ حَکِیْمٍ وَمُجَاہِدٍ ، أَنَّہُمَا سَمِعَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ : مَا کَانَ أَحَدٌ أَحْفَظَ لِحَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنِّیْ اِلَّا مَا کَانَ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ، فَاِنِّیْ کُنْتُ أَعِیْ بِقَلْبِیْ، وَکَانَ یَعِیْ بِقَلْبِہٖ ، وَیَکْتُبُ بِیَدِہِ اسْتَأْذَنَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ فَأَذِنَ لَہٗ۔
٦٩٨٧: مغیرہ بن حکیم اور مجاہد نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو یہ کہتے سنا کہ وہ فرماتے تھے حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجھ سے زیادہ کوئی بھی یاد رکھنے والا نہیں تھا سوائے عبداللہ بن عمرو کے میں زبانی یاد کرتا اور وہ زبانی یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے لکھ لیتے انھوں نے اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی تھی آپ نے ان کو اجازت دے دی تھی۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤٠٣۔

6991

۶۹۸۸ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ أَنَّ شُعَیْبًا حَدَّثَہٗ وَمُجَاہِدًا، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ، وَقَالَ : قُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَکْتُبُ مَا سَمِعْتُ مِنْک قَالَ : نَعَمْ .قُلْت: عِنْدَ الْغَضَبِ وَالرِّضَائِ قَالَ: اِنَّہٗ لَا یَنْبَغِیْ أَنْ أَقُوْلَ اِلَّا حَقًّا۔
٦٩٨٨: مجاہد نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کہ آپ سے جو کچھ سنوں کیا میں اس کو لکھ لوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ میں نے کہا غصے اور رضا مندی دونوں اوقات کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے لائق ہی یہ ہے کہ میں حق بات کہوں۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢٠٧۔

6992

۶۹۸۹ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : وَأَخْبَرَنِیْ، یَعْنِیْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُقَیْلِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ حَکَیْمٍ ، أَنَّہٗ سَمِعَ مِنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، فَذَکَرَ نَحْوًا مِنْ ذٰلِکَ .
٦٩٨٩: مغیرہ بن حکیم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا انھوں نے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔

6993

۶۹۹۰ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنِّیْ أَسْمَعُ مِنْک أَشْیَائَ ، أَخَافُ أَنْ أَنْسَاہَا ، أَفَتَأْذَنُ لِیْ أَنْ أَکْتُبَہَا قَالَ : نَعَمْ۔فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، الْاِبَاحَۃُ لِکِتَابَۃِ الْعِلْمِ ، وَخِلَافٌ لِحَدِیْثِ ، أَبِیْ سَعْدٍ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .وَہٰذَا أَوْلٰی بِالنَّظَرِ ، لِأَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ : فِی الدَّیْنِ وَلَا تَسْأَمُوْا أَنْ تَکْتُبُوْھُ صَغِیْرًا أَوْ کَبِیْرًا اِلٰی أَجَلِہِ ذٰلِکُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَأَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَأَدْنَی أَلَّا تَرْتَابُوْا۔فَلَمَّا أَمَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِکِتَابَۃِ الدَّیْنِ خَوْفَ الرَّیْبِ ، کَانَ الْعِلْمُ الَّذِی حِفْظُہٗ أَصْعَبُ مِنْ حِفْظِ الدَّیْنِ أَحْرٰی أَنْ تُبَاحَ کِتَابَتُہٗ، خَوْفَ الرَّیْبِ فِیْہٖ، وَالشَّکِّ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَمَّنْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا یُوَافِقُ ہٰذَا .
٦٩٩٠: عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے انھوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ میں نے گزارش کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ سے کئی بائیں سنتا ہوں جن کے بھول جانے کا ڈر رہتا ہے کیا آپ مجھے لکھنے کی اجازت دیتے ہیں فرمایا جی ہاں۔ ان آثار سے ابو سعید کی روایت کے خلاف علم کے لکھنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے۔ قیاس کے اعتبار سے بھی یہ بات درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرضے کے سلسلے میں فرمایا ” ولا تسئموا ان تکتبوہ “ (البقرہ ٢٨٢) جب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرضے کے متعلق شک کے خطرے کے پیش نظر لکھنے کا حکم دیا تو وہ علم جس کا محفوظ کرنا قرض کی حفاظت سے بھی زیادہ مشکل ہو اس کے لکھنے کا جواز مناسب تر ہے تاکہ اس میں شک و شبہ کا گزر نہ ہو یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٢١٥۔
صحابہ ] وتابعین (رض) کے اقوال سے اس کی تائید :

6994

۶۹۹۱ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْعَدَنِیُّ قَالَ : ثَنَا الْحَکَمُ بْنُ أَبَانَ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَہْلِ الطَّائِفِ أَتَوْہُ بِصُحُفٍ مِنْ صُحُفِہٖ، لِیَقْرَأَہَا عَلَیْہِمْ .فَلَمَّا أَخَذَہَا ، لَمْ یَنْطَلِقْ فَقَالَ : اِنِّیْ لَمَّا ذَہَبَ بَصَرِیْ بَلِہْتُ، فَاقْرَئُوْہَا عَلَیَّ ، وَلَا یَکُنْ فِیْ أَنْفُسِکُمْ مِنْ ذٰلِکَ حَرَجٌ ، فَاِنَّ قِرَائَ تَکُمْ عَلَیَّ کَقِرَائَ تِیْ عَلَیْکُمْ۔
٦٩٩١: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس طائف کے کچھ لوگ آئے ان کے پاس ایک صحیفہ تھا وہ چاہتے تھے کہ آپ ان کو پڑھ کر سنائیں جب آپ تو پڑھ نہ سکے آپ نے فرمایا جب سے میری نگاہ گئی ہے میں معذور ہوگیا ہوں تم اس کو مجھے پڑھ کر سناؤ تمہارے دلوں میں اس سلسلے میں کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے تمہارا مجھے پڑھ کر سنانا اسی طرح ہے جیسا میرا تمہیں پڑھ کر سنانا۔

6995

۶۹۹۲ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ : کَانَ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ یَکْتُبُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَقِیْلَ لَہٗ : اِنَّہُمْ یَکْتُبُوْنَ ، فَقَالَ : یَکْتُبُوْنَ ، وَکَانَ أَحْسَنَ شَیْئٍ خُلُقًا .
٦٩٩٢: missing

6996

۶۹۹۳ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ ، قَالَ : ثَنَا أَبُو الرَّبِیْعِ الزَّہْرَانِیُّ ، قَالَ : ثَنَا یَعْقُوْبُ الْقُمِّیُّ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ ، قَالَ : کُنَّا نَأْتِی جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، فَنَسْأَلُہٗ عَنْ سُنَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَنَکْتُبُہَا .
٦٩٩٣ : عبداللہ بن محمد کہتے ہیں کہ حضرت جابر کے پاس جاتے اور ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنتیں پوچھ کر لکھ لیتے۔

6997

۶۹۹۴ : حَدَّثَنَا حُسَیْنٌ قَالَ : ثَنَا نُعَیْمٌ ، قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : ثَنَا مَحْمُوْدُ بْنُ الرَّبِیْعِ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : أَنَسٌ فَلَقِیْتُ عِتْبَانَ ، فَحَدَّثَنِیْ بِہٖ ، فَأَعْجَبَنِیْ فَقُلْت لِابْنِیْ: اُکْتُبْہٗ، فَکَتَبَہٗ۔
٦٩٩٤: عتبان بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت انس کہنے لگے میں عتبان سے ملا تو انھوں نے میری سند سے روایت نقل کی تو مجھے پسند آئی میں نے اپنے بیٹے کو کہا اس کو لکھ لو اس نے وہ لکھ لی۔

6998

۶۹۹۵ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ ، ح .
٦٩٩٥: ربیع موذن نے اسد سے روایت کی ہے۔

6999

۶۹۹۶ : وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا : ثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ ، عَنْ أَخِیْہِ : سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ : لَیْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکْثَرَ حَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنِّیْ ، مَا خَلَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَاِنَّہٗ کَانَ یَکْتُبُ وَلَا أَکْتُبُ۔
٦٩٩٦: وہب بن منبہ نے اپنے بھائی سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو یہ کہتے سنا کہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مجھ سے زیادہ کوئی بھی روایت کرنے والا نہیں تھا سوائے عبداللہ ابن عمرو کے وہ لکھ لیتے تھے میں لکھتا نہیں تھا۔

7000

۶۹۹۷ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اِسْحَاقَ الدِّمَشْقِیُّ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ بَشِیْرِ بْنِ نَہِیْکٍ قَالَ : کُنْتُ آخُذُ الْکُتُبَ مِنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ فَأَکْتُبُہَا ، فَاِذَا فَرَغْتُ، قَرَأْتُہَا عَلَیْہِ، فَأَقُوْلُ : الَّذِیْ قَرَأْتُہٗ عَلَیْکَ، أَسَمِعْتُہٗ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَیَقُوْلُ : نَعَمْ .
٦٩٩٧: بشیر بن نہیک کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ (رض) سے کتابیں لے کر لکھتا تھا جب میں فارغ ہوجاتا تو میں ان کے سامنے پڑھتا اور کہتا جو کچھ میں نے آپ کے سامنے پڑھا ہے کیا آپ نے سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے وہ کہتے جی ہاں۔

7001

۶۹۹۸ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ نَاسًا أَتَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِصَاحِبٍ لَہُمْ ، فَسَأَلُوْھُ أَنَکْوِیْہٖ؟ ، فَسَکَتَ ، فَسَأَلُوْھُ ، فَسَکَتَ ، ثُمَّ سَأَلُوْھُ فَقَالَ ارْضِفُوْھُ أَوْ حَرِّقُوْھُ وَکَرِہَ ذٰلِکَ۔
٦٩٩٨: ابوالاحوص حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک ساتھی کو لے کر حاضر ہوئے اور انھوں نے پوچھا کیا ہم اس کو داغ دے سکتے ہیں ؟ تو آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ انھوں نے پھر پوچھا۔ آپ نے پھر خاموشی اختیار فرمائی۔ انھوں نے تیسری مرتبہ پوچھا تو آپ نے فرمایا اس کو گرم پتھر سے خواہ داغو یا گرم لوہے سے داغو (تمہاری مرضی ہے) اور آپ نے اس کو پسند نہ فرمایا۔
تخریج : مسند احمد ١؍٣٩٠۔
خلاصہ الزام :
داغنا ممنوع ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : اگر کسی چیز کا علاج داغنے میں ہو تو اس میں داغنا گناہ نہیں۔

7002

۶۹۹۹ : حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا اِسْرَائِیْلُ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَۃُ نَفَرٍ فَقَالُوْا : اِنَّ صَاحِبًا لَنَا مَرِیْضٌ وَوُصِفَ لَہُ الْکَیُّ ، أَفَنَکْوِیْہٖ؟ فَسَکَتَ ، ثُمَّ عَاوَدُوْا فَسَکَتَ ، ثُمَّ قَالَ لَہُمْ فِی الثَّالِثَۃِ اکْوُوْھُ اِنْ شِئْتُمْ ، وَاِنْ شِئْتُمْ فَارْضِفُوْھُ بِالرَّضْفِ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : وَمَعْنٰی ہٰذَا عِنْدَنَا عَلَی الْوَعِیْدِ الَّذِیْ ظَاہِرُہُ الْأَمْرُ ، وَبَاطِنُہُ النَّہْیُ ، کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتُ مِنْہُمْ الْآیَۃَ ، وَکَقَوْلِہٖ اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ۔
٦٩٩٩: ابوالاحوص نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تین آدمی آئے اور انھوں نے گزارش پیش کی ہمارا ساتھی بیمار ہے اور اس کے لیے داغنا تجویز کیا گیا ہے کیا ہم داغ دے سکتے ہیں ؟ تو آپ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی۔ انھوں نے سوال کا اعادہ کیا تو آپ نے جواب سے خاموشی اختیار کی پھر ان کو تیسری مرتبہ فرمایا۔ اگر تم پسند کرتے ہو تو داغو۔ اور اگر تم چاہو تو گرم پتھر سے داغو۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ہمارے نزدیک تو یہ وعید ہے جو بظاہر امر ہے مگر باطنا نہی ہے جیسا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” واستفزز من استطعت منہم “ (الاسرائ ٦٤) اسی طرح اس آیت میں ” اعملوا ما شئتم “

7003

۷۰۰۰: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ سَعِیْدِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْعَدَ الثَّعْلَبِیُّ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنْ کَانَ فِیْ شَیْئٍ مِمَّا تُدَاوُوْنَ بِہٖ شِفَائٌ ، فَفِیْ شَرْطَۃِ مِحْجَمٍ ، أَوْ شَرْبَۃِ عَسَلٍ ، أَوْ لَذْعَۃِ نَارٍ ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَکْتَوِیَ۔
٧٠٠٠: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ فرمایا اگر ان چیزوں میں سے کسی چیز میں شفاء ہے جن سے تم علاج کرتے ہو تو وہ سینگی کے پچھنے یا شہد کا گھونٹ یا لوہے سے داغنے میں ہے البتہ میں داغنے کو پسند نہیں کرتا۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ١٥؍١٧‘ مسلم فی السلام ٧١‘ مسند احمد ٣‘ ٦‘ ٣٤٣‘ ٤٠١۔

7004

۷۰۰۱: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِیْ سَبْعُوْنَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ .قِیْلَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، مَنْ ہُمْ ؟ قَالَ ہُمْ الَّذِیْ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ ، وَلَا یَکْتَوُوْنَ ، وَلَا یَسْتَرِقُّوْنَ ، وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔
٧٠٠١: حسن نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ میری امت میں سے ستّر ہزار افراد بلاحساب جنت میں جائیں گے۔ پوچھا گیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون لوگ ہیں تو فرمایا وہ وہ لوگ ہیں جو نہ شگون لیتے ہیں اور نہ داغتے ہیں اور نہ تعویذ گنڈا لیتے ہیں بلکہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ٧‘ والرقاق باب ٥٠‘ مسلم فی الایمان ٣٧١؍٣٧٢‘ ترمذی فی القیامہ باب ١٦‘ مسند احمد ١؍٢٧١‘ ٤٠١۔

7005

۷۰۰۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِیُّ ، قَالَ : ثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ : ثَنَا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ : نُہِیْنَا عَنِ الْکَیِّ۔
٧٠٠٢: حسن نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ ہمیں داغ دینے سے روک دیا گیا۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ٣‘ ابو داؤد فی الطب باب ٧‘ ترمذی فی الطب باب ١٠‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٢٣‘ مسند احمد ٤؍١٥٦‘ ٤٢٧۔

7006

۷۰۰۳: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہٰی عَنِ الْکَیِّ۔فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الْکَیَّ مَکْرُوْہٌ ، وَأَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یَفْعَلَہٗ عَلٰی حَالٍ مِنَ الْأَحْوَالِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا بَأْسَ بِالْکَیِّ لِمَا عِلَاجُہُ الْکَیُّ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٠٠٣: عبدالرحمن بن جبیر نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے داغ لگانے سے منع فرمایا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : کہ داغ لگانا مکروہ ہے اور کسی حالت میں بھی درست نہیں ان آثار کو انھوں نے دلیل میں اختیار کیا۔ فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ جس کسی چیز کا علاج داغنے سے ہو اس میں داغنا کوئی گناہ نہیں۔ اس سلسلہ میں ان کی دلیل مندرجہ روایات ہیں۔
تخریج : مسند احمد ٧٢٤؍٤‘ ٤٣٠‘ ٤٤٤‘ ٤٤٦۔

7007

۷۰۰۴: مَا حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : اشْتَکٰی أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ فَأَرْسَلَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَبِیْبًا ، فَقَطَعَ مِنْہُ عِرْقًا ، ثُمَّ کَوَاہُ عَلَیْہِ۔
٧٠٠٤: ابو سفیان نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب (رض) بیمار ہوئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف ایک معالج بھیجا جس نے ان کی ایک رگ کاٹ کر پھر اس کو داغ دیا۔
تخریج : مسلم فی السلام ٧٣‘ مسند احمد ٣؍٣١٥۔

7008

۷۰۰۵: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَیَّاشٌ الرَّقَّامُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ طَبِیْبًا ، فَقَطَعَ مِنْہُ عِرْقًا ثُمَّ کَوَاہُ عَلَیْہِ۔
٧٠٠٥: ابو سفیان نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابی بن کعب (رض) کی طرف ایک معالج بھیجا تو اس نے ان کی ایک رَگ کاٹ کر اس کو داغ دیا۔
تخریج : مسند احمد ٣؍٣١٥۔

7009

۷۰۰۶: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ : ثَنَا أَبِیْ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : اشْتَکٰی أُبَیّ بْنُ کَعْبٍ فَبَعَثَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَبِیْبًا ، فَقَدَّ عِرْقَہُ الْأَکْحَلَ ، وَکَوَاہُ عَلَیْہِ۔
٧٠٠٦: ابو سفیان نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب (رض) بیمار ہوگئے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف ایک معالج کو بھیجا اس نے ان کی رگ اکحل کو کاٹ کر داغ دیا۔

7010

۷۰۰۷: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : رُمِیَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فِیْ أَکْحَلِہٖ ، فَحَسَمَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہٖ بِمِشْقَصٍ، ثُمَّ وَرَمَتْ ، فَحَسَمَہُ الثَّانِیَۃَ۔
٧٠٠٧: ابوالزبیر کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کی اکحل رگ میں تیر لگا پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چوڑے پھل والے تیر سے اس کو اپنے دست اقدس سے داغ دیا۔ پھر اس میں سوج آئی تو اس کو دوسری مرتبہ داغ دیا۔
تخریج : مسلم فی السلام ٧٥‘ مسند احمد ٣؍٣١٢‘ ٣٨٦۔

7011

۷۰۰۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ أَوْ سَعْدًا رُمِیَ رَمْیَۃً فِیْ یَدِہٖ، فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، طَبِیْبًا فَکَوَاہُ عَلَیْہَا۔
٧٠٠٨: ابن الزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے حضرت ابی بن کعب (رض) یا سعد بن معاذ (رض) کو ہاتھ میں تیر لگا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک طبیب کو حکم فرمایا اس نے اس کو داغ دیا۔

7012

۷۰۰۹: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبٌ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : رُمِیَ یَوْمَ الْأَحْزَابِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَطَعُوْا أَکْحَلَہٗ، فَحَسَمَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّارِ ، فَانْتَفَخَتْ یَدُہٗ، فَحَسَمَہُ مَرَّۃً أُخْرٰی۔
٧٠٠٩: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کو غزوہ احزاب کے دن تیر لگا۔ انھوں نے اس کی اکحل رگ کاٹ دی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو آگ سے داغا پھر ان کا ہاتھ سوج گیا تو اس کو دوسری مرتبہ داغا گیا۔
تخریج : ترمذی فی السیر باب ٢٩‘ مسند احمد ٣؍٣٥٠۔

7013

۷۰۱۰: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ زُرَیْعٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَوَیْ سَعْدَ بْنَ زُرَارَۃَ مِنْ شَوْکَۃٍ۔
٧٠١٠: زہری نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ حضرت سعد بن زرارہ (رض) کو ایک کانٹا چبھ جانے کی وجہ سے داغا گیا۔
تخریج : ترمذی فی الطب باب ١١۔

7014

۷۰۱۱: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ذُرَیْعٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ مِنْ شَوْصَۃٍ۔
٧٠١١: محمد بن منہال کہتے ہیں کہ ہمیں یزید بن زریع نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ انھوں نے ” من شوصۃ “ کا لفظ ذکر کیا جس کا معنی رگ کی حرکت ‘ پسلیوں کا ورم ‘ (پیٹ درد) ہے۔

7015

۷۰۱۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا عِمْرَانُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَوَانِیْ أَبُو طَلْحَۃَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَظْہُرِنَا ، فَمَا نُھِیْتُ عَنْہُ۔
٧٠١٢: قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ مجھے حضرت ابو طلحہ (رض) نے داغ دیا جبکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان موجود تھے مگر ہمیں داغ سے منع نہ کیا گیا۔
تخریج : مسند احمد ٣؍١٣٩۔

7016

۷۰۱۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : کَوٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَعْدًا أَوْ أَسْعَدَ بْنَ زُرَارَۃَ مِنَ الذَّبْحَۃِ فِیْ حَلْقِہٖ ۔ فَفِیْ ہٰذِہِ الْأَخْبَارِ اِبَاحَۃُ الْکَیِّ لِلدَّائِ الْمَذْکُوْرِ ، فِیْہَا وَفِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، النَّہْیُ عَنِ الْکَیِّ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ الْمَعْنَی الَّذِیْ کَانَتْ لَہُ الْاِبَاحَۃُ فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، غَیْرَ الْمَعْنَی الَّذِیْ کَانَ لَہٗ النَّہْیُ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ .وَذٰلِکَ أَنَّ قَوْمًا کَانُوْا یَکْتَوُوْنَ قَبْلَ نُزُوْلِ الْبَلَائِ بِہِمْ ، یَرَوْنَ أَنَّ ذٰلِکَ یَمْنَعُ الْبَلَائَ أَنْ یَنْزِلَ بِہِمْ ، کَمَا تَفْعَلُ الْأَعَاجِمُ .فَہٰذَا مَکْرُوْہٌ لِأَنَّہٗ لَیْسَ عَلَی طَرِیْقِ الْعِلَاجِ وَہُوَ شِرْکٌ لِأَنَّہُمْ یَفْعَلُوْنَہُ لِیَدْفَعَ قَدَرَ اللّٰہِ عَنْہُمْ .فَأَمَّا مَا کَانَ بَعْدَ نُزُوْلِ الْبَلَائِ ، اِنَّمَا یُرَادُ بِہٖ الصَّلَاحُ ، وَالْعِلَاجُ مُبَاحٌ مَأْمُوْرٌ .وَقَدْ بَیَّنَ ذٰلِکَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْ حَدِیْثٍ رَوَاہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٧٠١٣: عمرو بن شعیب نے کسی صحابی رسول سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد یا اسعد بن زرارہ (رض) کو گلے میں سوراخ کی وجہ سے داغا۔ ان روایات سے داغ کو مندرجہ بالا امراض کے لیے داغنا ثابت ہوتا ہے جبکہ شروع باب کی روایات ممانعت کی طرف مشیر ہیں اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ ممکن ہے جن چیزوں کے سلسلہ میں اباحت ہو اور دوسری چیزوں کے لیے ممانعت ہو جیسا کہ آثار اول میں وارد ہے اور وہ یہ ہے کہ تکلیف کے آنے سے پہلے پیشگی داغنا تاکہ وہ تکلیف نہ آئے جیسا کہ عجم میں رواج ہے یہ مکروہ و ممنوع ہے کیونکہ یہ علاج کے لیے نہیں بلکہ یہ تو شرک کی ایک قسم ہے۔ تاکہ تقدیر الٰہی کو ٹالا جائے (جو کہ ٹالنا ممکن نہیں) باقی تکلیف اترنے پر درستگی کے لیے مباح ہے کیونکہ علاج مباح ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اس کا ثبوت اس روایت سے ملتا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطب باب ٧‘ ترمذی فی الطب باب ١١‘ مسند احمد ٤؍٦٥‘ ٥‘ ٣٧٨۔
روایت جابر (رض) :

7017

۷۰۱۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنْ یَکُنْ فِیْ شَیْئٍ مِنْ أَدْوِیَتِکُمْ ہٰذِہِ خَیْرٌ ، فَفِیْ شَرْطَۃِ مِحْجَمٍ ، أَوْ شَرْبَۃِ عَسَلٍ ، أَوْ لَذْعَۃِ نَارٍ ، تُوَافِقُ دَائً ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَکْتَوِیَ۔فَاِذَا کَانَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ لَذْعَۃَ النَّارِ الَّتِیْ تُوَافِقُ الدَّائَ مُبَاحَۃٌ ، وَالْکَیَّ مَکْرُوْہٌ ، وَکَانَتِ اللَّذْعَۃُ بِالنَّارِ کَیَّۃً ، ثَبَتَ أَنَّ الْکَیَّ الَّذِیْ یُوَافِقُ الدَّائَ مُبَاحٌ ، وَأَنَّ الْکَیَّ الَّذِیْ لَا یُوَافِقُ الدَّائَ مَکْرُوْہٌ .وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ الْکَیُّ مَنْہِیًّا عَنْہُ عَلٰی مَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، ثُمَّ أُبِیْحَ بَعْدَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا فِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ الْأُخَرِ۔
٧٠١٤: عاصم بن عمر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تمہاری ان چیزوں میں سے کسی میں شفا ہے تو وہ سینگی کے پچھنے ‘ شہد کا گھونٹ ‘ آگ کا داغنا جو اس بیماری کے مناسب ہو۔ اور میں داغنے کو پسند نہیں کرتا۔ اس روایت میں گرم لوہے کے کنارے سے داغنے کو جب کہ مرض کے موافق ہو درست قرار دیا گیا اور داغ کو ناپسند کیا گیا حالانکہ لذعۃ بالنار بھی داغ ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ جو داغ بیماری کے مناسب ہو وہ مباح ہے اور جو بیماری کے موافق نہ ہو وہ مکروہ ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ جس داغ کی آثار اول میں ممانعت ہے وہ شروع میں ہو اور بعد میں اس کو مباح کردیا گیا ہو جیسا کہ دوسرے آثار میں داغنے کا ثبوت موجود ہے۔ جیسا روایت ابن ابی داؤد میں ہے۔ (ملاحظہ ہو)
تخریج : بخاری فی الطب باب ٤؍١٥‘ مسلم فی السلام ٧١‘ مسند احمد ٣؍٣٤٣۔

7018

۷۰۱۵: .وَذٰلِکَ أَنَّ ابْنَ أَبِیْ دَاوٗدَ حَدَّثَنَا ، قَالَ : ثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ : ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ سُلَیْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہَ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَأْذِنُ فِی الْکَیِّ فَقَالَ لَا تَکْتَوِ .فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، بَلَغَ بِی الْجَہْدُ ، وَلَا أَجِدُ بُدًّا مِنْ أَنْ أَکْتَوِیَ .قَالَ : مَا شِئْت ، أَمَا اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ جُرْحٍ اِلَّا وَہُوَ آتِی اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، یُدْمِیْ، یَشْکُو الْأَلَمَ الَّذِیْ کَانَ سَبَبَہٗ، وَأَنَّ جُرْحَ الْکَیِّ یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، یَذْکُرُ أَنَّ سَبَبَہُ کَانَ مِنْ کَرَاہَۃِ لِقَائِ اللّٰہِ ثُمَّ أَمَرَہُ أَنْ یَکْتَوِیَ۔ فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْکَیِّ وَاِبَاحَتِہِ اِیَّاہُ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ مَا فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَالِ النَّہْیِ الْمَذْکُوْرِ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَمَا کَانَ مِنَ الْاِبَاحَۃِ فِی الْآثَارِ الْأُخَرِ ، کَانَ ، بَعْدَمَا کَانَتْ مِنْہُ الْاِبَاحَۃُ الْمَذْکُوْرَۃُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَتَکُوْنُ الْاِبَاحَۃُ نَاسِخَۃً لِلنَّہْیِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَوَیْ سَارِقًا بَعْدَمَا قَطَعَہٗ۔
٧٠١٥: عمرو بن شعیب نے اپنے والد اپنے دادا سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا وہ داغنے کی اجازت طلب کررہا تھا آپ نے فرمایا مت داغ دو ۔ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بہت مجبور ہوں اور داغ کے علاوہ میں اس بیماری کا اور علاج بھی نہیں پاتا۔ تو آپ نے فرمایا جو تمہاری مرضی ہو۔ پھر فرمایا سنو ! ہر داغ والا زخم قیامت کے دن اپنے سبب کا اظہار کرے گا کہ میرے داغ کا سبب اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے ناپسندیدگی تھی۔ پھر آپ نے اسے داغنے کی اجازت دی۔ اس روایت میں ممانعت کے بعد اباحت کا ثبوت ملتا ہے۔ پس یہ احتمال ثابت ہوا کہ آثار اول میں جو ممانعت ہے وہ اسی دور کی ہے جو اس روایت میں بتلائی گئی اور دوسرے آثار جو اس کی اباحت کو ثابت کرنے والے ہیں وہ وہی جواز ہے جو اس روایت میں ظاہر ہو رہا ہے پس وہ نہی کا ناسخ ہے۔ اور روایات میں ہاتھ کاٹنے کے بعد چور کے اس زخم کو داغنا ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو)

7019

۷۰۱۶: حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْبَکْرِ بْنُ عَلِیْ قَالَ : ثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ عَنْ مَکْحُوْلٍ عَنْ ابْنِ مُحَیْرِیْزٍ قَالَ : قُلْت لِفَضَالَۃَ بْنِ عَبْدٍ أَمِنْ السُّنَّۃِ أَنْ یُقْطَعَ السَّارِقُ ، وَیُعَلَّقَ فِیْ عُنُقِہٖ؟ .فَقَالَ : نَعَمْ ، اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُتِیَ بِسَارِقٍ ، فَأَمَرَ بِہٖ ، فَقُطِعَتْ یَدُہٗ، ثُمَّ حَسَمَہٗ، ثُمَّ عَلَّقَہَا فِیْ عُنُقِہِ۔
٧٠١٦: ابن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے حضرت فضالہ بن عبداللہ سے دریافت کیا کہ کیا یہ سنت ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کی گردن میں لٹکا دیا جائے ؟ تو انھوں نے کہا جی ہاں ! جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور لایا گیا پس آپ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دیا گیا پھر اس کو داغا گیا اور کٹے ہوئے ہاتھ کو اس کی گردن میں لٹکا دیا گیا
تخریج : ابن ماجہ فی الحدود باب ٢٣۔

7020

۷۰۱۷: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ قَالَ : أُتِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ سَرَقَ شَمْلَۃً ، فَقَالَ : أَسَرَقْتُ؟ مَا اِخَالُ سَرَقْت اذْہَبُوْا بِہٖ فَاقْطَعُوْھُ ، ثُمَّ احْسِمُوْھُ ثُمَّ قَالَ : تُبْ اِلَی اللّٰہِ۔فَفِیْ ہٰذِہِ أَیْضًا ، دَلِیْلٌ عَلَی اِبَاحَۃِ الْکَیِّ الَّذِیْ یُرَادُ بِہٖ الْعِلَاجُ ، لِأَنَّہٗ دَوَائٌ .وَقَدْ سَأَلَ الْأَعْرَابُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالُوْا : أَلَا نَتَدَاوَیْ؟ .فَکَانَ جَوَابُہٗ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٠١٧: یزید بن خصیفہ نے محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور لایا گیا جس نے ایک چادر چوری کی تھی آپ نے فرمایا کیا تم نے چوری کی ہے ؟ میرا خیال تو نہ تھا کہ تم چوری کرو گے۔ پھر فرمایا اس کو لے جا کر اس کا ہاتھ کاٹ دو ۔ پھر اس کو داغ دو ۔ پھر فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ اس روایت میں بھی اس داغ کا تذکرہ ہے جس سے علاج مقصود ہے کیونکہ وہ اس وقت دواء ہے دیہاتیوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا ہم علاج معالجہ نہ کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جواب عنایت فرمایا۔
تخریج : نسائی فی السارق باب ٣۔
تداوی کی اجازت :

7021

۷۰۱۸: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا زِیَادُ بْنُ عِلَاقَۃَ قَالَ : سَمِعْت أُسَامَۃَ بْنَ شَرِیْکٍ یَقُوْلُ : شَہِدْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْأَعْرَابَ یَسْأَلُوْنَہٗ فَقَالُوْا : ہَلْ عَلَیْنَا جُنَاحٌ أَنْ نَتَدَاوٰیْ؟ .فَقَالَ تَدَاوَوْا ، عِبَادَ اللّٰہِ، فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَضَعْ دَائً اِلَّا وَضَعَ لَہٗ دَوَائً ، اِلَّا الْہَرَمَ۔
٧٠١٨: زیاد بن علاقہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اسامہ بن شریک (رض) کو فرماتے سنا کہ میں اس وقت موجود تھا جبکہ دیہاتی سوال کر رہے تھے کہ کیا ہمیں علاج میں گناہ ہے ؟ تو آپ نے فرمایا اے اللہ کے بندو ! علاج کرو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری بنائی ہے اس کا علاج بھی بنایا ہے سوائے بڑھاپے کے (اس کا علاج نہیں)
تخریج : ابو داؤد فی الطب باب ١‘ ترمذی فی الطب باب ٢‘ مسند احمد ٤؍٢٧٨۔

7022

۷۰۱۹: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ طَلْحَۃُ بْنُ عَمَرِ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ ، تَدَاوَوْا ، فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَخْلُقْ دَائً اِلَّا خَلَقَ لَہٗ شِفَائً اِلَّا السَّامَ ، وَالسَّامُ : الْمَوْتُ۔
٧٠١٩: عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے لوگو ! علاج کرو۔ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا فرمائی اس کا علاج بھی پیدا فرمایا۔ سوائے سام کے اور وہ موت کا نام ہے۔ (یعنی موت کا علاج نہیں ہے)
تخریج : بخافی فی الطب باب ٧‘ مسلم فی السلام ٨٨؍٨٩‘ ابو داؤد فی الطب باب ٥‘ ترمذی فی الطب باب ٥‘ مسند احمد ٢‘ ٢٤١؍٣٨٩‘ ٥؍٣٤٦‘ ٦‘ ١٣٨؍١٤٦۔

7023

۷۰۲۰: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لِکُلِّ دَائٍ دَوَائٌ ، فَاِذَا أُصِیْبَ دَوَائُ الدَّائِ بَرَأَ ، بِاِذْنِ اللّٰہِ۔فَأَبَاحَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَتَدَاوَوْا ، وَالْکَیُّ مِمَّا کَانُوْا یَتَدَاوَوْنَ بِہٖ .وَقَدْ اکْتَوٰی أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہٖ. فَمَمَنْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٠٢٠: ابوالزبیر نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ ہر بیماری کا علاج ہے پس جب دواء بیمار کو پہنچا دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے شفا پا جاتا ہے۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ١‘ مسلم فی السلام ٦٩‘ ابو داؤد فی الطب باب ١؍١١‘ ترمذی فی الطب باب ٢‘ ابن ماجہ فی الطب باب ١‘ مسند احمد ١؍٣٧٧‘ ٣؍٣٣٥‘ ٥؍٣٧١۔

7024

۷۰۲۱: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْحَرِّ عَنْ أَبِیْ حَمْزَۃَ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ عَنْ جَرِیْرٍ قَالَ : أَقْسَمَ عَلَیَّ عُمَرُ لَأَکْتَوِیَنَّ .
٧٠٢١: جریر کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر (رض) نے قسم دے کر کہا کہ میں ضرور داغ لگواؤں۔

7025

۷۰۲۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ قَالَ : رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ ، اکْتَوٰی مِنَ اللَّقْوَۃِ فِیْ أَصْلِ أُذُنَیْہِ .
٧٠٢٢: ابوالزبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا کہ لقوہ کی وجہ سے ان کے کانوں کی جڑ میں داغ لگایا گیا۔

7026

۷۰۲۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ قَالَ : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا مُوْسَیْ بْنُ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اکْتَوٰی مِنَ اللَّقْوَۃِ .
٧٠٢٣: نافع سے مروی ہے کہ ابن عمر (رض) کو لقوہ کی وجہ سے داغ لگایا گیا۔

7027

۷۰۲۴: حَدَّثَنَا شُعَیْبُ بْنُ اِسْحَاقَ بْنِ یَحْیٰی قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُقْرِئُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اکْتَوٰی مِنَ اللَّقْوَۃِ ، وَرُقِیَ مِنَ الْعَقْرَبِ .
٧٠٢٤: نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ابن عمر (رض) کو لقوہ کی وجہ سے داغ لگایا گیا اور بچھو کے ڈسنے کی وجہ سے دم کیا گیا۔
تخریج : مالک فی العین ١٣۔

7028

۷۰۲۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِثْلَہٗ۔
٧٠٢٥: نافع نے ابن عمر (رض) سے انھوں نے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7029

۷۰۲۶: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی خَبَّابٍ ، وَقَدِ اکْتَوٰی .
٧٠٢٦: حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ میں حضرت خباب (رض) کی خدمت میں گیا جبکہ ان کو داغ لگایا گیا تھا۔

7030

۷۰۲۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مُوْسَیْ بْنُ أَعْیَنَ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِیْ حَازِمٍ ، عَنْ خَبَّابٍ ، أَنَّہٗ أَتَاہُ یَعُوْدُہٗ، وَقَدْ اکْتَوٰی سَبْعًا فِیْ بَطْنِہٖ .
٧٠٢٧: قیس بن حازم نے حضرت خباب (رض) سے روایت کی ہے۔ کہ میں ان کی خدمت میں تیمار داری کے لیے حاضر ہوا اس وقت ان کے پیٹ کو سات جگہ سے داغا گیا تھا۔

7031

۷۰۲۸: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : سَمِعْتُ حُمَیْدًا قَالَ : ابْنُ مَرْزُوْقٍ أَظُنُّہُ عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ : قَالَ لِیْ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ أَشَعَرَتْ أَنَّہٗ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَیَّ فَلَمَّا اکْتَوَیْتُ ، انْقَطَعَ عَنِّیْ التَّسْلِیْمُ۔فَہٰؤُلَائِ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ اکْتَوَوْا ، وَکَوَوْا غَیْرَہُمْ. وَفِیْہِمُ ابْنُ عُمَرَ ، وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا أُحِبُّ أَنْ أَکْتَوِیَ۔فَدَلَّ فِعْلُہُ ذٰلِکَ عَلَی ثُبُوْتِ نَسْخِ مَا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَرِہَہٗ مِنْ ذٰلِکَ .وَفِیْہِمْ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ وَہُوَ الَّذِیْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَدْحُہُ لِلَّذِیْنَ لَا یَکْتَوُوْنَ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلٰی عِلْمِہٖ بِاِبَاحَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَکَیْفَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ؟ .
٧٠٢٨: ابن مرزوق کہتے ہیں کہ میرے خیال میں مطرف سے روایت ہے کہ مجھے عمران بن حصین (رض) نے فرمایا کیا تم نے محسوس کیا کہ مجھے سلام کیا جاتا تھا (فرشتے سلام کرتے تھے) جب سے داغ لگایا گیا تو وہ سلام مجھ سے منقطع ہوگیا۔ یہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں انھوں نے خود داغا اور ان کو داغ لگوائے گئے۔ ان میں ابن عمر (رض) بھی شامل ہیں جنہوں نے یہ روایت نقل کی ہے ” مااحب ان اقتوی “ ان کا فعل اس روایت کے خلاف اس بات کا ثبوت ہے کہ کراہت کا حکم منسوخ ہوچکا۔ ان میں حضرت عمران بن حصین بھی ہیں جنہوں نے داغ نہ لگوانے والے لوگوں کی تعریف میں روایت نقل کی ہے ان کا عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اباحت کا علم ہوا تبھی انھوں نے داغ لگوایا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت عمران کی روایت سے نسخ ثابت نہیں ہوتا اس لیے کہ خود ان کی یہ دوسری روایت موجود ہے۔

7032

۷۰۲۹: فَذَکَرَ مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ جَابِرٍ قَالَ : ثَنَا عِمْرَانُ بْنُ جَرِیْرٍ عَنْ أَبِیْ مَخْلَدٍ قَالَ : کَانَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ ، یَنْہٰی عَنِ الْکَیِّ فَابْتُلِی فَکَانَ یَقْعُدُ وَیَقُوْلُ لَقَدْ اکْتَوَیْتُ کَیَّۃً بِنَارٍ ، فَمَا أَبْرَأَتْنِیْ مِنْ اِثْمٍ ، وَلَا شَفَتْنِیْ مِنْ سَقَمٍ۔قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ الْکَیُّ الَّذِیْ کَانَ عِمْرَانُ یَنْہَیْ عَنْہُ، ہُوَ الْکَیُّ ، یُرَادُ بِہٖ ، لَا لِلْعِلَاجِ مِنَ الْبَلَائِ الَّذِیْ قَدْ حَلَّ ، وَلٰـکِنْ لِمَا یُفْعَلُ قَبْلَ حُلُوْلِ الْبَلَائِ ، مِمَّا کَانُوْا یَرَوْنَ أَنَّہٗ یَدْفَعُ الْبَلَائَ فَلَمَّا اُبْتُلِیَ بِمَا کَانَ اُبْتُلِیَ بِہٖ ، اکْتَوٰی عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ عِلَاجًا لِمَا بِہٖ مِنَ الْبَلَائِ .فَلَمَّا لَمْ یَبْرَأْ بِذٰلِکَ عَلِمَ أَنَّ کَیَّہُ لَمْ یُوَافِقْ بَلَاہٗ، وَلَمْ یَکُنْ عِلَاجًا لَہٗ، فَأَشْفَقَ أَنْ یَکُوْنَ بِہَا اِثْمًا فَقَالَ : مَا شَفَتْنِیْ مِنْ سَقَمٍ ، وَلَا أَبْرَأَتْنِیْ مِنْ اِثْمٍ۔أَیْ : لَمْ أَعْلَمْ أَنِّیْ بَرِیْئٌ مِنَ الْاِثْمِ ، مَعَ أَنَّہٗ لَمْ یُحَقِّقْ أَنَّہٗ صَارَ آثِمًا بِہَا ، لِأَنَّہٗ اِنَّمَا کَانَ أَرَادَ بِہَا الدَّوَائَ لَا غَیْرَ ذٰلِکَ وَالدَّوَائُ مُبَاحٌ لِلنَّاسِ جَمِیْعًا ، وَہُمْ مَأْمُوْرُوْنَ بِہٖ .وَقَدْ جَائَ تْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارٌ تَنْہٰی عَنِ التَّمَائِمِ۔فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٠٢٩: ابو مخلد نے حضرت عمران بن حصین سے روایت کی ہے کہ وہ داغنے سے منع کرتے تھے پھر وہ ابتلاء میں آگئے چنانچہ وہ جب بیٹھتے تو یوں کہتے کہ میں نے آگ سے داغ بھی لگوائے لیکن اس داغنے نے نہ تو مجھے گناہ سے بری الذمہ کیا اور نہ بیماری سے صحت ہوئی۔ ممکن ہے کہ حضرت عمران جس داغنے سے منع کرتے تھے اس سے وہ جاہلیت والا داغنا مراد تھا علاج مرض مقصود نہیں تھا اس لیے کہ وہ تکلیف کے آنے سے پہلے کیا جاتا تھا اس کے متعلق لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اس سے تکلیف دور ہوجاتی ہے جب وہ تکلیف میں مبتلا ہوئے تو اس وقت انھوں نے بطور علاج کے داغ لگوائے مگر جب اس سے بھی درست نہ ہوئے تو ان کو اس سے یہ پتہ چل گیا کہ یہ علاج ان کی مرض کے مطابق نہیں ہے پس اس لیے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا شاید کہیں یہ گناہ نہ ہو کہ اس کی وجہ سے میری بیماری بھی ٹھیک نہیں ہوئی اور نہ اس کے کرلینے کی وجہ سے میں گناہ سے بری الذمہ رہا مطلب یہ ہوا کہ مجھے یقینی طور پر یہ معلوم نہیں کہ گناہ سے بری الذمہ ہوں اس کے ساتھ ساتھ کہ یہ کوئی قطعی بات نہیں تھی کہ وہ اس سے گناہ گار ہوگئے ہیں کیونکہ اس سے مقصود ان کا علاج تھا نہ کہ کچھ اور۔ اور علاج کرنا سب لوگوں کے لیے جائز اور مباح ہے بلکہ اس کا حکم ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے آثار وارد ہیں جو تعویذ کی ممانعت کرتے ہیں اس سلسلے میں مندرجہ ذیل روایات ہیں۔

7033

۷۰۳۰: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أُمِّ قَیْسِ بِنْتِ مِحْصَنٍ ، قَالَتْ : دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِابْنٍ لِی ، وَقَدْ عَلَّقْتُ عَلَیْہِ مِنَ الْعُذْرَۃِ فَقَالَ: عَلٰی مَا تَدْزَعَنَ أَوْلَادَکُنَّ بِہٰذَا الْعِلَاقِ ، عَلَیْکُنَّ بِہٰذَا الْعُوْدِ الْہِنْدِیِّ ، فَاِنَّ فِیْہِ سَبْعَۃَ أَشْفِیَۃٍ مِنْہَا ذَاتُ الْجَنْبِ یُسْعَطُ مَنِ الْعُذْرَۃِ ، وَیُلَدُّ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ۔فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ الْعِلَاقُ کَانَ مَکْرُوْہًا فِیْ نَفْسِہٖ، لِأَنَّہٗ کُتِبَ فِیْہِ مَا لَا یَحِلُّ کِتَابَتُہُ فَکَرِہَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذٰلِکَ لَا لِغَیْرِہٖ۔ وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٧٠٣٠: ام قیس بنت محصن کہتی ہیں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنے ایک بیٹے کو لے کرگئی جس کو میں نے تعویذ باندھا ہوا تھا آپ نے فرمایا تم اپنی اولاد سے ان تعویذوں کے سبب کیوں غفلت اختیار کرتی ہو تم عود ہندی استعمال کرو اس میں سات چیزوں کا علاج ہے پسلی کا درد اور حلق کے درد میں اس کو ناک میں ٹپکایا جائے اور پسلی کے درد میں منہ کے کنارے سے پلایا جائے۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ تعویذ کا لٹکانا ذاتی اعتبار سے بھی برا ہو کیونکہ اس زمانے میں ایسی چیزیں اس میں لکھی جاتی تھیں جن کا لکھنا جائز نہیں اس لیے آپ نے اس کو ناپسند کیا اور کوئی وجہ نہ تھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں یہ روایت بھی وارد ہے۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ٢١‘ مسلم فی السلام روایت ٨٦‘ ابو داؤد فی الطب باب ١٣‘ ابن ماجہ فی الطب باب ١٣‘ مسند احمد ٦؍٣٥٥۔

7034

۷۰۳۱: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ بَکْرِ بْنِ سِوَادَۃَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ صُدَائَ قَالَ : أَتَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا ، فَبَایَعْنَاہٗ، وَتَرَکَ رَجُلًا مِنَّا لَمْ یُبَایِعْہٗ فَقُلْنَا : بَایِعْہُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، فَقَالَ لَنْ أُبَایِعَہٗ حَتّٰی یَنْزِعَ الَّذِیْ عَلَیْہٖ، اِنَّہٗ مَنْ کَانَ مِنَّا، مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہٖ، کَانَ مُشْرِکًا مَا کَانَتْ عَلَیْہِ۔فَنَظَرْنَا فَاِذَا فِیْ عَضُدِہٖ سَیْرٌ مِنْ لَحْیِ شَجَرَۃٍ أَوْ شَیْئٌ مِنِ الشَّجَرَۃِ .
٧٠٣١: بکر بن سوادہ نے بنو صداء کے ایک آدمی سے نقل کیا کہ ہم جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ ہم بارہ آدمی تھے۔ ہم نے بیعت کی آپ نے ایک آدمی کو چھوڑ دیا اس سے بیعت نہیں لی۔ ہم نے گزارش کی کہ اسے بیعت فرما لیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے فرمایا اس کو میں اس وقت بیعت نہ کروں گا یہاں تک کہ یہ اس چیز کو اتار دے جو اس نے پہن رکھی ہے جو ہم میں سے اس طرح کی چیز پہنے وہ اس وقت مشرک خیال کیا جاتا ہے جب تک وہ چیز اس پر رہے پس ہم نے جب پڑتال کی تو اس آدمی کے بازو پر درخت میں سے یا درخت کی چھال کا تسمہ تھا۔

7035

۷۰۳۲: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ قَالَ : ثَنَا الْمُقْرِئُ عَنْ حَیْوَۃَ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ خَالِدُ بْنُ عُبَیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ مِشْرَحَ بْنَ ہَاعَانَ یَقُوْلُ : سَمِعْت عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ الْجُہَنِیَّ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیْمَۃً ، فَلَا أَتَمَّ اللّٰہُ لَہٗ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَۃً ، فَلَا أَوْدَعَ اللّٰہُ لَہٗ۔
٧٠٣٢: مشرح بن ہاعان کہتے ہیں کہ میں نے عقبہ بن عامر جہنی (رض) سے سنا کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کرتے تھے کہ جس نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالیٰ اس کے کام کو مکمل نہ کرے جس نے گھونگا لٹکایا اللہ تعالیٰ اس کو اس کا مقصود عنایت نہ فرمائے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍١٥٤۔

7036

۷۰۳۳: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَنَّ مَالِکًا أَخْبَرَہٗ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ بَکْرٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ أَنَّ أَبَا بِشْرٍ الْأَنْصَارِیَّ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَعْضِ أَسْفَارِہٖ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ حَسِبْتُ أَنَّہٗ قَالَ وَالنَّاسُ فِیْ مَبِیتِہِمْ ، فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُنَادِیًا أَلَا لَا یَبْقَیَن فِیْ عُنُقِ بَعِیْرٍ قِلَادَۃٌ ، وَلَا وَتَرٌ ، اِلَّا قُطِعَتْ۔قَالَ مَالِکٌ : أَرٰی ذٰلِکَ مِنَ الْعَیْنِ .فَکَانَ ذٰلِکَ - عِنْدَنَا ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ - مَا عُلِّقَ قَبْلَ نُزُوْلِ الْبَلَائِ ، لِیُدْفَعَ ، وَذٰلِکَ مَا لَا یَسْتَطِیْعُہٗ غَیْرُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَنَہٰی عَنْ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ شِرْکٌ .فَأَمَّا مَا کَانَ بَعْدَ نُزُوْلِ الْبَلَائِ ، فَلَا بَأْسَ ، لِأَنَّہٗ عِلَاجٌ .وَقَدْ رُوِیَ ہٰذَا الْکَلَامُ بِعَیْنِہٖ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .
٧٠٣٣: عباد بن تمیم کہتے ہیں کہ ابو بشر انصاری (رض) نے بتلایا کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھا عبداللہ بن ابی بکر (رض) کہتے ہیں میرے خیال میں انھوں نے یہ لفظ کہے ” والناس فی بیتہم “ جبکہ لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک منادی کو بھیج کر یہ اعلان کرایا کسی اونٹ کے گلے میں ہار یا تانت ہو اس کو کاٹ ڈالا جائے۔ امام مالک کہتے ہیں میرے خیال میں یہ نظر سے بچانے کی خاطر کیا گیا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ قلائد ہیں جو مصائب کے اترنے سے پہلے ڈالے جاتے ہیں تاکہ وہ مصائب سے دور رہیں اور یہ بات غیر اللہ کے اختیار میں نہیں پس اس سے روکا گیا کیونکہ یہ شرک ہے باقی وہ تعویذات جو تکالیف کے اترنے کے لیے ڈالے جاتے ہیں ان میں کچھ حرج نہیں کیونکہ وہ علاج ہے۔ حضرت عائشہ (رض) سے بعینہٖ یہ بات روایت میں وارد ہے (ملاحظہ ہو)
تخریج : بخاری فی الجہاد باب ١٣٩‘ مسلم فی اللباس ١٠٥‘ ابو داؤد فی الجہاد باب ٤٥‘ مالک فی صفۃ النی ٣٩‘ مسند احمد ٥؍٢١٦۔

7037

۷۰۳۴: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ : لَیْسَتْ بِتَمِیْمَۃٍ مَا عُلِّقَ بَعْدَ أَنْ یَقَعَ الْبَلَائُ .
٧٠٣٤: قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں وہ تمیمہ میں شامل نہیں جو مصیبت و تکلیف کے واقع ہونے کے بعد گلے میں ڈالے جائیں۔

7038

۷۰۳۵: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُبَارَکِ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ أَوْ سَعْدٍ عَنْ بُکَیْرٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ، مِثْلَہٗ۔فَقَدْ یُحْتَمَلُ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ الْکَیُّ نُہِیَ عَنْہُ، اِذَا فُعِلَ قَبْلَ نُزُوْلِ الْبَلَائِ ، وَأُبِیْحَ اِذَا فُعِلَ بَعْدَ نُزُوْلِ الْبَلَائِ ، لِأَنَّ مَا فُعِلَ بَعْدَ نُزُوْلِ الْبَلَائِ ، فَاِنَّمَا ہُوَ عِلَاجٌ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْعِلَاجِ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .وَرُوِیَ عَنْہُ أَیْضًا۔
٧٠٣٥: طلحہ بن ابی سعد یا طلحہ بن ابی سعید نے بکیر سے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت بیان کی ہے۔
عین ممکن ہے کہ اس سے ممنوعہ داغ دینا مراد ہو جبکہ مصیبت اترنے سے پہلے اس کو کیا جائے اور مصائب کے اترنے پر اس کا کرنا مباح ہے کیونکہ یہ علاج میں شامل ہے۔
علاج کے سلسلہ میں مزید روایات :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علاج کے سلسلہ میں پہلے بھی روایات گزریں اب مزید ذکر کرتے ہیں۔

7039

۷۰۳۶: مَا حَدَّثَنَا أَبُوْ بِشْرٍ الرَّقِّیُّ قَالَ : ثَنَا الْفِرْیَابِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ دَائً اِلَّا أَنْزَلَ لَہٗ شِفَائً ، فَعَلَیْکُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ ، فَاِنَّہَا تَرُمُّ مِنْ کُلِّ الشَّجَرِ۔
٧٠٣٦: ابن شہاب نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جو بیماری اتاری ہے اس کا علاج بھی اتارا ہے تمہیں گائے کا دودھ استعمال کرنا چاہیے یہ ہر درخت کو چرتی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٣١٥۔

7040

۷۰۳۷: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوْنُسَ قَالَ : ثَنَا الْمُقْرِئُ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔وَقَدْ کَرِہَ قَوْمٌ الرُّقٰی‘ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ فِی الْفَصْلِ الْأَوَّلِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَلَمْ یَرَوْا بِہَا بَأْسًا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٠٣٧: المقرئی نے امام ابوحنیفہ (رح) سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : بعض لوگوں نے دم کو مکروہ قرار دیا۔ دم میں کوئی حرج نہیں یہ روایات دلیل ہیں :

7041

۷۰۳۸: بِمَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ مُغِیْرَۃَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ رَخَّصَ فِیْ رُقْیَۃِ الْحَیَّۃِ وَالْعَقْرَبِ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ الرُّخْصَۃُ فِیْ رُقْیَۃِ الْحَیَّۃِ وَالْعَقْرَبِ ، وَالرُّخَصُ لَا تَکُوْنُ اِلَّا بَعْدَ النَّہْیِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ مَا أُبِیْحَ مِنْ ذٰلِکَ مَنْسُوْخٌ مِنَ النَّہْیِ عَنْہُ، فِیْ حَدِیْثِ عِمْرَانَ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْأَمْرِ بِالرُّقْیَۃِ لِلَذْعَۃِ الْعَقْرَبِ۔
٧٠٣٨: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سانپ اور بچھو کے دم کی رخصت عنایت فرمائی ہے۔ اس روایت سے سانپ اور بچھو کے دم کی رخصت ثابت ہو رہی ہے اور رخصت ممانعت کے بعد ہوا کرتی ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس میں سے جو مباح کیا گیا ہے وہ عمران بن حصین (رض) والی روایت سے مستثنیٰ ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچھو کے ڈسے پر دم کا حکم فرمایا۔ (ملاحظہ ہو)
تخریج : بخاری فی الطب باب ٣٧‘ مسلم فی السلام ٦٠‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٣٥‘ مسند احمد ٣؍٣٩٤۔

7042

۷۰۳۹: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْبَاغَنْدِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَدْرٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ طَلْقٍ عَنْ أَبِیْہَ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَدَغَتَنِیْ عَقْرَبٌ ، فَجَعَلَ یَمْسَحُہَا وَیُرْقِیْہِ۔
٧٠٣٩: قیس بن طلق نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں مقیم تھا مجھے بچھو نے ڈس لیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ہاتھ پھیرنے اور دم کرنے لگے۔
تخریج : مسند احمد ٤؍٢٣‘ باختلاف یسیر من اللفظ۔

7043

۷۰۴۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی الشَّوَارِبِ قَالَ : ثَنَا مُلَازِمٌ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہِ مِثْلَہٗ۔
٧٠٤٠: محمد بن عبدالملک نے ملازم سے روایت کی ہے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

7044

۷۰۴۱: حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : لَدَغَتْ رَجُلًا مِنَّا عَقْرَبٌ ، عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَرْقِیْہِ فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَنْفَعَ أَخَاہُ فَلْیَفْعَلْ۔
٧٠٤١: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں ہم میں سے ایک آدمی کو بچھو نے ڈس لیا تو ایک آدمی کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کو دم کرتا ہوں آپ نے فرمایا جو تم میں سے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو وہ ضرور فائدہ پہنچائے۔
تخریج : مسلم فی السلام ٦٠؍٦٢‘ ٦٣‘ مسند احمد ٣‘ ٣٠٢؍٣٣٤‘ ٣٨٢؍٣٩٣۔

7045

۷۰۴۲: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبٌ قَالَ : ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ نَحْوَہٗ۔فَفِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ مَا یَدُلُّ أَنَّ کُلَّ رُقْیَۃٍ ، یَکُوْنُ فِیْہَا مَنْفَعَۃٌ فَہِیَ مُبَاحَۃٌ ، لِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَنْفَعَ أَخَاہُ فَلْیَفْعَلْ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اِبَاحَۃِ الرُّقْیَۃِ مِنَ النَّمْلَۃِ .
٧٠٤٢: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ روایت جابر (رض) سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دم میں لوگوں کا فائدہ ہو وہ مباح ہے کیونکہ آپ نے فرمایا ” من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلیفعل “ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چیونٹی کے ڈسنے پر دم کرنا بھی ثابت ہے۔ روایت یہ ہے۔ حاصل روایات : روایت جابر (رض) سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دم میں لوگوں کا فائدہ ہو وہ مباح ہے کیونکہ آپ نے فرمایا ” من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلیفعل “ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چیونٹی کے ڈسنے پر دم کرنا بھی ثابت ہے۔ روایت یہ ہے۔

7046

۷۰۴۳: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ : قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ عَنِ الشِّفَائِ ، امْرَأَۃٍ ، وَکَانَتْ بِنْتَ عَم لِعُمَرَ قَالَتْ : کُنْتُ عِنْدَ حَفْصَۃَ ، فَدَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَلَا تُعَلِّمِیْھَا رُقْیَۃَ النَّمْلَۃِ، کَمَا عَلَّمْتِہَا الْکِتَابَۃَ ؟
٧٠٤٣: ابوبکر بن ابی حثمہ نے الشفاء نامی عورت سے ذکر کیا یہ حضرت عمر (رض) کے چچازاد ہیں کہتی ہیں کہ میں حضرت امّ المؤمنین حفصہ (رض) کے پاس تھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا کیا تو اس کو چیونٹی کا دم نہیں سکھاتی جس طرح تو نے اس کو لکھنا سکھایا ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الطب باب ١٨‘ مسند احمد ٦؍٣٧٢۔

7047

۷۰۴۴: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَامِرٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِیْ حَثْمَۃَ عَنْ حَفْصَۃَ ، أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ قُرَیْشٍ ، یُقَالُ : لَہَا الشِّفَائُ کَانَتْ تَرْقِیْ مِنَ النَّمْلَۃِ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِّمِیْھَا حَفْصَۃَ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِبَاحَۃُ الرُّقْیَۃِ مِنَ النَّمْلَۃِ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ کَانَ بَعْدَ النَّہْیِ ، فَیَکُوْنُ نَاسِخًا لِلنَّہْیِ ، أَوْ یَکُوْنُ النَّہْیُ بَعْدَہٗ، فَیَکُوْنُ نَاسِخًا لَہٗ۔وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اِبَاحَۃِ الرُّقْیَۃِ مِنَ الْجُنُوْنِ ۔
٧٠٤٤: ابوبکر بن سلیمان نے حضرت حفصہ (رض) سے روایت کی ہے کہ قریش کی ایک عورت جس کا نام الشفاء تھا۔ وہ چیونٹی کا دم کرتی تھی تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ حفصہ (رض) کو سکھا دو ۔ اس روایت سے چیونٹی کے دم کا جواز ثابت ہے ممکن ہے کہ یہ ممانعت کے بعد ہو تو یہ نہی کی ناسخ بن جائے گی اور اگر نہی اس کے بعد ہو تو وہ اس کی ناسخ ہوگی اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنوں کے دم کی اباحت ثابت ہے۔ (روایت یہ ہے)
تخریج : مسند احمد ٦؍٢٨٦۔
جنون اور نظر کے دَم کا ثبوت :

7048

۷۰۴۵: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْمُقَدَّمِیُّ قَالَ : ثَنَا فُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلَی آبِی اللَّحْمِ قَالَ : عَرَضْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُقْیَۃً ، کُنْتُ أَرْقِیْ بِہَا مِنَ الْجُنُوْنِ ، فَأَمَرَنِیْ بِبَعْضِہَا ، وَنَہَانِیْ عَنْ بَعْضِہَا ، وَکُنْتُ أَرْقِیْ بِاَلَّذِی أَمَرَنِیْ بِہٖ ، رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔فَہٰذَا یُحْتَمَلُ أَیْضًا مَا ذَکَرْنَا فِیْمَا رُوِیَ فِی الرُّقْیَۃِ مِنَ النَّمْلَۃِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرُّقْیَۃِ مِنَ الْعَیْنِ۔
٧٠٤٥: ابی اللحم کے مولیٰ عمیر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا وہ دم سنایا جو جنون کے سلسلہ میں میں کیا کرتا تھا تو آپ فے کچھ سے منع فرمایا اور کچھ کی اجازت دی تو اب میں اسی سے دم کرتا ہوں جس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس میں بھی وہی احتمال ہے جو چیونٹی کے دم میں ہم نے ذکر کیا نظر کے دم کا ثبوت بھی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے (روایت یہ ہے)
تخریج : ترمذی فی السیر باب ٩‘ مسند احمد ٥؍٢٢٣۔

7049

۷۰۴۶: مَا حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ شَدَّادٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : أَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنْ أَسْتَرْقِیَ مِنَ الْعَیْنِ۔
٧٠٤٦: عبداللہ بن شداد نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ میں نظر کا دم کرواؤں۔
تخریج : بنحوہ فی البخاری فی الطب باب ٣٥‘ مسلم فی السلام ٥٤؍٥٨‘ ترمذی فی الطب باب ١٧‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٣٣‘ مالک فی العین ٣؍٤‘ مسند احمد ٦‘ ٦٣؍٧٢۔

7050

۷۰۴۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَعْبَدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، مِثْلَہٗ۔أَوْ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شَدَّادٍ : أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنْ تَسْتَرِقِیْ مِنَ الْعَیْنِ۔
٧٠٤٧: عبداللہ بن شداد نے حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے یا عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) کو حکم فرمایا کہ تم نظر کا دم کراؤ۔

7051

۷۰۴۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ مَعِینٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَسْمَائِ بِنْتِ عُمَیْسٍ مَالِیْ أَرٰی أَجْسَامَ بَنِیْ أَخِیْ نَحِیْفَۃً صَارِعَۃً ؟ أَتُصِیْبُہُمُ الْحَاجَۃُ .قَالَتْ : لَا ، وَلٰـکِنَّ الْعَیْنَ تَسْرُعُ اِلَیْہِمْ ، فَأَرْقِیْھِمْ ، قَالَ بِمَاذَا فَعَرَضْتُ عَلَیْہِ کَلَامًا لَا بَأْسَ بِہٖ فَقَالَ : أَرْقِیْھِمْ۔
٧٠٤٨: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسماء بنت عمیس (رض) کو فرمایا مجھے اپنے بھتیجوں کے جسم کمزور و نحیف نظر آتے ہیں ؟ کیا ان کی کوئی حاجت ہے جو پوری نہیں ہوتی ؟ میں نے کہا نہیں۔ لیکن ان کو نظر لگ جاتی ہے پھر میں ان کو دم کرتی ہوں آپ نے فرمایا کیا دم کرتی ہو ؟ تو میں نے وہ کلام آپ کو سنایا آپ نے فرمایا اس سے دم میں حرج نہیں۔ اس سے دم کرتی رہو۔

7052

۷۰۴۹: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو غَسَّانَ وَأَحْمَدُ بْنُ یُوْنُسَ قَالَا : ثَنَا زُہَیْرٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو اِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ أَبِیْ نَجِیْحٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بَابَاہُ عَنْ أَسْمَائِ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّ الْعَیْنَ تَسْرُعُ اِلٰی بَنِیْ جَعْفَرٍ ، فَأَسْتَرْقِیْ لَہُمْ ؟ قَالَ نَعَمْ ، فَلَوْ أَنَّ شَیْئًا یَسْبِقُ الْقَدَرَ ، لَقُلْت اِنَّ الْعَیْنَ تَسْبِقُہٗ ۔ فَہٰذَا یُحْتَمَلُ مَا ذَکَرْنَا فِیْ رُقْیَۃِ النَّمْلَۃِ وَالْجُنُوْنِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا ، الرُّخْصَۃُ فِی الرُّقْیَۃِ ، مِنْ کُلِّ ذِیْ حُمَّۃٍ .
٧٠٤٩: عبداللہ بن باباہ نے حضرت اسماء بنت عمیس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اولاد جعفر کو بہت جلد نظر لگ جاتی ہے۔ کیا میں ان کو دم کرا لوں ؟ فرمایا جی ہاں۔ پھر فرمایا اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرتی تو میں کہتا وہ نظر سبقت کرتی۔ اس روایت میں بھی وہی احتمال ہے جو چیونٹی اور جنون میں ہم نے ذکر کیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہر بخار والے کے لیے دم کی رخصت بھی ثابت ہے۔
تخریج : مسلم فی السلام ٤٢؍٦٠‘ ترمذی فی الطب باب ١٧‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٣٣‘ مالک فی العین ٣٣‘ مسند احمد ٦؍٤٣٨۔
بخار والے وغیرہ کے لیے دَم کی رخصت :

7053

۷۰۵۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ : ثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الشَّیْبَانِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : رَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرُّقْیَۃِ ، مِنْ کُلِّ ذِی حُمَّۃٍ۔
٧٠٥٠: اسود نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر بخار والے کے لیے دم کی اجازت دی۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ٢٦‘ مسلم فی السلام ٥٢؍٥٦‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٣٤‘ مسند احمد ٣؍٣٨٢‘ ٦‘ ٣٠؍٦٢‘ ١٩٠؍٢٠٨‘ ٢٥٤۔

7054

۷۰۵۱: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَہٰذَا فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ بَعْدَ النَّہْیِ ، لِأَنَّ الرُّخْصَۃَ لَا تَکُوْنُ اِلَّا مِنْ شَیْئٍ مَحْظُوْرٍ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اِبَاحَۃِ الرُّقٰی کُلِّہَا مَا لَمْ یَکُنْ شِرْکٌ۔
٧٠٥١: سفیان نے شیبانی سے انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اس میں دلیل ہے کہ یہ نہی کے بعد کا معاملہ ہے کیونکہ رخصت ممنوعہ چیز کی ہوتی ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قسم کے دم کی اجازت دی ہے سوائے اس کے جو شرک ہو۔ (ملاحظہ ہو)

7055

۷۰۵۲: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُعَاوِیَۃُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِیِّ قَالَ : کُنَّا نَرْقِیْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ .: فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، کُنَّا نَرْقِیْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَمَا تَرٰی فِیْ ذٰلِکَ ؟ .قَالَ اعْرِضُوْا عَلَیَّ رُقَاکُمْ ، فَلَا بَأْسَ بِالرُّقٰی مَا لَمْ یَکُنْ شِرْکٌ۔فَہٰذَا یُحْتَمَلُ أَیْضًا مَا احْتَمَلَہٗ مَا رَوَیْنَا قَبْلَہٗ، فَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ ، ہَلْ ہٰذِہِ الْاِبَاحَۃُ لِلرُّقٰی، مُتَأَخِّرَۃٌ عَمَّا رُوِیَ فِی النَّہْیِ عَنْہَا أَوْ مَا رُوِیَ فِی النَّہْیِ عَنْہَا مُتَأَخِّرٌ عَنْہَا، فَیَکُوْنُ نَاسِخًا لَہَا .؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَاِذَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ۔
٧٠٥٢: عبدالرحمن بن جبیر نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عبدالرحمن بن مالک اشجعی (رض) سے روایت کی ہے کہتے ہیں کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں دم کرتے تھے ہم نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم زمانہ جاہلیت میں دم کرتے تھے اب کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا اپنا دم مجھے سناؤ دم میں حرج نہیں جب تک کہ وہ شرک نہ ہو۔ حاصل : اس روایت میں بھی وہی احتمال ہے جو پہلی روایات میں تھا اب یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ دم کی اباحت ممانعت سے متاخر ہے یا اباحت مقدم اور نہی موخر ہے اس صورت میں نہی ناسخ ہوگی۔
تخریج : مسلم فی السلام ٦٤‘ ابو داؤد فی الطب باب ١٨۔
ناسخ منسوخ کی تلاش :

7056

۷۰۵۳: حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ حَزْمٍ دُعِیَ لِامْرَأَۃٍ بِالْمَدِیْنَۃِ ، لَدَغَتْہَا حَیَّۃٌ ، لِیَرْقِیَہَا ، فَأَبٰی فَأُخْبِرَ بِذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَدَعَاہُ .فَقَالَ عَمْرٌو : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّکَ تَزْجُرُ عَنِ الرُّقٰی‘ فَقَالَ : اقْرَأْہَا عَلَیَّ فَقَرَأَہَا عَلَیْہٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا بَأْسَ بِہَا اِنَّہَا ہِیَ مَوَاثِیْقُ ، فَارْقِ بِہَا۔
٧٠٥٣: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ عمرو بن حزم (رض) کو مدینہ منورہ میں ایک عورت کو دم کے سلسلہ میں بلایا گیا جس کو سانپ نے ڈس لیا تھا انھوں نے انکار کردیا آپ کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے ان کو بلوایا۔ تو عمرو کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ دم سے منع کرتے ہیں آپ نے فرمایا تم مجھے پڑھ کر سناؤ۔ عمرو نے آپ کو پڑھ کر سنایا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس میں کچھ حرج نہیں یہ پختہ معاہدوں سے ہیں پس تم ان سے دم کرلیا کرو۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطب باب ٣٤‘ مسند احمد ٣؍٣٩٤۔

7057

۷۰۵۴: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعٌ عَنِ الْأَعْمَشِ مِنْ أَبِیْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : لَمَّا نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقٰی‘ أَتَاہُ خَالِیْ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّک نَہَیْتُ عَنِ الرُّقٰی‘ وَأَنْ أَرْقِیَ مِنَ الْعَقْرَبِ .قَالَ : مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَنْفَعَ أَخَاہٗ، فَلْیَفْعَلْ۔
٧٠٥٤: سفیان نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دم سے ممانعت فرمائی تو آپ کی خدمت میں میرے ماموں آئے اور انھوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے دم سے منع کیا گیا ہے اور میں بچھو کا دم کرتا ہوں آپ نے فرمایا جو شخص تم میں سے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو وہ ضرور فائدہ پہنچائے۔
تخریج : مسلم فی السلام ٦٠؍٦٢‘ مسند احمد ٣‘ ٣٠٢؍٣٣٤‘ ٣٨٢؍٣٩٣۔

7058

۷۰۵۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ حَمَّادٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کَانَ أَہْلُ بَیْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ یَرْقُوْنَ مِنَ الْحَیَّۃِ ، فَنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَی .فَأَتَاہٗ رَجُلٌ ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنِّیْ کُنْتُ أَرْقِیْ مِنَ الْعَقْرَبِ ، وَاِنَّک نَہَیْتُ عَنِ الرُّقٰی .فَقَالَ : رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَنْفَعَ أَخَاہٗ، فَلْیَفْعَلْ .قَالَ : وَأَتَاہُ رَجُلٌ کَانَ یَرْقِیْ مِنَ الْحَیَّۃِ ، فَقَالَ اعْرِضْہَا عَلَیَّ فَعَرَضَہَا عَلَیْہٖ، فَقَالَ : لَا بَأْسَ بِہَا ، اِنَّمَا ہِیَ مَوَاثِیْقُ۔فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّ مَا رُوِیَ فِیْ اِبَاحَۃِ الرُّقٰی‘ نَاسِخٌ لِمَا رُوِیَ فِی النَّہْیِ عَنْہَا .ثُمَّ أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی تِلْکَ الرُّقٰی‘ کَیْفَ ہِیَ ؟ فَاِذَا عَوْفُ بْنُ مَالِکٍ حَدَّثَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ، أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِہَا مَا لَمْ یَکُنْ شِرْکٌ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا۔
٧٠٥٥: ابو سفیان نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے بعض انصار گھرانے سانپ کا دم کرتے تھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دم سے منع فرمایا تو آپ کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں بچھو کا دم کرتا ہوں اور آپ نے اس سے منع فرما دیا ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص تم میں سے کسی بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو وہ ضرور پہنچائے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا جو سانپ کا دم کرتا تھا آپ نے اس کو فرمایا تم مجھے اپنا دم سناؤ۔ اس نے سنایا تو آپ نے فرمایا اس میں کچھ حرج نہیں۔ یہ معاہدات ہیں۔ ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دم کے جواز میں جو روایات وارد ہیں وہ ممانعت کی روایات کے لیے ناسخ ہیں۔ دم کی کیفیت کے سلسلہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جب تک وہ شرکیہ کلمات نہ ہوں اس وقت تک ان میں کچھ حرج نہیں۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات مروی ہیں ملاحظہ ہو۔
تخریج : سابقہ روایت ٧٠٥٤ کی تخریج ملاحظہ ہو۔

7059

۷۰۵۶: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا الْحِمَّانِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیْمٍ قَالَ : حَدَّثَتْنِی الرَّبَابُ قَالَتْ سَمِعْتُ سَہْلَ بْنَ حُنَیْفٍ یَقُوْلُ : مَرَرْنَا بِسَیْلٍ ، فَدَخَلْنَا نَغْتَسِلُ ، فَخَرَجْتُ مِنْہُ وَأَنَا مَحْمُوْمٌ ، فَنُمِیَ ذٰلِکَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُرُوْا أَبَا ثَابِتٍ ، فَلْیَتَعَوَّذْ .فَقُلْتُ :یَا سَیِّدِی ، اِنَّ الرُّقٰی صَالِحَۃٌ ؟ فَقَالَ : لَا رُقْیَۃَ اِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ ، مِنَ النَّظْرَۃِ ، وَالْحُمَّۃِ ، وَاللَّدْغَۃِ۔فَاحْتَمَلَ أَنْ یَکُوْنَ مَا أَبَاحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنِ الرُّقٰی‘ ہُوَ التَّعَوُّذُ .فَأَمَّا قَوْلُ سَہْلٍ لَا رُقْیَۃَ اِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ ، فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ عَلِمَ ذٰلِکَ مِنْ اِبَاحَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بَعْدَ نَہْیِہِ الْمُتَقَدِّمِ ، وَلَمْ یَعْلَمْ مَا سِوٰی ذٰلِکَ مِمَّا رَوَیْنَا عَنْ غَیْرِہٖ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِیْہِ
٧٠٥٦: رباب حضرت سہل بن حنیف (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ہمارا گزر وادی کے پاس سے ہوا ہم اس میں غسل کے لیے داخل ہوئے جب میں نکلا تو مجھے بخار تھا اس بات کی اطلاع جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچائی گئی تو آپ نے فرمایا۔ ابو ثابت کو کہو کہ وہ تعوذ پڑھ کر پھونکے۔ میں نے کہا محترم دم تو درست ہوا۔ تو آپ نے فرمایا تین باتوں کے لیے رقیہ درست ہے۔ آنکھ لگنا۔ ! بخار ۔ " ڈسنے سے۔ اس میں احتمال ہے کہ جس دم کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مباح قرار دیا وہ تعوذ ہو۔ باقی حضرت سہل (رض) کا قول ” لارقیۃ الامن ثلاثہ “ اس میں احتمال یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ممانعت کے بعد اباحت ثابت ہے اس کے علاوہ کچھ معلوم نہیں ہوتا اور ان کے علاوہ دیگر روایات میں رخصتیں دی ہیں۔ (ملاحظہ ہو)
تخریج : ابو داؤد فی الطب باب ١٨‘ مسند احمد ٣؍٤٨٦۔

7060

۷۰۵۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَفَّانَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ صُہَیْبٍ قَالَ : ثَنَا أَبُو نَضْرَۃَ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ جِبْرِیْلَ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اشْتَکَیْتُ یَا مُحَمَّدُ قَالَ نَعَمْ .قَالَ : بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُؤْذِیک مِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ نَفْسٍ وَنَفَسٍ ، وَعَیْنٍ ، اللّٰہُ یَشْفِیْکَ، بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ۔
٧٠٥٧: ابو نضرہ نے حضرت ابو سعید (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ بیمار ہیں آپ نے فرمایا ہاں میں بیمار ہوں تو انھوں نے فرمایا : ” بسم اللہ ارقیک۔۔۔“ کہ میں آپ کو ہر قسم کی تکلیف سے دم کرتا ہوں جو آپ کو تکلیف دے ہر جاندار چیز سے اور نظر بد سے اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے میں اللہ تعالیٰ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔
تخریج : ترمذی فی الجنائز باب ٤‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٣٦‘ مسند احمد ٣‘ ٢٨؍٥٦۔

7061

۷۰۵۸: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ أَزْہَرَ بْنِ سَعِیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ أَخِیْ مَیْمُوْنَۃَ قَالَتَ - اِنَّ مَیْمُوْنَۃَ قَالَتْ لَہٗ : أَلَا أَرْقِیْکَ بِرُقْیَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : بَلَیْ قَالَتْ : بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ، وَاللّٰہُ یَشْفِیْکَ، مِنْ کُلِّ دَائٍ فِیْکَ، أَذْہِبْ الْبَاسَ ، رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ أَنْتَ - الشَّافِی ، لَا شَافِیَ اِلَّا أَنْتَ۔فَہٰذَا وَمَا أَشْبَہَہُ مِنِ الرُّقٰی‘ لَا بَأْسَ بِہٖ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ عَوْفٍ لَا بَأْسَ بِالرُّقٰی مَا لَمْ یَکُنْ شِرْکٌ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ کُلَّ رُقْیَۃٍ لَا شِرْکَ فِیْہَا ، فَلَیْسَتْ بِمَکْرُوْہَۃٍ ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
٧٠٥٨: عبدالرحمن بن سائب حضرت میمونہ کے بھتیجے روایت کرتے ہیں کہ حضرت میمونہ (رض) کہنے لگیں کیا میں تم کو وہ دم نہ کروں جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرتے ہیں میں نے کہا کیوں نہیں۔ تو انھوں نے یہ دم پڑھا میں اللہ تعالیٰ کے نام سے تمہیں دم کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ہر بیماری سے تمہیں شفا دے۔ اے لوگو کے رب ! تکلیف کو دور فرما۔ اور شفاء عنایت فرما آپ کے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں۔ یہ اور اس قسم کے دم میں کوئی حرج نہیں اس پر عوف (رض) سے آپ کا ارشاد ” لابأس بالرقی “ بھی دلالت کررہا ہے جب تک کہ اس میں کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو۔ پس اس سے ثابت ہوگیا کہ ہر وہ دم جس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں وہ مکروہ نہیں۔ واللہ اعلم۔
تخریج : بخاری فی الطب باب ٣٨‘ مسلم فی السلام ٤٠‘ ابو داؤد فی الطب باب ١٩‘ ترمذی فی الجنائز باب ٤‘ ابن ماجہ فی الطب باب ٣٦‘ مسند احمد ٦؍٣٣٢۔

7062

۷۰۵۹: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَنِیِّ بْنُ رِفَاعَۃَ اللَّخْمِیُّ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَیَّارِ بْنِ سَلَامَۃَ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ أَبِیْ عَلٰی أَبِیْ بَرْزَۃَ فَسَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ ، وَالْحَدِیْثَ بَعْدَہَا۔
٧٠٥٩: سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ حضرت ابو برزہ کے پاس گیا میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عشاء کے بعد بات کرنے اور اس سے پہلے سو جانے کو ناپسند فرماتے تھے۔
بخاری فی المواقیت باب ٢٣۔
خلاصہ الزام
نماز عشاء کے بعد گفتگو میں بعض علماء کا قول یہ ہے کہ مطلقاً مکروہ ہے۔
فریق ثانی کا قول یہ ہے کہ جو کلام قرب الٰہی کا ذریعہ نہ ہو اگرچہ وہ معصیت نہ ہو اس میں کراہت ہے مگر دینی گفتگو درست ہے۔

7063

۷۰۶۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ سَیَّارٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی کَرَاہَۃِ الْحَدِیْثِ بَعْدَ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : أَمَّا الْکَلَامُ الَّذِیْ لَیْسَ بِقُرْبَۃٍ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَاِنْ کَانَ لَیْسَ بِمَعْصِیَۃٍ ، فَہُوَ مَکْرُوْہٌ حِیْنَئِذٍ لِأَنَّہٗ مُسْتَحَبٌّ لِلرَّجُلِ أَنْ یَنَامَ عَلٰی قُرْبَۃٍ، وَخَیْرٍ ، وَفَضْلٍ یَخْتِمُ بِہٖ عَمَلَہٗ۔فَأَفْضَلُ الْأَشْیَائِ لَہٗ، أَنْ یَنَامَ عَلَی الصَّلَاۃِ فَتَکُوْنُ ہِیَ آخِرُ عَمَلِہٖ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ اِبَاحَۃِ الْحَدِیْثِ بَعْدَ الْعِشَائِ۔
٧٠٦٠: حماد بن سلمہ نے سیار سے اور پھر انھوں نے اپنی سند سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ مام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز عشاء کے بعد گفتگو درست نہیں بلکہ مکروہ ہے انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا۔ جو کلام قرب الٰہی کا ذریعہ نہ ہو اگرچہ وہ معصیت بھی نہ ہو وہ مکروہ ہے کیونکہ آدمی کے لیے مستحب یہ ہے کہ عبادت یا نیکی کر کے سو جائے اور اپنا عمل کسی بھلائی پر ختم کرے پس اس کے لیے سب سے بہتر یہی ہے کہ وہ نماز پڑھ کر سو جائے تاکہ اس کا یہ آخری عمل ہو انھوں نے مندرجہ ذیل روایات کو دلیل بنایا ہے۔

7064

۷۰۶۱: بِمَا حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ ، قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ قَالَ : قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ ح .
٧٠٦١: ابو وائل کہتے ہیں ہمیں عبداللہ نے بیان کیا۔

7065

۷۰۶۲: وَحَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ : ثَنَا ہُدْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃِ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ قَالَ : حَبَّبَ اِلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّمَرَ بَعْدَ صَلَاۃِ الْعَتَمَۃِ وَقَالَ مُسْلِمٌ : بَعْدَ صَلَاۃِ الْعِشَائِ۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَبَّبَ لَہُمُ السَّمَرَ بَعْدَ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ ، وَفِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ ، أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ ذٰلِکَ .فَوَجْہُہُمَا ، عِنْدَنَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ أَنَّہٗ کَرِہَ لَہُمْ مِنَ السَّمَرِ مَا لَیْسَ بِقُرْبَۃٍ ، وَحَبَّبَ لَہُمْ مَا ہُوَ قُرْبَۃٌ عَلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ ذَکَرْنَاہُ عَنْ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الثَّانِیَۃِ ، الْمَذْکُوْرَۃِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ .
٧٠٦٢: ابو وائل کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ نے بیان کیا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عشاء کے بعد گفتگو کے لیے ہماری طرف متوجہ ہوئے مسلم کی روایت میں صلوۃ العتمہ کی بجائے صلوۃ العشاء کا لفظ ہے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے بعد گفتگو کے لیے ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پہلی روایت میں گفتگو کی کراہت ذکر کی گئی ہے دونوں میں تطبیق کی شکل ہمارے ہاں یہی ہے کہ ایسی گفتگو مکروہ ہے جو باعث قربت نہ ہو اور دوسری روایت آپ کا گفتگو کے لیے متوجہ ہونا اس کا تعلق ایسی گفتگو سے ہے جو نیکی کا باعث ہو۔

7066

۷۰۶۳: وَقَدْ حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیُّ قَالَ : أَبُو الْوَلِیْدِ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : رُبَّمَا سَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَیْتِ أَبِیْ بَکْرٍ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِی الْأَمْرِ یَکُوْنُ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ۔فَبَیَّنَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، سَمَرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ کَانَ یَسْمُرُہٗ، وَأَنَّہٗ مِنْ أُمُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ ، فَذٰلِکَ مِنْ أَعْظَمِ الطَّاعَاتِ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ السَّمَرَ الْمَنْہِیَّ عَنْہُ، خِلَافُ ہٰذَا .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔
٧٠٦٣: علقمہ نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ بسا اوقات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر صدیق کے ساتھ ایک رات مسلمانوں کے معاملے میں نماز عشاء کے بعد بات چیت کر رہے تھے اس روایت نے بتلا دیا کہ رات کے وقت آپ مسلمانوں کے معاملات میں گفتگو فرماتے تھے اور یہ عظیم نیکی ہے معلوم ہوتا ہے جو گفتگو ممنوع ہے وہ اس کے علاوہ ہے اور یہ مفہوم حضرت عمر (رض) سے مروی ہے۔
تخریج : مسند احمد ١؍٢٦۔

7067

۷۰۶۴: مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : حَبَّبَ اِلَیْنَا عُمَرُ السَّمَرَ ، بَعْدَ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ .فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ عُمَرَ حَبَّبَ اِلَیْہِمْ السَّمَرَ بَعْدَ الْعِشَائِ الْآخِرَۃِ ، وَلَمْ یُبَیِّنْ لَنَا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَیَّ سَمَرٍ ذٰلِکَ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ .
٧٠٦٤: ابو وائل نے عبداللہ سے بیان کیا کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر (رض) نماز عشاء کے بعد گفتگو کے لیے متوجہ ہوئے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نماز عشاء کے بعد ان کی طرف گفتگو کے لیے متوجہ ہوئے مگر گفتگو کی وضاحت موجود نہیں تلاش کرنے پر یہ روایت مل گئی۔

7068

۷۰۶۵: فَاِذَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ ثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْجَرِیْرِیِّ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا نَضْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ مَوْلَی الْأَنْصَارِ قَالَ : کَانَ عُمَرُ لَا یَدَعُ سَامِرًا بَعْدَ الْعِشَائِ ، یَقُوْلُ ارْجِعُوْا ، لَعَلَّ اللّٰہَ یَرْزُقُکُمْ صَلَاۃً أَوْ تَہَجُّدًا ۔ فَانْتَہٰی اِلَیْنَا ، وَأَنَا قَاعِدٌ مَعَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ وَأُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، وَأَبِیْ ذٰرٍ فَقَالَ مَا یُقْعِدُکُمْ ؟ قُلْنَا أَرَدْنَا أَنْ نَذْکُرَ اللّٰہَ ، فَقَعَدَ مَعَہُمْ .فَہٰذَا عُمَرُ ، قَدْ کَانَ یَنْہَاہُمْ عَنْ السَّمَرِ بَعْدَ الْعِشَائِ ، لِیَرْجِعُوْا اِلٰی بُیُوْتِہِمْ ، لِیُصَلُّوْا ، أَوْ لِیَنَامُوْا نَوْمًا ، ثُمَّ یَقُوْمُوْنَ لِصَلَاۃٍ ، یَکُوْنُوْنَ بِذٰلِکَ مُتَہَجِّدِیْنَ .فَلَمَّا سَأَلَہُمْ : مَا الَّذِی أَقْعَدَہُمْ ؟ فَأَخْبَرُوْھُ أَنَّہٗ ذِکْرُ اللّٰہِ - لَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ وَقَعَدَ مَعَہُمْ ، لِأَنَّ مَا کَانَ یُقِیْمُہُمْ لَہٗ ہُوَ الَّذِیْ ھُمْ قُعُوْدٌ لَہٗ۔فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ السَّمَرَ الَّذِیْ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعُمَرَ ، حَبَّبَاہُ اِلَیْہِمْ ، ہُوَ الَّذِیْ فِیْہِ قُرْبَۃٌ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَالنَّہْیُ عَنْہُ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ بَرْزَۃَ ہُوَ : مَا لَا قُرْبَۃَ فِیْہِ لِیَسْتَوِیَ مَعَانِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ ، لِتَتَّفِقَ ، وَلَا تَتَضَادَّ .وَقَدْ رَوَیْنَا عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ أَنَّہُمَا سَمَرَا اِلٰی طُلُوْعِ الثُّرَیَّا .فَذٰلِکَ - عِنْدَنَا - عَلَی السَّمَرِ الَّذِیْ ھُوَ قُرْبَۃٌ ، اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ الْحَدِیْثَ بِاِسْنَادِہِ فِیْمَا تَقَدَّمَ ، مِنْ کِتَابِنَا ہٰذَا .وَقَدْ رُوِیَ ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَیْضًا مِنْ طَرِیْقٍ لَیْسَ مِثْلُہٗ یَثْبُتُ ، أَنَّہَا قَالَتْ لَا سَمَرَ اِلَّا لِمُصَل ، أَوْ مُسَافِرٍ فَذٰلِکَ - ؟ عِنْدَنَا ، اِنْ ثَبَتَ عَنْہَا غَیْرُ مُخَالِفٍ لِمَا رَوَیْنَا ، وَذٰلِکَ أَنَّ الْمُسَافِرَ یَحْتَاجُ اِلٰی مَا یَدْفَعُ النَّوْمَ عَنْہُ، لِیَسِیْرَ ، فَأُبِیْحَ بِذٰلِکَ السَّمَرُ ، وَاِنْ کَانَ لَیْسَ بِقُرْبَۃٍ ، مَا لَمْ تَکُنْ مَعْصِیَۃً ، لِاحْتِیَاجِہِ اِلَی ذٰلِکَ .فَہٰذَا مَعْنٰی قَوْلِہَا لَا سَمَرَ اِلَّا الْمُسَافِرُ۔وَأَمَّا قَوْلُہَا أَوْ مُصَل فَمَعْنَاہُ - عِنْدَنَا - عَلَی الْمُصَلِّیْ بَعْدَمَا یَسْمُرُ ، فَیَکُوْنُ نَوْمُہُ اِذَا نَامَ بَعْدَ ذٰلِکَ عَلَی الصَّلَاۃِ ، لَا عَلَی السَّمَرِ .فَقَدْ عَادَ ہٰذَا الْمَعْنٰی اِلَی الْمَعْنَی الَّذِیْ صَرَفْنَا اِلَیْہِ مَعَانِی الْآثَارِ الْأُوَلِ ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ
٧٠٦٥: ابو نضرہ ‘ ابو سعید جو انصار کے مولیٰ تھے ان سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) عشاء کے بعد کسی گفتگو کرنے والے کو نہ چھوڑتے بلکہ فرماتے لوٹ جاؤ شاید کہ اللہ تعالیٰ تمہیں نماز یا تہجد کا لفظ فرمایا نصیب فرما دے چنانچہ آپ ہم تک پہنچے میں اس وقت ابن مسعود ‘ ابی ‘ اور حضرت ابو ذر (رض) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا کیوں بیٹھے ہو ہم نے کہا ہم اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے بیٹھے ہیں تو آپ ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جو عشاء کے بعد گفتگو سے منع فرماتے ہیں تاکہ وہ اپنے گھروں میں لوٹ جائیں اور وہاں نماز پڑھیں یا سو جائیں اور پھر نماز کے لیے اٹھیں تاکہ اس سے وہ تہجد گزار بن جائیں پھر جب وہ پوچھتے ہیں کہ وہ کس لیے بیٹھے ہیں اور وہ بتلاتے ہیں کہ وہ اللہ کو یاد کرنے کے لیے بیٹھے ہیں تو آپ ان کی بات کا انکار نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ جس بات کے لیے آپ ان کو اٹھانا چاہتے ہیں وہ اسی کے لیے بیٹھے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ گفتگو جس کا ذکر حضرت عبداللہ اور حضرت عمر (رض) کی روایات میں آیا جس کے لیے آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے یہ گفتگو قرب الٰہی کا ذریعہ ہے اور ابو برزہ کی روایت میں جس سے ممانعت کی گئی وہ وہی گفتگو ہے جو قرب الٰہی کا ذریعہ نہ ہو یہ تاویل اس لیے کی گئی تاکہ روایات کے معانی متفق ہوجائیں اور ان میں تضاد نہ رہے ہم نے ابن عباس (رض) اور مسور بن مخرمہ (رض) کے متعلق یہ نقل کیا کہ ثریا ستاروں کے طلوع تک وہ گفتگو کرتے رہے تو ہمارے نزدیک اس سے مراد ایسی گفتگو ہے جو اللہ کے قرب کا باعث ہو حضرت عائشہ (رض) سے ایسی سند سے روایت ثابت ہے جو درست نہیں کہ انھوں نے فرمایا ” لاسمرالامصل او مسافر “ اول تو یہ روایت ثابت نہیں اور اگر ثابت ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ مسافر کو سفر پر روانہ ہونے کے لیے جاگنے کی ضرورت ہے اس لیے گفتگو اس کے لیے مباح کی گئی اگرچہ یہ گفتگو عبادت نہ ہو لیکن ضرورت کی وجہ سے جائز ہوگی جب تک کہ معصیت کی گفتگو نہ ہو اسی طرح او مصل کا معنی بھی ہمارے نزدیک یہ ہے کہ وہ نمازی جو کہ گفتگو کے بعد نماز پڑھے تو اس کی نیند نماز پر ہو گفتگو پر نہ ہو اب ان روایات کا معنی بھی اسی تاویل کے مطابق ہوگیا جو ہم نے شروع باب کی روایات کا ذکر کیا ہے۔

7069

۷۰۶۶: حَدَّثَنَا الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا الشَّافِعِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ نَبْہَانَ مَوْلٰی أُمِّ سَلَمَۃَ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَا کَانَ لِاِحْدَاکُنَّ مُکَاتَبٌ ، وَکَانَ عِنْدَہٗ مَا یُؤَدِّیْ فَلْتَحْتَجِبْ مِنْہُ۔قَالَ : سُفْیَانُ سَمِعْتُہٗ مِنْ الزُّہْرِیِّ ، وَثَبَّتَنِیْہِ مَعْمَرٌ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ اِلٰی أَنَّ الْعَبْدَ ، لَا بَأْسَ ، أَنْ یَنْظُرَ اِلٰی شُعُوْرِ مَوْلَاتِہٖ وَوَجْہِہَا ، وَاِلٰی مَا یَنْظُرُ اِلَیْہِ ذُو مَحْرَمِہَا مِنْہَا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ ، وَقَالُوْا : فِیْ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأُمِّ سَلَمَۃَ فَلْتَحْتَجِبْ مِنْہُ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہَا قَدْ کَانَتْ قَبْلَ ذٰلِکَ غَیْرُ مُحْتَجِبَۃٍ مِنْہُ : وَقَالُوْا : قَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَمِلَ بِہٖ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہٖ۔ فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٠٦٦: نبہان مولیٰ ام سلمہ نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کسی ایک کا مکاتب ہو اور وہ ادائیگی کے لیے مال رکھتا ہو مالکہ کو اس سے پردہ کرنا چاہیے۔ سفیان کہتے ہیں کہ میں نے یہ روایت زہری سے سنی ہے اور معمر نے اس کی تصدیق فرمائی۔ امام جعفر طحاوی (رح) کہتے ہیں اہل مدینہ میں سے ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ غلام کے لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنی مالکہ کے بال چہرہ اور جن اعضاء کو محرم دیکھ سکتا ہے ان کے دیکھنے میں بھی حرج نہیں انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلمہ کو فرمایا فلتحتجب منہ کہ اب اسے پردہ کرنا چاہیے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے اسے پردے کی ضرورت نہ تھی اور اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت اور ازواج مطہرات کا عمل بھی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ روایت یہ ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الاعتاق باب ١‘ ترمذی فی البیوع باب ٣٥‘ ابن ماجہ فی العتق باب ٣‘ مسند احمد ٦؍٢٨٩۔
خلاصہ الزام :
اہل مدینہ کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ وہ اپنی مالکہ کے بال ‘ چہرہ اور وہ اعضا جن کو محرم دیکھ سکتا ہے ان کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
فریق ثانی : کوئی غلام آزاد عورت کے اعضاء نہیں دیکھ سکتا سوائے ان حصوں کے جن کو آزاد غیر محرم دیکھ سکتا ہے۔ اس قول کو ائمہ احناف نے اختیار کیا ہے۔

7070

۷۰۶۷: مَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ الْأَصْبَہَانِیِّ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ عَنْ السُّدِّیِّ عَنْ أَبِیْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَا بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ الْعَبْدُ اِلٰی شُعُوْرِ مَوْلَاتِہٖ۔
٧٠٦٧: ابو مالک نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اس میں کچھ حرج نہیں کہ غلام اپنی مالکہ کے بالوں کو دیکھے۔

7071

۷۰۶۸: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ مَیْمُوْنُ بْنُ یَحْیَیْ عَنْ آلِ الْأَشَجِّ عَنْ مَخْرَمَۃَ بْنِ بُکَیْرٍ عَنْ أَبِیْہِ‘ عَنْ عَمْرُو بْنِ شُعَیْبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَیَزِیْدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، وَعَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہُمْ قَالُوْا : لَوْ أَنَّ امْرَأَۃً جَلَسَتْ عِنْدَ عَبْدِ زَوْجِہَا بِغَیْرِ خِمَارٍ لَمْ یَکُنْ بِذٰلِکَ بَأْسًا .قَالَ بُکَیْر : وَأَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ الْقَاسِمِ أَنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ کَانَتْ تَجْلِسُ عِنْدَ عَبْدٍ لِقَاسِمٍ وَہُوَ زَوْجُہَا بِغَیْرِ خِمَارٍ قَالَ : بُکَیْر عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَتْ : کَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یَرَاہَا الْعَبِیْدُ لِغَیْرِہَا قَالَ : بَکْرٌ قَالَتْ أُمُّ عَلْقَمَۃَ مَوْلَاۃُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تُدْخِلُ عَلَیْہَا عَبِیْدَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَاِنْ کَانَ عَبِیْدُ النَّاسِ ، لَیَرَوْنَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بَعْدَ أَنْ یَحْتَلِمَ أَحَدُہُمْ وَاِنَّہَا لَتَمْتَشِطُ .قَالَ بُکَیْر : عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَافِعٍ لَمْ تَکُنْ أُمُّ سَلَمَۃَ تَحْتَجِبُ مِنْ عَبِیْدِ النَّاسِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ فَقَالُوْا : لَا یَنْظُرُ الْعَبْدُ مِنَ الْحَرَّۃِ اِلَّا اِلٰی مَا یَنْظُرُ اِلَیْہِ مِنْہَا الْحُرُّ الَّذِیْ لَا مَحْرَمَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ ذٰکَرُوْا فِیْ حَدِیْثِ أُمِّ سَلَمَۃَ ، لَا یَدُلُّ عَلٰی مَا قَالَ : أَہْلُ تِلْکَ الْمَقَالَۃِ ، لِأَنَّہٗ قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ أَرَادَ بِذٰلِکَ حِجَابَ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ ، فَاِنَّہُنَّ قَدْ کُنَّ حُجِبْنَ عَنِ النَّاسِ جَمِیْعًا ، اِلَّا مَنْ کَانَ مِنْہُمْ ذُو رَحِمٍ مَحْرَمٍ .فَکَانَ لَا یَجُوْزُ لِأَحَدٍ أَنْ یَرَاہُنَّ أَصْلًا اِلَّا مَنْ کَانَ بَیْنَہُنَّ وَبَیْنَہُ رَحِمٌ مَحْرَمٌ ، وَغَیْرُہُنَّ مِنْ النِّسَائِ ، لَسْنَ کَذٰلِکَ لِأَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ الرَّجُلُ مِنَ الْمَرْأَۃِ الَّتِیْ لَا رَحِمَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہَا ، وَلَیْسَتْ عَلَیْہِ بِمَحْرَمَۃٍ اِلٰی وَجْہِہَا وَکَفَّیْہَا ، وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا۔فَقَدْ قِیْلَ فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٠٦٨: عمرو بن شعیب ‘ یزید بن عبداللہ اور عمرہ بنت عبدالرحمن سب کا قول یہ ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے غلام کے سامنے بغیر دوپٹے کے بیٹھے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ بکیر راوی کہتے ہیں : کہ مجھے عبدالرحمن بن قاسم نے بتلایا کہ اسماء بنت عبدالرحمن قاسم کے غلام کے پاس اپنے خاوند کے ساتھ بغیر دوپٹے کے بیٹھتی تھیں بکیر نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے نقل کیا کہ حضرت عائشہ (رض) کو دوسروں کے غلام بھی دیکھتے تھے بکر نے ام علقمہ سے جو حضرت عائشہ (رض) کی لونڈی ہیں ان سے بیان کیا کہ مسلمانوں کے غلام آپ کی زیارت کے لیے آپ کے ہاں داخل ہوتے اگرچہ وہ بالغ ہوتے اور حضرت عائشہ (رض) کنگھی کر رہی ہوتی تھیں بکیر نے عبداللہ بن رافع سے بیان کیا کہ حضرت ام سلمہ لوگوں کے غلاموں سے پردہ نہ کرتی تھیں۔ دوسرے فریق نے یہ کہا کہ کوئی غلام کسی آزاد عورت کو نہیں دیکھ سکتا سوائے اس حصے کے جس کو آزاد غیر محرم دیکھ سکتا ہو۔ روایت ام سلمہ (رض) میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس بات پر ہرگز دلالت نہیں کرتا جو فریق اوّل نے مراد لیا ہے کیونکہ عین ممکن ہے اس سے مقصود امہات المومنین کا پردہ کرنا ہو وہ اپنے محرموں کے علاوہ سب سے پردہ کرتی تھیں کسی کو انھیں دیکھنا جائز نہیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ان کا رحم کا رشتہ تھا اور دیگر عورتیں ان کا حکم اس طرح نہیں کیونکہ کسی عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف دیکھنے میں حرج نہیں اگرچہ وہ اس کا محرم نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” ولا یبدین زینتہن “ (نور : ٣١) وہ عورتیں اپنی زینت کو ہرگز ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے ظاہر ہو اس سلسلے میں اس طرح کہا گیا ہے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔
بکیر راوی کہتے ہیں : کہ مجھے عبدالرحمن بن قاسم نے بتلایا کہ اسماء بنت عبدالرحمن قاسم کے غلام کے پاس اپنے خاوند کے ساتھ بغیر دوپٹے کے بیٹھتی تھیں بکیر نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے نقل کیا کہ حضرت عائشہ (رض) کو دوسروں کے غلام بھی دیکھتے تھے بکر نے ام علقمہ سے جو حضرت عائشہ (رض) کی لونڈی ہیں ان سے بیان کیا کہ مسلمانوں کے غلام آپ کی زیارت کے لیے آپ کے ہاں داخل ہوتے اگرچہ وہ بالغ ہوتے اور حضرت عائشہ (رض) کنگھی کر رہی ہوتی تھیں بکیر نے عبداللہ بن رافع سے بیان کیا کہ حضرت ام سلمہ لوگوں کے غلاموں سے پردہ نہ کرتی تھیں۔
فریق ثانی کا مؤقف : دوسرے فریق نے یہ کہا کہ کوئی غلام کسی آزاد عورت کو نہیں دیکھ سکتا سوائے اس حصے کے جس کو آزاد غیر محرم دیکھ سکتا ہو۔
فریق اوّل کا جواب : روایت ام سلمہ (رض) میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس بات پر ہرگز دلالت نہیں کرتا جو فریق اوّل نے مراد لیا ہے کیونکہ عین ممکن ہے اس سے مقصود امہات المومنین کا پردہ کرنا ہو وہ اپنے محرموں کے علاوہ سب سے پردہ کرتی تھیں کسی کو انھیں دیکھنا جائز نہیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ان کا رحم کا رشتہ تھا اور دیگر عورتیں ان کا حکم اس طرح نہیں کیونکہ کسی عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف دیکھنے میں حرج نہیں اگرچہ وہ اس کا محرم نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” ولا یبدین زینتہن “ (نور : ٣١) وہ عورتیں اپنی زینت کو ہرگز ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے ظاہر ہو اس سلسلے میں اس طرح کہا گیا ہے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔

7072

۷۰۶۹: مَا حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ ثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِیْ اِسْحَاقَ عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا۔قَالَ : الزِّیْنَۃُ الْقُرْطُ ، وَالْقِلَادَۃُ ، وَالسِّوَارُ ، وَالْخَلْخَالُ ، وَالدُّمْلُجُ مَا ظَہَرَ مِنْہَا الثِّیَابُ ، وَالْجِلْبَابُ .
٧٠٦٩: ابوالاحوص نے حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آیت ” ولا یبدین زینتہن “ میں زینت سے مراد بالی ‘ ہار ‘ کنگن ‘ پازیب اور بازوبند ہے اور ماظہر سے مراد کپڑے اور چادر ہے۔

7073

۷۰۷۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا مُوْسَیْ بْنُ أَعْیَنَ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا الْکُحْلُ ، وَالْخَاتَمُ .
٧٠٧٠: سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ماظہر سے مراد سرمہ اور انگوٹھی ہے۔

7074

۷۰۷۱: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ مَنْصُوْرٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا قَالَ : ہُوَ مَا فَوْقَ الدِّرْعِ ، فَأُبِیْحَ لِلنَّاسِ أَنْ یَنْظُرُوْا اِلٰی مَا لَیْسَ بِمُحَرَّمٍ عَلَیْہِمْ مِنَ النِّسَائِ اِلٰی وُجُوْہِہِنَّ ، وَأَکُفَّہُنَّ ، وَحَرُمَ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَّا نَزَلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ ، فَفُضِّلْنَ بِذٰلِکَ عَلٰی سَائِرِ النَّاسِ .
٧٠٧١: منصور نے ابراہیم سے روایت کی کہ ماظہر سے چادر سے اوپر کی اشیاء ہیں پس لوگوں کے لیے یہ مباح ہے کہ ان چیزوں کو دیکھیں جو ان پر عورتوں میں سے حرام نہیں یعنی ان کے چہرے اور ان کی ہتھیلیاں لیکن ازواج مطہرات کے سلسلے میں ان کا دیکھنا بھی حرام ہے جب حجاب کی آیت اتری تو اسی بات کے ساتھ ان کو دوسرے لوگوں پر فضیلت دی گئی۔

7075

۷۰۷۲: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ وَابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُکَیْرٍ السَّہْمِیُّ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، یَدْخُلُ عَلَیْکَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ ، فَلَوْ حَجَبْتُ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ آیَۃَ الْحِجَابِ۔
٧٠٧٢: حمید نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) کہنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پاس نیک اور بد سب آتے ہیں اگر آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم فرماتے (تو مناسب تھا) تو اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب اتار دی۔
تخریج : بخاری فی التفسیر سورة ٢‘ باب ٩‘ سورة ٣٣‘ باب ٨‘ مسند احمد ١؍٢٤۔

7076

۷۰۷۳: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧٠٧٣: یزید بن ہارون کہتے ہیں حمید نے ہمیں بیان کیا پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

7077

۷۰۷۴: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُرْوَۃُ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کُنَّ یَخْرُجْنَ بِاللَّیْلِ اِلَی الْمَنَاصِعِ وَہُوَ صَعِیْدٌ أَفْیَحُ ، وَکَانَ عُمَرُ یَقُوْلُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُحْجُبْ نِسَائَ کَ .فَلَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُ .فَخَرَجَتْ سَوْدَۃُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، وَکَانَتِ امْرَأَۃً طَوِیْلَۃً ، فَنَادَاہَا عُمَرُ أَلَا قَدْ عَرَفْنَاک یَا سَوْدَۃُ حِرْصًا عَلٰی أَنْ یُنْزِلَ اللّٰہُ الْحِجَابَ .قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : فَأَنْزَلَ اللّٰہُ الْحِجَابَ۔
٧٠٧٤: عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین رات کو قضائے حاجت کے لیے باہر جاتیں وہ ایک کھلی زمین تھی حضرت عمر (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کرتے اپنی ازواج کا پردہ کرا دیجئے مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا نہ کرتے۔ حضرت سودہ (رض) ایک رات باہر نکلیں یہ لمبے قد والی عورتیں تھیں حضرت عمر (رض) نے اس حرص میں کہ اللہ تعالیٰ پردے کا حکم اتار دے۔ یہ کہا۔ اے سودہ ہم نے تمہیں پہچان لیا حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حجاب کی آیت اتار دی۔
تخریج : بخاری فی الاستیذان باب ١٠‘ مسند احمد ٦؍٢٧١۔

7078

۷۰۷۵: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُکَیْرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّیْثُ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧٠٧٥: یحییٰ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہمیں لیث نے بیان کیا پھر انھوں نے اپنی سند سے روایت کی۔

7079

۷۰۷۶: حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَعْلَمَ النَّاسِ بِشَأْنِ الْحِجَابِ ، فِیْمَا أُنْزِلَ ، وَکَانَ أَوَّلُ مَا أُنْزِلَ فِیْ مَبْنَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِزَیْنَبِ بِنْتِ جَحْشٍ أَصْبَحَ بِہَا عَرُوْسًا .فَدَعَا الْقَوْمَ فَأَصَابُوْا مِنِ الطَّعَامِ ثُمَّ خَرَجُوْا ، وَبَقِیَ رَہْطٌ مِنْہُمْ ، عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَطَالُوْا الْمُکْثَ .فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَخَرَجَ ، وَخَرَجْتُ مَعَہٗ حَتّٰی جَائَ عَتَبَۃَ حُجْرَۃِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ثُمَّ ظَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ قَدْ خَرَجُوْا فَرَجَعَ ، وَرَجَعْتُ مَعَہٗ، حَتّٰی دَخَلَ عَلَی زَیْنَبَ فَاِذَا ہُمْ جُلُوْسٌ ، فَرَجَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَجَعْتُ مَعَہٗ، حَتّٰی اِذَا بَلَغَ عَتَبَۃَ حُجْرَۃِ عَائِشَۃَ ، وَظَنَّ أَنَّہُمْ قَدْ خَرَجُوْا ، رَجَعَ ، وَرَجَعْتُ مَعَہُ فَاِذَا ہُمْ قَدْ خَرَجُوْا .فَضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ بِالسِّتْرِ ، وَأَنْزَلَ الْحِجَابَ۔
٧٩٧٦: ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے حضرت انس (رض) نے بتلایا کہ میں پردے کے معاملے میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں کہ کس سلسلے میں وہ آیت اتری سب سے پہلی آیت کا وہ موقع ہے جب حضرت زینب (رض) کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شادی ہوئی اور آپ نے شب زفاف گزاری آپ نے لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا وہ آئے اور چلے گئے ایک جماعت ان میں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رکی رہی اور کافی دیر وہ ٹھہرے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ کر باہر نکلے اور میں بھی آپ کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ آپ حجرہ عائشہ (رض) کے چوکھٹ تک پہنچ گئے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمان کیا کہ وہ نکل چکے ہیں تو آپ لوٹے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہی لوٹا آپ حضرت زینب کے مکان میں داخل ہوئے تو وہ بیٹھے تھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر لوٹ گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ لوٹا یہاں تک کہ آپ حجرہ عائشہ (رض) کے چوکھٹ تک پہنچ گئے اور آپ نے یہ گمان کیا کہ وہ نکل چکے ہوں گے تو آپ واپس لوٹ آئے اور میں بھی آپ کے ساتھ لوٹا وہ تو نکل چکے تھے تو اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب اتار دی۔
تخریج : بخاری فی تفسیر ٣٣‘ باب ٨‘ والنکاح باب ٦٧‘ مسند احمد ٣؍٢٤١۔

7080

۷۰۷۷: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بَکْرٍ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ الطَّوِیْلُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ : أَوْلَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، حِیْنَ بَنَیْ بِزَیْنَبِ بِنْتِ جَحْشٍ ، ثُمَّ خَرَجَ اِلٰی حُجَرٍ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ ، فَلَمَّا رَجَعَ اِلٰی بَیْتِہٖ رَأٰی رَجُلَیْنِ قَدْ مَدَّ بِہِمَا الْحَدِیْثُ فَوَثَبَا مُسْرِعَیْنِ ، فَرَجَعَ حَتّٰی دَخَلَ الْبَیْتَ ، وَأَرْخَی السِّتْرَ ، وَأُنْزِلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ۔
٧٠٧٧: حمیدالطویل نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولیمہ کیا جبکہ حضرت زینب بنت جحش (رض) کے ہاں شب زفاف گزاری پھر آپ امہات المومنین کے حجرات کی طرف نکل گئے پھر جب حجرہ زینب کی طرف واپس لوٹے تو دو آدمیوں کو دیکھا جو لمبی بات میں مصروف تھے پھر وہ جلدی سے اٹھے تو آپ واپس لوٹ کر حجرہ زینب میں داخل ہوئے اور پردہ لٹکا لیا اور آیت حجاب اتاری گئی۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٣٣‘ باب ٨‘ والنکاح باب ٥٥‘ مسند احمد ٣‘ ٢٠٠؍٢٦٢۔

7081

۷۰۷۸: حَدَّثَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ مُنْقِذٍ قَالَ : ثَنَا الْمُقْرِئُ عَنْ جَرِیْرٍ عَنْ سَالِمٍ الْعَلَوِیِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : کُنْتُ خَادِمَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَکُنْتُ أَدْخُلُ عَلَیْہِ بِغَیْرِ اِذْنٍ .فَجِئْتُ یَوْمًا ، أَدْخُلُ فَقَالَ کَمَا أَنْتَ ، فَاِنَّہٗ قَدْ حَدَثَ بَعْدَک أَمْرٌ ، فَلَا تَدْخُلْ عَلَیْنَا اِلَّا بِاِذْنٍ
٧٠٧٨: سالم علوی نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کرتا تھا اور بلااجازت میں داخل ہوتا تھا ایک دن میں داخل ہونے لگا تو آپ نے فرمایا اپنی جگہ ٹھہر۔ اس لیے کہ تمہارے بعد ایک نیا حکم آیا ہے اب بلااجازت ہمارے ہاں مت داخل ہونا۔

7082

۷۰۷۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْن حَرْبٍ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ عَنْ سَالِمٍ الْعَلَوِیِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : لَمَّا أُنْزِلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ ، جِئْتُ أَدْخُلُ ، کَمَا أَدْخُلُ .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُوَیْدًا ، وَرَائَ کُ یَا بُنَیَّ۔
٧٠٧٩: سالم علوی کہتے ہیں کہ جب آیت حجاب نازل ہوئی تو میں داخل ہونے لگا جیسے پہلے داخل ہوتا تھا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیٹے باہر ٹھہرو !

7083

۷۰۸۰: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ : ثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِیْ مُجَالِدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : لَمَّا تَزَوَّجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ ، دَعَا الْقَوْمَ ، فَطَعِمُوْا ، ثُمَّ جَلَسُوْا یَتَحَدَّثُوْنَ ، فَأَخَذَ کَأَنَّہٗ یَتَہَیَّأُ لِلْقِیَامِ ، فَلَمْ یَقُوْمُوْا .فَلَمَّا رَأَیْ ذٰلِکَ قَامَ ، وَقَامَ مَنْ قَامَ مَعَہُ الْقَوْمُ ، وَقَعَدَ الثَّلَاثَۃُ .ثُمَّ اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، جَائَ فَدَخَلَ ، فَاِذَا الْقَوْمُ جُلُوْسٌ ، ثُمَّ اِنَّہُمْ قَامُوْا وَانْطَلَقُوْا .فَجِئْتُ فَأَخْبَرْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ قَدِ انْطَلَقُوْا ، فَجَائَ فَدَخَلَ ، وَأُنْزِلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمُ الْآیَۃَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ .فَکُنَّ أُمَّہَاتُ الْمُؤْمِنِیْنَ قَدْ خُصِصْنَ بِالْحِجَابِ مَا لَمْ یُجْعَلْ فِیْہِ سَائِرُ النَّاسِ مِثْلَہُنَّ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا ثُمَّ قَالَ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ آبِنَائِ بُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ اِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ اِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ فَجَعَلَ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ کَذِی الرَّحِمِ الْمَحْرَمِ فِیْہِنَّ .قِیْلَ لَہٗ : مَا جَعَلَہُنَّ کَذٰلِکَ وَلٰـکِنَّہٗ ذَکَرَ جَمَاعَۃً مُسْتَثْنِیْنَ مِنْ قَوْلِہٖ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ فَذَکَرَ الْبُعُوْلَ ، وَذَکَرَ الْآبَائَ ، وَمَنْ ذُکِرَ مَعَہُمْ ، مِثْلُ مَا ذَکَرَہُ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ۔فَلَمْ یَکُنْ جَمْعُہُ بَیْنَہُمْ ، بِدَلِیْلٍ عَلَی اسْتِوَائِ أَحْکَامِہِمْ ، لِأَنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْبَعْلَ قَدْ یَجُوْزُ لَہٗ أَنْ یَنْظُرَ مِنْ امْرَأَتِہِ اِلٰی مَا لَا یَنْظُرُ اِلَیْہَا أَبُوْہَا مِنْہَا .ثُمَّ قَالَ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ فَلَا یَکُوْنُ ضَمُّہُ أُوْلٰئِکَ مَعَ مَا قَبْلِہِمْ ، بِدَلِیْلِ أَنَّ حُکْمَہُمْ ، مِثْلُ حُکْمِہِمْ .وَلٰـکِنْ الَّذِی أُبِیْحَ بِہٰذِہِ الْآیَۃِ لِلْمَمْلُوْکِیْنَ مِنَ النَّظَرِ اِلَی النِّسَائِ ، اِنَّمَا ہُوَ مَا ظَہَرَ مِنْ الزِّیْنَۃِ ، وَہُوَ الْوَجْہُ وَالْکَفَّانِ .وَفِیْ اِبَاحَتِہِ ذٰلِکَ لِلْمَمْلُوْکِیْنَ ، وَلَیْسُوْا بِذَوِیْ أَرْحَامٍ مُحَرَّمَۃٍ ، دَلِیْلٌ أَنَّ الْأَحْرَارَ الَّذِیْنَ لَیْسُوْا بِذَوِیْ أَرْحَامٍ ، مُحَرَّمَۃٍ مِنْ النِّسَائِ فِیْ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ .وَقَدْ بَیَّنَ ہٰذَا الْمَعْنٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ بْنِ زَمْعَۃَ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِسَوْدَۃِ احْتَجِبِیْ مِنْہُ فَأَمَرَہَا بِالْحِجَابِ مِنْہُ وَہُوَ ابْنُ وَلِیْدَۃِ أَبِیہَا ، وَلَیْسَ یَخْلُوْ أَنْ یَکُوْنَ أَخَاہَا ، أَوْ ابْنَ وَلِیْدَۃِ أَبِیہَا ، فَیَکُوْنُ مَمْلُوْکًا لَہَا ، وَلِسَائِرِ وَرَثَۃِ أَبِیہَا .فَعَلِمْنَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَحْجُبْہَا مِنْہٗ، لِأَنَّہٗ أَخُوْہَا ، وَلٰـکِنْ ، لِأَنَّہٗ غَیْرُ أَخِیہَا ، وَہُوَ فِی تِلْکَ الْحَالِ ، مَمْلُوْکٌ ، فَلَمْ یَحِلَّ لَہٗ - بِرِقِّہِ - النَّظَرُ اِلَیْہَا .فَقَدْ ضَادَّ ہٰذَا الْحَدِیْثُ ، حَدِیْثَ أُمِّ سَلَمَۃَ ، وَخَالَفَہٗ، وَصَارَتِ الْآیَۃُ الَّتِیْ ذٰکَرْنَا عَلَی قَوْلِ ہٰذَا الذَّاہِبِ اِلٰی حَدِیْثِ سَوْدَۃَ أَنَّہَا عَلٰی سَائِرِ النِّسَائِ دُوْنَ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ ، وَأَنَّ عَبِیْدَ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ کَانُوْا فِیْ حُکْمِ النَّظَرِ اِلَیْہِنَّ فِیْ حُکْمِ الْقُرَبَائِ مِنْہُنَّ الَّذِیْنَ لَا رَحِمَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہُنَّ ، لَا فِیْ حُکْمِ ذَوِی الْأَرْحَامِ مِنْہُنَّ الْمُحَرَّمَۃِ .وَکُلُّ مَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُنَّ مَحْرَمَۃٌ ، فَہُوَ عِنْدَنَا فِیْ حُکْمِ ذَوِی الْأَرْحَامِ الْمُحَرَّمَۃِ فِیْ مَنْعِ مَا وَصَفْنَا .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلَی النَّظَرِ ، لِنَسْتَخْرِجَ بِہٖ مِنَ الْقَوْلَیْنِ ، قَوْلًا صَحِیْحًا .فَرَأَیْنَا ذَا الرَّحِمِ لَا بَأْسَ أَنْ یَنْظُرَ اِلَی الْمَرْأَۃِ الَّتِیْ ھُوَ لَہَا مَحْرَمٌ اِلٰی وَجْہِہَا ، وَصَدْرِہَا ، وَشَعْرِہَا ، وَمَا دُوْنَ رُکْبَتِہَا .وَرَأَیْنَا الْقَرِیْبَ مِنْہَا یَنْظُرُ اِلٰی وَجْہِہَا وَکَفَّیْہَا فَقَطْ .ثُمَّ رَأَیْنَا الْعَبْدُ حَرَامٌ عَلَیْہِ - فِیْ قَوْلِہِمْ جَمِیْعًا أَنْ یَنْظُرَ اِلٰی صَدْرِ الْمَرْأَۃِ مَکْشُوْفًا ، أَوْ اِلٰی سَاقَیْہَا ، سَوَائً کَانَ رِقُّہٗ لَہَا أَوْ لِغَیْرِہَا .فَلَمَّا کَانَ فِیْمَا ذَکَرْنَا ، کَالْأَجْنَبِیِّ مِنْہَا ، لَا کَذِیْ رَحِمِہَا الْمَحْرَمِ عَلَیْہَا کَانَ فِی النَّظَرِ اِلٰی شَعْرِہَا أَیْضًا کَالْأَجْنَبِیِّ لَا کَذِیْ رَحِمِہَا الْمَحْرَمِ عَلَیْہَا .فَہٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .وَقَدْ وَافَقَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ ، اَلْحَسَنُ ، وَالشَّعْبِیُّ۔
٧٠٨٠: ابو مجالد نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب بنت جحش سے شادی کی تو لوگوں کو بلایا پس انھوں نے کھانا کھایا پھر باتیں کرنے بیٹھ گئے تو آپ نے اس طرح کا عمل کیا گویا آپ اٹھانا چاہتے ہیں مگر وہ لوگ نہ اٹھے۔ پھر جب آپ نے یہ دیکھا تو آپ اٹھے اور آپ کے ساتھ اٹھنے والے اٹھ گئے مگر ان میں سے تین بیٹھے رہے۔ پھر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور گھر میں داخل ہوئے تو اچانک وہ لوگ بیٹھے تھے پھر وہ اٹھ کر چلے گئے اور میں نے آ کر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ وہ چلے گئے ہیں تو آپ تشریف لائے اور داخل ہوئے تو یہ آیت حجاب اتری۔ ” یا ایہا الذین امنوا لاتدخلوا “ (الاحزاب : ٥٣) امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : امہات المومنین کو اس حجاب سے خاص کیا گیا جس میں دوسرے لوگوں کو ان کی طرح قرار نہیں دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” وقل للمومنات یغضضن من ابصارہن “ (النور : ٣١) پھر فرمایا ” ولا یبدین زینتہن الا ماظہر منہا “ (النور : ٣١) تو اس آیت میں لونڈیوں کو ذی رحم محرم کی طرح قرار دیا گیا۔ لونڈیوں کو اس طرح قرار نہیں دیا جس طرح آپ نے خیال کیا بلکہ مستثنیٰ جماعت کا ذکر کیا جن کو ” ولا یبدین زینتہن “ سے نکالا گیا تو اس میں خاوندوں ‘ باپوں اور اس کے ساتھ جن کو ان کی مثل ذکر کیا اور لونڈی ‘ غلاموں کا تذکرہ کیا تو ان کو جمع کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ ان کے احکام ایک جیسے ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خاوند کو عورت کے وہ مقامات بھی دیکھنے درست ہیں جن کو عورت کا باپ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ پھر فرمایا جو تمہاری ملک ہوں تو ان کو پہلے لوگوں سے ملانا اس دلیل سے نہیں کہ ان کا حکم ان کی طرح ہے بلکہ اس آیت سے غلاموں کے لیے عورتوں کے وہ حصے دیکھنے کی اجازت دی گئی جو زینت میں سے ظاہر میں اور وہ چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں اور اسے غلاموں کے لیے جائز قرار دیا حالانکہ وہ محارم نہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو آزاد لوگ محارم نہیں ان کا بھی یہی حکم ہے اور یہ مفہوم حضرت عبداللہ بن زمعہ (رض) کی روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ” احتجبی منہ “ میں حضرت سودہ (رض) کو آپ نے بیان فرمایا تو آپ نے ان کو ان سے پردہ کرنے کا حکم دیا حالانکہ وہ ان کے باپ کی لونڈی کے بیٹے ہیں اور یہاں دو باتیں ہیں۔ یا تو وہ ان کے بھائی ہیں۔ ! ان کے والد کی لونڈی کے بیٹے ہیں تو اس اعتبار سے ان کے اور ان کے والد کے تمام ورثاء کے مملوک ہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کو ان سے پردہ اس لیے نہیں کروایا کہ وہ ان کے بھائی تھے بلکہ اس لیے کہ وہ ان کے بھائی نہ تھے اور وہ اس حالت میں غلام تھے تو ان کے غلام ہونے کی وجہ سے حضرت سودہ (رض) کو انھیں دیکھنا جائز نہ تھا تو اس طرح یہ روایت حضرت ام سلمہ (رض) والی روایت کی ضد ہے اور جو آیت ہم نے ذکر کی ہے وہ اس شخص کے نزدیک جس نے حضرت سودہ (رض) والی روایت سے استدلال کیا ہے وہ تمام عورتوں سے متلعق ہے صرف امہات المومنین کے ساتھ خاص نہیں اور امہات المومنین کے غلام ان کی طرف دیکھنے کے حکم میں ان رشتہ داروں کی طرح تھے جو ان امہات المومنین کے رشتہ دارو نہیں تھے۔ محارم کے حکم میں نہ تھے اور جن کو امہات المومنین کے ساتھ رشتہ محرمیت حاصل تھا وہ اس ممانعت کے سلسلہ میں ان رشتہ داروں کی طرح ہیں جو ان کے لیے حرام ہیں۔ دونوں اقوال میں سے درست تر قول کو نکالنے کے لیے ہم نے قیاس کی طرف رجوع کیا تو ہم نے دیکھا کہ محارم کے لیے عورت کو دیکھنے کی اجازت ہے محرم چہرہ ‘ سینہ ‘ بال ‘ گھٹنوں سے نیچے حصہ کو دیکھ سکتا ہے اور دیگر اقارب صرف اس کے چہرہ اور ہتھیلیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ پھر ہم نے نظر ڈالی کہ اس پر حرام ہے کہ وہ عورت کے کھلے ہوئے سینے یا پنڈلیوں کی طرف دیکھے خواہ وہ اس عورت کا غلام ہو یا کسی اور کا غلام ہو۔ جب اس بات میں غلام اجنبی کے حکم میں ہے محرم رشتہ دار کی طرح نہیں تو بالوں کے سلسلہ میں بھی قیاس کا یہی تقاضا ہے۔ اور امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٢‘ باب ٩‘ سورة ٣٣‘ باب ٨‘ والاطعمہ باب ٥٩‘ والاستیذان باب ١٠‘ مسلم فی النکاح ٩٨؍٩٣‘ والسلام ١٨‘ ترمذی فی تفسیر سورة ٣٣‘ باب ٢٠‘ مسند احمد ١؍٢٤‘ ١٠٥؍٣‘ ٦؍٢٢٣۔
اقوالِ متقدمین سے تائید :
ان کی موافقت میں حضرت حسن بصری اور شعبی رحمہم اللہ کا قول موجود ہے۔

7084

۷۰۸۱: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ قَالَ : ثَنَا مُغِیْرَۃُ عَنِ الشَّعْبِیِّ وَیُوْنُسُ عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یَنْظُرَ الْعَبْدُ اِلٰی شَعْرِ مَوْلَاتِہٖ۔
٧٠٨١: مغیرہ نے شعبی اور یونس سے انھوں نے حسن بصری (رح) سے روایت کی ہے ان دونوں نے غلام کے متعلق اپنی مالکہ کے بالوں کو دیکھنے کو مکروہ (تحریمی) قرار دیا ہے۔

7085

۷۰۸۲: حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ قَادِمٍ قَالَ : ثَنَا فِطْرٌ عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ عَنْ عَلِیْ قَالَ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنْ وُلِدَ لِی ابْنٌ أُسَمِّیْہِ بِاسْمِکَ، وَأُکَنِّیْہِ بِکُنْیَتِکَ؟ قَالَ نَعَمْ۔قَالَ : وَکَانَتْ رُخْصَۃً مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیْ.قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِأَنْ یُکْتَنَی الرَّجُلُ بِأَبِی الْقَاسِمِ ، وَأَنْ یَتَسَمَّیْ مَعَ ذٰلِکَ بِمُحَمَّدٍ وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِمَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَقَالُوْا : أَمَّا مَا ذُکِرَ مِنْ أَنَّ ذٰلِکَ رُخْصَۃٌ ، فَلَمْ یُذْکَرْ ذٰلِکَ فِی الْحَدِیْثِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلَا ذُکِرَ عَنْ عَلِی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ رُخْصَۃً مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَاِنَّمَا ہُوَ قَوْلٌ مِمَّنْ بَعْدَ عَلِی .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ عَلٰی مَا قَالَ وَیَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ عَلَی خِلَافِ ذٰلِکَ .وَالدَّلِیْلُ عَلٰی أَنَّہٗ خِلَافُ ذٰلِکَ أَنَّہٗ قَدْ کَانَ فِیْ زَمَنِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَاعَۃٌ قَدْ کَانُوْا مُسَمَّیْنَ بِمُحَمَّدٍ مُتَکَنِّیْنَ بِأَبِی الْقَاسِمِ ، مِنْہُمْ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْأَشْعَثِ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ حُذَیْفَۃَ .فَلَوْ کَانَ مَا أَمَرَ بِہٖ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ خَاصًّا ، اِذًا ، لَمَا سَوَّغَہٗ غَیْرُہٗ، وَلَأَنْکَرَہُ عَلٰی فَاعِلِہٖ ، وَأَنْکَرَہٗ مَعَہٗ مَنْ کَانَ بِحَضْرَتِہٖ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .فَقَالَ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلٰی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ خَاصًّا لِعَلِی : قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا قُلْنَا .فَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧٠٨٢: محمد بن حنفیہ نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میرے ہاں بیٹا پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام آپ کے نام پر اور اس کی کنیت آپ کی کنیت پر رکھ لوں۔ آپ نے فرمایا ہاں (اجازت ہے) اور راوی کہتے ہیں کہ یہ اجازت صرف حضرت علی (رض) کے لیے تھی۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں : ایک جماعت کا خیال ہے کہ ابوالقاسم کی کنیت میں کوئی حرج نہیں اور اس کے ساتھ محمد نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ انھوں نے اس روایت کو دلیل بنایا۔ باقی اس روایت میں تخصیص کا قول نہ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے اور نہ حضرت علی (رض) کا ہے بلکہ کسی راوی کا ہے۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ یہ درست ہو اور ممکن ہے کہ درست نہ ہو۔ کنیت و اسم گرامی ہر دو کے جواز کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام کے زمانہ میں ایک جماعت کے یہ نام پائے جاتے ہیں کہ ان کی کنیت و نام دونوں یہی تھے مثلاً محمد بن طلحہ ‘ محمد بن اشعث ‘ محمد بن ابی حذیفہ رحمہم اللہ۔ اگر یہ جناب علی (رض) کی خصوصیت ہوتی تو دوسرے یہ نام نہ رکھتے اور دیگر احباب بھی اس پر تنقید کرتے (مگر کسی سے منقول نہیں) یہ حضرت علی (رض) سے خاص تھی اور اس کی دلیل خود روایت میں وارد ہے (ملاحظہ ہو)
تخریج : ابو داؤد فی الادب باب ٦٨‘ ترمذی فی الادب باب ٦٨‘ مسند احمد ١؍٩٥۔
خلاصہ الزام :
علماء کی ایک جماعت کا قول ابو قاسم کی کنیت اور محمد نام رکھنے میں اب کوئی حرج و قباحت نہیں ہے۔

7086

۷۰۸۳: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ قَالَ : ثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ وَاقِدٍ قَالَ : ثَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِیْفَۃَ عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، عَنْ عَلِیْ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ وُلِدَ لَک بَعْدِی ابْنٌ فَسَمِّہٖ بِاسْمٰی ، وَکَنِّہِ بِکُنْیَتِی ، وَہِیَ لَک خَاصَّۃً دُوْنَ النَّاسِ۔قَالُوْا : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، الْخُصُوْصِیَّۃُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیْ بِذٰلِکَ دُوْنَ النَّاسِ .قِیْلَ لَہُمْ : ہٰذَا کَمَا ذَکَرْتُمْ ، لَوْ ثَبَتَ ہٰذَا الْحَدِیْثُ عَلٰی مَا رَوَیْتُمْ ، وَلٰـکِنَّہٗ لَیْسَ بِثَابِتٍ عِنْدَنَا ، لِأَنَّ أَیُّوْبَ بْنَ وَاقِدٍ لَا یَقُوْمُ مَقَامَ مَنْ خَالَفَہُ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مِمَّنْ رَوَاہٗ عَنْ فِطْرٍ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا فِیْ أَوَّلِ ہٰذَا الْبَابِ .فَقَالَ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلٰی أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ خَاصًّا لِعَلِیْ بَعْدَ أَنِ افْتَرَقُوْا فِرْقَتَیْنِ .فَقَالَتْ فِرْقَۃٌ : لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یَتَکَنَّیْ بِأَبِی الْقَاسِمِ ، سَوَائٌ کَانَ اسْمُہٗ مُحَمَّدًا ، أَوْ لَمْ یَکُنْ .وَقَالَتِ الْفُرْقَۃُ الْأُخْرٰی : لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ مِمَّنْ سُمِّیَ بِمُحَمَّدٍ أَنْ یُکَنّٰی بِأَبِی الْقَاسِمِ ، وَلَا بَأْسَ لِمَنْ لَمْ یَتَسَمَّ بِمُحَمَّدٍ أَنْ یَتَکَنَّیْ بِأَبِی الْقَاسِمِ .وَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا قُلْنَا ، فِیْ خُصُوْصِیَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ عَلِیًّا۔
٧٠٨٣: محمد بن حنفیہ نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میرے بعد تیرے ہاں بیٹا پیدا ہو تو اس کا نام میرے نام پر رکھنا اور اس کی کنیت میری کنیت پر رکھنا یہ تیرے لیے خاص ہے لوگوں کو درست نہیں۔ اس روایت میں حضرت علی (رض) کے لیے اس کی خصوصیت مذکور ہے دوسرے لوگوں کے لیے نہیں۔ اگر یہ روایت پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو بات اسی طرح ہے جیسا تم نے کہی۔ مگر یہ روایت سرے سے ثابت نہیں کیونکہ ایوب بن واقد اس درجے کا راوی نہیں جس درجہ کے راوی فطر ہیں ان کی روایت اس کے خلاف ہے۔ یہ حضرت علی (رض) کے ساتھ خاص تھی اس کے بعد لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں۔ کسی کو آپ کی کنیت اختیار کرنا جائز نہیں خواہ اس کا نام محمد ہو یا نہ ہو۔ جس کا نام محمد ہو اس کی کنیت ابوالقاسم مناسب نہیں البتہ جس کا نام محمد نہ ہو اس کو یہ کنیت درست ہے اور مندرجہ ذیل روایات اس کی دلیل ہیں۔ کہ یہ حضرت علی (رض) کے ساتھ خاص ہے۔

7087

۷۰۸۴: .فَذَکَرُوْا مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیْرٍ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ یَزِیْدَ النَّخَعِیِّ .عَنْ أَبِیْ زُرْعَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ جَرِیْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ تَسَمَّوْا بِاسْمِی ، وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِیْ۔
٧٠٨٤: عمرو بن جرید نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے نام پر نام رکھو مگر میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ٣٨‘ والمناقب باب ٢٠‘ ابو داؤد فی الادب باب ٦٦‘ دارمی فی الاستیذان باب ٥٨‘ مسند احمد ٢‘ ٢٤٨؍٣١٢‘ ٣٩٥؍٤٥٥‘ ٣‘ ١١٤؍١٢١‘ ١٨٩؍٢٩٨۔

7088

۷۰۸۵: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ قَالَ : ثَنَا ہِشَامٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ سَمُّوْا بِاسْمِی۔
٧٠٨٥: محمد بن سیرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے صرف اس لفظ کا فرق ہے ” سمواباسمی “
تخریج : بخاری فی الخمس باب ٧‘ البیوع باب ٤٩‘ المناقب باب ٢٠‘ مسلم فی الادب ١؍٣‘ ٤؍٥‘ ابن ماجہ فی الادب باب ٣٣‘ مسند احمد ٣؍١٧٠‘ ٣٦٩۔

7089

۷۰۸۶: حَدَّثَنَا أَبُو أُمَیَّۃَ قَالَ : ثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : ثَنَا جَرِیْرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧٠٨٦: محمد نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7090

۷۰۸۷: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ بْنُ وَہْبٍ وَابْنُ نَافِعٍ قَالَا : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ قَیْسٍ ح .
٧٠٨٧: یونس ‘ ابن نافع دونوں نے داؤد بن قیس سے۔

7091

۷۰۸۸: وَحَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْجِیزِیُّ قَالَ : ثَنَا الْقَعْنَبِیُّ قَالَ : ثَنَا دَاوٗدَ بْنُ قَیْسٍ عَنْ مُوْسَیْ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ تَسَمَّوْا بِاسْمِیْ، وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِیْ، فَاِنِّیْ أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ۔
٧٠٨٨: موسیٰ بن یسار نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ تم میرے نام پر نام مت رکھو اور نہ میری کنیت پر کنیت رکھو بیشک میں ہی ابوالقاسم ہوں۔
تخریج : مسند احمد ٢‘ ٢٧٠؍٢٧٧‘ ٤٥٥؍٤٥٧‘ ٣‘ ١٨٩؍٢٩٨‘ ٣٠١؍٣٠٣۔

7092

۷۰۸۹: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ اِشْکَابَ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ مُعَاوِیَۃُ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسَمَّوْا بِاسْمِیْ، وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِیْ۔
٧٠٨٩: ابو سفیان نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے نام پر نام رکھو مگر میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔

7093

۷۰۹۰: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُو رَبِیْعَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَوَانَۃَ عَنْ أَبِیْ حُصَیْنٍ عَنْ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧٠٩٠: ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7094

۷۰۹۱: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ وَمَنْصُوْرٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔قَالُوْا : فَقَدْ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُتَکَنَّیْ بِکُنْیَتِہٖ، وَأَبَاحَ أَنْ یُتَسَمّٰی بِاسْمِہٖ، وَجَائَ ذٰلِکَ عَنْہُ مَجِیْئًا ظَاہِرًا مُتَوَاتِرًا ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی خُصُوْصِیَّۃِ مَا خَالَفَہُ .ثُمَّ رَجَعْنَا اِلَی الْکَلَامِ ، بَیْنَ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلٰی مَا کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ الْحَنِیْفَۃِ أَنَّہٗ کَانَ خَاصًّا لِعَلِی .فَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ الْفِرْقَۃِ الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا اِلٰی أَنَّ النَّہْیَ الْمَذْکُوْرَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَجَابِرٍ اِنَّمَا ہُوَ عَلَی الْکُنْیَۃِ خَاصَّۃً ، کَانَ اسْمُ الْمُکْتَنَیْ بِہَا مُحَمَّدًا ، أَوْ لَمْ یَکُنْ ، مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
٧٠٩١: سالم بن ابی الجعد نے حضرت جابر (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کنیت پر کنیت سے منع فرمایا اور نام پر نام کی اجازت دی اور یہ کھلی متواتر روایات سے ثابت ہے۔ پس یہ مخالف روایت ایک خاص بات پر دلالت کرتی ہے۔ اب ہم ابن حنفیہ والی روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں جس سے حضرت علی (رض) کی خصوصیت ثابت ہوتی ہے۔ فریق ثانی کا استدلال یہ ہے کہ وہ ممانعت جو روایت ابوہریرہ (رض) اور جابر (رض) میں مذکور ہے اس کا تعلق صرف کنیت سے ہے خواہ نام محمد ہو یا کچھ اور۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات منقول ہے۔ (ملاحظہ ہو)

7095

۷۰۹۲: حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عَبْدُ الْکَرِیْمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ عَمْرَۃَ عَنْ عَمِّہٖ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنْ یُکْتَنَیْ بِکُنْیَتِہِ۔فَقَصَدَ بِالنَّہْیِ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِلَی الْکُنْیَۃِ خَاصَّۃً ، فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنْ مَا قُصِدَ بِالنَّہٰی اِلَیْہِ فِی الْآثَارِ الَّتِیْ ذٰکَرْنَاہَا قَبْلَہٗ، ہِیَ الْکُنْیَۃُ أَیْضًا .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٧٠٩٢: ابو عمرہ نے اپنے چچا سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا کہ آپ کی کنیت اختیار کی جائے۔ اس روایت میں نہی کا رخ کنیت کی طرف موڑا گیا ہے اس سے یہ دلالت ملی کہ جن آثار میں ممانعت موجود ہے اس سے مراد کنیت کی نفی ہے یہ روایت بھی اس کی دلیل ہے۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٥١٠۔

7096

۷۰۹۳: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِیْھَاعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسَمَّوْا بِاسْمِیْ، وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِیْ، أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ ، اللّٰہُ یُعْطِیْ، وَأَنَا أَقْسِمُ۔
٧٠٩٣: ابن عجلان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے نام پر نام رکھو مگر میری کنیت پر کنیت مت رکھو۔ میں ابوالقاسم ہوں اللہ تعالیٰ دیتے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔
تخریج : مسلم فی الادب ٥‘ مسند احمد ٢؍٤٣٣۔

7097

۷۰۹۴: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حُصَیْنٍ عَنْ سَالِمِ ابْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ غُلَامٌ ، فَسَمَّاہُ مُحَمَّدًا .فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَتِ الْأَنْصَارُ ، تَسَمَّوْا بِاسْمِی ، وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِی ، اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ ، أَقْسِمُ بَیْنَکُمْ ، تَسَمَّوْا بِاسْمِیْ، وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِیْ۔
٧٠٩٤: سالم بن ابی الجعد نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک انصاری کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو انھوں نے اس کا نام محمد رکھا تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے خوب کیا تم میرے نام پر نام رکھو مگر میری کنیت پر کنیت نہ رکھو میں بلاشبہ قاسم ہوں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔ تم میرا نام تو رکھو مگر میری کنیت مت رکھو۔
تخریج : مسند احمد ٢؍٤٣٣‘ ٣؍٣٠١۔

7098

۷۰۹۵: حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا أَسَدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ ابْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسَمَّوْا بِاسْمِیْ وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِیْ فَاِنَّمَا جُعِلْت قَاسِمًا أَقْسِمُ بَیْنَکُمْ۔فَقَدْ أَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ نَہٰی أَنْ یُکْتَنٰی بِکُنْیَتِہٖ، وَاِنَّمَا ہُوَ لِأَنَّہٗ یَقْسِمُ بَیْنَہُمْ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ قَصْدَہٗ، کَانَ فِی النَّہْیِ اِلَی الْکُنْیَۃِ ، دُوْنَ الْجَمْعِ بَیْنَہُمَا وَبَیْنَ الْاِسْمِ .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٧٠٩٥: ابن ابی الجعد نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے نام پر نام رکھو مگر میری کنیت پر کنیت نہ رکھو اللہ تعالیٰ نے مجھے قاسم بنایا ہے میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔ اس روایت میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقصد کی خبر دی ہے جس کی وجہ سے کنیت کی ممانعت ہے کہ آپ علم و رحمت کو تقسیم کرنے والے ہیں پس اس سے ثابت ہوا کہ آپ کا مقصود صرف کنیت سے منع کرنا ہے اس کی ممانعت نہیں کہ آپ کے نام و کنیت یا نام کو جمع کی ممانعت نہیں ہے۔ مندرجہ ذیل روایات اس کی دلیل ہیں۔
تخریج : بخاری فی العلم باب ١٣‘ الادب باب ١٠٩‘ مسلم فی الادب ٣؍٤‘ مسند احمد ٣؍٣٦٩‘ ٣٠٣؍٣١٣۔
دونوں کے جمع کی عدم ممانعت کے دلائل :

7099

۷۰۹۶: بِمَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَنِیِّ بْنُ أَبِیْ عَقِیْلٍ وَحُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَا : ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ زِیَادٍ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیْلِ قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السُّوْقِ فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ یَا أَبَا الْقَاسِمِ .فَالْتَفَتَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ یَعْنِی : الرَّجُلَ اِنَّمَا أَدْعُو ذَاکَ .فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَسَمَّوْا بِاسْمِی ، وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِی۔
٧٠٩٦: حمید طویل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) کو کہتے سنا کہ آپ بازار میں تھے ایک آدمی نے آواز دی اے ابوالقاسم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس آدمی نے کہا میں نے اس آدمی کو آواز دی ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میرا نام تو رکھو مگر میری کنیت اختیار مت کرو۔
تخریج : بخاری فی البیوع باب ٤٩‘ والمناقب باب ٢٠۔

7100

۷۰۹۷: حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧٠٩٧: حمید نے حضرت انس (رض) سے انھوں نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7101

۷۰۹۸: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیُّ قَالَ : ثَنَا حُمَیْدٌ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔فَہٰذَا یَدُلُّ أَیْضًا عَلٰی أَنَّ نَہْیَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّمَا ہُوَ عَنِ التَّکَنِّیْ بِکُنْیَتِہِ خَاصَّۃً ، دُوْنَ الْجَمْعِ بَیْنَہَا وَبَیْنَ اسْمِہٖ۔ وَقَدْ ذَہَبَ اِلٰی ھٰذَا الْمَذْہَبِ، اِبْرَاھِیْمُ النَّخَعِیُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سِیْرِیْنَ .
٧٠٩٨: حمید نے حضرت انس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ آپ نے فقط کنیت سے ممانعت فرمائی دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت نہیں فرمائی۔ یہ ابراہیم نخعی اور ابن سیرین رحمہم اللہ کا قول ہے۔

7102

۷۰۹۹: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا وَکِیْعُ بْنُ الْجَرَّاحِ عَنْ مُحِل قَالَ : قُلْتُ لِاِبْرَاھِیْمَ ، کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ أَنْ یُکَنَّی الرَّجُلُ بِأَبِی الْقَاسِمِ ، اِنْ لَمْ یَکُنِ اسْمُہٗ مُحَمَّدًا ؟ قَالَ : نَعَمْ .فَہٰذَا اِبْرَاھِیْمُ یَحْکِیْ ہٰذَا أَیْضًا ، عَمَّنْ کَانَ قَبْلَہٗ، یُرِیْدُ بِذٰلِکَ : أَصْحَابَ عَبْدِ اللّٰہِ أَوْ مَنْ فَوِْقِہٖ.
٧٠٩٩: محل کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے کہا لوگ ابوالقاسم کنیت اختیار کرنا مکروہ قرار دیتے تھے خواہ اس کا نام محمد ہو یا نہ ہو۔ انھوں نے کہا۔ جی ہاں۔ یہ ابراہیم (رح) اپنے سے پہلے لوگوں سے بیان کر رہے ہیں خواہ وہ اصحاب عبداللہ ہوں یا ان سے اوپر ہوں۔

7103

۷۱۰۰: وَقَدْ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبٍ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ تَسَمَّوْا بِاسْمٰی ، وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِیْ۔ قَالَ : وَرَأَیْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِیْرِیْنَ یَکْرَہُ أَنْ یُکْتَنَی الرَّجُلُ أَبَا الْقَاسِمِ ، کَانَ اسْمُہٗ مُحَمَّدًا أَوْ لَمْ یَکُنْ .وَکَانَ مِنْ حُجَّۃِ مَنْ ذَہَبَ اِلٰی أَنَّ النَّہْیَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا ، ہُوَ الْجَمْعُ بَیْنَ الْکُنْیَۃِ وَالْاِسْمِ جَمِیْعًا۔
٧١٠٠: محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا نام رکھو مگر میری کنیت مت اختیار کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن سیرین کو دیکھا وہ ابوالقاسم کنیت اختیار کرنے کو مکروہ قرار دیتے تھے خواہ اس کا نام محمد ہو یا نہ ہو۔
کنیت و اسم گرامی کو جمع کی ممانعت :

7104

۷۱۰۱: مَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْعَزِیْزِ بْنُ الْخَطَّابِ الْکُوْفِیُّ قَالَ : ثَنَا قَیْسٌ عَنْ أَبِیْ لَیْلٰی عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَمِّہَا ، الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَہَی أَنْ یُجْمَعَ بَیْنَ اسْمِہٖ وَکُنْیَتِہٖ۔
٧١٠١: حفصہ بنت عبید نے اپنے چچا براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نام اور کنیت دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔
تخریج : ترمذی فی الادب باب ٦٨‘ مسند احمد ٢؍٤٣٣‘ ٣؍٤٥‘ ٥؍٣٦٤‘ باختلاف یسیر من اللفظ۔

7105

۷۱۰۲: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : ثَنَا یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ قَالَ : حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ أَبِیْہَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ۔
٧١٠٢: عجلان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

7106

۷۱۰۳: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ ، قَالَ : ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْأَزْدِیُّ قَالَ : ثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : ثَنَا أَبُو الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَسَمّٰی بِاسْمٰی ، فَلَا یَکْتَنِ بِکُنْیَتِیْ، وَمَنِ اکْتَنٰی بِکُنْیَتِیْ، فَلَا یَتَسَمَّ بِاسْمِیْ۔ قَالُوْا : فَثَبَتَ بِہٰذِہِ الْآثَارِ أَنَّ مَا نَہٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ ہُوَ الْجَمْعُ بَیْنَ کُنْیَتِہٖ مَعَ اسْمِہٖ۔ وَفِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ اِبَاحَۃُ التَّکَنِّیْ بِکُنْیَتِہٖ، اِذَا لَمْ یَتَسَمَّ مَعَہَا بِاسْمِہٖ۔ فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُخْرٰی أَنَّہٗ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَصَدَ بِنَہْیِہٖ ذٰلِکَ الْمَذْکُوْرِ فِیْ حَدِیْثِ الْبَرَائِ وَأَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَجَابِرٍ اِلَی الْجَمْعِ بَیْنَ الْکُنْیَۃِ وَالْاِسْمِ ، وَأَبَاحَ اِفْرَادَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا ، ثُمَّ نَہٰی بَعْدَ ذٰلِکَ عَنِ التَّکَنِّیْ بِکُنْیَتِہٖ، فَکَانَ ذٰلِکَ زِیَادَۃً فِیْمَا کَانَ تَقَدَّمَ مِنْ نَہْیِہِ فِیْ ذٰلِکَ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا جُعِلَ مَا قُلْت ، أَوْلٰی مِنْ أَنْ یَکُوْنَ نَہٰی عَنِ التَّکَنِّیْ بِکُنْیَتِہٖ، ثُمَّ نَہٰی عَنِ الْجَمْعِ بَیْنَ اسْمِہٖ وَکُنْیَتِہٖ، وَکَانَ ذٰلِکَ اِبَاحَۃً لِبَعْضِ مَا کَانَ وَقَعَ عَلَیْہِ نَہْیُہُ قَبْلَ ذٰلِکَ ؟ .قِیْلَ لَہٗ لِأَنَّ نَہْیَہُ عَنِ التَّکَنِّیْ بِکُنْیَتِہِ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ فِیْمَا ذَکَرْنَا مَعَہُ مِنَ الْآثَارِ ، لَا یَخْلُو مِنْ أَحَدِ وَجْہَیْنِ .اِمَّا أَنْ یَکُوْنَ مُتَقَدِّمًا لِلْمَقْصُوْدِ فِیْہِ اِلَی الْجَمْعِ بَیْنَ الْاِسْمِ وَالْکُنْیَۃِ أَوْ مُتَأَخِّرًا عَنْ ذٰلِکَ .فَاِنْ کَانَ مُتَأَخِّرًا عَنْہُ، فَہُوَ زَائِدٌ عَلَیْہٖ، غَیْرُ نَاسِخٍ لَہٗ، وَاِنْ کَانَ مُتَقَدِّمًا لَہٗ، فَقَدْ کَانَ ثَابِتًا، ثُمَّ رُوِیَ ہٰذَا بَعْدَہٗ، فَنَسَخَہُ .فَلَمَّا احْتَمَلَ مَا قُصِدَ فِیْہِ اِلَی النَّہْیِ عَنِ الْکُنْیَۃِ أَنْ یَکُوْنَ مَنْسُوْخًا ، بَعْدَ عِلْمِنَا بِثُبُوْتِہِ کَانَ عِنْدَنَا عَلٰی أَصْلِہِ الْمُتَقَدِّمِ ، وَعَلٰی أَنَّہٗ غَیْرُ مَنْسُوْخٍ ، حَتّٰی نَعْلَمَ یَقِینًا أَنَّہٗ مَنْسُوْخٌ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ ، مِنْ طَرِیْقِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَأَمَّا وَجْہُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَقَدْ رَأَیْنَا الْمَلَائِکَۃَ ، لَا بَأْسَ أَنْ یَتَسَمَّوْا بِأَسْمَائِہِمْ ، وَکَذٰلِکَ سَائِرُ أَنْبِیَائِ اللّٰہِ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ ، غَیْرِ نَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَا بَأْسَ أَنْ یُتَسَمّٰی بِأَسْمَائِہِمْ ، وَیُکْنٰی بِکُنَاہُمْ ، وَیُجْمَعَ بَیْنَ اسْمِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ وَکُنْیَتِہٖ۔ فَہٰذَا نَبِیُّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَا بَأْسَ أَنْ یُتَسَمَّیْ بِاسْمِہٖ۔ فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ یُتَکَنّٰی بِکُنْیَتِہٖ، وَأَنْ لَا بَأْسَ أَنْ یُجْمَعَ بَیْنَ اسْمِہٖ وَکُنْیَتِہٖ۔ فَہٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، غَیْرَ أَنَّ اتِّبَاعَ مَا قَدْ ثَبَتَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَوْلٰی .فَقَدْ رُوِیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٧١٠٣: ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو میرے نام پر نام رکھے وہ میری کنیت نہ اختیار کرے اور جو میری کنیت کو اختیار کرے وہ میرا نام نہ رکھے۔ ان آثار سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنیت اور نام دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت فرمائی اور حضرت جابر (رض) کی روایت میں جب نام نہ رکھا ہو تو کنیت کا جواز ثابت ہوتا ہے فریق ثانی نے جن روایات سے استدلال کیا ہے جیسا کہ حضرت برائ (رض) ابوہریرہ (رض) اور حضرت جابر (رض) کی روایات ہیں تو ان میں عین ممکن ہے کہ کنیت اور نام کو جمع کرنے کی ممانعت ہو اور ہر ایک کا الگ الگ رکھنا مباح قرار دیا ہو پھر اس سے بھی روک دیا تو گویا کہ سابقہ نہی پر اضافہ ہوا۔ جو بات آپ نے کہی ہے اس سے بہتر یہ ہے کہ پہلے کنیت کی ممانعت ہو اور پھر نام اور کنیت دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت کردی ہو تو اس سے وہ بعض چیز تو مباح ہوجائے گی جس پر اس سے پہلے نہی وارد ہوئی تھی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں جو کنیت کی ممانعت وارد ہے وہ دو حال سے خالی نہیں : یا تو وہ نام اور کنیت کو جمع کے مقصود ہونے پہلے ہوگی۔ ! یا اس کے بعد اگر وہ ممانعت موخر ہے تو وہ اضافہ بنے گا اس کے لیے ناسخ نہ بنے گی اور اگر اس سے مقدم ہے تو وہ پہلے ثابت تھی اب اس کے بعد یہ روایت آئی تو اس نے اس کو منسوخ کردیا جب کنیت سے ممانعت کے مقصود میں احتمال پیدا ہوگیا اس کے بعد کہ ہم نے اس کے ثبوت کو جان لیا تو ہمارے نزدیک یہ اپنے مقدم اصل پر باقی رہے گی منسوخ نہ ہوگی جب تک یقین کے ساتھ اس کا نسخ معلوم نہ ہو اس باب کے معانی کو سامنے رکھتے ہوئے اس باب کا یہی مطلب ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فرشتوں کے اسماء سے کنیت رکھنا جائز ہے اس طرح دیگر تمام انبیاء (علیہم السلام) سوائے ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان کے نام پر نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں اور اسی طرح ان کی کنیت بھی اسی طرح ہر ایک کا اسم گرامی اور اس کی کنیت کو جمع کیا جاسکتا ہے یہ ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ آپ کے نام پر نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں نظر کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی کنیت رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں اور نام اور کنیت دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی اتباع اولیٰ ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں روایت وارد ہے۔
تخریج : ابو داؤد فی الادب باب ٦٧‘ مسند احمد ٢؍٣١٢‘ ٤٥٥۔

7107

۷۱۰۴: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ : وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلَامٌ ، فَسَمَّاہُ الْقَاسِمَ فَقَالَ : لَا نُکَنِّیک أَبَا الْقَاسِمِ ، وَلَا نُنَعِّمُک عَیْنًا .فَأَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَذُکِرَ ذٰلِکَ لَہٗ فَقَلْتَ سَمِّ ابْنَکَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ ۔ فَہٰذِہِ الْأَنْصَارُ قَدْ أَنْکَرَتْ عَلٰی ھٰذَا الرَّجُلِ أَنْ یُسَمِّیَ ابْنَہُ الْقَاسِمَ ، لِئَلَّا یُکْتَنٰی بِہٖ ، وَقَصَدُوْا بِالْکَرَاہَۃِ فِیْ ذٰلِکَ اِلَی الْکُنْیَۃِ خَاصَّۃً .ثُمَّ لَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ ، رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَمَّا بَلَغَہُ .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ نَہْیَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّکَنِّیْ بِکُنْیَتِہٖ، یَتَسَمّٰی مَعَ ذٰلِکَ بِاسْمِہٖ، وَلَمْ یَتَسَمَّ بِہٖ .فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَا یَدُلُّ عَلٰی کَرَاہَۃِ التَّسَمِّیْ بِالْقَاسِمِ .قِیْلَ لَہٗ : قَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ مَکْرُوْہًا ، کَمَا ذَکَرْت ، لِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ بَیْنَکُمْ۔وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ کَرِہَ ذٰلِکَ لِأَنَّہُمْ کَانُوْا یُکَنُّوْنَ الْآبَائَ بِأَسْمَائِ الْأَبْنَائِ ، وَقَدْ کَانَ أَکْثَرُہُمْ لَا یُکْتَنَیْ حَتّٰی یُوْلَدَ لَہٗ، فَیُکْتَنَیْ بِاسْمِ ابْنِہٖ۔ وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ۔
٧١٠٤: ابن منکدر نے حضرت جابر (رض) سے نقل کیا ہمارے ایک انصاری کے ہاں لڑکا ہوا۔ تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا میں نے اس سے کہا ہم تمہیں ابوالقاسم کنیت نہ رکھنے دیں گے اور وہ نہ آنکھوں دیکھے تمہیں فوقیت دیں گے وہ شخص جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ بات ذکر کی تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمن رکھو۔ ملاحظہ فرمائیں کہ انصار نے اس آدمی کے قاسم نام رکھنے پر اعتراض کیا تاکہ اس کی کنیت ابوالقاسم نہ ہو اور ان کا مقصود بھی یہی تھا کہ آپ کی کنیت وہ اختیار نہ کرے پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بات پہنچی تو آپ نے ان کی اس بات پر اعتراض نہ کیا اس سے یہ دلالت مل گئی کہ آپ کی طرف سے ممانعت کنیت کے ساتھ خاص تھی خواہ وہ آپ کے نام پر نام رکھا ہو یا نہ رکھا ہو۔ یہ روایت تو قاسم نام رکھنے کی کراہت کو ظاہر کر رہی ہے (آپ کا مدعا ثابت نہیں کرتی) : یہ ممکن ہے کہ نام رکھنا بھی اسی طرح مکروہ ہو جیسا کہ تم نے ذکر کیا کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں قاسم ہوں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ناپسند کرنے کی وجہ ی ہو کہ وہ لوگ بیٹوں کے نام پر کنیت اختیار کرتے تھے اور ان میں سے اکثریت بچے کے پیدا ہونے تک کنیت کو اختیار نہ کرتے جب وہ پیدا ہوجاتا تو پھر بیٹے کے نام کی مناسبت سے کنیت رکھتے تھے۔ اس کی دلیل یہ حمزہ بن صہیب والی روایت ہے۔
تخریج : بخاری فی الادب باب ١٠٥؍١٠٤‘ مسلم فی الادب ٧۔

7108

۷۱۰۵: مَا حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍوْ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ صُہَیْبٍ عَنْ أَبِیْہَ صُہَیْبٍ قَالَ : قَالَ لِیْ عُمَرُ نِعْمَ الرَّجُلُ أَنْتَ یَا صُہَیْبُ لَوْلَا خِصَالٌ فِیْکَ ثَلَاثٌ .قُلْتُ : وَمَا ہِیَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ؟ قَالَ : تَکَنَّیْتُ وَلَمْ یُوْلَدْ لَکَ، وَفِیْکَ سَرَفٌ فِی الطَّعَامِ ، وَانْتَمَیْتُ اِلَی الْعَرَبِ ، وَلَسْتُ مِنْہُمْ .قُلْتُ : أَمَّا قَوْلُکَ تَکَنَّیْتُ وَلَمْ یُوْلَدْ لَک فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَنَّانِیْ أَبَا یَحْیَی .وَأَمَّا قَوْلُک انْتَمَیْتُ اِلَی الْعَرَبِ وَلَسْتُ مِنْہُمْ فَاِنِّیْ رَجُلٌ مِنْ بَنِی النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ ، سَبَتْنَا الرُّوْمُ مِنَ الطَّائِفِ ، بَعْدَمَا عَقَلْتُ أَہْلِیْ وَنَسَبِی .وَأَمَّا قَوْلُک فِیْکَ سَرَفٌ فِی الطَّعَامِ فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ خِیَارُکُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ فَہٰذَا عُمَرُ قَدْ أَنْکَرَ عَلَی صُہَیْبٍ أَنْ یَتَکَنَّیْ قَبْلَ أَنْ یُوْلَدَ لَہٗ، فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ ، أَوْ أَکْثَرَہُمْ ، کَانُوْا لَا یَتَکَنَّوْنَ ، حَتّٰی یُوْلَدَ لَہُمْ ، فَیَکْتَنُوْنَ بِأَبْنَائِہِمْ .فَلَمَّا وُلِدَ لِذٰلِکَ الْأَنْصَارِیِّ ابْنٌ ، فَسَمَّی الْقَاسِمَ ، أَنْکَرَتِ الْأَنْصَارُ ذٰلِکَ عَلَیْہٖ، لِأَنَّہٗ اِنَّمَا سَمّٰی بِہٖ ، لِیُکْنٰی بِہٖ فَأَبَوْا ذٰلِکَ وَأَنْکَرُوْھُ عَلَیْہٖ، فَأَثْنَیْ عَلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لِذٰلِکَ .وَقَدْ دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا۔
٧١٠٥: حمزہ بن صہیب نے اپنے والد صہیب سے روایت کی ہے کہ مجھے حضرت عمر (رض) کہنے لگے۔ اے صہیب تو آدمی تو خوب ہے اگر تجھ میں یہ تین باتیں نہ ہوتیں میں نے کہا۔ اے امیرالمومنین وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا :
آپ نے ولادت ولد سے پہلے اپنی کنیت رکھ لی۔ ! تم کھانے میں اسراف کرتے ہو۔ " تم اپنی نسبت عرب کی طرف کرتے ہو حالانکہ تم عرب نہیں ہو۔ حضرت صہیب کہتے ہیں میں نے کہا آپ کا یہ قول کہ لڑکا پیدا ہونے کے بغیر کنیت رکھ لی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری کنیت ابو یحییٰ رکھی۔ رہی دوسری بات کہ میں نے اپنی نسبت عرب کی طرف کی ہے حالانکہ میں ان میں سے نہیں ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں بنی نمر بن قاسط کا فرد ہوں میں اس وقت اپنے خاندان و نسب کی پہچان کرنے لگا تھا کہ طائف سے رومیوں نے ہمیں قیدی بنا لیا۔ " رہی تمہاری تیسری بات کہ تم کھانے میں اسراف کرتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے تم میں سے بہتر وہ ہیں جو دوسروں کو کھانا کھلائیں۔ یہ حضرت عمر (رض) ہیں جو صہیب (رض) کے متعلق اس بات کا انکار کر رہے ہیں کہ وہ بیٹا پیدا ہونے سے پہلے اپنی کنیت اختیار کریں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ تمام یا ان کی اکثریت اس وقت تک کنیت اختیار نہ کرتی جب تک کہ ان کے ہاں اولاد نہ ہوتی پھر وہ اپنے بیٹوں سے کنیت اختیار کرتے۔ پھر جب اس انصاری کے بیٹا پیدا ہوا اور اس نے اس کا نام قاسم رکھا تو انصار نے ان کی اس بات کو ناپسند کیا کیونکہ اس کے نام رکھنے کا مقصود کنیت اختیار کرنا تھا اس لیے انھوں نے اس پر اعتراض کیا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس عمل کی تعریف فرمائی اور یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے۔
تخریج : مسند احمد ٦؍١٦۔

7109

۷۱۰۶: مَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ ثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ الْمَکِّیَّ أَخْبَرَہٗ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ : وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلَامٌ ، فَسَمَّاہُ الْقَاسِمَ وَتَکَنَّیْ بِہٖ ، فَأَبَتِ الْأَنْصَارُ أَنْ تُکَنِّیَہٗ بِذٰلِکَ .فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحْسَنَتِ الْأَنْصَارُ ، تَسَمَّوْا بِاسْمِی ، وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْیَتِی۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَا قَدْ دَلَّ عَلٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّمَا حَوَّلَ اسْمَ ذٰلِکَ الصَّبِیِّ ، لِأَنَّ أَبَاہُ تَکَنَّیْ بِہٖ ، فَحَوَّلَہٗ اِلَی اسْمٍ یَجُوْزُ لِأَبِیْہَ التَّکَنِّیْ بِہٖ .وَفِیْہِ مَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ النَّہْیَ ، اِنَّمَا قُصِدَ بِہٖ اِلَی الْکُنْیَۃِ خَاصَّۃً ، لَا اِلَی الْجَمْعِ بَیْنَہَا وَبَیْنَ الْاِسْمِ ، وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ .
٧١٠٦: ابوالزبیر مکی نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے ہمارے انصار میں ایک آدمی کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا تو انصار (رض) نے اس کا انکار کیا کہ وہ اس نام سے کنیت اپنائے اور یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ نے فرمایا انصار نے خوب کیا ہے پس تم میرے نام پر نام تو رکھ سکتے ہو مگر میری کنیت اختیار مت کرو۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچے کا نام اس لیے بدل دیا کیونکہ اس کے باپ نے اس کے ساتھ کنیت اختیار کرنا تھی (جو کہ ناجائز میں داخل ہوجاتی تھی) پس آپ نے اس کا ایسا نام رکھ دیا کہ اس کے والد کو کنیت رکھنا درست و جائز ہوجائے اس میں اس بات کی دلالت بھی ملتی ہے کہ آپ کی ممانعت میں صرف کنیت کا قصد تھا کنیت اور نام کو جمع کرنے کا قصد نہ تھا۔

7110

۷۱۰۷: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ رُوْمِیْ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ قَالَ : ثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِیْہِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَالْیَہُوْدِ ، وَالْمُشْرِکِیْنَ مِنْ عَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ۔قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّہٗ لَا بَأْسَ أَنْ یُبْتَدَأَ أَہْلُ الْکُفْرِ بِالسَّلَامِ ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ .وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَکَرِہُوْا أَنْ یَبْتَدِئُوْا بِالسَّلَامِ ، وَقَالُوْا لَا بَأْسَ بِأَنْ یُرَدَّ عَلَیْہِمْ اِذَا سَلَّمُوْا .وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧١٠٧: عروہ نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت کیا ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایسی مجلس کے پاس سے ہوا جہاں یہودی ‘ مسلمان اور مشرک ملے جلے بیٹھے تھے تو آپ نے ان کو السلام علیکم کہا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں : اس طرف بعض لوگ گئے ہیں کہ اہل کفر کو ابتداء سلام میں کوئی حرج نہیں۔ اور انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ فریق ثانی کا مؤقف : ابتداء سلام مکروہ ہے البتہ سلام کا جواب دینے میں حرج نہیں۔ ان کی دلیل یہ روایات ہیں۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٣‘ باب ١٥‘ المرضیٰ باب ١٥‘ والاستیذان باب ٢٠‘ والادب باب ١١٥‘ و مسلم فی الجہاد ١١٦‘ مسند احمد ٥؍٢٠٣۔
خلاصہ الزام :
کفار کو سلام میں ابتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں اس قول کو بعض لوگوں نے اختیار کیا۔
فریق ثانی کا مؤقف : سلام میں ابتداء مکروہ ہے ان کے سلام کرنے پر فقط وعلیکم سے جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

7111

۷۱۰۸: بِمَا حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ : ثَنَا شَرِیْکٌ وَأَبُوْبَکْرٍ یَعْنِی ابْنَ عَیَّاشٍ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَبْدَئُوْھُمْ بِالسَّلَامِ یَعْنِی : الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی ۔
٧١٠٨: سہیل بن ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہود و نصاریٰ کو سلام میں ابتداء مت کرو۔
تخریج : مسلم فی السلام ١٤‘ ابو داؤد فی الادب باب ١٣٨‘ ترمذی فی الاستیذان باب ١٢‘ ابن ماجہ فی الادب باب ١٣‘ مسند احمد ٢؍٢١٣‘ ٤٥٩‘ ٤؍٢٣٣‘ ٦؍٣٩٨۔

7112

۷۱۰۹: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ حُذَیْفَۃَ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ سُہَیْلٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧١٠٩: سفیان نے سہیل سے روایت کی انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

7113

۷۱۱۰: حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ قَالَ : ثَنَا وَہْبٌ ، قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧١١٠: وہب نے شعبہ سے پھر اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7114

۷۱۱۱: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ یَحْیٰی بْنُ أَیُّوْبَ عَنْ سُہَیْلٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔
٧١١١: یحییٰ بن ایوب نے سہیل سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت کی ہے۔

7115

۷۱۱۲: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا عَیَّاشٌ الرَّقَّامُ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْأَعْلٰی قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْیَزَنِیِّ عَنْ أَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْجُہَنِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَا رَاکِبٌ غَدًا اِلٰی یَہُوْدَ ، فَلَا تَبْدَئُوْھُمْ ، فَاِذَا سَلَّمُوْا عَلَیْکُمْ ، فَقُوْلُوْا : وَعَلَیْکُمْ۔
٧١١٢: مرثد بن عبداللہ یزنی نے ابو عبدالرحمن جہنی (رض) سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل میں یہود کے ہاں سوار ہو کر جاؤں گا پس تم ان سے سلام میں ابتداء نہ کرنا۔ پھر اگر وہ تمہیں سلام کہیں تو تم صرف وعلیکم کہو۔
تخریج : بخاری فی الاستیذان باب ٢٢‘ والمرتدین باب ٤‘ مسلم فی السلام ٩؍٨٧‘ مالک فی السلام ٣‘ دارمی فی الاستیذان باب ٧‘ مسند احمد ٢؍٩‘ ٣؍٩٩۔

7116

۷۱۱۳: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ : ثَنَا یُوْسُفُ بْنُ عَدِیْ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الرَّحِیْمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔، غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ فَلَا تَبْدَئُوْھُمْ بِالسَّلَامِ۔
٧١١٣: عبدالرحیم نے محمد بن اسحاق سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ انھوں نے اس طرح کہا ” فلا تبدؤوہم بالسلام “ ان کو سلام میں ابتداء مت کرو۔

7117

۷۱۱۴: حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ : ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْیَزَنِیِّ عَنْ أَبِیْ نَضْرَۃَ الْغِفَارِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَقُلْ بِالسَّلَامِ۔
٧١١٤: مرثد بن عبداللہ یزنی نے ابو نضرہ غفاری (رض) سے انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ البتہ بالسلام کا لفظ ذکر نہیں کیا۔

7118

۷۱۱۵: حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : ثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیْعَۃَ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ أَبِیْ حَبِیْبٍ عَنْ أَبِی الْخَیْرِ أَنَّہٗ سَمِعَ أَبَا نَضْرَۃَ الْغِفَارِیَّ یَقُوْلُ : اِنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنِّیْ رَاکِبٌ اِلٰی یَہُوْدَ ، فَاِذَا أَتَیْتُمُوْھُمْ ، فَسَلَّمُوْا عَلَیْکُمْ ، فَقُوْلُوْا : وَعَلَیْکُمْ۔
٧١١٥: ابوالخیر نے حضرت ابو نضرہ غفاری (رض) کو فرماتے سنا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں یہود کے ہاں سوار ہو کر جاؤں گا جب تم ان کے ہاں پہنچو اور وہ تمہیں سلام کریں تو تم جواب میں وعلیکم کہو۔

7119

۷۱۱۶: حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرَۃَ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ یَزِیْدُ بْنُ أَبِیْ حَبِیْبٍ فَذَکَرَ بِاِسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ۔فَفِیْ ہٰذِہِ الْآثَارِ، النَّہْیُ عَنْ اِبْتِدَائِ الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی بِالسَّلَامِ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَفِی الْحَدِیْثِ الْأَوَّلِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَلَّمَ عَلَیْہِمْ فِیْ قَوْلِ أُسَامَۃَ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِسَلَامِہٖ، مَنْ کَانَ فِیْہِمْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَلَمْ یُرِدْ الْیَہُوْدَ ، وَلَا النَّصَارٰی ، وَلَا عَبَدَۃَ الْأَوْثَانِ ، حَتّٰیْ لَا تَتَضَادَّ ہٰذِہِ الْآثَارُ ، وَہٰذَا الَّذِیْ وَصَفْنَا جَائِزٌ .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یُسَلِّمَ رَجُلٌ عَلٰی جَمَاعَۃٍ وَہُوَ یُرِیْدُ بَعْضَہُمْ ، وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، سَلَّمَ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ لِأَنَّ ذٰلِکَ کَانَ فِیْ وَقْتٍ قَدْ أُمِرَ فِیْہِ أَنْ لَا یُجَادِلَہُمْ اِلَّا بِاَلَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ ، فَکَانَ السَّلَامُ مِنْ ذٰلِکَ ثُمَّ أُمِرَ بِقِتَالِہِمْ وَمُنَابَذَتِہِمْ ، فَنَسَخَ ذٰلِکَ مَا کَانَ تَقَدَّمَ مِنْ سَلَامِہٖ عَلَیْہِمْ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ۔
٧١١٦: عبدالحمید بن جعفر نے یزید بن ابی حبیب سے پھر انھوں نے اپنی اسناد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ان آثار میں یہود و نصاریٰ کو سلام میں ابتداء کرنے سے ممانعت پائی جاتی ہے اور روایت اول میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بقول اسامہ یہود کو سلام کیا۔ ان روایات میں یہ احتمالات ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سلام سے ان لوگوں کا ارادہ فرمایا ہو جو وہاں مسلمان موجود تھے اور مشرکین یہود و نصاریٰ کا ارادہ ہی نہ فرمایا ہو۔ تاکہ ان آثار میں باہمی تضاد نہ رہے اور تاویل بھی درست ہوجائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آدمی پوری جماعت کو سلام کرے اور مراد بعض ہوں۔ ممکن ہے کہ آپ نے سب کو سلام کیا ہو۔ کیونکہ اس وقت تک ان سے احسن طریق سے ان کے ساتھ مجادلہ کا حکم تھا قتال اور علیحدگی کا حکم بعد میں وارد ہوا۔ اس سے آپ کے سلام والی روایات منسوخ ہوگئیں۔
ایک احتمال کی تعیین :

7120

۷۱۱۷: فَاِذَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَدْ حَدَّثَنَا قَالَ : ثَنَا أَبُو الْیَمَانِ قَالَ : ثَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِیْ حَمْزَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : أَخْبَرَنِیْ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ أَخْبَرَہٗ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکِبَ عَلٰی حِمَارٍ ، عَلَیْہِ اِکَافٌ عَلَی قَطِیْفَۃٍ ، وَأَرْدَفَ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ وَرَائَ ہٗ، یَعُوْدُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فِیْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ خَزْرَجَ ، قَبْلَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ .فَسَارَ ، حَتّٰی مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیِ ابْنُ سَلُوْلَ فِیْ ذٰلِکَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَی ابْنُ سَلُوْلَ فَاِذَا فِی الْمَجْلِسِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُشْرِکِیْنَ ، وَعَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ ، وَالْیَہُوْدِ ، وَفِی الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ .فَلَمَّا غَشِیَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَۃُ الدَّابَّۃِ ، خَمَّرَ ابْنُ أُبَی ابْنُ سَلُوْلَ أَنْفَہٗ بِرِدَائِہٖ ثُمَّ قَالَ : لَا تَعْبُرُوْا عَلَیْنَا .فَسَلَّمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ ، ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ ، فَدَعَاہُمْ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَقَرَأَ عَلَیْہِمُ الْقُرْآنَ .قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیِّ ابْنُ سَلُوْلَ : أَیُّہَا الْمَرْئُ ، اِنَّہٗ لَحَسَنٌ مَا تَقُوْلُ ، اِنْ کَانَ حَقًّا ، فَلَا تُؤْذِیْنَا بِہٖ فِیْ مَجَالِسِنَا ، ارْجِعْ اِلٰی رَحْلِکَ، فَمَنْ جَائَ ک فَاقْصُصْ عَلَیْہِ .فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ : بَلْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَاغْشَنَا بِہٖ فِیْ مَجَالِسِنَا ، فَاِنَّا نُحِبُّ ذٰلِکَ .فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُوْنَ وَالْمُشْرِکُوْنَ وَالْیَہُوْدُ ، حَتّٰی کَادُوْا یَتَبَارَزُوْنَ ، فَلَمْ یَزَلْ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْفِضُہُمْ ، حَتّٰی سَکَنُوْا ثُمَّ رَکِبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَابَّتَہٗ، فَسَارَ حَتّٰی دَخَلَ عَلٰی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ اِلٰی مَا یَقُوْلُ أَبُوْ حُبَابٍ ؟ یَعْنِی ابْنَ أُبَی ابْنَ سَلُوْلَ قَالَ کَذَا وَکَذَا قَالَ سَعْدُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اُعْفُ عَنْہُ وَاصْفَحْ ، فَوَالَّذِیْ نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ ، لَقَدْ جَائَ ک اللّٰہُ بِالْحَقِّ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیْکَ وَلَقَدْ اصْطَلَحَ أَہْلُ ہٰذِہِ الْبُحَیْرَۃِ عَلٰی أَنْ یُتَوِّجُوْھُ فَیَعْصِبُوْھُ بِالْعِصَابَۃِ ، فَلَمَّا رَدَّ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذٰلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِی أَعْطَاکَ، شَرَّقَ بِذٰلِکَ فَذٰلِکَ فَعَلَ مَا رَأَیْتُ ، فَعَفَا عَنْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہٗ، یَعْفُوْنَ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ ، وَأَہْلِ الْکِتَابِ ، وَیَصْبِرُوْنَ عَلَی الْأَذَی ، حَتّٰی ْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنْ الَّذِیْنَ أُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنْ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا أَذًیْ کَثِیْرًا وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِ .وَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَدَّ کَثِیْرٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِہِمْ الْآیَۃَ . وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَأَوَّلُ الْعَفْوَ ، کَمَا أَمَرَہٗ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہٖ ، حَتّٰی أَذِنَ اللّٰہُ فِیْہِمْ .فَلَمَّا غَزَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَدْرًا ، فَقَتَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہٖ مَنْ قُتِلَ مِنْ صَنَادِیدِ کُفَّارِ قُرَیْشٍ ، قَالَ ابْنُ أُبَی ابْنُ سَلُوْلَ وَمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، وَعَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ ہٰذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّہَ فَبَایِعُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْاِسْلَامِ ، وَأَسْلِمُوْا۔فَفِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، أَنَّ مَا کَانَ مِنْ تَسْلِیْمِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ ، وَکَانَ فِی الْوَقْتِ الَّذِی أَمَرَہٗ اللّٰہُ بِالْعَفْوِ عَنْہُمْ ، وَالصَّفْحِ ، وَتَرْکِ مُجَادَلَتِہِمْ اِلَّا بِاَلَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ ، ثُمَّ نَسَخَ اللّٰہُ ذٰلِکَ وَأَمَرَہٗ بِقِتَالِہِمْ فَنُسِخَ مَعَ ذٰلِکَ ، السَّلَامُ عَلَیْہِمْ ، وَثَبَتَ قَوْلُہٗ لَا تَبْدَئُوْا الْیَہُوْدَ وَلَا النَّصَارٰی بِالسَّلَامِ ، وَمَنْ سَلَّمَ عَلَیْکُمْ مِنْہُمْ ، فَقُوْلُوْا : وَعَلَیْکُمْ ، حَتّٰی تَرُدُّوْا عَلَیْہِ مَا قَالَ وَنُہُوْا أَنْ یَزِیْدُوْھُمْ عَلٰی ذٰلِکَ .
٧١١٧: عروہ بن زبیر نے روایت کی ہے کہ حضرت اسامہ بن زید (رض) نے بتلایا کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گدھے پر سوار ہوئے جس کی کاٹھی کے نیچے یمنی چادر تھی اور اسامہ بن زید (رض) کو اپنے پیچھے سوار کیا آپ بنی حارث بن خزرج کے ہاں حضرت سعد بن عبادہ (رض) کی عیادت کے لیے جا رہے تھے اور یہ غزوہ بدر سے پہلے کی بات ہے آپ چلتے چلتے ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جہاں عبداللہ بن ابی بھی موجود تھا اور یہ اس کے ظاہری اسلام لانے سے بھی پہلے کی بات ہے۔ اس مجلس میں ملے جلے یہود مسلمان و مشرک بیٹھے تھے اور اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے جب جانور کی اڑنے والی دھول نے مجلس کو ڈھانپ لیا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک کو چادر سے ڈھانپا اور پھر کہنے لگا۔ آئندہ ہمارے پاس سے مت گزرو۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سلام کیا پھر آپ رکے اور سواری سے نیچے اترے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور قرآن مجید کی آیات تلاوت فرمائیں۔ عبداللہ بن ابی کہنے لگا آؤ میاں ! تمہاری بات اچھی ہے اگر یہ سچی ہو۔ آئندہ ایسی باتیں کر کے ہمیں ہماری مجالس میں مت ستاؤ۔ اپنے گھر واپس جاؤ وہاں جو تمہارے ہاں آئے اس کو تبلیغ کرو۔ تو اس پر عبداللہ بن رواحہ (رض) فرماتے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ یہ بات ہماری مجالس میں تشریف لا کر کریں ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور مشرکین اور یہود میں باہمی آویزش شروع ہوگئی قریب تھا کہ لڑائی تک نوبت آجاتی پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نرم نرم کرتے رہے یہاں تک کہ سب خاموش ہوگئے پھر آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور چلتے ہوئے حضرت سعد بن عبادہ (رض) کے پاس داخل ہوئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے سعد ! کیا تم نے ابو حباب عبداللہ بن ابی کی بات کو نہیں سنا اس نے یہ یہ باتیں کی ہیں۔ حضرت سعد عرض کرنے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کو معاف کردیں اور درگزر فرمائیں مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ پر قرآن مجید اتارا اور آپ کو سچا پیغمبر بنایا۔ اس شہر کے لوگ اس بات پر اتفاق کرچکے تھے کہ وہ اس کو تاج پہنائیں اور اس کے سر پر عزت کی پگڑی باندھیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیئے ہوئے حق سے یہ چیز دفع فرما دی تو وہ اس کی وجہ سے چمکا اور وہ حرکت کی جو آپ نے دیکھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بات سے درگزر فرما دی۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صھابہ کرام مشرکین ‘ اہل کتاب سے درگزر کرتے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ” ولتسمعن من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم “ (آل عمران ١٨٦) اور تمہیں ضرور بضرور اہل کتاب جنکو تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت تکلیف دہ باتیں سننا پڑیں گی۔ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو پس یہ عزیمت کے کاموں سے ہے۔ اور فرمایا ” ود کثیر من اہل الکتاب “ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا بہت سے اہل کتاب چاہتے ہیں کاش کہ وہ تمہارے ایمان کے بعد تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں اس حسد کی وجہ سے جو ان کے دلوں میں ہے۔ البقرہ ١٠٩) جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عفو و درگزر سے کام لیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اجازت مرحمت فرما دی پھر جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر میں فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ ان کو قتل کروا دیا جن کو قتل ہونا تھا تو عبداللہ بن ابی اور اس کے ہم نوالہ مشرکین اور بت پرست کہنے لگے یہ معاملہ بڑھ گیا ہے پس انھوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اسلام پر بیعت کرلی اور اسلام لے آئے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ کا یہ سلام کرنا اس وقت کی بات ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے معاملہ میں عفو و درگزر کا حکم تھا اور جدال احسن کی ترغیب تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ فرما کر ان سے لڑائی کا حکم دیا۔ پس یہود وغیرہ کو سلام والا حکم بھی منسوخ ہوگیا اور دوسرا حکم ثابت ہوگیا کہ ان سے سلام میں پہل نہ کرو اور جو ان میں سے تمہیں سلام کرے تو اس کے جواب میں بھی صرف وعلیکم کا کلمہ کہو۔ تاکہ جو اس نے کہا وہی اس پر لوٹانے والے بن جاؤ اور اس پر اضافہ کرنے کی ممانعت فرمائی۔ جیسا کہ اس روایت میں وارد ہے۔ روایت ممانعت یہ ہے۔
تخریج : بخاری فی تفسیر سورة ٣‘ باب ١٥؍٢٠٣‘ و مسلم فی الجہاد ١١٦‘ مسند احمد ٥؍٢٠٣۔

7121

۷۱۱۸: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ شَیْبَۃَ قَالَ : ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ زَادَوَیْہِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : نُہِیْنَا أَنْ نَزِیْدَ أَہْلَ الْکِتَابِ عَلٰی وَعَلَیْکُمْ۔فَبِہٰذَا نَأْخُذُ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٧١١٨: حمید بن زادویہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ہمیں اہل کتاب پر وعلیکم کے کلمہ سے اضافہ کرنے کی ممانعت فرمائی گئی۔ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔